Multan

22:44 Unknown 0 Comments


یوں تو اس کُرہ ارض پر موجود ہر انسانی آبادی اپنی ایک تاریخ اور تہذیب رکھتی ہے لیکن کچھ علاقے، شہر یا قصبے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے مکینوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل کر جاتے ہیں۔ ملتان برصغیر پاک و ہند کا ایک ایسا ہی شہر ہے جو تاریخی اعتبار سے مسلسل آباد رہنے والے شہروں میں شمار ہوتا ہے، کم و بیش اسی طرح کی اہمیت اسے اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی حاصل ہے کہ 712ء میں اُموی دور حکومت میں مختلف وجوہات کی بنا پر چار بڑی فوجی مہمات اس وقت کی معلوم دنیا کے چار اہم علاقوں کی طرح روانہ ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک رخ اسی علاقے کی طرف تھا جسے آج ملتان کہا جاتا ہے۔ میرا اشارہ طارق بن زیاد (اندلس) موسیٰ بن نصیر (مراکش) قیتبہ بن مسلم (وسطی ایشیا) اور محمد بن قاسم (سندھ۔ ہندوستان) کی طرف ہے۔ ملتان کو اولیاء اللہ کا شہر بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے نواح میں روحانی اور دینی اعتبار سے بہت سی اہم ہستیاں دفن ہیں۔


شاکر حسین شاکر کا شمار ملتان سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں کی نسبتاً نوجوان نسل میں ہوتا ہے حالانکہ وہ گزشتہ تقریباً 25 برس سے کئی حوالوں سے کتاب کی محبت کے اسیر چلے آرہے ہیں۔ ایک خوش گو شاعر، کالم نگار اور ناشر کے حوالے سے تو اردو دنیا میں ان کی پہچان مستحکم ہوچکی ہے لیکن اس کتاب ’’ملتان۔ عکس و تحریر‘‘ کی معرفت ان کے اندر کے محقق اور تاریخ نگار کا جو روپ سامنے آیا ہے، وہ اہم بھی ہے اور قابل تعریف بھی۔ اپنی ترتیب اور پیش کش کے اعتبار سے بھی یہ کتاب اپنا ایک مخصوص انداز رکھتی ہے کہ اس میں عمارات کی تصاویر کی بجائے ایک باکمال مصور ضمیر ہاشمی کے سکیچز نما تصویری خاکوں، تصویروں کو استعمال کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ شاکر حسین شاکر نے اپنے ابتدائیے میں وضاحت کی ہے، اس کتاب کی تحریر ہی اصل میں ان تصویروں کی مرہون منت ہے یعنی تصویر پہلے بنی اور تحریر نے بعد میں اس کے قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع کردیا۔اس معاملے کی مختصر رُوداد انھوں نے کچھ اس طرح سے بیان کی ہے۔

’’اس کتاب کو لکھنے کا خواب ملک کے نامور مصور ضمیر ہاشمی کی ملتان پر بنائی ہوئی تصاویر کو ذہن میں بسا کردیکھا گیا۔ شروع میں خیال یہ تھا کہ ہر تصویر کے بارے میں صرف ایک صفحہ لکھا جائے اور قارئین کو ضمیر ہاشمی کے فن پاروں کے ساتھ تاریخ ملتان سے بھی واقفیت ہو جائے لیکن موضوع اتنا پھیلتا گیا کہ بعض تصاویر کے پس منظر میں ایک باب لکھتے ہوئے پوری کتاب کا مضمون سامنے آگیا اور یوں یہ ضخیم کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کتاب کے ذریعے آپ ملتان کے بہت سے گوشوں سے پہلی بار واقف ہورہے ہیں اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ گوشے ضمیر ہاشمی کی تصویروں کے ساتھ آپ کی لائبریری میں ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔‘‘

اب آئیے ایک نظر ان عنوانات پر ڈالتے ہیں۔ شاکر حسین شاکر نے انھیں سات عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے جن میں سے ہر ایک کے بہت سے ذیلی عنوانات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے عنوان ’’مدینۃالاولیا‘‘ کے دامن میں ملتان کی 9 روحانی شخصیات، ان کے مزارات اور حالات زندگی بمعہ کرامات کو جگہ دی گئی ہے (حضرت موج دریا، حضرت شاہ محمد یوسف، حضرت شاہ شمس سبزواری، حضرت بہاؤالدین زکریا، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت موسیٰ پاک شہید، حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی، ماتی مہربان اور خواجہ غلام فرید) دوسرا عنوان ’’صدیوں کی چاپ‘‘ ہے جس کے پانچ ذیلی عنوانات ہیں۔ اسی طرح ’’تحفہ ملتان‘‘ کے عنوان تلے گرد، گرما، گدا اور گورستان کے مشہور عام تصورات پر بات کی گئی ہے۔ چوتھا عنوان ’’برطانوی عہد‘‘ پانچواں ’’مساجد‘‘ چھٹا ’’ملتان کل آج اور کل‘‘ اور ساتواں ’’رسوم و رواج‘‘ ہے۔

کتاب کا دیباچہ مشہور شاعر اور کالم نگار رضی احمد بن رضی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ’’ملتان۔ میرا اور شاکر کا رومان‘‘ ہے ،ان دوستوں کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ شاعر قمر رضا شہزاد اور سخن فہم شیخ محمد افضل کا ذکر نہ کیا جائے کہ یہ چاروں ادب دوست فی الوقت ملتان کی نئی نسل کی پہچان بن چکے ہیں۔رضی الدین رضی نے بڑی تفصیل سے اس کتاب کے محاسن اور پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی نثر خوب صورت بھی ہے۔ معلوماتی اور خرد افروز بھی مثال کے طور پر یہ چند جملے دیکھے جاسکتے ہیں۔

’’پانچ ہزار سال قدیم شہر میں سانس لینا بلا شبہ ایک منفرد اور خوشگوار تجربہ ہے۔ اس تجربے سے گزرتے تو سبھی ہیں لیکن اسے محسوس کرنے کے لیے شہر سے والہانہ محبت بلکہ عشق ضروری ہے۔ بہت کم شہر ایسے ہیں کہ جن کی گلیوں اور بازاروں میں گھومیں تو صدیاں آپ کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ملتان بھی ایسا ہی ایک شہر ہے جہاں ہر گلی ہر محلے میں تاریخ آپ کے قدم تھامتی ہے۔ سوچنے سمجھنے اور ادراک رکھنے والوں کو یہ شہر بار بار اپنی جانب متوجہ کرتا ہے…ضمیر ہاشمی نے ملتان کو مصور کرنے کا عمل جب شروع کیا تو اس کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ اسے ایک ایسا شخص بھی ملے گا جو ان تصویروں سے ملتان کی تاریخ کریدے گا جو ہر تصویر کو ہاتھ میں تھامے تصویر کے منظر تک پہنچے گا اور پھر تلاش کرے گا کہ یہ منظر جو ضمیر ہاشمی نے اپنی تصویر میں محفوظ کرلیا ہے، اسے مزید کس طرح محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ وہ سوچے گا کہ یہ منظر اس تصویر میں جیسا نظر آرہا ہے، یہ تصویر سے پہلے اور پھراس سے بھی پہلے کیسا تھا۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ رضی الدین رضی نے بڑی خوبصورتی سے اس کتاب میں شامل تصویروں، تحریروں اور تحقیق کو ایک جگہ جمع کردیا ہے، شاکر حسین شاکر کے مختلف بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اپنی تحقیق کے ضمن میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صحیح معنوں میں مددگار کتابیں بہت کم تھیں جب کہ مخطوطات اور روائتوں کا معاملہ اور بھی پیچیدہ تھا کہ روحانی ہستیوں اور بالخصوص ان کی کرامات کے حوالے سے جو حکائتیں اور شواہد سامنے آتے ہیں، ایک تو ان پر صدیوں کی گرد جمی ہوتی ہے اور دوسرے ان میں عقیدت کا عنصر اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ’’حقیقت‘‘ سرے سے ہی غائب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں بھی بہت سی ایسی روائتیں درج کی گئی ہیں جنھیں عقل سلیم تو کیا کامن سنس بھی قبول کرنے میں متامل ہوتی ہے لیکن ان کا بیان بھی ضروری تھا کہ مدینۃ الاولیا کے حوالے سے انھیں یکسر نظر انداز کردینا بھی ممکن نہ تھا۔

مجموعی طور پر تاریخ اور بالخصوص ملتان کی تاریخ اور تہذیب سے دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے یہ کتاب اہم بھی ہے اور دلچسپ بھی اور اس کے لیے ہمیں ضمیر ہاشمی، شاکر حسین شاکر اور اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے تمام احباب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ کسی جغرافیے کی حفاظت کے لیے اس کی تاریخ کا شعور اور اس کی حفاظت بھی یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔

امجد اسلام امجد   

0 comments: