Showing posts with label Indian. Show all posts

سب مایا ہے.......وسعت اللہ خان


المیہ یہ ہے کہ جہاں دریا نہ ہو وہاں بھی پل بنانے کے وعدے پر ووٹ لے لینا ہی کامیاب انتخابی سیاست کہلاتی ہے۔ (نکیتا خروشچیف)

جرمنی

نچلے طبقے کے ٹوٹے ہوئے کنبے میں پیدا ہونے والا ناکام مصور، ضدی مزدور، ارادے کا پکا فوجی ڈا کیا اڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر کیسے بنا؟ جب انیس سو انیس میں اس نے نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو انتہائی دائیں بازو کے کئی جرمن گروپوں کی طرح اس پارٹی کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ مگر ایسے کسی گروپ میں شمولیت کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ تنظیمی صلاحیت کے بل بوتے پر آدمی تیزی سے ترقی کرسکتا ہے اور ہٹلر تو سراپا تنظیمی صلاحیت تھا۔

چنانچہ انتھک ہٹلر کی قیادت میں گمنام نازی پارٹی نے انیس سو چوبیس میں پہلا پارلیمانی الیکشن لڑا اور پانچ سو ستتر کے ایوان میں چودہ سیٹیں حاصل کیں۔ انیس سو اٹھائیس کے الیکشن میں صرف بارہ سیٹیں ملیں لیکن انیس سو تیس میں ہونے والے الیکشن میں نازی پارٹی ایک سو سات سیٹیں لے کر سوشل ڈیموکریٹس کے بعد دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ صرف دو سال میں بارہ سے ایک سو سات سیٹیں کرلینا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ہٹلر اور اس کی ٹیم نے ان دو برسوں میں اپنی ناکامی کے اسباب کو سمجھنے کی سنجیدگی سے کوشش کی۔ پتہ یہ چلا کہ صرف یہودیوں کے خلاف نفرت ، کیمونسٹوں سے دشمنی اور سوشل ڈیموکریٹس کو منافق بتانے سے کام نہیں چلے گا۔

زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو شیشے میں اتارنے کے لیے انتخابی حکمتِ عملی اور نعرے بدلنے پڑیں گے۔لہٰذا پورے جرمنی کو نازی پارٹی کی اٹھانوے علاقائی شاخوں میں تقسیم کیا گیا۔ مقصد پارٹی کی ممبر سازی میں تیزی لانا اور نچلی سطح تک منظم ہونا تھا۔ نوجوانوں کو ساتھ ملانے کے لیے ہٹلر یوتھ بنی۔پارٹی رضاکاروں کی پانچ نیم عسکری شاخیں تشکیل دی گئیں۔مزدوروں،کسانوں، اساتذہ، سرکاری ملازموں، چھوٹے کاروباریوں کی ذیلی تنظیمیں بنا کر انھیں پارٹی کے ساتھ جوڑا گیا۔ نازی پارٹی کی انیس سو تیس کی ممبر شپ دیکھی جائے تو اکیانوے فیصد ممبروں کا تعلق مڈل کلاس سے اور پینتیس فیصد کا مزدور طبقے سے تھا۔

سن تیس کے الیکشن کا انچارج جوزف گوئبلز کو بنایا گیا۔ جس نے انتخابی مہم کو ایک سائنس میں تبدیل کردیا۔ پہلی دفعہ کسی لیڈر نے الیکشن مہم میں تیزی لانے کے لیے ہوائی جہاز کا استعمال کیا۔ ریڈیو پر انتخابی پیغامات دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ رات کو ہزاروں افراد کے مشعل بردار جلوس کی روایت پڑی تاکہ دیکھنے والے مبہوت رہ جائیں۔لاکھوں کی تعداد میں رنگین پوسٹرز اور بینرز کی مفت تقسیم کا چلن شروع ہوا۔ ہزاروں کے مجمع میں جا کر عام لوگوں سے ہاتھ ملانا، چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا کر پیار کرنا اور تصویر کھچوانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

ہٹلر غضب کا مقرر تھا۔بہت آہستہ آہستہ تقریر شروع کرتا اور رفتہ رفتہ آواز بڑھتی چلی جاتی اور آخر میں مجمع خطابت کی سحر انگیزی سے پاگل ہوچکا ہوتا۔اقتصادی مسائل اور سیاسی عدم استحکام سے تنگ آدمی جلسے سے باہر نکلتا تو ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی خواب ضرور ہوتا۔ بے روزگاروں کو روزگار، دیوالیہ کاروباریوں کے لیے قرضے، صنعت کاروں کو ٹیکس کی چھوٹ، فوج کی سابقہ عظمت کی بحالی، طبقاتی فرق میں کمی، سیاسی افراتفری کا خاتمہ، ایک مضبوط حکومت قائم کرکے بدعنوانی سے پاک ایسے عظیم جرمنی کی تعمیر کا خواب جو معاہدہ ورسائے کی غلامانہ زنجیریں کاٹ پھینکے۔ رگوں میں خالص آریائی خون رکھنے والی شاندار قوم کا عظیم الشان جرمنی جس میں یہودی بینکروں اور کیمونسٹوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔

تین اکتوبر انیس سو تیس کو جرمن پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس ہوا تو ایک سو سات نازی ممبر ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور جب اسمبلی کے صدر نے ایک ایک کا نام پکارا تو ہال میں ’’ پریزنٹ ہائل ہٹلر ’’ کا نعرہ ایک سو سات دفعہ گونجا۔

اب سوال یہ ہے کہ ہٹلر جس نے انیس سو بیس میں جرمن ٹیکس حکام کو بتایا تھا کہ وہ ایک ایسا غریب اخباری لکھاری ہے جس کے پاس گاڑی بھی ادھار کی ہے۔اسی ہٹلر کی جماعت نے اگلے چھ برس میں بارہ سیٹوں سے ایک سو سات سیٹوں تک جو زقند لگائی تو وسائل کہاں سے آئے۔

انیس سو چوبیس تک بہت سے جرمن کاروباریوں نے آگے کے حالات بھانپ لیے تھے۔وہ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بدحال جرمنی میں بڑھتی کیمونسٹ طاقت سے خائف تھے اور سوشل ڈیموکریٹس کے حامی تھے مگر کچھ سرمایہ کاروں نے جرمنی کے اقتصادی و سیاسی مسائل کا حل ہٹلر کی فلاسفی میں دیکھنا شروع کیا چنانچہ انیس سو چوبیس کے بعد سے نازی پارٹی جرمن کارپوریٹ سیکٹر کی سرپرستانہ نگاہوں میں آنی شروع ہوئی۔معروف اسٹیل صنعت کار فرٹز تھائیسن نازی پارٹی کا باقاعدہ ممبر بنا۔ہیوگو سٹائنز کی بزنس فیملی نے نازیوں کے ہفت روزہ وولکشر بیوباختر کو روزنامہ بنانے میں مدد دی۔کیمیکلز اور دواساز کمپنی آئی جی فاربین کی طرف سے مالی معاونت شروع ہوئی اور انیس سو تیس کی انتخابی کامیابی کے بعد تو نازی پارٹی ایسا سیاہ گھوڑا بن گئی جس پر کارپوریٹ سیکٹر آنکھیں بند کرکے شرط بد سکتا تھا۔

انیس سو اکتیس میں کوئلے کی کانوں کے سیٹھوں کی تنظیم نے ہر ایک ٹن کوئلے کی فروخت سے حاصل پیسے میں سے آدھا مارک نازی پارٹی کو بطور چندہ دینا شروع کیا۔ اسی سال آئی جی فاربین اور چند دیگر کاروباریوں اور بینکروں نے پانچ لاکھ مارک کا چندہ دیا۔نازی پارٹی نے اس مقصد کے لیے ڈوش بینک میں نیشنل ٹرسٹی شپ کے نام سے ایک اکاؤنٹ قائم کیا جو ہٹلر کے نائب رڈولف ہس کے نام پر تھا۔

انیس سو بتیس میں جب جرمنی میں بے روزگاری بین الاقوامی کساد بازاری کے سبب عروج پر تھی اور کوئی قومی جماعت اپنے طور پر یا باہمی نفاق کے سبب مخلوط حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی تو جولائی کے پارلیمانی انتخابات میں نازی پارٹی اپنی پچھلی کامیابی کو دوگنا کرتے ہوئے دو سو تیس نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر ابھری۔مگر پانچ سو ستتر کے ایوان میں دو سو اناسی کی سادہ اکثریت کسی کے پاس نہیں تھی مگر کوئی کیمونسٹوں، سوشل ڈیموکریٹس اور نازیوں میں سے کوئی کسی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے پر تیار نہیں تھا چنانچہ صرف چار مہینے بعد دوبارہ الیکشن کرانے پڑ گئے لیکن کساد بازاری کی شدت میں کمی کے سبب نازیوں کی سیٹیں دو سو تیس سے کم ہو کر ایک سو چھیانوے رہ گئیں۔ صدر وان ہنڈن برگ نے اگلے دو مہینے حکومت بننے کے انتظار کے بعد جنوری تینتیس میں پہلی دفعہ نازیوں کو حکومت سازی کی دعوت دی اور ہٹلر نے چانسلر کا حلف اٹھا لیا مگر یہ بھی دیوار پر لکھا تھا کہ کوئی پارٹی نازیوں سے حکومت سازی میں تعاون نہیں کرے گی لہٰذا پھر انتخابات کرانے پڑیں گے۔

بیس فروری کو اسمبلی کے صدر (اسپیکر) ہرمن گوئرنگ کے گھر پر جرمن بزنس اور انڈسٹری کے باسز کو مدعو کیا گیا۔شرکاء میں سب سے بڑی اسٹیل اور اسلحہ ساز کمپنی کرپ کے مالک الفرڈ کرپ وان بوہلن کے علاوہ آئی جی فاربین، اے ای جی اور اوسرم سمیت تیرہ بڑے صنعتی و تجارتی نمایندے اور سرمایہ کار شریک ہوئے۔ہٹلر نے تقریباً ڈھائی گھنٹے ان سے خطاب کیا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ اس وقت ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو متحد کرکے تعمیرِ نو کر سکے۔ اگر جلد ایسا نہ ہوا تو کیمونزم جرمنی کو کھا جائے گا۔اس تقریرِ پرتاثیر کے نتیجے میں کارپوریٹ سیکٹر نے تین ملین مارک کا فنڈ قائم کیا۔ یہ اتنی بڑی رقم تھی کہ الیکشن کے بعد بھی اس میں سے چھ لاکھ مارک بچ گئے۔

اس اجلاس کے سات دن بعد پارلیمنٹ کو پراسرار طور پر آگ لگ گئی۔اگلے دن پارلیمنٹ نے یہ قانون منظور کیا کہ کابینہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اگلے چار ماہ تک ضروری قانون سازی کرسکتی ہے چنانچہ بنیادی شہری حقوق معطل ہوگئے۔پارلیمنٹ کی آتشزدگی کے الزام میں کیمونسٹوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔الیکشن کا اعلان ہوا۔ تربیت یافتہ نازی نوجوانوں نے سڑکوں اور گلیوں میں مخالفین کی مارپیٹ شروع کردی اور جلسے خراب کیے گئے۔مارچ تینتیس کے الیکشن میں نازیوں کو دو سو اٹھاسی سیٹیں مل گئیں یعنی سادہ اکثریت سے ایک کم۔انھوں نے دائیں بازو کے چند غیر نازی ارکان کو توڑا اور ہٹلر باقاعدہ چانسلر بن گیا۔

ہندوستان۔

انیس سو پچیس میں ناگپور کے ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیگواڑ نے راشٹریہ سیوامک سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد ہندوستان کو خالص آریائی ہندو راشٹر بنانا تھا۔ہٹلر کی طرح آر ایس ایس نے بھی اپنی خالص آریائی شناخت ابھارنے کے لیے سواستیکا کا نشان اپنایا۔آر ایس ایس کی بنیادی قیادت جو مہا دیو سداشیوگول والکر ، ونائک دمودر ساورکر اور ہیگواڑ پر مشتمل تھی اسے ہندو راشٹر کی منزل مسولینی کی فاشسٹ اور ہٹلر کی نازی آئیڈیا لوجی میں صاف نظر آرہی تھی۔گولوالکر نے اپنے ایک مضمون میں ہٹلر کی یہود دشمن پالیسی کو سراہتے ہوئے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر لکھا۔’’ غیر ملکی عناصر کے لیے دو ہی راستے ہیں۔یا تو اکثریتی گروہ میں ضم ہو کر اس کا کلچر اپنا لیں یا پھر دھرتی چھوڑ دیں۔یہی اقلیتی مسئلے کا درست اور منطقی حل ہے‘‘۔

اکتیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو جب آر ایس ایس کے ایک سابق رکن ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کردیا تو آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔انیس سو اکیاون میں آر ایس ایس نے ڈاکٹر شیاما پرشاد مکھر جی کی قیادت میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اپنی ذیلی سیاسی شاخ تشکیل دی۔جن سنگھ نے انیس سو باون میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں لوک سبھا کی صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔انیس سو ستاون کے انتخابات میں اسے چار، باسٹھ میں چوہتر، سڑسٹھ میں پینتیس اور اکہتر کے الیکشن میں بائیس نشستیں ملیں۔انیس سو ستتر کا الیکشن آر ایس ایس نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف بننے والے اتحاد جنتا پارٹی کے بینر تلے لڑا لیکن جب انیس سو اسی کے انتخابات میں جنتا پارٹی کو شکست ہوگئی اور اتحاد بکھر گیا تو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے جنم لیا۔ نئی پارٹی نے انیس سو چوراسی کے انتخابات میں دو سیٹیں حاصل کیں لیکن اس کے فوراً بعد ایودھیا میں رام مندر بناؤ تحریک کے نتیجے میں اسے انیس سو نواسی میں پچاسی نشستیں ، اکیانوے میں ایک سو بیس اور چھیانوے میں ایک سو چھیاسٹھ نشستیں ملیں۔بی جے پی نے سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنانے کی کوشش کی مگر سولہ دن بعد یہ حکومت مستعفی ہوگئی لیکن جب انیس سو اٹھانوے میں ایک سو بیاسی سیٹیں ملیں تو پہلی مرتبہ آر ایس ایس کو بی جے پی کی شکل میں واجپائی کی قیادت میں حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن دو ہزار چار کے انتخابات میں بی جے پی گجرات میں قتلِ عام سے پیدا ہونے والی بے یقینی اور اقتصادی ترقی کے ثمر میں عام آدمی کو شریک نہ کرنے کے سبب انڈیا شائننگ کا نعرہ لگانے کے باوجود کانگریس کے ہاتھوں شکست کھا گئی اور دو ہزار نو میں بھی اسے اندرونی انتشار کے سبب صرف ایک سو سولہ نشستیں ملیں جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اکیس کم تھیں۔تو پھر ایسا کیا معجزہ ہوا کہ بی جے پی کے سیاسی اتحاد نے دو ہزار چودہ کے الیکشن میں اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور بھارت کو تیس سال بعد ایسی حکومت مل گئی جو اپنی معیاد مکمل کرنے کے لیے سیاسی اتحادیوں کے رحم و کرم پر نہیں۔کیا یہ گجرات ماڈل کی کامیابی ہے یا سن تیس کے جرمن کارپوریٹ ماڈل کی چمتکاری ہے۔

وسعت اللہ خان   

اردو بمقابلہ انگریزی.......Urdu vs English


اگر آپ کسی بھی زبان کی ساخت کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی پیدائش ایسی ہے جو صدیوں پر محیط ہے شکل بدلتی رہتی ہے اس کی تراش، خراش ہوتی رہتی ہے جس کو قدرت نہیں کرتی بلکہ انسان کرتے ہیں جب کہ قدرتی ذی حیات کی تعمیر اور ترقی میں محض قدرت کا ہی دخل ہے۔ آدمؑ میں اللہ نے روح پھونکی شیطان کو ادراک نہ تھا اس لیے انسان کی ترقی باکمال ہے ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اسی طرح زبان بھی ایک کمال ہے۔ ایک نوعمر بچہ بغیر گرامر کے اصول جانے صحیح زبان بولتا ہے تذکیروتانیث کا برمحل استعمال مگر یہ زبان صدیوں کا سرمایہ ہے۔ زبان تہذیب و ثقافت کا آئینہ ہے اس کی ارتقا آواز بہ آواز ہوئی اس لیے صوت در صوت اس کی ہر آواز کا وزن کیا گیا۔

یعنی آواز کی موجوں کے ارتعاش سماعت دماغ میں پیدا کیے ہوئے ان سروں کو خوبصورت، کومل یا بوجھل کیسا محسوس کرتی ہے اسی اعتبار سے لفظ کا چناؤ کیا گیا ورنہ شروع میں انسان گونگا ہی تھا۔ بس شور اور اشاروں پر اکتفا کرتا تھا مگر صاحبان فہم نے اشارے کو شور یا پکار سے ملادیا اس موقعے پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بی بی حوا اور بابا آدمؑ کون سی زبان بولتے تھے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب براعظم نہ بنے تھے خلیجی ریاستیں بھارت اور سری لنکا سے جڑی تھیں اسی لیے اب تک بابا آدمؑ کا مزار سری لنکا میں ہے۔ اس بات کا پتہ یوں بھی چلتا ہے کہ سنسکرت اور عربی بھاشا میں اکثر جگہ پر اشتراک ہے آواز اور شور کو انسان نے قید کرنا سیکھا اور ماں کو ایک ہی طرح پکارا گیا کہیں مدر Mother، مادر، ماتا تو کہیں ماں غرض شروع میں ’’م‘‘ میم کی آواز مشترک ہے۔ جب زمین کئی لخت ہوئی دریاؤں جھرنوں اور موسموں کے حصے میں آئی تو بولی بھی الگ الگ ہوتی گئی۔ بولیوں اور فاصلوں نے ہر علاقے کے حکمران بھی پیدا کیے جو ان علاقوں پر اپنی حکمرانی کریں یہ حکمران اپنے وسائل اور مادی قوت کے ذریعے اپنے حدود کے مالک بنتے رہے جس حکمران کی جتنی مادی قوت تھی وہ اسی قدر علاقے پر قابض ہوتا جاتا۔

اب اس حکمران کو حدود و قیود میں رکھنے لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے اوتار، نبی اور پیغمبران بھی آتے رہے مگر ہر آن زبان ایک دوسرے سے ملتی رہی زبان کی آواز دیکھیں اور معنی دیکھیں کیسے بدلتے رہے اور آواز ایک ہی رہی۔ مثلاً بیسن۔ تلچھٹ یا دریا کا زمینی پھیلاؤ یعنی Indus Basin انڈس بیسن جب کہ اردو زبان میں بیسن چنے کا آٹا، دیکھیں انگریزی زبان میں جنگل Jungle جب کہ اردو زبان میں بھی ہم معنی، اردو زبان میں ڈکیت Dacoit ایک نہیں سیکڑوں الفاظ اردو زبان میں انگریزی زبان میں مل جائیں گے۔ یہ موازنہ تو تھا انگریزی کا جو ہندوستان پر قابض ہونے سے پہلے عام طور پر ہاف پینٹ (Half Pent) زیب تین کرتی تھی اور جب رقم ہاتھ آئی تو اس کے ہنرمندوں اور سائنسدانوں نے ہینڈلومز کو برقی لومز میں تبدیل کردیا اور کپڑے کی صنعت کو برق رفتار بنادیا ۔جس کو صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا اور زبان نے بھی ترقی کی ہر نئے آلے اور مشین کا انگریزی نام تو خود بہ خود ہونا تھا زبان نہایت کمزور مگر اس کو بولنے اور برتنے والے نہایت ہوشیار زبان کی کمزوری کے عالم کی ادنیٰ سی مثال اور ’’د‘‘ اور ’’ڈ‘‘ کا فرق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ میرے نزدیک ’’ڈ‘‘ D یعنی ڈی پر نقطہ ڈال کی آواز نکال سکتا ہے جیساکہ جرمن زبان کی نکتہ دانی ہے۔ اردو زبان دنیا کی واحد خوش قسمت ترین زبان ہے جو تمام مشرقی زبانوں اور انگریزی حکمرانوں کی زیر نگرانی سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔

فورٹ ولیم کالج اردو زبان کا کارخانہ اور سب سے بڑھ کر جب یہ زبان ڈھل رہی تھی اس کا سکہ چمک رہا تھا اس وقت، غالب، آتش، حالی، ذوق اردو کے اعزازی ملازم تھے اس زبان کو انیس دبیر، نظیر اور میر تقی میر کی بھٹی نے صیقل کیا یہ وہ عہد تھا جب دنیا میں شاید ہی کہیں یہ یک وقت عہد بہ عہد اتنے عظیم شعرا مسند زبان پہ بیٹھے ہوں جیساکہ مسند اردو پہ جلوہ افروز تھے اسی لیے داغ دہلوی نے یہ نعرہ لگایا۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اردو زبان تقسیم ہند کے بعد تو مسلمان کی زبان بھارت میں قرار دے دی گئی تھی رہی سہی کسر پاکستان نے قائد اعظم کے قول کی نفی کرکے اس کو دفتری زبان بننے سے روک دیا گوکہ اس زبان کے پاس سائنسی تراجم کا ذخیرہ موجود تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے پاس ایم بی بی ایس کے تراجم موجود تھے ۔ میر عثمان علی خان جو نواب دکن تھے انھوں نے سہل، نرم تراجم کرائے تھے اور ثقیل الفاظ کو بے دخل کردیا تھا یہ نہیں کہ انگریزی زبان جہاں زبان میں فنی خرابیاں موجود ہیں مثلاً متضاد معنی آسان سی بات ویل (Well) اچھا، بھلا، کنواں کہاں اچھا بھلا اور کہاں کنواں بالکل متضاد معنی دوسرا لفظ کین (Can) ممکن ہے، ہوسکتا ہے دوسرا معنی کنستر اور ایسے سیکڑوں الفاظ جب کہ اردو زبان اس سقم سے پاک ہے جب کہ اردو زبان کی ایک اور برتری نون غناں یعنی ن میں نقطہ موجود نہیں یہ آواز سر کے لیے اور شاعری کے حسن کو دوبالا کرنے میں اکثیر ہے زبان کے اس حسن کو کیا کہیے گا غالب نے نون غنہ کو دیکھیں کیسے استعمال کیا ہے:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو

جب کہ انگریزی زبان حروف کی کمزوری کی بنا پر آزاد شاعری پر اس کا انحصار ہے انگریزی زبان میں نصف این یعنی نون غنہ کا کوئی جواب نہیں مگر پھر بھی وہ زبان اردو زبان سے برتر کہلاتی ہے اور ہم اس سے چمٹے پڑے ہیں آخر ایسا کیوں؟ کیونکہ انگریزی قوم نے اپنے سامراجی عزائم اور آزادی خیال کو الگ الگ استعمال کیا اور اپنی سائنسی ایجادات پر سواری کرکے تمام دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ۔چھوٹی سی چیز پریشر کوکر Pressure ، اوون، انجکشن، ٹیسٹ ٹیوب، تھرمامیٹر، بلڈپریشر اور اب کمپیوٹر، سیٹلائٹ، موبائل فون، چپ chip، ڈرون طیارے وغیرہ وغیرہ ۔گزشتہ 500 برسوں سے فرنگی ترقی نے دنیا کی زبانوں میں وہ وار کیا ہے جو غیر ملکی گھس بیٹھیے کرتے ہیں یہاں تک کہ چین کو ایک نئی زبان چنگلش بنانے کا سوچنا پڑا اور ایک کمزور اور بے ترتیب زبان آج دنیا کی بلند پایہ زبان بن گئی ہے۔ ذرا غور کیجیے انگریزی کے حرف “V” وی کو دیکھیے 250 یا 300 الفاظ بنانے کے قابل ہے حرف “W”تقریباً 400 حروف بنانے کی حد سے حد قابلیت رکھتا ہے اور آخری حروف “X” ایکس، “Y” وائی اور “Z” ۔۔۔۔100 الفاظ بنانے سے عاری ہیں اسی طریقے سے درمیانی حروف کے اوزان کیے جائیں تو کوئی ہزاروں پر ہوں گے چند سو سے کم کیونکہ زبان نے بہت سست روی اور بے قاعدگی سے ترقی کی ہے اور قواعد بھی کمزور ہے مگر قوم 13 ویں اور 15 ویں صدی سے اپنے سامراجی ہنر کو استعمال کرنے لگی اور آج وہ نہایت تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ اقوام میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ کم ازکم انھوں نے اپنی قوم کا پیٹ کاٹ کے اپنا گھر نہیں بھرا اپنے عوام سے انصاف کیا، جانفشانی سے کام کیا عالموں کی عزت اور تکریم کی مگر افسوس کہ پاکستان کے کچھ شاعر اور نام نہاد ادیب اکثر ادبی کانفرنسوں میں رومن رسم الخط کے گیت گاتے نظر آتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اب ایس ایم ایس (SMS) کی اکثریت چونکہ رومن میں ہوتی ہے لہٰذا مستقبل قریب میں اردو کا بوریا بستر گول ہونے کو ہے ۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا تر نوالہ اردو زبان کے ذریعے ہیں ان کا نام دینا مناسب نہیں ان کو شاید یہ نہیں معلوم کہ بھارت کی فلم انڈسٹری آج بھی اردو زبان کی مرہون منت ہے۔ تقریباً 25 فیصد زرکثیر پیدا کر رہی ہے اردو زبان کے شعرا اور ادبا اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں کہاں کی بے تکی باتیں کرتے ہیں یہ لوگ ابھی اس ملک کے 50 فیصد لوگ ترتیب سے اردو کے حروف تہجی نہیں جانتے، رومن ایس ایم ایس کی باتیں کرتے ہیں۔ ترکی میں رومن نے جگہ لی تو ترکی کی تہذیب، تمدن اور ادب کا کیا ہوا ترک زبان اپنے قدیم اثاثے سے محروم ہوگئی اور یورپی یونین نے ہزار کوششوں کے بعد بھی یورپی یونین میں شامل نہ کیا اور نہ ہی مستقبل میں اس کی امید کی جاسکتی ہے۔ قومیں لباس، زبان تہذیب چھوڑ کر ترقی کرسکتی ہیں نہ اپنی ثقافت چھوڑ کے اسی لیے جرمن چانسلر جرمن زبان، روسی صدر روسی زبان اور چینی صدر اور کابینہ چینی زبان بولتی ہے ۔کیونکہ وہ اپنا اعزاز سمجھتی ہیں لہٰذا پاکستانی قوم اگر اپنی خودی نہیں پہچانے گی تو ترقی ممکن نہیں اس کا تجربہ ہم 68 برس میں کرچکے مزید کیا تجربات کرنا چاہتے ہیں۔

Urdu vs English

Enhanced by Zemanta