مغربی دنیا اور آزادی کا دھوکا

06:24 Unknown 0 Comments


مغربی دنیا گزشتہ تین سو سال سے انسان کی آزادی کے ترانے گا رہی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ آزادی اس کی سب سے بڑی قدر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی مغربی دنیا کے حوالے سے سب سے بڑا دھوکا ثابت ہوئی ہے۔ مغربی دنیا میں جب صنعتی اور سیاسی انقلابات رونما ہورہے تھے ٹھیک اُسی زمانے میں اہلِ مغرب دوسری اقوام کو غلام بناکر نوآبادیاتی دور کی ابتداء کررہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم سفید فام ہیں، ہم مہذب ہیں اور ہم غیر مہذب لوگوں کو تہذیب سکھانے نکلے ہیں۔ لیکن تہذیب انسانوں کو آزاد رکھ کر سکھائی جاسکتی ہے، انہیں غلام بنا کر نہیں… اس لیے کہ غلامی تہذیب کے ہر تصور کی نفی ہے۔ ویسے بھی اہلِ مغرب نے جن اقوام کو غلام بنایا وہ مغربی دنیا کے لوگوں سے زیادہ مہذب تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم اور تہذیب کی روایت مغرب سے مشرق کی طرف نہیں آئی تھی بلکہ مشرق سے مغرب کی طرف گئی تھی۔ اہلِ مغرب اگر عیسائی ہیں تو عیسائیت مغرب میں پیدا نہیںہوئی تھی۔ اہلِ مغرب کے پاس اگر فلسفہ اور سائنس تھی تو یہ چیزیں بھی انہیں مسلمانوں سے ملی تھیں… اور اسلام کا سورج مغرب میں نہیں مشرق میں طلوع ہوا تھا۔ لیکن مغربی دنیا صرف دوسری اقوام کی آزادی ہی کے درپے نہیں تھی، مغربی معاشروں میں سفید فام اور سیاہ فام کی تفریق آج بھی موجود ہے اور یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ مغربی اقوام بڑے پیمانے پر سیاہ فام غلاموں کا کاروبار کیا کرتی تھیں اور ان کے شہروں کے ریستورانوں کے دروازوں پر لکھا ہوتا تھا کہ یہاں سیاہ فاموں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔


کمیونزم نے 70 سال تک مغرب میں آزادی کے لیے ایک پردے کا کام کیا۔ اس زمانے میں مغرب کے ’’آزاد‘‘ اور سوویت یونین کے ’’پابند‘‘ معاشرے کے حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور تھا اور وہ یہ کہ امریکہ اور سوویت یونین کے دو کتوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تو امریکہ کے کتے نے سوویت کتے کی صحت کی بہت تعریف کی۔ یہ سن کر سوویت کتے نے کہا کہ ہمارے یہاں غذا تو وافر ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھونکنے کی آزادی نہیں۔ اس کے بعد سوویت کتے نے امریکی کتے سے کہا کہ تمہاری صحت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ امریکی کتے نے کہا کہ بے شک مجھے غذا تو اچھی نہیں ملتی مگر بھونکنے کی پوری آزادی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید مغرب کی سب سے بڑی علامت امریکہ میں بھونکنے کی آزادی بھی صرف اُن لوگوں کو تھی جو ’’کاٹتے‘‘ نہیں تھے۔ یعنی جن کی باتوں میں معنی، زور اور کاٹ نہیں تھی۔ جن کے پاس دلائل و براہین نہیں تھے۔ ورنہ امریکہ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ایزراپائونڈ امریکی تھا اور اسے 20 ویں صدی کا سب سے بڑا انگریزی شاعر اور نقاد کہا گیا ہے۔ لیکن اس نے اٹلی جاکر مسولینی کی حمایت کی اور امریکی نظام پر تنقید کی تھی اس لیے امریکہ کی سلامتی سے متعلق ادارے اس کے پیچھے پڑ گئے، یہاں تک کہ اس کے شاگرد اور متاثرین اس کی جان کو خطرے میں محسوس کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے ایزرا پائونڈ کو نفسیاتی مریض باور کراکے نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا اور وہ کئی سال اسپتال میں داخل رہا۔ لیکن یہ صرف ایزراپائونڈ کا مسئلہ نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں مارٹن لوتھر کنگ امریکہ میں شہری آزادیوں اور سیاہ فاموں کے حقوق کی علامت بن کر ابھرے تو ایف بی آئی ان کے پیچھے لگ گئی۔ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جانے لگے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ کی ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ نے کہا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے تو ان کے خلاف طوفان کھڑا ہوگیا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال نوم چومسکی ہیں۔ وہ یہودی اور امریکی ہیں لیکن وہ امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست کہتے ہیں اور امریکہ کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے ناقد ہیں۔ چنانچہ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں امریکہ میں اجنبی بنادیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ میں درس و تدریس تک محدود ہیں اور امریکہ کے ممتاز ابلاغی ذرائع نوم چومسکی کو منہ نہیں لگاتے، حالانکہ نوم چومسکی دنیا کے دو تین اہم ماہرین لسانیات میں سے ایک ہیں۔ لیکن ایڈورڈ اسنوڈن نے مغرب کے تصورِ آزادی کے پورے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔

ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے قومی سلامتی کے نام پر روزانہ اربوں ٹیلی فون کالزسن رہے ہیں۔ ٹیلی فونز پر روزانہ 20کروڑ سے زیادہ پیغامات پڑھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں گفتگوئیں ملاحظہ کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی نگرانی کا مرکز صرف ’’ممکنہ دہشت گرد‘‘ نہیں بلکہ وہ عام امریکیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یورپ کے اہم رہنمائوں اور یورپی پارلیمنٹ کی بھی نگرانی کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے تصورِ آزادی کے دائرے میں پوری دنیا ہی مشتبہ ہے۔ اس دائرے میں نہ کوئی قابلِ احترام انسان ہے، نہ قابلِ احترام امریکی، نہ قابلِ احترام یورپی۔ اس سلسلے میں امریکہ پر زبردست تنقید ہوئی تو بارک اوباما نے ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ امریکہ کی آزادی کی جدوجہد کے ایک مرحلے پر امریکہ کا ایک شہری پال ریوٹر اور کئی اور افراد رات کے وقت سڑکوں پر پہرہ دیتے تھے اور جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا تھا کہ قابض برطانوی فوجی امریکہ کی جنگِ آزادی لڑنے والوں کے خلاف کچھ کرنے والے ہیں وہ اس کی اطلاع متعلقہ افراد کو دیتے تھے۔ اوباما کے اس تبصرے پر بعض امریکیوں نے انہیں یاد دلایا کہ ہماری تاریخ کا زیادہ اہم اور نمائندہ واقعہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے 1774ء میں اُس وقت کے برطانوی بادشاہ جارج سوئم سے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا کہ برطانوی فوجیوں کو امریکیوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی لینے اور کسی بھی چیز کو قبضے میں لے لینے کے غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی مزیدار ترین بات یہ ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکے ہیں جس میں انہوں نے خفیہ نگرانی کے ذریعے امریکہ کے خلاف کسی اقدام کا پتا لگایا ہو اور اس کی روک تھام کی ہو۔ امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام پر یورپی رہنما بھی چیخے تو مغرب کی آزادی کے دھوکے کا ایک اور پہلو سامنے آیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے زیربحث مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کو کسی شخص کے فون ٹیپ کرنے سے پہلے خفیہ نگرانی کی متعلقہ عدالت سے اس کی اجازت لینی چاہیے۔ تاہم اوباما کی اس تقریر کے حوالے سے ناقدین نے انہیں یاد دلایا کہ مذکورہ عدالت ایک خفیہ عدالت ہے اور اس نے آج تک نگرانی کے سلسلے میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی ایک درخواست بھی مسترد نہیں کی ہے۔ امریکہ کی خفیہ نگرانی کے حوالے سے طوفان برپا ہوا تو امریکہ کے صدر نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے معاملات میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ان اصلاحات کا یہ پہلو سب سے اہم ہے کہ اگر ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کو ساری دنیا کے سامنے پیش نہ کیا ہوتا تو امریکہ کا صدر نیشنل سیکورٹی کے ادارے میں اصلاحات پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص مغربی دنیا کی سب سے بڑی علامت امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کھیل کھیل رہا ہے اس کی فکری بنیاد کیا ہے؟

20 ویں صدی میں ریاست کی طاقت اور شہریوں کی زندگی میں اس کی مداخلت کو دیکھتے ہوئے خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کہیں ریاست خود کو خدا نہ سمجھنے لگے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے تیسری دنیا میں بھی صورت حال اچھی نہیں، لیکن مغرب کی نام نہاد فلاحی ریاست نے کمیونزم کا خطرہ ٹلتے ہی نہ صرف یہ کہ شہریوں کو فراہم کی گئی بہت سی مراعات واپس لینی شروع کردیں‘ بلکہ اس نے اپنے شہریوں کی سب سے بڑی متاع یعنی آزادی پر بھی حملہ کردیا۔ مذاہبِ عالم میں خداکے حاضر و ناظر ہونے کا تصور موجود ہے اور امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کی وسعت کو دیکھ کو آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس روئے زمین پر حاضر وناظر خد اکا قائم مقام بننے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ صرف سامنے موجود اطلاع پر گزارا کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ کروڑوں انسانوں کے دل و دماغ بھی پڑھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی اس ’’خدائی خواہش‘‘ کو اس کے مالی وسائل کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک حد تک سہی، حقیقت میں ڈھال دیا ہے، لیکن ریاست کی اس خدائی نے نجی زندگی اور آزادی کے تصور کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ مغرب میں ریاست کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ طاقت بجائے خود اخلاقیات بن گئی ہے اور اس کے ساتھ وہی تقدس وابستہ ہوگیا ہے جو اخلاقیات ہی کا حق ہے۔ لیکن یہ اس صورتِ حال کی واحدفکری بنیاد نہیں ہے۔

  انسانی تاریخ میں انسان کے مخصوص تصور نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی معاشرہ دل سے اس بات کا قائل ہوکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، کائنات کا خلاصہ ہے، ایک اخلاقی وجود ہے تو وہ اسی اعتبار سے انسانوں کی ساتھ سلوک کرے گا۔ لیکن اگر کسی تہذیب اور کسی معاشرے میں یہ خیال جڑ پکڑ جائے کہ انسان محض ایک سیاسی یا معاشی حیوان ہے، ایک مفاد پرست وجود ہے تو پھر انسان کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی نوعیت یکسر بدل جائے گی۔ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس کی پشت پر انسان کا مخصوص تصور موجود ہے۔ اس تصور میں انسان غیر ذمے دار ہے، ناقابلِ اعتبار ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کا یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک جانب وہ جدید تہذیب کی بلند ترین علامت ہے، اور تہذیب کی بلند ترین سطح انسان کو آزاد کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ انسانوں کی بنیادی آزادیوں کے درپے ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ رویہ تہذیب کی پست ترین علامت ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔

مغربی تہذیب اور اس کی سب سے بڑی علامت کا ایک تضاد یہ ہے کہ یہ تہذیب ایک جانب خود کو ’’عالمگیر‘‘ کہتی ہے اور دوسری جانب وہ مسلمانوں کو کیا اہلِ یورپ، یہاں تک کہ اہلِ امریکہ کو بھی اپنا ’’غیر‘‘ سمجھتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو امریکہ کے خفیہ ادارے صرف ’’دہشت گردوں‘‘ کی نگرانی کررہے ہوتے… کروڑوں امریکی اور یورپی باشندے ان کی زد میں نہ ہوتے۔

شاہنواز فاروقی

Double Standards of western world

0 comments: