لطیفے گھڑنے والے خود لطیفہ بن جاتے ہیں

22:15 Unknown 0 Comments


دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے تو آشنا ہو مگر بل گیٹس کو نہ جانتا ہو۔ یہ شخص جس نے مائیکروسوفٹ جیسی بزنس ایمپائر کھڑی کی،مسلسل19سال تک کوئی مائی کا لال دنیا کے امیر ترین شخص کا ٹائٹل اس سے نہ چھین سکا،یہاں تک کہ اس نے اپنی دولت دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی۔ بل گیٹس کی زندگی کے بیشمار پہلو ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس پہلو کو روشن ترین کہاجائے۔لیکن مجھے بل گیٹس کے ذاتی اوصاف سے کوئی سروکار نہیں۔مجھے اس کی شہرہ ء آفاق کمپنی کی کامیابیوں سے بھی کوئی غرض نہیں، جس کی نیٹ ورتھ 69.96ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کے زرمبادلہ کےذخائر سے 11گنا زیادہ۔میں جب بھی بل گیٹس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے بھارتی وزیر اعظم نہرو یاد آتے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد ایک مغربی صحافی نے پوچھا ،آپ کے ہاں تو کوئی قابل ذکرپیداوارنہیںجسےبرآمدکر سکیں۔زرمبادلہ کیسے کمائیں گے ۔نہرو نے ہنستے ہوئے کہا ،ہم با صلاحیت افراد ایکسپورٹ کریں گے،یہ افراد ہمارازرمبادلہ ہیں۔آج اس کی یہ بات سچ ثابت ہو رہی ہے اورمیں تب سے رشک اور حسد کے سنگم پر مبہوت کھڑا ہوں جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ایک بھارتی نژاد آئی ٹی ایکسپرٹ ستیا نڈیلا کو مائیکروسوفٹ کا نیا سربراہ بنا دیا گیا ہے۔مائیکروسوفٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سٹیو بالمر نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور نئے سی ای او کا انتخاب کرنے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں 100 ماہرین کے نام زیر غور تھے۔نہ صرف اس منصب کے لئے ایک بھارتی شہری کو منتخب کیا گیا ہے بلکہ حیدرآبادکے باسی ستیانڈیلا کے بعد جس شخص کا نام مائیکروسوفٹ کے نئے سربراہ کے طور پر لیا جا رہا تھا اس کا تعلق بھی بھارت سے ہے۔بھارت کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو گی کہ امریکہ کی سب سے بڑی آئی ٹی فرم کے سی ای او کا چنائو تھا اور مسابقت حیدرآباد کے ستیا نڈیلا اور چنائی کے سندر پچھائی کے مابین تھی...وہ لوگ جو امریکہ میں آئی ٹی کے گڑھ سلیکان ویلی کے بارے میں جانتے ہیں ،ان کے لئے یہ خبر ہرگز غیر متوقع نہیں ہے کہ ایک انڈین کو مائیکروسوفٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے کیونکہ سلیکان ویلی کی تمام آئی ٹی فرموںمیں 80فیصد انجینئروںکا تعلق بھارت سے ہے۔مائیکرو سوفٹ میں ہر تیسرے فرد کا تعلق بھارت سے ہے۔ نہ صرف سلیکان ویلی میں بھارتیوں کی اجارہ داری ہے بلکہ بھارتی اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر ان آئی ٹی فرموں کو سمندر پار لانے میں کامیاب ہوئے اور اب مائیکروسوفٹ اور یاہو سمیت تمام معروف آئی ٹی فرمیں بھارت میں کام کر رہی ہیں۔ ایک بڑی موبائل فون کمپنی کے پروڈکشن یونٹ انڈیا میں کام کر رہے ہیں۔سلیکان ویلی کے بعد اگر سرمایہ کار آئی ٹی کے حوالے سے کسی اور شہر کا نام لیتے ہیں تو وہ بنگلور ہے۔صرف آئی ٹی ہی کیا بھارتی شہری امریکہ اور یورپ سے لیکر عرب ممالک تک نہ صرف کاروبار کی دنیا کے بے تاج بادشاہ مانے جاتے ہیں بلکہ نچلے درجے کی ملازمتوں سے لیکر اعلیٰ پائے کے انتظامی عہدوں تک ہر طرف اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کلیدی عہدوں پر آپ کو ہندو نظر آئیں گے۔پیپسیکو جو ایک عالمی شہرت یافتہ کولامشروب بناتی ہے،اس کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر Indra Nooyiہیں،ماسٹرز کارڈز کے سی ای او Ajay Bangaہیں،امریکہ کے ایک معروف بینک کی سربراہی Anshu Jainکے پاس ہے۔اور معرف بنک کا انتظام ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہودی لابی کے بعد امریکہ میں کوئی کمیونٹی سب سے زیادہ مضبوط اور بااثر ہے تو وہ بھارتی کمیونٹی ہے۔چند برس قبل فوربز میگزین نے دس ایسی بڑی کمپنیوں کی فہرست جاری کی تھی جن کی سربراہی بھارتی شہریوں کے ہاتھ میں ہے۔کیلی فورنیا،نیویارک،نیو جرسی،ٹیکساس اور فلوریڈا میں 100سے زائد ایسی فرمیںہیں جن میں بھارتی شہریوں کو مالکانہ حقوق حاصل ہیں یا پھر وہ کلیدی انتظامی عہدوں پرہیں۔آپ ان کافر ممالک کو چھوڑیں ۔شائد یہاں پاکستانیوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے تعصب کا سامنا ہو،آپ برطانیہ میں بھی بھارتی شہریوں کی کامیابیاں نظر انداز کر دیں کہ شائد ایسٹ انڈیا کمپنی اور ہندوئوں کا گٹھ جوڑ تاحال قائم ہو۔ آپ دبئی اور شارجہ سے لیکر قطر،عمان،بحرین اور سعودی عرب تک کسی عرب ملک کے اعداد و شمار جمع کر لیں۔آپ ملائیشیا سے انڈونیشا اور ترکی سے مصر تک کسی بھی مسلم ملک میں سروے کرا کے دیکھ لیں ،آپ کو ہندوئوں کی سبقت واضح طور پر محسوس ہوگی۔ اگر کوئی تعمیراتی کمپنی کسی عرب کی ہے تو اس میں انجینئر اور ٹیکنیشن بھارتی ہوں گے ،مزدوروں میں بھی کچھ بنگالی ہوں گے اور کچھ پاکستانی۔اگر کوئی کلینک ہے تو ڈاکٹر ہندو ہو گا،اگر کوئی گروسری سٹور ہے۔کوئی پیٹرول پمپ ہے،کوئی سروس اسٹیشن اور شوروم ہے تو اس کی ملکیت بھارتی شہریوں کے پاس ہو گی اور پاکستانی کسی پیٹرول پمپ پر نوکری کر رہے ہوں گے،کسی ہوٹل میں ویٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہوں گے، کسی سروس اسٹیشن پر گاڑیاں دھو رہے ہوں گے، کہیں ٹیکسی چلا رہے ہوں گے یا کسی تخریب اور فراڈ کی ترکیب سوچ رہے ہوں گے۔

