Showing posts with label Pakistan Peoples Party. Show all posts

سدا بہار باغی......


سنہ 1972 کے اوائل میں نوجوانوں کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس لاہور میں گھس گیا، یہ سمن آباد کے علاقے سے مبینہ طور پر حکومتی عہدیدار کی جانب سے دو لڑکیوں کو اغوا کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔

اس ہجوم کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا جو اس وقت صدر مملکت تھے  جبکہ ان کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ایک برطانوی وزیر تھے۔
مظاہرین کے قائدین میں سے ایک جاوید ہاشمی نامی نوجوان بھی شامل تھا جس نے پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن اسلامی جمعیت طلباءکی حمایت کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد جیتا تھا۔

دو برس بعد جاوید ہاشمی نے ایسا ہی اقدام بنگلہ دیش کو بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے پر ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے اس وقت کیا، جب لاہور اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا تھا۔
وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حکومت مخالف بینرز اٹھائے تمام تر سیکیورٹی انتظامات کو توڑ کر سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے موٹرکیڈ کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

ان دونوں واقعات کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات' ہاں میں باغی ہوں  میں کیا ہے، اب انہوں نے اپنی جماعت کے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔
کیا گورنر ہاﺅس لاہور پارلیمنٹ کی طرح ریاست کی علامت نہیں اور کیا غیر ملکی معزز مہمان کے سیکیورٹی انتظامات کو توڑنا وزیراعظم ہاﺅس کے گرد پہنچنے سے کم اہم ہے؟ مگر جاوید ہاشمی جب کسی مقصد پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس طرح کے فرق کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ اسے کسی بھی طریقے سے بھٹو حکومت کو چیلنج کرنا ہے تو اس سے جو ہوسکا اس نے کیا، اس کا ماننا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا تو جو اسے مناسب لگا اس نے کیا۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے اسلامی کانفرنس سے چند ماہ قبل اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ریلی کو اسی مقصد کی وجہ سے کتنی کامیاب سے سبوتاژ کیا تھا۔
تو یہ بات واضح ہے کہ اب وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا جو عمران خان حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاوید ہاشمی کے نظریات ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں کی سیاسی زندگی کے دوران وہ اختیار کرچکا ہے۔
یہ نظریات تین بنیادوں پر قائم ہیں، فوجی آمریت پر انتخابی جمہوریت کی بالادستی، اختلاف رائے اور اپنے سیاسی اقدامات کے نتائج کی پروا نہ کرنا۔

بغاوت کا مقدمہ

کچھ استثنیٰ سے قطع نظر یہ وہ سیاسی اصول ہیں جو جاوید ہاشمی نے اختیار کررکھے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال اس کی جانب سے 2003 میں فوجی طاقت پر سویلین بالادستی کا بہادرانہ دفاع اس کی گرفتاری کا باعث بنا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ فوج میں تقسیم ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگلے ساڑھے تین سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی۔

