Showing posts with label Pakistan Economy. Show all posts

پاکستان :65برس میں سیلاب سے 40ارب ڈالرکانقصان........


پاکستان کی حکومتوں نے سیلاب سے بچائو کے منصوبوں کے نام پر 35 ارب کی بھاری رقم خرچ کرڈالی‘ قوم کو درجنوں سیلابوں کے باعث 40 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا لیکن حکومت نے بھارت سے داخل ہونے والے 5 دریائوں پر اپنا ٹیلی میٹری فیلڈ مانیٹرنگ سسٹم نصب کرنا گوارا نہ کیا۔ ماہرین آب کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے گزشتہ 65 برس میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائوں پر پانی کے بہائو سے متعلق بھارت کے فراہم کردہ گمراہ کن اعداد و شمار پر انحصار کیا اور ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔ سیلاب سے بچائو کے منصوبوں پر 35 ارب روپے بھی خرچ کیے لیکن سیلاب کی وارننگ جاری کرنے والا اپنا نظام قائم نہیں کیا۔

 دریں اثنا ہر دو تین سال بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے سندھ واٹر ٹریٹی کونسل پاکستان کے چیئرمین سلمان خان نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انڈس واٹر کونسل سسٹم نصب کرنے میں نا کام رہی ہے۔ انہوں نے انڈس واٹر کمیشن‘ فیڈرل فیلڈ کمیشن اور آب پاشی کے صوبائی اداروں کو بھی سیلاب سے تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں دریائوں کے بہائو سے متعلق مکمل اعداد و شمار ویب سائٹ پر دستیاب ہیں لیکن ہمارے ادارے آج بھی بھارت سے گمرا کن اطلاعات کی دستیابی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماہرین پاکستانی دریائوں پر بھارتی علاقوں میں 173 چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کا رونا روتے رہتے ہیں‘ کس نے روکا ہے کہ ملکی ضروریات کے مطابق پاکستانی دریائوں پر بڑے پیمانے پر بند تعمیر نہ کریں۔ انہوں نے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھارت کی طرز پر ڈیم بنائے جاتے تو پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا نہ لوڈشیڈنگ ہوتی اورنہ ہی ملک میں پانی کا بحران پیدا ہوتا۔

   

پاکستان میں ہر سال 5 ہزار سے زائد افراد خودکشی کرنے لگے......


پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کاعالمی دن منایا گیا، دن منانے کا مقصد خودکشی کے واقعات کی روک تھام کیلیے عوامی شعوراجاگر کرنا ہے۔
اس موقع پر کراچی کے بعض اسپتالوں کے نفیساتی یونٹ میں سیمینارز کا اہتمام کیا گیا جس میں مقررین نے خودکشی کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرنے کی اہمیت پر زور دیا، ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ہر سال 10 لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں بعض ممالک میں خودکشی کے واقعات حادثات میں مرنیوالوں سے بڑھ جاتے ہیں دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں میں 15 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کی زیادہ تعداد شامل ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار سے زائد لوگ خودکشی کرتے ہیں جبکہ 3 ہزار سے زائد لوگ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان میں خودکشی کے زیادہ واقعات سندھ اور پنجاب میں ہوتے ہیں، جنوبی پنجاب میں خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات ملتان میں پیش آتے ہیں، ہمارے معاشرے میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی لاتعداد وجوہات ہیں جن میں غربت بے روزگاری گھریلو چپقلش خوف ناانصافی، حساس طبیعت اور ذہنی عدم توازن سرفہرست ہیں

Economic Cost of of Imran Khan Azadi March and Inqilab March




Islamic Banking - Realities, Results and Advise by Dr. Shahid Siddiqui




Islamic Banking - Realities, Results and Advise by Dr. Shahid Siddiqui

عالمی مالیاتی فنڈ اور مستقبل کے پاکستان کی معاشی تصویر.........




نوازشریف حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ عام انتخابات کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک پیپر ورک تیار کیا تھا اور اسے حکومت کی معاشی ٹیم کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے عالمی این جی اوز، قوم پرست رہنمائوں اور جیو پولیٹکل امور کے ماہرین سے کیے جانے والے انٹرویوز کو بنیاد بناکر اپنی رائے قائم کی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد سندھ، بلوچستان اور فاٹا میں شورش بڑھ سکتی ہے۔ متحدہ کی قیادت کے خلاف مقدمات اور تفتیش کی ٹائمنگ اور فاٹا کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یقینی طور پر آئی ایم ایف مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی مدد فراہم کرے گا۔

 وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے 39 کھرب روپے مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال کا خسارہ شامل کرلیا جائے تو بجٹ کا کُل خسارہ 12 کھرب روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ دفاعی اخراجات نکال کر ملک میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت کے پاس کُل 18 کھرب روپے دستیاب ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے دو ارب یورو بانڈز عالمی مارکیٹ میں فروخت کیے ہیں، اس پر چھ فی صد منافع کی یقین دہانی اور ضمانت دی گئی ہے۔ یہ بانڈز امریکی آئل کمپنیوں نے خریدے ہیں اور اس کا منافع آنے والی حکومت پانچ سال کے بعد دینے کی پابند ہوگی۔

یہ وہ معاشی تصویر ہے جسے سامنے رکھ کر عالمی مالیاتی فنڈ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات طے کرے گا۔ وہ اپنے ہر فیصلے سے قبل سندھ، بلوچستان اور فاٹا کی صورت حال کا نقشہ ایک پالیسی کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھے گا۔ جس ملک کی معیشت کا سارا انحصار غیر ملکی قرضوں پر ہو وہ کیسے خودمختار پالیسیاں مرتب کرسکتا ہے؟ وفاقی بجٹ پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے کہ اس بجٹ کی ہر ہر سطر مبہم ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، عمل درآمد کے مرحلے میں پتا چلے گا کہ سرجن نے کہاں کہاں نشتر لگائے ہیں۔ بجٹ تیار کرتے وقت وزیر خزانہ کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ پاکستان کس طرح جی ایس پلس اسٹیٹس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اسی لیے حالیہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو غیر معمولی مراعات دی ہیں۔

حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن بجٹ میں یہ تعداد محض 12 فی صد بتائی گئی ہے۔ یہ وہ اہم منظرنامہ ہے جس میں قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر عام بحث شروع ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں ہیں۔ دونوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہم آہنگی نہیں ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ کے اندر حکومت کے سامنے کوئی چیلنج نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ریکارڈ طویل تقریر کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی رائے ہے کہ وہ بجٹ کا پوسٹ مارٹم نہیں کرسکے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کیا ہے۔ بظاہر تو وہ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر دکھائی دیتے ہیں تاہم بجٹ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے نرم لفظوں میں بہت سخت باتیں کی ہیں۔ تحریک انصاف نے دس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سادگی اختیار کرے اور پاکستانیوں کی بیرون ملک رقوم تین سال کے اندر اندر پاکستان لانے کا بندوبست کرے، صوبوں کے ترقیاتی فنڈز مرکز کے منصوبوں میں شامل نہ کیے جائیں۔

آئینی لحاظ سے بجٹ منظور کرانا ہر حکومت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ جو حکومت بجٹ منظور نہ کرواسکے وہ خودبخود برطرف ہوجاتی ہے اور اس سے حقِ حکومت چھن جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ حکومت بجٹ سازی کے وقت وزارتوں کے بجائے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں سے رائے لینے کی پابند ہوگی۔ لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت اپریل میں بجٹ سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے رائے لے گی۔ لیکن ایوان میں کرائی گئی یقین دہانی کے باوجود یہ آئینی تقاضا پورا نہیں کیا گیا۔ لیکن یہ اور بہت سے دیگر پہلو نظرانداز کیے جانے کے باوجود بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا۔

بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافے کا اعلان ہوا ہے اور اس فیصلے کا اطلاق پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں پر بھی ہوگا۔ پرویزمشرف دور میں قانون منظور کیا گیا تھا کہ جس شرح سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی اسی شرح سے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں بھی بڑھ جائیں گی۔ بجٹ میں وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں بھی دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے، حالانکہ فنانس بل 2014ء میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں، جبکہ وزراء اور ارکان پارلیمنٹ کی مجموعی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں حقیقی اضافہ میڈیکل الائونس و کنوینس الائونس میں 10اور 5 فیصد اضافے کو شامل کرکے بھی پانچ فیصد تک ہوگا، جب کہ اس کے برعکس وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ کو مجموعی تنخواہ کا دس فیصد اضافہ ملے گا۔ رکن پارلیمنٹ کی اِس وقت تنخواہ 70 ہزار روپے ہے اور ہر رکن قومی اسمبلی کو یوٹیلٹی بل دینے کے بعد 51 ہزار روپے ملتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں حکومت نے ارکان صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فی صد تک اضافہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں ایک اور بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف اور حکومت مخالف سیاسی اتحادوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین کو بھی حکومت نے سیاسی کمک اس لیے پہنچائی کہ متحدہ کہیں حکومت مخالف کیمپ میں نہ چلی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں کراچی متاثر ہوگا اور غیر ملکی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ مجوزہ سیاسی اتحادوں کی نرسری کی آکسیجن کاٹنے کے لیے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے رابطوں کے لیے وزیراعظم نے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور عرفان صد یقی پر مشتمل 3رکنی کمیٹی کو ٹاسک دیا ہے، جس نے پہلا رابطہ جماعت اسلامی سے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور میاں اسلم سے ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ حکومت کا اگلا پڑائو اے این پی ہے۔ سینیٹر حاجی عدیل سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے اور وہ حالات کو آہستہ آہستہ وسط مدتی انتخابات کی جانب لے جانا چاہتی ہے، لیکن حکومت مخالف سیاسی اتحاد بن نہیں پا رہا کیونکہ اس اتحاد میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اتحاد کی لیڈر شپ کس کے پاس ہوگی؟ طاہرالقادری خود آگے آنے کے بجائے اپنے صاحب زادوں کو سیاست میں لارہے ہیں۔ عوامی تحریک کی اطلاع کے مطابق ڈاکٹر طاہرالقادری کے فیس بک پیج پر مداحوں کی تعداد 20لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، ان میں نوجوان غالب اکثریت میں ہیں۔ طاہرالقادری نے اسلام آباد میں ایک کروڑ نمازی لانے کا دعویٰ کیا ہے۔ عوامی تحریک یہ تو بتائے ان میں ’’نمازی‘‘ کتنے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ اس کی بنیاد پر پاکستان آنے کا فیصلہ کرنے سے قبل پرویزمشرف سے لازمی مشورہ کرلیا جائے۔

حال ہی میںسیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے دوسرا پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان جاری کیا ہے جس کے مطابق آئندہ انتخابات میں ووٹنگ الیکٹرونک طریقے سے کی جائے گی، اور انتخابات سے قبل مردم شماری کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ نئی حلقہ بندیاں کی جاسکیں۔ الیکشن کمیشن نے پانچ سالہ اسٹرے ٹیجک پلان کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سے آراء مانگی تھیں لیکن جماعت اسلامی کے سوا کسی دوسری جماعت نے الیکشن کمیشن کو تجاویز نہیں بھجوائیں۔ تحریک انصاف تو الیکشن کمیشن کے ارکان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے جن کی معیاد 2016ء میں ختم ہورہی ہے۔ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے سابق اسٹیشن ہیڈ جوناتھ بینکس اور ان کے قانونی مشیر جان ایروز کے خلاف ڈرون حملے پر قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی سنایا ہے۔ ایک شہری کریم خان کی طرف سے رٹ دائر کی گئی تھی کہ ڈرون حملے میں اس کا بیٹا زین اللہ اور بھائی آصف کریم جاں بحق ہوگئے تھے، دونوں پُرامن شہری تھے اور کسی تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی کسی مقدمہ میں مطلوب تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے الزامات میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ حکم ریاست کی رٹ اور آئین کی حکمرانی کا مظہر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انتظامیہ اس حکم پر عمل کرے گی یا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا؟

ابھی حال ہی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین کے دورے پر گئے جہاں چینی حکام سے ان کی ملاقاتوں میں ایسٹ ترکستان موومنٹ کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے نائب سربراہ یافین چنگ لانگ نے بیجنگ میں جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا، اور چین نے ایسٹ ترکستان موومنٹ کے خلاف پاکستان کے تعاون کو سراہا۔ ای ٹی آئی ایم کو دونوں ملکوں کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پیمرا نے بھی انگڑائی لی ہے۔ پیمرا کے قائم مقام چیئرمین پرویز راٹھور کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں جیو ٹی وی چینل کو آئی ایس آئی کے خلاف مہم پر ایک کروڑ روپے جرمانہ اور اس کا لائسنس پندرہ روز تک معطل کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے رد عمل دیا کہ پیمرا کے فیصلے سے وزارتِ دفاع مطمئن نہیں ہے اور اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔ اس سے قبل عسکری ذرائع نے رد عمل دیا تھا کہ ’’ہم حالتِ جنگ میں ہیں، ہمارے خلاف مہم جوئی کے مقاصد کیا تھے، یہ عزائم سامنے آنے چاہئیں، جیو کو ملنے والی سزا کم اور تاخیر سے دی گئی ہے، لیکن ہمارے خلاف مہم جوئی کا حساب کون دے گا؟‘‘ وزارتِ دفاع کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ جیو کی مشکل ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس معاملے کے حل کے لیے سی پی این ای، پی ایف یو جے اور ایپنک کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو مستقبل میں ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق مرتب کررہی ہے۔ یہ سب کچھ دکھاوا ہے، اصل فریق دو ہی ہیں، (1) میر شکیل الرحمن اور(2) وزارتِ دفاع۔ ان میں سے ایک فریق کا مطالبہ ہے کہ اسے پچاس ارب روپے دیے جائیں، دوسرے کا مطالبہ ہے کہ ایک کروڑ جرمانہ کم سزا ہے۔ جیو انتظامیہ نے خود ایک ہفتہ کے لیے چینل بند کرنے اور معافی مانگنے کی پیش کش کی تھی لیکن میر شکیل الرحمن اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے معاملہ حل نہیں ہورہا۔ جیو انتظامیہ چاہتی ہے کہ وہ رمضان المبارک سے قبل معاملہ طے کرلے تاکہ اسے رمضان المبارک کی نشریات کے لیے اسپانسر شپ مل سکے، لیکن اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس کھیل میں یہ سوال بھی ابھر رہا ہے کہ یہ نجی ٹی وی چینلز اس معاشرے کی اخلاقی اور سماجی روایات کے ساتھ جو کھلواڑ کررہے ہیں، اس کی تلافی کے مطالبے کے ساتھ کون آگے آئے گا؟

میاں منیر احمد



The Economic costs of Pakistan's war against terror

 

پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے سبب گزشتہ تین سال کے دوران معیشت کو28ارب 45کروڑ98لاکھ ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دنیاکے امن کی خاطر2002 سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پرپاکستان نے102.51ارب ڈالر (8ہزار264ارب روپے) جھونک دیے،سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے تجارتی سرگرمیاں ماند ہونے سے ٹیکس وصولیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔

اکنامک سروے رپورٹ برائے سال 2013-14میں پاکستان میں گزشتہ 3 سال کے دوران دہشت گردوں کے حملوں اور گزشتہ13سال کے دوران افغان جنگ کے سبب پاکستان پرپڑنے والے مالی بوجھ کے بارے میں خصوصی باب شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق مالی سال2011-12سے مالی سال2013-14کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے معیشت کو28ارب 45کروڑ98لاکھ ڈالر کانقصان پہنچایا جس میں سے ایکسپورٹ کو2ارب 29کروڑ ڈالرکانقصان ہوا۔

دہشت گردی کے سبب معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے سبب ٹیکس وصولیوں کی مد میں6ارب47کروڑ99لاکھ ڈالر،غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں 8 ارب 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر، نجکاری کے منصوبوں میں تاخیر کے باعث 4ارب 99کروڑ64لاکھ ڈالر، انفرااسٹرکچر کو 2ارب 47 کروڑ ڈالر،متاثرین کی بحالی کی مد میں5کروڑ 92لاکھ ڈالر، صنعتی پیداوار میں کمی کے سبب 76کروڑ97لاکھ ڈالر، غیر یقینی صورتحال کے سبب20کروڑ47لاکھ ڈالر،جاری اخراجات میں اضافے کے سبب64کروڑ 45لاکھ ڈالر اور متفرق2ارب47کروڑ53لاکھ ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی سال2011-12کے دوران دہشت گردی نے معیشت کو11ارب 79کروڑ75لاکھ ڈالر کا نقصا ن پہنچایا۔

مالی سال 2012-13کے دوران دہشت گردی کے سبب معیشت کو9ارب 96کروڑ86لاکھ ڈالرکا نقصان پہنچاجبکہ مالی سال 2013-14 میں 6 ارب 69کروڑ37لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ افغانستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ پر پاکستان نے کسی ایک سال میں سب سے زیادہ23.77ارب ڈالر خرچ کیے ، سال2009-10 میں13.56ارب ڈالر جبکہ سال2011-12کے دوران11.98ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ یہ اعدادوشمار وزارت خزانہ، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ پر مشتمل مشترکہ وزارتی کمیٹی نے مرتب کیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں امریکی یلغار کے بعد پاکستان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا افغانستان سے لاکھوں افراد پاکستان نقل مکانی کرگئے اس کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گردی کی کاررروائیوں میں بھی شدت پیدا ہوگئی، داخلی سیکیورٹی اور معیشت کو درپیش یہ خطرات اب بھی موجود ہیں اور معاشی ترقی و استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان قیمتی جانی نقصان کے ساتھ بھاری مالی نقصان برداشت کررہا ہے ، دہشت گردی کے سبب پاکستان میں تجارتی اور پیداواری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں جس سے نہ صرف پیداواری لاگت بڑھ گئی بلکہ ایکسپورٹ آرڈرز بھی بروقت پورے نہ ہونے سے ایکسپورٹ کی مد میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کے لیے عالمی منڈی میں اپنامقام برقرار رکھنا دشوار تر ہوتا چلاگیا۔


The Economic costs of Pakistan's war against terror

 

Pakistan Economic Progress Reality or Dream by Dr. Shahid Hassan


 Pakistan Economic Progress Reality or Dream by Dr. Shahid Hassan

Enhanced by Zemanta

پاکستان کے حالات کی ابتری‘ بدحالی اور سیاسی عدم استحکام


جو لوگ یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کے حالات کی ابتری‘ بدحالی اور سیاسی عدم استحکام ایک داخلی مسئلہ ہے‘ انھیں دنیا کی گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی تاریخ اور اس میں بدلتی‘ ٹوٹتی حکومتوں کے قصے‘ ہنگامہ آرائیاں‘ قتل و غارت اور معاشی زوال کی داستانوں کا ضرور مطالعہ کر لینا چاہیے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد جب دنیا کے افق پر امریکا اور روس دو عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے تو سرد جنگ کا آغاز ہوا‘ جس نے دنیا بھر میں خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کو وسعت دی۔ جنگیں اب سرحدوں پر نہیں بلکہ ملکوں کے اندر لڑی جانے لگیں۔

دونوں ملک اپنے ٹوڈی اور پروردہ حکمرانوں کو مسلط کرنے کے لیے کبھی فوج میں سرمایہ کاری کرتے اور کبھی حکومت کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہوں کی پشت پناہی۔ دونوں صورتوں میں زمین پر آگ برستی‘ انسانوں کا خون بہتا اور ملک معاشی زوال کے دلدل میں پھنس جاتے۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد یہ کردار اب صرف اور صرف امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ گزشتہ چند سالوں سے روس نے ایک بار پھر انگڑائی لی ہے لیکن اس کی انگڑائی کی وسعت اتنی ہی ہے اور وہ اپنے بازو اتنی دور تک پھیلاتا ہے جہاں تک امریکا یا مغرب کا مفاد ان کے زد میں نہیں آتا۔

مسلم امہ کے ممالک کو ابتری‘ بدحالی‘ خونریزی‘ خلفشار اور سیاسی خانہ جنگی میں مسلسل مبتلا رکھنے کا خواب ان دونوں کا مشترک مفاد ہے۔ جن ممالک میں حکمران امریکا مفادات کے ساتھ ہیں وہاں خانہ جنگی کرنے والوں کی مدد روس اور اس کے حواریوں کے ذمے اور جہاں حکمران روس کے حاشیہ نشین ہیں وہاں باغیوں کی مدد امریکا اور اس کے دوست ممالک کی ترجیح بنتی جا رہی ہے۔ یہی صورت حال روس کے ٹوٹنے سے پہلے سرد جنگ کے دوران بھی تھی۔ یہ سرد جنگ ایک بار پھر ہلکے ہلکے سلگ رہی ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں کے دوران امت مسلمہ کے درمیان بھی ایک سرد جنگ شروع ہے جسے آہستہ آہستہ مغرب نے آگ دکھا کر ایک بہت بڑے معرکے میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس جنگ کے دونوں سرخیل سعودی عرب اور ایران بھی امریکا اور روس کی طرح بظاہر کسی بھی جنگی محاذ پر برسرپیکار نہیں ہیں‘ نہ ہی دونوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں‘ لیکن امت مسلمہ کے ممالک پر غلبے اور اثر و رسوخ کے ہیجان نے ان دونوں ممالک کی مدد سے کتنے ملکوں میں خانہ جنگی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ الجزائر سے لے کر پاکستان تک کوئی خطہ اس عفریت سے محفوظ نہیں۔ اس جنگ کو، جو دونوں ملکوں کے ذاتی غلبے کی جنگ تھی‘ مغرب نے اپنی مخصوص چالبازی اور مدد سے شیعہ سنی تنازعہ کی شکل دے دی ہے اور اس خانہ جنگی سے صرف وہی ملک محفوظ ہیں جن میں ایک ہی فقہہ کے ماننے والے واضح اکثریت میں رہتے ہیں۔ جیسے بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور شمالی افریقہ کے کچھ ممالک۔ باقی سب جگہ دونوں گروہ اللہ‘ رسولﷺ‘ صحابہ رسولؐ اور خانوادہ رسول کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جو امریکا‘ روس اور مغرب کے ممالک کے لیے آئیڈیل ہے۔

انھی اختلافات میں سے اس استعمار نے اپنا راستہ نکالنا ہے‘ کہیں نام نہاد جمہوری جدوجہد اور حقوق کی تحریکیں‘ تو کہیں شدت پسند اور دہشت گرد گروہ اور پھر کہیں اس ملک کی مسلح افواج… جو بھی ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اسے اقتدار پر بٹھانے اور مخالف کو مسند اقتدار سے اتارنے کی کوشش کرنا اور اپنے مفادات کا اس ملک میں تحفظ کرنا ان کی ترجیح ہے۔ ان سب کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ لیکن چند ایک کامیاب اور ناکام کوششیں تحریر کر رہا ہوں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ یہ طاقتیں کیسے ملکوں کے اندر حکومتیں بدلتی اور خانہ جنگی پیدا کر کے اپنے مفاد کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسا ہوتا ہے۔

شام میں شکری الکواتلی کی حکومت تھی امریکا اور یورپ تیل کی سپلائی کے لیے پائپ لائن بچھانا چاہتے تھے۔ حکومت نے انکار کیا توسی آئی اے نے سوشل نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک شروع کروائی‘ یہاں تک کہ اپنے دو ایجنٹوں مائلز کوپلینڈ (Miles Copeland) اور اسٹیفن می ایڈ Stephen Meade کو حالات خراب کرنے کی نگرانی کے لیے بھیجا۔ جب حالات بگڑے تو آرمی چیف حسنی الزیم کے ذریعہ 29 مارچ کو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ 1953ء کو ایرانی وزیر اعظم مصدق کے خلاف جنرل فضل اللہ ہادی کی سربراہی میں فوجی بغاوت کرائی گئی۔ اس سے پہلے ایران میں عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے جلوس اور ہنگامے برپا کیے گئے۔

سی آئی اے کی وہ دستاویزات جو امریکی سفارتخانے سے ملی تھیں ان کے مطابق 25 ہزار ڈالر بسوں اور ٹرکوں کے کرایے کے طور پر ادا کیا گیا‘ جن میں مظاہرین کو بھر کر تہران لایا گیا تھا۔ مصدق کی حکومت الٹنے کی وجہ آبادان آئل ریفانری تھی جس کو مصدق نے قومیانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ گوئٹے مالا میں امریکا کی مدد سے ایک آمر جارج اوبیکو برسراقتدار تھا۔ لیکن 1950ء کے الیکشن میں ایک شخص جیکب آر بیز Jecobo Arbez بے تحاشا اکثریت سے الیکشن جیت گیا۔ اس نے عام کسانوں کو ملکیتی حقوق دینے کا آغاز کیا۔ زمینوں پر امریکی کمپنیاں قابض تھیں۔

ایک امریکی کمپنی یو ایف سی او (UFCO) نے کانگریس کے ارکان کو گوئٹے مالا کی حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مجبور کیا۔ امریکی کانگریس کے جمہوری حکمران انھی کمپنیوں کے پیسے سے الیکشن جیتتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان جمہوری حکمرانوں نے سی آئی اے کی مدد سے گوئٹے مالا میں 1954ء میں فوجی بغاوت کر وا دی۔ تبت میں 16 مارچ 1959ء کو مسلح جدوجہد کا آغاز کروا یا گیا۔ دلائی لامہ کو عالمی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا سی آئی اے کے کیمپ ’’ہالی‘‘ میں 259 گوریلے تیار کر کے تبت بھیجے گئے جو وہاں لوگوں کو تربیت دیں۔ 1962ء تک یہ جنگ جاری رہی۔ چین کی افواج نے قابو پایا تو گوریلوں کو شمالی نیپال میں اکٹھا کیا گیا لیکن 1974ء میں چین سے تعلقات بہتر ہوئے تو اسے سی آئی اے نے ختم کروا دیا۔

جنوبی ویت نام میں جہاں امریکا کے اپنے پٹھو ڈونک وان منہ کی حکومت تھی اسے صرف اس جرم کی سزا دی گئی کہ وہ امریکا کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے والے بدھ بھکشوئوں پر نرمی برتتا تھا۔ یہ بدھ بھکشو لوگوں کے درمیان خود کو آگ لگا کر خود کشی کرتے تھے۔ وہاں پر موجود کیتھولک عیسائیوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا جنہوں نے بدھووں کے مذہبی مراکز اور دیہات پر حملے کیے اور قتل و غارت کیا۔ ملک میں بدامنی پھیلی تو ڈونک وان منہ کو گرفتار کر کے اگلے روز اس کے بھائی کے ہمراہ پھانسی دے دی گئی۔ برازیل کے صدر جووا گولارٹ Joao Goulart نے امریکی کمپنیوں کے منافع میں سے عوام کو فائدہ پہنچانے والی اسکیمیں شروع کیں تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ’’برادر سام‘‘ نامی آپریشن سے کروایا گیا۔ نیو جرسی سے 110 ٹن اسلحہ برازیل بھیجا گیا۔

بدامنی پھیلی تو یکم اپریل 1964ء کو اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ چلی تو لاپتہ افراد اور امریکی سی آئی اے کے تیار کردہ افراد کے ہاتھوں مارے جانے والے لاکھوں انسانوں کا ملک ہے۔ 11 ستمبر 1973ء میں بدنام زمانہ ڈکٹیٹر جنرل پنوشے کو امریکی آشیر باد اور فوج کے ذریعے برسر اقتدار لایا گیا اس کے بعد کی کہانی بہت خونچکاں ہے۔ ارجنٹائن میں ازابیل پیرون صدر منتخب ہوئیں۔ وہاں موجود کیمونسٹ گوریلوں کو بہانہ بنایا گیا اور انھیں علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر 26 مارچ 1976ء کو جنرل رافیل کے ذریعے ازابیل کا تختہ الٹ دیا گیا۔

امریکی موقف یہ تھا کہ سیاسی حکومت ان گوریلوں کے ساتھ امن مذاکرات میں لگی ہوئی ہے۔ ملک کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور فوج کے ذریعے تشدد پسندوں کو ختم کرنے کے بہانے قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ 1979ء میں نکارا گوا میں کونٹرا گوریلوں کی خفیہ مدد کی گئی۔ اس دفعہ تشدد پسند گوریلے امریکا کے منظور نظر تھے۔ یہی کونٹرا گوریلے تھے جن کا اسلحہ خفیہ طور پر ایران کو فراہم کیا گیا۔ کونٹرا سکینڈل دنیا کا مشہور ترین سکینڈل ہے۔ وینزویلا کے ہیگو شاویز کے خلاف ناکام عوامی تحریک تو پرائیویٹ میڈیا چینلز اور سرمائے کے بل بوتے پر مظاہرین کے ذریعے برپا کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیوگوشاویز کی مقبولیت کی وجہ سے دم توڑ گئی۔

یہ ہیں تاریخ کی چند مثالیں۔ یہ اس زمانے کی ہیں جب کیمونزم کو خطرہ بنا کر دنیا کو ڈرایا جا رہا تھا اور ملکوں کے اندر اپنے مفاد کے لیے کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ ایسے تمام ممالک جہاں کیمونزم کا خطرہ تھا انھیں بدامن، ابتر، بدحال اور خانہ جنگی کا شکار رکھا جاتا تھا۔ اب دنیا کو باور کرانا ہے کہ خطرہ مسلمانوں اور اسلام سے ہے۔ جب تک مسلم امہ کے تمام ممالک بدامنی‘ بدحالی‘ ابتری اور خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوتے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ مسلمان دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ عرب بہار سے مصر‘ مراکش‘ تیونس‘ شام اور یمن میں بے چینی کی لہر کو پہلے جمہوری جدوجہد اور جمہوریت کی فتح قرار دیا گیا اور پھر ان ملکوں کو دوبارہ خانہ جنگی میں الجھایا گیا۔

لیبیا میں قذافی کے خلاف ایسے دہشت گردوں کی مدد کی گئی جنھیں خود امریکا دہشت گرد کہتا تھا۔ شام اور عراق میں شیعہ سنی تنازع میں لاکھوں انسانوں کو قتل کرنے کے لیے سعودی عرب اور ایران کی سرد جنگ کو اسلحہ فراہم کر کے تیز کیا گیا۔ اس سارے ماحول میں پاکستان کیسے نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا تھا۔ دنیا بھر کے کارپوریٹ سیکٹر کے پیسے خصوصاً بھارتی کارپوریٹ کے سرمائے کو بھارت میں نریندر مودی کو جتوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب افغانستان میں حامد کرزئی کی نرم پالیسی کی وجہ سے پاکستان مخالف حکمران منتخب کروانے کی کوشش ہوئی‘ ایران کو سعودی اثر و نفوذ کی وجہ سے مخالف بنایا گیا۔

ایسے میں جب کوئی پڑوسی ساتھ نہ ہو تو پھر مسلم امہ کی سرد جنگ کے علم بردار دونوں ممالک اس مملکت خداداد پاکستان میں اپنے جتھے مضبوط کرنے لگے۔ شمال میں طالبان جنوب میں قوم پرست اور فرقہ پرست‘ ملک تشدد اور خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا لیکن ایک عوامی تحریک کی ضررت ہوتی ہے تا کہ حکومت کا تختہ کسی جواز کی بنیاد پر الٹا جائے۔ جنگ کی بساط بچھ چکی ہے۔ مسلم امہ کی خفیہ سرد جنگ اورامریکا اور یورپ کی منصوبہ بندی کا آغاز ہو چکا ہے۔ کب کس وقت اور کیسے شہ مات ہوتی ہے۔ وقت کا انتظار کرو۔

اوریا مقبول جان 

 

بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے


سلطنت روما کے عروج و زوال کی داستان پڑھتا ہوں تو لرز جاتا ہوں اور گاہے یہ خیال آتا ہے کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل پڑے جہاں تہذیب و ثقافت کے پجاریوں کی قبریں جا بجا پھیلی نظر آتی ہیں۔ روم کے بے تاج بادشاہوں کو جشن طرب برپا کرنے کے سب طریقے فرسودہ محسوس ہونے لگے اور اکتاہٹ ہونے لگی تو یکسانیت دور کرنے کے لئے ایک نئی طرح کا کلچر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مورخین یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ منفرد نوعیت کے اس اسپورٹس فیسٹیول کا نادر تخیل کس درباری نے پیش کیا تاہم جولیو کلیڈین خاندان جس نے روم پر کئی سو سال بادشاہت کی، اس کے دور حکمرانی میں گلیڈیٹر کے نام سے ایک وحشیانہ کھیل شروع کیا گیا جس کا مقصد رومی تہذیب و ثقافت کا تحفظ تھا۔

گلیڈیٹرز وہ قیدی اور غلام ہوا کرتے تھے جنہیں پالتو کتوں کی طرح پالا پوسا جاتا، کھلایا پلایا جاتا اور سالانہ فیسٹیول کے لئے تیار کیا جاتا۔ کئی ماہ پہلے اس منفرد شو کی ٹکٹیں فروخت ہوتیں اور مقررہ دن ایک بڑے میدان میں تماش بینوں کا انبوہ جمع ہو جاتا۔ بادشاہ کے درباری، امراء، رئوسا اور دیگر اشراف کے لئے اسٹیج سجایا جاتا، بادشاہ سلامت تھرکتے اجسام اور موسیقی کی دلنواز دھنوں سے نغمہ بار فضا میں تشریف لاتے اور یوں اس کھیل کو شروع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ گلیڈیٹر جنہیں عرصہ دراز سے سدھایا گیا ہوتا، انہیں ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آنے کا حکم ملتا۔ وہ نہایت سلیقے اور قرینے کے ساتھ منظم انداز میں بادشاہ سلامت کے چبوترے کے سامنے سے گزرتے اور سلامی پیش کرتے۔ اس کے بعد میدان کے ایک حصے میں موجود ان کچھاروں کے جنگلے کھول دیئے جاتے جن میں وحشی درندوں کو کئی دن سے بھوکا رکھا گیا ہوتا۔

شیر، چیتے، ریچھ ان سے نکلتے ہی گلیڈیٹروں پر ٹوٹ پڑتے۔ گلیڈیٹرز اپنے ہتھیاروں کے ساتھ بھوکے درندوں کا مقابلہ کرتے۔ میدان انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھر جاتا۔ لڑائی تب ختم ہوتی جب ان درندوں یا انہی کی طرح سدھائے گئے انسانوں میں سے کوئی ایک گروہ غالب آ جاتا۔ مورخین کا محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہر سال کم از کم 8000 گلیڈیٹر مارے جاتے۔ جو بچ جاتے ،انہیں انعام و اکرام سے نوازا جاتا مگر اس کھیل سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا اور وہ اگلے سال اسی میلے میں پھر کام آ جاتے۔ جب یہ وحشی جانور گلیڈیٹروں کی تکا بوٹی کر رہے ہوتے تو تماشایئوں کی ہذیانی چیخیں اور موسیقی کا شور مل کر سماں باندھ دیتا اور بادشاہ سلامت ان مناظر سے بیحد لطف اندوز ہوتے۔

روم میں گلیڈیٹروں کا یہ کھیل کئی سو سال تک جاری رہا اور اسے روم کی ثقافت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہاں تک کہ کلیڈین سلسلہ کے آخری چشم و چراغ نیرو نے اقتدار سنبھال لیا۔ نیرو کا برسراقتدار آنا بھی اقتدار کی رسہ کشی کے خود غرضانہ کھیل کا ایک عجیب موڑ تھا۔ نیرو موسیقی کا رسیا تھا،اسے کسی ناچنے والے گھر میں جنم لینا تھا مگر شاہی خاندان میں پیدا ہو گیا۔ اس لئے وہ تخت نشین ہونے کے بعد بھی باقاعدہ ناچتا گاتا اور اپنے درباریوں سے داد وصول کرتا۔ اس کی ماں ایپرپینا نے اپنے شوہر کو زہر دے دیا تاکہ نیرو بادشاہت کا حقدار بن سکے۔ اس کے چچا کلاڈیئس نے اپنے بھتیجے نیرو کو تخت و تاج کا وارث نامزد کر دیا لیکن یہ شخص ایسا احسان فراموش اور مطلبی نکلا کہ اس نے تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے انہیں ٹھکانے لگایا جن کی وجہ سے اسے اقتدار نصیب ہوا۔

پہلے اس نے اپنے محسن چچا کے بیٹے کو مروایا اور پھر ماں کو قتل کر دیا۔ اپنی ایک بیوی کو اس نے تب لات مار کر ہلاک کر دیا جب وہ حاملہ تھی۔اسے جب جو لڑکی پسند آتی، اس کے شوہر کو قید میں ڈال کر اپنے پاس رکھ لیتا۔ ناول نگار Gaius Suetonius کو رومی تاریخ کا سب سے معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول The twelve ceasre میں نیرو کی خباثت بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب نیرو کا دل شادیوں سے بھر گیا تو اس نے جی بہلانے کے لئے ایک نئی ترکیب سوچی ، وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے انتہائی پاکباز و پاکدامن کنواری لڑکیوں کی کھوج لگواتا،انہیں اپنے کارندے بھیج کر زبردستی اٹھواتا اور اپنے جنسی درندوں کے حوالے کر دیتا تاکہ وہ اجتماعی آبروریزی کا شوق پورا کر سکیں۔ جب درندگی کا یہ کھیل شروع ہوتا اور مظلوم لڑکیوں کی دلدوز چیخوں سے زمین ہل رہی ہوتی تو یہ نفسیاتی مریض حظ اُٹھاتا اور اپنے جذبات کی تسکین کرتا۔ اقتدار کے آخری ایام میں اس نے ایک اور خباثت یہ کی کہ ایک انتہائی حسین و جمیل لڑکے کو عمل اخصاء کے ذریعے نا مرد کیا اور دلہن بنانے کے بعد زندگی بھر اپنے پاس رکھا۔ ایک مرتبہ جب نیرو کے دوست اور آرمینیا کے شہنشاہ ٹریدیٹس نے روم کی سیر کو آنا تھا تو نیرو نے گلیڈیٹرز کے کھیل میں جدت پیدا کرنے کے لئے اس میں گلیڈیٹر عورتوں کا اضافہ کر دیا اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی وحشی درندوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔


ایک جملہ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ 64 قبل مسیح روم میں شدید آگ لگی جس میں دارالسلطنت کے دوتہائی علاقے جل کر راکھ ہو گئے اور ہزاروں انسان زندہ جل گئے۔جب روم جل رہا تھا تو نیرو 53میل دور واقع اپنے محل کی ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ چونکہ نیرو عیاش اور اذیت پسند تھا لہٰذا یہ آگ اس نے خود لگوائی تاکہ جلتے مرتے لوگوں کی دلدوز چیخوں سے محظوظ ہو سکے۔ کسی شاعر نے ایسے حکمرانوں کی کیا خوب عکاسی کی ہے:

لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا

اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت

جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!

شوق سلامت رہے شہر اور بہت

جب سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے موئن جو دڑو میں ہنگامہ برپا تھا اور کسی نے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کی بات کی تو جیالے سیخ پا ہو گئے اور میں محولہ بالا اشعار گنگناتا رہ گیا۔ میلوں ٹھیلوں کے ذریعے عوام کو رام کرنے اور لبھانے کی ریت تو بہت پرانی ہے۔ سندھی ثقافت کے نام پر تو یہ ناٹک پہلی بار ہوا مگر پنجابی اور پختون ثقافت کے نام پر تو اس طرح کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ اس تقریب کی خبر تو نمایاں طور پر شائع ہوئی مگر ایک چھوٹی سی خبر کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ خبر یہ تھی کہ اس تقریب سے واپس جانے والے انجیئنروں کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا...کیونکہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔ جب بھوکے ننگے روم کے شہریوں نے نیرو کے خلاف بغاوت کی تو اس تہذیب و ثقافت کا بھی جنازہ نکل گیا۔ نیرو کو معلوم تھا کہ لوگ اس کی تکا بوٹی کر دیں گے اس لئے اس نے محض 31 سال کی عمر میں خودکشی کر لی۔

جس طرح ایک شہزادے نے ثقافت کے نام پر لوگوں کی غربت کا مذاق اُڑایا، ویسے ہی ایک اور شہزادے نے اسپورٹس فیسٹیول رچایا اور سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز پایا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کرانے والوں کو کیا معلوم کہ ان کا نام تاریخ کی کتابوں میں بھی لکھا جا چکا۔شنید ہے کہ اب بسنت منانے کی تیاریاں بھی پورے زور شور سے جاری ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ثقافت کے نام پر میرے ہم وطنوں کی غربت کا مذاق اُڑایا جائے گا۔ نہ جانے کیوں ایسے میلوں ٹھیلوں اور فیسٹیولزکو منعقد ہوتا دیکھ کر مجھے سندھ اور پنجاب کے شہزادوں پر ترس آتا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ '

Water Crisis in Pakistan


پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں پاکستان کے پاس صرف 30 دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، جب کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حامل ایسے ممالک کے لیے 100 دن کی سفارش کی گئی ہے۔ پاکستان کو دنیا کے ان ممالک کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے جو سب سے زیادہ پانی کی کمی کے شکار ہیں، پانی کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں توانائی کا بحران ہے، توانائی کا بحران نہ صرف معیشت بلکہ پاکستانیوں کے مفادات کو بھی نقصان دے رہا ہے۔ اکثر شہری اس کے لیے احتجاج کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں سے اس کا حل مانگتے ہیں اور یہ احتجاج اکثر پرتشدد واقعات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آبادی کے بے پناہ اضافے سے ملکی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے، پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے، دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو رہا ہے۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے اعداد و شمار کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1506.79 اور منگلا ڈیم میں 1192.3 فٹ ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 2 لاکھ 20 ہزار کیوسک اور اخراج ایک لاکھ 96 ہزار 600 کیوسک جب کہ منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 46 ہزار 389 کیوسک اور اخراج 15 ہزار کیوسک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام صوبوں کو کوٹہ اور طلب کے عین مطابق پانی فراہم کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب کی طلب اور کوٹہ کے مطابق ایک لاکھ 34 ہزار 300 ، سندھ کو 195000، بلوچستان کو 14000 جب کہ خیبر پختونخوا کو 3600 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ دریائے سندھ سے کراچی کو جس کی آبادی پونے دو کروڑ کے قریب ہے کو مزید 7 کروڑ گیلن پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہے لیکن فی الوقت کراچی کے لیے منظور شدہ 1200 کیوسک میں سے تقریباً 70 ایم جی ڈی پانی کم دیا جا رہا ہے اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ دسمبر 2013 تک کراچی میں پانی صارفین کی تعداد صرف 3 لاکھ ہے یعنی اس وقت پانی استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد پانی بل ادا نہیں کرتی ہے۔

جب کہ دوسری طرف پانی چوری کرکے فروخت کرنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلدیہ، شیرشاہ، کورنگی، پاک کالونی، قصبہ، کنٹونمنٹ بورڈ، پی اے ایف، ماڑی پور، مسروربیس اور دیگر اداروں کے انتظامی علاقوں میں قائم غیر قانونی ہائیڈرنٹس واٹر بورڈ کی بلک فراہمی آب کی لائنوں سے ناجائز کنکشن حاصل کرکے پانی چوری کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کے سبب واٹر بورڈ شہریوں کو منصفانہ و مساویانہ طور پر پانی فراہم کرنے سے قاصر ہے، کراچی کے بہت سے علاقے واٹر بورڈ کی ٹیم کے لیے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں جہاں ٹیم کنکشن منقطع کرنے نہیں جاسکتی، انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ ان غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام سے ایک طرف تو واٹر بورڈ کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف واٹر بورڈ کا سسٹم تباہ ہونے کا خدشہ ہے، یہ عناصر روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، یہ نہایت حساس نوعیت کا معاملہ بن گیا ہے، غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی نشاندہی پر ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے، ان کے کنکشنز منقطع کیے جاتے ہیں، سازو سامان ضبط کیا جاتا ہے اور ایف آئی آر تک بھی درج کرائی جاتی ہے لیکن چند روز بعد یہ ہائیڈرنٹس دوبارہ کھل جاتے ہیں جب کہ پولیس انھیں دوبارہ قائم ہونے سے نہیں روک پاتی، حالات کا تقاضہ ہے کہ ایک بھرپور اور منظم آپریشن کرکے ان کا جڑ سے خاتمہ کردیا جائے۔

برطانوی اخبارگارجین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں آبی وسائل پر قبضے کی خطرناک علاقائی دوڑ جاری ہے، ہمالیائی خطے میں پاکستان سمیت 4 ایشیائی ممالک 4 سو سے زائد ڈیمز بنائیں گے، ان میں بھارت 292، چین 100، نیپال13 اور پاکستان 9 سے زائد ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بنا رہے ہیں، دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے میں ان ڈیموں کی تعمیر خطے اور ماحول کے لیے تباہی لاسکتی ہے۔ اگر 4 سو سے زائد ڈیم مکمل ہوگئے تو ان سے ایک لاکھ 60ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی جو برطانوی استعمال سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے گلیشیر کے بہاؤ میں 20 فیصد کمی ہوجائے گی۔ اس سے نہ صرف دریاؤں میں پانی کی کمی ہوگی بلکہ خطے میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ بھارت اور چین اس وادی کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔

آیندہ 20 برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک خطہ بن جائے گا جب کہ چین دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پانی پر کنٹرول حاصل کرلے گا۔ چین اور بھارت کے تنازعات زمین سے پانی پر منتقل ہو رہے ہیں جب کہ بھارتی ڈیم منصوبوں سے بنگلہ دیش بھی خوفزدہ ہے کیونکہ دریاؤں کے پانی میں 10 فیصد کمی اسے بنجر بنادے گی۔ چین اور بھارت نے گزشتہ 30 سالوں میں ڈیمز کی تعمیر کی خاطر کروڑوں افراد کو بے گھر کیا ہے لیکن سرکاری سطح پر ان کے اعداد و شمار نہیں دیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ڈیم کی تعمیر سے دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو 20 ہزار افراد کو متاثر کرتی ہے، اس سے زیر زمین پانی میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلیشیرز سکڑنے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پانی کی قلت نہیں ہوگی، کوہ ہمالیہ کی چٹانوں کے گلیشیرز بڑی تعداد میں سکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا اور رواں صدی میں لوگوں کی پانی کی ضروریات نہیں پوری ہوگی۔ محققین کا کہنا ہے کہ 2100 میں ہمالیہ کے دو بڑے گلیشیرز میں نصف حد تک کمی واقع ہوگی۔

اگرچہ یہ حوصلہ افزا خبر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سارے عوامل نے مل کر کرہ ارض کو جانداروں کے لیے خطرناک بنادیا ہے۔ اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ انسان نے اگر ان معاملات پر توجہ نہ دی تو پھر ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ پاکستان، بھارت اور چین ہمالیہ اور قراقرم کے سلسلے میں واقعے ہیں۔ یہ دنیا کے بلند ترین اور طویل ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔ یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس خطے کو عطا کیا گیا ہے۔ اس سارے وسیع و عریض خطے میں بہنے والے تمام دریا، ندی نالے، چشمے اور جھرنے ان ہی پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، چین، نیپال، بنگلہ دیش، افغانستان یہاں تک کہ برما کے حکمرانوں کو ایسی پالیسی تیار کرنی چاہیے جس سے ہمالیائی سلسلے سے بھرپور فائدہ بھی لیا جاسکے اور اس سے ماحولیاتی انتشار بھی پیدا نہ ہو۔ یہی انسانی ذہانت کا کمال ہوگا۔

شبیر احمد ارمان   

Water Crisis in Pakistan

Enhanced by Zemanta

بجلی کے نرخوں میں اضافہ



ایک خبر کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ای سی سی نے نیپرا کو بجلی کے نرخ مقرر کرنے کا اختیار دیدیا ہے ۔ جنوری میں ہی بجلی کے نرخوں میں ایک روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا تھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بجلی کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق حکومت لائن لاسز کو کم سے کم کرکے اپنے نقصان کو گھٹا سکتی ہے۔ لیکن اس طرف توجہ دینے کے بجائے سارا زور اس بات پر صرف کردیا جاتا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کردیا جائے۔

یہ بات درست ہے کہ تیل پر مبنی بجلی کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان جوکہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، پاکستان کو ملنے والے دریاؤں پر بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ڈیمز تعمیر کیے چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اول پاکستان کو زرعی مقاصد کے لیے ملنے والا پانی بھی کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کے بعد میں ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ بجلی کی پیداوار بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب کی وادی میں بھی کئی ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس سے بھارت میں سستی بجلی وافر مقدار میں پیدا کی جائے گی جب کہ پاکستان نے 1974 میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سستی بجلی کے لیے ڈیمز کی تعمیر کا سلسلہ ترک کردیا۔

بعد میں 1994 میں مغربی طاقتوں کے مشورے سے بجلی کے انتہائی مہنگے منصوبے شروع کیے جس میں پہلے تیل استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں کچھ پیداواری یونٹوں کو گیس میں تبدیل کیا گیا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مجموعی طور پر بجلی کی پیداواری لاگت پھر بھی زیادہ رہی۔ دنیا بھر میں سستا ترین بجلی کا اہم ترین ذریعہ پن بجلی کا حصول ہے۔ پاکستان کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ پانی سے بجلی کی پیداوار ایک لاکھ بیس ہزار میگاواٹ سے زائد حاصل کی جاسکتی ہے لیکن کل 6500 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ جو کل پیداوار کا 33 فیصد ہے، باقی 67 فیصد بجلی انتہائی مہنگے ذرایع سے حاصل کی جا رہی ہے۔

بجلی کی پیداوار کا ایک اور سستا ذریعہ کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار ہے۔ دنیا بھر میں اس ذریعے سے بجلی 41 فیصد پیدا کی جاتی ہے۔ جب کہ پاکستان نے اس سستے ذریعے سے اب تک بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔ امریکا پاکستان کو کوئلے کے ذرایع سے فائدہ اٹھانے کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ جب کہ خود امریکا میں کوئلے کے ذریعے سب سے زیادہ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کوئلے کے ذریعے اپنی بجلی کی پیداوار کا 43 فیصد حاصل کرتا ہے جب کہ پاکستان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے سبب فضائی آلودگی پیدا ہوگی۔ حالانکہ موجودہ دور میں ایسی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں جن کی وجہ سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں کوئلے کے ذریعے بجلی کی پیداوار کے لیے تھرکول پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا ہے جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے کوئلے سے بجلی کی پیداوار کے لیے جامشورو پاور پلانٹ کو 90 کروڑ ڈالر کی فراہمی کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے جس سے 600 یونٹ کے 2 پیداواری یونٹ قائم کیے جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک توانائی منصوبوں کے لیے 3 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔

اس منصوبے کی تکمیل سے 50 کروڑ ڈالر سالانہ تیل کی بچت ہوگی۔ جب کہ اس منصوبے میں درآمدی کوئلہ اور تھر کا کوئلہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ حکومت کو اس بات کی کوشش کرنا چاہیے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 3 ارب ڈالر کی فراہمی کا رخ پن بجلی کے منصوبوں کی طرف موڑا جائے۔ ماضی میں کئی ڈیمز کی تعمیر اسی لیے شروع نہ ہوسکی کہ مطلوبہ فنڈز کے لیے قرض فراہم کرنے والے ادارے اس بات پر رضامند نہیں تھے کہ طویل المیعاد منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ اب بتایا جا رہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کے حصول کا عمل جاری ہے حالانکہ اس سے قبل اس ڈیم کے بارے میں یہی بتایا جاتا تھا کہ فزیبلٹی رپورٹ تیار ہو چکی ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ اتنے عرصے سے یہ منصوبہ زیر غور تھا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول کا عمل اب شروع کیا گیا ہے۔ اس طرح کے تاخیری حربوں سے جہاں طویل المیعاد منصوبے مزید طوالت اختیار کر جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی ان منصوبوں کی تعمیری لاگت میں بھی مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تیل اور گیس کے علاوہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے سے زیادہ اہمیت پن بجلی کو دی جائے کیونکہ یہی سب سے سستا ترین ذریعہ ہے۔ ایسے منصوبے طویل المیعاد ہوتے ہیں لیکن جہاں فوری پیداوار کے لیے دیگر مہنگے ذرایع اختیار کیے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی پن بجلی کے منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے، پن بجلی کے بڑے اور طویل المعیاد منصوبوں کے علاوہ کم سرمایہ سے تیار ہونے والے اور کم مدت میں تیار ہونے والے پن بجلی گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جولائی 2013 میں پاکستان کے پہلے پن بجلی گھر کا افتتاح کیا گیا تھا۔ دریائے جہلم پر نجی شعبے کی طرف سے یہ پہلا منصوبہ لگایا گیا تھا۔

اس قسم کے منصوبے نیشنل گرڈ اسٹیشن کے قریب لگائے جائیں چونکہ بجلی کی پیداوار کے بعد گرڈ اسٹیشن تک پہنچانے میں کافی سرمایہ لگ جاتا ہے اس لیے بعض سرمایہ کار رقوم لگانے سے احتراز کرتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی نہروں پر ٹربائن لگا کر بھی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک سردست سندھ اور پنجاب کی نہروں میں ٹربائن لگا کر ایک ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ادھر صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔ کچھ منصوبوں کا افتتاح بھی کردیا ہے۔ اس کے علاوہ آیندہ مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق آیندہ چند سال میں ان منصوبوں کی تکمیل سے 3200 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ حکومت پنجاب نے بھی پن بجلی کے کئی منصوبے شروع کیے ہوئے ہیں۔ تونسہ پن بجلی منصوبے کے بارے میں ایک بریفنگ میں بتایا گیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے ایک سو بیس میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ پاکستانی عوام اور صنعتیں مہنگی بجلی کے متحمل نہیں ہوسکتے اور حکومت کی معاشی اور مالیاتی کمزوری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جلد از جلد مہنگی بجلی کی پیداوار سے ہٹ کر سستی بجلی پیدا کی جائے اور ایسے ہی منصوبے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پر بجلی پیدا کریں یا بڑے پیمانے پر بجلی حاصل ہوسکتی ہو اس پر بھرپور توجہ دی جائے اور ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ اور دیگر تیکنیکی سہولیات کے حصول کو اولین اہمیت دی جائے، ان منصوبوں کو شروع کرنے کے بعد ان کی تکمیل کی طرف بھرپور توجہ دی جائے۔ آئی ایم ایف کا یہ کہنا درست ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں یا پھر بجلی کی پیداواری لاگت کو گھٹایا جائے۔

گزشتہ سال جولائی میں حکومت نے 502 ارب کے گردشی قرضے اتارے ہیں جن میں پھر دوبارہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اب تک پھر گردشی قرضے 190 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ حال ہی میں ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے، جس سے امید کی جاتی ہے کہ نجی شراکت داروں کو پن بجلی کے منصوبوں کی طرف راغب کیا جا سکے گا۔ بجلی کے نرخ بڑھا دینا دراصل صارفین کے ساتھ ظلم کے علاوہ صنعتوں کے دروازے بند کردینے کے مترادف ہے۔ نیز ملکی سرمایہ کاری میں بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے سب سے پہلے سستی بجلی کی فراہمی کا بندوبست کیا۔ جس سے ان ملکوں کی پیداوار عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت پیدا ہوئی۔ پاکستانی صنعتکاروں کا المیہ یہ ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کے باعث پیداواری لاگت بہت بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت نہیں رہتی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی ترقی برآمدات میں اضافے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے بجائے سستی بجلی پیدا کی جائے اور ارزاں نرخوں پر عوام اور صنعت کو بجلی فراہم کی جائے۔

یم آئی خلیل 

Enhanced by Zemanta

خود کفالت اور کشکول شکنی کی ضرورت


وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل نے ملکی ترقی کو تمام صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمے داری قرار دیتے ہوئے پاور سیکٹر کی نجکاری کی پالیسی جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔ بجلی پیدا اور تقسیم کرنیوالی13کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ تقسیم کارکمپنیوں کی مرحلہ وار نجکاری کا فوری آغاز کردیا جائے گا۔ کونسل نے تھرکول پاور پراجیکٹ کے لیے وفاق کی خودمختار ضمانت کی منظوری دیدی ۔ ملکی معیشت کے استحکام کے عمل کی نگرانی اور قومی سطح پر ترقی و خوشحالی کے اہم منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس اور اس کے فیصلے خوش آیند ہیں، کونسل کا در حقیقت احیا ضروری ہے کیونکہ صوبوں کے مابین عدم اتفاق، اختلافات، بدگمانی ، نامناسب معاشی ترجیحات،اسکیموں پر عمل درآمد اور مالیاتی وسائل کی تقسیم سے متعلق شکایتوں اورغلط فہمیوں کے ازالے کا ہر امکان موجود ہوتا ہے، ماضی میں آمریت سے ہٹ کر جمہوری دور میں بھی مشرکہ مفادات کونسل کو نظر انداز کرکے کاروبار مملکت چلانے کی بھونڈی کوششیں کی گئیں جن کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ادارہ جاتی ٹوٹ پھوٹ ،بد انتظامی ، بے محابہ کرپشن،عدم جوابدہی ، نوکرشاہانہ رعونت اور افسر شاہی کی مجرمانہ غفلت کے باعث توانائی سمیت لاتعداد بحران مگر مچھ کی طرح منہ کھولے معاشی استحکام کو ہڑپ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔

شنید ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نیپرا کی کارکردگی پر سخت عدم اطمینان اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ادارے میں انتظامی اور مالیاتی بے قاعدگیوں کا نوٹس لیا۔ نیپرا میں صوبوں کی نمایندگی موثر بنانے کی ہدایت کی ۔وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ملکی ترقی تمام صوبوں اور وفاق کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔ان کا یہ اعتراف کہ سابق ادوار میں غیرضروری بھرتیوں اور بدعنوانیوں کے نتیجے میں سرکاری اداروں میں بدانتظامی انتہا کو پہنچ گئی، اب ملک کے بہترین مفاد میں ان سرکاری اداروں کی نجکاری ہی واحد حل ہے خاصا چشم کشا ہے ۔ وقت کی کمی کے باعث مردم شماری کرانے یا نہ کرانے کے معاملے پر مشاورت کا نہ ہونا افسوس ناک ہے ،مردم شماری میں التوا ملکی مفاد میں نہیں، اقتصادی ترقی کے لیے مردم شماری ،خانہ شماری،اور افرادی قوت کے درست اعداد وشمارکی دستیابی قومی ضرورت ہے اس لیے آیندہ اجلاس میں اس معاملہ پر مثبت اتفاق رائے پیدا کیا جائے ۔ تاہم مشترکہ مفادات کونسل نے پاکستان انجنیئرنگ کونسل کے ترمیمی بل ، آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کے تحت تیل و گیس کے منصوبہ جات، پی پی ایل اور سوئی سدرن گیس جیسے اداروں کے 20فیصد شیئرز حکومت بلوچستان کے لیے خریداری، صوبوں کے ذمے واجب الادا بجلی کے واجبات کی ادائیگی کے لیے طریقہ کار ، پی ٹی سی ایل کے اثاثہ جات (بشمول پراپرٹی) کی اس کی خریداروں کو منتقلی ، توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں ’جنکوز‘ اور تقسیم کار کمپنیوں ’ڈسکوز‘ کی نجکاری سے متعلق2011 کی پالیسی جاری رکھنے ، تھرکول منصوبے کے لیے ’ساورن گارنٹی‘ کے اجرأ اور قومی توانائی پالیسی 2013-18 کی منظوری سمیت اہم فیصلے کر کے معاشی ترقی میں تسلسل کی یقین دہانی کرا دی ۔

اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ صوبائی وزرائے خزانہ اور مشیر خزانہ نے شرکت کی۔ تھرکول پاور پراجیکٹ کے لیے وفاق کی ضمانت کی منظوری دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تھرکول پاور پراجیکٹ ایک اہم قومی منصوبہ ہے، اس کی تکمیل سے سستے داموں بجلی کی ضرورت پوری ہوگی ۔دریں اثنا وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ بجلی چور قومی مجرم ہیں ان کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ بجلی چوروں کوآئین و قانون کے مطابق سزائیں دیںگے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے مختصر عرصہ میں آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے جو قرضہ حاصل کیا ہے اس کو بجلی کی پیداوار و دیگر اداروں کی حالت کو بہتر بنانے پر خرچ کیا ہے جس سے ہماری ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے ۔ بہر حال غیر ملکی مالیاتی اداروں، بینکوں اور ملکی بینکوں سے لیے گئے اربوں قرضے کے بوجھ تلی دبی معیشت کی قومی وسائل سے دائمی بہتری کا معاشی ماڈل پیش ہونا چاہیے، ایشین ٹائیگر نہ سہی پاکستان کم از کم خود انحصاری کی طرف جاتا نظر آئے تو بھی باعث اطمینان ہوگا ۔خود کفالت اور کشکول شکنی کی حقیقت حکمرانوں کو مد نظر رکھنی چاہیے ۔ ورنہ قرض کی مے پینے کی مالیاتی عادت کبھی نہیں چھوٹ سکتی ۔دوسری طرف اختیارات کے غلط استعمال، وفاقی و صوبائی اداروں میں تناؤ، رنجش، فرض شناسی کے فقدان اور فیصلوں کے بحران یا غیر دانشمندانہ اقدامات سے پیداشدہ افراتفری اور بدانتظامی کا سدباب بھی ہونا ضروری ہے جس کے تماشے آئے دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتے نظر آتے ہیں۔کرائے کا بجلی گھرلانے والی ترک کمپنی نے بین الاقوامی عدالت میںپاکستان کے خلاف 2.1 ارب ڈالرہرجانے کا دعویٰ دائرکر دیا ہے۔

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے زیربحث آنے والے نکات پر تمام دیگر وزرائے اعلیٰ سے زیادہ اعتراضات اٹھائے جب کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک غیر متوقع طور پر شہباز شریف کے بعد سب سے کم اعتراض کرنے والے وزیراعلیٰ ثابت ہوئے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی مزاحمت کے باعث راولپنڈی، اسلام آباد کے لیے تجویز کی گئی نئی واٹر سپلائی اسکیم کی منظوری موخر کردی گئی،وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے لاکھڑاکول پاور جنریشن کمپنی کی نجکاری پر بھی شدید اعتراض کیا ، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا مطالبہ تھا کہ18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو آغاز حقوق بلوچستان کے تحت پی پی ایل اور سوئی سدرن گیس کمپنی جیسے انرجی سے متعلق اداروں کے20فیصد کے بجائے50فیصد تک شیئرز خریدنے کا اختیار دیا جائے جس پر وزیراعظم نوازشریف کو بالٓاخر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو ہدایت کرنا پڑی کہ وہ ڈاکٹر مالک سے اس بارے تفصیلی میٹنگ کریں جب کہ وزیر مملکت برائے پاور بجلی عابد شیر علی کی جانب سے صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ سندھ کے بعض سیاسی رہنماؤں اور اراکین پارلیمنٹ کے بجلی چوری میں ملوث ہونے یا چوروں کی پشت پناہی کے الزامات کے حوالے سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم شاہ غیر متوقع طور پر خاموش رہے.

ادھر پشاور ہائیکورٹ نے فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق نیپراکا پورے ملک کے لیے بجلی کے یکساں نرخ مقرر کرنے کا اختیار اور پختونخوا کے صارفین سے تھرمل بجلی کے نرخ وصول کرنے کے اقدام کو غیر قانونی اور غیرآئینی قرار دیا ہے جب کہ یوٹیلٹی اسٹورز کو کمپیوٹرائز کرنے کے پروگرام کی خریداری کے معاملے پر وفاقی وزیرصنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی اور ایم ڈی یوٹیلٹی اسٹورز مرتضیٰ خاقان کے درمیان چپقلش کی اطلاع ہے ،کہا جاتا ہے کہ وفاقی وزیر انٹرپرائز ریسورس پلاننگ (ای آر پی)سسٹم بیرون ملک سے لینے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ ایم ڈی نے سسٹم بیرون ملک سے لینے سے انکارکر دیا ۔ یہ چند مثالیں ہیں لہٰذا اقتصادی شفافیت کے لیے مربوط معاشی میکنزم وقت کا تقاضہ ہے۔ کسی لابی ،آئل مافیا،لینڈ مافیا،ڈرگ مافیا،گن مافیا اور ان کے کارندوں کو ملکی معیشت کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے اور یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ کرپشن، بد انتظامی ، اقربہ پروری اور دوست نوازی سے پاک معیشت کواپنی شرح نمو دکھانے کا موقع مل سکے۔

ایکسپریسس اردو