ریاستی رٹ کو روتے رہیے.......

00:44 Unknown 0 Comments


کیا کسی نے کبھی ریاستی اقتدارِ اعلیٰ  کہ جسے اب اردو میں بھی اسٹیٹ رٹ کہنے کا رواج ہوگیا ہے) ٹھوس شکل میں دیکھا ؟ کس کس کی اسٹیٹ رٹ سے کتنی دیر کی ملاقات رہی؟ آخری دفعہ اسٹیٹ رٹ سے کب کب ہاتھ ملایا؟ بعد میں اپنی انگلیاں بھی گنیں کہ نہیں؟ چلیے آپ کی کسی سبب یا بلا سبب ملاقات نہیں ہوسکی کوئی بات نہیں۔لیکن آپ اس رٹ کے باپ یعنی آئین سے تو کسی نہ کتاب دوکان میں ضرور ملے ہوں گے۔یہی مشکل ہے، آپ سے تو اپنا آئین بھی پورا نہیں پڑھا جاتا ورنہ آدھے نفسیاتی مسئلے تو چٹکی بجاتے حل ہو چکے ہوتے۔۔آپ کے۔

یہ رونا آخر کب تک سنا جائے کہ پاکستان میں اسٹیٹ رٹ باقی نہیں رہی اور
 ریاست ہی چاہے تو اسے بحال کرسکتی ہے اور جب تک بحال نہیں ہوگی تب تک قانون کی حکمرانی ایک خواب رہے گی اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جائیں گے وغیرہ اور وغیرہ اور وغیرہ…کیا آپ کچھ سمے کے لیے اسٹیٹ رٹ کی رٹ لگانا بند کرسکتے ہیں پلیز۔بہت شکریہ۔

عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جا سکتا لیکن مختلف شکلوں میں محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے اور کچھ اتنے راسخ انداز سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات حاضر والدین کے کسی حکم کی بھی غائب خدا کے فرمان کے آگے کوئی حیثیت نہیں۔بالکل اسی طرح ریاستی رٹ نام کی کوئی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔لیکن اگر اسے سب دل سے مان لیں تو پھر وہی رٹ ہماری اپنی ہی اجتماعی و انفرادی شکل و صورت میں ہر طرف اظہار کرتی دکھائی سنائی دے گی۔

بھلے منہ سے کچھ بھی کہیں مگر ہم میں سے اکثر لوگ شائد ایسے نڈر ہوچکے ہیں کہ خدا سے نہیں ڈرتے تو ریاستی اختیار سے کیا ڈریں گے۔ آئینِ پاکستان کی پہلی شق میں صاف صاف ہے کہ اختیارات کا سرچشمہ خدائے برتر ہے اور ریاست یہ اختیارات امانتاً منتخب نمایندوں کے توسط سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔یعنی خدائی رٹ ہی اسٹیٹ رٹ ہے۔ پھر بھی سب پوچھ رہے ہیں کہ اسٹیٹ رٹ کہاں ہے۔

شائد اس موٹر سائیکل سوار کے پاس ہے جو کسی بھی چوک پہ باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔ یا شائد اسٹیٹ رٹ ڈسکہ کے ان چار لوگوں کے پاس ہے جنہوں نے اپنی بیٹی اور ناپسندیدہ داماد کو بیسیوں لوگوں کے سامنے دن دھاڑے کھمبے سے باندھا اور دونوں کے سر اتار کے خبجرلہراتے آرام سے چلے گئے۔
تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے دو انسانوں کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا ہے۔یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادے کی داشتہ ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی اب عرصہ ہوا ریاست نے اس کی بھی نجکاری کردی اور اپنے اختیار کو اٹھارہ کروڑ شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ نتیجہ ؟؟؟
(ملاوٹ) خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر کھلا رہے ہیں پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

(خیانت) خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہوسکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ (یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے اور یہیں کی ہے)۔

(ارتکازِ دولت) خرابی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔ مملکتِ خداداِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس دصولی کی شرح کے معاملے میں یہ ریاست دنیا کے ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا۔چنانچہ تنخواہ دار طبقے اور ماچس و مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔

خدا کے نام کی تکریم کرنے والے لوگ

خدا کے گھر سے بھی اونچے مکان رکھتے ہیں (جمال احسانی)
  جھوٹ، غلط بیانی اور آدھا سچ) نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت ہے۔لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے لے کر پیش امام تک،بچے سے حکمرانِ اعلی تک کوئی ہے جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر رہ گیا ہو۔

(قتلِ عمد) کس مذہب یا قانون میں جائز ہے؟ کیا اس کی خدائی اور ریاستی سزا انتہائی سخت نہیں؟ اس سے زیادہ کوئی اور کیا کہے کہ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ مگر خدا کا نام لینے والی ریاست ہو کہ خدا کا دم بھرنے والے افراد۔ دونوں کے کانوں سے روئی کون نکالے؟

 ریپ) کوئی فاسق و فاجر بھی اس کی وکالت نہیں کرتا۔اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا سے قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔ مگر پچھلے پانچ برس میں ریپ کے ایک ملزم کو بھی سزا نہیں مل پائی۔(اس سے اورکچھ ہو نہ ہو انفرادی و اجتماعی پاک بازی، پرہیز گاری اور غیر جانبداری کے معیار کو ضرور اندازہ ہو سکتا ہے ۔

 دہشت گردی) خدائی ڈکشنری میں اسی کو فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور اس کی سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔ دہشت گردی کسی بھی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں یہ بھول بھال کر کہ دنیا گول ہے۔ جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر کو آئے گی۔
 
انصاف) ریاست کفر پہ تو زندہ رہ سکتی ہے بے انصافی پر نہیں۔اس پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں کوئی ایسا شخص جو کہہ سکے کہ وہ انصاف کے نافذ و جاری نظام سے زیادہ تو نہیں مگر تھوڑا بہت ضرور مطمئن ہے۔ ریاستی رٹ انصاف کے ستون پر کھڑی ہوتی ہے۔کیا کسی کو ستون دکھائی دے رہا ہے؟ بس جتنا دکھائی دے رہا ہے اتنی ہی ریاستی رٹ پر اکتفا کیجیے۔
 
اقلیت) اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائص واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن اس دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ کوئی فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا راستہ۔اسی کو تو پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ کہتے ہیں۔
 
عقیدہ) عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے،زبردستی، ترغیب و تحریص، دھمکی، خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی بھی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔تلوار کی نوک گردن پہ رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔

کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیر جانبدار؟ کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بلاخصوص صاحب ِ احوال و صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان احکامات میں مضمر حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

جب تک ان سوالات کا کوئی متفق علیہہ تشفی بخش عقلی جواب نہیں ملتا۔ریاستی 
رٹ کو بیٹھے روتے رہئے۔

0 comments: