Showing posts with label Kashmir. Show all posts

سیلاب زدگان کی مدد کیجیے......

بھارت ایک طرف تو پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے تو دوسری طرف مون سون کی بارشوں سے جب پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو اس کا رخ بغیر اطلاع کے پاکستانی علاقے کی طرف کردیتا ہے جس کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں عمارتیں گر جاتی ہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں غرض یہ کہ سیلابی ریلا خس و خاشاک کی طرح ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہم آج تک اس ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے سے قاصر ہیں اس وقت پنجاب بدترین سیلابی کیفیت سے گزر رہا ہے تین چار سالوں سے متواتر سیلابوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
    
مون سون بارشوں سے آنیوالا سیلاب ہو یا 2010 کا تاریخی بدترین سیلاب جس نے ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 کے سیلاب سے اتنے لوگ متاثر ہوئے تھے کہ ان کی تعداد 2004 کے بحرہند کے سونامی 2005 کے بالا کوٹ کے زلزلے اور 2006 کے ہیٹی زلزلے کے مجموعی متاثرین سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے تقریباً پورا پنجاب متاثر ہوا ہے اور اب یہ آفت سندھ کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ان قدرتی آفتوں میں انسانی کوتاہی کا عمل دخل زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ذرایع نہیں ہیں ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو بھی سیاست کی نذر کردیا ہے ڈیم نہ بننے سے اور دریاؤں، نہروں کی بروقت صفائی نہ کرنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے اور ہر صوبے میں PDMA موجود ہے مگر جب ملک اور صوبے ان قدرتی آفات سے کم اور اپنے ہاتھوں تباہی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو ان اداروں کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے متواتر بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا جا رہا ہے مون سون کی بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں مگر ہم نے ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے کوئی سدباب نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس سیلاب نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں سیکڑوں جانیں تلف ہوگئیں مکانات تباہ ہوگئے ہمارے وزیر اعظم اس صورتحال میں جگہ جگہ دوروں پر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد ہمدردی کرنے بڑے بڑے بیانات دینے ایک دوسرے پر رسہ کشی کرنے اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے بحالی کے کام جلد از جلد مکمل ہوں۔

آزمائش کے وقت میں پاک فوج جس جانفشانی اور تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔اس نے پاکستانیوں کے دل موہ لیے ہیں نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ نہ بلند بانگ دعوے نہ ہی فضول باتیں صرف اور صرف کام۔ پاک فوج کے پیش نظر اس وقت صرف اور صرف متاثرہ لوگوں کی بحالی ہے جس کے لیے وہ دن رات لگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہی جس طرح ہر موڑ پر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے مثال ہے جو پارلیمنٹ کے اندر باتیں بناتے ہیں۔ جمہوری اداروں کی پاسداری کا دعویٰ کرنیوالے اس صورتحال میں کتنا عوام سے قریب ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔

میڈیا پر ہر جگہ متاثرہ افراد اپنی شکایتیں دہرا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی رکن اکثر جگہوں پر دکھ کا درماں کرنے نہیں آیا ہاں بیان بازیوں میں سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سیلاب کے ذمے داران پہلے بھی حکومت کے منظور نظر تھے اور آج بھی ہیں کیونکہ سیلاب کی بے انتہا تباہی کا اصل ذمے دار محکمہ آب پاشی ہے۔

ان کی نااہلی بلکہ اس سے زیادہ بددیانتی ہے ملک کو اس صورتحال میں مبتلا کیا ہے اگر 2010 کے ذمے داروں کو کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سزا دے دی جاتی تو آج ہم 2014 میں ہونے والی تباہی کو کم کرسکتے تھے ناقص میٹریل کا استعمال عام سی بات ہے۔ دریاؤں کے کناروں پر بنے حفاظتی بندوں کی ہر سال تعمیر کی جاتی ہے مگر ہر سال سیلاب کا پانی اسے بہا کر لے جاتا ہے اگر اس کی جگہ ہم نئے ڈیم بنا لیتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھا اور ہم بہت سے فوائد اٹھاسکتے تھے مگر وہ فوائد ملک و قوم کے لیے ہوتے مگر ذاتی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں اور دوسری طرف میدانی علاقے صحرا بنتے جا رہے ہیں۔


اس وقت ملک دہری آزمائش میں گھرا ہوا ہے ایک طرف سیلابی ریلے نے ملک کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف احتجاجی دھرنوں نے بھی سیلابی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ قدرت نے ایک موقعہ دیا ہے کہ دھرنوں اور انقلابی مارچوں سے نکل کر عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے مگر افسوس عمران اور طاہر القادری ایسے نازک حالات میں بھی دھرنوں کو ختم نہیں کر رہے بلکہ مزید اپنے موقف پر ڈٹ گئے ہیں۔

یاد رکھیں یہ ملک اور عوام میں تو سیاست چلتی رہے گی اس لیے سب سے پہلے پاکستان کا سوچیں قدرت نے جس آزمائش میں پنجاب کے عوام کو ڈالا ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں سول سوسائٹی این جی اوز سب کو ایک ہوکر بحالی کے کام کو دیکھنا پڑے گا اس لیے ہماری عرض ہے کہ اس آفت کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ جس طرح جمہوریت کے لیے پارلیمنٹ میں سب ایک ہوئے ہیں اسی طرح سیلاب سے متاثر ہونے والے عوام کی بحالی کے لیے بھی سب اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ دھرنے ختم کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں جاکر عوام کے لیے کام کریں۔

فاطمہ نقوی

 

Kashmiri men evacuate women and the elderly from a flooded neighborhood in Srinagar

Kashmiri men evacuate women and the elderly from a flooded neighborhood in Srinagar.





People stand on a damaged bridge on the Tawi River at Mandal village outside Jammu Kashmir

People stand on a damaged bridge on the Tawi River at Mandal village outside Jammu Kashmir

Pakistan Floods - Army soldiers unload boats to be used for evacuating flood victims

Army soldiers unload boats to be used for evacuating flood victims from their flooded houses following heavy rain in Jhang, Punjab province,



مجھے اس شہر میں رہنے سے خوف آتا ہے.....


سیلاب کے اس موسم میں پاکستان کے کسی بڑے شہر کی رنگارنگی اور مصروف زندگی سے نکل کر اگر آپ ان علاقوں کی جانب جائیں جہاں وہ غریب و بے آسرا کسان اور دیہاتی اپنے گھر بار لٹ جانے کے بعد بے سر و سامان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ اگر آپ واقعی دل رکھتے ہیں تو آپ کے بے اختیار آنسو نکل آئیں گے۔

یہ پاکستان کی وہ بے زبان مخلوق ہے جو ہر سال لٹتی ہے۔ پہلے وہاں اخباروں کے چند فوٹو گرافر پہنچا کرتے تھے اب چوبیس گھنٹے نشریات والے ٹیلی ویژن چینلز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز ان کے آنسو‘ آہیں اور سسکیاں‘ ریکارڈ کرتے ہیں‘ رپورٹیں بناتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ نشر کرتے ہیں۔ حکمران انھی کیمروں کی چکا چوند میں ان مفلوک الحال لوگوں کے سامنے چہروں پہ کرب کے تاثرات لا کر تصویریں اور ویڈیو بنواتے ہیں اور پورے ملک میں اپنی انسان دوستی کی دھوم مچواتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ یہ سب کچھ گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔

شہروں کی پر آسائش زندگی گزارنے والوں کو اندازہ تک نہیں کہ دیہات میں رہنے والے یہ لوگ اگر گرم تپتے پانیوں میں کھڑے ہو کر چاول کی پنیری نہ لگائیں‘ نازک پھولوں کی طرح کپاس کے گالوں کو نہ چنیں تو یہ ملک زرمبادلہ سے محروم ہو جائے۔ یہ وہی زر مبادلہ ہے جس سے اس ملک میں پٹرول درآمد ہوتا ہے‘ ہوائی جہاز اڑتے ہیں‘ٹرین فراٹے بھرتی ہے اور گاڑیاں دوڑتی پھرتی ہیں۔ اب تو اس ملک میں میسر بجلی بھی اسی پٹرول سے بن رہی ہے۔ انھی دیہاتوں سے بیرون ملک پاکستانی مزدوروں کی اکثریت ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی زر مبادلہ کی صورت اس ملک میں بھیجنی ہے۔ اس سے گاڑیاں‘ جہاز‘ ٹرینیں خریدی جاتی ہیں۔ موٹروے تعمیر ہوتے ہیں۔ چمکدار سڑکیں‘ شاندار ایئر پورٹ دو رویہ پھولوں سے آراستہ بلیوارڈ اور موجودہ فیشن کی میٹرو بس سروس شہر کے رہنے والوں کی زندگی پرآسائش‘ خوبصورت اور ترقی یافتہ بناتی ہے۔
بہترین تعلیم ہے تو یہاں‘ شاندار صحت کی سہولیات میسر ہیں تو انھیں‘ روز گار کے مواقع یہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کپاس دیہات میں پیدا ہو لیکن ٹیکسٹائل مل یہاں۔ یہ شہر ہیں جہاں زندگی ہر سال بدلتی ہے۔ ان کو ملانے کے لیے جو موٹروے بنتی ہے اس کے دونوں جانب زندگی ہزار سال پرانی ہے۔ نہ بجلی ہے نہ صاف پانی‘ نہ تعلیم ہے اور نہ بیمار پڑنے پر دوائی‘ دیواروں پر اوپلے نظر آئیں گے اور گندے پانی کے جوہڑ۔ ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ پورے ملک کو پر تعیش زندگی فراہم کرنے والے ساگ اور پیاز سے روٹی کھا کر میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ نہ گلہ‘ نہ شکایت۔ شہر آتے ہیں تو اسے حیرت سے تکتے ہیں اور اپنی قسمت پہ شاکر ہو کر کچی مٹی کے گھروندے میں واپس چلے جاتے ہیں۔
یہ خانماں برباد لوگ جن کی بربادی پر اہل اقتدار ہر سال ماتم کرتے ہیں‘ ٹسوے بہاتے ہیں اور سیلاب کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی نااہلیوں کے لیے بہانے تراشتے ہیں۔ کیا اللہ نے آفات اور مصیبتوں‘ بیماریوں سے بچنے کے لیے انسان کو ذہن عطا نہیں کیا۔ سید الانبیاءﷺ کے پاس ایک عورت آئی کہ اس کے بیمار بچے کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں آپؐ نے فرمایا اسے دوا دو‘ کہنے لگی آپؐ دعا فرمائیں اللہ سے۔ آپؐ نے فرمایا دوا بھی اللہ نے ہی پیدا کی ہے۔

ہم عذاب اور آفت میں فرق نہیں کرتے۔ استغفار اور دعائیں ہماری تدبیروں کو کامیاب کرتی ہیں اور اللہ ہم پر رحم کرتے ہوئے آفت کو عذاب میں نہیں بدلتا۔ لیکن تدبیر پر مکمل بھروسہ اور فخر ہماری ساری کوششوں کو خاک میں بھی ملا دیتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو نہ تدبیر کرتے ہیں اور نہ استغفار و دعا۔ بس ہمیں ذاتی نمود و نمائش اور فخر و غرور کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہمارے اس بدترین رویے کی قیمت وہ مسکین دیہاتی ہر سال اٹھاتے ہیں۔ کیا ہمیں علم نہیں کہ سیلاب پر قابو کیسے پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے پاس وسائل نہیں کہ ہم اس سیلاب کو زحمت سے رحمت میں بدل دیں؟ دنیا بھر کی لائبریریوں میں پڑی دریائے سندھ اور اس سے ملحقہ دریاؤں کی سرزمین کے بارے میں لکھی جانے والی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں تو حکمرانوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

یہ رپورٹیں 1958ء سے لکھی جا رہی ہیں اور ہمارے پلاننگ کے محکموں کی الماریوں میں پڑی گرد آلود ہو رہی ہیں۔ 2010,1992,1988,1976,1973,1955 اور 2011ء میں آنے والے بدترین سیلابوں اور ہزاروں انسانی جانوں کے نقصان اور اربوں کی جائیداد اور فصلوں کی تباہی کے بعد کیا کبھی کسی حکمران نے ان رپورٹوں میں موجود ان تجاویز کو کھول کر بھی دیکھا؟ جو ملک 1873ء کے ایریگیشن ایکٹ کے تحت چل رہا ہو اور وہ بھی ہر صوبے کا مختلف اور جس کی سیلاب کی صورت حال سے بچاؤ کے لیے کوئی قومی پالیسی ہی موجود نہ ہو وہاں ماتم کرنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

آج کل ویسے بھی ماتم کا زمانہ ہے۔ آئین کی مقدس کتاب لہرا کر پارلیمنٹ میں روز ماتم ہوتا ہے اور کوئی شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب نہیں مرتا کہ ہماری بے حسی ہر سال لاکھوں انسان پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ 1970ء کے بدترین سیلاب کے بعد جب بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو انھوں نے ورثے میں ملنے والی انھی رپورٹوں کو کھولا اور بڑے بڑے تالابوں (Retention Ponds)‘ سیلابی علاقوں کی درجہ بندی‘ سیلابی پانی کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر‘ ڈیموں اور بیراجوں کی توسیع اور پورے ملک کو ایک اجتماعی حکمت عملی میں ایسے منظم کیا کہ 1998ء میں وہاں سیلاب کی تباہی دس فیصد سے بھی کم رہی۔

ہمارے ملک میں صوبوں کا پانی جھگڑا مستقل دریائی پانی پر ہے۔ سیلابی پانی پر کوئی حق ملکیت نہیں جتاتا۔ اسے تو ہم نے انسانوں کو نقصان پہنچانے اور سمندر کی نذر کرنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ بھارت نے جب راوی پر تھین‘ ستلج پر بھاکرا اور ننگال اور بیاس پر پانڈو اور پونگ ڈیم بنائے تو ان میں سیلابی پانی کے لیے علیحدہ گنجائش بھی رکھی۔ عام حالات میں یہ تینوں دریا ایک قطرہ پانی بھی پاکستان نہیں آنے دیتے لیکن سیلابی پانی کو کافی حد تک ذخیرہ کی جانب باقی پاکستان پر چھوڑ دیتے ہیں جہاں نکمے اور بے حس حکمران صرف اس کی تباہ کاریوں پر ماتم کرتے ہیں۔ ہاروڈ کے پروفیسر گورڈن میکے Gordon Makey کی رپورٹ سے لے کر 2012ء کی عدالتی کمیشن رپورٹ تک ہزاروں قابل عمل تجاویز موجود ہیں۔ کیا 1968ء کی Lieftinch کی وہ رپورٹ چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہی کہ پاکستان کو ہر دس سال میں تربیلا کی سائز کا ایک ڈیم بنانا ہو گا۔ کیا وہ نہیں بناتا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ محکمہ انہار کی ڈیموں‘ نہروں‘ پشتوں اور بندوں کی مستقل بہتری اور نگرانی میں ناکامی ہے۔

جنگلوں کے کٹنے اور درختوں کے بکنے کا ذکر کرنے والے تو ہر جگہ نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیںکہ یہ درخت سیلاب کا پانی روکنے میں سب سے بہتر ذریعہ ہیں لیکن سرکاری جنگل کاٹنے میں ہر کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ جس ملک میں راولپنڈی کا سرکاری جنگل کاٹ کر ہاؤسنگ کالونی بنائی گئی ہو وہاں کون آواز بلند کرے گا۔ میں تجاویز پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر 1955ء کے پہلے سیلاب کے بعد ان پر عمل شروع ہو جاتا تو آج ہم انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں کے نقصان سے بچ جاتے۔ کیا یہ تجاویز ناقابل عمل ہیں۔ -1 پورے ملک کو سیلاب کے حوالے سے ایک یونٹ قرار دیا جائے۔-2 سیلابی پانی کے بہاؤ کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں۔-3 ڈیموں‘ بیراجوں‘ ہیڈر اور وئیرز کی اپ گریڈیشن کی جائے۔

واٹر پارک اور بڑے بڑے تالابوں کے ذریعے سیلابی پانی کو جمع کیا جائے۔ -5 پشتوں اور بندوں کے اندر آباد کاری ختم کی جائے۔ -6 درخت لگائے جائیں اور بیش بہا لگائے جائیں۔ -7 سیلابی پانی کے چڑھتے ہیWetting اور Loop بندوں کے ذریعے پانی کا رخ ایک طرف موڑا جائے تا کہ اس بہاؤ میں کمی آئے۔ یہ صرف چند ایک تجاویز ہیں ورنہ صرف ایک دن کی محنت سے ان تمام اقدامات کی تفصیل مرتب کی جا سکتی ہے جو ماہرین نے بار بار تجویز کیے ہیں۔

لیکن کیا کریں ان اقدامات سے فائدہ تو ان غریب دیہاتیوں کا ہو گا جن کے اسپتالوں میں دوائی نہیں‘ اسکولوں میں استاد نہیں۔ جن کی سڑکیں گزشتہ چھ سالوں میں مرمت نہیں ہو سکیں۔ جن کے جانور بیماری سے مر جاتے ہیں اور کوئی ویکسین میسر نہیں ہوتی۔ جن کے محکمہ انہار کے گوداموں میں پتھر تک موجود نہیں کہ پشتے مضبوط کر سکیں۔ ہم انھیں سیلاب میں موت پر 16 لاکھ دے کر خوش ہو جاتے ہیں اور ان تک راشن پہنچا کر تصویر بنا لیتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اپنے بڑے شہر خوبصورت بنائے ہیں۔ جہاں لاہور شہرمیں آرائشی پودے لگانے کے لیے ماہرین کو تھائی لینڈ اور سنگا پور ٹریننگ کے لیے بھیجا جائے۔
جہاں اسلام آباد جیسے شہر کو جہاں ٹریفک کوئی مسئلہ نہ ہو‘ وہاں اربوں روپے سے سڑکیں چوڑی کی جائیں‘ انڈر پاس بنائے جائیں اور اب میٹرو بس کی آمد ہو۔ جہاں اربوں روپے قومی یاد گاروں پر خرچ ہو جائے جہاں ایک سیکریٹری کے جی او آر ون کے گھر کی مرمت پر نوے لاکھ روپے تک خرچ ہوں‘ وہاں غریب بستیوں میں ایسے ہی سیلاب آتے ہیں‘ گاؤں دریا برد ہوتے ہیں‘ لوگ مرتے ہیں اور ایک اشکوں‘ آہوں اور سسکیوں کا سیلاب آتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اب لاہور میں رہنے سے ڈر لگنے لگاہے۔ وہ شہر جس کے باسی اپنی تزئین و آرائش پر خوش ہوتے ہوں‘ اتراتے پھر رہے ہوں اور انھیں اسی بات کا احساس تک نہ ہو کہ یہ سب خوبصورتی غریبوں کی موت خرید کر بنائی گئی ہے تو ایسے شہر اللہ کی ناراضگی‘ قہر اور غضب سے زیادہ دیر تک نہیں بچ سکتے۔

اوریا مقبول جان

 

دو راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں......


آدھی رات کو نیند سے بےحال ہونے کے باوجود جب مائیک اٹھائے دریائے چناب کے اس ٹوٹے بند پر پہنچا جہاں سے سیلابی پانی جھنگ شہر کی جانب جا رہا ہے تو وہاں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملی جو ابھی براہ راست سیلاب کے متاثر تو نہیں تھے لیکن متاثرین ہونے کی لائن میں لگے تھے۔

مطلب یہ کہ انھیں خطرہ تھا کہ وہ پانی کسی بھی وقت جھنگ شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔
یہ لوگ یہ جائزہ لینے آئےتھے کہ پانی چڑھ رہا ہے، اتر رہا ہے یا وہیں کھڑا ہے۔
جھنگ شہر کے لوگ سیلاب کے خوف سے دو راتوں سے سو نہیں پائے اور سارا دن بھی سیلاب کی باتیں کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شہری محمد عمران نے بتایا کہ انھوں نے اور ان کے بچوں نے ساری رات جاگ کر گزاری۔

محمد عمران نے کہا کہ انھیں یہ دیکھ کر تسلی ہوئی ہے کہ دوپہر کے مقابلے میں علی آباد کے اس بند پر پانی تقریباً دو فٹ نیچے ہوگیا ہے اور آگے کی جانب چلنا بھی شروع ہوا ہے۔
دریا کے کنارے رہنے والے لوگوں کی دریا کو پہچاننے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ انھوں نے سمجھایا کہ دوپہر کو پانی چل نہیں رہا تھا، پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی سطح بلند ہورہی تھی جو خطرناک بات تھی۔

یہ تو میں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ پانی بند کے کناروں سے دو فٹ نیچے ہو چکا ہے اور وہ مکان جس کے دروازے نظر نہیں آرہے تھے اب دکھائی دینے لگا تھا۔
یہ حالت اس لیے بہتر ہوئی کہ دریائے چناب کے دوسری جانب کی آبادی ڈبو دی گئی یعنی اٹھارہ ہزاری کے بند کو یکے بعد دیگر تین مقامات پر بارود لگا کر اڑا دیا گیا تاکہ جھنگ شہر کو بچایا جا سکے۔
حکومت جہاں بھی بند توڑتی ہے ڈوبنے والے الزام لگاتے ہیں کہ ایسا جاگیرداروں اور وڈیروں کے کہنے پر کیا گیا یا خود حکمران طبقہ اس میں شامل ہے۔
پانی بند کے کناروں سے دو فٹ نیچے ہو چکا ہے اور ڈوبے ہوئے مکانات کے دروازے دکھائی دینے لگے ہیں
ان الزامات کی تصدیق تردید ایک الگ کام ہے لیکن عام شہریوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے۔
ایک رات پہلے جب اٹھارہ ہزاری بند نہیں توڑا گیا تھا تو پورے شہر میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ سیاسی دباؤ ہے اور وہاں کے متاثرین بھکر روڈ پر مظاہرہ کر رہے ہیں اس لیے بند نہیں توڑا جا رہا اور جب توڑ دیا گیا تو اب اٹھارہ ہزاری کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

دریائے چناب میں سیلاب کا بڑا ریلا وسطی پنجاب میں حفاظتی بندوں کو توڑتا، انسانی بستیوں کو غرق کرتا جنوبی پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔
صرف ضلع جھنگ اور اس کے گرد و نواح میں بدھ کو چند گھنٹوں میں سات لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

ہیڈ تریموں پر سیلاب انتہائی اونچے درجے کا ہے، حفاظتی بندوں کے شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں اور ہرگزرتے لمحے کوئی نہ کوئی بستی غرق ہو رہی ہے۔
وہ مقامات جو آفت زدہ ہوں ان کے شہریوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ سیلاب کے پانی کے باہر کھڑے ہو کر نہیں لگایا جا سکتا۔

جھنگ کے نواحی علاقے علی آباد کے رہائشی حافظ عبدالمجید جھنگ کے ان لاکھوں شہریوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے رات آنکھوں میں کاٹی۔
انھوں نے کہا کہ وہ سامان باندھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پانی کے چڑھنے کا انتظار کرتے رہے لیکن پانی نہیں آیا اور اب ان کی اگلی رات بھی اس ذہنی کشمکش اور خوف و اذیت میں گزرے گی۔

جھنگ کے شہری ابہام کا شکار بھی ہیں۔ محمد افضل کا شکوہ ہے کہ حکومت صحیح معلومات فراہم نہیں کر رہی جبکہ ٹی وی چینلوں کی معلومات بھی متضاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چینل تریموں پر پانی کا لیول الگ الگ بتاتے ہیں جس سے خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
جھنگ شہر سے کئی خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں اور کئی نے گھر کا سامان بالائی منزلوں میں پہنچا دیا ہے۔ لڑکے بالے نیکر اور بنیان پہن کر ساری رات گلیوں میں پھرتے ہیں کہ جب سیلاب آئے گا تو بھاگنے میں آسانی ہوگی۔
میری بھانجی جس حویلی میں رہتی ہے اس کی دیواروں پر سیلابی پانی کے دس فٹ اونچے نشان آج بھی ملتے ہیں جو 50 برس پہلے جھنگ شہر میں آنے والے سیلاب کی یاد دلاتے ہیں۔
ان نشانوں نے بھی اس کی جان عذاب کر رکھی ہے۔ علی آباد بند پر پانی کم ہونے کی اطلاع بی بی سی ریڈیو کے علاوہ اس کو بھی دی اور خود بھی سکھ کا سانس لیا۔

اب نسبتاً سکون کی نیند سو سکوں گا کیونکہ نیند کی حالت میں آدھی رات کو ایسے ہی دریا تک نہیں گیا تھا۔

علی سلمان
   

سیلاب جو ساری متاع بہا لے گیا.......


سیالکوٹ کے اللہ رکھا کی زندگی کا کُل سرمایہ اُس کے سات مویشی تھے جو حالیہ سیلاب میں ہلاک ہوگئے۔ اُن سے میری ملاقات چپراڑ کے راستے میں ہوئی جہاں وہ سیلاب زدگان کے ایک مجمعے میں دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
انھوں نے بتایا: ’چار برسوں سے بہت محنت کی، سائیکل بیچی تب جا کے یہ سات مویشی خریدے تھے جو سیلاب میں مارے گئے۔ دو بیٹیاں چار پوتے پوتیاں ہیں اور خدا کی ذات ہے۔ اب امردو بیچ کے گزارا کررہا ہوں لیکن کوئی حال نہیں ہے۔‘
اللہ رکھا جیسے جانے کتنے ہی لوگ اِس وقت پنجاب میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن کے نقصان کو شاید ہی کوئی پورا کر سکے۔
سیالکوٹ میں حالیہ سیلاب نے شدید تباہی مچائی ہے ۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے اچانک سیلابی پانی چھوڑا گیا جس کی وجہ سے چاول کی فصل منوں مٹی تلے دب کے تباہ ہوگئی، متعدد مویشی ہلاک ہوگئے، مویشیوں کا چارا بہہ گیا یا خراب ہوگیا ہے اور اُن کے گھروں میں عام سے لے کر نایاب سامان خراب ہو گیا ہے۔

سیلابی پانی سیالکوٹ کے نہ صرف دیہی بلکہ شہری علاقوں میں ایک ہفتے تک کھڑا رہا۔ اِس دوران لوگو ں نے کثیر منزلہ گھروں والے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں، اونچے ٹیلوں اور درختوں غرض جہاں جگہ ملی ٹھکانہ بنا لیا۔اب جبکہ پانی اُتر چکا ہے تو متاثرین نے اپنے گھروں کا رُخ کیاہے اور وہاں اپنی فصلوں، مال مویشی، گھروں اور سامان کو پہنچنے والے نقصان پر افسردہ اور پریشان ہیں۔

سیلاب کے بعد سبزیاں مشکل سے ملتی ہیں اور کافی مہنگی بھی ہوگئی ہیں
سیالکوٹ شہر میں داخل ہونے والا کئی فُٹ سیلابی پانی کئی روز تک جوں کا توں کھڑا رہا جس سے ایک طرف لوگوں کے گھروں میں روز مرہ کی اشیا اور راشن خراب ہوگیا بلکہ کئی لڑکیوں کے جہیز بھی بہہ گئے یا خراب ہو گئے۔
اس کے علاوہ سے روزانہ کی دیہاڑی لگانے والے مزدورں سمیت چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کی دکانوں اور فیکٹریوں میں لگی مشینری کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ شہر سے دیہاتوں کو جانے والی رابطہ سڑکیں اور پُل ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں جبکہ انھی ٹوٹی سڑکوں پر بجلی کی تاریں بکھری پڑی ہیں۔
تحصیل سیالکوٹ کے مختلف علاقوں بجوات اور چپراڑ جاتے ہوئے راستے میں آپ کو کئی لوگ موٹر سائیکل، رکشے اورگدھا گاڑیاں گھیسٹتے نظر آئیں گے۔
ایسی ہی دوگدھا گاڑیوں پر 20 کلو کی گیس والے سلینڈر لدے تھے اور راستہ خراب ہونے کے سبب میرے سامنے اِن میں سے دو لڑھک کر پانی میں جاگرے۔ آٹھ مزدور اُسے اُٹھانے میں مصروف تھے۔ میں نے پوچھا: ’اضافی محنت کی کوئی مزدوری ملے گی؟‘ کہنے لگے: ’ کہاں جی، وہی دو سو روپے۔‘
 
آگے جاکر میری ملاقات بجوات جانے والے ایک مسافر سے ہوئی جو سبزی سے لدی گاڑی کھینچنے میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ’سیلاب کے بعد سبزیاں مشکل سے ملتی ہیں اور کافی مہنگی بھی ہوگئی ہیں۔ 

اِن علاقوں میں سیلابی پانی سے بنیادی صحت کے مراکز اور سکولوں کی عمارتیں بھی مخدوش ہوگئی ہیں۔ گورنمنٹ گرلز اینڈ بوائز پرائمری اسکول کے ماسٹر محمد مجید نے بتایا کہ ’بچے اب باقاعدگی سے سکول آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم سکول کا تمام ریکارڈ بہہ گیا ہے جبکہ سکول کی چھت اور دیواریں نازک حالت میں ہیں اسی لیے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ دو کمروں کا پکا گھر لے کر جاری رکھنے پر کوشش جاری ہے۔‘

سیالکوٹ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکام کی جانب سے ریلیف کے کام کہیں دیکھنے کو نہ ملے البتہ بعض فلاحی تنظیمیں میڈیکل کیمپ اور کھانا وغیر فراہم کرتی ہوئی نظر آئیں۔

شمائلہ خان
 

حکومتی .....بدانتظامیوں کی داستان..

  Recent Floods in Pakistan

یہ ایسے تو نہیں ہوگا.....

 Floods in Pakistan and Kashmir

Pakistan Floods - WATER EVERYWHERE

 Pakistani troops and civilian volunteers continued  to evacuate thousands of people marooned in towns in India-administered part of Kashmir and in Pakistan’s province of Punjab. While floodwaters started to subside in Kashmir, flooding spread in Pakistan's plains due to the breaching of a dam, officials said. (AP and AFP photos)





بارشوں اور سیلاب سے اب تک 50 ارب روپے تک کا نقصان........


زرعی ماہرین کاکہنا ہے کہ حالیہ بارشوں اورسیلاب سے اب تک 50 ارب روپےتک کا نقصان ہو چکاہے ،وفاقی وزیر 
زراعت وخوراک سکندر حیات بوسن کہتے ہیں کہ پانی اترنے پرہی تخمینہ لگایا جاسکے گا تاہم نئے بڑے ڈیم انتہائی ضروری ہیں،سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پرآناہوگا۔ حالیہ بارشوں اورسیلاب نےپنجاب میں تباہی مچا دی،زرعی ماہرین کہتےہیں ایسی تباہی پہلی بارنہیں آئی،ہر سال دوسال بعد یونہی سیلاب آتےہیں،لاکھوں کیوسک انتہائی قیمتی پانی سمندرکی نذرہو ...جاتاہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک 40 ہزار ایکڑ پر کھڑی چاول کی فصل،23 ہزار ایکڑ پرگنا،60 ہزار ایکڑ پرکپاس اور 5 ہزار ایکڑ پر سبزیات اور دیگر فصلوں کو نقصان ہوا،اسٹرکچر اور زراعت کے نقصان کاتخمینہ 50 ارب روپے سے زائد ہے ۔
 وفاقی وزیر زراعت وخوراک سکندر حیات بوسن کہتےہیں کہ ابھی توبالائی پنجاب زیادہ متاثرہوا،جنوبی پنجاب کوبھی خطرہ ہے،چاول ، گنے کےبعد کپاس کی فصل بھی شدید متاثر ہو گی۔انہوں نےبڑے ڈیموں کی فوری تعمیر پرزور دیا۔زرعی ماہرین کا شکوہ ہے کہ حکومتی محکموں کی ناقص منصوبہ بندی اس بار بھی سامنے آ گئی ،بھارت کےپانی چھوڑنے سے پہلے پاکستان کو اطلاع نہ دینے سے 
نقصان کئی گنا بڑھ گیا ۔

Floods and Heavy Rains in Pakistan and Kahmir


لگتا ہے لائن ڈراپ ہوگئی......

Floods in Pakistan and Kashmir

People stand on the rooftop of their flooded houses on the outskirts of Islamabad, Pakistan

People stand on the rooftop of their flooded houses caused by heavy rains on the outskirts of Islamabad, Pakistan.

People stand near their submerged houses on the flooded banks of river Tawi in Jammu Kashmir

People stand near their submerged houses on the flooded banks of river Tawi after heavy rains in Jammu Kashmir

Kounsarnag Lake

Kounsarnag is a high-altitude oligotrophic lake located in the Pir Panjal Range in the Kulgam District of Indian-held Kashmir




Kashmir Heaven on Earth

















Kashmir Heaven on Earth