Showing posts with label Britain. Show all posts

برطانوی شہزادی اور پاکستانی ڈاکٹر پر مبنی فلم



میں یہ کالم ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کے بعد امریکہ سے وطن واپسی پر دوران پرواز تحریر کررہا ہوں۔ مجھے طویل فضائی سفر بالکل پسند نہیں کیونکہ میرے لئے سفر کا طویل دورانیہ گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، اس لئے میں ہمیشہ طویل سفر پر جانے سے قبل کچھ کتابیں اور کرنٹ افیئر میگزین اپنے ساتھ رکھ لیتا ہوں تاکہ انہیں پڑھ کر وقت گزارا جاسکے اور جب پڑھنے سے بھی تھک جاتا ہوں تو کوئی فلم دیکھ لیتا ہوں۔ میں نے کچھ دیر قبل ہی شہزادی ڈیانا اور پاکستانی نژاد ہارٹ سرجن ڈاکٹر حسنات خان پر بننے والی فلم "Diana" دیکھی ہے جو میرے حالیہ کالم کا موضوع بنی۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے بعد شہزادی ڈیانا اور پاکستانی ڈاکٹر ایک بار پھر دنیا بھر میں خبروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اس فلم کو میرے بڑے بھائی اختیار بیگ اور ایک واقف کار ڈاکٹر ناجیہ اشرف نے بھی بہت پسند کیا تھا اور مجھ سے اس پر کالم لکھنے کی درخواست کی تھی۔ فلم دیکھ کر مجھے کچھ سال قبل شہزادی ڈیانا اور ڈاکٹر حسنات پر لکھا گیا اپنا کالم ’’برطانوی شہزادی اور پاکستانی ڈاکٹر‘‘ جسے ناظرین نے بے حد پسند کیا تھا، یاد آگیا جو فلم سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔

فلم ’’ڈیانا‘‘ کی کہانی کیٹ اسنیل (Kate Snell) کی معروف بیسٹ سیلر کتاب ’’ڈیانا کی آخری محبت‘‘ (Diana Her Last Love) سے ماخوذ ہے جس میں شہزادی ڈیانا کا کردار ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ نوینی وارٹس اور پاکستانی ڈاکٹر حسنات خان کا کردار اداکار نوین اینڈریو نے بڑی خوبصورتی سے ادا کئے ہیں۔ فلم کی کہانی شہزادی ڈیانا کی زندگی کے آخری اُن 2 سالوں پر محیط ہے جب وہ شہزادہ چارلس سے علیحدگی کے بعد ڈاکٹر حسنات کی محبت میں گرفتار ہوئی تھیں اور اُن سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ فلم میں دکھایا گیا کہ شہزادی ڈیانا کی پاکستانی نژاد ہارٹ سرجن ڈاکٹر حسنات سے لندن کے ایک اسپتال میں کس طرح ملاقات ہوئی اور وہ اُن کی شخصیت سے متاثر ہوکر محبت میں گرفتار ہوئیں جس کے بعد دونوں کی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب شہزادی ڈیانا نے ڈاکٹر حسنات سے شادی کا فیصلہ کیا اور اُن کی فیملی کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے لاہور تشریف لائیں اور شلوار قمیض میں ملبوس ہوکر اُن کے والدین سے ملاقات کی۔