مشرف حکومت نے یہ مقدمہ ایک خط کی بنیاد پر چلایا جو جاوید ہاشمی نے سب کے سامنے پیش کیا تھا جو چند جونئیر عہدیداران نے لکھا تھا اور اس میں فوجی حکومت کے کچھ سنیئر اراکین پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جاوید ہاشمی کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اسے کبھی یہ خط عوام کے سامنے پیش کرنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوا۔
اسی طرح اس کی جانب سے شریف برداران کے جلاوطنی اختیار کرنے اور متعدد اہم رہنماﺅں کے مشرف کیمپ میں شامل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر بننے کے لیے تیار ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ مشکل ترین اوقات میں بھی جمہوریت کے لیے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے سدا بہار باغی کی مضبوط حیثیت تعمیر کی، وہ اپنی سوچ کے مطابق بولتا ہے چاہے کیسے نتائج یا حالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس نے ہر اس وقت مخالفت کا اظہار کیا جب اسے لگا کہ اتھارٹی کی جانب سے ٹھیک کام نہیں کیا جارہا، اور اس کے لیے یہ پروا کبھی نہیں کہ اتھارٹی میں شامل افراد اس کی اپنی جماعت کے سربراہان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف اور حکمران جماعت نواز لیگ کے متعدد سنیئر اراکین اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح جاوید ہاشمی پارٹی اجلاسوں میں پارٹی قیادت سے اپنے تعلقات پر اثرات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جاوید ہاشمی نے کبھی غلطیاں نہیں کیں، 1978 میں 29 سال کی عمر میں وہ جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ کے نوجوان ترین وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔
تاہم بعد میں وہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا، اپنی کتاب میں اس نے وضاحت کی ہے کہ وہ کبھی اس وزارت کو لینے کے بعد مطمئن نہیں رہا اور وہ جلدازجلد اس سے مستعفی ہونا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1993 میں جب اسے لاہور سے محفوظ نشستوں کی پیشکش کی جارہی تھی تو اس نے ملتان سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے پر اصرار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ محمود قریشی نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یوسف نامی ایک ایڈووکیٹ سے پیسے لینا تھا۔
یوسف نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ یہ رقم یونس حبیب کی تھی جو کہ مہران بینک کا صدر تھا، جسے انٹیلی جنس عہدیدران نے 1990 میں پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ لگانے کا ٹاسک دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات میں اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی اپنی سیاست سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہٰں کرے گا، اس نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہ رقم کاروبار کے لیے بطور قرضہ لی تھی جسے اس نے واپس لوٹا بھی دیا تھا۔
تاہم ان الزامات نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جب اس نے دسمبر 2011 میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پرانے سیاسی ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی جانب سے ایک قریبی رشتے دار کو بطور انتخابی امیدوار نامزد نہ کرنے پر جاوید ہاشمی برہم تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی اس لیے ناخوش تھا کیونکہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف بننا چاہتا تھا مگر یہ عہدہ چوہدری نثار علی خان کو دے دیا گیا۔
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کا حقدار تھا کیونکہ مشرف دور میں، جب بہت کم سیاستدان کسی بھی سطح پر ن لیگ کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے، اس نے پارٹی کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔
جاوید ہاشمی لگتا ہے کہ اپنی سیاسی راست گوئی کو نہیں کھویا، اور اس نے اپنے یقین کے مطابق بولنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا، جبکہ جمہوریت اور اداروں سے محبت بھی جاری رکھی۔

اسے اپنے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی سے اخراج کے بعد اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے گا، جس کا وہ ابھی بھی شدید ناقد ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے آپشن کی بات ہے تو یہ بالکل ناممکن لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے پورے کیرئیر میں اس جماعت کا شدید مخالف رہا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں جاوید ہاشمی نے خلفیہ دوم حضرت عمرؓ کا قول درج کیا ہے" تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟، وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح آزاد ہے۔
کوئی چیز یا ایسا نظریہ جس پر اسے یقین نہیں اسے کسی پارٹی کا قیدی نہیں بناسکتا، عمران خان کو جاوید ہاشمی کو اپنی پارٹی میں لینے سے پہلے اس کو جان لینا چاہئے تھا۔

حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....


پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کور کمانڈرز کانفرنس نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔‘
مبصرین اس بیان کا مطلب یہ لے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ملک میں جاری سیاسی بحران میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے اس بیان کے بعد بھی فریقین ابھی تک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے استعفٰے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
عرفان صدیقی وزیراعظم کے ان چند معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے وزیراعظم مسلسل رابطے اور مشورے میں رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اس اجلاس میں بھی شامل تھے جس میں اس بحران پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے نائب سربراہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو اتوار کی شام بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات فی الحال خارج از امکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے کے علاوہ کوئی اور تجویز ان کی جماعت کو احتجاج سے نہیں روک سکے گی۔
اگر حکومت احتجاجی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکے اور اس کے پاس مظاہرین کو وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بھی موجود نہ ہو تو اس کے پاس کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟

یا تو مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کی رٹ کا بالکل خاتمہ، یعنی ملک میں حکمرانی کا سنگین بحران اور دوسرا نواز شریف کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے پر بات چیت۔
حکومت اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سے اپنے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔

آصف فاروقی

 

۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں.......


دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہز ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے میری ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔

ہمارے دوست سلمان آصف کے فیس بک پیج پر لگی ایک تضمین کے مطابق ،

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
ریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے

جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔

اگر زندگی دھرنا فری ہوتی تو بہت سی ایسی خبریں بھی ریڈار پر چمک سکتی تھیں جن پر دھرنا پورے وزن کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔جیسے شمالی وزیرستان کا آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں میڈیا اور ناظرین و قارئین کے ذہن سے دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں۔اب تو آئی ایس پی آر نے بھی فوجی آپریشن پر روزانہ کا مختصر سا پریس ریلیز جاری کرنا بند کردیا ہے۔جب نشر اور شایع ہی نہیں ہونا تو خامخواہ کاغذ ضایع کرنے کا فائدہ۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں نامعلوم افراد کی اجتماعی قبروں کی جانچ کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میںذمے داروں کے تعین میں ناکامی کی خبر اگر عام دنوں میں سامنے آتی تو کم ازکم دو تین روز ضرور نشریاتی اور چائے خانی چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن یہ خبر بھی ریٹنگ کی اجتماعی قبر میں دفن ہو کے رہ گئی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی دستوں کے درمیان جھڑپیں اور آپریشن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ پر ناکام حملہ ہوچکا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی خبر دھرنے سے بڑی نہیں۔

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی پاکستانی سفارت کاروں سے معمول کی ملاقات کو جواز بنا کر خارجہ سیکریٹریوں کا مجوزہ اجلاس یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔خود بھارت کے اندر مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔

کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کام کررہی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظات ختم کرکے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی بھی تیاری جاری ہے۔عام دنوں میں یقیناً پاکستان میں سرکاری و نجی سطح پر اس پیش رفت کی بابت کچھ نہ کچھ بحث و مباحثہ ضرور ہوتا مگر دھرنا۔۔۔۔۔

انھی دنوں میں ہونے والے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے بھی آگے بڑھا دیے گئے۔ چین کے اعلی سطح کے وفد نے بھی پہلے بستر بند باندھا پھر یہ کہتے ہوئے دوبارہ کھول دیا کہ تسی دھرنیاں تو نبڑ لوو ساڈی خیر اے۔

صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔
لگتا ہے ڈی چوک کے باہر پورے پاکستان میں خیریت ہے۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں۔دھاڑی مزدوروں کے پاس اچانک سے اتنا کام آگیا ہے کہ ان کے نخرے ہی نہیں سما رہے۔سچ ہے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔

مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ حالات پکی سڑک کی جانب جارہے ہیں کہ کسی ایسی پگڈنڈی پر چڑھ چکے ہیں جو گھنے جنگل میں جا کر کہیں گم ہوجائے گی۔مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک جو بھی کچھ ہوا اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہے۔گولیاں اگر چل بھی رہی ہیں تو منہ سے۔سینے چھلنی بھی ہو رہے ہیں تو طعنوں سے۔تصادم ہو بھی رہا ہے تو فیس بک اور ٹویٹر کے ہتھیاروں سے۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پرائی آگ پر ہاتھ تاپنے اور کیک میں سے اپنا حصہ لینے سے زیادہ کیک بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔چیخنے والے بھی مارشل لا کے خلاف ہیں اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھنے والے بھی مارشل لا نہیں چاہتے۔خود مارشل لا والے بھی مارشل لا کی نوبت سے بچنا چاہتے ہیں۔مخالفین ایک دوسرے کو زخمی ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی کسی کو مارنا نہیں چاہتا۔دل میں البتہ یہ خواہش ہے کہ سامنے والے کو پھانسی لگ جائے لیکن رسے سے نہیں بلکہ خودکشی کے دوپٹے سے۔

اس سے بھی زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ پاکستان نہیں چاہتا۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔اگر بن گیا تو سینتالیس کے جناحی، اٹھاون کے ایوبی، اکہتر کے ذوالفقاری، ستتر کے ضیائی اور ننانوے کے مشرفی پاکستان کے بعد یہ چھٹا نیا پاکستان ہوگا۔لیکن اگر چھٹے پاکستان میں بھی گذشتہ پاکستانوں کی طرح بیڈ روم فوج ، ڈرائنگ روم پنجاب ، باورچی خانہ سندھ ، دالان خیبر پختون خواہ ، واش روم بلوچستان اور چھت گلگت بلتستان اور فاٹا کو الاٹ ہوئی تو پھر ساتویں پاکستان کا نقشہ بھی ابھی سے تیار رکھیں۔۔۔

وسعت اللہ خان

 

سول نافرمانی کا اعلان......Imran Khan calls for civil disobedience


 جب لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو عقل و خرد پر مبنی تجزئیے پس پشت چلے جاتے ہیں، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبوں کے سیلاب میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے''۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ، مطالبات اور طرز عمل کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے مگر چار روز سے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کاروں کا انداز فکر کیا ہے؟ اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔

یہ دعویٰ اور خواہش اپنی جگہ کہ فلاں، فلاں اتنا بڑا ہجوم اسلام آباد میں لا بٹھائے تو کیا ہو؟ مگر سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کی دو شاہراہوں پر علامہ اور کپتان کے پرجوش، پرعزم ا ور ثابت قدم کارکنوں کا قبضہ ہے۔ دونوں لیڈر دس لاکھ افراد اکٹھے نہ کرسکے مگر ان کی موجودہ جمع پونجی بھی مایوسی، اضطراب اور جذبات کی رو میں بہہ کر ریڈ زون کا ’’تقدس‘‘ پامال کرنے اور موجودہ سیاسی بندوبست کا تیا پانچہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ماڈل ٹائون جیسا کوئی انسانی المیہ رونماہوا تو مداخلت سے ہر قیمت پر گریز کی علمبردار قوتوں کو اپنا فرض ادا کرنے پڑیگا جس کا احساس سراج الحق، خورشید شاہ اور الطاف حسین کو تو شاید ہے مگر جن کا سب کچھ دائو پر لگا ہے انہیں نہیں یا کم ہے ورنہ چار روز سے بے نیازی دیکھنے کو نہ ملتی۔

عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان میری ناقص رائے میں نہ کوئی غیر سنجیدہ حرکت ہے نہ دھرنے سے جان چھڑانے اور چھوٹی موٹی رعایت لے کر پسپا ہونے کی باعزت تدبیر۔ یہ کور کمیٹی میں طویل بحث مباحثے کا نتیجہ اور موجودہ سیاسی نظام سے چمٹے رہنے کے خواہش مند اپنے ساتھیوں کو احتجاج کے سمندر میں دھکا دینے کی چال ہے۔

بجا کہ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا ،صنعتکاروں ، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی موثر تائید و حمایت اسے حاصل نہیں اور عام آدمی بھی بجلی، گیس کا بل نہ دے کر گھر کا کنکشن کٹوانے کا متحمل نہیں۔1977ء میں پی این اے نے سول نافرمانی کا اعلان احتجاجی تحریک کے دوران اس وقت کیا جب کاروبار ریاست عملاً معطل تھا اور حکومت مفلوج و بےبس عوام لیڈر شپ کی بات ماننے پر تیار اور بھٹو کی ظالمانہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب صنعتکاروں ، تاجروں اور سرکاری ملازمین کی اکثریت سول نافرمانی پر آمادہ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس اعلان سے حکومت کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور بین الاقوامی برادری ایک معقول لیڈر کی طرف سے جو امریکہ و یورپ میں بھی جان پہچان رکھتا ہے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدگی سے لے گی۔ سرمایہ کار بھی حکومت کی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ اسی تناظر میں منسوخ ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات واضح ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حامی اور حکومت کے مخالف صنعتکاروں ،تاجروں اور سرمایہ کاروں کا طرز عمل بھی فیصلہ کن ہو گا‘‘ خیبر پختونخوا کی حکومت نے وفاقی محاصل اور بجلی و گیس کے بل کی وصولی سے انکار کردیا تو میزائیے کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام وزارت خزانہ کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی اور قومی معیشت کا خسارہ 500 ارب سے کئی گنازیادہ ہو گا۔ 500 ارب روپے خسارے کا تخمینہ حکومتی اکابرین پیش کر رہے ہیں۔

یہ اعلان تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش بھی ہے لوگوں کو سرکاری ٹیکس، بجلی گیس کے بل نہ دینے کا اعلان کر کے اخلاقی اور قانونی طور پر خیبر پختونخوا کی حکومت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حکومتی محاصل اور بل ادا کرنے سے انکار مگر خود قومی خزانے سے تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے رہنا وہ دو عملی ہو گی جو عمران خان کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اب فی الفور اسمبلیوں سے استعفے اور کے پی کے حکومت کے خاتمے میں تحریک انصاف کی بچت ہے شاید عمران خان نے یہی مقصد حاصل کرنے کے لئے کور کمیٹی سے ذو معنی فیصلہ کرایا اور پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کو ناک آئوٹ کر دیا۔

میاں نواز شریف، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان تینوں ان دنوں حالات کے جبر کا شکار ہیں اور ایک ایسی اعصابی جنگ میں مصروف جو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کے زخم خوردہ ہیں اور ان کے کسی دعوے، یقین دہانی پر اعتبار کرنے سے قاصر۔ جو پوزیشن یہ دونوں لے بیٹھے ہیں اس سے پیچھے ہٹنا ان کے لئے سیاسی خود کشی ہے ہر گزرتے دن اور لمحے کے ساتھ یہ مصالحت اور مفاہمت کے عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ قوت برداشت ، توازن و اعتدال اور آئین و قانون کی پابندی سے عاری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کی سڑکوں پر قابض سیاسی و مذہبی کارکن نامہربان موسم، مسلسل بے آرامی، حکومت کی سرد مہری اور دانشوروں کی طرف سے طنز و تضحیک کے سبب کسی وقت بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

کارکنوں کا زیادہ دنوں تک قیام اور عمران و طاہر القادری کے دھرنوں کا ایک دوسرے میں ادغام موجودہ سٹیٹس کو کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے مگر تاحال حکومت کمیٹیوں کی تشکیل میں مصروف ہے اور اس کے وزراء اپنے بیانات کے ذریعے لانگ مارچ کے قائدین اور شرکاء کو اشتعال دلانے میں مشغول ۔کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ سڑکوں پر گوشت پوست کے انسان بیٹھے ہیں فولادی مجسمے نہیں کہ زبان کے زخم سہتے رہیں گے اور کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کریں گے۔ اب تک حکومت نے اپنے تساہل پسندانہ رویے، ناقص طرز حکمرانی اور اپوزیشن کے مطالبات سے چشم پوشی و بے نیازی سے بگاڑ کی راہ ہموار کی مگر اب غلطی کی گنجائش نہیں اور کسی غیر آئینی و غیر جمہوری اقدام کی راہ روکنا اس کی ذمہ داری ہے اور تاخیر نقصان دہ ہوگی۔

 مارشل لاء کے نفاذ کے بعد برطانوی اخبار ''ڈیلی ٹیلیگراف'' نے لکھا  مسٹر بھٹو کو جو ملک کے واحد سربرآوردہ سیاستدان ہیں اس کارروائی کا الزام قبول کرنا چاہئے۔ اپوزیشن والے تو سارے کے سارے کمزور لوگ تھے انہیں بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاسکتا تھا''۔ 6 جولائی 1977ء لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو تجزیوں اور تبصروں کی نہیں عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبات میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے مگر کوئی سمجھے تو!

ارشاد احمد عارف
بہ شکریہ روزنامہ ''جنگ 

Imran Khan calls for civil disobedience

مسلم لیگ نواز کدھر ہے.......


پچھلے ہفتے کے بعد سے حیران کن واقعات جن میں چند ایک بالخصوص حیرت انگیز ہیں۔ احتجاجی دھرنوں اور ان کے ساتھ منسلک مقاصد کے حصول کے لیے اپنایا جانے والا لائحہ عمل ان میں سے ایک ہے۔ تشدد کے پیٹ سے جمہوریت کا دھیما بچہ کیسے جنم لے گا۔ تاریخ اور دنیا بھر میں موجود تحقیق اور دانش مندی اس پر جو رائے رکھتی ہے تحریک انصاف اور حضرت قادری خود کو اس پر بھاری سمجھتے ہیں۔

تحریک انصاف دس لاکھ کے بجائے چند ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کیوں پہنچی۔ ڈاکٹر قادری کو کینیڈا سے کس چیز نے دوسری مرتبہ پاکستان کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ ان دونوں واقعات کا آپس میں تعلق نہ بھی ہو تب بھی جس تیزی سے انھوں نے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا وہ بھی حیرانی کا باعث ہے۔
عمران خان ایک ہزار سے زیادہ نشستوں پر مبنی انتخابات میں سے دو شریفوں کو گریبان سے پکڑ کر کس قاعدے کے تحت نکالیں گے کہ وزیر اعظم کی کرسی بھی خالی ہو جائے اور نظام مکمل درہم برہم اور تباہ بھی نہ ہو۔ یہ حیرت کا پہلو بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ عین ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں کچھ اور اوسان خطا کر نے والے واقعات رونما ہو چکے ہوں۔ عمران خان ریڈ زون کو پار کرنے کی دھمکی پر عمل درآمد بھی کر سکتے ہیں۔ مگر حالات جس طرف جا رہے ہیں اس میں سے فساد کے بغیر کوئی خاص نتیجہ برآمد ہونے کی امید کم ہے مگر سب سے بڑی حیرانی مسلم لیگ نواز کی سیاسی نااہلی ہے۔
یہ بات میں کئی کالمز میں بیان کر چکا ہوں کہ جو حکومتیں بہترین کارکردگی پر بجا طور پر فخر کرتی ہیں وہ سیاسی چیلنجز کو احسن طریقے سے نمٹا لیتی ہیں۔ نواز لیگ نے 2013 کے انتخابات کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کی کھدائی کے بجائے عوامی فلاح کے حقیقی منصوبے بنائے ہوتے تو آج ان کے قدم گڑھے کے کنارے پر نہ تھرتھراتے۔ لیکن سیاسی طور پر ناقص کارکردگی سے بڑھکر حماقت مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت غیر فعال کرنا ہے۔

یہ جانتے بوجھتے ہوئے یا اس انداز کا نتیجہ ہے جو نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنایا۔ شاید یہ دونوں عناصر نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہو مگر حاصل ایک ہی ہے۔ نواز لیگ اس مشکل وقت میں بطور سیاسی جماعت آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ایک غیر معمولی پہلو ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو جب بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اپنی جماعتوں کو بطور فصیل استعمال کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات اور بدعنوانی کے الزامات پر پیپلز پارٹی جماعتی قوت کو بروئے کار لا کر ان کے لیے تحفظ کا باعث بنی۔

وہ ایک طاقت ور صدر تھے مگر جب حالات خراب ہوئے تو جماعت آگے اور وہ پیچھے تھے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین پر حالیہ مشکل وقت میں ان کے لیے سب سے موثر سیاسی ہتھیار ثابت ہوئی۔ پاکستان میں احتجاج ہو یا اپنے قائد کے نقطہ نظر بیان کر نے کا معاملہ ہر جماعت کے ممبران وہ چپو فراہم کرتے ہیں جن کے ذریعے کشتی مشکل پانیوں میں سے نکالی جا سکتی ہے۔ وہ عسکری آمر جو طاقت کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں سیاسی منجدھار میں پھنسنے کے بعد جماعتوں کو ڈھال بناتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک جماعت بنانی پڑی۔

جنرل مشرف کے لیے ق لیگ کارآمد ثابت ہوئی۔ ضیاء الحق کے لیے جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں کارآمد سیاسی اثاثہ بنی۔ پاکستان تحریک انصاف کا لائحہ عمل اس دیرینہ حقیقت کی ایک اور بڑی مثال ہے۔ اپنی تمام تر مقناطیسی شخصیت اور قد کاٹھ کے باوجود عمران خان کو اپنی سیاسی قوت بڑھانے کے لیے تحریک انصاف کو بنانے اور بعد میں نشو و نما دے کر ایک ایسے قلعہ میں تبدیل کرنا پڑا جس میں وہ اب بیٹھ کر اپنے مخالفین پر حملے بھی کر سکتے ہیں اور وزیر اعظم بننے کی دیرینہ خواہش کو پورے کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کر سکتے ہیں۔ افراد یا گروہ چاہے کتنے ہی طاقت ور ہوں سیاسی پلیٹ فارم ان کی بنیادی اور سب سے اہم ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ مرکزی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلائے کئی سال ہو گئے ہیں۔ وہ پچاس ممبران جو اصولی طور پر اس جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں پاکستان کے ہر حصے میں ہر کسی سے مل کر شکایتیں کرنے اور خاموشی سے منہ بسورے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی شکایت ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو جماعت سے اتنا دور کر دیا ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ ان سے اتنے دور لگتے ہیں کہ وہ پاکستان سے دور ہوں۔

وہ مشاورت جو کسی زمانے میں جماعت کے اندر مختلف معاملات پر سامنے لانے کا بندوبست کرتی تھی اب کور کمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ کور کمیٹی کے اراکین اسحاق ڈار، پرویز رشید، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور کبھی کبھار چوہدری نثار وہ لوگ ہیں جو وزیر اعظم سے ویسے ہی ہر وقت ملتے رہتے ہیں۔ مگر وہ مشورے جو قریبی پیاروں سے ہٹ کر بطور سیاسی لیڈر نواز شریف صاحب کو سننے چاہئیں اب صرف نجی محفلوں میں گپ شپ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف سیاسی میدان میں ہونے کے باوجود نہتے کھڑے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ہر دوسرے لمحے ان کو گھروں سے نکال کر ملک سے بھگا نے کی بات ہوئی ہے اور اس کا جواب صرف ٹی وی ٹاک شوز پر سننے میں آتا ہے۔ سیاسی کارکن اور درمیانی قیا دت گوجرانوالہ میں مخالفین پر پتھر مار کر اپنا غصہ نکالنے پر مجبور ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے لیڈر سے دور پرے پہاڑ پر کھڑے ہو کر اس کی درگت بنتا ہوا دیکھ رہی ہے۔

یہ ناممکن ہے کہ میاں نواز شریف کو پارٹی سے حاصل کردہ تحفظ کی اہمیت کا احسا س نہ ہو مگر اپنی جماعت کو اس کے باوجود سرد خانے میں ڈال کر بے جان کر دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یا تو میاں نواز شریف، عمران خان کی طرف سے پھینکے جانے والے پتوں کی کاٹ اور اثرات کو بھانپ نہیں رہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ ظاہرا ان کے اچھے تعلقات کے بعد ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ یا پھر عمران خان کی دھمکیوں کو محض بڑھکیں سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ یا پھر وہ اس مرتبہ اپنے اقتدار کو سیاسی کیریئر کی آخری قسط سمجھ کر طاقت میں رہنے یا نہ رہنے کی فکر سے آزاد ہو چکے ہیں۔

وجہ جو بھی ہو مسلم لیگ نواز غیر متحرک، غیر فعال اور سیاسی طور پر منجمد ہو چکی ہے۔ قیادت کور کمیٹی کو اپنا بہترین اور واحد اثاثہ سمجھ کر فیصلہ سازی اور مشاورت 8۔10 ہاتھوں تک محدود کر بیٹھی ہے۔ عمران خان کی طرف سے بنائے ہوئے گھیرے کا حلقہ اگر تنگ ہوتا جا رہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگ کی بطور سیاسی جماعت موجودہ کیفیت ہے۔ ان حالات میں اگر نواز شریف اور شہباز شریف کو بڑا دھچکا لگا تو بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ان کی مدد کو نہیں آ پائے گی کہنے کو عمران خان کی مہم جوئی نواز شریف کی حکومت کے خلاف ہے مگر اس تمام معاملے میں مسلم لیگ نواز نامی جماعت کی غیر موجودگی نے اسکو دو افراد پر مرکوز کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف سے اپنے لیے اپنی جماعت کو ’’کھڈے لائن‘‘ لگا کر کھڑا کیا ہے۔

Talat Hussain

The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں


The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

14 اگست کو کیا ہو گا ؟


نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات جانتی ہے لیکن بزرگوں کا کہنا ہے کہ بری نیت انسان میں خوف پیدا کر دیتی ہے اور خوفزدہ انسان اکثر اوقات غلط فیصلے کر ڈالتے ہیں۔ اگر حکمران خوفزدہ ہو جائیں تو ان کے غلط فیصلوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔ اکثر حکمران اپنے غلط فیصلوں کو آئین کے عین مطابق قرار دیتے ہیں لیکن نیت کی خرابی کے باعث درست آئینی فیصلے بھی منفی سیاسی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں فوج کو بلانا آئینی لحاظ سے ایک درست فیصلہ ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا ایک غلط سیاسی فیصلہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت فوج کے ذریعہ 14 اگست کو اسلام آباد میں عمران خان کے آزادی مارچ کو روکنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے وزرا کا دعویٰ ہے کہ فوج کو بلانے کا فیصلہ عمران خان کے آزادی مارچ کے اعلان سے بہت پہلے کر لیا گیا تھا اور یہ کہ فوج کو بلانے کا اصل مقصد وفاقی دارالحکومت کو 
دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو بلانے کا اصل مقصد دہشت گردی کے خطرات
 سے نمٹنا ہے تو پارلیمینٹ کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ وہ جماعتیں جو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں انہیں اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ غلط کیوں نظر آ رہا ہے؟ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے فوج کو غلط نہیں کہہ رہے بلکہ فوج کو بلانے والوں کی نیت پر شک کر رہے ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعہ دفعہ 245 میں یہ شق شامل کی کہ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے دوران وفاقی حکومت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر سکتی ہے ۔ یہ آئینی ترمیم 21 اپریل کو منظور ہوئی اور چند دن کے بعد لاہور میں قومی اتحاد کے جلوسوں کو روکنے کیلئے فوج کو طلب کر لیا گیا ۔ قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف تحریک چلائی جا رہی تھی ۔25 اپریل 1977ء کو قومی اتحاد میں شامل ایک جماعت کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے ایک خط جاری کیا جس میں فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے لہٰذا ایک غیر قانونی حکومت کی حفاظت کرنا فوج پر لازم نہیں۔ پھر جب لاہور میں ایک جلوس روکنے کیلئے فوج کو فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی افسران نے فائرنگ سے انکار کر دیا۔ اس بحران کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا اور یہی وہ مارشل لا تھا جس کے منفی نتائج آج بھی بھگتے جا رہے ہیں۔

1977ء میں دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا آئینی طور پر درست فیصلہ تھا لیکن اس درست آئینی فیصلے کے سیاسی نتائج غلط تھے ۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور نواز شریف حکومت کی مخالف کچھ جماعتوں نے انکی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 245 کا نفاذ انہیں روکنے کی کوشش ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام آباد کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے بچانے کا تاثر بھی دیدیا اور اگر 14 اگست کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری سے بچ نکلنے کا راستہ بھی تلاش کر لیا ۔ تاہم یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ 245 کے اختیار کا مطالبہ خود فوجی قیادت نے کیا تھا کیونکہ یہ اطلاعات ملی تھیں کہ رمضان المبارک کے اختتام پر ملک کے اہم شہروں میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ عمران خان انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے بلکہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں ۔یہ خاکستار پرویز رشید صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہے کہ تختہ الٹنا ایک غیر سیاسی اور غیر آئینی اصطلاع ہے۔ تختہ الٹنے کا مطلب ہے مارشل لا لگانا لیکن عمران خان ایک سے زائد بار مارشل لا کی مخالفت کر چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے کچھ سیاسی اتحادی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے درپے ہیں لیکن عمران خان کو مارشل لا کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

عمران خان کی طرف سے 14 اگست کے دن اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کی ٹائمنگ اور ان کے مطالبات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن عمران خان سے مارشل لا کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ مارشل لا نواز شریف کو ایک نئی سیاسی زندگی اور عمران خان کو سیاسی موت سے ہمکنار کرے گا ۔ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دیکر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے ۔نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ یہ اصلاحات صرف اور صرف منتخب پارلیمینٹ کے ذریعہ ممکن ہیں ۔تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ 14 اگست کے دھرنے کا اختتام انتخابی اصلاحات کے ایک پیکج پر کر دیا جائے تو یہ بہت بڑی سیاسی کامیابی ہو گی ۔ پھر پارلیمینٹ کو چھ ماہ یا ایک سال کا ٹائم فریم دیا جا سکتا ہے اس عرصے میں انتخابی اصلاحات نہ ہوں تو پھر ایک زوردار تحریک چلائی جا سکتی ہے جس میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اہم جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔

اتوار کی صبح تحریک انصاف کے ایک رہنما نے ناشتے کی میز پر کہا کہ ملک میں مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟فرمانے لگے کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف مارشل لا کو سپورٹ نہیں کرے گی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پروفیشنل سولجر ہیں وہ اپنی وردی پر سیاست میں مداخلت کا داغ نہیں لگنے دیں گے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ مارشل لا کی توثیق نہیں کریگی۔

میں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کچھ مخالفین کا الزام ہے کہ عمران خان کچھ خفیہ ہاتھوں کے ذریعہ استعمال ہو رہے ہیں اور یہ خفیہ ہاتھ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر عمران خان خفیہ ہاتھوں کا کھلونا ہوتا تو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہوتا ۔ خفیہ ہاتھ جانتے ہیں کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیتا اور اگر وہ وزیر اعظم بن گیا تو ایک دفعہ پھر طالبان سے مذاکرات شروع کر دے گا لہٰذا یہ خفیہ ہاتھ عمران خان کو کبھی وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے ۔ اس دلیل میں کافی وزن تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان آنے والے دنوں میں حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر دیں لیکن اگر حکومت 14 اگست سے پہلے پہلے انتخابی اصلاحات کے پیکج پر تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرنے میں کامیاب ہو جائے اور 14 اگست کو اس پیکج کا اعلان ہو جائے تو یہ یوم آزادی کا بہت بڑا تحفہ ہو گا اور اگر حکومت نے خوفزدہ ہو کر مزید غلط فیصلے کر دیئے تو پھر اس حکومت کیلئے اصل خطرہ عمران خان نہیں بلکہ یہ حکومت اپنے لئے خود خطرہ بن جائے گی ۔

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah - محترمہ فاطمہ جناح….


’’وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت۔ گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظر، سفید بال، ماتھے پر جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال وجمال، چال میں کمال، مزاج میںبڑے آدمیو ں کا سا جلال، سر تا پا استقلال، رفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، صبا اور سنبل کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ۔‘‘

آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔
31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔

محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔

محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔

1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔

قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔

مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔

جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔

قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔

انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔

مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ’’مکتی نیتا‘‘ کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔

مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah

Pakistan's future policy towards Afghanistan by Manzoor Ijaz


 Pakistan's future policy towards Afghanistan by Manzoor Ijaz

Sindh Festival


Sindh Festival
Enhanced by Zemanta