Showing posts with label Floods. Show all posts

مجھے اس شہر میں رہنے سے خوف آتا ہے.....


سیلاب کے اس موسم میں پاکستان کے کسی بڑے شہر کی رنگارنگی اور مصروف زندگی سے نکل کر اگر آپ ان علاقوں کی جانب جائیں جہاں وہ غریب و بے آسرا کسان اور دیہاتی اپنے گھر بار لٹ جانے کے بعد بے سر و سامان کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ اگر آپ واقعی دل رکھتے ہیں تو آپ کے بے اختیار آنسو نکل آئیں گے۔

یہ پاکستان کی وہ بے زبان مخلوق ہے جو ہر سال لٹتی ہے۔ پہلے وہاں اخباروں کے چند فوٹو گرافر پہنچا کرتے تھے اب چوبیس گھنٹے نشریات والے ٹیلی ویژن چینلز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز ان کے آنسو‘ آہیں اور سسکیاں‘ ریکارڈ کرتے ہیں‘ رپورٹیں بناتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ نشر کرتے ہیں۔ حکمران انھی کیمروں کی چکا چوند میں ان مفلوک الحال لوگوں کے سامنے چہروں پہ کرب کے تاثرات لا کر تصویریں اور ویڈیو بنواتے ہیں اور پورے ملک میں اپنی انسان دوستی کی دھوم مچواتے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ یہ سب کچھ گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔

شہروں کی پر آسائش زندگی گزارنے والوں کو اندازہ تک نہیں کہ دیہات میں رہنے والے یہ لوگ اگر گرم تپتے پانیوں میں کھڑے ہو کر چاول کی پنیری نہ لگائیں‘ نازک پھولوں کی طرح کپاس کے گالوں کو نہ چنیں تو یہ ملک زرمبادلہ سے محروم ہو جائے۔ یہ وہی زر مبادلہ ہے جس سے اس ملک میں پٹرول درآمد ہوتا ہے‘ ہوائی جہاز اڑتے ہیں‘ٹرین فراٹے بھرتی ہے اور گاڑیاں دوڑتی پھرتی ہیں۔ اب تو اس ملک میں میسر بجلی بھی اسی پٹرول سے بن رہی ہے۔ انھی دیہاتوں سے بیرون ملک پاکستانی مزدوروں کی اکثریت ہے جو اپنے خون پسینے کی کمائی زر مبادلہ کی صورت اس ملک میں بھیجنی ہے۔ اس سے گاڑیاں‘ جہاز‘ ٹرینیں خریدی جاتی ہیں۔ موٹروے تعمیر ہوتے ہیں۔ چمکدار سڑکیں‘ شاندار ایئر پورٹ دو رویہ پھولوں سے آراستہ بلیوارڈ اور موجودہ فیشن کی میٹرو بس سروس شہر کے رہنے والوں کی زندگی پرآسائش‘ خوبصورت اور ترقی یافتہ بناتی ہے۔
بہترین تعلیم ہے تو یہاں‘ شاندار صحت کی سہولیات میسر ہیں تو انھیں‘ روز گار کے مواقع یہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ کپاس دیہات میں پیدا ہو لیکن ٹیکسٹائل مل یہاں۔ یہ شہر ہیں جہاں زندگی ہر سال بدلتی ہے۔ ان کو ملانے کے لیے جو موٹروے بنتی ہے اس کے دونوں جانب زندگی ہزار سال پرانی ہے۔ نہ بجلی ہے نہ صاف پانی‘ نہ تعلیم ہے اور نہ بیمار پڑنے پر دوائی‘ دیواروں پر اوپلے نظر آئیں گے اور گندے پانی کے جوہڑ۔ ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ پورے ملک کو پر تعیش زندگی فراہم کرنے والے ساگ اور پیاز سے روٹی کھا کر میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ نہ گلہ‘ نہ شکایت۔ شہر آتے ہیں تو اسے حیرت سے تکتے ہیں اور اپنی قسمت پہ شاکر ہو کر کچی مٹی کے گھروندے میں واپس چلے جاتے ہیں۔
یہ خانماں برباد لوگ جن کی بربادی پر اہل اقتدار ہر سال ماتم کرتے ہیں‘ ٹسوے بہاتے ہیں اور سیلاب کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی نااہلیوں کے لیے بہانے تراشتے ہیں۔ کیا اللہ نے آفات اور مصیبتوں‘ بیماریوں سے بچنے کے لیے انسان کو ذہن عطا نہیں کیا۔ سید الانبیاءﷺ کے پاس ایک عورت آئی کہ اس کے بیمار بچے کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں آپؐ نے فرمایا اسے دوا دو‘ کہنے لگی آپؐ دعا فرمائیں اللہ سے۔ آپؐ نے فرمایا دوا بھی اللہ نے ہی پیدا کی ہے۔

ہم عذاب اور آفت میں فرق نہیں کرتے۔ استغفار اور دعائیں ہماری تدبیروں کو کامیاب کرتی ہیں اور اللہ ہم پر رحم کرتے ہوئے آفت کو عذاب میں نہیں بدلتا۔ لیکن تدبیر پر مکمل بھروسہ اور فخر ہماری ساری کوششوں کو خاک میں بھی ملا دیتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جو نہ تدبیر کرتے ہیں اور نہ استغفار و دعا۔ بس ہمیں ذاتی نمود و نمائش اور فخر و غرور کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہمارے اس بدترین رویے کی قیمت وہ مسکین دیہاتی ہر سال اٹھاتے ہیں۔ کیا ہمیں علم نہیں کہ سیلاب پر قابو کیسے پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے پاس وسائل نہیں کہ ہم اس سیلاب کو زحمت سے رحمت میں بدل دیں؟ دنیا بھر کی لائبریریوں میں پڑی دریائے سندھ اور اس سے ملحقہ دریاؤں کی سرزمین کے بارے میں لکھی جانے والی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں تو حکمرانوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔

یہ رپورٹیں 1958ء سے لکھی جا رہی ہیں اور ہمارے پلاننگ کے محکموں کی الماریوں میں پڑی گرد آلود ہو رہی ہیں۔ 2010,1992,1988,1976,1973,1955 اور 2011ء میں آنے والے بدترین سیلابوں اور ہزاروں انسانی جانوں کے نقصان اور اربوں کی جائیداد اور فصلوں کی تباہی کے بعد کیا کبھی کسی حکمران نے ان رپورٹوں میں موجود ان تجاویز کو کھول کر بھی دیکھا؟ جو ملک 1873ء کے ایریگیشن ایکٹ کے تحت چل رہا ہو اور وہ بھی ہر صوبے کا مختلف اور جس کی سیلاب کی صورت حال سے بچاؤ کے لیے کوئی قومی پالیسی ہی موجود نہ ہو وہاں ماتم کرنے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔

آج کل ویسے بھی ماتم کا زمانہ ہے۔ آئین کی مقدس کتاب لہرا کر پارلیمنٹ میں روز ماتم ہوتا ہے اور کوئی شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب نہیں مرتا کہ ہماری بے حسی ہر سال لاکھوں انسان پر قہر بن کر ٹوٹتی ہے۔ 1970ء کے بدترین سیلاب کے بعد جب بنگلہ دیش علیحدہ ہوا تو انھوں نے ورثے میں ملنے والی انھی رپورٹوں کو کھولا اور بڑے بڑے تالابوں (Retention Ponds)‘ سیلابی علاقوں کی درجہ بندی‘ سیلابی پانی کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر‘ ڈیموں اور بیراجوں کی توسیع اور پورے ملک کو ایک اجتماعی حکمت عملی میں ایسے منظم کیا کہ 1998ء میں وہاں سیلاب کی تباہی دس فیصد سے بھی کم رہی۔

ہمارے ملک میں صوبوں کا پانی جھگڑا مستقل دریائی پانی پر ہے۔ سیلابی پانی پر کوئی حق ملکیت نہیں جتاتا۔ اسے تو ہم نے انسانوں کو نقصان پہنچانے اور سمندر کی نذر کرنے کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ بھارت نے جب راوی پر تھین‘ ستلج پر بھاکرا اور ننگال اور بیاس پر پانڈو اور پونگ ڈیم بنائے تو ان میں سیلابی پانی کے لیے علیحدہ گنجائش بھی رکھی۔ عام حالات میں یہ تینوں دریا ایک قطرہ پانی بھی پاکستان نہیں آنے دیتے لیکن سیلابی پانی کو کافی حد تک ذخیرہ کی جانب باقی پاکستان پر چھوڑ دیتے ہیں جہاں نکمے اور بے حس حکمران صرف اس کی تباہ کاریوں پر ماتم کرتے ہیں۔ ہاروڈ کے پروفیسر گورڈن میکے Gordon Makey کی رپورٹ سے لے کر 2012ء کی عدالتی کمیشن رپورٹ تک ہزاروں قابل عمل تجاویز موجود ہیں۔ کیا 1968ء کی Lieftinch کی وہ رپورٹ چیخ چیخ کر نہیں کہہ رہی کہ پاکستان کو ہر دس سال میں تربیلا کی سائز کا ایک ڈیم بنانا ہو گا۔ کیا وہ نہیں بناتا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ محکمہ انہار کی ڈیموں‘ نہروں‘ پشتوں اور بندوں کی مستقل بہتری اور نگرانی میں ناکامی ہے۔

جنگلوں کے کٹنے اور درختوں کے بکنے کا ذکر کرنے والے تو ہر جگہ نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیںکہ یہ درخت سیلاب کا پانی روکنے میں سب سے بہتر ذریعہ ہیں لیکن سرکاری جنگل کاٹنے میں ہر کسی نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ جس ملک میں راولپنڈی کا سرکاری جنگل کاٹ کر ہاؤسنگ کالونی بنائی گئی ہو وہاں کون آواز بلند کرے گا۔ میں تجاویز پڑھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر 1955ء کے پہلے سیلاب کے بعد ان پر عمل شروع ہو جاتا تو آج ہم انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں کے نقصان سے بچ جاتے۔ کیا یہ تجاویز ناقابل عمل ہیں۔ -1 پورے ملک کو سیلاب کے حوالے سے ایک یونٹ قرار دیا جائے۔-2 سیلابی پانی کے بہاؤ کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں۔-3 ڈیموں‘ بیراجوں‘ ہیڈر اور وئیرز کی اپ گریڈیشن کی جائے۔

واٹر پارک اور بڑے بڑے تالابوں کے ذریعے سیلابی پانی کو جمع کیا جائے۔ -5 پشتوں اور بندوں کے اندر آباد کاری ختم کی جائے۔ -6 درخت لگائے جائیں اور بیش بہا لگائے جائیں۔ -7 سیلابی پانی کے چڑھتے ہیWetting اور Loop بندوں کے ذریعے پانی کا رخ ایک طرف موڑا جائے تا کہ اس بہاؤ میں کمی آئے۔ یہ صرف چند ایک تجاویز ہیں ورنہ صرف ایک دن کی محنت سے ان تمام اقدامات کی تفصیل مرتب کی جا سکتی ہے جو ماہرین نے بار بار تجویز کیے ہیں۔

لیکن کیا کریں ان اقدامات سے فائدہ تو ان غریب دیہاتیوں کا ہو گا جن کے اسپتالوں میں دوائی نہیں‘ اسکولوں میں استاد نہیں۔ جن کی سڑکیں گزشتہ چھ سالوں میں مرمت نہیں ہو سکیں۔ جن کے جانور بیماری سے مر جاتے ہیں اور کوئی ویکسین میسر نہیں ہوتی۔ جن کے محکمہ انہار کے گوداموں میں پتھر تک موجود نہیں کہ پشتے مضبوط کر سکیں۔ ہم انھیں سیلاب میں موت پر 16 لاکھ دے کر خوش ہو جاتے ہیں اور ان تک راشن پہنچا کر تصویر بنا لیتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اپنے بڑے شہر خوبصورت بنائے ہیں۔ جہاں لاہور شہرمیں آرائشی پودے لگانے کے لیے ماہرین کو تھائی لینڈ اور سنگا پور ٹریننگ کے لیے بھیجا جائے۔
جہاں اسلام آباد جیسے شہر کو جہاں ٹریفک کوئی مسئلہ نہ ہو‘ وہاں اربوں روپے سے سڑکیں چوڑی کی جائیں‘ انڈر پاس بنائے جائیں اور اب میٹرو بس کی آمد ہو۔ جہاں اربوں روپے قومی یاد گاروں پر خرچ ہو جائے جہاں ایک سیکریٹری کے جی او آر ون کے گھر کی مرمت پر نوے لاکھ روپے تک خرچ ہوں‘ وہاں غریب بستیوں میں ایسے ہی سیلاب آتے ہیں‘ گاؤں دریا برد ہوتے ہیں‘ لوگ مرتے ہیں اور ایک اشکوں‘ آہوں اور سسکیوں کا سیلاب آتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اب لاہور میں رہنے سے ڈر لگنے لگاہے۔ وہ شہر جس کے باسی اپنی تزئین و آرائش پر خوش ہوتے ہوں‘ اتراتے پھر رہے ہوں اور انھیں اسی بات کا احساس تک نہ ہو کہ یہ سب خوبصورتی غریبوں کی موت خرید کر بنائی گئی ہے تو ایسے شہر اللہ کی ناراضگی‘ قہر اور غضب سے زیادہ دیر تک نہیں بچ سکتے۔

اوریا مقبول جان

 

دو راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں......


آدھی رات کو نیند سے بےحال ہونے کے باوجود جب مائیک اٹھائے دریائے چناب کے اس ٹوٹے بند پر پہنچا جہاں سے سیلابی پانی جھنگ شہر کی جانب جا رہا ہے تو وہاں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ملی جو ابھی براہ راست سیلاب کے متاثر تو نہیں تھے لیکن متاثرین ہونے کی لائن میں لگے تھے۔

مطلب یہ کہ انھیں خطرہ تھا کہ وہ پانی کسی بھی وقت جھنگ شہر میں داخل ہو سکتا ہے۔
یہ لوگ یہ جائزہ لینے آئےتھے کہ پانی چڑھ رہا ہے، اتر رہا ہے یا وہیں کھڑا ہے۔
جھنگ شہر کے لوگ سیلاب کے خوف سے دو راتوں سے سو نہیں پائے اور سارا دن بھی سیلاب کی باتیں کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک شہری محمد عمران نے بتایا کہ انھوں نے اور ان کے بچوں نے ساری رات جاگ کر گزاری۔

محمد عمران نے کہا کہ انھیں یہ دیکھ کر تسلی ہوئی ہے کہ دوپہر کے مقابلے میں علی آباد کے اس بند پر پانی تقریباً دو فٹ نیچے ہوگیا ہے اور آگے کی جانب چلنا بھی شروع ہوا ہے۔
دریا کے کنارے رہنے والے لوگوں کی دریا کو پہچاننے کی اپنی صلاحیت ہوتی ہے۔ انھوں نے سمجھایا کہ دوپہر کو پانی چل نہیں رہا تھا، پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اس کی سطح بلند ہورہی تھی جو خطرناک بات تھی۔

یہ تو میں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ پانی بند کے کناروں سے دو فٹ نیچے ہو چکا ہے اور وہ مکان جس کے دروازے نظر نہیں آرہے تھے اب دکھائی دینے لگا تھا۔
یہ حالت اس لیے بہتر ہوئی کہ دریائے چناب کے دوسری جانب کی آبادی ڈبو دی گئی یعنی اٹھارہ ہزاری کے بند کو یکے بعد دیگر تین مقامات پر بارود لگا کر اڑا دیا گیا تاکہ جھنگ شہر کو بچایا جا سکے۔
حکومت جہاں بھی بند توڑتی ہے ڈوبنے والے الزام لگاتے ہیں کہ ایسا جاگیرداروں اور وڈیروں کے کہنے پر کیا گیا یا خود حکمران طبقہ اس میں شامل ہے۔
پانی بند کے کناروں سے دو فٹ نیچے ہو چکا ہے اور ڈوبے ہوئے مکانات کے دروازے دکھائی دینے لگے ہیں
ان الزامات کی تصدیق تردید ایک الگ کام ہے لیکن عام شہریوں میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے۔
ایک رات پہلے جب اٹھارہ ہزاری بند نہیں توڑا گیا تھا تو پورے شہر میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ سیاسی دباؤ ہے اور وہاں کے متاثرین بھکر روڈ پر مظاہرہ کر رہے ہیں اس لیے بند نہیں توڑا جا رہا اور جب توڑ دیا گیا تو اب اٹھارہ ہزاری کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

دریائے چناب میں سیلاب کا بڑا ریلا وسطی پنجاب میں حفاظتی بندوں کو توڑتا، انسانی بستیوں کو غرق کرتا جنوبی پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔
صرف ضلع جھنگ اور اس کے گرد و نواح میں بدھ کو چند گھنٹوں میں سات لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

ہیڈ تریموں پر سیلاب انتہائی اونچے درجے کا ہے، حفاظتی بندوں کے شگاف بڑے ہوتے جا رہے ہیں اور ہرگزرتے لمحے کوئی نہ کوئی بستی غرق ہو رہی ہے۔
وہ مقامات جو آفت زدہ ہوں ان کے شہریوں پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ سیلاب کے پانی کے باہر کھڑے ہو کر نہیں لگایا جا سکتا۔

جھنگ کے نواحی علاقے علی آباد کے رہائشی حافظ عبدالمجید جھنگ کے ان لاکھوں شہریوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے رات آنکھوں میں کاٹی۔
انھوں نے کہا کہ وہ سامان باندھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پانی کے چڑھنے کا انتظار کرتے رہے لیکن پانی نہیں آیا اور اب ان کی اگلی رات بھی اس ذہنی کشمکش اور خوف و اذیت میں گزرے گی۔

جھنگ کے شہری ابہام کا شکار بھی ہیں۔ محمد افضل کا شکوہ ہے کہ حکومت صحیح معلومات فراہم نہیں کر رہی جبکہ ٹی وی چینلوں کی معلومات بھی متضاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ چینل تریموں پر پانی کا لیول الگ الگ بتاتے ہیں جس سے خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
جھنگ شہر سے کئی خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں اور کئی نے گھر کا سامان بالائی منزلوں میں پہنچا دیا ہے۔ لڑکے بالے نیکر اور بنیان پہن کر ساری رات گلیوں میں پھرتے ہیں کہ جب سیلاب آئے گا تو بھاگنے میں آسانی ہوگی۔
میری بھانجی جس حویلی میں رہتی ہے اس کی دیواروں پر سیلابی پانی کے دس فٹ اونچے نشان آج بھی ملتے ہیں جو 50 برس پہلے جھنگ شہر میں آنے والے سیلاب کی یاد دلاتے ہیں۔
ان نشانوں نے بھی اس کی جان عذاب کر رکھی ہے۔ علی آباد بند پر پانی کم ہونے کی اطلاع بی بی سی ریڈیو کے علاوہ اس کو بھی دی اور خود بھی سکھ کا سانس لیا۔

اب نسبتاً سکون کی نیند سو سکوں گا کیونکہ نیند کی حالت میں آدھی رات کو ایسے ہی دریا تک نہیں گیا تھا۔

علی سلمان
   

بارشوں اور سیلاب سے اب تک 50 ارب روپے تک کا نقصان........


زرعی ماہرین کاکہنا ہے کہ حالیہ بارشوں اورسیلاب سے اب تک 50 ارب روپےتک کا نقصان ہو چکاہے ،وفاقی وزیر 
زراعت وخوراک سکندر حیات بوسن کہتے ہیں کہ پانی اترنے پرہی تخمینہ لگایا جاسکے گا تاہم نئے بڑے ڈیم انتہائی ضروری ہیں،سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پرآناہوگا۔ حالیہ بارشوں اورسیلاب نےپنجاب میں تباہی مچا دی،زرعی ماہرین کہتےہیں ایسی تباہی پہلی بارنہیں آئی،ہر سال دوسال بعد یونہی سیلاب آتےہیں،لاکھوں کیوسک انتہائی قیمتی پانی سمندرکی نذرہو ...جاتاہے، ایک اندازے کے مطابق اب تک 40 ہزار ایکڑ پر کھڑی چاول کی فصل،23 ہزار ایکڑ پرگنا،60 ہزار ایکڑ پرکپاس اور 5 ہزار ایکڑ پر سبزیات اور دیگر فصلوں کو نقصان ہوا،اسٹرکچر اور زراعت کے نقصان کاتخمینہ 50 ارب روپے سے زائد ہے ۔
 وفاقی وزیر زراعت وخوراک سکندر حیات بوسن کہتےہیں کہ ابھی توبالائی پنجاب زیادہ متاثرہوا،جنوبی پنجاب کوبھی خطرہ ہے،چاول ، گنے کےبعد کپاس کی فصل بھی شدید متاثر ہو گی۔انہوں نےبڑے ڈیموں کی فوری تعمیر پرزور دیا۔زرعی ماہرین کا شکوہ ہے کہ حکومتی محکموں کی ناقص منصوبہ بندی اس بار بھی سامنے آ گئی ،بھارت کےپانی چھوڑنے سے پہلے پاکستان کو اطلاع نہ دینے سے 
نقصان کئی گنا بڑھ گیا ۔

Floods and Heavy Rains in Pakistan and Kahmir


لگتا ہے لائن ڈراپ ہوگئی......

Floods in Pakistan and Kashmir