پوری قوم تھر والوں کی قاتل ہے

00:03 Unknown 0 Comments


ذکر تھر کے ریگستان میں پاکستانی بچوں کی کَس مپرسی کی حالت میں موت کا ہے لیکن پوری قوم کے لیے اس شرمناک سانحے کا ذکر پہلے کہاں سے شروع کیا جائے سمجھ میں نہیں آ رہا اور یہ سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں ہے۔ تھر کے اس قحط زدہ علاقے سے باہر کا پاکستان تھر کے مقابلے میں ایک خوشحال پاکستان ہے مگر اس خوشحال پاکستان کو اپنے جسم کے ایک حصے کی خبر نہیں۔ یہ کیسا پاکستان ہے جس کے بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور باقی کا پورا پاکستان خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے حتیٰ کہ تھر جیسا چولستان نامی ایک اور ریگستان ایسی موت سے محفوظ ہے۔ وزیر اعظم جب تھر پہنچے تو انھوں نے حکم دیا کہ صوبائی وزیر اعلیٰ اپنی انتظامیہ کے ان افراد کو سزا دیں جو اس سانحہ کے ذمے دار ہیں۔ قریب ہی گندم کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جو ان بھوکے پاکستانیوں تک نہیں پہنچائے گئے لیکن وزیر اعظم کی سادگی یا سیاسی مجبوری کہ انھوں نے اس سانحے کے اصلی ذمے دار سے کہا کہ وہ اس سانحہ کے مجرموں کو سزا دے یعنی وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا والا مضمون بلکہ آگے چلیے کہ اس سانحہ کی ذمے داری آخر میں خود وزیر اعظم تک پہنچتی ہے کہ وہ پورے ملک کے، بشمول تھر پارکر کے، سب کے حکمران اعلیٰ ہیں اور ہر اچھی بری بات کے ذمے دار بھی۔ ایک ایسے ہی اعلیٰ ترین حکمران کا ایسی ہی صورت حال میں ایک واقعہ جو میں حال ہی میں کہیں پڑھا ہے۔

سخت ترین قحط تھا۔ تاریخ میں اس قحط کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے اور ساتھ ہی اس قحط زدہ ملک کے حاکم اعلیٰ کا بھی۔ یہ حاکم اعلیٰ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ شہر کی گلی سے گزر رہے تھے کہ انھیں کونے میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوئی ایک بچی دکھائی دی۔ بھوک بچی کے چہرے مہرے سے عیاں تھی۔ یہ دیکھ کر حکمران نے پریشان ہو کر اپنے ساتھی سے پوچھا کہ اس بچی کے گھر والے کہاں ہیں، ان سے کہو کہ اس کو اپنے پاس رکھیں۔ یہ سن کر اس حاکم اعلیٰ کے ساتھی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور اس نے اپنی اشک آلود نظروں سے حاکم اعلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا کہ آپ نے پہچانا نہیں، یہ آپ کی پیاری پوتی ہے جسے میں نے کئی بار آپ کی گود میں مچلتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سن کر حاکم اعلیٰ کو سب یاد آ گیا اور اس کی آنکھیں بھی اپنے ساتھی کی طرح لبریز ہو گئیں لیکن وہ بڑی ہمت کر کے قدم سنبھال کر رکھتے ہوئے آگے چل دیا کیونکہ قحط اس کے ملک کے ہر فرد اور بچے کے لیے برابر تھا۔ یہ امیر المومنین عمر بن خطاب تھا جس کے گھر میں قحط پورے ملک کے گھروں سے زیادہ تھا۔

اب آپ یاد کیجیے کہ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اس علاقے میں آمد کے موقع پر دوپہر کو بوفے لنچ کا اہتمام کیا گیا۔ بے حد مرغن غذاؤں سے میز بھر گئے اور سرکاری خوراک پر مزے اڑانے والے ان سجی ہوئی مہکتی چیزوں کے گرد پلیٹیں ہاتھوں میں لیے گپیں لڑاتے رہے۔ نہیں معلوم ان میزوں کے کسی پائے کے نیچے کسی معصوم بھوکے بچے کی میت دبی ہوئی ہو یا ان خوش خوراک لوگوں کے پاؤں تلے کسی بچے کی روح چیخ رہی ہو۔ یہ سب اللہ جانتا ہے اور اس کے اپنے الفاظ میں اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے جب ایسی آسمانی آفتیں نازل ہوتی ہیں جیسی بارش کے نہ ہونے سے قحط کی طرح تو حکمران اس کے ذمے دار نہیں ہوتے یہ سب ان سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ قدرت کی خوشی نا خوشی کا معاملہ ہوتا ہے لیکن قدرت انسانوں کے ردعمل کو دیکھ رہی ہوتی ہے کہ زمین پر جن لوگوں کو اقتدار دیا گیا ہے وہ کیا کر رہے ہیں۔ اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں یا انواع و اقسام کے کھانے اڑا رہے ہیں۔ شکر ہے وزیر اعظم نے یہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ وہ انسان جو چودہ سو برس پہلے تھے اور جو آج ہیں ان سب کے صرف دو ہاتھ ہیں لیکن اصل بات اندر کے احساس ذمے داری کی ہے۔

کوئی اپنے جسمانی عمل اور طاقت سے ایسی آفت نہیں ٹال سکتا لیکن ان لوگوں کی حالت پر رو ضرور سکتا ہے جن کا اس کو ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے اور ذمے داری کی نوک اس کے دل میں چھبتی رہتی ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ یہی حکمران جب عمر بھر کی اس مشقت سے گھبرا گیا تو وہ ایک دن باہر جا کر سنگ ریزوں سے بھری زمین پر لیٹ گیا اور خدا سے زاری کرنے لگا کہ میں بہت تھک گیا ہوں مجھے اپنے پاس بلا لے کیونکہ اس کا بڑھاپا اس کی ذمے داری کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس تھر کے حادثے کے دن بدقسمتی سے دو بڑے لوگ ان مظلوموں کا حال پوچھنے ان کے ہاں پہنچے تو پولیس نے ان کی حفاظت کے لیے راستے بند کر دیے۔ اسی دوران ایک بچی علاج کے لیے اسپتال لائی جا رہی تھی جو راستے میں روک دی گئی اور پھر وہ ان بڑے پاکستانیوں کی زندگیوں کے تحفظ کی نذر ہو گئی مر گئی۔ زمین پر تو ان بے کس اور بے بس لوگوں کا کوئی پرساں حال نہیں لیکن ان سب کا رب ضرور دیکھ رہا ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ وزیر اعظم نے ان لوگوں کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سنا ہے کہ سندھ کی انتظامیہ خصوصاً اس علاقے کے افسروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ جو لوگ قریب ہی پڑی ہوئی گندم اٹھا کر ان بھوکوں تک نہیں پہنچا سکتے وزیر اعظم کا کیا خیال ہے وہ یہ پورے ایک ارب روپے ان تک جانے دیں گے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آپ کی طرح میرا بھی یہ تجربہ ہے کہ اگر صرف فالتو مال یا سامان حقدار پاکستانیوں تک پہنچا دیا جائے تو کوئی بھوکا نہیں مر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت مشہور ہے کہ دو کا کھانا تین آدمیوں کے لیے بھی کافی ہوتا ہے۔ امریکیوں نے پوری دنیا کو اپنی فاسٹ فوڈ پر لگا دیا ہے جو بہت مہنگی ہوتی ہے اور بچے شوق کے ساتھ کھاتے ہیں۔ میرے بچوں کا جب موڈ بنتا ہے تو وہ ماں باپ سے نہیں بابا سے کہتے ہیں کہ انھیں یہ برگر وغیرہ منگوا دیں۔ سچ ہے کہ میں انکار تو نہیں کر سکتا لیکن یہ سوچتا ضرور ہوں کہ اس سے کتنے پاکستانیوں کا پیٹ بھر سکتا ہے اور میں ان بھوکے پاکستانیوں کا حق مار رہا ہوں جس کی یقیناً باز پرس ہو گی لیکن میں یہ گناہ پھر بھی کرتا ہوں جس کی سزا نہ جانے کس صورت حال میں ملے گی اور کب ملے گی اگر کسی حکومت کو فرصت ملے تو وہ کسی ایسے انتظام کی کوشش کرے جس میں کھانے کا سامان تو ضایع نہ ہونے دیں شادیوں پر یہ جرم عام ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر۔ ون ڈش کی پابندی عائد ہے لیکن یہ ون ڈش اتنی مقدار میں تیار کی جاتی ہے کہ کئی ڈشوں کے برابر ہوتی ہے پھر اس پابندی کا کیا فائدہ۔ ہم اپنی بے لگام سوسائٹی پر کنٹرول کر سکتے ہیں اور جدید ملکوں میں ایسا کنٹرول موجود ہے۔ آپ کسی ریستوران میں بھی صرف اتنا کھانا منگوا سکتے جتنا آپ کھا سکیں، فالتو نہیں کیونکہ اسے قومی ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ بات تو بڑی واضح ہے اور سب کو معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور تھر میں بھوکے مرنے والے کیوں بھوکے مر رہے ہیں اس کی پوری قوم ذمے دار ہے اور قاتل بھی۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

0 comments: