Showing posts with label Javed Hashmi. Show all posts

بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......


باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna


سدا بہار باغی......


سنہ 1972 کے اوائل میں نوجوانوں کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس لاہور میں گھس گیا، یہ سمن آباد کے علاقے سے مبینہ طور پر حکومتی عہدیدار کی جانب سے دو لڑکیوں کو اغوا کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔

اس ہجوم کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا جو اس وقت صدر مملکت تھے  جبکہ ان کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ایک برطانوی وزیر تھے۔
مظاہرین کے قائدین میں سے ایک جاوید ہاشمی نامی نوجوان بھی شامل تھا جس نے پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن اسلامی جمعیت طلباءکی حمایت کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد جیتا تھا۔

دو برس بعد جاوید ہاشمی نے ایسا ہی اقدام بنگلہ دیش کو بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے پر ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے اس وقت کیا، جب لاہور اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا تھا۔
وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حکومت مخالف بینرز اٹھائے تمام تر سیکیورٹی انتظامات کو توڑ کر سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے موٹرکیڈ کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

ان دونوں واقعات کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات' ہاں میں باغی ہوں  میں کیا ہے، اب انہوں نے اپنی جماعت کے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔
کیا گورنر ہاﺅس لاہور پارلیمنٹ کی طرح ریاست کی علامت نہیں اور کیا غیر ملکی معزز مہمان کے سیکیورٹی انتظامات کو توڑنا وزیراعظم ہاﺅس کے گرد پہنچنے سے کم اہم ہے؟ مگر جاوید ہاشمی جب کسی مقصد پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس طرح کے فرق کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ اسے کسی بھی طریقے سے بھٹو حکومت کو چیلنج کرنا ہے تو اس سے جو ہوسکا اس نے کیا، اس کا ماننا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا تو جو اسے مناسب لگا اس نے کیا۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے اسلامی کانفرنس سے چند ماہ قبل اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ریلی کو اسی مقصد کی وجہ سے کتنی کامیاب سے سبوتاژ کیا تھا۔
تو یہ بات واضح ہے کہ اب وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا جو عمران خان حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاوید ہاشمی کے نظریات ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں کی سیاسی زندگی کے دوران وہ اختیار کرچکا ہے۔
یہ نظریات تین بنیادوں پر قائم ہیں، فوجی آمریت پر انتخابی جمہوریت کی بالادستی، اختلاف رائے اور اپنے سیاسی اقدامات کے نتائج کی پروا نہ کرنا۔

بغاوت کا مقدمہ

کچھ استثنیٰ سے قطع نظر یہ وہ سیاسی اصول ہیں جو جاوید ہاشمی نے اختیار کررکھے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال اس کی جانب سے 2003 میں فوجی طاقت پر سویلین بالادستی کا بہادرانہ دفاع اس کی گرفتاری کا باعث بنا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ فوج میں تقسیم ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگلے ساڑھے تین سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی۔

مشرف حکومت نے یہ مقدمہ ایک خط کی بنیاد پر چلایا جو جاوید ہاشمی نے سب کے سامنے پیش کیا تھا جو چند جونئیر عہدیداران نے لکھا تھا اور اس میں فوجی حکومت کے کچھ سنیئر اراکین پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جاوید ہاشمی کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اسے کبھی یہ خط عوام کے سامنے پیش کرنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوا۔
اسی طرح اس کی جانب سے شریف برداران کے جلاوطنی اختیار کرنے اور متعدد اہم رہنماﺅں کے مشرف کیمپ میں شامل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر بننے کے لیے تیار ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ مشکل ترین اوقات میں بھی جمہوریت کے لیے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے سدا بہار باغی کی مضبوط حیثیت تعمیر کی، وہ اپنی سوچ کے مطابق بولتا ہے چاہے کیسے نتائج یا حالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس نے ہر اس وقت مخالفت کا اظہار کیا جب اسے لگا کہ اتھارٹی کی جانب سے ٹھیک کام نہیں کیا جارہا، اور اس کے لیے یہ پروا کبھی نہیں کہ اتھارٹی میں شامل افراد اس کی اپنی جماعت کے سربراہان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف اور حکمران جماعت نواز لیگ کے متعدد سنیئر اراکین اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح جاوید ہاشمی پارٹی اجلاسوں میں پارٹی قیادت سے اپنے تعلقات پر اثرات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جاوید ہاشمی نے کبھی غلطیاں نہیں کیں، 1978 میں 29 سال کی عمر میں وہ جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ کے نوجوان ترین وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔
تاہم بعد میں وہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا، اپنی کتاب میں اس نے وضاحت کی ہے کہ وہ کبھی اس وزارت کو لینے کے بعد مطمئن نہیں رہا اور وہ جلدازجلد اس سے مستعفی ہونا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1993 میں جب اسے لاہور سے محفوظ نشستوں کی پیشکش کی جارہی تھی تو اس نے ملتان سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے پر اصرار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ محمود قریشی نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یوسف نامی ایک ایڈووکیٹ سے پیسے لینا تھا۔
یوسف نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ یہ رقم یونس حبیب کی تھی جو کہ مہران بینک کا صدر تھا، جسے انٹیلی جنس عہدیدران نے 1990 میں پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ لگانے کا ٹاسک دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات میں اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی اپنی سیاست سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہٰں کرے گا، اس نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہ رقم کاروبار کے لیے بطور قرضہ لی تھی جسے اس نے واپس لوٹا بھی دیا تھا۔
تاہم ان الزامات نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جب اس نے دسمبر 2011 میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پرانے سیاسی ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی جانب سے ایک قریبی رشتے دار کو بطور انتخابی امیدوار نامزد نہ کرنے پر جاوید ہاشمی برہم تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی اس لیے ناخوش تھا کیونکہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف بننا چاہتا تھا مگر یہ عہدہ چوہدری نثار علی خان کو دے دیا گیا۔
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کا حقدار تھا کیونکہ مشرف دور میں، جب بہت کم سیاستدان کسی بھی سطح پر ن لیگ کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے، اس نے پارٹی کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔
جاوید ہاشمی لگتا ہے کہ اپنی سیاسی راست گوئی کو نہیں کھویا، اور اس نے اپنے یقین کے مطابق بولنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا، جبکہ جمہوریت اور اداروں سے محبت بھی جاری رکھی۔

اسے اپنے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی سے اخراج کے بعد اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے گا، جس کا وہ ابھی بھی شدید ناقد ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے آپشن کی بات ہے تو یہ بالکل ناممکن لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے پورے کیرئیر میں اس جماعت کا شدید مخالف رہا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں جاوید ہاشمی نے خلفیہ دوم حضرت عمرؓ کا قول درج کیا ہے" تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟، وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح آزاد ہے۔
کوئی چیز یا ایسا نظریہ جس پر اسے یقین نہیں اسے کسی پارٹی کا قیدی نہیں بناسکتا، عمران خان کو جاوید ہاشمی کو اپنی پارٹی میں لینے سے پہلے اس کو جان لینا چاہئے تھا۔

باغی کی خطرناک بغاوت.......


اسلام آباد کی سڑکوں پر توڑ پھوڑ کی احتجاجی سیاست کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے برطرف صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک اور بغاوت کردی ہے۔اب کے انھوں نے بہت سے انکشافات کیے ہیں اور موجودہ بحران کے پیچھے کارفرما کئی پس پردہ چہروں کے نقاب الٹ دیے ہیں جس سے ان بعض چہروں کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔
بزرگ سیاست دان نے اسلام آباد میں سوموار کو نیوز کانفرنس میں اپنی جماعت کے چئیرمین عمران خان کی سیاست سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ وہ انقلاب مارچ کسی کے اشارے اور یقین دہانی پر کررہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ عمران خان نے منتخب ارکان اسمبلی سے زبردستی استعفے لیے اور لکھوائے ہیں۔ارکان ان استعفوں پر خوش نہیں تھے۔

انھوں نے عمران خان پر الزام عاید کیا کہ وہ مطلق العنان بنے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے فیصلوں کو یکسر مسترد کردیتے ہیں اور جماعت میں اپنی من مرضی کے فیصلے کررہے ہیں۔وہ وعدے کرتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں۔
انھوں نے ماضی کے حوالے سے بتایا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ایک اجلاس میں عمران خان نے کہا تھا کہ ''موجودہ چیف جسٹس ( اب سابق) جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بعد آنے والے چیف جج ناصر الملک وزیراعظم میاں نواز شریف کی برطرفی سے متعلق دائر کردہ درخواست پر ہمارے حق میں فیصلہ دیں گے''۔

عمران خان نے کور کمیٹی کو بتایا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کریں گے اور اپنے انتخاب کے مطابق ایک جج لیں گے اور وہ سب کچھ کچھ او کے کردے گا اور موجودہ حکومت ختم ہوجائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ جب عمران خان اپنا یہ تمام پروگرام وضع کرچکے تو میں نے ان سے کہا کہ خان صاحب آپ کیا کرنے جارہے ہیں۔آپ کو ہماری اور بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے لیکن وہ مان کے نہیں دے رہے تھے اور انھوں نے کہا کہ ''میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ستمبر میں نئے عام انتخابات ہوں گے''۔
جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت کو بتایا تھا کہ احتجاجی تحریک کے بعد ایک خاص سکرپٹ (مسودہ) ہوگا جس کا اختتام ایک نئے چیف جسٹس کے تقرر کے ساتھ ہوگا اور مظاہرین کے نصب العین سے اس نئے چیف جسٹس کو ہمدردی ہے۔

انھوں نے اس نیوز کانفرنس میں ایک ہی سانس میں کئی انکشافات کردیے ہیں اور بتایا کہ عمران خان نے انھیں کہا تھا کہ ''انھوں نے (آرمی نے) ہمیں کہا ہے کہ طاہر القادری کے ساتھ اتحاد کریں۔انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے مارچ کو ریڈ زون سے آگے وزیراعظم ہاؤس کی جانب لے جانے کی مخالفت کی تھی اور کمیٹی کے ارکان نے عمران خان سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شیخ رشیداحمد کی باتوں پر کان نہ دھریں۔

انھوں نے عمران خان کی جانب سے شیخ رشید احمد کی حمایت سے متعلق کہا کہ ''وہ ہمیں یہ کہتے رہتے تھے کہ ہمیں مئی 2013ء میں منعقدہ انتخابات میں شیخ رشید کی کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا حالانکہ 2008ء میں منعقدہ عام انتخابات میں ،میں نے شیخ رشید کو راول پنڈی کی نشست سے شکست دی تھی''۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ''یہ تھرڈ کلاس لوگ ہیں اور ان کی نااہلیوں کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔اس نے قوم کی امنگوں کی پروا نہیں کی ہے۔اگر ماڈل ٹاؤن لاہور کے واقعہ پر وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو کونسی قیامت آجاتی کیونکہ پولیس کی فائرنگ سے چودہ افراد کی شہادت اور قریباً اسی لوگوں کو گولیاں لگ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے''۔

انھوں نے گذشتہ روز اور آج بھی ماضی میں تحریک انصاف کی قیادت سے اختلاف کے بارے میں کہا ہے کہ ''جب پارٹی میں میری بات نہیں سنی جاتی تھی تو ملتان چلا جاتا تھا یا بیمار ہوتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ میں بیمار ہوتا تھا اور نہ مجھے بیوی بچوں کی یاد آتی تھی، میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ملتان چلا جاتا تھا''۔

جاوید ہاشمی کو اس بغاوت سے قبل ہی جماعت کے چئیرمین عمران خان نے صدارت کے عہدے سے فارغ کردیا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی جماعت کے صدر ہیں اور عمران خان نے انھیں غیر آئینی طور پر ہٹایا ہے۔انھیں اپنی جماعت کے آئین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی کی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی جماعت کے یک طرفہ طور پر برطرف کیے گئے صدر کے ان انکشاف انگیز الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کے رد میں انھوں نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

 

Javed Hashmi


Muhammad Javed Hashmi  b. January 1, 1948), is a senior conservative figure, political scientist and geostrategist who presides over the Pakistan Movement for Justice (PTI) which is led by sportsman-turned politician Imran Khan. He was elected to the post of Central President on March 2013 by the electoral college of the party.

Originally a leading and senior member of Pakistan Muslim League, Hashmi served twice in federal cabinet first as the Federal Ministry of Health and as the Federal Ministry of Youth Affairs in both first and second government of former Prime minister Nawaz Sharif. After being dismissed in 1999 in a coup d'état staged by General Pervez Musharraf against Nawaz Sharif, Hashmi was appointed central president of the Pakistan Muslim League and led the League in the controversial 2002 general elections, which saw the landslide defeat of the League. In 2003, Hashmi was arrested and faced a trial on charges of treason in the Central Jail Rawalpindi after making controversial statements against Pakistan Armed Forces, and was released on 4 August 2007.[1]

In the 2008 elections, Hashmi won a record three seats out of the four contested; he only lost out to Shah Mehmood Qureshi in his home city of Multan. Hashmi won National Assembly seats from Multan, Lahore and Rawalpindi beating PML-Q leader Shaikh Rasheed Ahmad in the latter one.[2] On 20 July 2010 Hashmi suffered from Brain hemorrhage and was admitted to hospital. After recovering, he served as the Chairman of the Standing Parliamentary Committee on Foreign Affairs and but resigned after falling out with Nawaz Sharif on various political issues. He would later ascended to join the Pakistan Movement for Justice led by Imran Khan as the party president. In 2013 elections Hashmi won from both two constituency's he contested from in Islamabad and in Multan from the platform of PTI.[3]

Early career

An agriculturist by profession, Hashmi attended Punjab University where he was part of the student wing of Jamaat-e-Islami and was once accused of murder of a fellow student but was ruled not guilty by court. He took his B.Sc. in Political Science in 1969, followed byM.Sc. in 1971, and M.Phil. in 1973, in the same academic discipline from the same institution. The then Prime Minister Z.A Bhutto offered him to be High Commissioner of Pakistan in United Kingdom(UK)and in return give up agitation against the ruling PPP but he did not budge from his stance.[4] He turned to politics in 1985 and joined hands with Nawaz Sharif — who later became Prime minister.[4] From 1985 till 1988, he was elected to the National Assembly for the terms of 1985 till 1988.[4] From 1990 till 1993, Hashmi was the Minister of State for Youth Affairs, and elected as Parliamentarian for the terms of 1993–1997.[4] From 1997–1999, he served as Federal Minister for Health in Nawaz Sharif's cabinet during his second term. He was alleged for being involved in Mehran Bank Scandal along with other political heavyweights like Nawaz Sharif, Shahbaz Sharif and few more main stream politicians of that time. Allegations on Makhdoom Javed Hashmi were laid by Yousaf Advocate who had an old business conflict with Hashmi family, he alleged Hashmi's involvement in the scandal but Younas Habib who was the main character and distributed all the funds never alleged Makhdoom Javed Hashmi. Makhdoom Javed Hashmi very strongly rejected the allegations and demanded a judicial probe of the scandal involving all the top political leadership of that time. During Musharraf era,PML(Q) was in dire need of MNAs to form a coalition government, so their delegation led by Ch. shujaat went on to see him and offered him to be part of PML(Q)but Hashmi Refused to support Pervez Musharraf. For this act he had to suffer the wrath of the then president Gen. Musharraf and he remained behind the bars for 5 years. During prison days he wrote two books about his political struggle which are named as "HAAN MEIN BAGHI HUN"(yes,I am a rebel)& "TAKHTAEY E DAAR K SAAEY TALAY". .He served in united nations for some times as well.[4] These days he is serving as President Pakistan Tehreek e Insaf. Hashmi is one of the politicians in Pakistan who have never lost in an elections.

Arrest

ON 29 October 2003, he was arrested from Parliament Building on charges of inciting mutiny made by General Pervez Musharraf.[5] Earlier, in a press conference on 20 October 2003, he had read a letter that he received in mail, signed anonymously by some active military officers at Pakistan Army's Combatant Headquarter, known as The Generals Headquarter (GHQ), calling for an investigation into the corruption in the armed forces and criticizing the President and Chief of Army Staff General Pervez Musharraf, and his relationship with the American President George W. Bush.[5] His trial was held in the central Adiala Jail instead of a district and sessions court at the Lahore High Court, which raised doubts among human rights groups about its fairness.[5] On 12 April 2004, he was sentenced to 23 years in prison for inciting mutiny in the army, forgery, and defamation.[5]

The verdict has widely been considered as a willful miscarriage of justice by the General Pervez Musharraf's Government. All opposition parties in Pakistan, including Pakistan Peoples Party of the former Prime Minister Benazir Bhutto and six party-alliance Muttahida Majlis-e-Amal (MMA), regarded the verdict to be politically motivated by the ruling junta with malicious intent, declaring him to be a political prisoner.[5] In imprisonment he also wrote two books titled as "Haan, Main Baaghi Hoon!" (Yes, I am a 'Rebel!') and "takhta daar ke saaye tale" (Under the shadow of Hanging board). His book, "Yes, I am a 'Rebel'!", Hashmi clearly stated that he was jailed because he demanded a commission to be formed to investigate the Kargil issue, the restoration of democracy and opposed the Army’s role in politics, and Pakistan's geostrategy policy in central Asia and Europe.[5]

On 3 August 2007, a three-member bench of the Supreme Court of Pakistan under Chief Justice Iftikhar Chaudhry granted him bail after serving approximately three and a half years in prison.[5] Javed Hashmi was released from the Central Jail Kotlakhpat in Lahore on 4 August 2007.[5]

He was again placed under arrest at the declaration of a state of emergency on 3 November 2007[6]
2008 elections

It is believed that Hashmi was personally asked by party chairman Nawaz Sharif to contest from Rawalpindi for the National Assembly seat, where Sheikh Rasheed Ahmed of the PML[Q] was undefeated since 1988. Makhdoom Javed Hashmi as a result won three National Assembly seats, one from Rawalpindi, one from Punjab Capital Lahore and one from his hometown Multan. Hashmi beat PML-Q's political stalwart Sheikh Rasheed Ahmed in Rawalpindi. They finished second behind the PPP and made a coalition with its one time fierce rivals.

After 2008 elections

Despite winning 3 seats, Hashmi refused to take oath from President Musharraf and thus did not get a place in the federal cabinet. Hashmi was one of the few people who decided not to take oath as it was against his principle. Hashmi is the senior vice president of the party and is always seen in important meeting between the PML(N) and PPP. Hashmi is considered a political heavyweight and is well respected throughout Pakistan. He is seen many times representing the views of his party the PML-N on various talk shows. It was widely reported that in the by-elections, Hashmi supported an independent candidate who was running against Makhdoom Mureed Hussain Qureshi, brother of Hashmi's old rival Makhdoom Shah Mehmood Qureshi. After Mureed Qureshi lost, many people including Mureed Hussain widely condemned the behaviour of Hashmi and said that they will report the incident to the chief of the Peoples Party, Asif Zardari. Hashmi is a strong supporter of the judges who have been sacked and it is said that Hashmi is one of the few people in the PML-N who are trying to convince the senior leadership of the PML-N to stop supporting the PPP as they believe the PPP is not serious and sincere when they say that they will restore the judges.

Kerry-Lugar Bill

Javed Hashmi released a very strong reaction on Inter Services Public Relations press release on Kerry-Luger bill.[citation needed] Terming Kerry-Lugar bill an interference on part of US in Pakistani security agencies' affairs, he said that if there is anything that needs to be corrected, Pakistan will do it herself. Besides he also commented on Pakistan Army's response to the bill saying "Pak Army should stay within its limits,... We will protect our Army if it ensures playing the role assigned to it."[7]
Resignation from Parliament (2011)

On 7 May 2011 Hashmi submitted his resignation from Parliament, claiming that is a dummy and not passing real legislation, his resignation has yet to be accepted by Chaudhary Nisar Ali Khan the leader of Pakistan Parliamentary affairs.[8]
Hospitalization

In July 20, 2010, Hashmi was hospitalized at Nishtar Hospital after he suffered Brain Hemorrhage, and his body also suffered stroke due to internal bleeding.[9] He was later admitted at the Lahore General Hospital Dr. Tariq Salahuddin, principal of the Lahore General Hospital.[10] Dr. Tariq Salahuddin briefed the media and Hashmi’s CT Angiography reports came out normal.[10]

Pakistan Tehreek-e-Insaf

Javed Hashmi joined Pakistan Tehreek-e-Insaf on December 24, 2011 saying that he has made no deal with Imran Khan and has become a member because Imran Khan has an agenda of a change, but analysts say that various reasons caused this act, like Nawaz Sharif refused to make Hashmi the leader of opposition, refused to let Hashmi run for President as Nawaz did not want the PML(Q)'s vote for Hashmi and the PML(N) did not give Hashmi's son-in-law, Zahid Hashmi a ticket for the elections.[11] While addressing a mega political rally at the tomb of Quaid-e-Azam in Karachi on December 25, 2011 He said, "The youth of today have to move forward,Karachi is mini Pakistan. It represents all shades of the peoples of Pakistan." Quoting Quaid-e-Azam he said, "Minorities are our blood." Hashmi straight forwardly addressed to PTI Chairman Imran Khan, "Yes, I'm a rebel (Baghi); you invited a rebel to join PTI, Now if you have not delivered as per your manifesto I will be first person to rebel against your Party” He has a very famous chant to his name in the Pakistan Tehreek-e-Insaf, "baghi hun main", I'm a rebel Hashmi and his daughter Memoona Hashmi resigned from National assembly of Pakistan on December 29, 2011.[12]

Javed Hashmi dared Pakistan Muslim League (Nawaz) leader Nawaz Sharif to field his man against Shaikh Rashid in the next elections despite knowing that he too defeated Sheikh Rasheed on the PML(N)'s ticket and Sheikh Rasheed had been defeated by two other PMLN candidates as well.[13]