Showing posts with label Talat Hussain. Show all posts

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

دھرنے کی افادیت......


سیاسی یا جنگی لائحہ عمل وہی بہتر گردانا جاتا ہے جس میں مشکل حالات سے نکلنے کا بندو بست موجود ہو۔ عمران خان نے شروع دن سے ہی اپنے لیے وزیر اعظم کے استعفیٰ کا جو ہدف مقرر کیا تھا اس میں اس سے کم پر مان جانے کا موقع نہیں چھوڑا گیا۔ دھرنوں میں افراد کی تعداد خاصی حد تک کم ہوگئی ہے۔ شام کو بھی تعداد کچھ اتنی نہیں ہوتی کہ اس کو دیکھ کر پارلیمنٹ میں بیٹھی تمام جماعتیں اور حکومت کے ایوان تھرتھر کانپنے لگیں۔ کیمرے ابھی تک وہ چشم پوشی کر رہے ہیں جس کا کسی طور بھی ایک پروفیشنل معیار پر دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پھر بھی سڑک پر ارد گرد کے علاقوں سے آئے ہوئے کارکنان اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے وہ اصل میں ہوتے ہیں۔ خیال کی اڑان، بیان اور کیمرے کی پرواز ان کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے باوجود ان خالی جگہوں کو پُر نہیں کر سکتی جو روز روز واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔

لہٰذا سڑک کے ذریعے دباؤ پیدا کر کے اپنا مطالبہ منوانے کا وقت گزر گیا۔ عمران خان ان حالات کو اگر نہ سمجھیں تو ان کی مرضی ہے۔ مگر کسی بڑی غلطی یا حادثے کے علاوہ سڑک پر سے احتجاج کر کے وہ نہ اب کسی کو متاثر کر رہے ہیں اور نہ حصول منزل کی طرف ایک قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی حالات نے بھی ان کے احتجاج پر گہرے اثرات چھوڑنے شروع کر دیے ہیں۔ سیلاب نے کنٹینر سے نکال کر سیالکوٹ کا دورہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ویسے سیلاب سے پہلے بھی اپنی دوسری ضروریات سے مغلوب ہو کر ان کو دن میں دس، بارہ گھنٹے کنٹینر چھوڑنا ہی پڑتا تھا۔

آنے والے دنوں میں بدلتے ہوئے حالات ان کو از خود کنٹینر سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اس جگہ پر ٹِکے رہنے کی سیاسی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ جو جماعتیں انتخابی عمل کا حصہ بن کر سیاست کرنا چاہتی ہیں ‘وہ خود کو طویل عرصے کے لیے نظام سے دور نہیں رکھ سکتیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے عمران خان کے علاوہ تقریبا ہر کوئی یہی بات بار بار دہرا رہا ہے۔ عمران خان ہر کسی کو غدار، بزدل یا چیتے کی متضاد شکل کے جانوروں کی شکل سے پیش نہیں کر سکتے۔ ان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اکثریت کی رائے زیادہ عرصہ تک موقوف نہیں کی جا سکتی۔ نواز شریف کے خلاف مزاحمت کی دھن میں انھوں نے خود کو جماعت کی رائے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔

ابھی تک ان کے نعرے اور وعدے وہی ہیں جو چند ہفتے پہلے تھے۔ مگر اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے سیاسی طور پر اپنی جماعت کے لیے ماحول بری طرح خراب بھی کیا ہے۔ پاکستان کے اندر بہترین کارکردگی پیش کرنے والی سیاسی جماعتیں بھی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ نظام ہی کچھ ایسا ہے۔ ہم معاشرتی اور نسلی طور پر بیسیوں رنگ رکھتے ہیں۔ یہاں پر چھوٹی بڑی درجنوں جماعتوں کا اپنے اپنے حلقے میں اہم کردار ہے جو ایک ہی ہلے میں تبدیل یا تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ہو یا نواز لیگ کی دو تہائی اکثریت، انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں ہر بڑے اور چھوٹے فیصلے پر دوسری جماعتوں پر انحصار کرتی ہیں۔

عمران خان نے کنٹینر میں مورچہ بند ہو کر جو پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں ان کی کی چنگاریاں ہر دامن پر گری ہیں۔ کوئی جماعت اور اس کا لیڈر عمران خان کی زبان اور ہاتھ کے اشارے سے محفوظ نہیں رہا۔ کوئی ایسا الزام باقی نہیں ہے جو انھوں نے دوسروں پر نہ لگایا ہو۔ دھمکی، لاٹھی اور سبق سکھانے کی جو نئی سرکار کو انھوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر ترتیب دیا ہے وہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بہت بڑا درد سر بن چکا ہے۔ اگر آج نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے قریبی دوست فضا میں تحلیل ہو جائیں تو بھی عمران خان کو پارلیمان میں بیٹھی ہوئی جماعتیں آسان راستہ فراہم نہیں کریں گی۔ بلوچستان میں قوم پرستوں اور سرداروں سے سینگ پھنسانے کے ساتھ ساتھ پشتون رہنماوں کی بدترین تضحیک پاکستان تحریک انصاف کے لیے مستقبل میں کسی ممکنہ سیاسی اتحاد کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔

خیبر پختون خوا میں مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے اوپر اپنی جماعت کے نمایندگان کے ساتھ پتھروں کی بارش کر کے سیاسی راستے اگر مسدود نہیں کیے تو محدود ضرور کر دئے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ دست و گریبان ہیں اور سندھی قوم پرستوں کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔ کبھی ایم کیو ایم پر برستے ہیں۔پنجاب میں نواز لیگ کے ساتھ لڑائی ہے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مقابلہ۔ اگر عمران خان نیا پاکستان بنانے کے بعدوزیراعظم بن گئے تویہ ملک چلائیں گے کیسے؟
اتنے الزامات لگانے کے بعد ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے کون پیے گا۔ دھرنے کا ہدف نواز شریف اس وقت دوبارہ سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان انکو نکالنے پر مصر تو ہیں مگر سیاسی مشکلات میں گھرے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا نکما پن اور تبدیلی کے نعرے کی پکار اب بھی قائم ہے۔ مگر یہ دونوں عناصر عمران خان کو ان کی بیان کردہ منزل کی طرف لے جانے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔

اس تمام قصے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار رہا ہے یہ موضوع اس وقت اٹھانا موزوں نہیں ہے۔ اگرچہ حقائق چھپائے بھی نہیں چھپتے مگر انکو ڈھانپنے کے لیے جو گنجائش چاہیے وہ اس وقت موجود نہیں۔ اتنا کافی ہے کہ اس تمام مسئلے کا یہ تمام زوایہ اس راز کی طرح ہے جو سب کو معلوم ہونے کے باوجود رازداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے راز ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگلے دو تین ہفتوں میں دھرنوں کے پیچھے ہونے والی یہ کوشش عملاً رائیگاں ہو کر ختم ہو جائے گی۔ جس سہارے کے ناتے اتنی لمبی چھلانگ لگائی گئی تھی وہ گزرتی ہوئی ساعتوں کی نذر ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو پس منظر میں کھیلے جانے والے کھیل نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔

اس مشکل منظر نامے کے باوجود تحریک انصاف نے اس احتجاج سے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے۔ اگر بات چیت کے درجن سے زائد دور کسی ایسے معاہدے کی صورت میں سامنے آ جاتے ہیں جس سے لمبی چوڑی اور ضروری اصلاحات کا دروازہ کھل جاتا ہے تو اس کا سہرا احتجاج کے سر ہی باندھا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ سہرا بندی ضروری ہے۔ اس کے بغیر تحریک انصاف خود کو اس مشکل موڑ پر سے پھسلے بغیر نہیں نکال سکتی۔ معاہدے کے بعد عمران خان ملکی معاملات پر جزوقتی توجہ دینے کے بجائے کلی طور پر اپنی کوششیں صرف کر سکتے ہیں۔ جہاں تک رہا معاملہ طاہر القادری کا تو انکو جب ٹیلی فون آئے گا وہ واپس چلے جائیں گے۔ دھرنا اپنی افادیت حاصل کر چکا ہے اس کو مہذب انداز سے عزت بچا کر ختم کرنے کا انتظام ضروری ہو چکا ہے۔

طلعت حسین
 

تاریخ ساز کردار کی شرائط.......


جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تب تک عمران خان کی سونامی اسلام آباد میں سے ہو کر واپس اپنے گھروں میں پلٹ چکی ہو گی۔ طاہر القادری نے موسم کی تبدیلی سے لے کر لوڈشیڈنگ میں کمی تک تمام کرشمے اپنے نام کر کے یہ دعویٰ کر دیا ہو گا کہ وہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا آغاز کر چکے ہیں۔ شیخ رشید بھی نواز حکومت کے دن گن چکے ہوں گے اور اپنے مخصوص انداز میں پیشین گوئیوں کا ایک انبار عظیم بھی کھڑا کر دیا ہو گا۔ مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ ایسا نہیں ہو گا جس سے عوام میں یہ تا ثر پیدا ہو پائے کہ 11 مئی کی تاریخ کو ہونے والے احتجاج نے کسی بڑی تبدیلی کی بنیا د رکھ دی۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت اتنی مقبول ہے کہ اس کی طر ف پھینکا ہوا ہر ایک تیر واپس وار کرنے والے کو چھید دیتا ہے۔

ایک سال میں نواز حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھوں نے اپنے دو ادوار اور پنجاب میں ملا کر 25 سال کے سیاسی تجربے سے صرف ایک ہی بات سیکھی ہے اور وہ یہ کہ اُن کو کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت کرنے کے لیے دو دہائی، چند بچے اور قریبی رشتہ دار ہی کافی ہیں۔ افسر شاہی کا بے دریغ سیاسی استعمال اور عوام کے وسائل کا مہنگے منصوبوں اور اشتہار بازی میں استعمال وہ طریقے ہیں جو نواز لیگ کی قیادت ہمیشہ سے کرتی رہی ہے۔ ان میں کسی قسم کا کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔ جہاں تک اس قومی ترقی کے چیلنج کا تعلق ہے اس پر نہ کوئی شفافیت ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شعوری کوشش جس کو ویژن کا نام دیا جا سکے۔

ہاں خطیر لاگت سے بننے والے منصوبے بیسیوں ہیں۔ مگر جس قومی پیرائے میں ان منصوبوں نے مربوط ترقی اور دیرپا امن کے خواب پورے کرنے ہیں وہ ندارد ہے۔ پولیو اور بجلی کا مسئلہ دو ایسی مثالیں ہیں جن کو سامنے رکھ کر یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نواز لیگ کا تصور قومی ترقی دیرپا منصوبہ بندی سے کسی حد تک عاری ہے۔ ان دونوں معاملات پر اگر ذرایع ابلاغ میں مچائے شور کو سنیں تو آپ یہ سمجھیں گے کہ جیسے ان سے زیادہ توجہ کسی اور مسئلے پر دی ہی نہیں جا رہی۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ یہ مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح امن و امان کا معاملہ ہے جس پر ایک سال میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑنے کے سوا کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آئی۔

کراچی، بلوچستان، اداروں کی فعالیت۔ غرض یہ کہ آپ جو شعبہ بھی اٹھا لیں وہاں پر آپ کو یا تو معاملات جوں کے توں نظر آئیں گے اور یا پھر حالات بدلنے کی ٹوٹی پھوٹی کوشش جس کے انجام کے بارے میں ہر کوئی شک میں مبتلا نظر آئے گا۔ دوسرے ادوار کی طر ح اس مر تبہ بھی نواز لیگ نے اقربا پروری اور دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تحقیقاتی ادارے ہوں یا قومی سطح پر اثرانداز ہونے والی تعیناتیاں اس حکومت کی پرکھ کا معیار صرف ایک ہے ’’ہمارے جاننے والے ہیں یا نہیں‘‘۔ جو یہ کوائف نہیں رکھتا اس کی فائل وزیر اعظم کے پسندیدہ افسران ردی کی اس ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں جس میں سے کبھی کوئی کاغذ واپس نہیں آتا۔

آنے والے دنوں میں اپنی پسند کے معیار پر ہونے والی تعیناتیوں کا دائرہ کار عسکری حلقوں میں بھی پھیل جائے گا۔ آپ یوں سمجھیں کہ اس پر ابھی سے کام کیا بھی جا چکا ہے۔ قصہ مختصر نواز لیگ اس ملک کو ویسے ہی چلا رہی ہے جیسے وہ چلایا کرتی تھی۔ اس کا تعلق نہ اس کے مینڈیٹ سے ہے اور نہ ہی موقع کی مناسبت یا قومی ضرورت سے۔ نواز شریف ایسے ہی ہیں اور صرف یہی کچھ کر سکتے ہیں۔ ان سے اس زیادہ کی امید رکھنا چھلنی میں ریت سمیٹنے کی طر ح ہے۔

ظاہر ہے ہر ذی شعور پاکستانی جس کی زندگی کے تمام خواب اس امید سے وابستہ ہیں کہ وہ کبھی نہ کبھی ترقی کے وہ مناظر دیکھے گا جنھیں وہ کتابوں میں دوسرے ممالک کے حوالے سے پڑھتا چلا آ رہا ہے، موجودہ انداز حکمرانی سے مطمئن نہیں ہو گا۔ جمہوریت کی خاصیت ووٹ کے ذریعے طاقت میں آ کر اپنے خاندان کی اجارہ داری قائم کرنا نہیں ہے۔ عوام کی حکمرانی وہ حقیقی فلاح ہے جو اس وقت ملک کی اکثریت کو نا میسر ہے۔ مگر اس موقع کو نظا م اور انتظام حکومت کو تبدیل کر نے کے لیے جو متبادل تصور ترقی، منزل واضح اور روشن ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ایسے تصور کو تراشنے میں ابھی تک ناکام رہی ہے۔11 مئی کے جلسے (جس میں عمران خان الیکشن کمیشن کے از سر نو تخلیق کے علاوہ ملک گیر تحریک کا منصوبہ بھی پیش کر چکے ہوں گے) کے محرکات اور اہداف کے بارے میں عجیب و غریب غیر یقینی کی کیفیت طاری رہی۔ میں نے جس سے بھی بات کی اس نے اس کا مقصد مختلف بتلایا۔ بعض اس کو نظام انتخابات کی تبدیلی تک محدود کر رہے تھے جب کہ بعض کے مطابق یہ آغاز اختتام نواز حکومت کا بگل تھا۔ کچھ اس کو قومی تحریک کہہ کر خوش ہو رہے تھے۔ جب کہ کوئی اس کو بجلی کے بحران کے حل کے طور پر لے رہے تھے۔

تحریک انصاف کی اپنی قیادت آخری گھنٹوں تک یہ سوچ رہی تھی کہ عمران خان کو تقریر میں ترجیحات کی فہرست کیسے ترتیب دینی چاہیے۔ عمران خان کی خواہش کے مطابق ملک کے دوسرے حصوں میں منعقد ہونے والے جلسوں پر بھی ہر کوئی مطمئن نہیں تھا۔ اس ابہام کی بڑی وجہ اس مدبرانہ سوچ کی کمی ہے جس کی غیر موجودگی میں بہترین مواقع بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔ عمران خان کو موجودہ حالات میں سے اگر اپنے لیے کسی تاریخ ساز کردار کی تصویر بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے تو اس کو پانے کے لیے پہلے ان خود سے یہ سوال پو چھنا ہو گا: میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ اس کا جواب پائے بغیر وہ تاریخ میں جلسوں کے ماہر کے علاوہ بڑا مقام پانے میں شائد کامیاب ہو سکیں۔

طلعت حسین    

سندھ کا قحط اور قیادت

ہم نے حکومتی نکمے پن کے کئی مظاہر ے دیکھے ہیں۔ بلکہ اتنے دیکھے ہیں کہ اب یاد کرنا بھی محال ہے کہ ان میں سے سب سے حیرت انگیز کون سے تھے۔ بدقسمتی سے اس نہ ختم ہونے والے سلسلہ ہائے نکما پن میں ہر روز تیزی سے اضافہ ہی ہو تا ہے۔ یہ عمل آہستہ ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت سندھ کو لیجیے، خوراک کی کمی کے باعث 130 کے لگ بھگ بچوں کی ہلاکتوں کی خبر نے دوسرے مسائل کے ساتھ ایک بڑے مسئلے کو جنم دے دیا ہے جس سے متعلق عوامی نمایندگان کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بچوں کی اموات کو بیان کرنے کا ہے۔ تمام تر حکمت کو بروئے کار لانے کے باوجود یہ حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اس کو خوراک کی کمی کہا جائے، قحط کہا جائے، بدلتے ہوئے موسم کا نتیجہ بیان کیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ اس غربت زدہ علاقے میں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔

قحط کی خبر سامنے آئی تو جیالوں نے ہر طرف امدادی کیمپ لگا دیے۔ وزیر اعلی فوراً متحرک ہو گئے اور اپنے مشیران اور قریبی دوستوں کے ساتھ اس علاقے میں جا پہنچے۔ ایک آدھ چھوٹے افسر کو معطل کیا، کسی کو کان پکڑ کر باہر نکال دیا، کسی کو دھمکی دی، اور کسی کی سرزنش ہوئی۔ امداد کا علان بھی کر دیا گیا۔ مگر جب اس تمام ہنگامے میں یہ زاویہ سامنے آیا کہ قحط کی تہمت سیاسی طور پر ایک اسکینڈل میں تبدیل ہو سکتی ہے تو مختلف قسم کی تردیدیں اور وضاحتیں سامنے آنے لگیں۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ قحط نہیں کچھ خشک سالی تھی، موسم کی خرابی اور کچھ گندم کی مقامی طور پر فراہمی کے نظام میں کمزوری۔ خشک سالی پر محکمہ موسمیات نے وضاحت کر دی اس علاقے کی بارش کی اوسط معمول کے مطابق ہے۔ موسم کے تغیر و تبدل نے ان اموات میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا۔ ظاہر ہے جو بھی ہوا اُس کا تعلق انسانوں کے بنائے ہوئے اُس نظام سے ہے جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

پاکستان بھر میں مختلف حلقوں کے مسائل کچھ ایسے ہی ہیں۔ مگر اس سندھ میں چونکہ سیاسی طور پر اپنے حقوق کا ادارک رکھنے کا عمل دوسرے صوبوں کی نسبت گہرا ہے لہذا یہاں پر اس قسم کے واقعہ کا ہو جانا بالخصوص افسوسناک ہے۔ قائم علی شاہ کی حکومت شہباز شریف کی حکومت کی طرح چھٹے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیاسی عمل پر اپنی گرفت بدترین حالات میں بھی کمزور نہیں ہونے دی۔ چاہے اُس اتحاد کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ وقتی ضرورت کے تحت بننے والے تعلقات بھی سیاسی جماعتوں کو زمینی حقائق کے قریب ترین رکھتے رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جن افسوس ناک حالات میں اللہ کو پیاری ہوئیں اُس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت جذباتی طور پر یہاں کے عام لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق مزید گہرا کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ پھر صدر آصف علی زرداری کے دور میں تو یہ تمام علاقے اُس سیاسی باغ کی طرح استعمال ہوتے رہے جس کا ہر پھل نفع اور نقصان کے کھاتوں میں درج کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ خاندان جن کے بچے اپنی اور اپنی مائوں کی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے قبل از وقت زندگی کی جنگ ہار گئے دور دراز گوٹھوں میں رہنے کے باجود ہر ایک کے سیاسی ریڈار پر موجود تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے حالات اور اِن پر ٹوٹنے والے پہاڑ اُن نمایندگان کی نظروں سے اوجھل ہوں جو ہر وقت اپنے ہم وطنوں کے حقوق کے تحفظ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔

مگر ایسے ہی ہوا کیونکہ حقیقت دعووں سے بالکل مختلف ہے۔ سندھ کے اصل باشندے جن کو دوسرے صوبوں کے استحصال کے خوف میں برسوں مبتلا رکھا گیا ہے، اصل میں اپنے نام نہاد مسیحاوں کے سیاسی غلام بنے ہوئے ہیں۔ اُن کا سیاسی استحصال جذبات ابھار کر کیا جاتا ہے۔ اُن کی بھوک اور ذلت کو اس وجہ سے برقرار رکھا جاتا ہے کہ اُن پر مسلط طبقوں کے سیاسی نعرے کرارے رہیں۔ گندم اور چاول اُن کے گھروں سے دور رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ مقامی طاقتور ظالمین کے گھٹنے چھوتے رہیں۔ اور ہمیشہ یہ محسوس کریں کہ یہ سب کچھ کیے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتے۔ وہ ووٹ بھی اپنی مجبوری اور بے کسی میں انھیں کو دیتے ہیں جو اپنے استحصال کی وجہ سے ان کے بچوں کی روح قبض کرتے ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سیاسی سلسلہ ہے۔ جس میں بے مراد لوگ مراد پانے کے لیے اُنہیں ڈیروں پر حاضری دیتے ہیں جو اُن کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ تمام وسائل سیاسی بازی گروں نے طرح طرح کے حیلے استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔

سندھی تاش کے پتوں کی طرح ہیں جن کو ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کھیلتا ہے۔ اس تمام تماشے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے آپ کو تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جو سیاست دان ہر وقت سندھ کے استحصال کی بات کر تے ہیں اُن کا رہن سہن تو دیکھیں، ذخائر سونے کے ہوں یا خوراک کے، کھیت کھلیانوں کی وسعت ہو یا مزارعوں کی تعداد ہر جگہ پر آپ کو دولت، راحت اور عیاشی ناچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر چھوٹے پن کا یہ عالم ہے کہ گندم کیڑوں کو کھانے کے لیے فراہم کر دیں گے ‘انسان کے بچے تک پہنچنے کا انتظام نہیں کریں گے۔ گھوڑوں کو مربے کھلا کر پالتے ہیں، غریب سندھیوں کی اولاد کو گوبر چننے پر لگا یا ہو اہے۔ اس کم بخت نظام کو ثقافت کا نام دے کر قابل دفاع یا قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ جب کوئی تنقید کرتا ہے تو اُس کو سندھ صوبے کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ جب اِن کے نعروں کے کھو کھلے پن کو سامنے لایا جاتا ہے تو ہر گھر پر اپنا جھنڈا لہرانے لگتے ہیں۔ کوئی سیاسی پیر ہے اور کوئی گدی نشین ہے۔ کوئی انگریزوں کا بنایا ہو ا جاگیردار ہے اور کسی نے قتل کر کے زمینیں سنبھالی ہو ئی ہیں۔ قحط کی وجہ یہ لوگ ہیں۔

قدرت نے وسائل سب کے لیے یکساں پیدا کیے ہیں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی۔ کسی کو اپنے وسائل کا داروغہ نہیں بنایا۔ قدرت کے امتحان بھی سب کے لیے یکساں ہیں مگر زمین پر انصاف کی کمی، لالچ، حرص اور ظالموں کے قبیلے نے انسان کو جانوروں سے بدتر حالت میں رکھتے ہوئے اپنی طاقت کو دوام دیا ہے۔


دنیا میں ایک تحقیق کے مطابق اصل جمہوریت کے ہوتے ہوئے قحط کی صورت حال کے باوجود لوگ بھوکے نہیں مر سکتے کیونکہ مشکل ترین حالات میں کسی بھی جگہ یا اُس کے اردگرد وسائل یا مواقع یقینا موجود ہوتے ہیں جن کو بروقت تقسیم کر کے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس بروقت تقسیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار نمایندگی کا وہ نظام ہے جو لوگوں کے ووٹوں اور اُن کی منشاء سے مرتب ہوتا ہے۔ اصل جمہوریت قحط کے خلاف سب سے بڑا اور موثر بند ہے اس پیمانے کو لے لیں تو آپ خود ہی طے کر پائیں گے کہ ہمارے ہاں کیسی اور کس کی جمہوریت ہے۔جب لوگوں کی بنیادی ضروریات ایسے پوری نہ ہوں کہ وہ ہمیشہ جانکنی کے عالم میں رہے تو اس نظام کو جمہوری کہنا بڑے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ ان حالات میں سندھ کے قوم پرستوں کی ذمے داری بھی بنتی ہے۔ جو انھوں نے پوری نہیں کی۔

سندھ کے پسے ہوئے عوام کو اچھی متبادل قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو نظریاتی طور پر عوامی مسائل کو سمجھتے بھی ہیں اور حل کرنے کی جستجو کا راستہ بھی جانتے ہیں اُن کو اپنا کردار جلد اور موثر انداز سے ادا کر نا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا بیانات پر زور زیادہ ہے کام پر کم، انقلابی تحریر اور تقریر کی کثرت ہے زمین پر منظم کام کی کمی۔ دنیا کی تاریخ میں انقلابی تحریر سے زیادہ عمل اور تقریر سے زیادہ تنظیم پر انحصار کر تے رہے ہیں۔ ماوزے تنگ نے کسانوں کے اندر رہ کر اُس انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے چین کی تاریخ بدل دی۔ اگر وہ شہروں میں بیٹھا محض فلسفہ جھاڑتا رہتا تو چین آج بھی چیانگ کائی شیک کی چو تھی نسل کے ہاتھ میں ہوتا۔ قحط سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اس طبقے کے ہاتھ سے طاقت واپس لینے ہو گی جس نے پاکستان بھر کی طرح یہاں پر بھی بربادی کا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔

طلعت حسین

Thar Drought 

Enhanced by Zemanta

نواز شریف کا تیسرا دور حکومت اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات


کسی زمانے میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پا کستان پیپلز پارٹی کو اس وجہ سے غدار ِوطن قرار دیتی تھی کہ وہ ہندوستان نواز ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ہندوستان کے وزیر ِاعظم راجیو گاندھی کی آمد پر مسلم لیگ کے سرکردہ ممبران نے اس وجہ سے طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سڑک کے ایک کنارے سے کشمیر کا بورڈ ہٹا دیا۔ اس مبینہ واقعے کو ایک کمپین میں تبدیل کیا گیا اور ایک طویل عرصے تک اس کو بطور تیراستعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پر تاک تاک کر نشانے لگائے گئے۔ کشمیر کو بزورِ شمشیر فتح کر نے والی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قربت کی وجہ سے مسلم لیگ ہندوستان کے بارے میں ایک خاص رویہ رکھتی تھی۔ مگر وہ زمانہ کوئی اورتھا۔ اب مسلم لیگ نواز ہندوستان کے ساتھ بھائی چارے اور ہر قیمت پر امن قائم کرنے کے فلسفے کی سب سے بڑی داعی ہے۔

شریف کیمپ میں یہ سوچ یک دم نہیں ابھری ۔ واجپائی کے ساتھ لاہور مذاکرات مسلم لیگ میں کاروباری حلقوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک ثبوت بھی ہے اور وہ عنصر بھی جس نے نوازلیگ کو ہندوستان کو مار لگاؤ کے راستے سے ہٹا کر ہندوستان سے پیار کرو کے راستے پرلا کھڑا کیا ہے۔ اس مرتبہ بہرحال معاملہ صرف کاروباری اور تجارتی مراسم بڑھانے کا ہی نہیں ہے۔ نواز لیگ میں یہ سوچ جڑیں پکڑ چکی ہیں کی ہندوستان کے ساتھ بغل گیر ہو کر وہ ایسا بڑا کام کر پائیں گے جسکی کامیابی کے توسط سے دنیا میں نام بھی پیدا کریں گے اور اندرونی طور پر دیرینہ معاشی مسائل میں کمی لانے کا انتظام بھی کر لیں گے ۔ سادہ الفاظ میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی حلقے، پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، معاشی کمزوری، توانائی کے بحران اور دہشت گردی جیسے درد سر کو حل کرنے کے لیے ایک ایسا رستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس میں وقت بھی کم صرف ہو اور نتائج بھی جلدی نکلیں۔ شریف برادران کو بتایا گیا کہ جس طرح جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑ لڑ کر کچھ حاصل نہ کر پائے اور آخر میں اکٹھے ہو کر نئے یورپ کی بنیاد بن گئے۔ ہندوستان اور پاکستان بھی ایسا ہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یورپی اکٹھ کی طرح جنوبی ایشیا کا یکجا ہو جانا اس قسم کے فوائد کا باعث بن جائے گا جن سے آج کل بین الاقوامی جنگوں کا میدان ترقی کے حیرت کدہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات کو بھائی چارے کے ساتھ طے کرنے کا ایک اور فائدہ فیصلہ سازی کے عمل پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کا کمزور ہونا بھی ہو گا۔

فوجیں جنگوں اور تنازعات میں ضرورت سے زیادہ طاقت والا کردار اپنا لیتی ہیں۔ امن کے ماحول میں سیاست دان حتمی اور کلی طور پر طاقت کی لگام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں گارڈین اخبار نے وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق چھپنے والا انٹرویو اس تناظر میں پڑھنا چاہیے۔ گارڈین اخبار نے لکھا ’’شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان میں موجود ناقابل بھروسہ حساس ادارے آزاد تجارت کی راہ میں حائل دو رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ دونوں ممالک کے حساس اداروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حفاظتی نکتہ نظر معاشی تحفظ کی بدولت ہوتا ہے۔ جب تک آپ معاشی طور پر محفوظ نہ ہوں اس وقت تک آپ کے پاس عمومی تحفظ بھی نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر، سرحد پار پانی کے حقوق اور سیاچن جیسے مسائل صرف مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں۔ ہم تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اور اس سے ہمیں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔‘‘

اگر یہ بیان وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے آیا ہوتا تو اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ شہباز شریف ظاہراً فوج کے قریب ترین ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ وہ اور چوہدری نثار سب سے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں۔ فوج کو پنجاب کے فنڈز سے ترقیاتی کاموں میں سہولت جتنی شہباز شریف نے فراہم کی اس کا تصور بھی محال ہے۔ عام اور نجی ملاقاتوں میں بھی وہ خود سے اس تصور کو پروان چڑھاتے ہیں کہ بڑے بھائی تو فوج سے متعلق سخت رویہ رکھتے ہیں لیکن وہ غیر ضروری طور پر غیر لچک دار رویہ اپنانے کے قائل نہیں ہیں۔ مگر ہندوستان کے معاملے پر شہباز شریف جیسا نرم انداز رکھنے والا وزیر اعلی بھی ایسا بیان دینے سے گریز نہیں کر رہا جس کے نتائج سویلین اور اس کی قیادت کے تعلقات میں خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے ان باتوں کی تردید کر دی ہے لیکن گارڈین کی خبر نے جو کام کرنا تھا‘ وہ کر دیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی طرف ’’دروازہ کھول دو‘‘ پالیسی وہ معاملہ ہے جس پر نواز لیگ کی تمام قیادت ایک ہی آواز سے بولنا چاہتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کو کرنے کے لیے نواز لیگ کی حکومت ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو گی ۔

وفاقی حکومت اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لیے اس وجہ سے بھی مائل ہے کہ اس کے اندازوں میں آج کل سے زیادہ موافق ماحول دوبارہ دستیاب نہ ہو۔ دہلی کے ساتھ تجارت، کاروبار اور ثقافت کے رابطوں کو گہرا کرنے کے خلاف کوئی سیاسی آواز میدان میں موجود نہیں ہے۔ حتی کہ ق لیگ اور پاکستان تحریک انصاف خود نواز لیگ سے زیادہ ہندوستان کے گلے کا ہار بننے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی طرف سے مشترکہ جوہری توانائی کے منصوبے کی تجویز گواہی دیتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سرحد پار تعلقات گہرے کرنے کی خواہش پاکستان کی روایتی پالیسی پر مکمل طور پر غالب ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ہندوستان یاترا پہلے سے ہی مشہور ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم دہلی کی زلفوں کی پرانی اسیر جماعتیں ہیں۔ باقی رہی جماعت اسلامی تو اس نے خود کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کھڑا کر کے اپنی ساکھ اس بری طرح خراب کر لی ہے کہ اس کا اعتراض بے وزن ہو گا، عسکری قیادت کی تبدیلی کے بعد نواز لیگ کے قریبی حلقوں میں یہ اعتماد کئی گنا بڑھ گیا ہے کہ اب وہ بڑا کام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جس کے ذریعے میاں محمد نواز شریف تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کے ساتھ ساتھ ملک میں خود کو سیاسی طور پر ناقابل تسخیر بنا پائیں گے۔ سیاسی طور پر لازوال بننے کے اس لائحہ عمل کے دو پہلو باقی ہیں‘ ایک افغانستان اور دوسرا آرمی کے ساتھ تعلقات، ان کا احاطہ اگلے کالم میں تفصیل کے ساتھ کیا جائے گا۔

طلعت حسین


Enhanced by Zemanta

میاں نواز شریف کا تیسرا دور، انداز اور اہداف


پچھلے دو ادوار حکومت کی نسبت اس مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کی ٹیم مدبر نظر آتی ہے۔ نہ ہی سیاسی مخالفین کے گلے پڑنے کی عادت اپنائی ہے اور نہ ابھی تک کسی بڑ ے بدعنوانی کے اسکینڈل کا سامنا ہوا ہے۔ پچھلے ادوار کے طریقۂ کار کے برعکس اداروں سے جھگڑے مول لینے سے اجتناب بڑھتا جا رہا ہے۔ جس عقل مندی کے ساتھ اس حکومت نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو خوش کر کے رخصت کیا ہے وہ طاقت کی سیاست میں احتیاط کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ افتخار محمد چوہدری، وہ گبھرو چیف جسٹس، جن کا ذکر آج کل ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اسی قسم کی احتیاط کی پالیسی کے تحت سنبھالے گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی حتی کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب نہیں ہونے دیے گئے کہ خواہ مخواہ کا سیاسی مسئلہ کھڑا ہو اور احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوجائے۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور اُن کی ٹیم تیسرے دور حکومت میں بدل گئے ہیں۔

طریقہ کار بدل گیا ہے مقاصد ابھی تک پرانے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کی طرح بلکہ شاید اُن سے بڑھ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت خود کو طاقت میں ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لٹھ بازی، لڑائی، نعرے اور واویلے مچا کر یہ کام کیا جاتا تھا‘ اب اس ترکیب کے اجزاء بدل گئے ہیں۔ آٹھ، نو ماہ گزارنے کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت کے چند ایک خدوخال واضح ہو چکے ہیں۔ اس مرتبہ نواز شریف چار سمتوں سے خود کو طاقت میں قائم اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ چار سمتیں امور خارجہ اور دفاعی پالیسی، جنوبی ایشیا میں یورپی یونین جیسے نظام کی بنیاد رکھنے کی کوشش، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو مختلف طریقوں سے اپنے نقطہ نظر کی طرف مائل کرنے یا اپنے تابع کرنے کے اقدامات اور سب سے بڑھ کر خود کو سیاسی نظام میں محفوظ بنانے کی کوششوں پر مبنی ہے۔ ان تمام زاویوں پر یکسو کام ہو رہا ہے‘ مکمل یکسوئی کے ساتھ۔ صرف دیکھنے میں یہ سب مختلف اقدامات محسوس ہوتے ہیں عملاً ان کا مقصد اپنی طاقت کو دوام دینا ہے۔

خارجہ اور دفاعی پالیسی میں امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ انتہائی پرامن اور تنازعے سے پاک تعلقات کا لائحہ عمل اپنایا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں متعین امریکی سفارت کار حیران کن حد تک واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی غیر موجودگی کے باوجود خوش اور مطمئن تھے۔ اُن کی اس طمانیت کی ایک بڑی وجہ وہائٹ ہائوس اور جاتی عمرہ کے درمیان براہ راست رابطے کی نئی سہولت تھی۔ امریکی، برطانیہ کی طرح ایک ملک میں ایک ہی شخص سے بات کرنے کے شائق ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اُن کے لیے مشکل یہ تھی کہ کبھی صدر زرداری اور کبھی جنرل کیانی اور کبھی کبھار پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت کرنی پڑتی تھی۔ اگرچہ تین مختلف طاقت کے مراکز پاکستان کے نقطہ نظر کو بسا اوقات شکست دینے میں بھی کارآمد ثابت ہوتے تھے۔ لیکن اول ترجیح امریکا کی ہمیشہ ایک وقت میں ایک ہی شخص رہا ہے۔

اِس مرتبہ میاں محمد نواز شریف اُس شخص کی صورت میں اُبھر کر سامنے آئے ہیں جو امر یکہ کی بہت سی باتیں ریکارڈ پر لائے بغیر سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے معاملہ امر یکہ کی فوجوں کے لیے انخلا ء کی سہولت فراہم کرنا ہو یا اس خطہ میں امریکا کے اثر و رسوخ کو محتاط مگر یقینی انداز سے تقویت دینا ہو۔ واشنگٹن کو اسلام آباد میں کسی مقام پر کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ واشنگٹن کے ساتھ گہری دوستی کے نتیجے میں معاشی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مدد تو ملے گی ہی، جمہوریت کے خلاف کسی ممکنہ کوشش کا قلع قمع کرنے میں بھی یہ دوستی انتہائی کارآمد ثابت ہو گی۔ میاں نواز شریف کی واشنگٹن سے جمہوریت کے حق میں بیان دلوانے کی روایت کافی پرانی ہے۔ کارگل ہویا جرنیلی منصوبہ امریکا کا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر نواز لیگ نے کبھی اپنا ردعمل ترتیب نہیں دیا۔ اس ضمن میں برطانیہ اگرچہ چھوٹا اور بین الاقوامی اثرورسوخ کے اعتبار سے نسبتاً کم اہم ملک ہے، بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کے دوسرے گوناگوں اوصاف کے علاوہ ایک خاص صفت سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی ہے۔

اگر کسی نے نواز شریف کی حکومت کو غیر آئینی جھٹکا دینے کی کوشش کی تو آپ چوہدری سرور کو ایک نئے روپ میں دیکھیں گے۔ وہ برطانوی نظام کی ہر کل کو سمجھتے ہیں۔ اُن کو وہاں سے احتجاج کروانے کا فن آتا ہے۔ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے اہم ترین معاملات وزیراعظم نے اپنے ہا تھ میں اسی وجہ سے رکھے ہوئے ہیں۔ خواجہ آصف، سرتاج عزیز اور طارق فاطمی، میاں صاحبان کے قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ قابل اعتبار ہیں۔ وہ اُس کچن کابینہ کا حصہ ہے جو پالیسی کی ہانڈی کا مرچ مصالحہ وزیر اعظم سے پوچھ کر ڈالتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تجربے سے سیکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے دفاعی اور خارجہ پالیسی کی ڈش جرنیلوں کے ہاتھوں سے لے کر اپنی میز پر سجا دی ہے۔ امر یکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ پیپلز پارٹی کے دور میں جنرل کیانی چلا رہے تھے۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف خود سے پالیسی پیپر لکھ کرصدر اوباما کے حوالے کر رہے تھے۔

ظاہر ہے جو پالیسی بنائے گا امریکا اُسی کی طرف جھکے گا اور امریکا جس کی طرف جھکے گا وہ طاقت کی فہرست میں دوسروں کی نسبت اوپر ہوگا۔ یہ بھانپتے ہوئے میاں نواز شریف نے یہ تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ شوراب بھی یہی مچایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دفاع اور خارجہ امور سے متعلق کوئی فائل میاں نواز شریف کی جنبش آبرو کے بغیر نہیں ہلتی۔ بالخصوص وہ فائلیں جوامر یکہ کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہیں۔ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر میاں نواز شریف خود کو بین الاقوامی طور پر ایسے مقام پر فائز کرنا چاہتے ہیں جہاں پر اُن کے ہر قدم کی ستائش ہو اور وہ فیصلے جو اندرونی طور پر متنازع ہو سکتے ہیں بیرونی واہ واہ کے ذریعے پاکستان میں ہضم کروائے جا سکیں۔ اِن میں سے بہت سے فیصلوں کا تعلق ہندوستان اور افغانستان سے تعلقات سے ہے۔ تیسرے دور میں میاں نواز شریف کی پالیسی ان دونوں ممالک کے حوالے سے انتہائی دلچسپ اور منصوبہ بندی سے بھرپور ہے (اس پر اگلے کالم میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے

طلعت حسین   

آپ کی اولاد کا مستقبل


میرے اِکا دُکا پڑھنے والوں میں سے ایک قاری نے فون کر کے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے مزاح نگاری شروع کر دی ہے۔ میں نے اس سے سوال کے اسباب سے متعلق تفتیش کی تو پتہ چلا کہ موصوف کو میرا بالواسطہ انداز بیان پسند نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جیسے میں پہلے لکھتا تھا یعنی براہ راست اور لگی لپٹی کے بغیر وہ طریقہ کار زیادہ موثر تھا۔ طنز اور مزاح میں جملہ خیال پر بھاری ہو جاتا ہے۔ پیغام ہلکے پھلکے انداز میں پہنچ تو جاتا ہے لیکن اپنا وزن کھو دیتا ہے۔ میں نے ان سے اتفاق نہیں کیا لیکن چونکہ انھوں نے وضاحت طلب کی تھی میں نے جواب تفصیل سے دیا۔ یہ اصول اپنانے کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم سیدھی بات سننے کا حوصلہ کھو چکے ہیں۔ سچ سننا اور وہ بھی خالص سچ کسی کو قابل قبول نہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف سچ کی زد میں آنے کے بعد تمام ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لکھنے والے کی ایسی کی تیسی کر دیتے ہیں۔ قاری کے پسند کے لیڈر یا شخصیت کے بارے میں دو تنقیدی جملے احتجاج کا بگولہ بلند کر دیتے ہیں۔ کسی کے نظریے کے خلاف لکھا جائے تو وہ نہ خود سوتا ہے نہ آپ کو سونے دیتا ہے۔

چونکہ آج کل فون نمبر ہر کسی کو دستیاب ہے۔ لہذا ایسے ایسے پیغام آتے ہیں کہ خدا کی پنا ہ۔ جو کوئی ایس ایم ایس لکھ سکتا ہے وہ خود کو تجزیہ نگار سمجھتا ہے۔ ایسے میں سیدھی بات زندگی اجیرن کر سکتی ہے۔ بڑے معاملات پر براہ راست انداز سے سچ لکھنا اور بھی خطرناک ہے۔ جس ملک میں ریاست اور اس کے طاقت ور ترین ادارے حقائق سے منہ چھپا کر پھر رہے ہوں، جہاں پر کسی میں ریاست پر حملوں کے خلاف پریس ریلیز جاری کرنے کی ہمت نہ ہو، جب سب کے سب قومی فکر کے معاملات کو چھوڑ کر پلاٹوں اور پرمٹوں کی خریدو فروخت میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہوں۔ وہاں پر سچی بات کون سنے گا اور کرنے والے کی جان بخشی کون کرے گا۔ ان حالات میں مجھے مجبوراً اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہی طرز تحریر اپنانا پڑا ہے جس کے نقصانات بھی کم ہیں اور جو چھپ بھی سکتا ہے۔ (اس جملے میں لکھنے اور چھاپنے والے کی جو مجبوری چھپی ہوئی ہے اس پر کبھی ایک مکمل کتاب لکھوں گا، فی الحال ایک جملے پر ہی اکتفا کیجیے)۔ اس کالم میں بھی آپ کو میرا قلم ترچھا ہی نظر آئے گا۔ جو قارئین اس کو پسند نہیں کر رہے ان سے گزارش ہے کہ صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ حالات بہتر ہوتے ہی سیدھے قلم سے مکمل روشنائی استعمال کرتے ہوئے لکھوں گا۔

آیئے اب آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنی اولاد کے لیے کسی شعبے کا انتخاب کر لیا ہے تو اپنے منصوبے ترک کر دیجیے۔ اس کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کی ضرورت نہیں۔ نہ بزنس مینجمینٹ سکھانے کی ضرورت ہے نہ آئی پروفیشنل بنانے کی۔ قانون کی تربیت اور اس میں ڈگری حاصل کرنا بھی فضول ہے۔ لکھنے پڑھنے والے شعبے یعنی تحقیق، تدریس، صحافت اور ان جیسے دوسرے غیر ضروری پیشے جیسے معیشت اور ترقیاتی کاموں کا شعبہ وغیرہ بھی آپ کی اولاد کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتے یا کم از کم آپ وہ تمام خواب پورے نہیں کر سکتے جو تمام والدین اپنے بچوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لیے بہترین شعبہ سیاست کا ہے۔ دیکھنے میں مشکل لگتا ہے۔ لیکن اس کے فوائد کی فہرست دیکھیں تو یہ مشکلات بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔ یہ واحد کاروبار ہے جس میں منافع سرمایہ کاری سے سیکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں گنا زیادہ ہے۔ آپ دیکھ لیجیے پاکستان میں ڈگری کے بغیر سیاست دان بہت ملیں گے۔ مگر دولت کے بغیر کوئی نہ ہو گا۔

اس شعبے میں آنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں گے کہ بہت سے ایسے قوانین جو سب پر لاگو ہیں آپ ان سے مبرا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس پر قوم کو یقین کرنا پڑتا ہے چونکہ آپ ایک ایسے انتخابی عمل کے ذریعے آئے ہیں جس میں آپ نے عوام کے ٹیکسوں سے ترقیاتی کام کر کے اپنا نام بنایا ہے اور پھر انھی کو احسان مند کرتے ہوئے انھی کے ووٹوں کے ذریعے ان پر حکومت کرنے کا حق بھی حاصل کیا ہے۔ کمال ہے یا نہیں۔ نوٹ بھی عوام کے ووٹ بھی عوام کے۔ سرداری اور کاروباری فائدے سب آپ کے۔ ٹیکس وغیرہ دینے کی زحمت تو کم ہی کرنی پڑتی ہے اور جب آپ کھربوں روپے کمانے کے بعد دس بیس ہزار یا چند لاکھ ٹیکس دے بھی دیتے ہیں تو اخباروں میں ایسے خبریں چھپتی ہیں جیسے آپ نے اس سر زمین پر احسان عظیم کیا ہے۔ آپ محلات میں رہ سکتے ہیں۔ درجنوں قیمتی گاڑیوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ آپ کی کلائی پر گھڑی کی قیمت سے پچاس اسکول بن سکتے ہیں۔

آپ نے اپنے بیٹے بیٹیاں، داماد، مامے چاچے، کزن، دوست یار، نوکر چاکر، کتے بلیاں، چرند پرند سب کے لیے ملک سے باہر بہترین انتظام کیا ہوا ہے۔ آپ کا زندگی گزارنے کا طریقہ مغل بادشاہوں جیسا ہے۔ لیکن پھر بھی ریاست کو چند ’’روپلیاں‘‘ دے کر آپ صحافیوں کا دل جیت سکتے ہیں۔ ویسے اگر آپ ٹیکس نہ بھی دیں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈائریکٹری ہمیں بتا رہی ہے۔ مگر جو ایف بی آر کی ڈائریکٹری نہیں بتا رہی اس پر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ چونکہ آپ شعبہ سیاست سے منسلک ہیں۔ مثلا کھربوں کے اثاثے رکھنے والے جو چند لاکھ ٹیکس دیتے ہیں وہ اس ریاست سے اس سے ہزار گنا زیادہ مراعات دوسر ے فوائد کے علاوہ حاصل بھی کرتے ہیں۔ اگر میں 57 ہزار ٹیکس دیکر اپنے علاقے میں تمام پٹواری اپنی مرضی کے لگوا سکتا ہوں تو مجھ سے آپ سالانہ نہیں روزانہ اتنا ٹیکس لے لیجیے میں پھر بھی فائدے میں رہوں گا۔ پچاسوں افراد میری خدمت پر مامور ہیں۔ گاڑی، سفر، ٹیلی فون، کھانا پینا اور بچوں کی تعلیم سب کچھ مفت ہے۔ اس سے بڑھیا سودا اور کیا ہو گا؟

ہاں یہ کالم ختم کرنے سے پہلے ایک اور فائدہ بھی گنواتا چلوں۔ آپ کرکٹ کھیلتے ہوں یا ٹوپیاں سیتے ہوں۔ چاہے آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو آپ کے شوق اور ذوق جو بھی ہوں سیاست کے دروازے میں سے گزرنے کے بعد آپ ہر فن مولا ہو جاتے ہیں۔ حتی کہ آپ کو یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ جنگیں کیسے لڑی جاتیں ہیں۔ عسکری لائحہ عمل کیسے بنتے ہیں۔ خود مختاری کے تحفظ کی پالیسیا ں کن عناصر سے ترتیب پاتی ہیں۔ آپ معیشت کو باریکیوں سمیت سمجھ لیتے ہیں۔ اگلے جہانوں میں ہونے والا حساب کتاب بھی آپ پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی اور بڑی بڑی خوبیاں آپ سیاست میں آنے کے بعد فوراً پا لیتے ہیں (اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ آپریشن میں تیس یا چالیس فی صد کامیابی کی بات کر کے عمران خان نے حقیقت ہی بیان کی ہو گی۔ چونکہ وہ لیڈر ہیں لہذا وہ صحیح علم اور فہم رکھتے ہیں۔ حقائق کو چھوڑ دیجیے ان کی بات مان لیجیے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آپ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں) قصہ مختصر اپنی اور اپنی اولادوں کے لیے بہتر مستقبل حاصل کیجیے۔ اسلامی ریئل اسٹیٹ آف پاکستان کے سیاسیات کے شعبے پر توجہ دیجیے آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے ۔۔۔

طلعت حسین

Talat Hussain    

Enhanced by Zemanta

گھبرائیں مت


جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔ یہ مثل بریگیڈیئر باسط پر صادق آتی ہے ۔ پرسوں ان کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے ۔ دوسرے ساتھیوں کو بھی کوئی زخم تک نہ آیا۔ ایک کمانڈو کے کان کے نیچے ہلکی سی خراش آئی اور بس ۔ فون پر بریگیڈیئر باسط نے مجھے اس واقعے کی جو تفصیلات بتائیں وہ جادو نگری کی کسی کہانی سے مختلف نہیں ہیں۔ سڑک پر بیٹھے ہوئے حملہ آور کو انھوں نے پہلے سے دیکھ لیا تھا ۔ لیکن وہ چونکہ موڑ کے پاس موجود تھا لہذا گاڑی کو روکنا ممکن نہیں تھا ، انھوں نے حملہ آور کو اپنی آنکھوں کے سامنے پھٹتے ہوئے دیکھا مگر نہ کوئی چَھرا لگا اور نہ ہی بم کاٹکڑا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا بڑا حملہ اتنے قریب سے ہوا ہو اور کوئی نقصان نہ ہو۔ مگر ایسا ہی ہوا ۔ بریگیڈیئر باسط کا کہنا تھا کہ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ایک نہ نظر آنے والی دیوار ان کے اور حملہ آور کے درمیان آ گئی ہو ۔ دھماکا دیکھا بھی اور سنا بھی مگر صاف بچ گئے ۔ ان کے مطابق خدا کے گھر دو ماہ پہلے دی ہوئی حاضری اور ماں باپ کی دعائیں اس مشکل وقت میں ان کے کام آ گئیں۔اس میں کوئی شک نہیں دعائیں اور عبادات بڑے امتحان ٹال دیتی ہیں ۔ نیکی کی کثرت مشکل میں ڈھال بن جاتی ہے ۔

رینجرز کے کراچی میں آپریشن پر رپورٹنگ کے لیے میری ملاقات کئی مرتبہ بریگیڈیئر باسط سے ہوئی ۔ ان کی کام پر مکمل توجہ دینے کی عادت کافی متاثر کن ہے ۔ ہر وقت اپنی یونیفارم کی ساکھ کی فکر رکھنے والے بریگیڈیئر باسط طبیعتاً انتہائی خوش مزاج اور مختلف موضوعات پر گرفت رکھنے والے ہیں ۔ یقیناً پاکستان کے ہر شعبے میں ان جیسے اوصاف رکھنے والے کم نہیں ہیں۔ اگرچہ دوسرے اچھے لوگوں کی طرح یہ سامنے نہیں آتے ۔ محب وطن پاکستانیوں کی موجودگی میں ہماری حالت اتنی ابتر کیوں ہو گئی ہے ۔ اس حقیقت میں چھپی ہوئی حکمت میری ناقص سمجھ سے باہر ہے ۔ بر یگیڈیئر باسط کے توسط سے ڈی جی رینجرز جنرل رضوان سے بھی کراچی میں کئی مرتبہ ملاقات ہوئی ، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے کام کو کرنے کے لیے جس قسم کی ٹیم کی ضرورت ہر کمانڈر کو ہوتی ہے وہ جنرل رضوان کے پاس موجود ہے۔

اسی طرح اگر کسی ٹیم کو کامیاب ہونے کے لیے اچھے کپتان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کراچی رینجرز کو دستیاب ہے ۔ اگر پرسوں کے حملے میں کوئی نقصان ہو جاتا تو یقیناً اس کے اثرات کراچی کے حالات پر منفی اور انتہائی دور رس ہوتے۔ رینجرز پر یہ نشانہ پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیا ۔ جس روز وزیر اعظم نواز شریف اسمبلی میں اپنی امن اور دوستی تقریر فرما رہے تھے اس روز رینجرز پر ایک اور خود کش حملے میں تین اہلکار شہید ہو گئے تھے ۔ ایک اطلاع کے مطابق جنرل رضوان حملے کی جگہ سے اپنے ساتھیوں سمیت کچھ دیر پہلے ہی گزرے تھے۔کراچی رینجرز کے افسران اور جوان حیرت انگیز اور کرشماتی انداز میں ان حملوں کے بدترین اثرات سے تو بچ گئے مگر بدقسمتی سے پولیس کمانڈوز میں سے بہت سے خوش قسمت ثابت نہ ہوئے ۔

جمعرات کو ہونے والے ایک اور واقعے میں سندھ پولیس کے تیرہ کمانڈوز شہید ہو گئے ۔ حملہ ظاہراً ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا تھا ۔ تفصیلات کے مطابق خاص تربیت یافتہ گروپ کے یہ پولیس کمانڈوز جن کی تعداد 70 کے قریب تھی حسب طریقہ اہم شخصیات کی حفاظت پر متعین کیے جانے کے بعد بس میں بیٹھ کر سفر کا آغاز کرنے ہی والے تھے کہ یکدم دھماکا ہو گیا ۔ دھماکے کی براہ راست زد میں آنے والوں کا کچھ نہیں بچا ۔ جسموں کے پرخچے اڑ گئے ۔ نسبتا پیچھے والوں کو شدید زخم آئے ۔ ان میں سے کئی ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے ہیں ۔ کم زخمی بھی کوئی اتنے کم زخمی نہیں ہیں ۔ کسی کے کان کٹ گئے ہیں ، کسی کی آنکھ اڑ گئی ہے ، کسی کے ہاتھوں کی انگلیاں چلی گئی ہیں ، کسی کے جسم پر چمڑا جل جانے کی وجہ سے گہرے داغ پڑ گئے ہیں۔ بہرحال اس واقعے میں بھی خدا وند تعالی نے کرم کیا ۔ مزید جانی نقصان ہو سکتا تھا جو نہ ہوا۔جب محدود جگہ پر ایسا دھماکا ہوتا ہے تو اس کے کافی بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ 13 کی جگہ شہادتیں تیس بھی ہو سکتی تھیں۔ پولیس والوں کو خداوند تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور سندھ حکومت کی تعریف کرنی چاہیے کہ اس نے فوری مالی مدد کا اعلان کر کے ان کا نقصان پورا کر دیا۔ منتخب حکومت ہو تو ایسی۔ جان تو آنی جانی چیز ہے اصل معاملہ مالی مدد کا ہے جو سندھ حکومت نے فوری طور پر طے کر دیا ۔

اس واقعے سے ایک دن پہلے پشاور کے ایک گائوں میں امن لشکر کے ممبران جو تقریبا ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،شہید کر دیے گئے ۔ بوقت فجر ان کے گھر پر حملے کے بعد عورتوں اور بچوں کو ایک کمرے میں بند کر کے مردوں کو کھیتوں میں لے جا کر گولیوں سے اڑا دیا گیا۔اخبار میں چھپی ہوئی ایک خبر کے مطابق نو سال کی ایک بچی کو اپنے والد کے قتل سمیت یہ تمام مناظر دکھائے گئے تاکہ وہ واپس جا کر سب کو بتا پائے کہ کیا ہوا تھا ۔ دوسرے واقعات کی بھرمار میں اس گائوں کی کہانی چھپ گئی ہے ۔ ہمیں علم نہیں ہے کہ متاثرہ خاندان کی خواتین کا کیا حال ہوا ہو گا ۔ بچے کس حالت میں ہوں گے ، میرا خیال ہے کہ عمران خان کی جاری کی ہوئی پریس ریلیز نے عورتوں اور بچوں کے زخم بہت حد تک مندمل کر دیے ہوں گے ۔ عظیم قائد نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بات چیت کے عمل کے خلاف سازش بھی قرار دیا ۔ مجھ پر یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مذمت واقعے کی کر رہے ہیں یا سازش کی ۔جو بھی کہا ہو گا ٹھیک کہا ہو گا عمران خان ہیں وہ غلط کیسے ہو سکتے ہیں ؟وزیر اعظم نواز شریف کی طرح جو ان تمام واقعات کے دوران غیر حاضر تھے ۔ مگر بین الاقوامی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کے تحفظ کے لیے جانفشانی سے کام بھی کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے ترکی، افغانستان اور پاکستان کو اکٹھا کرنا روز مرہ کے واقعات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اتنا ہی اہم جتنا کہ کرکٹ بورڈ کے مسائل کے حل کے لیے نجم سیٹھی جیسی ہردلعزیز شخصیت کی تعیناتی ہے۔ اسی قسم کے اقدامات کے ذریعے امن حاصل کر لیا جائے گا ۔ ہمیں ان واقعات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ زندگی آنی جانی ہے ۔ بریگیڈیئر باسط اور درجنوں کمانڈوز بچ گئے ہیں ۔ یہ ملک بھی بچ جائے گا۔ امن قائم ہو گا ۔ گھبرائیں مت ۔

طلعت حسین    

Enhanced by Zemanta

مینڈیٹ کا چڑیا گھر


امریکیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام تر مادی کامیابی اور طاقت کے باوجود احمقانہ طرز عمل اپنانے میں ماہر ہیں۔ ان کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ وہ سیدھا رستہ اپنانے سے پہلے تمام الٹے راستے اختیار کرتے ہیں۔ وہاں پر مات کھاتے ہیں، کبھی کبھی مار بھی کھاتے ہیں‘ پھر تمام تکالیف اٹھانے کے بعد اسی جگہ پر آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں پر انھوں نے صحیح کے بجائے غلط راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکا کے اس طور طریقے کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ اس کی جڑیں امریکا کی اس نفسیات میں گڑی ہوئی ہیں جس کے تحت وہ بیک وقت مکمل خوف اور ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی کا شکار رہتا ہے۔ اس متضاد کیفیت میں ہونے کی وجہ سے اس کو صحیح مشورہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ مشورہ دینے والے کو کم عقل اور خود کو عقل کل گردانتے ہوئے صاحب رائے کو جھٹک کر پرے پھینک دیتا ہے۔ خواہ مخواہ کے تجربات کی دلدل میں چھلانگ لگاتا ہے اور بعد میں ہائے ہائے کرتا ہوا وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان نقادوں کے نزدیک ان غلطیوں کے باوجود امریکا صرف اس وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے کہ آخر میں صحیح رستہ پہچان لیتا ہے۔

چونکہ ہم نے بین الاقوامی اور بڑی طاقتوں کی حماقتوں کا ریکارڈ توڑنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ لہذا ہم نے امریکا کے اس ’’حماقت کے بعد لیاقت‘‘ ماڈل میں تبدیلی کی ہے اور اس کو نئے تجربات سے آراستہ کرتے ہوئے اپنے رنگوں سے نمایاں کیا ہے ۔ ہمارے تبدیل شدہ ماڈل کے مطابق صحیح مشورے کو رد کر کے الٹے رستوں کے ذریعے الٹے کام کرنا ہی کافی نہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دوبارہ سے نقطہ آغاز پر واپس آتے ہوئے پھر سے الٹے کام کو دہرانے میں ملکہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی امریکی تو مار کھا کے عقلمند ہو جاتے ہیں مگر ہم نے حماقتوں کو ایسے مدار میں تبدیل کرنا ہے جس میں سے ہم کبھی نہ نکل سکیں۔ بیشک چکر کھاتے کھاتے تباہ ہو جائیں، غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

معذرت چاہتا ہوں تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ مگر اس حیران کن انداز سے محترم وزیر اعظم اپنے ماضی کو جلدی جلدی دہرا رہے ہیں، اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے یہ سیاق و سباق بتانا ضروری تھا۔ دو ادوار حکومت میں میاں نواز شریف نے شک کا بہت فائدہ اٹھایا اور اپنی حکومتوں کی کمزور کارکردگی کو روایتی سازشوں کی کارستانی قرار دیا ۔ اپنی کوتاہیوں اور فضول فیصلوں کو جمہوریت کی طرف ’’ مشکل سفر‘‘ کے مرحلوں کے حوالے سے عوام کے سامنے رکھا اور جرنیل پرویز مشرف کے حادثے کے بعد ہر کسی کو یہ بتایا کہ جب تک طالع آزما کو لگام نہیں دی جاتی (اور ان کو بھاری مینڈیٹ نہیں ملتا) تب تک یہ قوم جمہوریت کے ثمرات اور رحمتوں سے آشنا نہیں ہو سکے گی۔ مگر افسوس کہ ان دونوں شرائط کے پورے ہو جانے کے باوجود میاں نواز شریف، ان کے سیاسی انداز و اطوار، فیصلہ سازی کے طریقے اور ان کے گرد پھیلا ہوا چاپلوسوں کا ہجوم جوں کا توں ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ ذہن بدلا اور نہ فیصلے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو فٹ بال بنانے میں نجم سیٹھی جیسے کرداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

مالاکنڈ سے سفر کے دوران واپسی پر میں نے محترم وزیر اطلاعات کی موجودگی میں وزیر اعظم سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو صحیح طریقے سے چلانے کا معاملہ اٹھایا ۔ یہ وہ دن تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کر کے نجم سیٹھی کو قانونی اور آئینی آئینہ دکھا دیا تھا۔ میری بات سننے کے بعد وزیر اعظم نے عجیب و غریب قسم کی خاموشی اختیار کی جس سے نہ یہ پتا چلتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہیں اور نہ ہی یہ معلوم پڑتا تھا کہ وہ سوچ چکے ہیں۔ پھر یکدم ان کے ایک جملے نے خاموشی کا پردہ چاک کیا اور ان کے ذہن کو افشا کر دیا ۔ فرمانے لگے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اور بھی کئی طریقے ہیں جس کے ذریعے نجم سیٹھی دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے سلیم صافی نے اس مسئلے کے اخلاقی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر میں نے ان کو اور وزیر اعظم کو خواہ مخواہ کی خفت سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بات بدل دی۔ بہر حال وزیراعظم کے رد عمل سے یہ امر واضح ہو گیا تھا کہ وہ ہر صورت نجم سیٹھی کو خوش رکھیں گے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے میاں نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار یاد آنے شروع ہو گئے جب وہ سینیٹر سیف الرحمان جیسے لوگوں کے ہاتھوں اپنی حکومت کی درگت بننے کے باوجود صورت حال کی نزاکت کو کبھی نہ بھانپ پائے ۔ دوسرے اسکینڈلز کے علاوہ اس وقت بھی کرکٹ میں سیف الرحمان کے بھائی کو گھسانے کا تنازعہ نواز شریف کی طبیعت کے اس پہلو کی مثال بن گیا تھا جس کے اثر کے تحت وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مار کر خوب خوش ہوتے ہیں ۔ پندرہ سال میں اگر میاں نواز شریف نے کچھ سیکھا ہے تو وہ یہ کہ ان کو ماضی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی نظر میں مینڈیٹ ایک ایسا منہ زور بھینسا ہے جس کو قابو میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ جیسی مرضی تباہی مچائے اس کا ادھم، دھما چوکڑی اور تباہی سب کچھ قابلِ دفاع ہے۔ پہلے کی طرح میاں نواز شریف آج بھی اپنے مینڈیٹ کی زد میں نظر آ رہے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"