حبیب جالب… میرا شاعر

23:45 Unknown 0 Comments


حبیب جالبؔ بلاشبہ ہمارے ادبی سرمائے میں درخشاں ستارے کی مانند پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور رہیں گے، وہ ایک قلندر صفت انسان تھے انھوں نے شاید ہی کبھی اپنے لیے کسی شے کی فرمائش اور خواہش کی باوجود اس کے کہ اس ’’عوامی شاعر‘‘ کے گھر میں فاقوں کا راج بھی رہا۔ وہ حقیقتاً خودداری کی انتہا پر فائز تھے۔ جالبؔ کا دور آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیاروں کا دور تھا۔ وہ سچ و حق پر مکر و فریب کے حاوی ہونے کا دور تھا۔ وہ غریب کو جوتی پر رکھنے کا دور تھا۔ بعض اہل علم و ادب زندگی جیسی عارضی و فانی llusion Iکا خیال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی خوشیوں کے لیے اپنے ضمیر تک کو بیچ دیتے ہیں محض چند کوڑیوں کے عوض اور پیلی صحافت کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن ان کے جسموں پر پھر نہ تو لہو گردش کرتا ہے اور نہ ہی روح نام کی کوئی شے باقی رہتی ہے، جالبؔ ایک مقدس روح ہیں، تھے اور رہیں گے وہ نہ تو آمروں کے کہنے پر چلے اور نہ ہی ان کے سامنے کٹھ پتلی بنے، انھوں نے لکھا اور بے تکان لکھا ان کی شاعری ایوان بالا میں موجود کالے چشمے لگائے روحوں سے عاری لوگوں اور کھیتوں میں خون پسینہ بہاتے ہاریوں نے سمجھی وہ بلاشبہ عوامی شاعر ہیں۔ وہ ایک نڈر، بے باک، نہ بکنے والے ذی ہوش انسان تھے۔ شعرا بک سکتے ہیں لیکن جالبؔ عالم کسمپرسی کے عالم میں بھی صرف دینا جانتے تھے۔ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو آکسیجن کی جگہ سلفورک ایسڈ کی بو پھیپھڑوں میں آنے لگتی ہے، سوچ پر آمریت کے کمند پڑ جاتے ہیں۔

جالبؔ جمہوریت کے داعی تھے اور جب تک ان کی زندگی نے ایفا کی وہ جمہوری اقدار کو نمو پاتے دیکھنا چاہتے تھے۔ جالبؔ صاحب کے بھائی سعید پرویز کی کتاب گھر کی گواہی پڑھ کر میری آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے جیسے میں تخت دار پر جلاد کے ہاتھ پیر پکڑے اپنی زندگی کی فریاد کر رہا ہوں، فریاد دو صورتوں میں کی جاتی ہے جب آپ کا ضمیر زر پانے کے لیے بے تاب ہو اور دوسرے جب آپ کی زندگی کسی کے ہاتھ میں ہو۔ جالبؔ کی شاعری محض ایک مخصوص وقت کی شاعری ہے، لیکن من حیث المجموعی جالبؔ نے اپنی شاعری سے اپنی شعلہ بیان تقریروں سے پاکستان کے لاعلم لوگوں کو ان کے حقوق بتانے شروع کیے جس پر ’’بڑے لوگ‘‘ ناراض ہوئے ان کی باتوں میں ایسی قوت تھی کہ لوگوں کا جم غفیر موجود ہوتا۔ انھوں نے آمریت کا مکروہ چہرہ پاکستان کی عوام کو دکھایا ایک عام انسان یعنی میں اور آپ مصائب و الم، قید و بند کی صعوبتوں میں گرفتار ہو جائیں اور ہمارے پاس صرف یہی آپشن موجود ہو کہ یا تو آپ ناکردہ گناہ تسلیم کر لیں یا مرنے کو تیار ہو جائیں تو ہم میں سے بیشتر پہلے آپشن پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن جالبؔ کے معاملے میں ایسا کوئی آپشن موجود نہیں۔

شاعر شعلہ نوا میں غالباً پاکستان یا جہاں جہاں اردو اور اس کے چاہنے والے موجود ہیں اس کے علاوہ دیگر زبانوں کے معروف ادیبوں نے بھی جالبؔ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’’کون‘‘ کس کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے بالخصوص اس سیم و زر کی اٹی دنیا میں۔ وجہ صاف ہے، حبیب جالبؔ جیسے پائے کے شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا ہی جانا چاہیے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے عہد کے شاید ہی کسی اور شاعر نے اپنی شعلہ نوائی سے سرزمین پاکستان کی عوام کو جالبؔ کی طرح متاثر کیا ہو۔ جالبؔ نے جمہوری اداروں اور جمہوری تحریکوں کو اپنے خون جگر سے آبیار کیا ہے، جالبؔ صرف حد پاکستان ہی کے شاعر نہیں ہیں جہاں جہاں استحصالی، جابرانہ، آمرانہ سوچ ہے وہاں وہاں جالبؔ کی شعلہ نوائی ہے۔ ان کو بین الاقوامیت اور جفاکشوں سے دلی لگاؤ ہے، ہر جفاکش، مزدور، استحصالی قوتوں کی چکی میں پسا آدمی جالبؔ کی شاعری کے ذریعے شعور و آگہی کی منازل طے کر رہا ہے، اور شاعر کا کام بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے قارئین کو صحیح اور غلط کے مابین حد فاضل کھینچنے میں مدد فراہم کرے، میں نے اب تک جالبؔ کا جو بھی کلام پڑھا مجھے بلاشبہ ان کی شاعری بھی اور ان کا قد بھی ہمالیہ کی طرح بلند و بانگ نظر آیا۔ ایورسٹ پر تو آپ پہنچ سکتے ہیں لیکن جالبؔ کی شعری سوچ تک نہیں۔

جالبؔ کی شعری زبان ایک ایسے شاعر کی زبان ہے جو سیاسی جدوجہد کے عین ہنگام میں محاذ پر موجود دکھائی دیتی ہے، جس میں چوائس جیسے Introvert اندروں بیں اور Ivory Tower میں رہنے والے عینیت پسند نے کی تھی۔ پاکستان میں آج کل جو ہو رہا ہے جب سے میں دیکھ رہا ہوں شاید میری نسل بھی وہی ہوتا دیکھے تبدیلی تو کجا چیزیں اور قانون ہٹ دھرم ہیں، لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ جالبؔ کا ایک قطعہ یہاں اپنے قارئین کے لیے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو‘

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے‘

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

الفاظ کی بے ساختگی تو دیکھیے ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے کلاس روم میں بیٹھے بچوں کو پڑھا رہے ہوں۔ ہاں جالبؔ نے قوم کو پڑھایا بھی ہے لیکن عوامی گریڈ حاصل کرنے والی قوم کو۔ چی گویرا (Che Guevara) کی طرح جالبؔ اور جالبؔ کی طرح (Che Guevara) کی سچی اور کھری شاعری کے بارے میں اس تعریف کو درخور اعتنا سمجھیں کہ سماجوں کے انقلابات کے لیے کام کرنے والوں کی شاعری کا خطیبانہ لہجہ اور آمرانہ حکومت کی بندوق کی نال سے نکلنے والی گولی کے درمیان چنداں فرق نہیں ہوتا کیا خوب بات ہے زبان وہ کام کر جاتی ہے جو گولی سے نہیں ہو سکتا۔ جالبؔ کی شاعری میدان جنگ کے شاعر کی شاعری ہے۔ (Poetry of War) ایک عام آدمی بھی جالبؔ کو اتنا ہی سمجھتا اور جانتا ہے جتنا ایک بیوروکریٹ (اگر وہ پڑھا لکھا ہے تو)۔

تودوروف (Todoroff) نے کہا تھا شاعری زبان کے اندر ہوتی ہے بلکہ پورا ادب ہی زبان کے اندر ہوتا ہے ہو سکتا ہے ساختیات کے وکلا تودوروف کے اس بیان پر بغلیں بجائیں لیکن جالبؔ کی شاعری کا قد اور اس کی شاعری کی ساری خوبی اس زبان پر تکیہ کرنے میں مضمر ہے جسے ادبی اشرافیہ بہ ہمہ وجوہ جن میں ایک وجہ اشرافیہ کی پسندیدہ زبان کی فوقیت کا یقین بھی ہے) امرا کی بچی ہوئی پلیٹوں سے ایک غریب پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے،

جو صدائیں سن رہا ہوں مجھے بس انھی کا غم ہے

تمہیں شعر کی پڑی ہے مجھے آدمی کا غم ہے

میں ہوں شاعر زمانہ مرا اور ہے فسانہ

تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے

تاریخ کے اوراق پلٹیے تو آپ کو ادب میں ہونے والی انارکی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض الل ٹپ طرز کے شعرا کو ایوان بالا تک رسائی ہونے کے سبب ہر چیز سے نواز دیا گیا لیکن جالبؔ نے زندگی میں اور بعد از مرگ ان کی بیوہ نے کبھی کسی سے ایک پیسے کی فرمائش نہیں کی۔ یہ بات جالبؔ جیسا آدمی ہی کر سکتا تھا۔ نظیرؔ اکبر آبادی کو عوامی مقبولیت میں بڑھاوا شاید محمد حسین آزادؔ کو ناگوار گزرا، اس لیے انھوں نے نظیرؔ کو ان شعرا کی فہرست سے نکال باہر کیا یہ نہ تو اچھی روایت ہے اور بحیثیت مسلمان ایک گری ہوئی کم ظرفی ہے، کیا جالبؔ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، خود جالبؔ کہتے ہیں:

اپنوں نے وہ رنج دیے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

دیکھ کر اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں

0 comments: