Showing posts with label Waziristan Operation. Show all posts

آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......


مان لیا کہ من بھر گیہوں میں تھوڑا بہت گھن بھی پس جاتا ہے ۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ سیر بھرگیہوں میں ایک من گھن پس جائے۔بالکل ممکن ہے اگر چکی شمالی وزیرستان کی ہو۔
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری ۔نائن الیون سے اب تک قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ میں سات بڑے بڑے آپریشن ہو چکے ہیں۔

توقع یہی ہوتی ہے کہ ہر نئے آپریشن میں جو بھی اچھا برا تجربہ ہاتھ آئے گا اس کی روشنی میں اگلا آپریشن عسکری و انسانی اعتبار سے اور بہتر ہوگا۔ لیکن جس طرح سے لگ بھگ پانچ لاکھ انسانی مرغیوں کو شمالی وزیرستان کے دڑبے سے ہنکالا گیا اس سے تو نہیں لگتا کہ یہ وہی ریاست ، فوج اور مقامی انتظامیہ ہے جس نے سوات آپریشن سے پہلے پہلے مقامی و بین الاقوامی اداروں کی مدد سے کیمپوں کا پیشگی نظام قائم کر کے مالاکنڈ ڈویژن خوش اسلوبی اور نظم و ضبط کے ساتھ خالی کروایا تھا۔
دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان کے پناہ گزینوں کی تعداد سوات آپریشن متاثرین کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے لیکن پیشگی انتظامات لگ بھگ زیرو رہے۔ آپریشن شروع ہونے کے دو ہفتے بعد اب کہیں جا کے انتظامی آثار دکھائی پڑنے لگے ہیں۔

بیت الخلا کی ضرورت
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
زرا تصور کریں کہ کسی ایک روز لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی یا حیدرآباد کے کچھ مخصوص علاقوں کو دہشت گردی اور دیگر خوفناک جرائم سے پاک کرنے کی اچانک عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد یہاں کے چھ لاکھ مکینوں سے کہا جائے کہ جتنا جلد ممکن ہو غیر معینہ عرصے کے لیے گھر بار چھوڑ کر شہر کی حدود سے نکل جاؤ اور انھیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ یہاں سے کہاں اور کیسے جانا ہے؟ رکنا کہاں ہے۔ راستے میں اتنے لوگوں کو کوئی پانی بھی پلائے گا؟ کھانے کا کون پوچھے گا؟ بیماروں کو کہاں لادے لادے پھریں گے؟ نوزائدہ بچوں کے دودھ ، بڑے بچوں کی تعلیم اور پردہ دار خواتین کے نہانے دھونے پکانے کا کیسا انتظام ہو گا؟

اور پھر حکومت لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی اور حیدرآباد کے ان متاثرین کو
 نکالے جانے کے ہفتہ بھر بعد فی خاندان پندرہ ہزار روپے کی ادائیگی اس مد میں کر دے کہ یہ آپ کے کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے فوری اخراجات ہیں اور پھر ان سے یہ کہا جائے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سو پچاس کلومیٹر پرے ایک ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر رجسٹریشن کروا کے مہینے بھر کا راشن لے لو۔اور پھر ان سے کہا جائے کہ یہ جو لق و دق زمین نظر آ رہی ہے یہ کوئی ویرانہ نہیں تمہارے قیام کا کیمپ ہے۔ اپنے ایک سو دس کلو وزنی راشن کے تھیلے سر سے اتار کر زمین پر رکھو اور ان تھیلوں کو تکیہ سمجھ کر دو دو تین تین سر رکھ کے سوجاؤ۔
کیا کہا خیمے؟ وہ تو ابھی پانی کے جہاز سے آ رہے ہیں۔

کیمپ میں پینے کا پانی؟ کل پرسوں انشااللہ ایک آدھ ٹینکر ضرور چکر لگائے گا یہاں۔
دیگچی، پرات، توا، رکابی، گلاس؟ ہاں کچھ این جی اوز سے بات ہوئی تو ہے۔امید ہے کہ اگلے دس پندرہ دن میں برتن بھی آجائیں گے تب تک خشک راشن مٹھی بنا کے پھانکتے رہو۔
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
بجلی؟ کیا تمہارے پاس ٹارچ والا موبائل فون نہیں؟ تو پھر؟

بالکل پریشان مت ہو۔پوری قوم آزمائش کی گھڑی میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہے۔ بے صبری کو لگام دو۔انشااللہ دو تین ماہ میں پورا انتظام قابو میں آجائے گا۔تمہیں باقاعدہ ماہانہ مالی امداد بھی ملے گی۔تب تک یہ سمجھ لو کہ ملک کے لیے عظیم قربانی دے رہے ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تم کسی اور صوبے میں جانے کی فرمائش کر بیٹھو۔جو ملے گا یہیں ملے گا۔یہاں سے گئے تو کچھ نہ ملے گا۔

وسعت اللہ خان 


اگر جمہوریت ختم ہوئی تو.......


بنوں اور کرک کے تپتے صحرائوں میں تڑپتی انسانیت سراپہ سوال ہے ۔ کہاں گئے مولانا سمیع الحق؟ انہوں نے تو اپنے آپ کو بیمار مشہور کرلیا لیکن کیا مولانا یوسف شاہ بھی بیمار ہیں۔ وہ جو روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں جلوہ گر ہوتے اور صبح، دوپہر، شام پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ وہ قوم کو بتائیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کس نے اور کیوں ناکام کرایا؟ اس آپریشن کی تیاری فوج نےچھ ماہ قبل نہ صرف کرلی تھی بلکہ وزیرِ اعظم کو بریف بھی کیا تھا کہ وہ چھ گھنٹے کے نوٹس پر شروع کردیں گے۔ تب سردی کا موسم تھا۔

 عسکریت پسندوں کے لئے برف کی وجہ سے پہاڑوں میں چھپنا اور افغانستان منتقل ہونا مشکل تھا۔ آئی ڈی پیز کو بھی شدید گرمی کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑتی۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو تب فوج کو کیوں روکا گیا؟ شدید ترین گرمی میں معصوم اور بیمار بچوں کو گود میں لئے شمالی وزیرستان کی تڑپتی لاکھوں مائیں اور بلکتے بچے، وزیر اعظم کے قادر الکلام مشیر خاص کالم نگار کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ وہ ان کی زبانی جاننا چاہتی ہیں کہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اور ان کو دربدر کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ مذاکراتی کمیٹی میں عمران خان کی نمائندگی کرنے والے رستم شاہ مہمند نے مجھے بتایا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ عمران خان صاحب کو آگاہ کرتے رہے اور اللہ گواہ ہے کہ عمران خان مذاکراتی عمل سے متعلق قوم کو حقیقت نہیں بتا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے مظلوم قبائلی عمران خان کی زبانی وہ حقیقت سننا چاہتے ہیں۔

وہ جاننا چاہتے ہیں کہ صحیح وقت پر آپریشن کے مخالف اور مذاکرات کے حامی، غلط وقت اور رمضان کی آمد پر آپریشن کے حامی کیوں بن گئے؟ وہ جن کی سیاست ڈرون حملوں کے گرد گھومتی تھی، آج ان کے دوبارہ آغاز پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا محض اس لئے کہ تحریک انصاف کی ترجمان کو اوپر سے ہدایت نہیں ملی اور انہوں نے عمران خان کو ہدایت کی ہے کہ ڈرون حملوں کے دوبارہ آغاز پر خاموش رہیں۔ آپریشن کے یہ متاثرین پوچھ رہے ہیں کہ پختونوں کے حقوق کے علم بردار اسفندیارولی خان صاحب کہاں ہیں؟ کیا پختونوں پر اس سے بھی زیادہ مشکل وقت آسکتا ہے۔ وہ تو خیر یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر اور بیمار ہیں لیکن ان متاثرین کی آنکھیں پختونوں کے ایک اور لیڈر محمود خان اچکزئی کو بھی ڈھونڈرہی ہیں جن کی اس وقت پانچوں گھی میں ہیں، جن کے خاندان کا کم و بیش ہر مرد اقتدار میں ہے اور جو ان دنوں وزیرِ اعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے کے لئے کابل کے دورے کررہے ہیں۔

اگر اسلام آباد کے محلات میں پنجابی وزیرِ اعظم کے ساتھ بیٹھ کر انہیں وزیرستان کے متاثرین یاد نہیں آئے تو کابل کے یخ بستہ محل میں پختون حامد کرزئی کے ساتھ بیٹھ کر بھی انہیں قبائلی عوام کے دکھوں نے نہیں ستایا۔ شاید حکمرانوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی سیاستدان کو عزت سے نہیں رہنے دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو پورے ایک سال تک تڑپا دیا۔ پہلے وزارتیں نہیں دے رہے تھے اور پھر جب وزارتیں دے دیں تو ان کو ان کی مرضی کے محکمے نہیں دیئے تھے۔ نتیجتاً وہ حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے اسلام اور قبائلیوں کے روایتی ہتھیار استعمال کرنے لگے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کو غلط فہمی تھی کہ اگر ان کے علاقے میں آپریشن کا آغاز ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے مداح سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر راہ میں کھڑے ہوں گے لیکن وزیر اعظم بھی کمال کے ہوشیار نکلے ۔ ادھر سے آپریشن کی اجازت دے دی اور ادھر سے مولانا فضل الرحمٰن کے اکرم درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ان کی مولانا کی مرضی کی وزارتیں دے دیں۔ مولانا کے ماضی کے بیانات اور ان کے ساتھ حکومت کی بدسلوکی کے تناظر میں قوم توقع کر رہی تھی کہ جب بھی آپریشن کا آغاز ہوگا تو وہ احتجاجاً کشمیر کمیٹی کی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ بھی چھوڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ ادھر آپریشن کا آغاز ہوا اور ادھر وہ پورے کے پورے حکومت میں شامل ہوگئے۔ رہے سراج الحق صاحب تو شاید وہ صرف جماعت اسلامی کے امیر رہتے تو اس وقت ضرور میدان میں نکلتے لیکن افسوس کہ وہ ساتھ ساتھ پرویز خٹک صاحب کی ٹیم کے رکن بھی ہیں اور ان کی ٹیم کے رکن سے کسی قائدانہ کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ متاثرین آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے جو ہر وقت آپریشن آپریشن کی دہائیاں بلند کرتے تھے کی آمد کے بھی منتظر ہیں۔

پوچھتے ہیں کہ کیا تمہارا کام صرف آپریشن کیلئے ورغلانا تھا۔ جس قوم کے ہاں سیاستدانوں کی بہتات اور لیڈروں کا فقدان ہو، اس کا یہی حشر ہوتا ہے جو اس وقت اس قوم کا ہو رہا ہے۔ فوج نے آپریشن کی تیاری چھ ماہ قبل کرلی تھی اور حکومت تین ماہ قبل اس نتیجے تک پہنچی تھی کہ آپریشن ہوگا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور وقت آنے پر ثابت کردوں گا کہ خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کو بھی بہت پہلے سے علم تھا کہ آپریشن ہو کر رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر آئی ڈی پیز کے لئے مرکزی یا صوبائی حکومت نے تیاری کیوں نہیں کی؟
حالت یہ ہے کہ میرے گزشتہ کالم کو پڑھ کر صبح بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض صاحب نے رابطہ کیا کہ وہ پانچ کروڑ روپے آئی ڈی پیز کے لئے دینا چاہتے ہیں لیکن حیران ہیں کہ کیسے یہ رقم خرچ کریں۔ یہ اعلان ٹی وی پر بھی انہوں نے کیا لیکن دو دن گزرنے کے باوجود کسی مرکزی یا صوبائی حکومت کے کسی ادارے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ گزشتہ کالم پڑھنے کے بعد بیرون ملک اور اندرون ملک سے لوگ مجھ سے رابطہ کر کے امدادی فنڈ کے اکاونٹ کے بارے میں معلوم کرتے رہے لیکن پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دن تک نہ صوبائی حکومت نے فنڈ قائم کر کے اکاونٹ نمبر مشتہر کیا تھا اور نہ صوبائی حکومت نے۔ صرف الخدمت تنظیم نے فنڈ قائم کیا تھا اور وہ متاثرین کی مدد کے لئے فعال بھی تھی۔ ان متاثرین کو پاکستان کے مخیر حضرات بھی سنبھال سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے اب کے بار میڈیا اس طرح کی فضا بھی نہ بنا سکا جس طرح کہ سوات آپریشن کے ضمن میں پیدا کی گئی تھی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا کی قیادت کرنے والے جیو نیوز کو پہلے سے خاموش کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف میڈیا علامہ طاہر القادری کے ڈرامے، عمران خان کے جلسے اور چوہدری برادران کے تماشے کو کور کرنے میں مصروف رہا۔ مجھے یقین ہے کہ میری ان دہائیوں کے بعد بھی ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت کا ضمیر نہیں جاگے گا لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب آپریشن کا فیصلہ بھی فوج نے کرنا ہے، جب اسے کنڈکٹ بھی فوج نے کرنا ہے، جب آئی ڈی پیز کا انتظام بھی اس نے فوجی طریقے سے کرنا ہے، جب شہروں کی سیکورٹی بھی اس کی ذمہ داری قرار پائی ہے اور جب اسلام آباد میں ان کو آرٹیکل 245 کے تحت اختیارات بھی دئے جارہے ہیں تو پھر یہ جمہوریت کس مرض کی دوا ہے؟

کل اگر طاہر القادری یا عمران خان کی التجائوں اور دہائیوں پر لبیک کہہ کر کوئی اس جمہوریت کو رخصت کرنے آ گیا تو کسی شہری کو کیا پڑی ہے جو اس کو بچانے کے لئے سیاسی قیادت کی پکار پر لبیک کہے گا۔ کوئی آمر حکمران رہے یا پھر نوازشریف، عمران خان یا آصف زرداری، قوم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ پھر وہ کیوں کر جمہوریت کے لئے جیل جائے یا پھر کوڑے کھائے گا۔ پھر یہی قوم کہے گی کہ بھاڑ میں جائے اس میڈیا کی آزادی کہ جس کے پاس علامہ طاہر القادری کے ڈراموں کی کوریج کے لئے تو بہت وقت ہے لیکن پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے ایشو یا پھر سات لاکھ انسانوں کے مسئلے کی کوریج کے لئے اس کے پاس وقت نہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

Waziristan operation - سات لاکھ خودکش by Saleem Safi



یوں تو وہ بھی ہماری طرح پاکستانی ہیں لیکن قصور ان کا صرف یہ تھا کہ وہ رائے ونڈ کے بجائے شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے اور پھر اسلحہ اٹھانے کے بجائے کتاب سے اپنی اور خاندان کی زندگی بدلنے کی کوشش کی۔ رسول داوڑ نے بڑی مشقت سے ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد مختلف اخباروں میں کام کیا اور اب پشاور میں ایک قومی چینل کے ساتھ فعال رپورٹر کے طور پر وابستہ ہیں۔ وہ اور انکے بچے پشاور میں مقیم ہیں لیکن اس تنخواہ میں وہ پورے خاندان کو یہاں منتقل نہیں کر سکتے۔ اپنی مٹی اور علاقے سے لگائو کی وجہ سے یوں بھی انکے والدین اور بھائی وزیرستان چھوڑنے پر آمادہ نہیں تاہم جب بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کا غلغلہ بلند ہوتا ، وہ اپنے خاندان کو پشاور منتقل کردیتا ہے۔ پہلے سرجیکل اسٹرائکس ہوئے تو دوسرے قبائلیوں کی طرح ان کو بھی شک ہوا کہ اب آپریشن شروع ہو رہا ہے چنانچہ راتوں رات انہوں نے اپنے خاندان کو وہاں سے نکال کر پشاور منتقل کیا لیکن بعد ازاں پتہ چلا کہ حکومت مذاکرات کرنے جا رہی ہے چنانچہ پشاور میں کرائے پر لیا گیا گھر واپس کرکے انکے اہل خانہ واپس وزیرستان چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل دوبارہ سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد ایک بار پھر آپریشن کا امکان پیدا ہوا تو دوبارہ انہوں نے اس عمل کو دہرایا۔

گزشتہ ہفتے اچانک حکومت کی طرف سے آپریشن کا اعلان کیا گیا اور اسی روز وزیرستان کے بعض علاقوں میں بمباری بھی کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے ذرائع نے انہیں بتایا کہ اس بمباری میں ایک 150 مبینہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ بمباری جہاں ہوئی، وہ ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ چنانچہ اسٹوری فائل کرنے کے بعد وہ اپنی والدہ، بھابھیوں اور دیگر اہل خانہ کو لینے کیلئے راتوں رات وزیرستان روانہ ہو گئے اور ان کی بیوی اور چھوٹے بچے پشاور میں انتظار کرتے رہ گئے ۔ انکے اہل خانہ مویشیوں اور گھر کی دیگر اشیاء کو چھوڑ کر علاقے سے نکلنے کیلئے رخت سفر باندھ گئے لیکن علاقے میں کوئی سواری میسر نہیں تھی۔ دوسری طرف اسی رات انکے بھائی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی اور انکی بھابھی کو اسی حالت میں اسی رات گھر سے نکلنا پڑا۔

رسول داوڑ انہیں لینے کیلئے بنوں پہنچ گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ آگے نہیں جا سکتے کیونکہ آگے کرفیو نافذ ہے۔ انہوں نے گورنر سیکرٹریٹ، پولیٹکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز میں اپنے جاننے والوں سے بہت رابطے کئے کہ کوئی حل نکلے لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ چنانچہ تین دن تک انکے اہل خانہ سامان باندھے، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا نو زائیدہ بچے کو تڑپتا دیکھ کر خود بھی تڑپتے اور گرمی سے تباہ حال ہوتے رہے جبکہ رسول داوڑ بنوں میں بیٹھے کرفیو کے اٹھنے کا انتظار کرتے رہے۔ آپریشن کے اعلان اور آغاز کے تین دن بعد کرفیو اٹھا دیا گیا تو ان کے اہل خانہ بنوں کی طرف روانہ ہوئے لیکن اب مسئلہ ٹرانسپورٹ کا تھا۔ دوسری طرف ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں نے نکل کر بنوں پہنچنا تھا۔ ادھر سے ٹریفک پولیس نہ ہونے کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ بلاک ہوگئی تھی۔

بہر حال انکے اہل خانہ جان لیوا گرمی میں چودہ گھنٹے میں میران شاہ سے بنوں پہنچے۔ بنوں پہنچتے ہی وہ پہلی فرصت میں اپنے نوزائیدہ بھتیجے کو اسپتال لے گئے لیکن وہاں پہلے سے مریض سیکڑوں کی تعداد میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے جبکہ ڈاکٹر نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ بیمار بھتیجے کو لے کر پشاور جانے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ ان کا بھانجا بنوں میں پانی کی بوتل کی طرف لپکتے ہوئے سڑک پار کر رہا تھا کہ انہیں گاڑی نے ٹکر ماری۔ رسول داوڑ رشتہ داروں اور دوستوں کی مدد سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا نو زائیدہ بھتیجے اور زخمی بھانجے اور دیگر اہل خانہ سمیت پشاور منتقل ہو گئے۔ اب پشاور کے اسپتال میں ان کا بھانجا کومہ میں ہے جبکہ بھتیجا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا۔ وہ حیران ہیں کہ مہاجر بننے والے اہل خانہ کیلئے پشاور میں کرائے کے گھر کا بندوبست کریں یا کہ اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا معصوموں کی تیمارداری کریں۔ آج ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے دوست مل کر چندہ جمع کر رہے ہیں تاکہ وزیرستان کے آئی ڈی پیز کیلئے قبرستان کی زمین خرید لیں ۔ انکا کہنا تھا کہ اب ہم لوگوں کو جینے کی امید نہیں لیکن روزانہ جو آئی ڈی پیز مر رہے ہیں، انکو دفن کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس لئے ہماری ترجیح اب قبرستان کیلئے زمین کی خریداری ہے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ اس وزیرستانی کے ساتھ ہو رہا ہے جو نامور صحافی ہے جنکے سیاستدانوں کیساتھ بھی تعلقات ہیں، فوجیوں کیساتھ بھی اور حکومتی اہلکاروں کیساتھ بھی۔ اب اندازہ لگا لیجئے کہ شمالی وزیرستان سے مہاجر بننے والے عام قبائلی کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا؟

یہ ایک دو نہیں بلکہ سات لاکھ لوگوں کا حال ہو رہا ہے۔ وہ حکومت جو اسلام آباد میں تعیش کیلئے میٹرو بس کے ایک کلومیٹر پر سوا ارب روپے خرچ کررہی ہے، اس نے آپریشن کے بعد ان سات لاکھ لوگوں کیلئے محض پچاس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ اب کیا ان لوگوں کو دانستہ پاکستان سے متنفر نہیں کیا جارہا ہے؟ میں رسول داوڑ اور ان جیسے دیگر لاکھوں قبائلیوں کے اس سوال کا کیا جواب دوں کہ ہمارا قصور کیا یہ ہے کہ ہم لاہور کے بجائے وزیرستان میں پیدا ہوئے ہیں؟ وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تم میڈیا والوں کے پاس تو طاہر القادری کی کوریج کیلئے بہت وقت ہے لیکن ہم سات لاکھ انسانوں کی کوریج کرنے سے تم لوگ قاصر ہو۔ وزیرستان آپریشن میں اب تک درجنوں فوجی اور سیکڑوں قبائلی زندگی قربان ہوچکے ہیں۔ وہ ہم میڈیا والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ انسان اور پاکستانی نہیں ہیں۔ میڈیا کے وہ بہن بھائی جنہوں نے پوری قوم کو چند ڈرامہ بازوں کے ڈراموں کا یرغمال بنارکھا ہے، سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ رسول داوڑ کی جگہ ہوتے تو کیا پھر بھی انکے کیمروں کا رخ بنوں اور وزیرستان کے بجائے علامہ صاحب کے ہنگامے کی طرف ہوتا۔

منتخب وزیراعظم کے احترام کو میں اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر رسول داوڑ جیسی صورت حال سے آج ان کے بچے یا بھتیجے گزرتے یا پھر ان کی بھابھی کی کیفیت سے ہماری بہن مریم نواز گزرتی تو کیا پھر بھی ہمارے وزیراعظم کا یہی رویہ ہوتا؟ اگر ان بے گھر ہونیوالوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے حسن محی الدین اور انکے بچے بھی شامل ہوتے تو کیا علامہ صاحب پھر بھی اس ہنگامہ آرائی سے باز نہ آتے؟ اگر عمران خان صاحب کے بیٹے بھی لندن کے بجائے میران شاہ میں مقیم ہوتے تو کیا وہ پھر بھی بنوں کیمپ کے دورے کے موقع پر طاہر القادری کے ڈرامے اور اپنے چار حلقوں کا ذکر ضروری سمجھتے؟ اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔ یہ سات لاکھ آئی ڈی پیز نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ سات لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو! آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والا وقت آ سکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدر گیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔

ہماری خاطر نہیں اپنے بچوں کی خاطر ان سات لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغوا کار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں جو انہوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیر اعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے اور ہاں میرے میڈیا کے ساتھیو ! جب افغانستان میں یہ ظلم ہو رہے تھے تو ہم پشاور میں بیٹھ کر بڑے مزے سے تم لوگوں کی طرح طاہر القادری جیسوں کے ہنگاموں اور تیزیوں کو انجوائے کرتے تھے، تب ہمارے اوپر بھی دولت اور شہرت کمانے یا طاقتور لوگوں سے تعلقات بنانے کا خبط سوار تھا۔ آج جب ہم اس صورت حال سے دو چار ہوئے تو ہمیں پتہ چل گیا کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ آپ کسی کے مہرے بن کر کرتے رہو جو کچھ کرنا ہے لیکن یاد رکھو یہ آگ پشاور اور وزیرستان تک محدود نہیں رہے گی۔ تم لوگ انہی ڈرامہ بازیوں میں مصروف رہے تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کے اسلام آباد اور لاہور کی ان جنتوں تک بھی وہ آگ پہنچ جائے گی پھر ہماری طرح افسوس کرتے رہو گے لیکن وقت گزر گیا ہوگا۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

Waziristan operation - سات لاکھ خودکش by Saleem Safi

تب نیرو موٹر وے بنا رہا تھا.........


پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقتصادی ، سماجی اور عسکری اعتبار سے لگ بھگ اسی ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس عرصے میں تقریباً دس لاکھ لوگ اندرونی طور پر در بدر ہو چکے ہیں۔ فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کی شکل میں ریاست کو بیک وقت تین جنگوں کا سامنا ہے۔ان جنگوں اور ان کے اثرات نے ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا ہے۔

جوں جوں حفاظتی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں توں توں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کس کے ساتھ کہاں ، کیسی واردات ہونے والی ہے۔جو جرنیل دو ہزار چار پانچ تک یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں وہ آج اس سوال سے ہی کنی کترا جاتے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگ اور کتنی تنظیمیں ریاست سے برسرِ پیکار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔

مگر ایسا بھی نہیں کہ ریاست چلانے والے اپنے قومی و منصبی فرائض سے غافل ہیں۔وہ ہر وقت ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے ہیں ، رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے رہتے ہیں ، گاہے ماہے آسمانوں کی طرف تکتے ہیں ، سرد آہ بھی بھر لیتے ہیں، باہمی غفلت اور غلطیوں کا نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ کوئی ہور گل کرو ، اے تے روز دا سیاپا اے۔

زمہ دارانِ ریاست کو اچھے سے معلوم ہے کہ دہشت گردی ریاست کو آہستہ آہستہ چبا چبا کر نگل رہی ہے، مگر انہوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

"فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔"

اگر وہ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کو پہلی جماعت میں داخل نہیں کرسکتے تو پریشانی کیوں؟ کیا وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ چونسٹھ ارب روپے مختص نہیں کر رہے؟

اگر وہ سالانہ بیس لاکھ نئے لڑکے لڑکیوں کو روزگار دینے میں بے بس ہیں تو کون سا ظلم ہورہا ہے؟ کیا وہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کے تحت بزنس لون ، قرضِ حسنہ ، ہنر مندی کی تربیت اور فیسوں کی معافی کے لیے بیس ارب روپے کی امداد نہیں دے رہے؟

اگر وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ نفوس دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی کاٹ رہے ہیں تو اس کی بھی تو تعریف کیجیے کہ وہ تریپن لاکھ خاندانوں کو نیشنل انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے تیس دن سہولت سے کٹ جائیں۔

اگر آپ کو شکوہ ہے کہ کم از کم گیارہ ہزار روپے کی تنخواہ کی سرکاری حد میں کسی خاندان کا گذارہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت ہر پاکستانی کی فی کس آمدنی تیرہ سو چھیاسی ڈالر ہے۔اور یہ تیرہ سو چھیاسی ڈالر امانتاً حکومت کے پاس پڑے ہیں جنہیں مناسب وقت پر لوٹا دیا جائے گا۔

اور کون کہتا ہے کہ والیانِ ریاست انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت سے غافل ہیں۔ان کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی حل نکل آئے۔اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے میڈیا کی گردن میں بھی پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔اگر اب بھی دہشت گردوں نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر متبادل حکمتِ عملی بھی تیار ہے۔

مثلاً ملک میں توانائی کے بحران پر تیزی سے قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے تا کہ دہشت گرد اندھیرے میں کسی سخت شے سے ٹھوکر نہ کھا جائیں۔گوادر تا سنکیانگ کاریڈور اور لاہور تا کراچی موٹر وے کی ڈیزائننگ شروع ہوچکی ہے تا کہ امارات ِاسلامی پاکستان کی ممکنہ قیادت کا فور وھیلر قافلہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان موٹر ویز پر کروز کرسکے۔

 جب میاں صاحب پچھلے برس تیسری بار قصرِ وزیرِ اعظم تشریف لائے تو انہیں یہ دیکھ کے بہت رنج ہوا کہ جاتی حکومت سرکاری املاک کے دروازے، کھڑکیاں اور پنکھے بھی ساتھ لے گئی اور لان میں کچرے کے ڈھیر چھوڑ گئی۔اور تو اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی سیٹوں کا چمڑا تک اترا ہوا تھا اور وزیرِ اعظم کی حفاظت کے لیے جو تربیت یافتہ کتے موجود تھے ناکافی غذائیت کے سبب کاٹنا تو رہا ایک طرف وہ تو اپنی بھونک تک سے محروم ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔

رہی بات کہ ہوائی اڈوں کی ٹوٹی خاردار تاروں کو کب بدلا جائےگا، پولیس تھانوں کے باتھ روم کب ٹھیک ہوں گے، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس وغیرہ کے فرسودہ ہتھیاروں کا کیا بنےگا، ناقص کیمروں کی خرید کب بند ہوگی، جدید انٹیلی جینس نظام کی تشکیل کا خرچہ اور تربیت کا بار کون اور کب اٹھائےگا، انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک جدید، جامع قانونی و عسکری حکمتِ عملی تشکیل پاکر کب نافذ ہو کر نتائج سامنے لائے گی؟

تو اب ہر بات کا ٹھیکہ ریاست نے تو نہیں لے رکھا۔ کچھ وہ بھی تو سوچیں کہ جن کے سبب پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہے۔اگر سارے وسائل اور پوری طاقت دہشت گردی کے خاتمے پر ہی لگا دی گئی تو شمسی توانائی سے بجلی تم پیدا کروگے، موٹر وے تمہارا باپ بنا کے دے گا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی گھاس کاٹنے کیا تم آؤ گے ۔۔۔ واہ جی واہ ۔ چل دوڑ یہاں سے، ڈُو مور کا بچہ۔

مذاکرات: کامیابی کی ضمانت


حالیہ دنوں میں‘اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی شہ سرخیوں کے حوالے سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان شہ سرخیوں کے مطابق ’’مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے طالبان کیخلاف فوجی آپریشن کی شدیدخواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘مجھے یقین کامل ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ملکی یک جہتی اور سلامتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔پختونوں کی تاریخ اور 2004ء میں جنوبی وزیرستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کے نتائج کا تقاضا ہے کہ مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں بلکہ سیاسی افہام و تفہیم ہے ـڈیورنڈ لائن1893 ء میں ہندوستان کے برطانوی حکمران اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن خان کے دور میں کھینچی گئی تھی۔ 

اس کا مقصد پختون قوم کو تقسیم کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ افغانستان کے بادشاہ کو حکمرانی کیلئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں بسنے والے قبائل کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔1970ء کی دہائی میں سوویٹ روس نے کابل میں اپنی من پسند حکومت قائم کی جسے مجاہدین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اورمجاہدین کے ساتوں قائدین کی مشترکہ جدوجہد سے اس حکومت اور روس کو ذلت آمیز شکست اٹھانا پڑی۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مجاہدین کی کوششوں اور قربانیوں سے حاصل کی جانے والی فتح کے بعد انہیں کابل پر حکمرانی کا حق دیا جاتا لیکن انکے ساتھ دھوکا کیا گیا اور یوں افغانستان کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔اس خانہ جنگی کے دوران ملا عمر کی قیادت میںپختونوں کی مزاحمتی قوت ابھری جسے عرف عام میں ’طالبان‘ کہا جاتا ہے۔ اس قوت نے1996ء سے 2001ء تک کے عرصے میں افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیاتھا اوریہی وہ وقت تھا جب امریکہ اور اسکے اتحادیوںنے افغانستان پر حملہ کیا اوراپنا تسلط قائم کر لیا۔2003 ء میں جلال الدین حقانی پاکستان کے دورے پر آئے تھے ۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دوران ملاقات انہوں نے مجھے بتایا کہ طالبان اور مجاہدین باہمی اتحاد سے قابض فوجوں کیخلاف مشترکہ جنگ کیلئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان میں قیام امن اور جمہوریت کے قیام کیلئے انہیں امریکی ایجنڈے کو قبول کر لینا چاہیئے کیونکہ افغانستان میں پختونوں کو اکثریت حاصل ہے جسے اس جمہوری نظام میں اقتدار اور حکمرانی کا حق مل جائیگا اور جنگ کی تباہ کاری کے بغیر مقاصد حاصل ہوں گے۔

اس پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا لیکن وعدہ کیا کہ وہ ملا عمر سے بات کر کے اس کا جواب دیں گے۔دو ماہ بعد مجھے ان کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا: ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر آخری لمحے تک جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔ قابض فوجوںکا ایجنڈا قبول کرناہماری روایات ‘ قومی اقدار اور نظریے کے خلاف ہے۔اگر اللہ نے چاہا تو ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہ کر لیں‘ چاہے پاکستان ہمارا ساتھ نہ بھی دے۔‘‘طالبان منظم ہوئے اور بارہ سال کی جنگ کے بعد ملا عمر کی زیر قیادت طالبان نے دنیا کی عظیم ترین طاقت کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور جارح قوتیں پسپاہو چکی ہیں۔ اب کابل میں حکومت بنانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ شمالی اتحاد اور کرزئی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائینگے ۔ اس طرح طالبان کی یہ حکومت 1996-2001میں قائم ہونیوالی حکومت سے کہیںزیادہ مستحکم اور پر اعتماد ہوگی کیونکہ مجاہدین کی پہلی حکومت سات جماعتوںکے اتحاد پر مشتمل تھی جو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے زیر سایہ کام کر رہے تھے لیکن اب وہاں صرف ایک لیڈر ملا عمرہے۔ جو انکے کمانڈربھی ہیںاور لیڈر بھی۔اسکے علاوہ ایک اور بھی نمایاں فرق ہے کہ طالبان کے حریت پسندوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ و جدل کے سائے میں پلے بڑھے ہیں اور انہیں زندگی کی کوئی آسائش میسر نہیںرہی ہے۔وہ صرف لڑنا جانتے ہیں جس کا انہیں کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور یہی نوجوان اس تحریک کے روح رواں ہیں۔طالبان کو افغانستان کے تقریباً 90 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہان انہوں نے اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے اور ان کااپنا قانون رائج ہے۔پاکستان میں بسنے والے پچیس ملین پختونوں اور افغانستان کے سترہ ملین پختونوں کی اقدار و روایات مشترک ہیں۔افغانستان میں کسی بھی حکمران کیلئے ان دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر حکومت قائم کرنا ناممکن ہے۔اب ان کا اثرورسوخ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے جو ایک اہم تذویراتی تبدیلی ہے۔جنرل مشرف کو امریکیوں نے وزیرستان کے جال میں پھنسایا تھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ راولپنڈی میں ان پر کئے جانیوالے قاتلانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ جنوبی وزیرستان میں ہے۔ یوں بلا سوچے سمجھے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کے سبب ہزاروں قبائلی قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہا ں سے ہجرت کر کے ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ گزیں ہو گئے۔یہ عمل ابھی تک جاری ہے ۔ان اندرون ملک بے گھر کئے جانے والوں کی صفوں میں مسلح دہشت گرد بھی شامل ہو کر کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ اور لاہور میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں کی جانیوالی فوجی کاروائی کے بعد بھی تقریباً پندرہ سو خاندان وہاں سے ہجرت کر کے خیبر پختون خواہ کے شہروں اور قصبوں میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اگرشمالی وزیرستان میںبھرپور فوجی آپریشن کیا گیا توبے گھر ہونے والوں کا سیلاب آئے گا اور امن وامان کی صورت حال انتہائی بگڑ جائے گی جسے سنبھالنا ناممکن ہوگا۔عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان قابل اعتبار نہیںلیکن حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ انکے ساتھ متعدد مواقع پر دھوکا کیا گیا۔ 2004ء میں جب کہ معاہدہ طے پا چکا تھا تو دوسرے ہی دن مولوی نیک محمد کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔ایسی ہی کاروائی تین مرتبہ دہرائی گئی اور بیت اللہ محسود‘ حکیم اللہ محسود اورولی الرحمن کو قتل کر کے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔فوجی قیدیوں کے تبادلے اور معاوضے کی ادائیگی کا بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں300 فوجی قیدی تو رہا کرا لئے گئے لیکن معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اورکزئی نے استعفی دے دیا تھا۔تین اور مواقع پر قیدیوں کے تبادلوں کے معاہدے طے پائے تھے جن کے تحت طالبان نے ہمارے قیدیوں کو رہا کردیا تھا لیکن بدلے میں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا ۔ایک پیچیدگی لوگوں کے ذہن میں اور بھی ہے ۔ وہ افغان طالبان کی قوت کو تحریک طالبان پاکستان کا پشت پناہ سمجھ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ افغان طالبان ایک اور ہی قوت کے نمائندے ہیں جس نے اب تک دنیا کی بڑی قوتوں کو شکست دی ہے۔ یہ قوت پختون قوت ہے جوکوہ ہندو کش سے لیکر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے ۔جب امریکہ ‘ افغانستان سے نکلے گا تو یہ قوت امت مسلمہ کا ہراول دستہ ہوگی۔ اسلام کے دشمن اس قوت سے خوف زدہ ہیں اور اسے ایک دوسری قوت‘ شیعہ قوت سے لڑانا چاہتے ہیں جو ایران ‘ عراق‘ شام‘ بحرین کے علاوہ سعودی عرب‘ خلیجی ممالک اور پاکستان میں اقلیت کی صورت میں موجود ہے۔ اسلام دشمن ہر جگہ فرقہ وارانہ تصادم دیکھنا چاہتا ہے۔پاکستان میں بھی اسی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تصادم کا حربہ کام نہیں آتا وہاں نسلی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکہ ایک ایسے موقع پر جب وہ افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اس خطے میں بد امنی رہے اور یوں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکے۔پاکستان کو انتہائی مشکل مسائل کا سامنا ہے ‘ ان مسائل کے باوجو د ایک نیا محاذ کھولنا کسی طور دانشمندی نہیں ہوگی۔بہتر یہی ہوگا کہ قیام امن کی خاطر بات چیت کے عمل میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔طالبان کی جانب سے قیام امن کیلئے مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہمی اعتماد پر مبنی فضا قائم کی جائے تاکہ قیام امن کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔قیام امن کی خاطرحکومت کی جانب سے چار رکنی ٹیم کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ اس ٹیم کے اراکین قابل اعتماد اور اہل شخصیات ہیں۔

لازم ہے کہ مسائل کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اپنائی جائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیں جو ایک سازش اورسفارتکاری کے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے ہم پر تھونپی گئی ہے۔اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمارے پاس قائد اعظم کی اس منطق کی جانب واپس آنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ: ’’افغانستان کیساتھ ملحق ہماری سرحدوں کی حفاظت وہاں کے قبائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری انہیں کو سونپ دو۔‘‘

  جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ

Waziristan Operation


Waziristan Operation
Enhanced by Zemanta