Showing posts with label Urdu Columns. Show all posts

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ ...تھی


کتابیں‘ جنہوں نے زندگی پر اثر ڈالا.......


اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے........


معروف یہودی مورخ آئزک ڈوشر کہتے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہودی شوق سے نہیں آئے بلکہ زمانی جبر انھیں فلسطین کھینچ کے لایا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک یہودی نے جان بچانے کے لیے جلتی عمارت سے چھلانگ لگائی اور اتفاقاً نیچے کھڑے فلسطینی پہ جا گرا۔ یوں وہ فلسطینی بھی اچھا خاصا زخمی ہوگیا۔ایسے حالات میں آپ چھلانگ لگانے والے کو کتنا قصور وار ٹھہرائیں گے؟

آئزک ڈوشر کی دلیل میں خاصا وزن ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ، جب
 یورپ کی جلتی ہوئی عمارت سے جان بچانے کے لیے یہودی نے نیچے چھلانگ لگائی تو جو فلسطینی اس کے بوجھ تلے دب کر ہڈیاں تڑوا بیٹھا اس سے معذرت کرنے یا مرہم پٹی کے بجائے اسے مارنا کیوں شروع کردیا اور پھر اس گرنے والے یہودی کی چوتھی نسل اس فلسطینی کی چوتھی نسل کو کیوں مار رہی ہے ؟
احساسِ جرم بھلے انفرادی ہو کہ اجتماعی اس سے دو طرح سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا تو آپ یہ اعتراف کرکے دل ہلکا کرلیں کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی اور اب میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک احساسِ جرم کو دبانے کے لیے اس پر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں جرم کا بوجھ رکھتے چلے جائیں اور آخر میں ایسے نفسیاتی مریض بن جائیں جو اس احساس سے ہی عاری ہو کہ کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں۔

پہلا گروہ جس نے نازی جرائم میں شرکت یا خاموش کردار ادا کرنے کا کھلا اقبال کرکے ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرلی، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن قوم تھی۔مغربی جرمنی نے نہ صرف نازی نظریے کو کالعدم قرار دیا بلکہ ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کو ان کی املاک لوٹائیں اور متاثرین کو اسرائیلی ریاست کی معرفت لگ بھگ پانچ ارب ڈالر معاوضہ بھی ادا کیا۔مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ نازیوں کا نشانہ بننے والے یہودیوں نے کنسنٹریشن کیمپوں سے چھوٹنے کے تین برس کے اندر ہی اپنی مظلومیت خود غرضی اور ظلم کے ہاتھ فروخت کردی اور فلسطینیوں کو اپنی مجبوریاں سمجھانے کے بجائے انہی کے سینے پرچڑھ بیٹھے۔اپنی بحالی کی بنیاد فلسطینیوں کی بے گھری پر رکھی اور دور دور تک احساسِ ندامت بھی نہیں۔

صیہونی اسرائیلی کہتے ہیں کہ انھیں احساسِ جرم کیوں ستائے۔وہ تو اپنے آبا کی زمین پر دوبارہ آن بسے ہیں۔ یہ فلسطینی تھے جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سال پہلے یہودیوں کی چھوڑی زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ہم نے تو بس انیس سو اڑتالیس میں قبضہ چھڑایا ہے۔کیا اپنی زمین واپس لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟
اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مورخ آئزک ڈوشر کا نظریہِ مجبوری مانوں یا صیہونیت کا نظریہِ سینہ زوری۔اگر بیک وقت دونوں نظریے بھی تسلیم کرلوں تب بھی دونوں نظریات میں معذرت یا افہام و تفہیم کی روح کا شائبہ تک نہیں۔کیا یہ کسی مبنی بر حق قوم کی ثابت قدمی ہے یا پھر احساسِ جرم کو دبانے کے لیے مسلسل کوشاں قوم کی اکڑ۔مجھے تو پیروں کے نشانات ثابت قدمی سے زیادہ احساسِ جرم کی پیداوار اکڑ کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔

کیا یہ احساسِ جرم سے نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کہ ہر اسرائیلی بچے کو ہوش سنبھالتے ہی گھر اور اسکول میں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔فلسطینی پیدائشی قاتل ہیں اور ان کی یہودیوں سے نفرت بلا جواز ہے۔فلسطینی ہماری طرح کے انسان بھی نہیں۔اب جب ایک بچہ اس طرح کی باتیں مسلسل سنتا سنتا جوان ہوگا تو اس کا رویہ فلسطینوں سے کس طرح کا ہوگا۔یہ جاننے کے لیے ارسطو ہونا بالکل ضروری نہیں۔
ایک بوڑھے اسرائیلی کو تو خیر جانے دیجئے۔نفرت کی گھٹی پر پلنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے اس کی ایک مثال خوبرو ایلت شاکید ہے جو اسرائیل بننے کے اٹھائیس برس بعد پیدا ہوئی۔ یونیورسٹی گریجویٹ اور کمپیوٹر انجینئر ہے۔اس وقت نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہابیت ہایہودی(یہودی مادرِ وطن)کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ (کنیسٹ)کی رکن ہے۔گذشتہ ہفتے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ محترمہ رکنِ پارلیمان کیا لکھتی ہیں۔

’’ ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو جو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشتگرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کردیا جائے۔اور ان کے گھر بھی مسمار کردیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔
(مذکورہ تحریر نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نئی نسل کے جذبات سے زیادہ ہٹلر کی سوانح حیات ’’ مین کیمپف ’’ کا کوئی اقتباس لگتا ہے)۔
ایلت شاکید کی اس تحریر کو دو گھنٹے کے اندر فیس بک پر ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے شئر اور پانچ ہزار سے زائد نے لائیک کیا۔سوچئے کہ ایک دن کنیسٹ کی یہ رکن ایلت شاکید وزیرِاعظم بن جائے تو پھر؟؟؟؟
چلیے مان لیا کہ ایلت کی تحریر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے کیونکہ یہ اس دن لکھی گئی جب تین اغوا شدہ اسرائیلی نو عمروں کی لاشیں غربِ اردن کے کسی ویرانے سے ملیں۔ لیکن اس سے اگلے روز ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے محمد خدیر کی جلی ہوئی لاش ملی۔ تب کیا کسی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کسی اسرائیلی نوجوان نے اظہارِ افسوس کیا؟ اگر کیا بھی ہوگا تو اسے اتنے لوگوں نے شئیر نہیں کیا ہوگا جتنی محمد خدیر کی وہ تصویر شئیر ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا ’’نوعمر فلسطینی دہشت گرد‘‘۔
اور جب اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے محمد خدیر کے امریکا سے چھٹیوں پر آئے ہوئے نو عمر کزن طارق ابو خدیر کو مار مار کے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا کہ ہونٹ سوجھ کے باہر کی طرف لٹک پڑے تو اسرائیلی ٹویٹر پر جو تصویر سب سے زیادہ شئیر ہوئی اس میں ایک طرف طارق ابو خدیر کا سوجھا ہوا چہرہ اور ساتھ ہی ایک خنزیر کی تھوتھنی بھی دکھائی گئی۔تین اسرائیلی نو عمروں کے قتل میں تو نیتن یاہو حکومت کو فوراً حماس کا ہاتھ نظر آگیا اور اس کے نتیجے میں غزہ کے لگ بھگ دو سو فلسطینی اب تک اپنی جانوں کی قیمت ادا کرچکے لیکن محمد خدیر کو زندہ جلانے کے شک میں جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے یہ اطمینان کیا جائے گا کہ کیا واقعی یہی قاتل ہیں؟ کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں انصاف و قانون کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں۔

اسرائیل تو ویسے بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے ہنگم و وحشی سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ مانا جاتا ہے۔ ایسی جمہوریت جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عربوں کو بھی ووٹ دینے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تل ابیب میں کوئی اسرائیلی یہودی کسی اسرائیلی عرب کو اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دے دے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت یہودیوں آبادکار بستیوں کی طرز پر اسرائیلی عربوں کو بھی بستیاں بنانے کی اجازت دے یا پھر انھیں آسان شرائط پر مکان بنانے کے لیے قرضے دیتی پھرے۔
اسرائیل جو غربِ اردن میں انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد یہودی بسا چکا ہے۔اس جمہوریت میں ایک بھی نئی عرب بستی بسانے کی اجازت نہیں۔اور اس جمہوریت کے زیرِ تسلط مقبوضہ فلسطینوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ کی انہونی مثال ہے۔
برطانوی زیرِ انتداب فلسطین میں ارگون جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ مینہم بیگن اسرائیل میں لیخود پارٹی بنا کر یا صابرہ اور شتیلا کے قتلِ عام کا ذمے دار شیرون اگر وزیرِ اعظم بن جائے تو یہ عین جمہوری عمل ہے۔لیکن حماس اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی میں برسرِ اقتدار آجائے تو یہ دہشت گردی ہے۔

غزہ پر اسرائیل اس لیے مسلسل ایک ہفتے سے پوری فوجی طاقت استعمال کررہا ہے کیونکہ حماس کے شرارتی لونڈے بچارے اسرائیلیوں پر ایک ہزار سے زائد راکٹ برسا چکے ہیں۔مگر یہ کیسے اللہ مارے راکٹ ہیں جن سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا۔ ان ’’ریکٹوں’’ سے تو اسرائیل کے وہ بم اچھے جو پھٹتے ہیں تو پورا پورا خاندان اڑا لے جاتے ہیں۔البتہ حماس کی راکٹ باری کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ خطرے کے اسرائیلی سائرنوں پر بیٹھی گرد صاف ہوگئی۔ اسرائیل کی نئی پود کے لیے تو اتنی فلسطینی جارحیت بھی بہت ہے۔ایک نو عمر نے ٹویٹر پر لکھا

’’اے عربو تمہارے کرتوتوں کے نتیجے میں صبح ہی صبح بجنے والے سائرنوں سے میری نیند حرام ہوگئی ہے۔خدا تم سب کو غارت کرے‘‘۔
تو رات میں لکھا ہے’’ آنکھ کے بدلے آنکھ ’’۔مگر جدید اسرائیل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ’’ ایک پلک کے بدلے دوسرے کی کم از کم دونوں آنکھیں اور ہوسکے تو چہرہ بھی‘‘۔۔

نوم چومسکی نے ایک فلسطینی کو یوں نقل کیا ہے۔
’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔

انسانی ساختہ آفات اور بھوک کا سبب کیا ہے؟........


جدید دنیا کی ترقی اور خوشحالی کے ترانے تو بہت گائے جاتے ہیں مگر اس دنیا کا معاشی عدم توازن دل دہلا دینے والا ہے۔
دنیا کے وسائل کا 80 فیصد صرف 20 فیصد آبادی کے پاس ہے، اور دنیا کی 80 فیصد آبادی صرف 20 فیصد وسائل پر قناعت کررہی ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب ہے اور اسی 7 ارب آبادی میں ایک ارب 34 کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی سوا ڈالر سے کم ہے۔ مزید ڈھائی سے تین ارب لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی انہیں ایک گھٹی ہوئی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
بھوک اور زراعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق سن 2012 میں 87 کروڑ افراد بھوک یا انتہائی شدید غذائی قلت کا شکار تھے۔ ان میں سے 85 کروڑ افراد کا تعلق ترقی پذیر دنیا سے تھا۔
لیکن ’’ترقی یافتہ‘‘ کہلانے والی دنیا میں بھی ایک کروڑ 60 لاکھ افراد بھوک زدہ یا فاقہ زدہ تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھوک زدہ افراد کی تعداد گھٹ نہیں رہی بلکہ بڑھ رہی ہے۔ مثلاً 2006ء میں ترقی یافتہ دنیا میں صرف ایک کروڑ 30 لاکھ لوگ فاقہ زدہ تھے، مگر 2012ء میں ان کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 60 لاکھ ہوگئی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کی اس غربت اور بھوک کا سبب کیا ہے؟ مغرب کے ماہرین خود کہہ رہے ہیں کہ اس صورت حال کا بنیادی سبب دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام ہیں، جنگیں ہیں، علاقائی تنازعات اور موسمیاتی تغیرات ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں مغرب کی عقل پرستی اور اس کی استعماری روش نے پیدا کی ہیں اور یہ تمام آفات انسانی ساختہ ہیں

شاہنواز فاروقی

انقلاب سو روپے فی کلو.......


نورِ حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون

ڈومینین کا گورنر جنرلی نظام ہو کہ سول ملٹری ٹیکنو کریٹک ماڈل کہ سیدھی سیدھی فوجی آمریت کہ سول ملٹری مشترکہ ڈکٹیٹر شپ کہ فوجی جمہوریت کہ عوامی جمہوریت کہ گائڈڈ ڈیموکریسی کہ اسلامک ملٹری ماڈل کہ خالص اسلامی جمہوریت کہ اسلامی سوشلزم کہ سعودی نیم شرعی ماڈل کہ ویسٹ منسٹر پارلیمانی نظام۔ ہم ہر قسم کے نئے، پرانے، سیکنڈ ہینڈ، تجرباتی، تصوراتی، آدھے، پورے، کچے، پکے، پختہ، نیم پختہ، دم پخت، کنڈیشنڈ، ری کنڈیشنڈ، نظام ہائے زندگی و حکومت اور ہر قسم کا انقلاب ’’جہاں ہے جیسا ہے ’’ کی بنیاد پر مناسب قیمت پر خریدتے ہیں۔ سودا نقد و نقد اور جھٹ پٹ۔ صرف سنجیدہ فروخت کنندگان رجوع کریں۔ دلالوں اور کمیشن ایجنٹوں سے معذرت۔ جلنے والے کا منہ کالا۔
چھیاسٹھ برس سے آپ کے اعتماد و معیار کے ضامن۔
پاکستان اینڈ برادرز ، بالمقابل مزارِ قائد ، نیو ایم اے جناح روڈ ، کراچی پوسٹ کوڈ 014847
( نوٹ۔ ہماری کوئی برانچ نہیں )۔

کیا آپ میں سے کوئی اجمیر شریف گیا ہے۔ تو جوگئے ہیں وہ انھیں احوال بتا دیں جو نہیں گئے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے دربار میں دنیا کی دو سب سے بڑی دیگیں نصب ہیں۔ چھوٹی دیگ اکبر نے اور بڑی جہانگیر نے نذر کی تھی۔دونوں میں کل ملا کے ایک وقت میں سات ہزار دو سو کلو گرام کھانا پک سکتا ہے۔ ان دیگوں کی گہرائی اتنی ہے کہ خادم کو صفائی کے لیے سیڑھی لگا کے اترنا پڑتا ہے۔ ایسی دیگوں میں کھانا پکانے کے لیے بھی مخصوص مہارت والے کاریگر درکار ہیں۔ وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی شے کس مقدار میں کب اور کیوں پڑے گی اور پکنے کے بعد ذائقہ کیسا ہوگا۔ یہ دیگیں لنگرِ عام کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں اور پیسے والے عقیدت مند یا وہ اشرافیہ جس کی کوئی من مراد پوری ہوجائے ہے اپنی خوشی سے ان میں کھانا پکوا کے تقسیم کرسکتے ہیں۔
اگر ہم اس ملک کو درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی دیگ کی طرح کی کوئی چیز سمجھ لیں تو یہاں کے معاملات اور ذائقہ سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جائے گی۔اس دیگ میں بھی کسی بھی آنچ پر کچھ بھی پک سکتا ہے یا پکوایا جا سکتا ہے۔لنگر لینے والے سلامت۔لنگر بانٹنے والے بہت۔۔۔

ویسٹ منسٹر والے سیکنڈ ہینڈ جمہوریت بیچ گئے۔یہاں اس کی وہ ایسی تیسی ہوئی کہ مار مار کے بنیادی جمہوریت کے بونے میں تبدیل کردیا گیا۔جب جب اس بونے نے قد نکالنے کی کوشش کی تب تب چھتر پے چھتر پڑے۔
اسلام کہ جس کے معنی ہی مذہبِ امن ہے۔مگر یہ معنی بھی یہاں کسی سے ہضم نہ ہو پائے۔اس مفہوم کی قبا کا جوٹکڑا جس کے ہاتھ لگا لے اڑا بلکہ اسلام کو عفو ، درگزر ، وسیع القلبی ، عدم استحصالی ، صلہِ رحمی ، غریب نوازی ، علم کی کھوج ، عمل کی کسوٹی ، کل جہانوں کی رحمت ، نسلی ، سماجی ، اقتصادی پیغامِ مساوات سمجھنے اور اپنانے کے بجائے محض ایک تعزیراتی نظام جان کر ریاکاری و کاروباریت کے بے روح شو روم پر رکھ دیا گیا۔بلالی صلاصل توڑنے والے اس سیدھے سادے سے نظام کو بھانت بھانت کی ایسی وزنی وزنی تشریحی زنجیریں پہنا دی گئیں کہ ان کے بوجھ سے اپنا ہی اگلا قدم اٹھانا خود پے دوبھر ہوگیا۔

اب یہی کچھ ’’انقلاب’’ کے ساتھ بھی ہونے جا رہا ہے۔کسے پڑی کہ لمبے لمبے انقلابی بھاشن جھاڑنے سے پہلے کسی سے انقلاب کے معنی ہی پوچھ لے۔پوچھنے میں عزت گھٹتی ہے تو ڈکشنری میں ہی دیکھ لے۔اب تک دنیا میں انقلابِ مسیح سے انقلابِ ایران تک جتنے بھی سماج منقلب ہوئے ان ہی کا مطالعہ کرلے۔ مگر یہ سب کام محنت طلب ہیں اور آج کے سوشل میڈیائی ایئرکنڈیشنڈ انقلابی کو محنت سے بھلا کیا علاقہ ؟ چی گویرا کے بقول انقلاب کوئی سیب تو نہیں کہ خود ہی پک کے جھولی میں آن گرے گا ، اسے تو درخت سے توڑنا پڑتا ہے۔
کاسترو کے بقول انقلاب ماضی کے تہہ خانے میں بند مستقبل کو آزاد کرانے کا نام ہے۔لینن کے بقول انقلابی نظریے کے بغیر انقلابی تحریک ممکن ہی نہیں۔ماؤزے تنگ کے بقول انقلاب کسی ضیافت کے کھانے، فن ِ مضمون نگاری یا کشیدہ کاری کے ہنر میں طاق ہونے جیسی دلچسپ ، گداز ، نفیس شے نہیں بلکہ ایک طبقے کے ہاتھوں دوسرا طبقہ کلی طور پر الٹائے جانے کا نام ہے اور یہ کام سو فیصد شائستگی و نفاست کے ساتھ ہونا بہت مشکل ہے۔

پھر بھی اگر کسی روسو ، لینن ، ماؤ ، چی گویرا ، کاسترو یا خمینی کو انقلاب بطور غریب کی جورو ریڑھے پر بیٹھا بھیک مانگتے دیکھنے کی چاہ ہو ، اگر کسی کو اپنے کانوں سننا ہو کہ میں چاہوں تو چوبیس گھنٹے میں انقلاب آ سکتا ہے مگر میں نے اپنے کارکنوں کو ملکی مفاد میں بہت مشکل سے روکا ہوا ہے ، یا حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو چودہ اگست کو انقلاب آوے ہی آوے ، یا میں نے ناسازی ِ طبع کے سبب انقلاب دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیا ہے ، یا پولیس ایسے ہی تشدد کرتی رہی تو پھر ہم انقلاب کیسے لائیں گے، یا اگر تمہیں انقلاب نہیں چاہیے تو میں واپس جارہا ہوں یا میں انقلاب لائے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا یا ہمیں ہمارا انقلاب شرافت سے دے دو ورنہ ہم چھین لیں گے، یا ضلعی انتظامیہ کے انقلابی اقدامات سے رمضان میں اشیا کے نرخ کنٹرول کرلیے گئے، یا گوادر کاشغر کاریڈور کی تکمیل سے ملک میں انقلاب آجائے گا، یا حکومت بجلی کا بحران حل کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کررہی ہے یا سیکریٹری ایجوکیشن کان کھل کے سن لیں اگر اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ایڈہاک ٹیچرز کو مستقل نہ کیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا اور اس کے نتیجے میں خدانخواستہ انقلاب آگیا تو ہم ذمے دار نہ ہوں گے، یا ذرا تمیز سے بات کیجیے آپ کسی للو پنجو سے نہیں اصغر انقلابی سے مخاطب ہیں ، یا اظفر تیرے خون سے انقلاب آئے گا، یا حکیم قابل پسوڑی کی صرف ایک گولی گرم دودھ کے ساتھ استعمال کریں اور ایک رات میں انقلابی قوتِ مردانہ حاصل کرکے ازدواجی زندگی میں خوشگوار انقلاب لے آئیں (محدود عرصے کے لیے تعارفی قیمت فی کورس صرف پانچ صد روپے )۔
اگر یہ سب تماشا اور تماش بین اپنی آنکھوں دیکھنے ، کانوں سننے اور پھر کپڑے پھاڑ کے جنگل کی جانب دوڑنے کی تمنا ہو تو ویلکم ٹو پاکستان ٹو تھاؤزنڈ فورٹین۔۔۔۔

بھاڑ میں جائے ٹینیسی ولیمز کہ جس نے بکواس کی کہ انقلاب کو ایسے خواب دیکھنے والے چاہئیں جو انھیں یاد بھی رکھ پائیں۔کیڑے پڑیں ارسلا گوئین جیسی انارکسٹ کی قبر میں کہ جس نے یہ جاہلانہ بات کی کہ تم انقلاب نہ کسی دکان سے خرید سکتے ہو نہ گھر میں بنا سکتے ہو، انقلاب یا تو تمہاری رگوں میں ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔یہ سب انقلابی اور ان کے افکار اور ان کی جدوجہد ، قربانیاں اور اخلاص تمہیں مبارک ۔

ہمیں تو اپنے سونامی انقلابی عمران خان ، ٹیلی فونک انقلابی الطاف حسین، موٹر وے انقلابی شریف برادرز ، ٹویٹری انقلابی بلاول بھٹو زرداری ، کنٹینری انقلابی طاہر القادری، سرخ ( حویلی ) انقلابی شیخ رشید ، مہمل انقلابی چوہدری شجاعت ، آرمڈ چئیر انقلابی حمید گل ، احتیاطی انقلابی سراج الحق اور سہولتی انقلابی فضل الرحمان ہی بہت۔۔۔۔۔۔
اے روحِ ’’ انقلاب ’’ ہمیں ناموں سے نہ پہچان

کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

ریاستی رٹ کو روتے رہیے.......


کیا کسی نے کبھی ریاستی اقتدارِ اعلیٰ  کہ جسے اب اردو میں بھی اسٹیٹ رٹ کہنے کا رواج ہوگیا ہے) ٹھوس شکل میں دیکھا ؟ کس کس کی اسٹیٹ رٹ سے کتنی دیر کی ملاقات رہی؟ آخری دفعہ اسٹیٹ رٹ سے کب کب ہاتھ ملایا؟ بعد میں اپنی انگلیاں بھی گنیں کہ نہیں؟ چلیے آپ کی کسی سبب یا بلا سبب ملاقات نہیں ہوسکی کوئی بات نہیں۔لیکن آپ اس رٹ کے باپ یعنی آئین سے تو کسی نہ کتاب دوکان میں ضرور ملے ہوں گے۔یہی مشکل ہے، آپ سے تو اپنا آئین بھی پورا نہیں پڑھا جاتا ورنہ آدھے نفسیاتی مسئلے تو چٹکی بجاتے حل ہو چکے ہوتے۔۔آپ کے۔

یہ رونا آخر کب تک سنا جائے کہ پاکستان میں اسٹیٹ رٹ باقی نہیں رہی اور
 ریاست ہی چاہے تو اسے بحال کرسکتی ہے اور جب تک بحال نہیں ہوگی تب تک قانون کی حکمرانی ایک خواب رہے گی اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے وغیرہ اور وغیرہ اور وغیرہ…کیا آپ کچھ سمے کے لیے اسٹیٹ رٹ کی رٹ لگانا بند کرسکتے ہیں پلیز۔بہت شکریہ۔

عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جا سکتا لیکن مختلف شکلوں میں محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے اور کچھ اتنے راسخ انداز سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات حاضر والدین کے کسی حکم کی بھی غائب خدا کے فرمان کے آگے کوئی حیثیت نہیں۔بالکل اسی طرح ریاستی رٹ نام کی کوئی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔لیکن اگر اسے سب دل سے مان لیں تو پھر وہی رٹ ہماری اپنی ہی اجتماعی و انفرادی شکل و صورت میں ہر طرف اظہار کرتی دکھائی سنائی دے گی۔

بھلے منہ سے کچھ بھی کہیں مگر ہم میں سے اکثر لوگ شائد ایسے نڈر ہوچکے ہیں کہ خدا سے نہیں ڈرتے تو ریاستی اختیار سے کیا ڈریں گے۔ آئینِ پاکستان کی پہلی شق میں صاف صاف ہے کہ اختیارات کا سرچشمہ خدائے برتر ہے اور ریاست یہ اختیارات امانتاً منتخب نمایندوں کے توسط سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔یعنی خدائی رٹ ہی اسٹیٹ رٹ ہے۔ پھر بھی سب پوچھ رہے ہیں کہ اسٹیٹ رٹ کہاں ہے۔

شائد اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہے جو کسی بھی چوک پہ باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔ یا شائد اسٹیٹ رٹ ڈسکہ کے ان چار لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے اپنی بیٹی اور ناپسندیدہ داماد کو بیسیوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے کھمبے سے باندھا اور دونوں کے سر اتار کے خبجرلہراتے آرام سے چلے گئے۔
تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے دو انسانوں کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا ہے۔یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادے کی داشتہ ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی اب عرصہ ہوا ریاست نے اس کی بھی نجکاری کردی اور اپنے اختیار کو اٹھارہ کروڑ شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ نتیجہ ؟؟؟
(ملاوٹ) خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر کھلا رہے ہیں پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

(خیانت) خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہوسکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ (یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے اور یہیں کی ہے)۔

(ارتکازِ دولت) خرابی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔ مملکتِ خداداِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس دصولی کی شرح کے معاملے میں یہ ریاست دنیا کے ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا۔چنانچہ تنخواہ دار طبقے اور ماچس و مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔

خدا کے نام کی تکریم کرنے والے لوگ

خدا کے گھر سے بھی اونچے مکان رکھتے ہیں (جمال احسانی)
  جھوٹ، غلط بیانی اور آدھا سچ) نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت ہے۔لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے لے کر پیش امام تک،بچے سے حکمرانِ اعلی تک کوئی ہے جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر رہ گیا ہو۔

(قتلِ عمد) کس مذہب یا قانون میں جائز ہے؟ کیا اس کی خدائی اور ریاستی سزا انتہائی سخت نہیں؟ اس سے زیادہ کوئی اور کیا کہے کہ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر خدا کا نام لینے والی ریاست ہو کہ خدا کا دم بھرنے والے افراد۔ دونوں کے کانوں سے روئی کون نکالے؟

 ریپ) کوئی فاسق و فاجر بھی اس کی وکالت نہیں کرتا۔اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا سے قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس میں ریپ کے ایک ملزم کو بھی سزا نہیں مل پائی۔(اس سے اورکچھ ہو نہ ہو انفرادی و اجتماعی پاک بازی، پرہیز گاری اور غیر جانبداری کے معیار کو ضرور اندازہ ہو سکتا ہے ۔

 دہشت گردی) خدائی ڈکشنری میں اسی کو فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور اس کی سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔ دہشت گردی کسی بھی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں یہ بھول بھال کر کہ دنیا گول ہے۔ جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر کو آئے گی۔
 
انصاف) ریاست کفر پہ تو زندہ رہ سکتی ہے بے انصافی پر نہیں۔اس پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص جو کہہ سکے کہ وہ انصاف کے نافذ و جاری نظام سے زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت ضرور مطمئن ہے۔ ریاستی رٹ انصاف کے ستون پر کھڑی ہوتی ہے۔کیا کسی کو ستون دکھائی دے رہا ہے؟ بس جتنا دکھائی دے رہا ہے اتنی ہی ریاستی رٹ پر اکتفا کیجیے۔
 
اقلیت) اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائص واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن اس دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ کوئی فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا راستہ۔اسی کو تو پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ کہتے ہیں۔
 
عقیدہ) عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے،زبردستی، ترغیب و تحریص، دھمکی، خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی بھی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔تلوار کی نوک گردن پہ رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔

کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیر جانبدار؟ کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بلاخصوص صاحب ِ احوال و صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان احکامات میں مضمر حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

جب تک ان سوالات کا کوئی متفق علیہہ تشفی بخش عقلی جواب نہیں ملتا۔ریاستی 
رٹ کو بیٹھے روتے رہئے۔

آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......


مان لیا کہ من بھر گیہوں میں تھوڑا بہت گھن بھی پس جاتا ہے ۔لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ سیر بھرگیہوں میں ایک من گھن پس جائے۔بالکل ممکن ہے اگر چکی شمالی وزیرستان کی ہو۔
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری ۔نائن الیون سے اب تک قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ میں سات بڑے بڑے آپریشن ہو چکے ہیں۔

توقع یہی ہوتی ہے کہ ہر نئے آپریشن میں جو بھی اچھا برا تجربہ ہاتھ آئے گا اس کی روشنی میں اگلا آپریشن عسکری و انسانی اعتبار سے اور بہتر ہوگا۔ لیکن جس طرح سے لگ بھگ پانچ لاکھ انسانی مرغیوں کو شمالی وزیرستان کے دڑبے سے ہنکالا گیا اس سے تو نہیں لگتا کہ یہ وہی ریاست ، فوج اور مقامی انتظامیہ ہے جس نے سوات آپریشن سے پہلے پہلے مقامی و بین الاقوامی اداروں کی مدد سے کیمپوں کا پیشگی نظام قائم کر کے مالاکنڈ ڈویژن خوش اسلوبی اور نظم و ضبط کے ساتھ خالی کروایا تھا۔
دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان کے پناہ گزینوں کی تعداد سوات آپریشن متاثرین کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے لیکن پیشگی انتظامات لگ بھگ زیرو رہے۔ آپریشن شروع ہونے کے دو ہفتے بعد اب کہیں جا کے انتظامی آثار دکھائی پڑنے لگے ہیں۔

بیت الخلا کی ضرورت
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
زرا تصور کریں کہ کسی ایک روز لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی یا حیدرآباد کے کچھ مخصوص علاقوں کو دہشت گردی اور دیگر خوفناک جرائم سے پاک کرنے کی اچانک عسکری کارروائی شروع ہونے کے بعد یہاں کے چھ لاکھ مکینوں سے کہا جائے کہ جتنا جلد ممکن ہو غیر معینہ عرصے کے لیے گھر بار چھوڑ کر شہر کی حدود سے نکل جاؤ اور انھیں یہ تک معلوم نہ ہو کہ یہاں سے کہاں اور کیسے جانا ہے؟ رکنا کہاں ہے۔ راستے میں اتنے لوگوں کو کوئی پانی بھی پلائے گا؟ کھانے کا کون پوچھے گا؟ بیماروں کو کہاں لادے لادے پھریں گے؟ نوزائدہ بچوں کے دودھ ، بڑے بچوں کی تعلیم اور پردہ دار خواتین کے نہانے دھونے پکانے کا کیسا انتظام ہو گا؟

اور پھر حکومت لاہور، فیصل آباد، پنڈی، کراچی اور حیدرآباد کے ان متاثرین کو
 نکالے جانے کے ہفتہ بھر بعد فی خاندان پندرہ ہزار روپے کی ادائیگی اس مد میں کر دے کہ یہ آپ کے کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے فوری اخراجات ہیں اور پھر ان سے یہ کہا جائے کہ اپنی مدد آپ کے تحت سو پچاس کلومیٹر پرے ایک ڈسٹری بیوشن پوائنٹ پر رجسٹریشن کروا کے مہینے بھر کا راشن لے لو۔اور پھر ان سے کہا جائے کہ یہ جو لق و دق زمین نظر آ رہی ہے یہ کوئی ویرانہ نہیں تمہارے قیام کا کیمپ ہے۔ اپنے ایک سو دس کلو وزنی راشن کے تھیلے سر سے اتار کر زمین پر رکھو اور ان تھیلوں کو تکیہ سمجھ کر دو دو تین تین سر رکھ کے سوجاؤ۔
کیا کہا خیمے؟ وہ تو ابھی پانی کے جہاز سے آ رہے ہیں۔

کیمپ میں پینے کا پانی؟ کل پرسوں انشااللہ ایک آدھ ٹینکر ضرور چکر لگائے گا یہاں۔
دیگچی، پرات، توا، رکابی، گلاس؟ ہاں کچھ این جی اوز سے بات ہوئی تو ہے۔امید ہے کہ اگلے دس پندرہ دن میں برتن بھی آجائیں گے تب تک خشک راشن مٹھی بنا کے پھانکتے رہو۔
ارے ہاں تمہیں تو شاید بیت الخلا کی بھی ضرورت ہوگی نا۔یہ ہم نے چار گڑھے کھود دیے ہیں اور ہر گڑھے پر دو دو پٹڑے بھی رکھ دیے ہیں اور ٹاٹوں کی چار دیواری بھی کھڑی کر دی ہے۔ بہتر ہوگا کہ خواتین یہ بیت الخلا استعمال کرلیں۔باقی لوگ یہ سامنے والے جنگل میں چلے جایا کریں۔
بجلی؟ کیا تمہارے پاس ٹارچ والا موبائل فون نہیں؟ تو پھر؟

بالکل پریشان مت ہو۔پوری قوم آزمائش کی گھڑی میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہے۔ بے صبری کو لگام دو۔انشااللہ دو تین ماہ میں پورا انتظام قابو میں آجائے گا۔تمہیں باقاعدہ ماہانہ مالی امداد بھی ملے گی۔تب تک یہ سمجھ لو کہ ملک کے لیے عظیم قربانی دے رہے ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تم کسی اور صوبے میں جانے کی فرمائش کر بیٹھو۔جو ملے گا یہیں ملے گا۔یہاں سے گئے تو کچھ نہ ملے گا۔

وسعت اللہ خان 


اگر جمہوریت ختم ہوئی تو.......


بنوں اور کرک کے تپتے صحرائوں میں تڑپتی انسانیت سراپہ سوال ہے ۔ کہاں گئے مولانا سمیع الحق؟ انہوں نے تو اپنے آپ کو بیمار مشہور کرلیا لیکن کیا مولانا یوسف شاہ بھی بیمار ہیں۔ وہ جو روزانہ ٹی وی ٹاک شوز میں جلوہ گر ہوتے اور صبح، دوپہر، شام پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ وہ قوم کو بتائیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کس نے اور کیوں ناکام کرایا؟ اس آپریشن کی تیاری فوج نےچھ ماہ قبل نہ صرف کرلی تھی بلکہ وزیرِ اعظم کو بریف بھی کیا تھا کہ وہ چھ گھنٹے کے نوٹس پر شروع کردیں گے۔ تب سردی کا موسم تھا۔

 عسکریت پسندوں کے لئے برف کی وجہ سے پہاڑوں میں چھپنا اور افغانستان منتقل ہونا مشکل تھا۔ آئی ڈی پیز کو بھی شدید گرمی کی اذیت برداشت نہ کرنا پڑتی۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو تب فوج کو کیوں روکا گیا؟ شدید ترین گرمی میں معصوم اور بیمار بچوں کو گود میں لئے شمالی وزیرستان کی تڑپتی لاکھوں مائیں اور بلکتے بچے، وزیر اعظم کے قادر الکلام مشیر خاص کالم نگار کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ وہ ان کی زبانی جاننا چاہتی ہیں کہ مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اور ان کو دربدر کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ مذاکراتی کمیٹی میں عمران خان کی نمائندگی کرنے والے رستم شاہ مہمند نے مجھے بتایا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ عمران خان صاحب کو آگاہ کرتے رہے اور اللہ گواہ ہے کہ عمران خان مذاکراتی عمل سے متعلق قوم کو حقیقت نہیں بتا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کے مظلوم قبائلی عمران خان کی زبانی وہ حقیقت سننا چاہتے ہیں۔

وہ جاننا چاہتے ہیں کہ صحیح وقت پر آپریشن کے مخالف اور مذاکرات کے حامی، غلط وقت اور رمضان کی آمد پر آپریشن کے حامی کیوں بن گئے؟ وہ جن کی سیاست ڈرون حملوں کے گرد گھومتی تھی، آج ان کے دوبارہ آغاز پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا محض اس لئے کہ تحریک انصاف کی ترجمان کو اوپر سے ہدایت نہیں ملی اور انہوں نے عمران خان کو ہدایت کی ہے کہ ڈرون حملوں کے دوبارہ آغاز پر خاموش رہیں۔ آپریشن کے یہ متاثرین پوچھ رہے ہیں کہ پختونوں کے حقوق کے علم بردار اسفندیارولی خان صاحب کہاں ہیں؟ کیا پختونوں پر اس سے بھی زیادہ مشکل وقت آسکتا ہے۔ وہ تو خیر یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ وہ اقتدار سے باہر اور بیمار ہیں لیکن ان متاثرین کی آنکھیں پختونوں کے ایک اور لیڈر محمود خان اچکزئی کو بھی ڈھونڈرہی ہیں جن کی اس وقت پانچوں گھی میں ہیں، جن کے خاندان کا کم و بیش ہر مرد اقتدار میں ہے اور جو ان دنوں وزیرِ اعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت میں افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ کرنے کے لئے کابل کے دورے کررہے ہیں۔

اگر اسلام آباد کے محلات میں پنجابی وزیرِ اعظم کے ساتھ بیٹھ کر انہیں وزیرستان کے متاثرین یاد نہیں آئے تو کابل کے یخ بستہ محل میں پختون حامد کرزئی کے ساتھ بیٹھ کر بھی انہیں قبائلی عوام کے دکھوں نے نہیں ستایا۔ شاید حکمرانوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی سیاستدان کو عزت سے نہیں رہنے دیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کو پورے ایک سال تک تڑپا دیا۔ پہلے وزارتیں نہیں دے رہے تھے اور پھر جب وزارتیں دے دیں تو ان کو ان کی مرضی کے محکمے نہیں دیئے تھے۔ نتیجتاً وہ حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے اسلام اور قبائلیوں کے روایتی ہتھیار استعمال کرنے لگے۔ شمالی وزیرستان کے متاثرین کو غلط فہمی تھی کہ اگر ان کے علاقے میں آپریشن کا آغاز ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے مداح سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر راہ میں کھڑے ہوں گے لیکن وزیر اعظم بھی کمال کے ہوشیار نکلے ۔ ادھر سے آپریشن کی اجازت دے دی اور ادھر سے مولانا فضل الرحمٰن کے اکرم درانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو ان کی مولانا کی مرضی کی وزارتیں دے دیں۔ مولانا کے ماضی کے بیانات اور ان کے ساتھ حکومت کی بدسلوکی کے تناظر میں قوم توقع کر رہی تھی کہ جب بھی آپریشن کا آغاز ہوگا تو وہ احتجاجاً کشمیر کمیٹی کی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ بھی چھوڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ نکلا۔ ادھر آپریشن کا آغاز ہوا اور ادھر وہ پورے کے پورے حکومت میں شامل ہوگئے۔ رہے سراج الحق صاحب تو شاید وہ صرف جماعت اسلامی کے امیر رہتے تو اس وقت ضرور میدان میں نکلتے لیکن افسوس کہ وہ ساتھ ساتھ پرویز خٹک صاحب کی ٹیم کے رکن بھی ہیں اور ان کی ٹیم کے رکن سے کسی قائدانہ کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ متاثرین آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے جو ہر وقت آپریشن آپریشن کی دہائیاں بلند کرتے تھے کی آمد کے بھی منتظر ہیں۔

پوچھتے ہیں کہ کیا تمہارا کام صرف آپریشن کیلئے ورغلانا تھا۔ جس قوم کے ہاں سیاستدانوں کی بہتات اور لیڈروں کا فقدان ہو، اس کا یہی حشر ہوتا ہے جو اس وقت اس قوم کا ہو رہا ہے۔ فوج نے آپریشن کی تیاری چھ ماہ قبل کرلی تھی اور حکومت تین ماہ قبل اس نتیجے تک پہنچی تھی کہ آپریشن ہوگا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور وقت آنے پر ثابت کردوں گا کہ خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کو بھی بہت پہلے سے علم تھا کہ آپریشن ہو کر رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ پھر آئی ڈی پیز کے لئے مرکزی یا صوبائی حکومت نے تیاری کیوں نہیں کی؟
حالت یہ ہے کہ میرے گزشتہ کالم کو پڑھ کر صبح بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض صاحب نے رابطہ کیا کہ وہ پانچ کروڑ روپے آئی ڈی پیز کے لئے دینا چاہتے ہیں لیکن حیران ہیں کہ کیسے یہ رقم خرچ کریں۔ یہ اعلان ٹی وی پر بھی انہوں نے کیا لیکن دو دن گزرنے کے باوجود کسی مرکزی یا صوبائی حکومت کے کسی ادارے نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ گزشتہ کالم پڑھنے کے بعد بیرون ملک اور اندرون ملک سے لوگ مجھ سے رابطہ کر کے امدادی فنڈ کے اکاونٹ کے بارے میں معلوم کرتے رہے لیکن پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دن تک نہ صوبائی حکومت نے فنڈ قائم کر کے اکاونٹ نمبر مشتہر کیا تھا اور نہ صوبائی حکومت نے۔ صرف الخدمت تنظیم نے فنڈ قائم کیا تھا اور وہ متاثرین کی مدد کے لئے فعال بھی تھی۔ ان متاثرین کو پاکستان کے مخیر حضرات بھی سنبھال سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے اب کے بار میڈیا اس طرح کی فضا بھی نہ بنا سکا جس طرح کہ سوات آپریشن کے ضمن میں پیدا کی گئی تھی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا کی قیادت کرنے والے جیو نیوز کو پہلے سے خاموش کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف میڈیا علامہ طاہر القادری کے ڈرامے، عمران خان کے جلسے اور چوہدری برادران کے تماشے کو کور کرنے میں مصروف رہا۔ مجھے یقین ہے کہ میری ان دہائیوں کے بعد بھی ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت کا ضمیر نہیں جاگے گا لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب آپریشن کا فیصلہ بھی فوج نے کرنا ہے، جب اسے کنڈکٹ بھی فوج نے کرنا ہے، جب آئی ڈی پیز کا انتظام بھی اس نے فوجی طریقے سے کرنا ہے، جب شہروں کی سیکورٹی بھی اس کی ذمہ داری قرار پائی ہے اور جب اسلام آباد میں ان کو آرٹیکل 245 کے تحت اختیارات بھی دئے جارہے ہیں تو پھر یہ جمہوریت کس مرض کی دوا ہے؟

کل اگر طاہر القادری یا عمران خان کی التجائوں اور دہائیوں پر لبیک کہہ کر کوئی اس جمہوریت کو رخصت کرنے آ گیا تو کسی شہری کو کیا پڑی ہے جو اس کو بچانے کے لئے سیاسی قیادت کی پکار پر لبیک کہے گا۔ کوئی آمر حکمران رہے یا پھر نوازشریف، عمران خان یا آصف زرداری، قوم کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ پھر وہ کیوں کر جمہوریت کے لئے جیل جائے یا پھر کوڑے کھائے گا۔ پھر یہی قوم کہے گی کہ بھاڑ میں جائے اس میڈیا کی آزادی کہ جس کے پاس علامہ طاہر القادری کے ڈراموں کی کوریج کے لئے تو بہت وقت ہے لیکن پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے ایشو یا پھر سات لاکھ انسانوں کے مسئلے کی کوریج کے لئے اس کے پاس وقت نہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

کیا عراق تقسیم ہوجائے گا؟.....

اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق کی قومی شناخت اب تک برقرار ہے اور معاملات کو درست کرنا زیادہ مشکل نہیں مگر وزیراعظم نوری المالکی کی پالیسیوں کے ہاتھوں ملک تقسیم کی حد تک جاسکتا ہے۔

ہم پہلے بھی سن چکے ہیں کہ عراق تباہی اور تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اور یہ کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم تک نوبت جا پہنچی ہے اور القاعدہ کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ اب ایسے ہی دعوے نئے سِرے سے سامنے لائے جارہے ہیں۔

وزیر اعظم نوری المالکی کے دوسرے دورِ حکومت میں دو ایسے عوامل ہیں جو غیر معمولی تشویش پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ عراق میں سکیورٹی کی صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ دہشت گردی کو روکنا آسان نہیں رہا۔ کوئی بھی گروپ کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی حلقے نوری المالکی پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ پہلے دورِ حکومت میں نوری المالکی نے بیشتر معاملات میں اپنی مرضی چلائی تھی۔ اب لوگ اُن پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ یہ دونوں معاملات اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اگر حکومت نے بر وقت معاملات درست نہ کیے تو ملک میں شدید کشیدگی پھیلے گی اور بات ملک کی تقسیم تک بھی جاسکتی ہے۔

حال ہی میں ایبرل میں ’’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے زیراہتمام ایک مباحثے میں یہ بات سامنے آئی کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ سیاسی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل نہیں ہوسکا ہے، جس کے نتیجے میں ان پر اعتبار کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ بہت سی وزارتیں اہم اشوز پر احکامات نہیں مان رہیں۔ خود نوری المالکی چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکز کے پاس رہیں۔ ایسی صورت میں علاقائی یا صوبائی حکومتیں پریشانی کا شکار رہیں گی۔ ان کے لیے فنڈنگ کا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا۔ بہت سے علاقوں کو شکایت ہے کہ ان کی سکیورٹی اور ترقی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔

سُنی اور کُرد، اب بھی شیعہ کمیونٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر وہ نوری المالکی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نہیں مان سکتے کہ نوری المالکی انہیں مطلوبہ نتائج دے سکتے ہیں۔ سنی اکثریت والے مغربی صوبوں کی شکایات زیادہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت ان کی بات سنے اور تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ مغربی صوبوں میں مرکزی حکومت کا عمل دخل گھٹتا جارہا ہے۔ لوگ بغداد کی بات سننے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اُن کا شکوہ ہے کہ مرکزی حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ دوسری طرف شام سے دراندازی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ القاعدہ عناصر نے عراق کے مغربی صوبوں میں بہت سے مقامات اپنے کنٹرول میں کرلیے ہیں۔

کردوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کردوں نے اپنے علاقوں کو بہت حد تک خودمختار بنالیا ہے۔ انہوں نے کئی غیر ملکی کمپنیوں سے اپنے طور پر معاہدے کیے ہیں۔ تیل کی برآمد کے معاملے میں بھی کرد مرکزی حکومت کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس روش نے کردوں اور بغداد کے تعلقات کشیدہ کردیے ہیں۔ مرکزی حکومت نے کرد علاقوں کے بہت سے منصوبوں میں فنڈنگ روک دی ہے۔ ان علاقوں کے ترقیاتی بجٹ میں اچھی خاصی کٹوتی کردی گئی ہے۔

کردستان ریجنل گورنمنٹ کے سربراہ مسعود برزانی نے انتباہ کیا ہے کہ اگر کردوں کے مفادات کو یونہی نظر انداز کیا جاتا رہا، تو وہ آزادی کا اعلان کردیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرد اگر ملک سے الگ ہوئے تو انہیں شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور معاشی، دونوں اعتبار سے خسارے میں رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ مسعود برزانی کے انتباہ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

ایسا نہیں ہے کہ نوری المالکی کو تمام شیعہ حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ مقتدٰی الصدر نے خبردار کیا ہے کہ نوری المالکی کا دوبارہ انتخاب معاملات کو مزید خراب کرے گا۔ آیت اللہ سیستانی عام طور پر خاموش رہنا پسند کرتے ہیں مگر انہوں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ نوری المالکی کو دھاندلی کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں لانا ناقابل قبول ہوگا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ نوری المالکی پر اعتماد کی سطح خطرناک حد تک گرگئی ہے۔ ہر طرف سے یہ اشارہ دیا جارہا ہے کہ نوری المالکی کے اقتدار کا تسلسل عراق کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔

عراق میں کرپشن کی جو سطح ہے اور نوری المالکی نے جس طور تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ دوبارہ منتخب ہوں گے۔ کرپشن پر یقین رکھنے والوں کو نوری المالکی کی شکل میں بہترین سرپرست میسر ہوگا۔ قومی خزانے پر نوری المالکی اور ان کے رفقا کا مکمل کنٹرول ہے۔ سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے بھی اُن کے ساتھ کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ ملک جس طرح کی صورت حال سے دوچار ہے اور سکیورٹی کا جو بھی معاملہ ہے، اُس نے ایسے حالات کو جنم دیا ہے جن کے تحت نوری المالکی کو اقتدار سے محروم کرنے والے ووٹنگ بلاک کی تشکیل انتہائی ناممکن ہوچکی ہے۔ معاشرے میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیزی سے جاری ہے، جس کے نتیجے میں نوری المالکی پر اعتماد نہ کرنے والوں کے درمیان بھی تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے آپس کے اختلافات نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔

شام کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال بھی عراق پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم بڑھتی جارہی ہے۔ شام میں سُنی اکثریت کے قتل عام نے عراق میں بھی دلوں میں فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے منفی اثرات عراق کے کئی صوبوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ان میں انبار، نینوا اور صلاح الدین نمایاں ہیں۔ یہ تمام عوامل نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ نوری المالکی کے لیے لازم ہے کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو مستحکم کرنے پر بھی توجہ دیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کم کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔ مگر اب تک اس حوالے سے اقدامات دکھائی نہیں دیے ہیں۔ صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال خطوں میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ سنی علاقوں میں تیل کی تنصیبات خطرے میں ہیں۔ ایسے میں عراق کی مرکزی حکومت کو بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا ہوگا اور وہ بھی پوری جامعیت اور قطعیت کے ساتھ۔

خطے کے بہت سے ممالک کو عراق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بالخصوص ایران کو یہ طے کرنا ہے کہ عراق نوری المالکی کی قیادت میں ایک خطرناک ملک کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھے گا یا اس میں ایک ایسی حکومت کی راہ ہموار کی جائے جس میں معاشرے کے تمام طبقات کی حقیقی اور قابل قبول نمائندگی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے ۲۰۱۰ء میں نوری المالکی کو دوسری مرتبہ اقتدار دلانے کے حوالے سے مداخلت کی تھی مگر اب مقتدٰی الصدر اور نجف کی طرف سے واضح اشارے ملے ہیں کہ ایرانی قیادت نوری المالکی سے مطمئن نہیں اور تیسری مدت کے لیے انہیں اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔

۲۰۰۳ء سے اب تک ایران اپنے پڑوس میں جاری ریس کے ہر گھوڑے کی حمایت کے معاملے میں غیر معمولی محتاط رہا ہے۔ اگر ایرانی قیادت محسوس کرے گی کہ نوری المالکی کی وزارتِ عظمیٰ اُس کے اپنے مفادات اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے تو یقینی طور پر وہ اُن سے گلو خلاصی چاہے گی۔

شام کے حالات نے عراقی معاشرے میں تقسیم کا عمل تیز اور وسیع کردیا ہے۔ بلقان کی طرز پر شام اور عراق کے بھی حصے بخرے ہونے تک معاملہ پہنچ سکتا ہے۔ شام کے مقابلے میں عراق کا کیس البتہ بہت مختلف ہے۔ شام تو واضح طور پر ایک ایسے مقام تک پہنچا ہوا لگتا ہے جہاں سے واپسی شاید اُس کے بس میں بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ عراق اب تک تقسیم کے حتمی مرحلے تک نہیں پہنچا۔ بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے مگر اِس کے لیے سیاسی عزم درکار ہے۔

گلو بٹ کی حکمرانی..........



ہر طرف گلو بٹ.........


کراچی میں دن کا اختتام اگر اوسطاً آٹھ لوگوں کی غیر فطری پرتشدد موت پر نہ ہو تو مقامی باشندے گھبرا جاتے ہیں کہ یا خدا خیر آج کا دن پرامن کیسے گزر گیا ضرور کل کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
شاید کراچی کی خونی فضا میں مسلسل سانس لینے کے سبب لاہور میں ہونے والے پرتشدد واقعات پر میں خود کو اتنا افسردہ محسوس نہیں کر پا رہا جتنا باقی ملک بالعموم اور سوشل میڈیا بالخصوص ہے۔
 
البتہ مجھ جیسے کراچویوں کے لیے لاہور کے خونی واقعات کے تناظر میں اگر کوئی شے نئی اور حیران کن ہے تو وہ ہے ظہورِ گلو بٹ۔
ویسے تو میرے شہر میں ایک سے ایک گلو پڑا ہے اور میرے صوبے میں گلو گورنمنٹ آف مٹیاری نامی ڈاکو بھی گزرا ہے، پر کمی ہے تو گلو بٹ لاہوری جیسے کی۔
جو کام سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی پانچ پانچ سو فلموں میں ہنہناتے گھوڑوں پر گنڈاسے لہراتے نہ کر سکے وہ تنِ تنہا گلو بٹ نے صرف ایک ڈنڈے سے سینکڑوں پولیس والوں اور بیسیوں کیمروں کے سامنے ٹیک ٹو دیے بغیر کر ڈالا۔
پچھلے دو روز سے پھولدار قمیض اور پتلون میں ملبوس گلو بٹ نے مقامی میڈیا کی ریٹنگ اتنی اوپر پہنچا دی ہے کہ شیخ رشید جیسے ٹی وی فن کاروں کو بھی تشویش ہو چلی ہے۔ کیمرے کی آنکھ ہر زاویے سے گلو کو ہی دکھا رہی ہے۔
پہلے اس شیر جوان نے منہاج القرآن کے دفتر کے باہر کھڑے بیسیوں مسلح پولیس والوں کے ایک افسر سے پرتپاک مصافحہ کیا۔ پھر ایک پولیس ٹولی کے ساتھ گپ شپ فرمائی۔ بعد ازاں جہادی جوش اور جہازی ڈنڈے سے پارک ہوئی کاروں کے شیشے توڑنے شروع کر دیے۔
اس بے مثال کارنامے کے بعد ہمارے ہیرو نے ایک پولیس افسر سے گلے مل کر شاباشی لی اور زخمی گاڑیوں کی جانب دیکھتے ہوئے ہلکا سا فاتحانہ رقص فرمایا۔
قبلہ گلو بٹ کا شجرہ
"جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔ جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی"
پھر دیگر پولیس والوں کی معیت میں ایک ہکا بکا کولڈ ڈرنک والے کا ڈیپ فریزر کھول کے سوڈے کی ٹھنڈی ٹھار بوتلیں لہراتے ہوئے اجتماعی جشنِ فتح کا خم لنڈھایا اور پھر کیمروں کے سامنے سے فخریہ انداز میں نوکیلی مونچھوں کو تاؤ دیتے دیتے جنابِ گلو بٹ استہزائیہ چال چلتے آگے بڑھ گئے اور افق پارگم ہوگئے۔
اس دوران میڈیائی تیتروں نے قبلہ گلو بٹ کا شجرہ کھود نکالا۔ جتنے کیمرے اتنی باتیں۔ کسی کا دعویٰ ہے کہ آپ سینیئر پولیس ٹاؤٹ ہیں۔ کسی کو گمان ہے کہ آپ درمیانے درجے کے نوسر باز ہیں اور کوئی آپ کو مسلم لیگ نواز کا جانثار کارکن بتا رہا ہے۔
جب ہر چینل پر گلو بٹ، گلو بٹ کی جے جے کار مچی تو بادلِ نخواستہ مقامی انتظامیہ بھی ’ کون ہے گلو، کہاں ہے گلو، یہاں ہے گلو، وہاں ہے گلو‘ کے غوغے میں شریک ہوگئی۔
واقعے کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد کلفیہ لباس میں ملبوس جنابِ گلو بٹ نے ایک مقامی تھانے میں نہایت اطمینان سے ایسےگرفتاری پیش کی جیسے وزرائے کرام زیرِ مونچھ ترسیلی مسکراہٹ سجائے بیواؤں کو سلائی مشین پیش کرتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت بٹ صاحب اس سمے پولیس سجنوں کی تحویل میں ایک بے جان ایف آئی آر کی چادر اوڑھے گئے دن کی تھکن اتار رہے ہیں اور نشریاتی گرد و غبار بیٹھنے کے منتظر ہیں۔
اس مرحلے پر آپ میرا گریبان پکڑ سکتے ہیں کہ اے سفاک لکھاری تجھے آٹھ لاشیں اور سو سے زائد زخمی کیوں نظر نہیں آرہے، صرف گلو پر ہی کیوں تیرے قلم کی نب اٹک گئی ہے۔
عرض یہ ہے کہ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو مرتے ہی رہتے ہیں اور مرتے ہی رہیں گے، پر آدمی جیئے تو گلو شیر کی طرح جیئے۔ دھڑلے کے ساتھ چاروں خانے چوکس ۔۔۔قانونی و غیر قانونی، اخلاقی و غیر اخلاقی بکواسیات میں الجھے بغیر۔
بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دراصل یہ گلو پرور نظام ہی ایک گلو بٹ نے دوسرے گلو بٹ کی مدد سے تیسرے گلو بٹ کے لیے بنایا تا کہ وہ اسے چوتھے گلو بٹ کے حوالے کر سکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہر نیا گلو بٹ ہر پرانے گلو بٹ سے بڑا گلو بٹ ثابت ہوا۔
ارے کس کس گلو بٹ کی بات کیجیے گا حضور۔ اس گلو بٹ کی جس نے ڈنڈے مار مار کے اس ملک کی گاڑی کی چھت بٹھا دی یا اس گلو بٹ کی جس نے آئین کی اوریجنل ونڈ سکرین کرچی کرچی کر دی۔
یا وہ گلو بٹ جس نے ڈنڈے پر نظریے کا تیل مل کے اسے سائلنسر پائپ میں دے دیا یا پھر وہ گلو بٹ جس نے وفاقی گاڑی کو اینٹوں پر کھڑا کر کے معاشی انجن، جمالیاتی وائپرز، سماجی ڈیش بورڈ، نفسیاتی بیک مرر اور وسائل کی ہیڈ لائٹس بڑے بڑے خلیجی و غیر خلیجی گلو بٹس کو لوہے کے بھاؤ تلوا دیں اور کیا اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں گلو بٹ اپنے سے مختلف انسانوں کے سرگاڑیاں سمجھ کے نہیں توڑ رہے۔
فیض صاحب نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ،
گلو میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
جب آپ ایسے ایسے چیتےگلو بٹوں کے بٹ سہہ رہے ہیں تو پھر لاہور کے ایک معمولی سے گلو بٹ کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ تئیس تاریخ کو ایک اور گلو بٹ معافی چاہتا ہوں، گلوِ اعظم لینڈ کرنے والے ہیں۔لگ پتہ جائے گا۔

تب نیرو موٹر وے بنا رہا تھا.........


پاکستان کو نائن الیون کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اقتصادی ، سماجی اور عسکری اعتبار سے لگ بھگ اسی ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ چکا ہے۔ اس عرصے میں تقریباً دس لاکھ لوگ اندرونی طور پر در بدر ہو چکے ہیں۔ فاٹا ، کراچی اور بلوچستان کی شکل میں ریاست کو بیک وقت تین جنگوں کا سامنا ہے۔ان جنگوں اور ان کے اثرات نے ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں کو نگل لیا ہے۔

جوں جوں حفاظتی دیواریں اونچی ہو رہی ہیں توں توں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اگلے لمحے کس کے ساتھ کہاں ، کیسی واردات ہونے والی ہے۔جو جرنیل دو ہزار چار پانچ تک یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کی تعداد چھ سو سے زیادہ نہیں وہ آج اس سوال سے ہی کنی کترا جاتے ہیں کہ اس وقت کتنے لوگ اور کتنی تنظیمیں ریاست سے برسرِ پیکار اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے درپے ہیں۔

مگر ایسا بھی نہیں کہ ریاست چلانے والے اپنے قومی و منصبی فرائض سے غافل ہیں۔وہ ہر وقت ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں غوروفکر کرتے رہتے ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کے ٹہلتے ہیں ، رومال سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے رہتے ہیں ، گاہے ماہے آسمانوں کی طرف تکتے ہیں ، سرد آہ بھی بھر لیتے ہیں، باہمی غفلت اور غلطیوں کا نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ کوئی ہور گل کرو ، اے تے روز دا سیاپا اے۔

زمہ دارانِ ریاست کو اچھے سے معلوم ہے کہ دہشت گردی ریاست کو آہستہ آہستہ چبا چبا کر نگل رہی ہے، مگر انہوں نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

"فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔"

اگر وہ سالانہ پچاس لاکھ بچوں کو پہلی جماعت میں داخل نہیں کرسکتے تو پریشانی کیوں؟ کیا وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے لیے سالانہ چونسٹھ ارب روپے مختص نہیں کر رہے؟

اگر وہ سالانہ بیس لاکھ نئے لڑکے لڑکیوں کو روزگار دینے میں بے بس ہیں تو کون سا ظلم ہورہا ہے؟ کیا وہ ساڑھے پانچ لاکھ نوجوانوں کو وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام کے تحت بزنس لون ، قرضِ حسنہ ، ہنر مندی کی تربیت اور فیسوں کی معافی کے لیے بیس ارب روپے کی امداد نہیں دے رہے؟

اگر وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ نفوس دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی کاٹ رہے ہیں تو اس کی بھی تو تعریف کیجیے کہ وہ تریپن لاکھ خاندانوں کو نیشنل انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں تاکہ ان کے تیس دن سہولت سے کٹ جائیں۔

اگر آپ کو شکوہ ہے کہ کم از کم گیارہ ہزار روپے کی تنخواہ کی سرکاری حد میں کسی خاندان کا گذارہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت ہر پاکستانی کی فی کس آمدنی تیرہ سو چھیاسی ڈالر ہے۔اور یہ تیرہ سو چھیاسی ڈالر امانتاً حکومت کے پاس پڑے ہیں جنہیں مناسب وقت پر لوٹا دیا جائے گا۔

اور کون کہتا ہے کہ والیانِ ریاست انسدادِ دہشت گردی کی اہمیت سے غافل ہیں۔ان کی پہلی ترجیح تو یہی ہے کہ افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی حل نکل آئے۔اعتماد کی فضا پیدا کرنے کے لیے میڈیا کی گردن میں بھی پٹہ ڈال دیا گیا ہے۔اگر اب بھی دہشت گردوں نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر متبادل حکمتِ عملی بھی تیار ہے۔

مثلاً ملک میں توانائی کے بحران پر تیزی سے قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے تا کہ دہشت گرد اندھیرے میں کسی سخت شے سے ٹھوکر نہ کھا جائیں۔گوادر تا سنکیانگ کاریڈور اور لاہور تا کراچی موٹر وے کی ڈیزائننگ شروع ہوچکی ہے تا کہ امارات ِاسلامی پاکستان کی ممکنہ قیادت کا فور وھیلر قافلہ ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ان موٹر ویز پر کروز کرسکے۔

 جب میاں صاحب پچھلے برس تیسری بار قصرِ وزیرِ اعظم تشریف لائے تو انہیں یہ دیکھ کے بہت رنج ہوا کہ جاتی حکومت سرکاری املاک کے دروازے، کھڑکیاں اور پنکھے بھی ساتھ لے گئی اور لان میں کچرے کے ڈھیر چھوڑ گئی۔اور تو اور وزیرِ اعظم کے زیرِ استعمال گاڑیوں کی سیٹوں کا چمڑا تک اترا ہوا تھا اور وزیرِ اعظم کی حفاظت کے لیے جو تربیت یافتہ کتے موجود تھے ناکافی غذائیت کے سبب کاٹنا تو رہا ایک طرف وہ تو اپنی بھونک تک سے محروم ہوچکے تھے۔ چنانچہ فوری طور پر ایوانِ وزیرِ اعظم، دفتر اور لان کی مرمت و آرائش، دو نئی بلٹ پروف گاڑیاں اور چھ جدید سونگھاری کتوں کو امپورٹ کرنے میں اضافی ایک سو اکہتر ملین روپے خرچ کرنے پڑگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک عوام پرست وزیرِاعظم نے اپنی ذات کے لیے تو نہیں کیا۔کل کلاں اگر اس عمارت میں ممکنہ اماراتِ اسلامی پاکستان کے امیر صاحب قیام کرتے ہیں تو انہیں بھی تو کچھ راحت ملے گی۔

رہی بات کہ ہوائی اڈوں کی ٹوٹی خاردار تاروں کو کب بدلا جائےگا، پولیس تھانوں کے باتھ روم کب ٹھیک ہوں گے، ایئرپورٹ سیکورٹی فورس وغیرہ کے فرسودہ ہتھیاروں کا کیا بنےگا، ناقص کیمروں کی خرید کب بند ہوگی، جدید انٹیلی جینس نظام کی تشکیل کا خرچہ اور تربیت کا بار کون اور کب اٹھائےگا، انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایک جدید، جامع قانونی و عسکری حکمتِ عملی تشکیل پاکر کب نافذ ہو کر نتائج سامنے لائے گی؟

تو اب ہر بات کا ٹھیکہ ریاست نے تو نہیں لے رکھا۔ کچھ وہ بھی تو سوچیں کہ جن کے سبب پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہے۔اگر سارے وسائل اور پوری طاقت دہشت گردی کے خاتمے پر ہی لگا دی گئی تو شمسی توانائی سے بجلی تم پیدا کروگے، موٹر وے تمہارا باپ بنا کے دے گا، ایوانِ وزیرِ اعظم کی گھاس کاٹنے کیا تم آؤ گے ۔۔۔ واہ جی واہ ۔ چل دوڑ یہاں سے، ڈُو مور کا بچہ۔

غربت اور بھوک.........


مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی‘ بھوک نہیں‘ میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا‘ فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے‘ ٹول باکس بھی تھے‘ کُھرپے بھی‘ گینتیاں بھی‘ ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی‘ یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے‘ یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے‘ وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا‘ یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں‘ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔

ان کا انٹرویو کرتے ہیں‘ انھیں کام بتاتے ہیں اور پھر گاڑی میں بٹھا کر گھر‘ دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں‘ ہمارے فٹ پاتھوں پر روزانہ ایسے سیکڑوں ہزاروں مزدور‘ مستری‘ مکینک اور پلمبر آ کر بیٹھتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں اور انھیں ساتھ لے جاتے ہیں‘ یہ منظر جارجیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشترک ہیں لیکن جارجیا کے مزدوروں اور ہمارے مزدوروں میں ایک فرق ہے‘ وہ لوگ صرف غریب دکھائی دیتے ہیں‘ ان کے چہروں پر بھوک نہیں ہوتی جب کہ ہمارے مزدوروں کے چہروں پر بھوک کا لیپ ہوتا ہے‘ ہمارے مزدور دو کلو میٹر سے بھوکے دکھائی دیتے ہیں‘ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی محض ایک وجہ ہے‘ جارجیا کے لوگ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہیں‘ یہ صدیوں سے ’’کھاچا پوری‘‘ بنا اور کھا رہے ہیں۔

کھاچا پوری میں پنیر کی آدھ انچ موٹی تہہ ہوتی ہے‘ ایک کھاچا پوری دو سے تین لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قہوہ‘ چائے یا کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھاچا پوری کھاتے ہیں اور پورا دن گزار لیتے ہیں‘ ملک میں سیکڑوں ہزاروں تنور ہیں‘ ان تنوروں پر کھاچا پوری ملتی ہیں‘ آپ خریدیں اور دن گزار لیں‘ لوگ خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں میں سبزی اور پھل بھی اگاتے ہیں‘ یہ لوگ ایک آدھ گائے بھی رکھ لیتے ہیں اور یوں یہ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے ہیں‘ میں نے اکثر گھروں میں ایک دو مرلے کا ’’فارم ہاؤس‘‘ دیکھا‘ یہ لوگ اس ’’فارم ہاؤس‘‘ میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں‘ پھلوں کے درخت بھی لگاتے ہیں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں۔

جارجیا میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں انگور کی بیل نہ ہو یا گھر کے لوگ گھر سے سیب‘ اخروٹ‘ بادام‘ آڑو‘ چیری اور آلو بخارہ حاصل نہ کر رہے ہوں‘ اس ’’ فارم ہاؤس‘‘ میں کاشت کاری کا کام گھر کی خواتین اور بچے سرانجام دیتے ہیں‘ یہ لوگ گھر کی ضرورت کے لیے اچار‘ چٹنیاں‘ مربے‘ جیم اور پنیر خود تیار کرتے ہیں‘ یہ لوگ اگرچھوٹے گھروں میں رہتے ہوں تو کرائے پر زمین لے کر سبزیاں اور پھل اگا لیتے ہیں اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو یہ گھر کے باہر یا صحن میں کاشت کاری کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ‘ ہمارے مزدور عمر بھر خوراک کی محتاجی میں مبتلا رہتے ہیں‘ یہ آٹا‘ گھی اور چینی خریدنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور ہمارے اس رویے نے ہمارے چہرے پر بھوک مل دی ہے‘ ہم سب کی آنکھوں میں بھوک درج ہو چکی ہے۔

ہم ہمیشہ ایسے نہیں تھے‘ ہمارے ملک میں تیس سال قبل بھوک نہیں تھی‘ صرف غربت تھی اور اگر غربت میں بھوک نہ ہو تو غربت قابل برداشت ہو جاتی ہے‘ غریب شخص اس وقت مجرم‘ درندہ اور ظالم بنتا ہے جب اس کی غربت میں بھوک شامل ہو جاتی ہے‘ ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہات میں رہتی ہے‘ یہ لوگ 30 سال پہلے تک خوراک کے معاملے میں خود کفیل تھے‘ ہمارے دیہات کے ہر گھر میں بھینس‘ گائے‘ بکری‘ مرغی اور گدھا ہوتا تھا‘ خاندان بھینس اور گائے سے دودھ‘ دہی‘ مکھن‘ لسی‘ بالائی اور گھی کی ضرورت پوری کر لیتا تھا‘ بکری اور مرغی‘ انڈے اور گوشت کا مسئلہ حل کر دیتی تھی‘ گدھا باربرداری کے کام آتا تھا اور رہ گیا اناج تو یہ لوگ سبزیاں اور گندم بھی اپنی اگا تے تھے۔

گاؤں کے ہر گھر میں گندم اسٹور کرنے کا مٹی‘ لوہے یا لکڑی کا ’’پڑہولا‘‘ ہوتا تھا‘ یہ لوگ چولہے میں لکڑیاں اور اُپلے جلاتے تھے‘ واش روم کھیت ہوتے تھے اور نہانے دھونے کا فریضہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں پر ادا ہوتا تھا چنانچہ یہ لوگ خوراک اور رہائش دونوں معاملوں میں خود کفیل تھے‘ گھر کا ایک آدھ فرد چھوٹی بڑی نوکری کر لیتا تھا‘ وہ فوج میں بھرتی ہو جاتا تھا‘ ڈاک خانے‘ فیکٹری یا ریلوے میں ملازم ہو جاتا تھا یا پھر راج مستریوں کے ساتھ لگ جاتا تھا‘ اس شخص کی آمدنی خاندان کی بچت ہوتی تھی‘ بہ بچت شادی بیاہ کے کام آتی تھی یا بیماری اور حادثوں کے اخراجات پورے کر دیتی تھی یا پھر گھر میں نئے کمرے ڈالنے کے کام آتی تھی۔

جارجیا کی کھاچا پوری کی طرح ہمارے دیہات اور شہروں کی بھی کوئی نہ کوئی مخصوص خوراک ہوتی تھی‘ گاؤں کے لوگ تنوری روٹی پر مکھن لگا کر یا پھر اچار رکھ کر دن گزار لیتے تھے‘ لسی پورے گاؤں کا مشروب تھی‘ آپ جہاں جاتے‘ آپ کو وہاں لسی کا پیالہ ضرور ملتا‘ آپ اگر معزز مہمان ہیں تو آپ کو دودھ کا پیالہ عنایت ہو جاتا تھا‘ یہ دودھ مکمل غذا ہوتی تھی‘ شہروں میں کلچے‘ نان اور دال روٹی ملتی تھی‘ پورے شہر میں سیکڑوں تنور ہوتے تھے‘ آپ کسی تنور سے ایک نان اور دال لیتے اور پورا دن گزار لیتے تھے‘ ہم نے اپنی سماجی بے وقوفی سے صدیوں میں بنا یہ سسٹم ختم کر دیا‘ گاؤں میں فلیش سسٹم آیا‘ اس نے پورے گاؤں کا پانی آلودہ کر دیا‘ لوگوں نے بھینس‘ گائے‘ بکری اور مرغی رکھنا بھی بند کر دی۔

گاؤں کے لوگ گندم‘ دالیں اور ترکاری بھی خرید کر استعمال کرنے لگے‘ گڑ اور شکر کی جگہ چینی آ گئی‘ لسی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ چائے‘ کولڈ ڈرنکس اور ڈبے کے جوس آ گئے‘ دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہونے لگا‘ لکڑی اور اُپلوں کی جگہ گیس کے چولہے آ گئے‘ مسواک کی جگہ ٹوتھ برش آیا اور تیل کی جگہ شیمپو استعمال ہونے لگا ‘ یہ تمام چیزیں بازار سے ملتی ہیں اور انسان جب ایک بار بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بازار چلا جائے تو پھر اس کی غربت میں بھوک شامل ہوتے دیر نہیں لگاتی اور ہماری دیہی آبادی کے ساتھ یہی ہوا‘ یہ لوگ تیس برسوں میں غذائی خود مختاری سے بھوک کی محتاجی میں چلے گئے‘ یہ لوگ اب روز ہتھوڑی اور کَسّی لے کر فٹ پاتھوں پر 
بیٹھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔

ہماری بربادی میں ہماری سماجی روایات کے انتقال نے بھی اہم کردار ادا کیا‘ میں نے بچپن میں گاؤں میں درجنوں شاندار روایات دیکھی تھیں‘ یہ روایات آہستہ آہستہ مر گئیں‘ ان کے انتقال نے عام آدمی کے معاشی بحران میں اضافہ کر دیا مثلاً گاؤں کی ہر بچی کی شادی پورا گاؤں مل کر کیا کرتا تھا‘ پورا گاؤں ایک ایک چیز گفٹ کرتا تھا اور یہ چیزیں مل کر جہیز بن جاتی تھیں‘ بارات کے لیے کھانا پورا گاؤں مل کر بناتا تھا‘ باراتیوں کی رہائش کا بندوبست پورا گاؤں کرتا تھا مثلاً مہمان پورے گاؤں کے مہمان ہوتے تھے۔

یہ رہتے کسی کے گھر میں تھے‘ ناشتہ کسی کے گھر سے آتا تھا‘ لنچ دوسرے گھر اور ڈنر تیسرے گھر میں ہوتا تھا‘ مثلاً کسی کا انتقال پورے گاؤں کی ’’میت‘‘ کہلاتا تھا۔ قل تک کا کھانا لوگ مل کر دیتے تھے‘ مثلاً گندم کی کٹائی پورا گاؤں مل کر کرتا تھا‘ مثلاً لڑائی میں پورا گاؤں اپنے ’’بندے‘‘ کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا‘ تھانے کچہری میں پورا گاؤں جاتا تھا‘ مثلاً قتل تک کے جھگڑے پنچایت میں نبٹائے جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں میں اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی‘ اسے ’’دارا‘‘ کہا جاتا تھا‘ لوگ شام کے وقت اس دارے میں بیٹھ جاتے تھے‘ مثلاً گاؤں کا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو پورا گاؤں اس کے ’’سرہانے‘‘ پیسے رکھ کر جاتا تھا‘ یہ پیسے پوچھ‘ سرعت یا عیادت کہلاتے تھے۔

یہ رقم مریض کے علاج پر خرچ ہوتی تھی‘ مثلاً بچہ پیدا ہوتا تھا تو گاؤں کے لوگ بچے کو پیسے دے کر جاتے تھے‘ یہ پیسے زچہ اور بچہ دونوں کی بحالی پر خرچ ہوتے تھے‘ مثلاً خوراک کا بارٹر سسٹم نافذ تھا‘ آپ گندم دے کر چنے لے لیتے تھے اور مسور دے کر گُڑ حاصل کر لیتے تھے‘ مثلاً آپ نائی کو گندم دے کر حجامت کرا لیتے تھے‘ بکری دے کر موچی سے جوتے لے لیتے تھے اور گنے دے کر درزی سے کپڑے سلا لیتے تھے‘ مثلاً کوئی بچی روٹھ کر میکے آ جاتی تھی تو پورا گاؤں ڈنڈے لے کر سسرالی گاؤں پہنچ جاتا تھا‘ مثلاً لوگ ضرورت کے وقت دوسروں سے برتن‘ کپڑے‘ جوتے‘ زیورات اور جانور ادھار لے لیتے تھے اور مثلاً قدرتی آفتوں یعنی سیلاب‘ زلزلے اور آندھیوں کے بعد پورا گاؤں مل کر گری ہوئی دیواریں اور چھتیں بنا دیتا تھا‘ یہ ’’سوشل ارینج منٹ‘‘ غربت اور بھوک کے درمیان بہت بڑی خلیج تھا۔ یہ بندوبست سیکڑوں ہزاروں سال کے سماجی تجربے کے بعد بنا تھا۔

یہ غریب کو بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا لیکن ہم نے یہ سماجی بندوبست بھی ختم کر دیا۔ ہم نے نیا نظام بنائے بغیر پرانا نظام توڑ دیا‘ ہم نے اپنے لوگوں کو لسی‘ نیوندرے‘ دارے‘ پوچھ اور بارٹر سسٹم چھوڑنے سے قبل یہ نہیں بتایا کارپوریٹ نظام میں لوگ اہم نہیں ہوتے‘ لوگوں کا ہنر‘ لوگوں کی پرفارمنس اور لوگوں کی آؤٹ پٹ اہم ہوتی ہے‘ آپ اگر مائیکرو سافٹ کو کما کر دے رہے ہیں تو بل گیٹس آپ کو جھک کر سلام کرے گا لیکن آپ اگر کمپنی کے پرافٹ میں اضافہ نہیں کر رہے تو پھر آپ خواہ بل گیٹس کے والد محترم ہی کیوں نہ ہوں۔

آپ کمپنی کی دیواروں کے سائے تک میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آپ کا مقدر بھوک‘ غربت‘ بیماری اور فٹ پاتھ ہوں گے‘ ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ آج اسی کرب سے گزر رہا ہے‘ یہ روز آنکھوں میں بھوک کا سرمہ لگا کر ہر گزرتی گاڑی کو امید اور نفرت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ نفرت اور یہ امید اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مزدور آٹے اور روٹی کے لیے کام کرتا رہے گا‘ یہ 
جب تک غربت اور بھوک کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھے گا۔

جاوید چوہدری

 

Karachi Airport Attack and Government Hypocrisy by Ayesha Gazi

Karachi Airport Attack and Government Hypocrisy by Ayesha Gazi

.....دو جعلی صدارتی انتخابات کی ایک ہی کہانی....

مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے میں مصر اور شام میں صدارتی انتخابات کا ناٹک رچایا گیا اور دونوں کے نتائج غیر متوقع نہ تھے کیونکہ ان میں غاصب اور قاتل حکمرانوں کو بالترتیب 96 اور 88.1 فیصد ووٹوں سے ’’منتخب‘‘ کر لیا گیا۔ دونوں ممالک میں خونریز خانہ جنگی برپا ہے اور ریاست پر فوج کا غلبہ ہے۔ مصر اور شام کی ایک ہی کہانی ہے۔ دونوں ممالک کی افواج صہیونی ریاست سے 1948ء، 1966ء، 1973ء کی جنگوں میں شرمناک شکست سے دو چار ہوئیں۔ مصر نے تو صحرائے سینا کو غیر فوجی علاقہ تسلیم کر کے صہیونی ریاست سے دب کر 1979ء میں صلح کر لی جبکہ شام پر چالیس سال سے مسلط آمر باپ بیٹوں نے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ اور اس کا انضمام عملاً تسلیم کر لیا لیکن اپنی بزدلی چھپانے کے لیے ہنوز صہیونی ریاست سے مصر کی طرح صلح نامہ تو نہیں کیا لیکن اس سے خاموش معاہدے کے ذریعے اپنے اقتدار کے استحکام کی ضمانت حاصل کر لی۔ جبھی تو اسرائیل نے ان باغیوں پر حملے کیے جو بشار الاسد کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔

مصر اور شام کی بھگوڑی اور نکمی افواج صہیونی ریاست سے مک مکا کر کے اپنے ہی عوام پر ٹوٹ پڑی۔ جولائی میں منتخب ہونے والے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر مصری فوج کا سابق سربراہ اپنے پیشرو کرنلوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں سیاسی عمل سے خارج کر دیا اور ڈاکٹر محمد مرسی پر سرکاری رقم کے غلط استعمال کا جعلی الزام لگا کر انہیں تین سال قید کی سزا دے دی جبکہ اخوان کے سربراہ مرشد بدیع سمیت اس تنظیم کے 1212 رہنماؤں اور حامیوں کو دو دو پیشیوں میں سزائے موت سنا دی جس پر انسانی حقوق کے خود ساختہ علمبردار باراک اوباما نے صرف اتنا ہی کہا کہ مصر کی عدالت کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں جبکہ مصر کے جعلی صدارتی انتخاب میں ’’96فیصد ووٹوں‘‘ سے کامیاب اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے فیلڈ مارشل السیسی کو مبارکباد دی۔

مصر کا صدارتی انتخاب ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ جب رائے دہندگان انتخاب کے دن گھروں میں بیٹھے رہے تو مصر کی فوج اور مخبر ایجنسی حرکت میں آئی اور انتخاب کی مقررہ تاریخ میں توسیع کر دی گئی تا کہ رائے دہندگان وہاں جا کر اپنا ووٹ دیں لیکن جب اس کے باوجود بھی رائے دہندگان گھروں سے نہیں نکلے تو جعلی فیلڈمارشل کی مخبر ایجنسی کے گماشتے گھر گھر جا کر ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر لاتے اور ان کے ووٹ گزرواتے رہے۔ انتخاب سے قبل مصر کی جنتا نے آئین اور حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی تھی۔ السیسی کے خلاف سابق فوجی آمر ناصر کا سویلین (Civilian) چیلا حمدین صباحی بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا مگر ا س کی جماعت تانگہ پارٹی بن کر رہ گئی۔ اسے انتخابی جلسہ منعقد کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ اول تو اس کی نفری بہت کم تھی ، دوم یہ کہ وہ جہاں جلسہ کرنا چاہتا تھا وہاں پہلے سے مصری فوج سادہ لباسوں میں ملبوس شہر کے جرائم پیشہ عناصر کو لے کر جلسہ گاہ پر قبضہ کر لیتی تھی۔

حیرت تو صباحی اور برادعی پر ہے، انہیں منتخب دستور ساز اسمبلی کا وضع کردہ اور رائے شماری میں منظور شدہ آئین تو اس لیے نامنظور تھا کہ اس میں اسلامی شقیں تھیں لیکن فوجی آمر کا آئین قابل قبول تھا جس میں حکومت پر نکتہ چینی ممنوع قرار دے دی گئی تھی اور فوج کو اپنی عدالت میں ان شہریوں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیا گیا تھا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ مصری فوج سے وابستہ ہوں۔ جیسا میں نے عرض کیا مصر کی فوج کا جنگ و جدل سے صرف میدان سے فرار ہونے یا ہتھیار ڈالنے تک کا تعلق رہا ہے جبکہ یہ ملک کے کاروبار پر قابض ہے۔ مصری فوجی شہریوں کو پینے کا پانی بند بوتلوں اور کھلے ٹینکروں کے ذریعے فراہم کرتے تھے اور صارفین سے اس کی گراں قیمت وصول کرتے تھے جبکہ شہریوں کو بلدیاتی اداروں کی جانب سے پانی مفت میں مہیا کیا جاتا تھا۔ اسی طرح فوجی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے بھی مالک ہیں۔ یہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں غرضیکہ یہ اندرون ملک منافع بخش کاروبار میں مصروف رہتے ہیں اور چور بازاری، سمگلنگ، منشیات و اسلحہ فروشی ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔ کیا اسے فوجی کہا جا سکتا ہے؟ اس پر مستزاد یہ کہ السیسی فیلڈ مارشل بن بیٹھا۔ کیا مصر میں یہ اعزاز شکست خوردہ، بد عنوان، غیر عسکری سرگرمیوں میں ملوث بھگوڑی فوج کو دیا جاتا ہے؟

البتہ ہمیں اس کی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 14 اگست 2013ء کو السیسی نے دھرنا دئے پر امن عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا اور دیکھتے دیکھتے 1400 افراد کی لاشیں بچھا دی۔ شاید السیسی کو اسی ’’کارنامے‘‘ کی بنا پر فیلڈ مارشل کا اعزاز ملا تھا۔ اسے خلیج کے رجواڑوں اور تلواڑوں نے بحالئ جمہوریت کی خلعت بھی عطا کی اور اوباما نے بھی بخشش دی۔ اس طرح وہ استعمار اور شاہ پرستوں کا ایجنٹ نکلا۔
لیکن اسی اوباما اور اس کے قوالوں کے ٹولے (یعنی نیٹو قزاق ٹولے) نے 4 جون کو شام میں رچائے گئے صدارتی انتخابی ناٹک کو مضحکہ خیز اور ڈھونگ قرا ردیا۔ اور صحیح کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ دونوں (مصر اور شام) کے صدارتی انتخابات میں کیا فرق تھا کہ مغربی استعمار ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز قرار دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بشار الاسد کا صدر منتخب ہونا ویسا ہی ہے جیسے السیسی کا منتخب ہونا۔ دونوں قانون اور انسانیت کے مجرم ہیں جنہیں قصر صدر کی بجائے مجرم کی حیثیت سے بین الاقوامی تعزیراتی عدالت (177) کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے۔

شام کے صدارتی انتخاب میں ملک کی چالیس فیصد آبادی ووٹ نہیں دے سکی جبکہ بشار الاسد کی فضائیہ اور اس کے توپخانے شہریوں پر بمباری اور گولے باری کر رہے ہیں۔ اس تین سالہ خانہ جنگی میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ پچیس لاکھ ترک وطن کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں انتخاب رچانا قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
لیکن امریکہ اور یورپی یونین کی جسارت ملاحظہ کیجیے کہ مصر کے صدارتی انتخاب کو سند عطا کرتے ہیں اور شام کے صدارتی انتخاب کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں۔ السیسی کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ بشار الاسد کے بارے میں برملا کہتے ہیں کہ وہ حق حکمرانی سے محروم ہو چکا ہے۔
یہی مغرب کا جمہوری نظام ہے جس کے بارے میں شاعر مشرق حکیم الامت 
علامہ اقبالؒ پہلے ہی کہہ چکے ہیں:

ہے وہی سازِ کہن یورپ کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے پوش
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری