پینتیس پنکچروں کی داستان

01:17 Unknown 0 Comments


سازشوں اور گٹھ جوڑ کی اسلام آباد میں کبھی کمی نہیں رہی۔ فوجی آپریشنز، نجکاری کے مشکوک سودوں اور مشرف کی قسمت کے بارے میں افواہوں کے ساتھ ساتھ یہاں ’پینتیس پنکچروں‘ کی کہانی نے بھی ٹوئیٹر پر دھوم مچا دی تھی، اور اس کے بعد ٹیلیویژن اسکرین پر بھی اس پر بہت سے مباحثے دیکھنے میں آئے۔

ایک ہفتے پہلے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے پینتیس پنکچروں کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، بعد میں دوسروں نے بھی ان کی پیروی کی۔

پی ٹی آئی میں بہت سے لوگوں کو یہ یقین ہے کہ الیکشن کی رات نجم سیٹھی نے مسلم لیگ نون کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور انہیں یقین دلایا کہ پینتیس پنکچر لگا دیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے چیف آف سٹاف نعیم الحق جنہوں نے اس کے بارے میں ٹوئیٹ کیا تھا، کا فون پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں کہنا ہے کہ اس کا انکشاف اہم مغربی طاقت کے ایک سفارت کار نے کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے رہنما وضاحت کرتے ہیں کہ یہ وہ سفارتکار ہیں جن کے قبضے میں یہ ٹیپ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی میں کسی نے یہ ٹیپ سنی ہے، لیکن اُدھر نجم سیٹھی نے دوٹوک الفاظ میں ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ الزام عائد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی آئی سے باہر ایک اینکر جنہوں نے اپنے ٹی وی شو میں اس اسکینڈل پر تفصیلی بات چیت کی تھی، اس ٹیپ کی موجودگی پر زور دیا، اگرچہ جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اس ٹیپ کو نہیں سناتھا۔

جب پیر دس فروری کو عمران خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کا ذکر کیا تو پی ٹی آئی خود کو ٹوئٹر کی سرگوشیوں میں خود کو محدود نہیں رکھ سکی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نجم سیٹھی کی پی سی بی کے چیئرمین کے عہدے پر دوبارہ تقرری ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کو فکس کرنے پر بطور انعام کی گئی ہے۔

سینیٹر پرویز رشید جو حکومت اور وزیراعظم کے ترجمان ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے نجم سیٹھی میں نقص اس وقت تلاش کرنے شروع کیے جب انہیں پی سی بی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے انہیں ان کے ساتھ کوئی پریشانی نہیں تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ میں الیکشن میں دھاندلی کے معاملے پر پی ٹی آئی کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہوئے تھے۔

پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں این اے 122، 125، 110 اور 154 میں ووٹروں کی تصدیق کا حکم جاری کرے۔ اس سماعت، ٹوئیٹر پر الزامات اور نجم سیٹھی کی پی سی بی میں واپسی نے باآسانی سازشوں کا تانا بانا بُن دیا، اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

درحقیقت مئی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام کے ذریعے پی ٹی آئی کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ اس وقت لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے۔

اس وقت زیادہ تر سیاستدان نئی حکومت اور اسمبلیوں کے ساتھ مصروف ہیں، جبکہ سڑکوں پر لوگ اور نیوز چینلز میں سے بہت سے توانائی، دہشت گردی، امن مذاکرات، کراچی آپریشن اور ہندوستان پاکستان کے تعلقات پر ایک نئے تنازعے پر تبادلۂ خیال کررہے ہیں۔

ان میں سے چند کی دلچسپی الیکشن میں دھاندلی پر مرکوز رہی، جب سے پی ٹی آئی نے اس پر بات کرنا شروع کی تھی۔لیکن وفاقی حکومت نے جب ذکاء اشرف کو بے ڈھنگے پن سے برطرف کیا اور پی سی بی کے سربراہ کے عہدے پر نجم سیٹھی کو دس فروری کو واپس لے آئی تو اس وقت زیادہ سے زیادہ چند لوگ تھے جو نواز شریف کے ساتھ سابق قائم مقام وزیراعلٰی کے تعلقات کے بارے میں تعجب کا اظہار کررہے تھے۔

اور پھر پی ٹی آئی کے الزامات نے ان لوگوں کو ایک سادہ جواب فراہم کرنے کی کوشش کی، جو اس طرز کا کچھ امکان دیکھ رہے تھے۔ نجم سیٹھی کہہ چکے ہیں کہ وہ خود پر الزامات عائد کرنے والوں کو عدالت میں لے جائیں گے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کا درحقیقت مقصد کیا تھا۔ یہ ایک تنازعہ کو شروع کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے، لیکن پی سی بی کے شورشرابے کے باوجود اس کا وقت مثالی نہیں تھا۔

دہشت گردی کے حملوں کی لہر اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اُتار چڑھاؤ کے ساتھ یہاں اس بات کا امکان بہت محدود تھا کہ لوگوں کی توجہ انتخابی دھاندلیوں پر مرکوز ہوگی۔

شاید پی ٹی آئی کو آخر تک اس تنازعے کی توقع نہیں تھی۔ ایسا ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پنکچر کی داستان کے بارے میں پوری پارٹی کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے اس تنازعے کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’مجھے اس بارے میں کچھ بھی اندازہ نہیں کہ نجم سیٹھی پر کیا الزام عائد کیا جارہا ہے۔‘‘

قطع نظر اس کے کہ یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہوجاتا ہے یا نہیں، پینتیس پنکچر کا طوفان یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ نون پر حملے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔

پی ٹی آئی خود کو پنجاب کے لیے بطور ایک مدّمقابل کے دیکھتی ہے اور اگر یہ اگلے الیکشن میں ایک اہم انتخابی حریف کے طور پر اُبھرنا چاہتی ہے، یہ کسی بھی طرح کے حملے کے مواقع کو گنوانے کی متحمل نہیں ہوسکتی، جبکہ یہ موقع خود اس کے سامنے پیش کیا جارہا ہو۔

 

0 comments: