Showing posts with label Russia. Show all posts

Ukrainian tanks stand guard near a field in the village of Debaltseve

Ukrainian tanks stand guard near a field in the village of Debaltseve, in the Donetsk region, eastern Ukraine

یوکرین میں روس اور مغرب کی رسہ کشی


یوکرین میں سابق صدر وکٹریانوکووچ کی جانب سے 21 نومبر کو یوکرین کے ساتھ وابستگی کے معاہدے کی یورپی یونین کی پیشکش ردکیے جانے کے بعد مغربی یوکرین میں حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کی لہر نے شدت اختیار کرلی اور دارالحکومت خیف میں مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارتوں اور دفاتر پر قبضہ کرلیا جس سے حکومت کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ صدر یانوکووچ نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دبائو پر ایسا اقدام کیا جس کے خلاف مغربی یوکرین کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہرچند کہ صدر پیوٹن نے یوکرین کی خستہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اس سے 15 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، تاہم مغربی یوکرین کے عوام مطمئن نہ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روس کے مقابلے میں یورپی یونین کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی پیشکش کو انہوں نے اس تنظیم میں شمولیت کا پیش خیمہ تصور کرلیا جو قرین قیاس بھی ہے۔ جو بات ذرائع ابلاغ نیچھپائی وہ یہ تھی کہ مشرقی یوکرین کے عوام جو روسی نژاد ہیں وہ روس سے قربت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ وہاں کی رائے عامہ نے احتجاج میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ الٹا وہ مغربی یوکرین کے عوام کے احتجاج کو ریاست سے غداری پر محمول کرتے تھے، لیکن چونکہ چھیالیس لاکھ آبادی والی اس ریاست میں یوکرین نژاد باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 73 فیصد ہے، جبکہ مشرقی یوکرین کی روسی نژاد آبادی صرف 22 فیصد ہے، اس لیے وہ اقلیت میں ہیں، لیکن چونکہ یوکرین روس کی قائم کردہ تنظیم Eurasian Union کا رکن ہے لہٰذا اگر وہ اس تنظیم کو چھوڑ کر یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے اندرون ملک روسی آبادی کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف روس بھی مزاحمت کرے گا جیسا کہ صدر پیوٹن کے یوکرین سے روس کی فراہم کردہ گیس کی واجب الادا تین ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یوکرین ہی پر کیا منحصر ہے جرمنی سمیت یورپی یونین کے بیشتر ممالک کا روس کی فراہم کردہ گیس پر دارومدار ہے۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں تیل اور گیس سے یکسر محروم ہیں اس لیے اگر روس یوکرین کو ترسیل کرنے والی پائپ لائن کو منقطع کردے تو یوکرین کی معیشت میں بحران اٹھ کھڑا ہوگا۔ ویسے اقتصادی عوامل کے علاوہ تزویراتی حقائق بھی یوکرین کی روس سے علیحدگی کے خلاف ہیں، کیونکہ بحیرۂ اسود میں روس کا بحری بیڑا ہے جبکہ Sevaste pol روس کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ 1991ء میں روس سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے روس کا بحری اڈہ خالی کرانے پر جب اصرارکیا تو دونوں ملکوں میں بڑی کشیدگی پیدا ہوگئی، بالآخر فریقین نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے 1997ء میں سمجھوتہ کرلیا اور دونوں نے معاہدۂ دوستی پر دستخط کردیے۔

اب اگر یوکرین Eurasian Union ترک کرکے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو کیا روس بحیرہ اسود میں اپنے بحری بیڑے کو برقرار رکھ سکے گا؟ کیونکہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد مغرب کا استعماری ٹولہ یوکرین کو گھسیٹ کر ناٹو میں لے جائے گا، اس طرح ناٹو کا جال روس کی سرحد تک پھیل جائے گا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گورباچوف کے جانشین نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور معاہدۂ وارسا کو تحلیل کردیا، کیونکہ جب اشتراکی اور سرمایہ دار ریاستوں میں نظریاتی تصادم ختم ہوگیا تو دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ گورباچوف اور بورس یلسن کی سوچ تھی، جبکہ ناٹو کے عسکریت پسند اسے تزویراتی تناظر میں دیکھ رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ روس سے کمیونزم ختم ہوگیا تو کیا ہوا، روس تو باقی ہے جو کمیونزم سے قبل زار کے زمانے میں بھی مغربی استعمار کا حریف تھا اور آج بھی ہے، لہٰذا ناٹو کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہیے بلکہ اس کا دائرۂ کار یورپ سے پھیلا کر سارے کرۂ ارض پر محیط کردیا جانا چاہیے۔ یہ محرکات عالمی نظام کی پشت پر کارفرما تھے۔

یوکرین میں آزادی کے بعد جو کچھ ہوا وہ انہی داخلی اور خارجی عوامل کے تصادم کی علامت تھا۔ یوکرین میں دو واضح قوتیں ابھریں۔ ایک یوکرین کو روس سے وابستہ رکھنا چاہتی ہے جبکہ دوسری اسے روس سے ماورا یورپی یونین کے حلقہ اثر میں لے جانا چاہتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح مشرقی یورپ کی سابق اشتراکی ریاستیں پولینڈ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ جارجیا‘ چیک اور سلوواک جمہوریائیں یورپی یونین اور ناٹو کی رکن ہیں۔

یہ تضاد 2004ء میں وکٹریانوکووچ کے صدارتی انتخاب کے وقت رونما ہوا۔ اُس وقت مغرب کی حمایت یافتہ پارٹیوں نے yulia Timoshenko کی قیادت میں انتخاب میں بے ایمانی کے خلاف احتجاج کیا اور بالآخر انہیں کامیابی ہوئی، لیکن 2004ء کے احتجاج میں امریکی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کی فروغ جمہوریت سے متعلق کمیٹیوں نے مغرب نواز پارٹیوں کی مالی امداد کی جو کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کے مترادف ہے، اور اس بار بھی صدر وکٹریانوکووچ کے خلاف چار ماہ سے جاری احتجاج میں بھی امریکہ اور یورپی یونین نے مداخلت کی۔ اس کے ثبوت میں روس نے امریکی سفیر برائے یوکرین اور امریکی محکمہ خارجہ کی معاون سیکریٹری وکٹوریہ نولینڈ کی ٹیلی فون پر خفیہ گفتگو کا ریکارڈ نشر کردیا جس میں محترمہ امریکی سفیر کو ہدایت دے رہی تھیں کہ وہ فلاں فلاں مقامی سیاستدانوں کو ہرممکن امداد فراہم کریں۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یوکرین میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی جو لہر دوڑی تھی وہ امریکی مداخلت کے نتیجے میں موجزن ہوئی۔ دراصل وکٹر یانوکووچ راشی‘ خائن‘ بددیانت حکمراں ثابت ہوا، جیسا کہ اس کے عالیشان مرمریں محل اور اس کی تزئین سے ظاہر ہوتا ہے جو ہرگز ایک لاکھ ڈالر تنخواہ دار عہدیدار کی بساط سے باہر ہے۔ اس طرح ان کی حریف یولیا ٹموشنکو جو Father Land Party کی سربراہ اور سابق وزیراعظم رہ چکی ہیں، محکمہ گیس میں خوردبرد اور بعد ازاں 2011ء میں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سات سال کی سزا پاچکی ہیں لیکن خوش قسمتی سے عوامی احتجاج کے دبائو پر پارلیمان کو انہیں باعزت بری کرنا پڑا اور اب ان کے حلیف Oleksandr Turchenov نہ صرف پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوگئے ہیں بلکہ عبوری حکومت کے صدر بھی بنادیے گئے۔

یہ تبدیلیاں اتنی جلد واقع ہوئیں کہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا یہ ملک کی اکثریت کے دبائو پر ظہور پذیر ہوئیں یا صرف مغربی یوکرین کے عوام کی مرضی کے مطابق رونما ہوئیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب پولیس نے مظاہرین پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں 18 فروری سے لے کر 20 فروری تک خیف میں سو افراد ہلاک ہوگئے تو شہر کی آبادی مشتعل ہوگئی اور 21 فروری کو یورپی یونین کے وزراء کے دبائو پر وکٹریانوکووچ اور حزب اختلاف کے درمیان کئے ہوئے معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا، جس میں صدر نے اپنی کابینہ کو برخواست کرکے نئی کابینہ تشکیل دی اور احتجاج کے دوران گرفتار شدہ افراد کی رہائی اور دسمبر میں عام انتخابات کا حکم دے دیا تھا۔ (ڈان 22 فروری 2014ئ)

چنانچہ اب صدر مفرور اور روپوش ہوگیا ہے، اس کی جگہ پارلیمان کے اسپیکر نے عبوری مدت تک کے لیے صدارت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے اور مئی میں عام انتخابات کا اعلان بھی کردیا ہے۔

ادھر سابق صدر وکٹریانوکووچ نے ان تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کردیا اور عبوری حکومت کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوائیوں نے سرکاری محکموں پر قبضہ کرلیا اور نام نہاد حکومت بھی بنالی جو ناجائز ہے۔ مغربی ذرائع اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے مغرب کی سیاسی فتح اور روس کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ لیکن محض دعویٰ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔ جیسا میں سطورِ بالا میں تحریر کرچکا ہوں کہ یوکرین کا مسئلہ اتنا سہل نہیں ہے کہ اسے انتخاب سلجھا سکے۔ دراصل قوم خود بٹی ہوئی ہے اور اس کا قبلہ ماسکو ہے یا برسلز یعنی واشنگٹن ڈی سی۔ اس ضمن میں تاریخ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کئی بار آزاد ہوا اور جلد ہی سوویت یونین کے زیرقبضہ آگیا۔ یہ 1922ء کی بات ہے۔ 1939ء میں اس نے دوبارہ آزادی حاصل کی اور نازی جرمنی اور سوویت روس دونوں سے جنگ کی، اور 30 جون 1941ء میں آزاد ہوگیا، لیکن 1944ء میں پھر سوویت یونین کے چنگل میں آگیا اور دسمبر1991ء میں اس کے تحلیل ہونے کے بعد پھر آزاد ہوگیا اور یورپی یونین اور وفاق روس دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اختیار کرکے اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی عوامل ایسے ہیں کہ وہ کسی صورت روس سے مخاصمت کرکے اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہٰذا مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنی ملک گیری کی ہوس پر قابو رکھے اور یوکرین کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے جس کے باعث روس اس پر دوبارہ قبضہ کرلے، اور یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے جب یوکرین ناٹو میں رکنیت اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا یورپی استعمار کو اس ننھی سی جان پر رحم کرنا چاہیے۔


پروفیسر شمیم اختر

Enhanced by Zemanta

مغربی دنیا اور آزادی کا دھوکا


مغربی دنیا گزشتہ تین سو سال سے انسان کی آزادی کے ترانے گا رہی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ آزادی اس کی سب سے بڑی قدر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی مغربی دنیا کے حوالے سے سب سے بڑا دھوکا ثابت ہوئی ہے۔ مغربی دنیا میں جب صنعتی اور سیاسی انقلابات رونما ہورہے تھے ٹھیک اُسی زمانے میں اہلِ مغرب دوسری اقوام کو غلام بناکر نوآبادیاتی دور کی ابتداء کررہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم سفید فام ہیں، ہم مہذب ہیں اور ہم غیر مہذب لوگوں کو تہذیب سکھانے نکلے ہیں۔ لیکن تہذیب انسانوں کو آزاد رکھ کر سکھائی جاسکتی ہے، انہیں غلام بنا کر نہیں… اس لیے کہ غلامی تہذیب کے ہر تصور کی نفی ہے۔ ویسے بھی اہلِ مغرب نے جن اقوام کو غلام بنایا وہ مغربی دنیا کے لوگوں سے زیادہ مہذب تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم اور تہذیب کی روایت مغرب سے مشرق کی طرف نہیں آئی تھی بلکہ مشرق سے مغرب کی طرف گئی تھی۔ اہلِ مغرب اگر عیسائی ہیں تو عیسائیت مغرب میں پیدا نہیںہوئی تھی۔ اہلِ مغرب کے پاس اگر فلسفہ اور سائنس تھی تو یہ چیزیں بھی انہیں مسلمانوں سے ملی تھیں… اور اسلام کا سورج مغرب میں نہیں مشرق میں طلوع ہوا تھا۔ لیکن مغربی دنیا صرف دوسری اقوام کی آزادی ہی کے درپے نہیں تھی، مغربی معاشروں میں سفید فام اور سیاہ فام کی تفریق آج بھی موجود ہے اور یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ مغربی اقوام بڑے پیمانے پر سیاہ فام غلاموں کا کاروبار کیا کرتی تھیں اور ان کے شہروں کے ریستورانوں کے دروازوں پر لکھا ہوتا تھا کہ یہاں سیاہ فاموں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔


کمیونزم نے 70 سال تک مغرب میں آزادی کے لیے ایک پردے کا کام کیا۔ اس زمانے میں مغرب کے ’’آزاد‘‘ اور سوویت یونین کے ’’پابند‘‘ معاشرے کے حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور تھا اور وہ یہ کہ امریکہ اور سوویت یونین کے دو کتوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تو امریکہ کے کتے نے سوویت کتے کی صحت کی بہت تعریف کی۔ یہ سن کر سوویت کتے نے کہا کہ ہمارے یہاں غذا تو وافر ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھونکنے کی آزادی نہیں۔ اس کے بعد سوویت کتے نے امریکی کتے سے کہا کہ تمہاری صحت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ امریکی کتے نے کہا کہ بے شک مجھے غذا تو اچھی نہیں ملتی مگر بھونکنے کی پوری آزادی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید مغرب کی سب سے بڑی علامت امریکہ میں بھونکنے کی آزادی بھی صرف اُن لوگوں کو تھی جو ’’کاٹتے‘‘ نہیں تھے۔ یعنی جن کی باتوں میں معنی، زور اور کاٹ نہیں تھی۔ جن کے پاس دلائل و براہین نہیں تھے۔ ورنہ امریکہ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ایزراپائونڈ امریکی تھا اور اسے 20 ویں صدی کا سب سے بڑا انگریزی شاعر اور نقاد کہا گیا ہے۔ لیکن اس نے اٹلی جاکر مسولینی کی حمایت کی اور امریکی نظام پر تنقید کی تھی اس لیے امریکہ کی سلامتی سے متعلق ادارے اس کے پیچھے پڑ گئے، یہاں تک کہ اس کے شاگرد اور متاثرین اس کی جان کو خطرے میں محسوس کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے ایزرا پائونڈ کو نفسیاتی مریض باور کراکے نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا اور وہ کئی سال اسپتال میں داخل رہا۔ لیکن یہ صرف ایزراپائونڈ کا مسئلہ نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں مارٹن لوتھر کنگ امریکہ میں شہری آزادیوں اور سیاہ فاموں کے حقوق کی علامت بن کر ابھرے تو ایف بی آئی ان کے پیچھے لگ گئی۔ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جانے لگے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ کی ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ نے کہا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے تو ان کے خلاف طوفان کھڑا ہوگیا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال نوم چومسکی ہیں۔ وہ یہودی اور امریکی ہیں لیکن وہ امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست کہتے ہیں اور امریکہ کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے ناقد ہیں۔ چنانچہ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں امریکہ میں اجنبی بنادیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ میں درس و تدریس تک محدود ہیں اور امریکہ کے ممتاز ابلاغی ذرائع نوم چومسکی کو منہ نہیں لگاتے، حالانکہ نوم چومسکی دنیا کے دو تین اہم ماہرین لسانیات میں سے ایک ہیں۔ لیکن ایڈورڈ اسنوڈن نے مغرب کے تصورِ آزادی کے پورے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔

ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے قومی سلامتی کے نام پر روزانہ اربوں ٹیلی فون کالزسن رہے ہیں۔ ٹیلی فونز پر روزانہ 20کروڑ سے زیادہ پیغامات پڑھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں گفتگوئیں ملاحظہ کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی نگرانی کا مرکز صرف ’’ممکنہ دہشت گرد‘‘ نہیں بلکہ وہ عام امریکیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یورپ کے اہم رہنمائوں اور یورپی پارلیمنٹ کی بھی نگرانی کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے تصورِ آزادی کے دائرے میں پوری دنیا ہی مشتبہ ہے۔ اس دائرے میں نہ کوئی قابلِ احترام انسان ہے، نہ قابلِ احترام امریکی، نہ قابلِ احترام یورپی۔ اس سلسلے میں امریکہ پر زبردست تنقید ہوئی تو بارک اوباما نے ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ امریکہ کی آزادی کی جدوجہد کے ایک مرحلے پر امریکہ کا ایک شہری پال ریوٹر اور کئی اور افراد رات کے وقت سڑکوں پر پہرہ دیتے تھے اور جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا تھا کہ قابض برطانوی فوجی امریکہ کی جنگِ آزادی لڑنے والوں کے خلاف کچھ کرنے والے ہیں وہ اس کی اطلاع متعلقہ افراد کو دیتے تھے۔ اوباما کے اس تبصرے پر بعض امریکیوں نے انہیں یاد دلایا کہ ہماری تاریخ کا زیادہ اہم اور نمائندہ واقعہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے 1774ء میں اُس وقت کے برطانوی بادشاہ جارج سوئم سے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا کہ برطانوی فوجیوں کو امریکیوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی لینے اور کسی بھی چیز کو قبضے میں لے لینے کے غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی مزیدار ترین بات یہ ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکے ہیں جس میں انہوں نے خفیہ نگرانی کے ذریعے امریکہ کے خلاف کسی اقدام کا پتا لگایا ہو اور اس کی روک تھام کی ہو۔ امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام پر یورپی رہنما بھی چیخے تو مغرب کی آزادی کے دھوکے کا ایک اور پہلو سامنے آیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے زیربحث مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کو کسی شخص کے فون ٹیپ کرنے سے پہلے خفیہ نگرانی کی متعلقہ عدالت سے اس کی اجازت لینی چاہیے۔ تاہم اوباما کی اس تقریر کے حوالے سے ناقدین نے انہیں یاد دلایا کہ مذکورہ عدالت ایک خفیہ عدالت ہے اور اس نے آج تک نگرانی کے سلسلے میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی ایک درخواست بھی مسترد نہیں کی ہے۔ امریکہ کی خفیہ نگرانی کے حوالے سے طوفان برپا ہوا تو امریکہ کے صدر نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے معاملات میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ان اصلاحات کا یہ پہلو سب سے اہم ہے کہ اگر ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کو ساری دنیا کے سامنے پیش نہ کیا ہوتا تو امریکہ کا صدر نیشنل سیکورٹی کے ادارے میں اصلاحات پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص مغربی دنیا کی سب سے بڑی علامت امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کھیل کھیل رہا ہے اس کی فکری بنیاد کیا ہے؟

20 ویں صدی میں ریاست کی طاقت اور شہریوں کی زندگی میں اس کی مداخلت کو دیکھتے ہوئے خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کہیں ریاست خود کو خدا نہ سمجھنے لگے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے تیسری دنیا میں بھی صورت حال اچھی نہیں، لیکن مغرب کی نام نہاد فلاحی ریاست نے کمیونزم کا خطرہ ٹلتے ہی نہ صرف یہ کہ شہریوں کو فراہم کی گئی بہت سی مراعات واپس لینی شروع کردیں‘ بلکہ اس نے اپنے شہریوں کی سب سے بڑی متاع یعنی آزادی پر بھی حملہ کردیا۔ مذاہبِ عالم میں خداکے حاضر و ناظر ہونے کا تصور موجود ہے اور امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کی وسعت کو دیکھ کو آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس روئے زمین پر حاضر وناظر خد اکا قائم مقام بننے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ صرف سامنے موجود اطلاع پر گزارا کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ کروڑوں انسانوں کے دل و دماغ بھی پڑھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی اس ’’خدائی خواہش‘‘ کو اس کے مالی وسائل کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک حد تک سہی، حقیقت میں ڈھال دیا ہے، لیکن ریاست کی اس خدائی نے نجی زندگی اور آزادی کے تصور کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ مغرب میں ریاست کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ طاقت بجائے خود اخلاقیات بن گئی ہے اور اس کے ساتھ وہی تقدس وابستہ ہوگیا ہے جو اخلاقیات ہی کا حق ہے۔ لیکن یہ اس صورتِ حال کی واحدفکری بنیاد نہیں ہے۔

  انسانی تاریخ میں انسان کے مخصوص تصور نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی معاشرہ دل سے اس بات کا قائل ہوکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، کائنات کا خلاصہ ہے، ایک اخلاقی وجود ہے تو وہ اسی اعتبار سے انسانوں کی ساتھ سلوک کرے گا۔ لیکن اگر کسی تہذیب اور کسی معاشرے میں یہ خیال جڑ پکڑ جائے کہ انسان محض ایک سیاسی یا معاشی حیوان ہے، ایک مفاد پرست وجود ہے تو پھر انسان کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی نوعیت یکسر بدل جائے گی۔ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس کی پشت پر انسان کا مخصوص تصور موجود ہے۔ اس تصور میں انسان غیر ذمے دار ہے، ناقابلِ اعتبار ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کا یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک جانب وہ جدید تہذیب کی بلند ترین علامت ہے، اور تہذیب کی بلند ترین سطح انسان کو آزاد کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ انسانوں کی بنیادی آزادیوں کے درپے ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ رویہ تہذیب کی پست ترین علامت ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔

مغربی تہذیب اور اس کی سب سے بڑی علامت کا ایک تضاد یہ ہے کہ یہ تہذیب ایک جانب خود کو ’’عالمگیر‘‘ کہتی ہے اور دوسری جانب وہ مسلمانوں کو کیا اہلِ یورپ، یہاں تک کہ اہلِ امریکہ کو بھی اپنا ’’غیر‘‘ سمجھتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو امریکہ کے خفیہ ادارے صرف ’’دہشت گردوں‘‘ کی نگرانی کررہے ہوتے… کروڑوں امریکی اور یورپی باشندے ان کی زد میں نہ ہوتے۔

شاہنواز فاروقی

Double Standards of western world

F-22P PNS Aslat Frigate Reaches at Russian Port of Novorossiysk

Pakistani Navy's PNS Aslat F-22P Zulfiquar Class frigate has arrived at the Russian Black Sea port of Novorossiysk.
Pakistan Fleet Commander Admiral Khan Hasharm Bin Saddique has said that this friendly visit by the Pakistani warship is a new stage in cooperation between Russia and Pakistan.

Pakistani PNS Aslat Frigate To Visit Russia


Pakistani PNS Aslat Frigate will reach Russian port on 17th Oct 2013 on a good will visit.



Russia Hands Over Charlie II/Nerpa Nuclear Attack Submarine to India

Russia has handed over the Project 971 Akula II class, "К-152 Nerpa" nuclear-powered attack submarine to the Indian Navy (IN) on a ten year lease at a cost of over USD 900 million at the Russian port of Vladivostok.

The "К-152 Nerpa" nuclear-powered attack submarine will become first operational nuclear submarine to be operated by Indian Navy in last two decades.

Indian Navy had operated Charlie class nuclear powered cruise missile submarine under lease from the Soviet Navy between 1988 and 1991 which helped Indian in the development of the Arihant (Slayer of Enemies) nuclear-powered ballistic missile submarine.

The design of the Indian Arihant nuclear-powered ballistic missile submarine is based on the Russian Charlie class nuclear powered cruise missile submarine and it can can carry up to twelve K-15 Sagarika submarine-launched ballistic missile (SLBM) with range of 750 kilometers.

The К-152 Nerpa nuclear-powered attack submarine will be renamed by the Indian Navy as Charlie II nuclear submarine. The Charlie II nuclear-powered attack submarine was scheduled to be handed over to  IN in 2009 but accident in the Sea of Japan in November 2008 resulted in the death of twenty sailors on board during its trials which delayed the delivery.

Pakistan To Get Full Membership of SCO with Russian Endorsement

Russian Prime Minister Vladimir Putin has announced that his country will endorse the Pakistani request for the full membership of the Shanghai Cooperation Organization (SCO).

Russian PM announced this after the speech of the Pakistani Prime Minister Syed Yusuf Raza Gilani at the 10th Heads of Government meeting of SCO.

Both Russia and China have agreed to to include Pakistan and India into the Shanghai Cooperation Organization (SCO) as full members.
Click here to Read More