فلم میں ڈاکٹر حسنات کی فیملی کو پرانے خیالات اور والدہ کو سخت مزاج طبیعت کا حامل دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کی والدہ کا شہزادی ڈیانا کے ساتھ رویہ سرد دکھایا گیا جو ایک موقع پر شہزادی ڈیانا سے کہتی ہیں کہ ’’تمہارے سابقہ شوہر کے انکل لارڈ مائونٹ بیٹن کے تقسیم ہند کے فیصلے کے باعث تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا واقعہ پیش آیا جس میں 60 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنا پڑی اور 16 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس کا ذمہ دار وہ شاہی خاندان کو ٹھہراتی ہیں‘‘۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر حسنات کی فیملی کا دل جیتنے کے لئے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتی ہیں اور ایک موقع پر حسنات کی دادی، شہزادی ڈیانا کو ’’شیرنی‘‘ کا خطاب دیتی ہیں جبکہ شہزادی ڈیانا، حسنات کی فیملی سے ملاقات کے بعد برطانیہ واپسی پر پاکستانی معاشرے کے جوائنٹ فیملی سسٹم کو سراہتی ہیں اور اسلام میں دلچسپی ظاہر کرتی ہیں۔ فلم کے ایک منظر میں ڈاکٹر حسنات، شہزادی ڈیانا سے کہتے ہیں کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں انتہائی اہمیت دیتے ہیں جس پر شہزادی ڈیانا، ڈاکٹر حسنات سے کہتی ہیں کہ ’’وہ بھی قرآن پاک کی تعلیمات سے متاثر ہیں جس کا مطالعہ کرتی رہی ہوں اور مسلمانوں کے اس عقیدے پر یقین رکھتی ہوں کہ دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہے جہاں ہم ساتھ رہیں گے‘‘۔

فلم کے ایک منظر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ڈاکٹر حسنات سے شادی کے بعد وہ اور حسنات برطانیہ چھوڑ کر کسی اور ملک رہائش اختیار کریں۔ اس سلسلے میں شہزادی ڈیانا، اٹلی کے دورے کے دوران دنیا کے معروف ہارٹ سرجن کرسچن برناٹ کو اپنا راز دان بناتے ہوئے یہ اعتراف کرتی ہیں کہ وہ ایک پاکستانی ہارٹ سرجن کی محبت میں گرفتار ہیں اور اُن سے شادی کرنا چاہتی ہیں۔ اس موقع پر شہزادی ڈیانا، کرسچن برناٹ سے ڈاکٹر حسنات کو کسی دوسرے ملک میں ملازمت کے لئے مدد کی درخواست بھی کرتی ہیں مگر ایک خود دار اور غیرت مند پٹھان ڈاکٹر حسنات اپنی ملازمت کے سلسلے میں کسی کی بھی مدد لینے سے انکار کردیتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا، ڈاکٹر حسنات کی فیملی کا دل جیتنے میں ناکام رہتی ہیں اور ڈاکٹر حسنات کے والدین اپنے بیٹے کے لئے ایک غیر مسلم مطلقہ عورت سے شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی لڑکی ہی اُن کے بیٹے کے لئے موزوں رہے گی، اس طرح ڈاکٹر حسنات اور شہزادی ڈیانا ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیتے ہیں مگر دونوں کے درمیان جذباتی لگائو ختم نہیں ہوتا۔ فلم کے ایک منظر میں دکھایا گیا ہے کہ شہزادی ڈیانا دلبرداشتہ ہوکر ڈاکٹر حسنات کو جلانے کے لئے ایک اور مسلمان ڈوڈی الفائد سے دوستی کرتی ہیں اور خود اخبارات میں تصاویر شائع کراتی ہیں۔

اسی طرح پیرس میں حادثے کا شکار ہونے والی کار میں سوار ہونے سے کچھ دیر قبل تک وہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ شاید ڈاکٹر حسنات اُنہیں فون کریں اور دونوں کے تعلقات دوبارہ استوار ہوجائیں مگر ایسا نہیں ہوتا اور شہزادی ڈیانا کار حادثے میں موت کا شکارہوجاتی ہیں۔ فلم کے آخری منظر میں ڈاکٹر حسنات کو شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد اُن کے محل کے باہر پھولوں کا گلدستہ رکھتے دکھایا گیا ہے جس پر ڈیانا کی تصویر کے ساتھ حسنات کے تحریر کردہ معروف شاعر مولانا رومی کے یہ الفاظ درج ہوتے ہیں۔ ’’دنیا کی زندگی کے بعد ہم دونوں جنت کے باغ میں ملیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر حسنات کا شمار دنیا کے بہترین کارڈیالوجسٹ سرجن میں ہوتا ہے۔ شہزادی ڈیانا کی موت کے بعد ڈاکٹر حسنات نے اُن کی آخری رسومات میں ایک اجنبی کی طرح شرکت کی جس کے بعد دلبرداشتہ ہوکر لندن کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔

ڈاکٹر حسنات آج کل راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی (AFIC) سے منسلک ہیں اور پرویز مشرف کے معالجین کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر حسنات برطانیہ کے اسپتالوں سے اچھے تعلقات ہونے کے باعث ملالہ کو حملے کے بعد علاج کی غرض سے برطانیہ بھیجنے میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فلم کے پروڈیوسر نے ڈاکٹر حسنات کی زندگی پر فلم بنانے سے قبل اُن سے کوئی اجازت نہیں لی جبکہ فلم کی ہیروئن نوینی وارٹس میں نہ تو شہزادی ڈیانا جیسی مشابہت نظر آئی اور نہ ہی فلم کا ہیرو نوین اینڈریو پاکستانی پٹھان ڈاکٹر حسنات جیسا لگا۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کو خود دار اور سخت مزاج طبیعت کا حامل شخص دکھایا گیا ہے جو کئی بار شہزادی ڈیانا پر غصے میں برس پڑتا ہے۔ فلم میں ڈاکٹر حسنات کے شراب نوشی اور ڈیانا کے ساتھ فحاشی کے مناظر کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فلم میں شہزادی ڈیانا کی پاکستان آمد کو منفی انداز سے پیش کیا گیا ہے جس میں پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا منظر بھی شامل ہے جبکہ فلم میں شہزادی ڈیانا کے پاکستان میں قیام کے دوران بادشاہی مسجد کے دورے اور امام مسجد کے قرآن پاک کے انگریزی ترجمہ دینے کا ذکر ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی شہزادی ڈیانا کے اسلام سے متاثر ہونے اور اسلام کی جانب رغبت کا اعتراف کیا گیا ہے۔

فلم ’’ڈیانا‘‘ نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں مگر مغربی فلم بین آخر تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص اپنے والدین کی خوشنودی کے لئے دنیا کی خوبصورت اور مقبول ترین عورت کو چھوڑدے اور اُس سے شادی نہ کرے۔ شاید انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اسلام میں والدین کی اطاعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہزادی ڈیانا کی ڈاکٹر حسنات سے شادی کی خواہش یہ ظاہر کرتی ہے کہ شہزادی ڈیانا اسلام سے متاثر اور اس کی جانب راغب تھیں مگر شاید شاہی خاندان کے افراد کو شہزادی ڈیانا کے مسلمان ڈاکٹر کے ساتھ روابط پسند نہیں تھے۔ فلم دیکھنے کے بعد ایک انہونا سا خیال میرے ذہن میں آیا کہ اگر بالفرض برطانوی شہزادی کی پاکستانی ڈاکٹر حسنات سے شادی ہوجاتی تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے فخر کا باعث ہوتا اور اس صورت میں برطانوی تخت کے وارث اور مستقبل کے بادشاہ کی ماں ایک پاکستانی مسلمان کی بیوی کہلاتی جس کی مسلمان اولاد اس بادشاہ کے سوتیلے بہن بھائی ہوتے اور اس طرح 100 سال تک ہم پر حکومت کرنے والے شاہی خاندان کا غرور خاک میں مل جاتا۔ کہیں یہی سوچ اور شہزادی ڈیانا کی مسلمانوں سے دوستی تو اُن کی موت کا سبب نہیں بنی؟


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

مغربی دنیا اور آزادی کا دھوکا


مغربی دنیا گزشتہ تین سو سال سے انسان کی آزادی کے ترانے گا رہی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ آزادی اس کی سب سے بڑی قدر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادی مغربی دنیا کے حوالے سے سب سے بڑا دھوکا ثابت ہوئی ہے۔ مغربی دنیا میں جب صنعتی اور سیاسی انقلابات رونما ہورہے تھے ٹھیک اُسی زمانے میں اہلِ مغرب دوسری اقوام کو غلام بناکر نوآبادیاتی دور کی ابتداء کررہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم سفید فام ہیں، ہم مہذب ہیں اور ہم غیر مہذب لوگوں کو تہذیب سکھانے نکلے ہیں۔ لیکن تہذیب انسانوں کو آزاد رکھ کر سکھائی جاسکتی ہے، انہیں غلام بنا کر نہیں… اس لیے کہ غلامی تہذیب کے ہر تصور کی نفی ہے۔ ویسے بھی اہلِ مغرب نے جن اقوام کو غلام بنایا وہ مغربی دنیا کے لوگوں سے زیادہ مہذب تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم اور تہذیب کی روایت مغرب سے مشرق کی طرف نہیں آئی تھی بلکہ مشرق سے مغرب کی طرف گئی تھی۔ اہلِ مغرب اگر عیسائی ہیں تو عیسائیت مغرب میں پیدا نہیںہوئی تھی۔ اہلِ مغرب کے پاس اگر فلسفہ اور سائنس تھی تو یہ چیزیں بھی انہیں مسلمانوں سے ملی تھیں… اور اسلام کا سورج مغرب میں نہیں مشرق میں طلوع ہوا تھا۔ لیکن مغربی دنیا صرف دوسری اقوام کی آزادی ہی کے درپے نہیں تھی، مغربی معاشروں میں سفید فام اور سیاہ فام کی تفریق آج بھی موجود ہے اور یہ بہت پرانی بات نہیں ہے کہ مغربی اقوام بڑے پیمانے پر سیاہ فام غلاموں کا کاروبار کیا کرتی تھیں اور ان کے شہروں کے ریستورانوں کے دروازوں پر لکھا ہوتا تھا کہ یہاں سیاہ فاموں اور کتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔


کمیونزم نے 70 سال تک مغرب میں آزادی کے لیے ایک پردے کا کام کیا۔ اس زمانے میں مغرب کے ’’آزاد‘‘ اور سوویت یونین کے ’’پابند‘‘ معاشرے کے حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور تھا اور وہ یہ کہ امریکہ اور سوویت یونین کے دو کتوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تو امریکہ کے کتے نے سوویت کتے کی صحت کی بہت تعریف کی۔ یہ سن کر سوویت کتے نے کہا کہ ہمارے یہاں غذا تو وافر ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھونکنے کی آزادی نہیں۔ اس کے بعد سوویت کتے نے امریکی کتے سے کہا کہ تمہاری صحت کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ امریکی کتے نے کہا کہ بے شک مجھے غذا تو اچھی نہیں ملتی مگر بھونکنے کی پوری آزادی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جدید مغرب کی سب سے بڑی علامت امریکہ میں بھونکنے کی آزادی بھی صرف اُن لوگوں کو تھی جو ’’کاٹتے‘‘ نہیں تھے۔ یعنی جن کی باتوں میں معنی، زور اور کاٹ نہیں تھی۔ جن کے پاس دلائل و براہین نہیں تھے۔ ورنہ امریکہ کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ایزراپائونڈ امریکی تھا اور اسے 20 ویں صدی کا سب سے بڑا انگریزی شاعر اور نقاد کہا گیا ہے۔ لیکن اس نے اٹلی جاکر مسولینی کی حمایت کی اور امریکی نظام پر تنقید کی تھی اس لیے امریکہ کی سلامتی سے متعلق ادارے اس کے پیچھے پڑ گئے، یہاں تک کہ اس کے شاگرد اور متاثرین اس کی جان کو خطرے میں محسوس کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے ایزرا پائونڈ کو نفسیاتی مریض باور کراکے نفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیا اور وہ کئی سال اسپتال میں داخل رہا۔ لیکن یہ صرف ایزراپائونڈ کا مسئلہ نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں مارٹن لوتھر کنگ امریکہ میں شہری آزادیوں اور سیاہ فاموں کے حقوق کی علامت بن کر ابھرے تو ایف بی آئی ان کے پیچھے لگ گئی۔ ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جانے لگے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکہ کی ممتاز دانشور سوسن سونٹیگ نے کہا کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے تو ان کے خلاف طوفان کھڑا ہوگیا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال نوم چومسکی ہیں۔ وہ یہودی اور امریکی ہیں لیکن وہ امریکہ کو دنیا کی سب سے بدمعاش ریاست کہتے ہیں اور امریکہ کی نام نہاد ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے ناقد ہیں۔ چنانچہ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں امریکہ میں اجنبی بنادیا گیا ہے۔ اب وہ امریکہ میں درس و تدریس تک محدود ہیں اور امریکہ کے ممتاز ابلاغی ذرائع نوم چومسکی کو منہ نہیں لگاتے، حالانکہ نوم چومسکی دنیا کے دو تین اہم ماہرین لسانیات میں سے ایک ہیں۔ لیکن ایڈورڈ اسنوڈن نے مغرب کے تصورِ آزادی کے پورے نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔

ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے قومی سلامتی کے نام پر روزانہ اربوں ٹیلی فون کالزسن رہے ہیں۔ ٹیلی فونز پر روزانہ 20کروڑ سے زیادہ پیغامات پڑھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں گفتگوئیں ملاحظہ کررہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی نگرانی کا مرکز صرف ’’ممکنہ دہشت گرد‘‘ نہیں بلکہ وہ عام امریکیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یورپ کے اہم رہنمائوں اور یورپی پارلیمنٹ کی بھی نگرانی کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ کے تصورِ آزادی کے دائرے میں پوری دنیا ہی مشتبہ ہے۔ اس دائرے میں نہ کوئی قابلِ احترام انسان ہے، نہ قابلِ احترام امریکی، نہ قابلِ احترام یورپی۔ اس سلسلے میں امریکہ پر زبردست تنقید ہوئی تو بارک اوباما نے ماضی میں پناہ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ امریکہ کی آزادی کی جدوجہد کے ایک مرحلے پر امریکہ کا ایک شہری پال ریوٹر اور کئی اور افراد رات کے وقت سڑکوں پر پہرہ دیتے تھے اور جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا تھا کہ قابض برطانوی فوجی امریکہ کی جنگِ آزادی لڑنے والوں کے خلاف کچھ کرنے والے ہیں وہ اس کی اطلاع متعلقہ افراد کو دیتے تھے۔ اوباما کے اس تبصرے پر بعض امریکیوں نے انہیں یاد دلایا کہ ہماری تاریخ کا زیادہ اہم اور نمائندہ واقعہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس نے 1774ء میں اُس وقت کے برطانوی بادشاہ جارج سوئم سے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا کہ برطانوی فوجیوں کو امریکیوں کے گھروں میں گھس کر تلاشی لینے اور کسی بھی چیز کو قبضے میں لے لینے کے غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی مزیدار ترین بات یہ ہے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکے ہیں جس میں انہوں نے خفیہ نگرانی کے ذریعے امریکہ کے خلاف کسی اقدام کا پتا لگایا ہو اور اس کی روک تھام کی ہو۔ امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام پر یورپی رہنما بھی چیخے تو مغرب کی آزادی کے دھوکے کا ایک اور پہلو سامنے آیا۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے زیربحث مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نیشنل سیکورٹی ایجنسی کو کسی شخص کے فون ٹیپ کرنے سے پہلے خفیہ نگرانی کی متعلقہ عدالت سے اس کی اجازت لینی چاہیے۔ تاہم اوباما کی اس تقریر کے حوالے سے ناقدین نے انہیں یاد دلایا کہ مذکورہ عدالت ایک خفیہ عدالت ہے اور اس نے آج تک نگرانی کے سلسلے میں نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی ایک درخواست بھی مسترد نہیں کی ہے۔ امریکہ کی خفیہ نگرانی کے حوالے سے طوفان برپا ہوا تو امریکہ کے صدر نے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے معاملات میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ان اصلاحات کا یہ پہلو سب سے اہم ہے کہ اگر ایڈورڈ اسنوڈن نے امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کو ساری دنیا کے سامنے پیش نہ کیا ہوتا تو امریکہ کا صدر نیشنل سیکورٹی کے ادارے میں اصلاحات پر کبھی آمادہ نہ ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص مغربی دنیا کی سب سے بڑی علامت امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کھیل کھیل رہا ہے اس کی فکری بنیاد کیا ہے؟

20 ویں صدی میں ریاست کی طاقت اور شہریوں کی زندگی میں اس کی مداخلت کو دیکھتے ہوئے خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کہیں ریاست خود کو خدا نہ سمجھنے لگے۔ بدقسمتی سے یہی ہوا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے تیسری دنیا میں بھی صورت حال اچھی نہیں، لیکن مغرب کی نام نہاد فلاحی ریاست نے کمیونزم کا خطرہ ٹلتے ہی نہ صرف یہ کہ شہریوں کو فراہم کی گئی بہت سی مراعات واپس لینی شروع کردیں‘ بلکہ اس نے اپنے شہریوں کی سب سے بڑی متاع یعنی آزادی پر بھی حملہ کردیا۔ مذاہبِ عالم میں خداکے حاضر و ناظر ہونے کا تصور موجود ہے اور امریکہ کے خفیہ نگرانی کے پروگرام کی وسعت کو دیکھ کو آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اس روئے زمین پر حاضر وناظر خد اکا قائم مقام بننے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ صرف سامنے موجود اطلاع پر گزارا کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ کروڑوں انسانوں کے دل و دماغ بھی پڑھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کی اس ’’خدائی خواہش‘‘ کو اس کے مالی وسائل کی فراہمی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک حد تک سہی، حقیقت میں ڈھال دیا ہے، لیکن ریاست کی اس خدائی نے نجی زندگی اور آزادی کے تصور کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ مغرب میں ریاست کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ طاقت بجائے خود اخلاقیات بن گئی ہے اور اس کے ساتھ وہی تقدس وابستہ ہوگیا ہے جو اخلاقیات ہی کا حق ہے۔ لیکن یہ اس صورتِ حال کی واحدفکری بنیاد نہیں ہے۔

  انسانی تاریخ میں انسان کے مخصوص تصور نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی معاشرہ دل سے اس بات کا قائل ہوکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، کائنات کا خلاصہ ہے، ایک اخلاقی وجود ہے تو وہ اسی اعتبار سے انسانوں کی ساتھ سلوک کرے گا۔ لیکن اگر کسی تہذیب اور کسی معاشرے میں یہ خیال جڑ پکڑ جائے کہ انسان محض ایک سیاسی یا معاشی حیوان ہے، ایک مفاد پرست وجود ہے تو پھر انسان کے ساتھ معاشرے کے تعلق کی نوعیت یکسر بدل جائے گی۔ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ انسانوں کی آزادی کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے اس کی پشت پر انسان کا مخصوص تصور موجود ہے۔ اس تصور میں انسان غیر ذمے دار ہے، ناقابلِ اعتبار ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو امریکہ کا یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک جانب وہ جدید تہذیب کی بلند ترین علامت ہے، اور تہذیب کی بلند ترین سطح انسان کو آزاد کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ انسانوں کی بنیادی آزادیوں کے درپے ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ رویہ تہذیب کی پست ترین علامت ہے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔

مغربی تہذیب اور اس کی سب سے بڑی علامت کا ایک تضاد یہ ہے کہ یہ تہذیب ایک جانب خود کو ’’عالمگیر‘‘ کہتی ہے اور دوسری جانب وہ مسلمانوں کو کیا اہلِ یورپ، یہاں تک کہ اہلِ امریکہ کو بھی اپنا ’’غیر‘‘ سمجھتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو امریکہ کے خفیہ ادارے صرف ’’دہشت گردوں‘‘ کی نگرانی کررہے ہوتے… کروڑوں امریکی اور یورپی باشندے ان کی زد میں نہ ہوتے۔

شاہنواز فاروقی

Double Standards of western world