پاکستان کو بامِ عروج پر لے جانے کا راستہ

02:35 Unknown 0 Comments


وقت کا بالکل خاموش(noise less) دریا تیزی سے بہہ رہا ہے۔ دن ، مہینے سال اور حتیٰ کہ صدیاں برق رفتاری کے ساتھ گزرتی چلی جاتی ہیں۔ بچے پیدا ہوتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے بلوغت کو پہنچتے ہیں بوڑھے ہوتے ہیں اور اس جہان فانی سے کوچ کرجاتے ہیں پیچھے ایک اور کھیپ تیزی سے اُن کا تعاقب کر رہی ہوتی ہے اس طرح اللہ کی تخلیق کی ہوئی ساری مخلوق کے چہرے پچھلے اربوں سال سے بدل رہے ہیں ۔اس نسل میں ہم جیسے زندہ انسانوں کا کردار واقعی پل دو پل کی کہانی ہے۔ آج کی دنیا میں تقریباً 70 سال پر محیط موجودہ انسانوں کی اوسط عمر مائیکرو سکینڈز سے بھی کم تر ہے۔فارس کی بین الاقوامی طاقت کا ایک وقت طوطی بولتا تھا۔ پھر سلطنت عثمانیہ پوری دنیا پر چھائی رہی ، انگریزوں کا تو گلوب کے اتنے بڑے حصے پر قبضہ تھا کہ اُن کی سلطنت میں سورج کو غروب ہونے کیلئے کوئی بھی حصہ میسر نہ تھا۔ اب امریکہ بادشاہ بپھر ہوئے ایک مست گھوڑے کی طرح دندنارہا ہے جس کی راسیں سویٹ یونین کی وفات کے بعد اچانک ٹوٹ گئیں لیکن اب چینی سائنس کافی گُڑ کھلا کر اس گھوڑے کو کچھ حد تک رام کرنے میں کامیاب ہورہا ہے، بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ اب ایشین صدی کی ابتدا ہوچکی ہے اگلے چار پانچ عشروں میں اب چین سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت بن کر ابھرے گا اور چونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر کمالِ راز والِ۔ اگلے دو یا تین سو سال میں صرف اللہ کی ذات ہی جانتی ہے کہ دنیا کا نقشہ کیا ہوگا۔

قارئین وقت کے اس تیز دھارے میں جو گھڑیاں ہماری زندگی سے منسوب ہیں،اُن کو ہمیں اپنے عقیدے کے مطابق بہت اچھی طرح گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اس میں اہم تو اللہ کے حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے اس کے بعد انسانوں کے حقوق ہیں جو اللہ کی نگاہ میں افضل ترین ہیں یہ سب اللہ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات ہمیں بہتر انسان بنانے کیلئے ہیں۔ نبی کریم کا سیرت و کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کو جب کسی نے صلاح دی کہ آپ کیوں نہیں مغل بادشاہ اکبر کا وہ دین لاگو کرتے جس سے ہر مذہبی مکتب فکر خوش رہے تو قائداعظم نے فرمایا کہ میرے پاس جب تیرہ سو سالہ پرانی دینی رہنمائی موجود ہے تو میں اکبر بادشاہ کے چند سو سال پہلے کے دین الٰہی کو کیوں اپناﺅں۔ قائداعظم ساری انسانی خطاﺅں کے باوجود مضبوط ایمان والے پکے عقیدے کے مالک تھے۔1300 سال پہلے کے دین کا حوالہ میثاق مدینہ اور نبی کریم کے آخری خطبے کی طرف اشارہ تھا جس میں نبی کریم نے مسلمان، یہودی اور عیسائی سب کے ریاستی حقوق میں برابری کا نہ صرف درس دیا بلکہ کئی عدالتی فیصلے مسلمان مدعی کے خلاف اور یہودی مدعا علیہ کے حق میں دئیے چونکہ انصاف کا تقاضہ یہی تھا۔ نبی کریم نے اپنے آخری خطبے میں فرمایااے مومنو ں یا اے مسلمانوں نہیں کہا بلکہ نو دفعہ اے لوگوں کہہ کر مخاطب کیا۔ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب العالمین ہے اور دین اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ طرزِ حیات ہے جو ساری کائنات کیلئے ہے۔نبی کریم نے فرمایا کہ جس طرح آپ کے دل میں حج کے دن اس ماہ اور اس شہر کی فضلیت ہے بالکل اسی ایک مسلمان کی جان کا احترام لازم ہے اور قرآن کریم میں تو یہ بھی کہا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اس لئے لوگوں کو دھماکوں سے اڑانے والے ، گلے کاٹنے والے، بستیوں میں لوگوں کو جلانے والے اور ڈرون حملوں سے بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے والے سب انسانیت کے قاتل ہیں۔ یہ سلسلہ اب 2014 میں بند ہوناچاہئے۔ملک کے اندر یا باہر چینیوں، ایرانیوں، ہندوﺅں، عیسائیوں یا ہم وطن مسلمانوں پر حملے کرنے والے اور فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت کو ہوا دینے والے نبی کریم کے آخری خطبے کے اس پیغام کو پڑھیں۔

” ساری انسانیت کی ابتدا حضرت آدم اور حوا سے ہوئی اس لئے عرب کی غیر عرب یا غیر عرب کی عرب پر اور کالے کی گورے اور گورے کی کالے پر کوئی فوقت نہیں۔ انسانوں میں فضلیت کا معیار صرف کردار کی پاکیزگی اور اعمال کی خوبصورتی ہے “۔

قارئین اپنے گریبان میں جب ہم دیکھتے ہیں تو بہت ساری کمزوریاں، ہمیں گھورتی ہیں انکو پہچاننا ان پر قابو ڈالنا یا پھر قابو ڈالنے کا مصمم ارادہ کرنا ہی ایک بہت بڑا جہاد ہے۔اس جہاد میں کامیابی صرف ہماری ذات کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی فلاح کیلئے بہتر ہوگی چونکہ اچھے افراد ہی اچھے معاشرے کی اصل روح ہوتے ہیں۔ذاتی اصلاح اللہ کی نگاہ میں بھی افضل ہے فرمایا جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔آئیے ہم عہد کریں کہ 2014ءمیں ہم گزرے ہوئے سالوں کی نسبت اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی سعی کرینگے۔

2013 کے سال میں بھی بہت سارے بے گناہ لوگوں کا خون بہتا رہا۔ کراچی ہویا بلوچستان یا قبائلی پٹی، انسانوں کا انسانوں کے ہاتھ قتال ہوا۔2013 کی اچھی بات پُر امن قومی انتخابات تھے۔ افواج پاکستان سیاست سے دو ررہی، انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرین کی مدد کی جس میں چھ فوجی شہید بھی کردئیے گئے۔فوج کی مدد سے گوادر میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کوئٹہ میں پچاس ڈاکٹر سالانہ تیار کرنے والا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اور بلوچستان میں انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز چل رہے ہیں جس میں۔ کوئٹہ، کراچی، لاہور، پشاور، گوجرانوالہ اور بہاولپور میں فوج کے بلوچ طلبا کیلئے بورڈنگ ہاﺅسز تیار کئے ہیں جن میں 678 بلوچ طلبا رہ رہے ہیں ان کے کھانے پینے اور رہائش کے سارے اخراجات فوج اٹھاتی ہے یہ شاید بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت 4183 بلوچ طلبا کی پورے پاکستان میں مفت تعلیم کا بندوبست بھی افواج پاکستان نے کیا ہے اس میں Chama lang کوئلے کی کانوں کے متاثرین بھی شامل ہیں۔ جہاں تک FATA کا تعلق ہے پچھلے سال مرکزی وزیر خواجہ آصف نے گومل زیم ڈیم کے پاور ہاﺅس کا افتتاح کیا جو فوج کی مدد سے تیار ہوا۔ FWO نے انڈس ہائی وے کو افغانستان کی سرکولر روڈ سے ملانے والی 714 کلو میٹر لمبی سڑک بھی مکمل کرلی ہے۔اس کے علاوہ ٹانک مکین (108 کلو میٹر) ٹانک۔ وانا(101کلو میٹر) اور ٹانک۔ جنڈولہ سڑکوں پر فوج کی مدد سے کام جاری ہے۔اس کے علاوہ وانا اور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج فوج کی مدد سے زیر تعمیر ہے۔ائیر فورس نے 2013 میں JF 17 تھنڈر کا پچاسواں جہاز تیار کرلیا۔ ہم ہر سال 16 سے 25 جہاز تیار کیا کرینگے نو ممالک ان کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈرون(براک) کی تیاری بھی ملکی سائنسدانوں کی بڑی کامیابی ہے۔

میاں نواز شریف کی حکومت نے پچھلے ماہ ملکی پالیسیوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے جدوجہد میں صرف کئے جو ایک بہت بڑا کام ہے اب تیزی سے آگے کا سفر شروع ہوناچاہئے۔موجودہ حکومت کو 2014 میں جن چھ اہم معاملات پر توجہ دینی چاہئے ان میں معیشت، داخلی امن، خارجہ پالیسی، ملکی دفاع، جمہوری اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی شامل ہیں۔ کالم کی محدود آغوش میں ان سارے امور کی تفصیلات شامل کرنا ممکن نہیں لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان سب پر موجودہ حکومت کام شروع کرچکی ہے۔خارجہ امور میں علاقائی اتحاد کی بات چل رہی ہے۔ داخلی حالات کو بہتر کرنے کیلئے مسلح گروہوں سے مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔معیشت پر وزیر خزانہ کی مدلل پریس کانفرنس نے بہت سے قائدین کو چپ کروادیا ہے۔قومی سلامتی کے امور میں افواج پاکستان کی قیادت برابر کی شریک ہے۔جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عدلیہ آزاد۔ اب قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے ماتحت عدلیہ میں بہت ساری اصلاحات متوقع ہیں ۔امید ہے حکومت 2014 میں عدل کے نظام کو بہتر کرنے اور تعلیم کے نظام کو موثر بنانے پر اپنی پوری قوت لگائے گی چونکہ پاکستان کو بام عروج پر لے جانے کا سب سے چھوٹا اور بہترین سیدھا راستہ قانون کی حکمرانی اور تعلیم کے فروغ میں پنہاں ہے۔

0 comments: