Showing posts with label Najam Sethi. Show all posts

پینتیس پنکچروں کی داستان


سازشوں اور گٹھ جوڑ کی اسلام آباد میں کبھی کمی نہیں رہی۔ فوجی آپریشنز، نجکاری کے مشکوک سودوں اور مشرف کی قسمت کے بارے میں افواہوں کے ساتھ ساتھ یہاں ’پینتیس پنکچروں‘ کی کہانی نے بھی ٹوئیٹر پر دھوم مچا دی تھی، اور اس کے بعد ٹیلیویژن اسکرین پر بھی اس پر بہت سے مباحثے دیکھنے میں آئے۔

ایک ہفتے پہلے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے پینتیس پنکچروں کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، بعد میں دوسروں نے بھی ان کی پیروی کی۔

پی ٹی آئی میں بہت سے لوگوں کو یہ یقین ہے کہ الیکشن کی رات نجم سیٹھی نے مسلم لیگ نون کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور انہیں یقین دلایا کہ پینتیس پنکچر لگا دیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے چیف آف سٹاف نعیم الحق جنہوں نے اس کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، کا فون پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کا انکشاف اہم مغربی طاقت کے ایک سفارت کار نے کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے رہنما وضاحت کرتے ہیں کہ یہ وہ سفارتکار ہیں جن کے قبضے میں یہ ٹیپ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی میں کسی نے یہ ٹیپ سنی ہے، لیکن اُدھر نجم سیٹھی نے دوٹوک الفاظ میں ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ الزام عائد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی سے باہر ایک اینکر جنہوں نے اپنے ٹی وی شو میں اس اسکینڈل پر تفصیلی بات چیت کی تھی، اس ٹیپ کی موجودگی پر زور دیا، اگرچہ جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اس ٹیپ کو نہیں سناتھا۔

جب پیر دس فروری کو عمران خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کا ذکر کیا تو پی ٹی آئی خود کو ٹوئٹر کی سرگوشیوں میں خود کو محدود نہیں رکھ سکی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نجم سیٹھی کی پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے پر دوبارہ تقرری ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کو فکس کرنے پر بطور انعام کی گئی ہے۔

سینیٹر پرویز رشید جو حکومت اور وزیراعظم کے ترجمان ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے نجم سیٹھی میں نقص اس وقت تلاش کرنے شروع کیے جب انہیں پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے انہیں ان کے ساتھ کوئی پریشانی نہیں تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ میں الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر پی ٹی آئی کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہوئے تھے۔

پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں این اے 122، 125، 110 اور 154 میں ووٹروں کی تصدیق کا حکم جاری کرے۔ اس سماعت، ٹوئیٹر پر الزامات اور نجم سیٹھی کی پی سی بی میں واپسی نے باآسانی سازشوں کا تانا بانا بُن دیا، اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

درحقیقت مئی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام کے ذریعے پی ٹی آئی کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ اس وقت لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے۔

اس وقت زیادہ تر سیاستدان نئی حکومت اور اسمبلیوں کے ساتھ مصروف ہیں، جبکہ سڑکوں پر لوگ اور نیوز چینلز میں سے بہت سے توانائی، دہشت گردی، امن مذاکرات، کراچی آپریشن اور ہندوستان پاکستان کے تعلقات پر ایک نئے تنازعے پر تبادلۂ خیال کررہے ہیں۔

ان میں سے چند کی دلچسپی الیکشن میں دھاندلی پر مرکوز رہی، جب سے پی ٹی آئی نے اس پر بات کرنا شروع کی تھی۔لیکن وفاقی حکومت نے جب ذکاء اشرف کو بے ڈھنگے پن سے برطرف کیا اور پی سی بی کے سربراہ کے عہدے پر نجم سیٹھی کو دس فروری کو واپس لے آئی تو اس وقت زیادہ سے زیادہ چند لوگ تھے جو نواز شریف کے ساتھ سابق قائم مقام وزیراعلٰی کے تعلقات کے بارے میں تعجب کا اظہار کررہے تھے۔

اور پھر پی ٹی آئی کے الزامات نے ان لوگوں کو ایک سادہ جواب فراہم کرنے کی کوشش کی، جو اس طرز کا کچھ امکان دیکھ رہے تھے۔ نجم سیٹھی کہہ چکے ہیں کہ وہ خود پر الزامات عائد کرنے والوں کو عدالت میں لے جائیں گے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا درحقیقت مقصد کیا تھا۔ یہ ایک تنازعہ کو شروع کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، لیکن پی سی بی کے شورشرابے کے باوجود اس کا وقت مثالی نہیں تھا۔

دہشت گردی کے حملوں کی لہر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اُتار چڑھاؤ کے ساتھ یہاں اس بات کا امکان بہت محدود تھا کہ لوگوں کی توجہ انتخابی دھاندلیوں پر مرکوز ہوگی۔

شاید پی ٹی آئی کو آخر تک اس تنازعے کی توقع نہیں تھی۔ ایسا ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پنکچر کی داستان کے بارے میں پوری پارٹی کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے اس تنازعے کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بارے میں کچھ بھی اندازہ نہیں کہ نجم سیٹھی پر کیا الزام عائد کیا جارہا ہے۔‘‘

قطع نظر اس کے کہ یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہوجاتا ہے یا نہیں، پینتیس پنکچر کا طوفان یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ نون پر حملے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔

پی ٹی آئی خود کو پنجاب کے لیے بطور ایک مدّمقابل کے دیکھتی ہے اور اگر یہ اگلے الیکشن میں ایک اہم انتخابی حریف کے طور پر اُبھرنا چاہتی ہے، یہ کسی بھی طرح کے حملے کے مواقع کو گنوانے کی متحمل نہیں ہوسکتی، جبکہ یہ موقع خود اس کے سامنے پیش کیا جارہا ہو۔

 

مینڈیٹ کا چڑیا گھر


امریکیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام تر مادی کامیابی اور طاقت کے باوجود احمقانہ طرز عمل اپنانے میں ماہر ہیں۔ ان کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ وہ سیدھا رستہ اپنانے سے پہلے تمام الٹے راستے اختیار کرتے ہیں۔ وہاں پر مات کھاتے ہیں، کبھی کبھی مار بھی کھاتے ہیں‘ پھر تمام تکالیف اٹھانے کے بعد اسی جگہ پر آن کھڑے ہوتے ہیں جہاں پر انھوں نے صحیح کے بجائے غلط راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکا کے اس طور طریقے کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ اس کی جڑیں امریکا کی اس نفسیات میں گڑی ہوئی ہیں جس کے تحت وہ بیک وقت مکمل خوف اور ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی کا شکار رہتا ہے۔ اس متضاد کیفیت میں ہونے کی وجہ سے اس کو صحیح مشورہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ مشورہ دینے والے کو کم عقل اور خود کو عقل کل گردانتے ہوئے صاحب رائے کو جھٹک کر پرے پھینک دیتا ہے۔ خواہ مخواہ کے تجربات کی دلدل میں چھلانگ لگاتا ہے اور بعد میں ہائے ہائے کرتا ہوا وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان نقادوں کے نزدیک ان غلطیوں کے باوجود امریکا صرف اس وجہ سے کامیاب ہو جاتا ہے کہ آخر میں صحیح رستہ پہچان لیتا ہے۔

چونکہ ہم نے بین الاقوامی اور بڑی طاقتوں کی حماقتوں کا ریکارڈ توڑنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔ لہذا ہم نے امریکا کے اس ’’حماقت کے بعد لیاقت‘‘ ماڈل میں تبدیلی کی ہے اور اس کو نئے تجربات سے آراستہ کرتے ہوئے اپنے رنگوں سے نمایاں کیا ہے ۔ ہمارے تبدیل شدہ ماڈل کے مطابق صحیح مشورے کو رد کر کے الٹے رستوں کے ذریعے الٹے کام کرنا ہی کافی نہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد دوبارہ سے نقطہ آغاز پر واپس آتے ہوئے پھر سے الٹے کام کو دہرانے میں ملکہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی امریکی تو مار کھا کے عقلمند ہو جاتے ہیں مگر ہم نے حماقتوں کو ایسے مدار میں تبدیل کرنا ہے جس میں سے ہم کبھی نہ نکل سکیں۔ بیشک چکر کھاتے کھاتے تباہ ہو جائیں، غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

معذرت چاہتا ہوں تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ مگر اس حیران کن انداز سے محترم وزیر اعظم اپنے ماضی کو جلدی جلدی دہرا رہے ہیں، اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے یہ سیاق و سباق بتانا ضروری تھا۔ دو ادوار حکومت میں میاں نواز شریف نے شک کا بہت فائدہ اٹھایا اور اپنی حکومتوں کی کمزور کارکردگی کو روایتی سازشوں کی کارستانی قرار دیا ۔ اپنی کوتاہیوں اور فضول فیصلوں کو جمہوریت کی طرف ’’ مشکل سفر‘‘ کے مرحلوں کے حوالے سے عوام کے سامنے رکھا اور جرنیل پرویز مشرف کے حادثے کے بعد ہر کسی کو یہ بتایا کہ جب تک طالع آزما کو لگام نہیں دی جاتی (اور ان کو بھاری مینڈیٹ نہیں ملتا) تب تک یہ قوم جمہوریت کے ثمرات اور رحمتوں سے آشنا نہیں ہو سکے گی۔ مگر افسوس کہ ان دونوں شرائط کے پورے ہو جانے کے باوجود میاں نواز شریف، ان کے سیاسی انداز و اطوار، فیصلہ سازی کے طریقے اور ان کے گرد پھیلا ہوا چاپلوسوں کا ہجوم جوں کا توں ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ ذہن بدلا اور نہ فیصلے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو فٹ بال بنانے میں نجم سیٹھی جیسے کرداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

مالاکنڈ سے سفر کے دوران واپسی پر میں نے محترم وزیر اطلاعات کی موجودگی میں وزیر اعظم سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو صحیح طریقے سے چلانے کا معاملہ اٹھایا ۔ یہ وہ دن تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کر کے نجم سیٹھی کو قانونی اور آئینی آئینہ دکھا دیا تھا۔ میری بات سننے کے بعد وزیر اعظم نے عجیب و غریب قسم کی خاموشی اختیار کی جس سے نہ یہ پتا چلتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہیں اور نہ ہی یہ معلوم پڑتا تھا کہ وہ سوچ چکے ہیں۔ پھر یکدم ان کے ایک جملے نے خاموشی کا پردہ چاک کیا اور ان کے ذہن کو افشا کر دیا ۔ فرمانے لگے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اور بھی کئی طریقے ہیں جس کے ذریعے نجم سیٹھی دوبارہ واپس آ سکتا ہے۔ ساتھ بیٹھے ہوئے سلیم صافی نے اس مسئلے کے اخلاقی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کی مگر میں نے ان کو اور وزیر اعظم کو خواہ مخواہ کی خفت سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے بات بدل دی۔ بہر حال وزیراعظم کے رد عمل سے یہ امر واضح ہو گیا تھا کہ وہ ہر صورت نجم سیٹھی کو خوش رکھیں گے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے میاں نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار یاد آنے شروع ہو گئے جب وہ سینیٹر سیف الرحمان جیسے لوگوں کے ہاتھوں اپنی حکومت کی درگت بننے کے باوجود صورت حال کی نزاکت کو کبھی نہ بھانپ پائے ۔ دوسرے اسکینڈلز کے علاوہ اس وقت بھی کرکٹ میں سیف الرحمان کے بھائی کو گھسانے کا تنازعہ نواز شریف کی طبیعت کے اس پہلو کی مثال بن گیا تھا جس کے اثر کے تحت وہ اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مار کر خوب خوش ہوتے ہیں ۔ پندرہ سال میں اگر میاں نواز شریف نے کچھ سیکھا ہے تو وہ یہ کہ ان کو ماضی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ان کی نظر میں مینڈیٹ ایک ایسا منہ زور بھینسا ہے جس کو قابو میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ جیسی مرضی تباہی مچائے اس کا ادھم، دھما چوکڑی اور تباہی سب کچھ قابلِ دفاع ہے۔ پہلے کی طرح میاں نواز شریف آج بھی اپنے مینڈیٹ کی زد میں نظر آ رہے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"