میں رشک اور حسد کے سنگم پر کھڑا سوچ رہا ہوں کہ آخر بھارتیوں کو ایسے کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ پوری دنیا میں راج کر رہے ہیں اور ہم ہر جگہ تذلیل و تحقیر کا نشانہ بن رہے ہیں؟آخر ان کے پاس ایسا کونسا ہنر اور ایسی کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ سونا بن جاتی ہے اور ہم سونے پر ہاتھ رکھتے ہیں تو وہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے؟کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ سلیکان ویلی کی قیادت پاکستانیوں کے ہاتھ ہوتی؟کیا یہ ممکن نہ تھا کی مائیکرو سوفٹ، گوگل، یاہو اور نوکیا کی سرمایہ کاری کے لئے بنگلور کے بجائے لاہور کا انتخاب کیا جاتا؟یہ سوال جس شخص سے بھی کیے جائیں گے وہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ان کا جواب دے گا۔ کسی کاخیال ہوگاکہ ہمیں کام چوری کے باعث یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں،کوئی سوچتا ہو گا کہ ہم بے ایمانی کے باعث رسوا ہو رہے ہیں۔یہ سب باتیں درست ہیں مگر میرا خیال یہ ہے کہ ہم لطیفوں کی وجہ سے ناکام ہیں۔جی ہاں، ہم کامیاب انسانوں کا تمسخر اڑاتے ہیں،لطیفے بُنتے ہیں اور ہر بات ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم خود لطیفہ بن گئے ہیں۔ہم سکھوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں،ہر طرح کی حماقتیں ان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں یا پھر پٹھانوں کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ہم ہر اس شخص کا مذاق اُڑاتے ہیں،جو اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیابی کی منازل طے کرتا ہے۔نمونے کے طور پر میں ایک لطیفہ نقل کر رہا ہوں۔مجھے نہیں معلوم ،یہ لطیفہ کس کی اختراع ہے مگر آپ کی طرح میں نے بھی یہ لطیفہ کئی بار سنا اور پڑھا ہے۔آپ یہ لطیفہ پڑھیں اور پھر فیصلہ کریں، کیا اس طرح کے لطیفے گھڑنے والی قوم کا کوئی فرد مائیکرو سوفٹ کا سربراہ بن سکتا ہے:ـ’’ایک پٹھان نے مائیکرو سوفٹ کے سربراہ بل گیٹس کو خط لکھا۔کی بورڈ میں ABC کی ترتیب ٹھیک نہیں۔صحیح اے بی سی والا کی بورڈ کب بنائیں گے؟ ونڈوز میں ا سٹارٹ کا بٹن ہے مگر اسٹاپ کا بٹن کیوں نہیں؟جب کی بورڈ میں Any keyکا بٹن نہیں تو پھر کمپیوٹر یہ کیوں کہتا ہے کہ Press any key۔ ہم مس ورڈ(MS Word) تو استعمال کرتے ہیں مگر مسٹر ورڈ کب لانچ ہو گا؟اگر آپ بُرا نا مانیں تو یہ بھی بتا دیں کہ آپ کا نام بل گیٹس ہے تو آپ ونڈوز کیوں بناتے ہیں؟‘‘


بشکریہ روزنامہ 'جنگ

Microsoft Indian President

Enhanced by Zemanta

0 comments: