Showing posts with label Thar Drought. Show all posts

تھر کے قحط زدہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے......


چھاچھرو: سمو بھیل گوٹھ کی رہائشی تیس برس کی ماروبھت نے اپنے بچوں کو غذا کی فراہمی میں ناکامی کے بعد 23 اگست کو اپنی زندگی ختم کردینے کا فیصلہ کرلیا۔
واضح رہے کہ سمو بھیل چھاچھرو سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔
اس کی موت کے فوراً بعد صحافیوں اور سماجی کارکنان اس کے گھرپہنچے تھے جہاں اس کے خاندان کے لوگوں نے انٹرویو کے دوران اس کی موت کا سبب معاشی پریشانیوں کو قرار دیا۔ اب اس خاندان نے میڈیا سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔
   حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں خودکشی کے چوبیس کیس 2011ء میں رپورٹ ہوئے، اور پینتس 2012ء میں۔ لیکن محض سات مہینوں کے اندر تھرپارکر ضلع میں خودکشی کے نتیجے میں یہ اکتیسویں موت ہے۔
اس علاقے میں خودکشی کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کو گھریلو تشدد اور غربت سے منسوب کیا جارہا ہے۔
ایک معروف سماجی کارکن اور حصار فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر سونو کنگھرانی کہتے ہیں کہ درحقیقت خودکشیوں کے پیچھے بنیادی وجہ غربت ہے۔
    
انہوں نے کہا ’’یہاں بہت سے عوامل ہیں، لیکن غربت اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ موجود ہے، جس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ جاری رہے گی۔ یہ عورت جس نے اپنی ہی جان لینے کا فیصلہ کیا،وہ جس مخمصے کا سامنا کررہی تھی، اس سے نکلنے کے لیے اس کےسامنے کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔‘‘
تھرپارکر میں کام کرنے والی ایک این جی اور اویئر کی جانب سے مرتب کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق خودکشی ایک مخمصہ ہے، جس کا سامنا مرد و خواتین دونوں کو کرنا پڑرہا ہے۔

اویئر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی اکبر رحیمو کا کہنا ہے کہ ’’ہم حقیقی اعدادوشمار پیش نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’لیکن خودکشیوں کے ان کیسز کو تنہا نہیں دیکھا جاسکتا، اس لیے کہ یہ ایک بڑے مسئلے کا حصہ ہیں، جو خشک سالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی غربت ہے۔‘‘

ایک دوسرے کیس میں ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ مالی مسائل پر ہونے والے جھگڑے کے بعد سہہ پہر کے قریب اپنا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
رات کے وقت ایک مقامی شخص نے اس کی لاش سمو بھیل گوٹھ کے قریب ایک کنویں کے اندر پائی اور اس کی بیوی کو مطلع کیا۔

صورتحال کی سنگینی کی وضاحت کرتے ہوئے علی اکبر رحیمو کہتے ہیں ’’چھاچھر جو تھر کے چھ تعلقوں میں سب سے بڑا تعلقہ ہے، یہاں ایک ہی دیہی صحت کا مرکز قائم ہے، جسے کاغذات میں تعلقہ ہسپتال کہا جاتا ہے۔‘‘
ہر مقامی فرد یا ایک این جی او کے عہدے دار جن سے ڈان نے بات کی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ تھر میں جاری قحط سالی پر عوام کی توجہ مبذول کروائی جائے۔
اس سال خشک سالی کے بارے میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق یہ اس سے قبل 1974ء اور 1986ء میں واقع ہونے والی خشک سالی سے بھی بدتر ہے۔

یہ خشک سالی مون سون کی تاخیر کا براہِ راست نتیجہ ہے، یا پھر تھر میں ہی اس کی کمی ہے۔ عام طور پر مون سون کے لیے پندرہ جون اور پندرہ اگست کا درمیانی عرصہ قرار دیا جاتا ہے، اس کے بعد ہی خشک سالی واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سونو کنگھرانی یہاں پر رائج ایک عقیدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تھڈلی، رکشابندھن کا تہوار سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ تھر میں مزید بارش نہیں ہوگی۔ اور ٹھیک ایسا ہی ہوا جب اگست کے مہینے میں یہ تہوار منایا گیا تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کا قحط کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ ’’یہ قحط غیرمعمولی اس لیے ہے کہ گھاس اور چارے کی پیداوار صفر ہے، جس کے براہِ راست اثرات مویشیوں پر پڑے ہیں، اور قحط سالی کی اس تباہی سے نمٹا ان لوگوں کے لیے دشوار ہوگیا ہے۔‘‘

خشک سالی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی اموات پر کئی مہینوں سے مقامی این جی اوز اور اخبارات کی جانب سے صوبائی حکومت کے ساتھ شدید احتجاج کیا جارہا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں خشک سالی پر ایک پالیسی متعارف کرائی گئی تھی، لیکن ڈاکٹر سونو کنگھرانی

جو یہ پالیسی تیار کرنے والی اس کمیٹی کے اراکین کے ساتھ تھے، پُرامید نہیں تھے
انہوں نے کہا ’’آنے والے مہینوں میں کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت ہم اس پالیسی کا انتظار کررہے ہیں، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کو اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر سونو نے کہا ’’حکومت کا خیال تھا کہ شاید تھر کے لوگوں میں گندم تقسیم کردینے سے تھر کا موضوع ختم ہوجائے گا۔گندم کی تقسیم سے اس کو حل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

وہ کہتے ہیں ’’اسی طرح بچوں کو حفاظتی ٹیکے دینے سے ان کی بھوک کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا۔ تھر میں مویشیوں کو بچانے کا سوال ہے، جس پر تھری لوگ انحصار کرتے ہیں۔ ہم بات کرتے رہیں گے، اس کے ساتھ ان کی اموات جاری رہیں گی۔‘‘
اس کے بعد خشک سالی کے نتیجے میں تھر سے دو قسم کے لو گ نقل مکانی کرتے ہیں، ایک تو وہ ہیں جو عارضی طور پر کسی جگہ منتقل ہوجاتے ہیں، اور دوسرے وہ ہوتے ہیں جو ان حالات میں مستقل طور پر یہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔

ایسے لوگ جو اپنے پورے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہیں، ایک سال کے لیے زیادہ تر ایک بیراج کے قریب واقع سندھ کے مغربی اور جنوبی حصوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

ان مقامات میں عمرکوٹ (جہاں نارا کینال کے قریب یہ لوگ قیام کرتے ہیں)، میر پور خاص اور بدین (جہاں زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے کوٹری بیراج کے قریب ڈیرہ ڈالتے ہیں) شامل ہیں۔
پورے خاندان کو ساتھ لے کر نقل مکانی کرنے کی وجہ کھیتوں پر کام کے مواقع کی تلاش ہے۔

ڈاکٹر سونو کنگھرانی وضاحت کرتے ہیں کہ ’’کپاس اور مرچ کی فصل کی کٹائی پندرہ ستمبر سے شروع ہوتی ہے، جس کے لیے یہ لوگ پہلے سے نقل مکانی کرتے ہیں، اور پھر ایک سال بعد دوبارہ آتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’اس کے علاوہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے حال ہی میں نقلِ مکانی کی ہے، وہ فصل کے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی اور تھر میں مواقع کی کمی کی وجہ سے اپنا قیام جاری رکھ سکتے ہیں۔ ‘‘
چھاچھرو میں تھر ڈیپ دیہی ترقیاتی پروگرام کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن گوتم راٹھی کہتے ہیں تھر میں تباہی کی وجہ ایک جامع پالیسی کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا ’’اگر ہم بڑی تعداد میں پالیسیاں بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پالیسی کے بجائے اس کے نفاذ کے بارے میں سوالات نہیں کررہے ہیں۔‘‘

تھر میں خشک سالی کے حل کی تجویز دیتے ہوئے ڈاکٹر سونو کنگھرانی اور گوتم راٹھی کی رائے تھی کہ مویشیوں کو فوری بنیاد پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ڈاکٹر سونو کنگھرانی کا کہنا تھا کہ ’’صحت کی موبائل ٹیموں کو مختلف حصوں میں بھیجا جانا چاہیٔے، تاکہ وہ ایسے لوگوں کی مدد کرسکیں، جو تعلقہ ہسپتال یا ڈسپنسری تک نہیں پہنچ سکتے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اس کے علاوہ تھر کے لیے پینے کا صاف پانی مویشیوں کو محفوظ بنانے کے لیے بڑی حد تک مدد کرے گا اور اگر وہ بچ گئے تو لوگوں کے لیے طویل عرصے تک زندہ رہنا آسان ہوجائے گا۔

پوری قوم تھر والوں کی قاتل ہے


ذکر تھر کے ریگستان میں پاکستانی بچوں کی کَس مپرسی کی حالت میں موت کا ہے لیکن پوری قوم کے لیے اس شرمناک سانحے کا ذکر پہلے کہاں سے شروع کیا جائے سمجھ میں نہیں آ رہا اور یہ سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں ہے۔ تھر کے اس قحط زدہ علاقے سے باہر کا پاکستان تھر کے مقابلے میں ایک خوشحال پاکستان ہے مگر اس خوشحال پاکستان کو اپنے جسم کے ایک حصے کی خبر نہیں۔ یہ کیسا پاکستان ہے جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور باقی کا پورا پاکستان خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے حتیٰ کہ تھر جیسا چولستان نامی ایک اور ریگستان ایسی موت سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم جب تھر پہنچے تو انھوں نے حکم دیا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ اپنی انتظامیہ کے ان افراد کو سزا دیں جو اس سانحہ کے ذمے دار ہیں۔ قریب ہی گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جو ان بھوکے پاکستانیوں تک نہیں پہنچائے گئے لیکن وزیر اعظم کی سادگی یا سیاسی مجبوری کہ انھوں نے اس سانحے کے اصلی ذمے دار سے کہا کہ وہ اس سانحہ کے مجرموں کو سزا دے یعنی وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا والا مضمون بلکہ آگے چلیے کہ اس سانحہ کی ذمے داری آخر میں خود وزیر اعظم تک پہنچتی ہے کہ وہ پورے ملک کے، بشمول تھر پارکر کے، سب کے حکمران اعلیٰ ہیں اور ہر اچھی بری بات کے ذمے دار بھی۔ ایک ایسے ہی اعلیٰ ترین حکمران کا ایسی ہی صورت حال میں ایک واقعہ جو میں حال ہی میں کہیں پڑھا ہے۔

سخت ترین قحط تھا۔ تاریخ میں اس قحط کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے اور ساتھ ہی اس قحط زدہ ملک کے حاکم اعلیٰ کا بھی۔ یہ حاکم اعلیٰ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہر کی گلی سے گزر رہے تھے کہ انھیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی ایک بچی دکھائی دی۔ بھوک بچی کے چہرے مہرے سے عیاں تھی۔ یہ دیکھ کر حکمران نے پریشان ہو کر اپنے ساتھی سے پوچھا کہ اس بچی کے گھر والے کہاں ہیں، ان سے کہو کہ اس کو اپنے پاس رکھیں۔ یہ سن کر اس حاکم اعلیٰ کے ساتھی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس نے اپنی اشک آلود نظروں سے حاکم اعلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپ نے پہچانا نہیں، یہ آپ کی پیاری پوتی ہے جسے میں نے کئی بار آپ کی گود میں مچلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر حاکم اعلیٰ کو سب یاد آ گیا اور اس کی آنکھیں بھی اپنے ساتھی کی طرح لبریز ہو گئیں لیکن وہ بڑی ہمت کر کے قدم سنبھال کر رکھتے ہوئے آگے چل دیا کیونکہ قحط اس کے ملک کے ہر فرد اور بچے کے لیے برابر تھا۔ یہ امیر المومنین عمر بن خطاب تھا جس کے گھر میں قحط پورے ملک کے گھروں سے زیادہ تھا۔

اب آپ یاد کیجیے کہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اس علاقے میں آمد کے موقع پر دوپہر کو بوفے لنچ کا اہتمام کیا گیا۔ بے حد مرغن غذاؤں سے میز بھر گئے اور سرکاری خوراک پر مزے اڑانے والے ان سجی ہوئی مہکتی چیزوں کے گرد پلیٹیں ہاتھوں میں لیے گپیں لڑاتے رہے۔ نہیں معلوم ان میزوں کے کسی پائے کے نیچے کسی معصوم بھوکے بچے کی میت دبی ہوئی ہو یا ان خوش خوراک لوگوں کے پاؤں تلے کسی بچے کی روح چیخ رہی ہو۔ یہ سب اللہ جانتا ہے اور اس کے اپنے الفاظ میں اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے جب ایسی آسمانی آفتیں نازل ہوتی ہیں جیسی بارش کے نہ ہونے سے قحط کی طرح تو حکمران اس کے ذمے دار نہیں ہوتے یہ سب ان سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی خوشی نا خوشی کا معاملہ ہوتا ہے لیکن قدرت انسانوں کے ردعمل کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ زمین پر جن لوگوں کو اقتدار دیا گیا ہے وہ کیا کر رہے ہیں۔ اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں یا انواع و اقسام کے کھانے اڑا رہے ہیں۔ شکر ہے وزیر اعظم نے یہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ وہ انسان جو چودہ سو برس پہلے تھے اور جو آج ہیں ان سب کے صرف دو ہاتھ ہیں لیکن اصل بات اندر کے احساس ذمے داری کی ہے۔

کوئی اپنے جسمانی عمل اور طاقت سے ایسی آفت نہیں ٹال سکتا لیکن ان لوگوں کی حالت پر رو ضرور سکتا ہے جن کا اس کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے اور ذمے داری کی نوک اس کے دل میں چھبتی رہتی ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ یہی حکمران جب عمر بھر کی اس مشقت سے گھبرا گیا تو وہ ایک دن باہر جا کر سنگ ریزوں سے بھری زمین پر لیٹ گیا اور خدا سے زاری کرنے لگا کہ میں بہت تھک گیا ہوں مجھے اپنے پاس بلا لے کیونکہ اس کا بڑھاپا اس کی ذمے داری کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس تھر کے حادثے کے دن بدقسمتی سے دو بڑے لوگ ان مظلوموں کا حال پوچھنے ان کے ہاں پہنچے تو پولیس نے ان کی حفاظت کے لیے راستے بند کر دیے۔ اسی دوران ایک بچی علاج کے لیے اسپتال لائی جا رہی تھی جو راستے میں روک دی گئی اور پھر وہ ان بڑے پاکستانیوں کی زندگیوں کے تحفظ کی نذر ہو گئی مر گئی۔ زمین پر تو ان بے کس اور بے بس لوگوں کا کوئی پرساں حال نہیں لیکن ان سب کا رب ضرور دیکھ رہا ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سنا ہے کہ سندھ کی انتظامیہ خصوصاً اس علاقے کے افسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جو لوگ قریب ہی پڑی ہوئی گندم اٹھا کر ان بھوکوں تک نہیں پہنچا سکتے وزیر اعظم کا کیا خیال ہے وہ یہ پورے ایک ارب روپے ان تک جانے دیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آپ کی طرح میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ اگر صرف فالتو مال یا سامان حقدار پاکستانیوں تک پہنچا دیا جائے تو کوئی بھوکا نہیں مر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ دو کا کھانا تین آدمیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔ امریکیوں نے پوری دنیا کو اپنی فاسٹ فوڈ پر لگا دیا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہے اور بچے شوق کے ساتھ کھاتے ہیں۔ میرے بچوں کا جب موڈ بنتا ہے تو وہ ماں باپ سے نہیں بابا سے کہتے ہیں کہ انھیں یہ برگر وغیرہ منگوا دیں۔ سچ ہے کہ میں انکار تو نہیں کر سکتا لیکن یہ سوچتا ضرور ہوں کہ اس سے کتنے پاکستانیوں کا پیٹ بھر سکتا ہے اور میں ان بھوکے پاکستانیوں کا حق مار رہا ہوں جس کی یقیناً باز پرس ہو گی لیکن میں یہ گناہ پھر بھی کرتا ہوں جس کی سزا نہ جانے کس صورت حال میں ملے گی اور کب ملے گی اگر کسی حکومت کو فرصت ملے تو وہ کسی ایسے انتظام کی کوشش کرے جس میں کھانے کا سامان تو ضایع نہ ہونے دیں شادیوں پر یہ جرم عام ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ ون ڈش کی پابندی عائد ہے لیکن یہ ون ڈش اتنی مقدار میں تیار کی جاتی ہے کہ کئی ڈشوں کے برابر ہوتی ہے پھر اس پابندی کا کیا فائدہ۔ ہم اپنی بے لگام سوسائٹی پر کنٹرول کر سکتے ہیں اور جدید ملکوں میں ایسا کنٹرول موجود ہے۔ آپ کسی ریستوران میں بھی صرف اتنا کھانا منگوا سکتے جتنا آپ کھا سکیں، فالتو نہیں کیونکہ اسے قومی ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ بات تو بڑی واضح ہے اور سب کو معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور تھر میں بھوکے مرنے والے کیوں بھوکے مر رہے ہیں اس کی پوری قوم ذمے دار ہے اور قاتل بھی۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

یہ صحرا موت کا صحرا ہے

  

شیکسپیر نے اپنے کسی ڈرامے میں کردار کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ ایک انسان جو نابینا ہو، وہ بھی دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ کنگ لیئر کا یہ جملہ آج بہت یاد آیا۔ تھر کے نیم جاں لوگوں سے ہمدردی کے لیے جانے والے ہمارے وزیر اعلیٰ اور ان کے ہمراہیوں نے تھکن اور صدمے سے نڈھال ہوکر مٹھی سرکٹ ہاؤس میں کمر ٹکائی۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے لیے عشائیے کا اہتمام نہ کیا جاتا۔ دروغ برگردن صحافیان، سب کی تواضع تلی ہوئی مچھلی، چکن تکے، بریانی، ملائی بوٹی، کوفتے اور روغنی روٹی سے کی گئی ہے۔ درجہ دوم کے لوگوں کے لیے بریانی کی دیگیں تھیں جو اس قدر خشوع و خضوع سے کھائی گئیں کہ جو لوگ اس بریانی سے حسب خواہش انصاف نہ کرسکے وہ کفِ افسوس مل کر رہ گئے۔ اس عشائیے کی تفصیل جان کر مجھے بے نظیر بھٹو یاد آئیں۔ وہ 70 کلفٹن میں جب اپنے کارکنوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتیں تو دال، چاول، نان اور ایک سبزی کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ جو وہ خود کھاتیں، وہی اپنے جاں نثاروں کو بھی کھلاتیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر بے نظیر بھٹو کسی ایسے اجتماعی سانحے میں پرسہ کرنے اور چارہ جوئی کے لیے گئی ہوتیں تو وزیروں، مشیروں اور افسروں کے اس ہجوم میں کیا ان کے سامنے بھی یہ دسترخوان چننے کی کسی نے مجال کی ہوتی؟ ایسے لمحوں میں وہ اس لیے یاد آتی ہیں کہ وہ مدبر تھیں، رہنما تھیں، ان کے بعد آنے والے شاید وہ لوگ ہیں جو سندھ کے دیہی علاقوں سے ووٹ لینا اپنا پیدائشی حق اور وہاں کے رہنے والوں کا پیدائشی فرض سمجھتے ہیں۔

اس وقت سندھ حکومت کے ذمے داروں کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں پڑنے والے قحط اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ وہ اسے میڈیا بہ طور خاص الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داری قرار دے رہے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ کیسے جان لیا کہ اس سنگین صورت حال میں صوبائی حکومت کی ذمے داری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سابق صدر زرداری صاحب نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کی جو تقسیم کی ہے اس نے ملک کی تمام صوبائی حکومتوں کو بہت زیادہ بااختیار بنادیا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ مقامی بیورو کریسی اور صوبائی دارالحکومت میں موجود متعلقہ افسران اور وزیروں نے حالات کی سنگینی کا احساس کیوں نہ کیا اور اس بحران سے نمٹنے میں اتنی دیر کیوں لگادی۔ تھرپارکر اور اس سے متصل اضلاع میں پیپلز پارٹی کے سرگرم عہدیداروں نے اس الم ناک انسانی مسئلے پر نگاہ کیوں نہ رکھی اور علاقے کے افسران پر دباؤ کیوں نہیں بنایا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیں۔ یہ ذمے داری ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی بھی تھی جو اس علاقے میں بڑے بڑے جلسے کرتی ہیں۔ کیا ان جماعتوں کو اس علاقے کے غریبوں کی ضرورت صرف اس وقت ہوتی ہے جب ووٹ لینے کا موسم آتا ہے۔

یہ ایک اچھی بات ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی معاملات میں عدم مداخلت کا رویہ اپنا رکھا ہے لیکن تھرپارکر کے اس الم ناک سانحے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبوں میں سر اٹھانے والے وہ معاملات اور مسائل جو بہت بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں وفاقی حکومت کو زیادہ حساس رویہ اختیار کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمارے تھرپارکر اور ہندوستانی تھر کے درمیان ریت کے بگولے چکراتے ہیں اور کبھی کبھی سرحدی حد بندیوں سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جس پر خفیہ ایجنسیوں کی گہری نظر رہتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ لوگ دو سوال اٹھا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ خشک سالی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں تھا اور نہ قحط کوئی ناگہانی آفت تھی، اس بارے میں ان ایجنسیوں سے بھول چوک کیسے ہوئی؟ دوسرا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی اور ہندوستانی تھر ایک جیسے مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہندوستانی تھر میں رہنے والے ان مسائل سے دوچار نہیں ہوئے اور نہ وہاں اس طرح اموات ہوئیں۔ اس کا یہ مطلب تو نکلتا ہے کہ سرحد کے دوسری طرف وہاں کی مقامی حکومت کی معاملات پر گرفت بہت بہتر تھی۔ بارش وہاں بھی نہیں ہوئی۔ اناج کی قلت وہاں بھی ہوئی لیکن انھوں نے اسے قحط میں بدلنے نہیں دیا۔ ہم صبح شام ہندوستان پر انگلی اٹھاتے ہیں کیا ان معاملات میں ہمیں ہندوستان سے کچھ سیکھنا نہیں چاہیے؟

اور اب کچھ احتساب اپنا بھی۔ ہم جو اخبارات اور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں، ہم نے تھر کے معاملات پر اس وقت تک توجہ کیوں نہیں دی جب تک یہ بحران الم ناک انسانی المیے میں تبدیل نہیں ہوگیا۔ ان دنوں معاملہ، بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کا ہے، جب طالبان، وینا ملک اور میرا بی بی بریکنگ نیوز کی مرکز نگاہ ہوں اس وقت کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ ذرا کسی اور طرف بھی نگاہ اٹھاکر دیکھے۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ جب میں نگر پارکر، تھر پارکر، مٹھی اور دوسری سرحدی بستیوں کا سفر کرچکی ہوں، وہاں کے قہر ناک موسموں کو قریب سے دیکھا ہے، وہاں کی سیاسی صورت حال پر افسانے بھی لکھے ہیں تو کیا مجھے معلوم نہیں تھا کہ تھر میں خشک سالی سے مور ایسے حسین پرندے اور پھول جیسے بچے کیوں اور کیسے ختم ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ میری ذمے داری نہیں تھی کہ میں اس بارے میں وقت سے پہلے لکھوں اور افسر شاہی کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کروں؟

ہم لکھنے والے عموماً جمہوریت کو برا بھلا کہتے ہیں لیکن یہ بات ماننے کی ہے کہ اگر ملک میں اس وقت جمہوریت نہ ہوتی میڈیا آزاد نہ ہوتا تو اس سانحے اور اس کی شدت کو یوں نہ پیش کیا جاتا۔ دیرسے سہی حکمران اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں تھرپارکر کی طرف یوں دوڑ نہ لگاتیں اور وہاں کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی طرف توجہ نہ دیتیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اب کوئی آمران کی سرپرستی کے لیے نہیں آئے گا اور انھیں ووٹ لینے کے لیے ان ہی کے سامنے جھولی پھیلانی ہونگی جنھیں انھوں نے اس ابتلا میں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ چپکے سے ہی سہی ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ تھر کے لوگوں کو نظر انداز کرنے کا ایک سبب کہیں یہ تو نہیں کہ وہ ہندو ہیں اور ہندو بھی وہ جوکولہی، بھیل اور باگڑی ہیں۔ یقیناً ایسی بات نہیں ہوگی لیکن پھر بھی اس بارے میں ہمیں سوچنا تو چاہیے۔ تھر کے بعد چولستان میں بھی ایک ایسا ہی انسانی المیہ جنم لینے والا ہے تو کیا ہمیں اس بارے میں ابھی سے کچھ نہیں سوچنا چاہیے؟ کیا لازم ہے کہ اپنی نااہلیوں کے سبب ہم ایک بار پھر دنیا میں رسوا اور خود اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوں؟

ان دنوں ہم نے جان سے گزرتے ہوئے بہت سے بچوں کی تصویریں دیکھی ہیں۔ اولاد کی نبضوں کے ڈوبنے کے ساتھ ان کی ماؤں کی آنکھوں میں دم توڑتے ہوئے خواب دیکھے ہیں۔ ایسے میں ابن انشا کی ایک طویل نظم کی چند سطریں نظر سے گزاریئے کہ یہ سطریں جگر شق کرتی ہیں:

یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ بچہ کالا کالا سا…یہ کالا سا مٹیالا سا…یہ بچہ بھوکا بھوکا سا… یہ بچہ سوکھا سوکھا سا… یہ بچہ کس کا بچہ ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… جو ریت پہ تنہا بیٹھا ہے… ناں اس کے پیٹ میں روٹی ہے… ناں اس کے تن پر کپڑا ہے… ناں اس کے سر پر ٹوپی ہے… ناں اس کے پیر میں جوتا ہے… ناں اس کے پاس کھلونوں میں… کوئی بھالو ہے، کوئی گھوڑا ہے… ناں اس کا جی بہلانے کو…کوئی لوری ہے، کوئی جھولا ہے…ناں اس کی جیب میں دھیلا ہے… ناں اس کے ہاتھ میں پیسا ہے…ناں اس کے امی ابو ہیں…ناں اس کی آپا خالا ہے… یہ سارے جگ میں تنہا ہے… یہ بچہ کیسا بچہ ہے… یہ صحرا کیسا صحرا ہے… ناں اس صحرا میں بادل ہے… ناں اس صحرا میں برکھا ہے… ناں اس صحرا میں بالی ہے…ناں اس صحرا میں خوشہ ہے… ناں اس صحرا میں سبزہ ہے… ناں اس صحرا میں سایا ہے… یہ صحرا بھوک کا صحرا ہے… یہ صحرا موت کا صحرا ہے…یہ بچہ کیسے بیٹھا ہے… یہ بچہ کب سے بیٹھا ہے… یہ بچہ کیا کچھ پوچھتا ہے… یہ بچہ کیا کچھ کہتا ہے… یہ دنیا کیسی دنیا ہے… یہ دنیا کس کی دنیا ہے… اس دنیا کے کچھ ٹکڑوں میں… کہیں پھول کھلے کہیں سبزہ ہے… کہیں بادل گھر گھر آتے ہیں… کہیں چشمہ ہے، کہیں دریا ہے…کہیں اونچے محل اٹاریاں ہیں… کہیں محفل ہے، کہیں میلا ہے… کہیں کپڑوں کے بازار سجے… یہ ریشم ہے، یہ دیبا ہے… کہیں غلے کے انبار لگے… سب گیہوں دھان مہیا ہے… کہیں دولت کے صندوق بھرے… ہاں تانبا، سونا، روپا ہے… تم جو مانگو سو حاضر ہے… تم جو چاہو سو ملتا ہے… اس بھوک کے دکھ کی دنیا میں… یہ کیسا سکھ کا سپنا ہے؟… وہ کس دھرتی کے ٹکڑے ہیں؟…یہ کس دنیا کا حصہ ہے؟…ہم جس آدم کے بیٹے ہیں …یہ اس آدم کا بیٹا ہے… یہ آدم ایک ہی آدم ہے… وہ گورا ہے یا کالا ہے… یہ دھرتی ایک ہی دھرتی ہے… یہ دنیا ایک ہی دنیا ہے… سب اک داتا کے بندے ہیں… سب بندوں کا ایک ہی داتا ہے… کچھ پورب پچھم فرق نہیں…اس دھرتی پر حق سب کا ہے۔

زاہدہ حنا

تھر کے بھوکے پیاسے سندھی



قحط، زلزلہ یا سیلاب نہیں ہوتا کہ اچانک آجائے، ناگہانی وار کرے،لمحوں میں بستیوں اور آبادیوں کو اپنی ہلاکت آفرینی سے ملیامیٹ کردے، قحط تو ایسی کربناک آفت کا نام ہے جوآہستہ آہستہ دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع وعریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کرتی ہے، زمانہ قدیم میں قحط کا شکار بے بسی اور بے کسی سے دم توڑتے تھے کہ انھیں موت سے بچانے والے ہاتھ بہت دور ہوتے تھے، دشوار گذار اور طویل فاصلے، امدادی ٹیموں کے لیے موت کی اس جولان گاہ تک فوری رسائی کو مشکل اور بعض حالات میں ناممکن بنا دیا کرتے تھے پھر انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی تھی۔ گدھ زندہ انسانوں کے دم نکلنے کے منتظر ارد گرد منڈلاتے رہتے لیکن زندہ انسانوں کو نوچنے سے گریزاں ہوتے کہ فطرت نے ان کو یہی سکھایاتھا ۔ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان ہے جو کسی صورت ترس نہیں کھاتا۔ دم توڑتا، جاں بلب یا پیاس کا شکار مظلوم ،یہ سب کو اپنی اغراض کا ترنوالا بنا لیتا ہے۔

مواصلات کے اس جدید دور میں قحط سے موت کا تصور ناپید ہوچکا ہے کہ دم توڑتی انسانیت کو پلک جھپکتے میں اشیائے خورد نوش پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں سے لے کر دیوہیکل کنٹینروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں تک امداد کی فوری فراہمی نے قحط کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسی دور جدید میں ہمارے تھر میں انسانیت سسک سسک کردم توڑ رہی ہے جہاں بچے بھوک سے زیادہ پیاس سے مررہے ہیں یا ناقابل استعمال آلودہ پانی ان کے لیے زہر قاتل بن رہا ہے۔ ناکافی غذا ،ادویات اور معالجوں کی عدم دستیابی نے اس سانحے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ خشک سالی اور قحط کے بارے میں فطرت انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے مظاہر قدرت کو واضح کرنا شروع کردیتی ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے پہلے مرحلے میں جنگلی حیات ناپید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مختلف بیماریاں چرند پرند اور انسانوں پر دھاوا بول دیتی ہیں۔ تھر میں گذشتہ کئی برسوں سے ڈھور ڈنگر مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ تھر کے مورتو ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔گذشتہ سالوں میں جب بے شمار مور اچانک اور یک لخت مرنے لگے تو کسی پر اسرار وائرس کے حملے کا چرچاہوا تھا ، انھی دنوں اس کالم نگار کے دوست ماہر جنگلی حیات نے خبردار کیا تھا کہ تھر میں خشک سالی کا طویل دور شروع ہونے والا ہے جس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

خشک سالی کا منطقی انجام قحط کی صورت میں متشکل ہوتا ہے جس کے لیے ذخائر خوراک اور صاف پانی کی فراہمی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ زوال کا شکار ہمارے سماج میں اب سر پڑی نمٹانے کی عادت راسخ ہوچکی ہے، اس لیے فطرت کی بار بار واضح تنبیہ کے باوجود کسی حکمت کار نے اس کی پروا نہیں کی، کوئی اقدام نہیں کیا سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، تھر میں زندگی اور موت کا کھیل تو گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ وبائیں پھیلتی رہیں ، لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور ہم میلے ٹھیلوں میں مصروف رہے۔ سندھ کی ثقافت کی ترویج کے نام پر جب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پر جشن رنگ ونورمنایا جا رہا تھا عین اسی وقت تھر کے وسیع و عریض ویرانوں میں بکھرے ہوئے بے نوا انسانوں پر، گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور مٹیالی خاکستر گوٹھوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے لیکن سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے جب کہ موہنجوداڑوکے کھنڈرات سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک رنگ وبو کا ایک ہنگام برپا تھا، سندھ کی عظمت کے قصے کہانیاں تھیں، داستان گو بزم آراء تھے، لوک گلوکار زرق برق لباس پہنے محو رقص تھے چہار سو شہنائیاں گونج رہی تھیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر اسی سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے تھے۔

’’مرسوں‘مرسوں سندھ ناں ڈیسوں‘‘کے نعرے لگانے والے ،بات بہ بات ٹیوٹر(Twitter) پر عقل و دانش کی پھل جھڑیاں چھوڑنے والے سب غائب ہیں، بے حس حکمرانوں نے موت کے کھیل کو اَناکی جنگ بنادیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پنجاب اور مرکز کی امداد لینے سے انکار اور فوج کو تھر کے بجائے وزیرستان بھجوانے کے مشورے دیے جارہے ہیں، تھر کے بے نواؤں کی ’مزاج پرسی‘کے دیے جانے والے حکمرانوں کے لیے سرکٹ ہاؤس میں شاہانہ دعوتوں کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایک طرف سندھ کے بیٹے پانی کو ترس رہے ہیں جب کہ ان کے منتخب نمایندے کوفتوں، مچھلی اور بریانی اڑارہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تھر کا مخدوم زادہ ڈپٹی کمشنر غریب تھریوں کو گلاب اُگانے اور اپنی معیشت بہتر بنانے کے مشورے دے رہا تھا۔وہ جن کے پھول جیسے بچے ناکافی خوراک، بھوک پیاس سے جان بلب ہوں۔ وہ گلاب اگائیں گے؟ کاش اس مخدوم زادے نے اپنے دادا اور عظیم سندھی دانشور، مخدوم طالب المولیٰ کی ایک ،آدھ رُباعی ہی پڑھ لی ہوتی جو تادم آخر سندھ اور سندھیوں کے عشق میں مبتلا رہے۔

بعدازمرگ شورشرابا اور واویلا چہ معنی دارد؟ وزیراعظم نواز شریف نے متاثرین تھر کے لیے ایک ارب روپے کی خطیر رقم کا اعلان کیا ہے لیکن اس طرح کیا وہ سیکڑوں پھولوں جیسے بچے واپس آجائیں گے جن کی ماؤں کی گودیں ہماری بے حسی کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں۔ یہ کوئی آفت ناگہانی نہیں تھی، ظاہر وباہر المناک حقیقت تھی جو گذشتہ کئیبرسوں سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ہمیں خبردار کررہی تھی لیکن ہم توشترمرغ ہیں کہ مصیبت دیکھتے ہی ریت میں سردبالیتے ہیں، اس طرح کی خوش فہمی سے اَجل بھی کبھی ٹلا کرتی ہے، یہ اور بات ہے کہ نشانہ ہم نہیں، بے بس اور بے کس تھر والے تھے جن کا زمانوں سے رہنما ،تہجد گذار ارباب غلام رحیم نجانے کہاں روپوش ہے جس کی پہلی منزل لاہور یا دبئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے نیم شبی کے نالے اور رکوع وسجود بارگاہ الٰہی میں کیسے باریاب ہوسکتے ہیں کہ میرے آقاومولاؐکے ایک غلامؓفرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی پیاس سے مر گیا تو اس کا جواب دہ عمرؓہوگا۔

رہی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی تو ان کا اللہ حافظ ہے۔ غریبوں کے حقوق اور ان کے غم میں کھلنے والی سول سوسائٹی ہویا انقلاب، انقلاب کا رٹا لگانے والی نام نہاد جمہوری جماعتیں کوئی بھی تھر نہیں پہنچا، بوسینا سے فلسطین تک مسلمانوں کے دکھ میں تڑپنے والے صالحین بھی حکمت اورحماقت کے گورکھ دھندے کو سلجھانے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غربت کو کاروبار بنانے والے شائستہ کلام دانشور ہوں یا شاعر مصیبت کی اس گھڑی میں سب غائب ہیں۔ اے کاش جمہوریت حقیقی معنوں میں بروئے کار ہوتی ،بلدیاتی ادارے موجودہوتے تو قوم کو اس مصیبت کا چند ماہ پہلے پتہ چل جاتا لیکن ہم تو مربوط اور مسبوط انداز میں ایک نظام کے تحت کام کرنے کے بجائے آفت ٹوٹنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ’کارروائی‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔

اسلم خان  

Enhanced by Zemanta

Ye Ghaflat Nahin Qattal Hai by Ansar Abbasi


Thar Drought

سندھ کا قحط اور قیادت

ہم نے حکومتی نکمے پن کے کئی مظاہر ے دیکھے ہیں۔ بلکہ اتنے دیکھے ہیں کہ اب یاد کرنا بھی محال ہے کہ ان میں سے سب سے حیرت انگیز کون سے تھے۔ بدقسمتی سے اس نہ ختم ہونے والے سلسلہ ہائے نکما پن میں ہر روز تیزی سے اضافہ ہی ہو تا ہے۔ یہ عمل آہستہ ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت سندھ کو لیجیے، خوراک کی کمی کے باعث 130 کے لگ بھگ بچوں کی ہلاکتوں کی خبر نے دوسرے مسائل کے ساتھ ایک بڑے مسئلے کو جنم دے دیا ہے جس سے متعلق عوامی نمایندگان کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بچوں کی اموات کو بیان کرنے کا ہے۔ تمام تر حکمت کو بروئے کار لانے کے باوجود یہ حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ اس کو خوراک کی کمی کہا جائے، قحط کہا جائے، بدلتے ہوئے موسم کا نتیجہ بیان کیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ اس غربت زدہ علاقے میں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔

قحط کی خبر سامنے آئی تو جیالوں نے ہر طرف امدادی کیمپ لگا دیے۔ وزیر اعلی فوراً متحرک ہو گئے اور اپنے مشیران اور قریبی دوستوں کے ساتھ اس علاقے میں جا پہنچے۔ ایک آدھ چھوٹے افسر کو معطل کیا، کسی کو کان پکڑ کر باہر نکال دیا، کسی کو دھمکی دی، اور کسی کی سرزنش ہوئی۔ امداد کا علان بھی کر دیا گیا۔ مگر جب اس تمام ہنگامے میں یہ زاویہ سامنے آیا کہ قحط کی تہمت سیاسی طور پر ایک اسکینڈل میں تبدیل ہو سکتی ہے تو مختلف قسم کی تردیدیں اور وضاحتیں سامنے آنے لگیں۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ قحط نہیں کچھ خشک سالی تھی، موسم کی خرابی اور کچھ گندم کی مقامی طور پر فراہمی کے نظام میں کمزوری۔ خشک سالی پر محکمہ موسمیات نے وضاحت کر دی اس علاقے کی بارش کی اوسط معمول کے مطابق ہے۔ موسم کے تغیر و تبدل نے ان اموات میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا۔ ظاہر ہے جو بھی ہوا اُس کا تعلق انسانوں کے بنائے ہوئے اُس نظام سے ہے جس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

پاکستان بھر میں مختلف حلقوں کے مسائل کچھ ایسے ہی ہیں۔ مگر اس سندھ میں چونکہ سیاسی طور پر اپنے حقوق کا ادارک رکھنے کا عمل دوسرے صوبوں کی نسبت گہرا ہے لہذا یہاں پر اس قسم کے واقعہ کا ہو جانا بالخصوص افسوسناک ہے۔ قائم علی شاہ کی حکومت شہباز شریف کی حکومت کی طرح چھٹے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیاسی عمل پر اپنی گرفت بدترین حالات میں بھی کمزور نہیں ہونے دی۔ چاہے اُس اتحاد کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ وقتی ضرورت کے تحت بننے والے تعلقات بھی سیاسی جماعتوں کو زمینی حقائق کے قریب ترین رکھتے رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جن افسوس ناک حالات میں اللہ کو پیاری ہوئیں اُس کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھی قیادت جذباتی طور پر یہاں کے عام لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق مزید گہرا کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ پھر صدر آصف علی زرداری کے دور میں تو یہ تمام علاقے اُس سیاسی باغ کی طرح استعمال ہوتے رہے جس کا ہر پھل نفع اور نقصان کے کھاتوں میں درج کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ خاندان جن کے بچے اپنی اور اپنی مائوں کی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے قبل از وقت زندگی کی جنگ ہار گئے دور دراز گوٹھوں میں رہنے کے باجود ہر ایک کے سیاسی ریڈار پر موجود تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کے حالات اور اِن پر ٹوٹنے والے پہاڑ اُن نمایندگان کی نظروں سے اوجھل ہوں جو ہر وقت اپنے ہم وطنوں کے حقوق کے تحفظ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔

مگر ایسے ہی ہوا کیونکہ حقیقت دعووں سے بالکل مختلف ہے۔ سندھ کے اصل باشندے جن کو دوسرے صوبوں کے استحصال کے خوف میں برسوں مبتلا رکھا گیا ہے، اصل میں اپنے نام نہاد مسیحاوں کے سیاسی غلام بنے ہوئے ہیں۔ اُن کا سیاسی استحصال جذبات ابھار کر کیا جاتا ہے۔ اُن کی بھوک اور ذلت کو اس وجہ سے برقرار رکھا جاتا ہے کہ اُن پر مسلط طبقوں کے سیاسی نعرے کرارے رہیں۔ گندم اور چاول اُن کے گھروں سے دور رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ مقامی طاقتور ظالمین کے گھٹنے چھوتے رہیں۔ اور ہمیشہ یہ محسوس کریں کہ یہ سب کچھ کیے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتے۔ وہ ووٹ بھی اپنی مجبوری اور بے کسی میں انھیں کو دیتے ہیں جو اپنے استحصال کی وجہ سے ان کے بچوں کی روح قبض کرتے ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب سیاسی سلسلہ ہے۔ جس میں بے مراد لوگ مراد پانے کے لیے اُنہیں ڈیروں پر حاضری دیتے ہیں جو اُن کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ تمام وسائل سیاسی بازی گروں نے طرح طرح کے حیلے استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔

سندھی تاش کے پتوں کی طرح ہیں جن کو ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کھیلتا ہے۔ اس تمام تماشے کی جڑوں تک پہنچنے کے لیے آپ کو تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جو سیاست دان ہر وقت سندھ کے استحصال کی بات کر تے ہیں اُن کا رہن سہن تو دیکھیں، ذخائر سونے کے ہوں یا خوراک کے، کھیت کھلیانوں کی وسعت ہو یا مزارعوں کی تعداد ہر جگہ پر آپ کو دولت، راحت اور عیاشی ناچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر چھوٹے پن کا یہ عالم ہے کہ گندم کیڑوں کو کھانے کے لیے فراہم کر دیں گے ‘انسان کے بچے تک پہنچنے کا انتظام نہیں کریں گے۔ گھوڑوں کو مربے کھلا کر پالتے ہیں، غریب سندھیوں کی اولاد کو گوبر چننے پر لگا یا ہو اہے۔ اس کم بخت نظام کو ثقافت کا نام دے کر قابل دفاع یا قابل قبول بنایا جاتا ہے۔ جب کوئی تنقید کرتا ہے تو اُس کو سندھ صوبے کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ جب اِن کے نعروں کے کھو کھلے پن کو سامنے لایا جاتا ہے تو ہر گھر پر اپنا جھنڈا لہرانے لگتے ہیں۔ کوئی سیاسی پیر ہے اور کوئی گدی نشین ہے۔ کوئی انگریزوں کا بنایا ہو ا جاگیردار ہے اور کسی نے قتل کر کے زمینیں سنبھالی ہو ئی ہیں۔ قحط کی وجہ یہ لوگ ہیں۔

قدرت نے وسائل سب کے لیے یکساں پیدا کیے ہیں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی۔ کسی کو اپنے وسائل کا داروغہ نہیں بنایا۔ قدرت کے امتحان بھی سب کے لیے یکساں ہیں مگر زمین پر انصاف کی کمی، لالچ، حرص اور ظالموں کے قبیلے نے انسان کو جانوروں سے بدتر حالت میں رکھتے ہوئے اپنی طاقت کو دوام دیا ہے۔


دنیا میں ایک تحقیق کے مطابق اصل جمہوریت کے ہوتے ہوئے قحط کی صورت حال کے باوجود لوگ بھوکے نہیں مر سکتے کیونکہ مشکل ترین حالات میں کسی بھی جگہ یا اُس کے اردگرد وسائل یا مواقع یقینا موجود ہوتے ہیں جن کو بروقت تقسیم کر کے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس بروقت تقسیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار نمایندگی کا وہ نظام ہے جو لوگوں کے ووٹوں اور اُن کی منشاء سے مرتب ہوتا ہے۔ اصل جمہوریت قحط کے خلاف سب سے بڑا اور موثر بند ہے اس پیمانے کو لے لیں تو آپ خود ہی طے کر پائیں گے کہ ہمارے ہاں کیسی اور کس کی جمہوریت ہے۔جب لوگوں کی بنیادی ضروریات ایسے پوری نہ ہوں کہ وہ ہمیشہ جانکنی کے عالم میں رہے تو اس نظام کو جمہوری کہنا بڑے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ ان حالات میں سندھ کے قوم پرستوں کی ذمے داری بھی بنتی ہے۔ جو انھوں نے پوری نہیں کی۔

سندھ کے پسے ہوئے عوام کو اچھی متبادل قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو نظریاتی طور پر عوامی مسائل کو سمجھتے بھی ہیں اور حل کرنے کی جستجو کا راستہ بھی جانتے ہیں اُن کو اپنا کردار جلد اور موثر انداز سے ادا کر نا چاہیے تھا۔ ایسا نہیں ہوا بیانات پر زور زیادہ ہے کام پر کم، انقلابی تحریر اور تقریر کی کثرت ہے زمین پر منظم کام کی کمی۔ دنیا کی تاریخ میں انقلابی تحریر سے زیادہ عمل اور تقریر سے زیادہ تنظیم پر انحصار کر تے رہے ہیں۔ ماوزے تنگ نے کسانوں کے اندر رہ کر اُس انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے چین کی تاریخ بدل دی۔ اگر وہ شہروں میں بیٹھا محض فلسفہ جھاڑتا رہتا تو چین آج بھی چیانگ کائی شیک کی چو تھی نسل کے ہاتھ میں ہوتا۔ قحط سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اس طبقے کے ہاتھ سے طاقت واپس لینے ہو گی جس نے پاکستان بھر کی طرح یہاں پر بھی بربادی کا سماں پیدا کیا ہوا ہے۔

طلعت حسین

Thar Drought 

Enhanced by Zemanta

Help and Duaa for Thar People



Thar Drought
Enhanced by Zemanta