Showing posts with label Imran Farooq. Show all posts

Future of MQM by Saleem Safi



Future of MQM by Saleem Safi
Enhanced by Zemanta

The Reality of Altaf Hussain by Hamid Mir


 The Reality of Altaf Hussain by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta

خنجر کی خاموشی اور آستین کے لہو کی گواہی



الظاف حسین ہمارا قومی سرمایہ ہیں۔ الطاف حسین اپنے گوناں گوں اوصاف کے اعتبار سے ایک نادۂِ روزگار شخصیت اور وکھری ٹائپ کے سیاست دان ہیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد کراچی پاکستان کا دارالحکومت ہی نہیں تھا، بلکہ لاہور کے بعد اسے ملک کے دوسرے بڑے علمی اور ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ نامور شعراء، معروف ادیبوں، متبحّر دینی عُلماء، معتبر اور راست فکر محققین اور دانشوروں اور ماہرینِ تعلیم، بلند پایہ خطیبوں اور مقررین، فنونِ لطیفہ کے منفرد ماہرین، انتظامی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال افراد،ہُنر مند اہلِ فن، متفرق نظریات کی معتدل مزاج سیاسی شخصیات کی ایک کہکشاں تھی جو کراچی کے آسماں پر جلوہ گر ہوئی۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات ہر زمانے میں رہے لیکن ان کی وجہ سے رواداری، مہر و مروّت اور وضع داری، سماجی رشتوں اور ذاتی تعلقات کی محکم فضا کبھی مسموم نہ ہوئی تھی۔ شائستگی، وقار، رکھ رکھاؤ، معقولیت اور دلیل اس تہذیب کے خاص نقوش تھے۔ علمی، ادبی اور فکری سرگرمیاں زوروں پررہیں۔ان سرگرمیوں میں مہاجر بزرگ سب سے نمایاں اور ان کا کردار سب سے زیادہ تابناک تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے اوپر پاکستانیت کا رنگ چڑھایا اور اسی کو اپنی پہچان بنایا۔ وہ یہ بھول ہی گئے تھے کہ وہ مہاجر بن کر اس سر زمین میں داخل ہوئے تھے۔آج بھی کئی سیاسی اور دینی جماعتوں کی قیادت اور اگلی صف کے رہنماؤں میں مہاجر پیش پیش ہیں۔وہ اپنا تعارف مہاجر کے طور پر کرانا اپنے ہجرت کر کے پاکستان کو اپنا وطن بنانے کے عمل کی توہین سمجھتے ہیں۔معاشی جدوجہد کرنے والوں کو کراچی نے بلا امتیازِ رنگ و نسل اور بلا تعصبِ شہر و دیہات اور صوبہ و علاقہ بڑے وافر مواقع دیے۔سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچ، کشمیری، ایرانی، بنگالی، غرض ہر جگہ کے لوگ یہاں امن اور آسودگی کے ماحول میں بے خطر رہتے تھے۔کہا جاتا تھا کہ کراچی کی مٹی میں ہاتھ ڈالا جائے تو سونا ہاتھ آتا ہے۔ یوں گویا کراچی میں ایک خاص مثبت اور صحت مند کلچر پروان چڑھا تھا۔ اس کلچر کو پہلا دھچکا پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کے آخری سالوں میں اس وقت لگا جب پیپلز پارٹی کے بانی لیڈر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں مخالفین کے تمسخر اور تحقیر و تذلیل اور اذیّت و ایذا رسانی کی منفی روایت ڈالی۔ اس روایت کے اثرات سندھ سے نکل کر سارے پاکستان میں پھیل گئے اور اس نے ان تعصبات کو انتہا تک پہنچا دیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنے۔

بھٹو اگرچہ سیاست میں تو بہت پہلے سے تھے۔ ایّوب خان کے دورِ آمریت میں ان کے نمایاں ترین حامیوں اور کابینہ کے اہم وزراء میں سے تھے۔ لیکن جس منفی سیاسی روایت کا اوپر ذکر ہوا ہے اسے اصل فروغ اس وقت ملا جب انہوں نے ایوب خان سے راہیں جُدا کر کے اپنی الگ پارٹی بنائی اور ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ اس کے اثرات سیاست ہی پر نہیں زندگی کے ہر شعبے پر پڑے۔ مرحوم بھٹو کے اس سفر اور جناب الطاف حسین کے مطلعِ سیاست پر نمودار ہونے میں کم و بیش دس سال کی مسافت ہے۔دونوں کی اٹھان مارشل لاء کی فضاؤں میں ہوئی۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں نے کچھ تعصبات کا زہراپنی سیاست کی رگوں میں داخل کیا۔الطاف حسین ترقی پسند نظریات، جدید فکر اور روشن خیالات کے جدید طبع رہنما ہیں۔ شعلہ طبعی اور آتش بیانی ان کی نشانی ٹھہری۔غیض و غضب ان کا شعار اور قہر سامانی ان کا کردار۔ بولیں تو صاعقہ اور چپ ہوں تو ننگی تار میں دوڑتی برقی رو۔اٹھیں تو شعلہ اور بیٹھیں تودہکتا ہوا انگارا۔چلیں تو آندھی اور تھمیں تو غبار۔ان کا ہربیان ایک آتش فشاں اور ان کا مزاج تلوّن کی باہم ٹکراتی لہروں کاطوفان۔ کبھی ٹھنڈی آگ اور کبھی کھولتا پانی۔ ان کی دوستی وبال اور ان کی دشمنی عذاب۔سیاسی زندگی کا زیادہ عرصہ شریکِ اقتدار رہے مگر سدا اپنے حلیفوں سے شاکی اور بیزار۔ کبھی حکومت کے اندر، کبھی حکومت سے باہر۔ ا ن کے غدّار موت کے حقدار، ان کے وفادار بے اعتبار و شرمسار۔ ان کی پارٹی میں بڑے با صلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوان آئے مگر ان کی صلاحیتیں ایک اَنا کے ہاں رہن پڑ گئیں۔یہاں دوسری سوچ کے پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ان نوجوانوں کی ساری ذہانت و فطانت الطاف حسین کی سوچ کے دفاع اور ان کے موقف کو بر حق ثابت کرنے میں کھپ جاتی ہے ۔ان کوہر حال میں الطاف بھائی کے اطاعت گزار اور ہر بات میں ان سے متفق و مؤید ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں میل سے ٹیلی فونی خطاب کے دوران میں بھی زبان ہی بند نہیں، سانس بھی رکے ہوئے، ایسے جیسے لکڑی کے کندے اور پتھر کی مورتیاں ہیں کہ نہ معلوم کب فون کے تاروں میں جلال کے کوندے دوڑنے لگیں اور کب کسی کے سر پر سرِ عام جوتے برسانے کا حکم صادرہو جائے۔ اس مشق کا دنیا مشاہدہ کر چکی ہے۔

ہونے کو تو الطاف بھائی کی پارٹی ’متحدہ قومی موومنٹ‘ ہے لیکن وہ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے خول سے نکل نہیں پاتے ۔ پھر ایک اور المیہ یہ ہے کہ کراچی میں لہو اور لاشے ایم کیو ایم کے جلو میں آئے اور ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔جناب الطاف حسین اور سندھ کے طویل المیعاد گورنر عشرت العباد سمیت اس کی اگلی صف کا شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس پر خون کا کوئی دعویٰ نہ ہو۔ مہاجروں کے نام پر وجود میں آنے والی اس جماعت کی تشکیل کے بعد کراچی میں نہ مہاجروں نے امن دیکھا اور نہ دوسرے نسلی گروہوں نے سکھ کا سانس لیا۔مزید یہ کہ مہاجروں کی نئی نسل جتنی خوار اور مستقبل برباد اور بگاڑ اور فساد کا شکار ایم کیو ایم کے بننے کے بعد ہوئی اس سے قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نوجوانوں کے ہاتھ سے کتاب چھنی اور کلاشنکوف آ گئی۔علم کی برکات گئیں اور کراچی پر بارود کی نحوست چھاگئی۔ دانش و فکر کی کھیتی ویران ہوئی تو دہشت گردی کی خار دار جھاڑیاں اگ آئیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بن کر جتنے مہاجر خورد و کلاں رزقِ خاک بنے ،اب وہ شاید شمار سے بھی باہر ہیں۔ا ختلاف یہاں ایسا گناہ ہے جس کی سزا موت سے کم نہیں ہے۔اس تنظیم کے بانی چیئر مین عظیم احمد طارق کے قتل ہوئے ، اسی ’گناہ‘ کے اشارے ملے تھے۔الطاف بھائی اپنی جان کو خطرے میں محسوس کر کے لندن میں جا براجے اورعیش سے رہنے لگے۔اب اچانک واویلا شروع ہو گیاہے کہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف بہت بڑی سازش تیار کر رہی ہے۔ملکی اسٹیبلشمنٹ کی پہنچ سے وہ باہر ہیں۔ عالمی اشٹیبلشمنٹ دنیا میں لِبرلزم اور سیکولرزم کو غالب دیکھنا چاہی ہے ، الطاف بھائی میں یہ صفات بدرجۂِ اتم موجود۔وہ القاعدہ اور طالبان دشمن ، یہ اس دشمنی میں ان سے چار ہاتھ آگے۔ ہوا یہ کہ ایم کیو ایم کے سنگ چلنے والی لہو اور لاشوں کی لکیر دراز ہو کر لندن تک پھیل گئی ہے۔ تین سال قبل وہاں ان کا ایک اور جلاوطن ساتھی اور ایم کیو ایم کا ایک اور بانی رہنماڈاکٹر عمران فاروق پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ تفتیش چیونٹی کی رفتار سے چلتی رہی۔ظالم کھوجی کھروں کے پیچھے چلتا ہوا آگے بڑھا توکھرے آخرالطاف بھائی کے دروازے پر جا رکے۔اب معاملہ ان دو نوجوانوں پر اٹکا ہوا ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے کچھ ہی عرصہ قبل تعلیم کے ویزے پر لندن گئے اور قتل کے بعد اچانک غائب ہو گئے تھے۔ جب رحمان ملک وزیرِ داخلہ تھے تب پاکستانی میڈیا میں ان نوجوانوں کے براستہ کولمبو واپس آنے اور کراچی ائر پورٹ پر گرفتار ہونے کی خبریں نشر ہوئی تھیں۔ ہماری حکومتِ پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ الطاف حسین کے ہمدردی کا تقاضا ہے کہ وہ نوجوان برطانیہ کے حوالے کر دیے جائیں۔ اس وقت الطاف بھائی کی سب سے بڑی مدد یہی ہے۔ کیا بعید کہ وہ نوجوان الطاف بھائی کے اس کیس میں ملوّث ہونے سے انکاری ہو جائیں ۔ہمارا قومی دامن بھی اس بد نما داغ سے بچ جائے کہ پاکستان کا اتنا مقبول لیڈر اتنا پست فکر ہو سکتا ہے کہ اپنے ہی ایک ساتھی کے قتل جیسی گھناؤنی سازش کرنے کی حرکت کر بیٹھے ۔ہاں چلیں زبانِ خنجر ابھی چپ سہی لیکن اگر آستین کا لہو ہی بول اٹھے تو ہم اس شرمساری سے کیسے بچ سکتے ہیں۔


بشکریہ روزنامہ ' نئی بات'

مُک مُکا اور قدرت کا انصاف


فروری کی پہلی تاریخ کی شہ سرخیاں دیکھ کر قدرت کے نظم عدل اور انصاف پر یقین بڑھتا جارہا ہے اور انسانوں کے بنائے ہوئے انصاف کے قاعدے قوانین اور ان کے وعدے اور لکھ کر اور بول کر کئے ہوئے اعلانات نہ صرف کھوکھلے بلکہ جھوٹے اور کھلی دھوکہ دہی نظر آنے لگے ہیں۔ تین خبروں کی سرخیاں ہر اخبار پر چھائی ہوئی ہیں۔ ایک جنرل مشرف کا کیس اور اُن کی طرف بڑھتا ہوا انصاف کا ہاتھ۔ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی جنرل مشرف ہیں جو گھمنڈ اور غرور کا پیکر بنے ہر ایک کا مذاق اُڑاتے اور اپنی قوت اور طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے اور بے قصوروں اور عام لوگوں کی زندگیاں اس طرح حرام کرتے تھے جیسے یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ آج وہ کسی کے قتل میں تو نہیں پکڑے گئے مگر ایک قانونی اور آئینی گرداب میں ضرور گھر گئے ہیں۔ جو اُن کو یاد دلارہا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے جو دیر سے چلتی ہے مگر چلتی ضرور ہے۔ آج ان کے دور کے قیدی، چور اور ڈاکو گردانے جانے والے سیاستدان ملک پر حاکم ہیں اور اپنی من مانیاں کررہے ہیں اور مشرف اور ان کے فوجی ساتھی گردنیں اور جانیں بچائے یا گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں یا ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ بوٹیاں نوچنے والے بڑے بڑے وکیل بالکل اسی طرح ٹوٹ کر مشرف کے لاکھوں کروڑوں روپے جیبوں میں ڈال رہے ہیں جس طرح لاکھوں ڈالر کسی وقت مشرف کے اور ان کے ساتھیوں کے بنک اکائونٹ میں خودبخود جمع ہوجاتے تھے۔ آج مشرف کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے ہیں مگر وہ صرف اپنی جان، مال اور ساکھ بچانے کے چکر میں ہیں کیونکہ مشرف پھنسے تو وہ کیسے بچیں گے۔ میرے خیال میں یہ سارا سرکس حسین حقانی کے میمو کیس کی طرح ہی حل پذیر ہوگا، عدالت کی بھی ساکھ بچ جائے گی، مشرف پر الزام بھی ثابت ہوجائے گا مگر وہ ملک سے فرار بھی ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ ابھی پاکستان میں کوئی کسی کو سزا دینے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے، سب اس حمام میں بغیر کپڑوں کے کبڈی کھیل رہے ہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو پاک پوتر اور دوسروں کو چور ڈاکو ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اس ملک کو ایک مینڈیلا کی ضرورت ہے جو خود اپنے لئے کچھ نہ چاہتا ہومگردوسروں کوصحیح راہ دکھا سکے۔ خیر دوسری بڑی شہ سرخی ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے بارے میں تھی اوراس پر الطاف بھائی اورمتحدہ کا ردِعمل کچھ پریشان کن لگا۔ اگر برطانیہ والے ان کے ملک میں ایک قتل کی تحقیق کررہے ہیں اور مشتبہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور کڑیاں ایک دوسرے سے مل رہی ہیں تو اس میںکسی بے گناہ اور معصوم شخص کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ الطاف بھائی پاکستان سے 22 سال پہلے یہ کہہ کر چلے گئے تھے کہ یہاں ان کی جان کو خطرہ ہے اب 22 سال بعد لندن میں وہ فرمارہے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہورہی ہے اور ان کی جان کو وہاں بھی خطرہ ہے۔ وہاں کے قانون تو قانون ہیں اور اگر کوئی ان قوانین کی گرفت میں آگیا تو بچنا مشکل ہے اگر آج الطاف بھائی باقی دوسرے لیڈروںکی طرح جیسے زرداری یا نواز شریف یا اور بہت سے لوگ جیسے دائود ابراہیم یا ایمن الظواہری یا اسامہ بن لادن یا ملا عمر یا ملا فضل اللہ اگر اپنے آپ کو پاکستان میں زیادہ محفوظ سمجھتے تھے یا ہیں، تو الطاف بھائی بھی آج پُرسکون نیند سوتے مگر برطانیہ کی شہریت لینے کے بعد وہ مجبور ہیں کہ وہاں کے قانون کی پابندی کریں اب اگر وہاں کی پولیس ان کے گھرجاسکتی ہے اور ان کی بیٹی کا لیپ ٹاپ لے جاتی ہے تو وہ یقین رکھیں جب فیصلہ ہوگا اور وہ بے قصور ٹھہریں گے تو یہ سب چیزیں ان کو اسی طرح واپس مل جائیں گی اور پاکستان کی طرح غائب نہیں ہوں گی۔

مگر الطاف بھائی نے شاید صحیح فیصلہ کرنے میں کچھ دیر کردی، جب ان کی حکومت تھی اور وہ مرکز اور صوبے پر ایک طرح سے قابض تھے اس وقت ہی ان کو اپنے ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کے درمیان آجانا چاہئے تھا۔ پاکستان میں ان کی حفاظت اتنی سخت ہوتی کہ کوئی چڑیا پَر نہیں مار سکتی جیسے زرداری صاحب نے پورے کراچی کا ایک حصہ اپنے قبضے میں کرلیا تھا اورکوئی پوچھنے والا نہیں تھا اور آج بھی نہیں۔ 90 کی رہائش گاہ تو ہمیشہ ہی الطاف بھائی کیلئے محفوظ تھی اور مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب وہ باہر سڑک پر بیٹھ کر ہمارے ساتھ گھنٹوں بحث کیا کرتے تھے یا وہ دن جب پہلی دفعہ میں نے 90 سے صحافیوں کا واک آئوٹ کروایا تھا اور وجہ بھی ڈاکٹر عمران فاروق ہی تھے۔ مگر جب ہم صحافی واک آئوٹ کرکے نکلے تو ہر ایک بھاگ رہا تھا کہ کہیں متحدہ کے ورکر گھیر کر واپس نہ لے جائیں۔ وہ کہانی پھر سہی مگر آج کے اخبار میں جو متحدہ کے مظاہرے کی خبریں اور تصویریں چھپی ہیں وہ ایک المیہ ہی لگتی ہیں۔ آخر متحدہ کو کراچی کس کا ہے، دکھانےکی کیا ضرورت پیش آگئی، یہ بات تو سب کو معلوم ہے۔ ایک TV کے پروگرام پر اتنا بڑا ردِعمل سمجھ سے باہر لگتا ہے،کہانی کچھ اور ہے یہ پیغام میرے مطابق BBC یا اسکاٹ لینڈ یارڈ کو نہیں دیا جارہابلکہ پاکستان کی اُن طاقتوں کو دیا جارہا ہے جو شایدڈاکٹر عمران کیس کے مشتبہ لوگوں کو اپنے سیف ہائوس میں رکھے ہوئے ہیں۔ پیغام یہ لگتا ہے کہ اگر ان لوگوں کو متحدہ کے خلاف استعمال کیا گیا تو کراچی والے بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ کیس لگتا ہے شطرنج کی بساط پر ایک ایسی مہرے کی چال بن گیا ہے جب شاہ کو پہلے وارننگ دے دی جاتی ہے کہ بچائو ورنہ مات ہونے کو ہے۔ اب اس شطرنج میں کس کو مات ہوتی ہے اور کون شاہ کو بچا کر لے جاتا ہے کہنا مشکل ہےمگر کانٹے کا مقابلہ ہے اور ہوسکتا ہے برطانیہ والے منہ دیکھتے رہ جائیں اور پاکستان میں سیف ہائوس چلانے والوں اور متحدہ میں سمجھوتہ ہوجائے اور ڈاکٹر عمران فاروق کا کیس لٹکتا ہی رہ جائے مگر قدرت کا نظام عدل اپنی جگہ چلتا رہتا ہے۔

آخری شہ سرخی اُس تصویر کے ساتھ تھی جس میں جناب نواز شریف اور جناب زرداری تھر کوئلے کی کانوں سے بجلی بنانے کا افتتاح کررہے تھے اور جو خیالات اور بھائی چارہ نظرآرہا تھا وہ قابل دید اور ناقابلِ یقین سا تھا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے ہاتھ ملانا تھا بھی تو کوئلوں کی کان پر(ویسے کوئلوں کی دلالی بھی مشہور ہے ویسے اس کام میں منہ کالا ہونا کوئی نئی بات نہیں ) اور اب جس طرح اس کوئلے کے کاروبار میں دونوں لیڈر مل جل گئے ہیں، نظر آتا ہے پچھلے سارے گناہ معاف ہوگئے ہیں اور جو نواز شریف اور ان کے برادر شہباز صاحب زور و شور سے اعلان کیا کرتے تھے کہ علی بابا اور چالیس چوروں کو سڑکوں پر لٹکایا جائے گا وہ ماضی کی بات رہ گئی ہے کیونکہ اُس وقت انہیں حکومت نہیں ملی تھی۔ اب نواز شریف کو زرداری کی ضرورت شدت سے ہے کیونکہ اصلی حکومت انہوں نے اب شروع کی ہے اور تمام بڑے بڑے اور اہم عہدوں پر وہ اپنے مہرے بٹھارہے ہیں چاہے وہ لوگ عدالت سے مسترد شدہ ہی ہوں۔ ہر جگہ اپنے آدمی ہی لگائے اور لگ رہے ہیں ابھی ملک کے کھربوں کے اثاثے بیچنا ہیں۔ کھربوں کیلئے منصوبے لگانے ہیں اور اپنے سب دوستوں اور قریبی ساتھیوں کو بھی تو کچھ فائدہ دینا ہے۔ ایک کہانی جو تیار ہے جلد ہی سامنے لائوں گا کہ کس طرح اربوں کا ہیر پھیر کیا گیا اور ڈکار بھی کسی نے نہیں لی۔ نواز زرداری بھائی بھائی کا نعرہ اب ہر جگہ بجے گا۔ الطاف زرداری تو ہیں ہی بھائی بھائی۔


بشکریہ روزنامہ 'جنگ'