Showing posts with label Shooting of Trayvon Martin. Show all posts

Pakistanis set new world records

پاکستان میں ان دنوں عالمی ریکارڈ بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ علوم و فنون کو تو چونکہ یہاں سے عرصہ ہوا دیس نکالا مل چکا ہے، اس لیے اب ایسے میدان میں ریکارڈ ز بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جن کی جانب دنیا کی توجہ ہی نہیں، نہ ان کے پاس اس دردِ سر کے لیے کوئی وقت ہے۔ دنیا کا سب سے طویل انسانی پرچم بنانے کا ریکارڈ اس سے پہلے بنگلہ دیش کے پاس تھا۔ ایک اور بھوکا ننگا ملک جس نے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی اختیار کی لیکن آج بھی اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ ہندوستان ہو، بنگلہ دیش یا پاکستان، اس خطے میں ان کا مقابلہ حب الوطنی کے میدان میں ہوتا ہے، جو ہمہ وقت خطرے سے دوچار ہوتی ہے۔ ان ملکوں نے کبھی علم کے میدان میں ریکارڈ بنانے کی کوشش نہ کی۔ اب آپ یہ مت بتائیے کہ پاکستانی طالب علموں نے آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے اداروں سے او لیول میں سب سے زیادہ اے پلس لینے کا ریکارڈ بھی بنا رکھا ہے، یا دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر بچی بھی یہیں پائی گئی تھی۔ بلاشبہ ایسے بیسیوں واقعات یہاں بکھرے پکڑے ہیں، کئی ایسے بھی ہوں گے جو ابھی تک میڈیا کی نظروں میں نہ آئے ہوں، لیکن یہ مت بھولیے کہ یہ سب انفرادی کاوشیں ہیں، ان میں کہیں بھی ریاست کی پشت پناہی آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اپنے میدانِ عمل میں نام کرنے والے یہ وہ گنے چنے افراد ہوں گے جنہوں نے موجودہ نظام سے ہٹ کر اپنی راہ چنی ہو گی۔ ورنہ ریاست نے جس طرح کا تعلیمی، معاشی اور سماجی نظام ترتیب دے رکھا ہے، وہاں صرف حب الوطنی کے نام پر خالی دماغ لوگ ہی پیدا ہو سکتے ہیں، عالی دماغ جوان نہیں۔

گنیز بک آف ریکارڈ کی ٹیم اگر ذرا بھی غیر جانبدار ہوتی تو پاکستان کو دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کا ریکارڈ قائم کرنے والے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اس کا یہ اعزاز بھی اپنی ریکارڈ بک میں لکھ لیتی کہ دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم بنانے والے ملک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں یہی سبز ہلالی پرچم لہرانا جرم بن چکا ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک میں کہیں بھی یہ پرچم نہیں لہرایا جا سکتا۔ ساتھ ہی قومی ترانہ پڑھنے کا ریکارڈ بنانے والوں کو یہ بھی بتا دیجیے کہ اسی ملک کے ایک حصے میں جہاں دنیا کا طویل ترین انسانی پرچم لہرایا نہیں جا سکتا، وہاں یہ قومی ترانہ بھی نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیجیے۔ پاکستان کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ ہو جائے گا ۔

اور جب صرف گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اپنے نام کا اضافہ ہی مقصود ہے تو پھر لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کو بھی یاد رکھیے۔ کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک پیدل چلنے والا چند افراد کا یہ لانگ مارچ اب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ بن چکا ہے۔ فاصلے کے لحاظ سے اس نے چیئرمین ماؤ کے مشہورِ زمانہ لانگ مارچ کو بھی مات دے دی ہے۔ کیوں نہ لگے ہاتھوں اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا لیں۔ ساتھ ہی ملک کے آزاد میڈیا نے جس طرح اس سے چشم پوشی اختیار کیے رکھی ہے، وہ بھی کسی ورلڈ ریکارڈ سے کم نہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش ایک انتہائی حساس مسئلے پر جس طرح میڈیا نے خاموشی اختیار کی، اور چار ماہ تک ایک منٹ کی یا سنگل کالم خبر نہ چھاپی ہو، ایسا شاید ہی دنیا میں کہیں ہوا ہو۔ یہ اپنے تئیں ایک بہت بڑا ریکارڈ ہے ۔ بالخصوص ایک ایسے ملک میں جہاں میڈیا ہمہ وقت اپنی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتا رہے۔ اور جب دنیا کا طویل ترین لانگ مارچ پنجاب جیسی گنجان آبادی سے ہو کر گزرا ہو۔ اس ریکارڈ میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ جماعتیں جو آزادیِ اظہار کے لیے ہر وقت چیختی چلاتی رہتی ہیں، لیکن اس طویل ترین لانگ مارچ میں نہ صرف یہ کہ شامل نہ ہوئیں ، بلکہ بڑی مہارت سے کنی کترا گئیں اور خود کو اس سے دور رکھا۔

اسی طرح عالمی ریکارڈ کے خانے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان کے نام ایک اور اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے مطابق پچھلی ایک دہائی کے دوران بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد سولہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں لاپتہ ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ کسی بھی ایمسرجینسی میں اتنی بڑی تعداد میں افراد لاپتہ نہیں ہوئے یا نہیں کیے گئے۔ گو کہ کہ حکومتی ذرایع اور خفیہ اداروں کے حکام اس تعداد کو ہمیشہ مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم بلوچ وائس فار مسنگ پرسنز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی یہ وہ تعداد ہے، جن کے تمام کوائف اور حقائق ان کے پاس موجود ہیں۔ جن تک وہ اب تک نہیں پہنچ پائے، ان کا قصہ الگ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے خود بلوچستان سے نو سو ایسے افراد کی گمشدگی تسلیم کی جنھیں خفیہ ادارے شک کی بنیاد پر لے گئے، اور پھر ان کا کوئی اتہ پتہ نہ رہا۔ جب کہ معاملہ تعداد کا نہیں، اس عمل کا ہے جو بنیادی طور پر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔ ابھی حال ہی میں خضدار کے علاقے توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوئی، تو ایک بار پھر ہمیں اس بحث میں ڈال دیا گیا کہ برآمد ہونے والی لاشوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ تھی، سرکار نے اصل تعداد چھپا دی۔ حالانکہ سوال یہ نہیں کہ کتنے لوگ لاپتہ ہوئے یا کتنوں کی لاش مسخ کی گئی، سوال یہ ہے کہ اگر ایک بھی شہری غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا، لاپتہ کیا گیا یا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، تو ریاست مکمل طور پر اس کی ذمے دار ہے ۔ اس کا فرض بنتا ہے کہ ان اداروں اور اہلکاروں کو تلاش کرے، ان تک پہنچے اور ان سے باز پرس کرے۔ باقی کوئی شخص اگر ریاست کا باغی ہے، تو آئین میں اس سے نمٹنے کا طریقہ کار درج ہے۔ ایسے افراد کو گرفتار کر کے اعلیٰ عدالتوں میں پیش کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ جیسے اگر ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مارا جاتا ہے، تو اس کا کوئی حساب نہیں لیا جاتا۔ لیکن محض شک کی بنیاد پر (یا خواہ ثبوت کی موجودگی میں بھی) کسی بھی شہری کو غیرآئینی و غیر قانونی طور پر لاپتہ کر دینا، ماورائے عدالت قتل کر کے اس کی لاش کو مسخ کر کے پھینکنا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا جرم ۔

اور اگر ان واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینا ممکن نہیں تو پھر ذرا سی ہمت کر کے اسے بھی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھوا لیجیے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جہاں آئین و قانون کے ہوتے ہوئے محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو اٹھایا، لاپتہ کیا ، اور مار کے پھینکا جا سکتا ہے۔ جنگ تو ختم ہو نہیں رہی، ملک کے نام ایک اور عالمی ریکارڈ میں اضافہ سہی۔

عابد میر

Pakistanis set new world records

Enhanced by Zemanta

اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے؟


حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن ان مشکلات کے باوجود اتوار کی صبح اس خاکسار کو ایک اچھی خبر ملی۔ خبر یہ تھی کہ آٹھ فروری کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پشاور سے میران شاہ پہنچنے والی طالبان کمیٹی کے ارکان کو طالبان کے سینئر رہنمائوں نے یقین دلایا کہ شریعت کے نام پر مذاکرات کو ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ طالبان کی کمیٹی کے ارکان پروفیسر ابراہیم خان اور مولانا یوسف شاہ کے ساتھ ملاقات کرنے والے طالبان رہنمائوں میں وہ بھی شامل تھے جن کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ وہ پچھلے دنوں میر علی میں ہونے والی بمباری میں مارے گئے تھے۔ طالبان کے سینئر رہنمائوں نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے ارکان پر واضح کیا کہ یقیناً نفاذ شریعت ان کا اہم ترین مقصد ہے لیکن مقصد کے حصول کے لئے سازگار ماحول کی ضرورت ہے اور سازگار ماحول امن کے بغیر قائم نہیں ہوگا اس لئے پہلے مرحلے میں ان کی ترجیح قیام امن ہے۔ شمالی وزیرستان میں موجود طالبان کے سینئر رہنما آئین پاکستان کا تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس آئین میں اسلامی دفعات موجود ہیں اور اسی لئے مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق سے لے کر پروفیسر غفور احمد تک اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے لے کر مولانا شاہ احمد نورانی تک کئی جید علماء نے1973ء کے آئین پر دستخط کئے تھے لیکن اس آئین پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا اور آئین میں مزید بہتری کی گنجائش بھی موجود ہے، تاہم طالبان اس پیچیدہ معاملے میں فی الحال نہیں الجھنا چاہتے۔ فی الحال ان کی ترجیح جنگ بندی ہے۔جنگ بندی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کچھ قیدیوں کی رہائی بھی چاہتے ہیں اور قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں وہ سیکورٹی فورسز کے قیدیوں کو رہا کردیں گے۔ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کے علاوہ پروفیسر اجمل کی بازیابی بھی اہم ہے لیکن ان معاملات پر آگے چل کر بات ہوگی۔

طالبان کا ایک اہم مطالبہ قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی ہوگی لیکن انہیں ایف سی کی موجودگی قبول کرنا ہوگی کیونکہ جنگ بندی کے باوجود جرائم پیشہ اور سازشی عناصر کا راستہ روکنے کے لئے قبائلی علاقوں میں ریاست کی طاقت کو موجود رہنا چاہئے۔ طالبان کا تیسرا اہم مطالبہ یہ ہوگا کہ پچھلے بارہ سال میں جو فوجی آپریشن ہوئے ان میں قبائلی عوام کا جو جانی و مالی نقصان ہوا وہ پورا کیا جائے۔ اس نقصان کا تخمینہ لگانا اور پھر تخمینے کی رقوم کی ادائیگی کا طریقہ کار طے کرنا ایک لمبا عمل ہوگا۔ دوسری طرف حکومتی کمیٹی کی ایک ترجیح یہ ہوگی کہ مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کی رہائی آئین کے مطابق ہوگی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے حکومت کو آئینی ماہرین کے مشورے کی ضرورت ہوگی لیکن کچھ زمینی حقائق یہ ہیں کہ طالبان اپنے جن قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں ان میں سے اکثر کو عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا گیااور جن کو پیش کیا گیا ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہیں کئے جاسکے۔ یہ پہلو نظر انداز نہ کیا جائے کہ قبائلی علاقوں میں پہلا فوجی آپریشن2002ء میں درہ اکاخیل میں ہوا تھا۔ پچھلے 12سال میں 15 سے ز ائد بڑے فوجی آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ کسی آپریشن کو’’راہ نجات‘‘ اورکسی آپریشن کو’’راہ راست‘‘ قرار دیا گیا۔ قبائلی علاقوں میں ٹینکوں اور ائیر فورس کے ذریعہ بمباری کا سلسلہ2004 ء سے جاری ہے لیکن امن قائم نہ ہوا۔ یہ بھی درست ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے فوج نے2004ء سے 2009ء کے درمیان19 مرتبہ طالبان سے مذاکرات کئے اور 13 مرتبہ امن معاہدے کئے لیکن کئی مرتبہ یہ امن معاہدے طالبان نے توڑ دئیے اور کچھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ فوج نے طالبان کے رہنمائوں کو گرفتار کرنے یا مارنے کے لئے مذاکرات کا ڈھونگ رچایا۔12سال سے جاری بدامنی کو12 دنوں یا 12 ہفتوں کے مذاکرات میں ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے وزیر اعظم نواز شریف واقعی مذاکرات کے ذریعے امن چاہتے ہیں لیکن ماضی میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کھیل کھیلنے والے اس مرتبہ ایک بڑا آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف طالبان یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ماضی میں فوج کے ساتھ ان کے مذاکرات ناکام ہوئے لیکن سیاسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات کامیاب بنانے کے لئے طالبان کو اپنی کارروائیاں بند کرنا ہونگی تاکہ رائے عامہ مذاکرات کی حمایت کرے۔ طالبان کو یہ ماننا ہوگا کہ مذاکرات کے اعلان کے بعد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں خود کش حملے نے مذاکرات کو نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف جس دن طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو ہیلی کاپٹر میں میران شاہ روانہ ہونا تھا اسی دن متنی اور یونیورسٹی ٹائون کے علاقوں میں طالبان کے دو قیدیوں محمد زیب اور اسد کی لاشیں پھینکی گئیں۔ ان دونوں کو پچھلے ماہ پشاور کے علاقے حیات آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی اپنے اندر سے کچھ مزاحمت کا سامنا ہے اور حکومت کے اندر بھی کچھ ادارے وزیر اعظم نواز شریف کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ حکومت تو یہی دعویٰ کریگی کہ سیاسی قیادت اور فوجی قیادت کا نکتہ نظر ایک ہے لیکن کیا کریں کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومتی کوشش کے باوجود عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور پرویز مشرف کئی ہفتوں سے عدالت میں پیش ہونے کی بجائے ایک فوجی ہسپتال میں پناہ گزین ہیں۔ یہ صورتحال بہت سے سوالات پیدا کررہی ہے اور اہم ترین سوال یہ ہے کہ جو لوگ اور ادارے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات آئین کے اندر رہ کر کئے جائیں وہ خود آئین کا اور عدالتوں کا احترام کب شروع کریں گے؟ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ خدا نخواستہ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے اور شمالی وزیرستان میں ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تو سب جانتے ہیں کہ طالبان کا جواب شمالی وزیرستان میں نہیں آئے گا بلکہ اس مرتبہ وہ اپنا جواب لاہور سے شروع کرکے کراچی تک لے جائیں گے۔ تو کیا پنجاب اور سندھ کو فوج کے حوالے کیا جائے گا؟ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں فوجی آپریشن ہوا تو ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ شمالی وزیرستان سے ہجرت پر مجبور ہوجائیں گے۔ کچھ تو خیبر پختونخوا، پنجاب اور کراچی کی طرف جائیں گے لیکن بہت سے افغانستان بھی چلے جائیں جہاں تحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنما پہلے سے موجود ہیں۔

2014ء میں امریکی فوج کا افغانستان میں اثر بہت کم رہ جائے گا اور افغان حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ مل کر کچھ بھی کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ افغان طالبان کے ذریعہ پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرلیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہمارا اہم ترین مقصد پاکستان میں قیام امن ہونا چاہئے اور امن کے لئے پرامن مذاکرات کا راستہ بہترین ہے، مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر جنگ ہوگی لیکن جنگ ہو یا امن حکومت کے سب اداروں میں ہم آہنگی ضروری ہے مجھے یہ ہم آہنگی نظر نہیں آرہی۔


بشکریہ روزنامہ ' جنگ

Pakistan Peace Talks with Taliban by Hamid Mir

Enhanced by Zemanta