تھر کے بھوکے پیاسے سندھی

23:22 Unknown 0 Comments



قحط، زلزلہ یا سیلاب نہیں ہوتا کہ اچانک آجائے، ناگہانی وار کرے،لمحوں میں بستیوں اور آبادیوں کو اپنی ہلاکت آفرینی سے ملیامیٹ کردے، قحط تو ایسی کربناک آفت کا نام ہے جوآہستہ آہستہ دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع وعریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے ہمکنار کرتی ہے، زمانہ قدیم میں قحط کا شکار بے بسی اور بے کسی سے دم توڑتے تھے کہ انھیں موت سے بچانے والے ہاتھ بہت دور ہوتے تھے، دشوار گذار اور طویل فاصلے، امدادی ٹیموں کے لیے موت کی اس جولان گاہ تک فوری رسائی کو مشکل اور بعض حالات میں ناممکن بنا دیا کرتے تھے پھر انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی تھی۔ گدھ زندہ انسانوں کے دم نکلنے کے منتظر ارد گرد منڈلاتے رہتے لیکن زندہ انسانوں کو نوچنے سے گریزاں ہوتے کہ فطرت نے ان کو یہی سکھایاتھا ۔ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان ہے جو کسی صورت ترس نہیں کھاتا۔ دم توڑتا، جاں بلب یا پیاس کا شکار مظلوم ،یہ سب کو اپنی اغراض کا ترنوالا بنا لیتا ہے۔

مواصلات کے اس جدید دور میں قحط سے موت کا تصور ناپید ہوچکا ہے کہ دم توڑتی انسانیت کو پلک جھپکتے میں اشیائے خورد نوش پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں سے لے کر دیوہیکل کنٹینروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں تک امداد کی فوری فراہمی نے قحط کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسی دور جدید میں ہمارے تھر میں انسانیت سسک سسک کردم توڑ رہی ہے جہاں بچے بھوک سے زیادہ پیاس سے مررہے ہیں یا ناقابل استعمال آلودہ پانی ان کے لیے زہر قاتل بن رہا ہے۔ ناکافی غذا ،ادویات اور معالجوں کی عدم دستیابی نے اس سانحے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ خشک سالی اور قحط کے بارے میں فطرت انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے مظاہر قدرت کو واضح کرنا شروع کردیتی ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے پہلے مرحلے میں جنگلی حیات ناپید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مختلف بیماریاں چرند پرند اور انسانوں پر دھاوا بول دیتی ہیں۔ تھر میں گذشتہ کئی برسوں سے ڈھور ڈنگر مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ تھر کے مورتو ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔گذشتہ سالوں میں جب بے شمار مور اچانک اور یک لخت مرنے لگے تو کسی پر اسرار وائرس کے حملے کا چرچاہوا تھا ، انھی دنوں اس کالم نگار کے دوست ماہر جنگلی حیات نے خبردار کیا تھا کہ تھر میں خشک سالی کا طویل دور شروع ہونے والا ہے جس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

خشک سالی کا منطقی انجام قحط کی صورت میں متشکل ہوتا ہے جس کے لیے ذخائر خوراک اور صاف پانی کی فراہمی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ زوال کا شکار ہمارے سماج میں اب سر پڑی نمٹانے کی عادت راسخ ہوچکی ہے، اس لیے فطرت کی بار بار واضح تنبیہ کے باوجود کسی حکمت کار نے اس کی پروا نہیں کی، کوئی اقدام نہیں کیا سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، تھر میں زندگی اور موت کا کھیل تو گذشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ وبائیں پھیلتی رہیں ، لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے اور ہم میلے ٹھیلوں میں مصروف رہے۔ سندھ کی ثقافت کی ترویج کے نام پر جب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پر جشن رنگ ونورمنایا جا رہا تھا عین اسی وقت تھر کے وسیع و عریض ویرانوں میں بکھرے ہوئے بے نوا انسانوں پر، گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور مٹیالی خاکستر گوٹھوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے لیکن سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے جب کہ موہنجوداڑوکے کھنڈرات سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک رنگ وبو کا ایک ہنگام برپا تھا، سندھ کی عظمت کے قصے کہانیاں تھیں، داستان گو بزم آراء تھے، لوک گلوکار زرق برق لباس پہنے محو رقص تھے چہار سو شہنائیاں گونج رہی تھیں لیکن چند قدم کے فاصلے پر اسی سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے تھے۔

’’مرسوں‘مرسوں سندھ ناں ڈیسوں‘‘کے نعرے لگانے والے ،بات بہ بات ٹیوٹر(Twitter) پر عقل و دانش کی پھل جھڑیاں چھوڑنے والے سب غائب ہیں، بے حس حکمرانوں نے موت کے کھیل کو اَناکی جنگ بنادیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پنجاب اور مرکز کی امداد لینے سے انکار اور فوج کو تھر کے بجائے وزیرستان بھجوانے کے مشورے دیے جارہے ہیں، تھر کے بے نواؤں کی ’مزاج پرسی‘کے دیے جانے والے حکمرانوں کے لیے سرکٹ ہاؤس میں شاہانہ دعوتوں کا اہتمام ہورہا ہے۔ ایک طرف سندھ کے بیٹے پانی کو ترس رہے ہیں جب کہ ان کے منتخب نمایندے کوفتوں، مچھلی اور بریانی اڑارہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے تھر کا مخدوم زادہ ڈپٹی کمشنر غریب تھریوں کو گلاب اُگانے اور اپنی معیشت بہتر بنانے کے مشورے دے رہا تھا۔وہ جن کے پھول جیسے بچے ناکافی خوراک، بھوک پیاس سے جان بلب ہوں۔ وہ گلاب اگائیں گے؟ کاش اس مخدوم زادے نے اپنے دادا اور عظیم سندھی دانشور، مخدوم طالب المولیٰ کی ایک ،آدھ رُباعی ہی پڑھ لی ہوتی جو تادم آخر سندھ اور سندھیوں کے عشق میں مبتلا رہے۔

بعدازمرگ شورشرابا اور واویلا چہ معنی دارد؟ وزیراعظم نواز شریف نے متاثرین تھر کے لیے ایک ارب روپے کی خطیر رقم کا اعلان کیا ہے لیکن اس طرح کیا وہ سیکڑوں پھولوں جیسے بچے واپس آجائیں گے جن کی ماؤں کی گودیں ہماری بے حسی کی وجہ سے اجڑ چکی ہیں۔ یہ کوئی آفت ناگہانی نہیں تھی، ظاہر وباہر المناک حقیقت تھی جو گذشتہ کئیبرسوں سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ ہمیں خبردار کررہی تھی لیکن ہم توشترمرغ ہیں کہ مصیبت دیکھتے ہی ریت میں سردبالیتے ہیں، اس طرح کی خوش فہمی سے اَجل بھی کبھی ٹلا کرتی ہے، یہ اور بات ہے کہ نشانہ ہم نہیں، بے بس اور بے کس تھر والے تھے جن کا زمانوں سے رہنما ،تہجد گذار ارباب غلام رحیم نجانے کہاں روپوش ہے جس کی پہلی منزل لاہور یا دبئی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے نیم شبی کے نالے اور رکوع وسجود بارگاہ الٰہی میں کیسے باریاب ہوسکتے ہیں کہ میرے آقاومولاؐکے ایک غلامؓفرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتابھی پیاس سے مر گیا تو اس کا جواب دہ عمرؓہوگا۔

رہی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی تو ان کا اللہ حافظ ہے۔ غریبوں کے حقوق اور ان کے غم میں کھلنے والی سول سوسائٹی ہویا انقلاب، انقلاب کا رٹا لگانے والی نام نہاد جمہوری جماعتیں کوئی بھی تھر نہیں پہنچا، بوسینا سے فلسطین تک مسلمانوں کے دکھ میں تڑپنے والے صالحین بھی حکمت اورحماقت کے گورکھ دھندے کو سلجھانے میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ غربت کو کاروبار بنانے والے شائستہ کلام دانشور ہوں یا شاعر مصیبت کی اس گھڑی میں سب غائب ہیں۔ اے کاش جمہوریت حقیقی معنوں میں بروئے کار ہوتی ،بلدیاتی ادارے موجودہوتے تو قوم کو اس مصیبت کا چند ماہ پہلے پتہ چل جاتا لیکن ہم تو مربوط اور مسبوط انداز میں ایک نظام کے تحت کام کرنے کے بجائے آفت ٹوٹنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ’کارروائی‘ کے عادی ہوچکے ہیں۔

اسلم خان  

Enhanced by Zemanta

0 comments: