Showing posts with label Asia Cup. Show all posts

Shahid Afridi in Asia Cup



 Shahid Afridi in Asia Cup










Enhanced by Zemanta

مصباح الیون تیرا شکریہ


سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کو کل 5 سال پورے ہو گئے۔ اس سانحہ کی پانچویں برسی سے ایک دن پہلے پاکستان نے ایشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر پاکستانیوں کو دکھی ہونے سے بچا لیا۔ 5 سال پہلے تین مارچ کو جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ کیا گیا تو اس کا مقصد تھا‘ اس ملک سے کرکٹ ختم ہو جائے۔ حملہ کرنے والے اپنے مقصد میں اس حد تک کامیاب ہوئے کہ ملکی میدان ویران ہو گئے۔ یہاں انٹرنیشنل کرکٹ بند ہو گئی۔ ہمارے میدان آج بھی ویران اور خاموش ہیں۔ اپنے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے تو کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے کرکٹر اس سے محروم ہیں لیکن آفرین ہے کہ وہ اس کے باوجود ملک سے باہر جا کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ اچھی خبر صرف کرکٹ کے میدانوں سے ہی آتی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے تحریک طالبان اور حکومت کی طرف سے فائر بندی کے اعلانات بھی اچھی خبر ہوں گے۔ میرے لیے یہ اچھی خبر اس لیے نہیں ہے کہ نجانے یہ فائر بندی کب ٹوٹ جائے اور اگر یہ قائم بھی رہے تو کیا مذاکرات سے اس ملک میں امن آ جائے گا۔

مجھے اس کا یقین نہیں۔ اسلام آباد میں دہشت گردی کی واردات ہو چکی ہے‘ یہ واردات کس نے کی‘ مجھے اس کا علم نہیں ہے البتہ میڈیا میں آیا ہے کہ احرار الہند نامی کسی تنظیم نے اس سانحے کی ذمے داری قبول کر لی ہے‘ ذمے داری کوئی قبول کرے یا نہ کرے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں‘ حکمران اس معاملے میں کیا کہتے ہیں‘ یہ میں اور آپ سن رہے ہیں‘ اس لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے مذاکرات‘ سیز فائر سے کوئی اچھی خبر بنتی نظر نہیں آتی۔ ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں سری لنکا سے چند رنز سے ہارنے والی پاکستانی ٹیم افغانستان سے ہارتے ہارتے بچی تھی۔ اتوار کو ڈھاکا میں بھارت کے خلاف میچ بھی اپنی تمام تر سنسنی خیزی لیے ہوئے تھا۔ کبھی جیت کی امید بنتی اور کبھی ہار کے خوف سے دل بیٹھ جاتا۔ اس میچ میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے سو فیصد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان اور بھارت میدان میں اتریں تو ہر کھلاڑی اسے آخری میچ سمجھ کر کھیلتا ہے۔

ان میچوں میں بڑے بڑے ہیرو پل بھر میں زیرو ہو جاتے ہیں۔ انڈیا کی طرف سے تین ففٹیاں بنیں۔ پاکستانی بیٹسمین بھی خوب کھیلے۔ محمد حفیظ پہلے دو میچوں میں فلاپ ہوئے مگر اس اہم میچ میں 75 کی شاندار اننگز کھیل گئے۔ اوپننگ اسٹینڈ بھی شاندار تھا۔ صہیب مقصود نے حفیظ کا خوب ساتھ دیا لیکن میچ ختم ہوا تو قوم کا ایک ہی ہیرو تھا۔ بوم بوم آفریدی۔ آج قدرت نے بھی شاہد آفریدی کی جرات کا ساتھ دیا۔ لالے نے آخری اوور کی تیسری گیند پر پہلا چھکا مارا تو مجھے لگا وہ باؤنڈری پر کیچ ہو جائے گا۔ میں مایوس ہو کر ٹی وی اسکرین کے سامنے سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ کمنٹیٹر کی آواز آئی ’’اٹ از اے سکس‘‘۔ دوسری شاٹ بھی ایسی ہی تھی لیکن وہ بھی باؤنڈری سے باہر جا گری۔ اس کے بعد ڈھاکا کے میدان میں اور پاکستان کے ہر گھر‘ گلی اور سڑک پر صرف جشن ہی جشن تھا۔ میں بھی دفتر سے باہر نکلا تو فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہی تھی‘ لاہورئیے سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے‘ ایسے مناظر پاکستان میں کہاں نظر آتے ہیں‘ یہاں تو افسردگی ہی افسردگی پھیلی ہوئی تھی‘ جسے کرکٹ ٹیم نے خوشی میں بدل دیا۔

پاکستان نے انڈیا کے خلاف جس قسم کی پرفارمنس دی ہے اس کی بنیاد پر میں یہ پیش گوئی کرنے کی جرات کر رہا ہوں کہ 8 مارچ کے فائنل میں پاکستان فاتح ہو گا۔ انڈیا کا ایشیا کپ ختم ہو گیا۔ بنگلہ دیش اور افغانستان پہلے ہی فائنل کی دوڑ سے باہر ہیں۔ سری لنکن ٹیم فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے خلاف جیت پر میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اب پاکستان فائنل میں جا کر ہار بھی جائے تو دکھ نہیں ہو گا۔ ایشیا کپ میں بگ تھری کا چوہدری انڈیا سری لنکا کے اور پاکستان سے بھی ہار گیا۔ مجھے خدشہ ہے کہیں افغانستان بھی اسے مار نہ گرائے۔ یہاں آئی سی سی انڈر 19 کے فائنل میں پہنچنے والے پاکستانی ٹیم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہمارے نوجوان کرکٹر کیا عمدہ کھیلے ہیں۔ فائنل میں وہ جنوبی افریقہ سے ہار گئے مگر ان کا وہاں تک پہنچنا ہی بڑی بات تھی۔ جس ملک میں کرکٹ کا کوئی انفراسٹرکچر ہی نہ ہو وہاں کے بچوں کا فائنل میں پہنچنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ویل ڈن پاکستان انڈر19 کرکٹ ٹیم۔ بگ تھری کے ساتھ انڈر 19 ورلڈ کپ میں بھی بری ہوئی۔

انڈیا کے خلاف میچ میں بنگلہ دیش کے کراؤڈ نے جس طرح پاکستان کو سپورٹ کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ بنگالیوں کے دل میں آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ بنگلہ دیش کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان مخالف عناصر پر مشتمل ہے۔ مجھے دکھ ہے ہمارے کرکٹ کے میدان ویران ہیں۔ پاکستان میں امن جنگ بندی سے آئے یا جنگ سے‘ امن آنا چاہیے۔ اس ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہونی چاہیے۔ ہمارے بچوں سے یہ حق نہ چھینا جائے کہ وہ اپنے ہیروز کو اپنے میدانوں میں کھیلتے نہ دیکھ سکیں۔ مصباح الیون تیرا شکریہ۔ شاہد آفریدی تھینک یو ویری میچ۔ قوم کے چہرے پر مسکراہٹ لانے والے صرف کرکٹرز ہی ہیں۔ باقی کہیں سے اچھی خبر کیوں نہیں آتی؟

ایاز خان

Enhanced by Zemanta

وہی ڈھاکا


اس کالم کی پوری سرخی یوں ہے ’’وہی ڈھاکا وہی ہندوستان اور وہی پاکستان‘‘ فرق 1971ء اور 2014ء کا ہے یعنی 43سال کا۔ ان برسوں میں ہم اس قدر بدل گئے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان میں غداروں کا غلبہ تھا، آج پاک بھارت جنگ میں وفاداروں کا غلبہ ہے۔ تب یہ جنگ فوجوں کی تھی اب یہ جنگ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ہے لیکن دونوں جنگوں میں اس خطے کے لوگوں کے جذبات کا جوش ایک جیسا رہا۔ غداروں والی جنگ میں ہمیں عبرت ناک شکست ہوئی پہلے تو 90 ہزار پاکستانی بھارت کی قید میں دے دیے پھر ان کو بھارت سے رہا کرانے کے بعد ہیرو بھی بن گئے لیکن پاکستان کے عوام بھارت سے اپنی شکست اور رسوائی کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کی آگ میں جلتے رہے۔ فوجی جنگ کا میدان تو جب سجے گا دیکھا جائے گا فی الحال کرکٹ کے میدان میں ہم نے بھارت کو رسوا کر دیا۔ یہ میدان بھی ڈھاکا میں تھا، اب یہ پلٹن میدان نہیں شیر بنگلہ اسٹیڈیم تھا۔ اس میدان کا فاتح بھی ایک پاکستانی پٹھان تھا آفریدی اور پہلے والے میدان کا شکست خوردہ بھی ایک پٹھان تھا نیازی۔ بس ان دونوں پٹھانوں کی پاکستانیت میں فرق تھا۔ برصغیر میں آباد ہندو اور مسلمان قوموں میں یہی فرق کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ رہا۔ کبھی اس نے تاریخ کی فتح حاصل کی اور زمین کے نقشے پر ایک نیا ملک بنا دیا اور کبھی اس نے اپنے اس ملک کی عزت اس ملک کے شہر میں لٹا دی۔ دنیا کی ہر قوم کی طرح یہ قوم بھی اپنے لائق کسی قیادت کی منتظر رہی۔ ایک قیادت نے اس سے ایک ملک بنوا لیا اور ایک قیادت نے اس ملک کو رسوا کر دیا اور وہ بھی ان دشمن ہاتھوں سے جن کو توڑ کر یہ ملک بنایا گیا تھا۔

برصغیر کی ان دونوں قوموں کے درمیان کبھی گولہ و بارود کی اور کبھی گیند اور بلے کی جنگ ہوتی ہی رہے گی۔ ان کی دشمنی رنگ و نسل کی نہیں نظریات کی ہے، اسلام اور بت پرستی کی ہے جب تک یہ دونوں قومیں نظریاتی اتحاد اختیار نہیں کر لیتیں جو نا ممکن ہے تب تک ان کے درمیان جنگ جاری رہے گی، اس کے میدان بدلتے رہیں گے، اس کے ہتھیار بدلتے رہیں گے لیکن ان کے مابین دشمنی نہیں بدلے گی۔ ان دنوں پاکستان میں ایک سیکولر طبقہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ یہ دشمنی اگر ختم نہیں ہوتی تو اس میں سے زہریلے کانٹے نکال دیے جائیں۔ اس کوشش میں صرف برصغیر کی دو قومیں ہی نہیں بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں جو یہاں اپنے اپنے مفاد میں ہندو مسلم دوستی قائم کرنا چاہتی ہیں، فی الحال انھیں اس کا بظاہر ایک غیر متنازعہ میدان مل گیا ہے یعنی دونوں ملکوں میں تجارت کی بحالی۔ ہندو مسلم کے درمیان تجارت تو پہلے دن سے ہی بحال تھی جب پاکستان بنایا گیا تب بھی ان دنوں ہندو مسلم کے درمیان تجارت چل رہی تھی لیکن پاکستان بن جانے کے بعد دونوں ملکوں کی سرحدیں جدا ہو گئیں۔

دو مخالف ملکوں کے درمیان کی سرحدیں ویزا ضروری دیگر لوازمات بھی لاگو اور تجارت بالکل بند۔ کسی پاکستانی حکمران میں یہ جرات پیدا نہیں ہوئی کہ وہ تجارت کھول سکے، اب پہلی بار جب امریکا نے بھارت کی علانیہ سرپرستی شروع کی اور بھارت کی طلب پر تجارت کا مسئلہ پیدا ہوا تو کمزور پاکستانی حکمرانوں نے امریکی خوشنودی کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت کی سلسلہ جنبانی شروع کر دی۔ سرحدیں کھولنے کی بات ہوئی ویزا وغیرہ ختم یا نرم کرنے کی بات ہوئی اور نہ جانے کتنے پرانے گم شدہ رشتے تلاش کر لیے گئے۔ ایک طرف امریکا کی سپر پاور جو ہمارے ہاں حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہے دوسری طرف ملک کے اندر امریکا کے مفاد پرست حامی اور بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی غرض سے سیکولرازم کے علمبردار جمع ہو گئے۔ ان سیکولر عناصر کو میڈیا میں مضبوط رسائی حاصل ہے اس طرح امریکا کی سرپرستی اور بھارت کی انتھک کوششوں سے پاکستان کے اندر ایک لابی بن رہی ہے جو بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات اور بعد میں برادرانہ تعلقات کی خواہاں ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے عوام اپنی جگہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارت کے خلاف پاکستان کی کرکٹ کے میدان میں فتح نے ایک بار پھر بتایا ہے کہ پاکستانی بھارت کو کیا سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں رات کے شروع میں ہی جب آفریدی نے یکے بعد دیگرے دو چھکے مارے جن کے بغیر فتح ممکن نہیں تھی تو پورا پاکستان جو سانس روک کر کرکٹ میچ کے آخری لمحے دیکھ رہا تھا فتح کا اعلان ہوتے ہی ناقابل بیان حد تک پرجوش ہو کر اپنے آپ سے باہر نکل آیا۔ کرکٹ کے میچ میں فتح و شکست بارہا دیکھی ہے لیکن ایسی فتح بہت زیادہ نہیں ملتی جب پوری قوم بے قرار ہو کر جھوم اٹھے اور رقص کناں بازاروں میں نکل آئے۔ ڈھاکا میں ہونے والی اس فتح کے بہت معنی تھے۔ ایک تو ہم اپنے کھوئے ہوئے جگر کے ٹکڑے ڈھاکا کو بہت یاد کرتے رہے پھر ہم نے دیکھا کہ نہ صرف ڈھاکا بلکہ پورا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) پاکستان کی فتح کو اپنی ذاتی فتح سمجھ کر جشن منانے لگا جیسے متحدہ پاکستان کی یادوں میں گم ہو گیا ہے جب ہمارے غدار لیڈروں نے اسے بھارت کے حوالے کر دیا۔ حسینہ واجد قسم کے لیڈر کچھ بھی کرتے رہیں، برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں اور یہ دو ہی رہیں گی۔ ویزوں میں نرمی تو کیا سرحدیں بھی ختم کر دیں لیکن دلوں میں استوار ان سرحدوں کا کیا کریں گے جو 1947ء میں ایک بار پھر استوار کر دی گئی ہیں اور اس خطے کے جغرافیائی حکمران انھیں گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں کے عوام ان نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ہندو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انھیں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم بدقسمتی سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ موجود سرحدوں کو ہی قائم رکھ سکیں تو بڑی بات ہے۔ ان سرحدوں کے محافظ ڈھاکا اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ کوئی نہ کوئی آفریدی نوجوان ہمیں پاک بھارت دونوں کو یاد دلاتا ہے اور اس فرق کو ظاہر کرتا ہے جو نظریات نے دونوں کے درمیان استوار کر رکھا ہے۔ نہ مٹنے والا فرق۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta