Showing posts with label Muslim. Show all posts

Muslim groups denounce beheading of US journalist Steven Sotloff


Leading Muslim institutions denounced the killing of Steven Sotloff, the second US journalist to be executed by Islamic State militants and President Barrack Obama vowed to build a coalition to “degrade and destroy” the extremist group. 

“This is obviously a criminal act which we greatly denounce,” Maha Akeel of the Organization of the Islamic Conference told Al Arabiya News, voicing the same condemnation the group issued when IS released a video of the execution of US journalist James Foley. “They claim that they do their acts in the name of Islam but their doing has nothing to do with Islam,” Akeel said.

“We can’t call them an Islamic group, but a criminal one,” she explained, emphasizing Al-Azhar’s online campaign, which urges people and news outlets to stop calling the group Islamic. Al-Azhar is the top Islamic authority in Egypt and it is also highly revered by many Muslims worldwide. Former deputy imam of Al-Azhar Sheikh Mahmoud Ashour told Al Arabiya News that Sotloff’s killing was not only against humanity but “there is no religion that accepts the killing of a human soul.”

The largest Muslim civil rights and advocacy organization in the US, the Council on American-Islamic Relations, said: “No words can describe the horror, disgust and sorrow felt by Muslims in America and worldwide at the unconscionable and un-Islamic violence perpetrated by the IS terror group. The criminal actions of IS are antithetical to the faith of Islam.”

Obama reaffirmed that Washington would not be intimidated by IS militants. “Those who make the mistake of harming Americans will learn that we will not forget and that our reach is long and that justice will be served,” he said. — Al Arabiya News/Agencies

غزہ پر صہیونی ریاست کی وحشیانہ بمباری.......


جولائی بروز بدھ صہیونی ریاست نے غزہ کی شہری آبادی پر وحشیانہ فضائی اور بحری بمباری کر کے ایک دن میں 3 عورتوں اور بچوں کے بشمول 35 شہریوں کو ہلاک جبکہ تین دن سے جاری اس خونیں کھیل میں 61 فلسطینی لقمۂ اجل بن گئے اور 370سے زائد زخمی ہو گئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ ان کی جانب سے اسرائیل کی سرزمین پر راکٹ باری ہوتی رہی ہے۔ صہیونی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی کارروائی کا مقصد اسرائیل پر راکٹ حملے روکنا ہے چنانچہ 7،8 جولائی اس نے 430 مقامات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ 9 جولائی کو مزاحمت کاروں کے 270 سے زائد ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ دو حملہ آور اسرائیلی طیاروں نے 9 جولائی کی صبح بیت حنون میں حماس کمانڈر حافظ احمد کے گھر پر بمباری کر کے ان سمیت پانچ اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اسرائیلی بحریہ کے حملوں میں حماس کے چار عسکریت پسند مارے گئے۔ اس سے قبل 7 جولائی کو اسرائیل لڑاکا طیاروں نے حماس کے عسکری دھڑے عزالدین قسام کے 9 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا۔ لیکن اسرائیل کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ صرف حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا ہے کیونکہ جولائی کے پہلے ہفتے میں اسرائیلی حملے میں 16 فلسطینی بشمول عورتیں اور بچے ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 9 جولائی بدھ کے فضائی اور بحری حملوں میں پچاس گھر مکمل طور پر تباہ کر دیئے گئے اور ایک ہزار سات سو گھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

حالیہ جھڑپوں کے دوران حماس عسکریت پسندوں نے اسرائیلی سر زمین پر اب تک ڈیڑھ سو راکٹ برسائے جس پر اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل چیخ پڑا کہ خبردار راکٹ باری نہیں ہونی چاہیے اور متحاربین تشدد سے گریز کریں۔ میں غزہ اسرائیل کی ہفتہ وار فضائی اور بحری بمباری سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا مندرجہ بالا سطور میں اجمالی ذکر کر چکا ہوں اور اس کے مقابلے میں فلسطینیوں کی راکٹ باری سے ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا تو ان دونوں کو مساوی جرائم کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ نیز اسرائیل نے اپنی چالیس ہزار فاضل فوج (Reserve Force) طلب کر لی ہے جبکہ غزہ کی سرحد پر مزید ٹینک تعینات کر دیئے ہیں۔ کیا یہ وسیع تر جنگ کی تیاری نہیں ہے؟ ماضی میں اسرائیل 2008ء اور 2012ء میں غزوہ پر فوج کشی کر چکا ہے ۔ 2012ء میں اسرائیل غزہ پر بھرپور حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا تو مصر اور ترکی کے دباؤ پر حماس اور اسرائیل میں ان شرائط پر جنگ بندی ہو گئی تھی کہ:

(1) صہیونی ریاست غزہ کی ناکہ بندی ختم کر دے جبکہ
(2) حماس اسرائیل کی سرزمین پر راکٹ حملے نہ کرے۔ حماس نے توراکٹ باری بند کر دی لیکن صہیونی ریاست نے غزہ کی ناکہ بندی ختم نہیں کی۔

اسرائیل سلامتی کونسل کی قرار داد اور جنیوا کنونشن چہارم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں عربوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے امریکی مالی امداد کی رقم سے یہودی بستیاں تعمیر کرتا رہا ۔مذاکرات کی بحالی کو یہودی بستیوں کی تعمیر کے خاتمے سے مشروط کرنا پڑا۔ لیکن امریکہ نے نیتن یاہو کو یہودی بستیوں کی تعمیر سے روکنے کی بجائے محمود عباس پر دباؤ ڈال کر اس شرط پر مذاکرات میں حصہ لینے پر راضی کر لیا کہ اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر کی رفتار سست کر دے گا اور محمود عباس راضی ہو گئے ۔ اب جبکہ الفتح اور حماس میں کئی سال کی محاذ آرائی کے بعد مفاہمت ہو گئی تو امریکہ اور صہیونی ریاست نے دونوں کی مخلوط حکومت کی اس بنا پر مخالفت کی کہ اس دہشت گرد تنظیم جس کے ساتھ الفتح کو حکومت نہیں بنانا چاہیے۔ صہیونی جارحیت کا الٹا اثر ہوا کہ محمود عباس نے اقوام متحدہ کے نمائندے برائے فلسطین رابرٹ سرے کے ہاتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو مراسلہ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی شہری آبادی پر صہیونی بمباری کے نتیجے میں پیدا شدہ تباہ کاری کی انکوائری کرائی جائے ۔ جب سے الفتح اور حماس کے مابین مفاہمت ہوئی ہے تو وہ ایک زبان ہو کر عالمی تنظیم سے اسرائیلی جارحیت کے سدباب کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ مصر اور اردن نے بھی غزہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ (اسلام 10 جولائی 2014ء) یہ سب اپنی جگہ درست لیکن حماس کو بھی بلاوجہ اسرائیل کو اشتعال دینے سے احتراز کرنا چاہیے۔ مثلاً اسرائیلی نوجوانوں کا اغوا اور قتل انتہائی مذموم فعل ہے جتنا ابو قبطر کے انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں زندہ جلانا۔

یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس بار نیتن یاہو نے فلسطینی نوجوان کے اغوا اورقتل کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس غیر انسانی فعل کے مرتکب یہودیوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے عز م کا عملی مظاہرہ کیاہے جبکہ اسرائیلی پولیس نے چھ مشتبہ یہودیوں پر ابو قبطر کے اغوا اور قتل کی فرد جرم عائد کر دی ہے۔ ادھر یہودی ریاست پر بھی لازم ہے کہ اب وہ فلسطینی ریاست کے قیام میں مزاحمت نہ کرے ورنہ مقبوضہ علاقے کی آبادی قابض ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ بیرونی فوجی قبضہ خالی کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔ مانا کہ اسرائیل اپنی عسکری برتری سے فلسطین کو کھنڈر بنا سکتا ہے لیکن وہ بیس لاکھ فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے نہیں مٹا سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل شام اور عراق کی خانہ جنگی میں ملوث عرب اور علاقائی ریاستوں کے باہمی اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس کی کمر توڑنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ مندرجہ بالا بحران کے باعث بڑی طاقتوں کی توجہ فلسطین پر مرکوز نہیں ہو گی اس لیے وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود حریت پسندوں کا قلع قمع کر دینا چاہتا ہے لیکن جب حریت پسندوں کی جڑیں عوام میں پیوست ہوں تو انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ اور نیٹو کی عبرتناک شکست استعمار کے مہم جوؤں کی ہمت شکنی کے لیے کافی ہے۔ کیا اس کے باوجود امریکہ یورپی استعمار اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ جس ملک اور قوم کو چاہے ان کی تسخیر کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو امریکہ ویتنام، افغانستان اور عراق کے میدان جنگ سے راہ فرار نہ اختیار کرتا۔

بہ شکریہ روزنامہ ’’نئی بات 

مسلم ممالک اور خود احتسابی........


عراق میں جاری چو طرفہ ہما ہمی اور شورش اگر ایک جانب انتہائی قابل تشویش ہے تو دوسری جانب اس بحران سے کئی پہلو بھی جڑے ہوئے ہیں اور کئی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ بین النہرین (میسوپو ٹیمیا) کہلانے والا یہ خطہ نہ صرف ایک شاندار تہذیب و ثقافت کا گواہ ہے بلکہ اس سے علوم و فنون کا ایک زریں دور بھی وابستہ ہے اور یہ اپنے آپ میں زندگی کی روشنی سمیٹے ہوئے ہے۔ دریائے دجلہ و فرات کا مستقر عراق ہے۔ یہ 'دار الحکمہ' کی سر زمین ہے جہاں سے پھوٹنے والی علم و حکمت کی روشنی پوری دنیا میں پھیلی اور یہی وہ سر زمین ہے جہاں مسلم تہذیب و ثقافت اپنی آن بان اور شان کے ساتھ پورے عروج پر تھی۔

الف لیلوی داستانوں نے یہیں جنم لیا۔ شہر زادے کی کہانیوں کا تعلق بھی اسی ملک سے ہے۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں امام ابو حنیفہ جیسے عالم و فاضل بزرگ کی بابرکت موجودگی سے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے ہزاروں افراد نے فیض حاصل کیا اور اپنی علم کی پیاس بجھائی یہی وہ سر زمین ہے جہاں حق و باطل کے معرکے میں شہید ہونے والے نواسئہِ رسول حضرت امام حسین اور اہل بیت آسودہ خاک ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ کا المیہ تھا کہ نواسہ رسول اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] کے پیروکاروں ہی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ عراق کو کچھ ایسا ہی معرکہ آج بھی درپیش ہے جب اسلام کے ماننے والے ایک ہی دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ افسوس کہ یہ المیہ کب اور کیسے ختم ہو گا، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

آیت اللہ علی السستانی نے گزشتہ ہفتے دولت اسلامیہ عراق و شام [داعش] کے جنگجوؤں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ جمعہ کے خطاب میں آیت اللہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ نیکی اور بدی کے درمیان جنگ ہے۔ ان کے اس اعلان کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے جگجوؤں کے خلاف لڑائی میں اپنے نام لکھوانا شروع کر دیے جن میں ڈاکٹر اور پیشہ ور افراد کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ وہ اس لڑائی میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں یہ واقعی ایک ایسی جنگ ہے جس کے خطرات پورے عالم اسلام کو اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں.
یہ حق و باطل کے درمیان لڑائی تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حق کے علمبردار کون لوگ ہیں اور باطل کا ساتھ کون لوگ دے رہے ہیں۔؟ اس سوال کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک میں دیکھ اور سمجھ رہا ہوں کہ مسلمان بھائی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے ہیں۔ جہاں تک میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے مسلمانوں کے خون سے عالم اسلام لہولہاں نظر آ رہا ہے۔ اب اس جنگ میں جیت کسی کی بھی ہو، شکست امت مسلمہ کی ہو گی اور قوی اندیشہ ہے کہ وہ تمام مقاصد بھی تشنہ تکمیل رہ جائیں گے جنہیں پورا کرنا امت کا اولین فریضہ ہے۔ اہل نظر، موجودہ حالات ہی سے محسوس کر سکتے ہیں کہ شکست ہو چکی ہے۔

مسلمان صرف میدان جنگ میں ہی ایک دوسرے کے خلاف نہیں کھڑے ہیں بلکہ عراق میں یہ جنگ اب سوشل میڈیا پر بھی چھڑ گئی ہے اور مسلمانوں کے دو فرقے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی باہمی نفرت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ہفتے عراق کے ہی موضوع پر شائع ہونے والے میرے ایک مضمون پر قارئین نے جو آراء دی ہیں ان میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی جس سے تقسیم و اختلافات کی صورت حال واضح ہے۔ قارئین نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ میں ایک طبقے کی حمایت کر رہا ہوں اور دونوں ہی طبقات ایک دوسرے کو مجرم قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیا باہمی نفرت کی زنجیروں نے ہمیں کبھی اتنی سختی سے جکڑا تھا اور ہم ایک دوسرے کے اتنے شدید دشمن کبھی بنے تھے۔!

میں محو حیرت ہوں کہ ایک عقیدہ کے پیروکار اور ایک کتاب نیز ایک رسول کے ماننے والے یہ کس ظلمت میں بھٹک رہے ہیں! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل اور صہیونی عناصر نے اپنا کھیل کھیلا ہے اور ان سازش کاروں کے منصوبے صرف عراق تک محدود نہیں ہیں بلکہ انہوں نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ ان کا مقصد صرف اسرائیل عظمیٰ کی تشکیل نہیں ہے بلکہ پاس پڑوس کے مسلم ممالک کے علاقوں پر قبضہ کرنا بھی ہے۔ صہیونی اور عیسائی شدت پسند یہ خواب ایک مدت سے دیکھ رہے ہیں اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنے سازشی ذہن کے ساتھ ہمہ وقت مصروف ہیں۔ میں سازشی نظریات پر آسانی سے یقین کرنے والا شخص نہیں ہوں لیکن خطہ عرب سے لے کر مشرقی ایشیاء تک مسلمانوں کے درمیان جو فرقہ وارانہ خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے، اس سے یہ سمجھے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ان کے پس پشت یقینا کوئی سازش اور مذموم منصوبہ ہی کار فرما ہے۔ مسلمانوں میں رائج مسلکی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر مغربی طاقتیں اپنے مقاصد کی جانب قدم بڑھا رہی ہیں اور اسلام کے خلاف صف آرا ہیں کیونکہ یہی وہ مذہب ہے جسے وہ اپنی عالمی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔

دوسری جانب اسلام کے نام پر ایسے شدت پسند گروہ بھی پوری طاقت کے ساتھ سرگرم ہو چکے ہیں جو دعویٰ تو اسلام، مسلمان اور مسلم ممالک کے تحفظ کا کرتے ہیں لیکن اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ اسرائیل اور صہیونی نواز طاقتیں ہماری کھلی دشمن ہیں لیکن مذکورہ قبیل کے مسلم شدت پسندوں سے تو ہمیں سنگین خطرات لاحق ہیں۔ مسلم ممالک کے مسائل اور بحران کیلئے صرف اسرائیل اور مغرب کو ذمہ دار نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں ہے کہ تیل کے ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال مسلم ممالک ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے ہیں جبکہ انہی وسائل پر عالمی معیشت کا پورا دار ومدار ہے۔

عراق کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو شورش اور بے ہنگم حالات کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ جمہوریت اور انصاف کے نام پر ان ممالک کی حالت کیا سے کیا کر دی گئی ہے اور پھر ظلم و نا انصافی کے خلاف جو جمہوری اور پر امن طریقے سے احتجاج کرتا ہے، اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ جب امن و امان کے لیے اٹھنے والی آواز کو دبایا جائے گا اور مظلوموں کو ان کے وقار سے محروم کر دیا جائے گا، تب شدت پسندی کے خدشات کو کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔
افریقہ سے لے کر عرب تک یہی کچھ ہو رہا ہے اور عراق و شام کی صورتحال ان میں سب سے بدتر ہو چکی ہے۔ یہ سوال ہمیں خود سے کرنا چاہیے کہ ہمنے اب تک ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں اور کیا تیاریاں کی ہیں۔ اگر ہم نے اپنا دہرا معیار ترک نہیں کیا اور منظم کوششیں نہ کیں تو بحران کی ان زنجیروں سے آزاد ہونا ہمارے لئے ممکن نہیں ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ "انقلاب" دہلی

پاکستانیو ! اللہ کا شکر ادا کرو.......


ان کو دبا کر رکھو، جوتی کی نوک کے نیچے۔ ناز برداریاں بہت کر کے دیکھ لیں، یہ سنپولئے ہیں لاکھ دودھ پلائو ڈسنے سے باز نہیں آئیں گے۔ یہ اس تقریر کے چند جملے ہیں کہ 2002ء کے مسلم کش فسادات کے بعد ایک رکن نے گجرات اسٹیٹ اسمبلی میں کی تھی اور موضوع سخن ریاستی مسلمان تھے۔ اس سانحہ میں مسلمانوں کآ جانی نقصان ہندوئوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا تھا۔ پچاس ہندوئوں کے مقابلے میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے۔ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اب ہندوستان کے وزریر اعظم ہیں۔ گو عدالتی کمیشن نے موصوف کو ان فسادات سے بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ مگر الزام ہے کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا اور حالیہ انتخابی مہم میں بھی ان کے تعاقب میں رہا۔ وزیرِ اعظم مودی اس سانحہ میں ملوث تھے یا نہیں۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔

مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان فسادات کے نتیجے میں بھارت بھر میں مسلمانوں
 کے لئے زندگی مزید دشوار ہوگئی۔ وہ معاشی اور سماجی اچھوت قرار پائے۔ ان کے سوشل بائیکاٹ کی مہم اس قدر بھرپور تھی کہ مالکان نے برسوں کے مسلمان کارندوں کو فارغ کردیا۔ انہیں خطرناک کمیونٹی قرار دے کر ان سے بچنے کی تحریک شدومد کے ساتھ چلائی گئی۔ ایسے میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ان بیچاروں کے پاس شناخت چھپانے اور کیموفلاج کرنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا اور اب عالم یہ ہے کہ سردار علی جب تک سادھورام اور رضیہ بی بی، رجنی نہ بن جائے۔ انہیں ادنی ترین نوکری بھی نہیں مل سکتی۔
مسلمانوں کو ملازمت دلوانے کا دھندہ منافع بخش کاروبار ہے اور ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ جنہوں نے ان کی نئی اور پرانی شناخت کے الگ الگ رجسڑ کھول رکھے ہیں۔ ہندووانہ نام بھی خود دیتے ہیں اور اپنی گارنٹی پر ملازمت دلواتے ہیں۔ تنخواہ بھی خود وصول کرتے ہیں اور حق الخدمت کے طور پر ایک چوتھائی کاٹ لیتے ہیں۔ یوں چار ہزار کا ملازم بمشکل تین ہزار وصول کر پاتا ہے۔ گو یہ دھندہ ایک کھلا راز ہے اور پولیس کی آشیرباد سے چل رہا ہے۔ مگر منافقت کا یہ عالم کہ ہر کوئی حیرت اور لاعلمی کا اظہار کرتا ہے، بھانڈا اس وقت پھوٹا جب نئی دہلی میں بہوجن سماج پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی رہائش گاہ پر گھریلو ملازمہ مردہ پائی گئی۔ پولیس تفتیش میں پتہ چلا کہ مرحومہ کا تعلق مغربی بنگال کے ایک مسلمان گھرانے سے تھا اور اپنا نام اور حلیہ بدل کر ملازمت کر رہی تھی۔ مانگ میں سیندور سجائے۔

ساڑھی میں ملبوس کوشیلیا اصل میں مسلمان خاتون کوثر بی بی تھی، جو ہر صبح ہندووانہ پوجا پاٹ بھی کرتی تھی، مبادا بھید کھل جائے اور وہ نوکری سے جاتی رہے۔ بے روزگاری کے اس عالم میں گداگری مسلمانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ چاندنی چوک، جامع مسجد اور بستی نظام کے علاقے میں جن کے غول کے غول دیکھے جاسکتے ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار سے ملحق ہوٹلوں میں زائرین مساکین کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں ایک ہوٹل والے کو ہم نے بھی 500 روپے دیئے کہ دس روپے فی کس کے حساب سے پچاس مساکین کو کھانا کھلا دے اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ادھر سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھاگم بھاگ دوسرے اور تیسرے ہوٹل میں جا رہے تھے۔ عقدہ کھلا کہ یہ مخلوق کام کاج کچھ نہیں کرتی۔ بس سارا دن کھاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا ہوٹل، یہی ان کا کام ہے مگر حیرت ہے کہ سیر پھر بھی نہیں ہوتے۔

ملک بھر میں مسلمانوں کا طرز بود و باش بھی ناگفتہ بہ ہے۔ دنیا کی ہر سہولت سے محروم گندی ترین بستیوں کے ڈبہ نما گھروندوں میں جانوروں سی زندگی ان کا مقدر ہے۔ ان کے لیے تو کرائے کا مکان لینا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دہلی میں مزار غالب سے ملحق غالب اکیڈمی میں ایک مسلمان بینکر سے ملاقات ہوئی۔ جسے نواحی ضلع سے فیملی کو راجدھانی منتقل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی، کیونکہ کرایہ کا مکان نہیں مل رہا تھا۔ ذرا ٹوہ کی تو انکشاف ہوا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کاروباری اور ملازمت پیشہ مسلمانوں کے لیے بھی کرائے کے مکان کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔ ہندو مالکان کا تعصب چھپائے نہیں چھپتا۔ لایعنی قسم کے بہانے بناتے ہیں۔ مکان بھلے سے مہینوں خالی رہے، مگر مسلمان کرایہ دار منظور نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے فرضی شکوک و شبہات اور اذکار رفتہ قسم کی سازشی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں۔

چند برس پیشتر نئی دہلی میں آبادی کے حوالے سے ہونے والے سارک سیمینار میں ایک بھارتی مندوب واویلا کر رہے تھے کہ ’’بھارت مسلم اکثریت کا ملک بننے جا رہا ہے۔ باقی معاملات میں کنجوسی کی طرح لالہ لوگ بچے پیدا کرنے میں بھی ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں ہمسایہ ممالک سے بھی مسلمان دھڑا دھڑ ہندوستان آرہے ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کے لیے تو گویا فلڈ گیٹ کھلا ہے، جو دیش بھر میں گھریلو ملازمین کے طور پر بے حد پاپولر ہو رہےہیں‘‘ اور موصوف نے باقاعدہ حساب لگا کر بتایا تھا کہ اگر یہی حالات رہے تو 2060ء تک انڈپا میں مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی اور ہندوئوں کو یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ماضی کی طرح پھر سے مسلمانوں کی غلامی کے لیے تیار ہو جائو۔ لطف کی بات یہ کہ موصوف کی ان لن ترانیوں کا جواب بھی ایک ہندوستانی مندوب نے ہی دیا تھا۔ جس نے لطیف پیرائے میں کہا تھا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ آپ کے اعداد و شمار دل کو نہیں لگتے۔ ہندو مہیلائیں اتنی بھی گئی گزری نہیں۔

مسلمانوں پر الزام دھرا جاتا ہے کہ نکمے، کام چور، کند ذہن، جاہل اور ناقابل اعتبار ہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کا تمام تر دوش انہی کو دیا جاتا ہے، گھڑی گھڑائی دلیل ہر فورم پر تیار ملتی ہے کہ ترقی کی راہیں تعلیم سے کھلتی ہیں اور مسلمان ٹھہرے تعلیم سے فلاپ، ایسے میں کوئی ان کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ جبکہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم میں پسماندہ رکھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی علمی و ادبی زبان اردو کو نظام اور نصاب سے تقریبا خارج کر دیا گیا ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ جس زمانے میں انگریز نے لاہور میں ایچی سن کالج بنایا تھا تو اسی پایہ کے دو اور کالج راجکوٹ اور اجمیر شریف میں بھی قائم کیے تھے۔

چند برس پیشتر راقم کو خواجہ غریب نواز کے حضور حاضری کا موقع ملا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اکثر مقامی زائرین اجمیر میں چیفس کالج کی موجودگی سے آگاہ بھی نہ تھے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ بھارتی مسلمانوں کو اندرون ملک سکونت تبدیل کرنے کے لیے سرکار سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ راقم نے جب اس پر اظہار حیرت کیا تو ایک خاصے پڑھے لکھے ہندو نے ازراہ تفنن کہا تھا کہ یہ سبق ہم نے آپ سے ہی سیکھا ہے۔ آپ نے جو سارے مہاجر کراچی میں جمع کر دیئے۔ ہم مسلمانوں کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لے سکتے۔ ہمیں کوئی نیا پاکستان نہیں بنانا۔ بین المذاہب شادیوں کا رواج بھارت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا زیادہ دبائو بھی مسلمانوں پر ہے۔ مسلمان لڑکیاں نسبتاً زیادہ تعداد میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بیاہی جا رہی ہیں۔

جدید تعلیم اور روشن خیالی کے نام پر مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی اقدار عین ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہی ہیں اور وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ پڑھے لکھے ہندو اس کا جواز تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ مسلمان حملہ آور اپنے کنبے قبیلے کون سے ساتھ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بھی تو مقامی ہندو مہیلائوں سے نکاح کر کے ہی گھر بسائے تھے۔ آب صدیوں 
بعد اگر ہمیں حساب برابر کرنے کا موقع ملا ہے تو پریشانی کس بات کی؟

اخلاقی انحطاط........


Ibtisam Elahi Zaheer

مسلم ایجادات جو ہمیشہ قابل فخر رہیں........


آج کے اس جدید دور میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی اور اسی طرح دوسرے جدید ترقی یافتہ ممالک کو دنیا میں ایک اعٰلی مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ہزاروں ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جو کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اپنی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ مغرب کی تمام تر ایجادات مسلمانوں کی ایجادات کی مرہون منت ہیں ان میں سے چند ایک کا زکر کچھ یوں ہے۔ ******

 ٹوتھ برش (مسواک) 6 ہجری میں ہر دلعزیز ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے مسواک کا استعمال کیا۔ انہوں نے مسواک کو استعمال کرنے پر بہت زور دیا اور اس کے فوائد بھی بتائے۔ اسی طرح آج کے اس جدید دور میں مسواک کی طرز پر ٹوتھ برش استعمال ہو رہا ہے۔ جراحی مشہور و معروف مسلمان سائنس دان ابوالازہروی نے 1500 صفحات پر مشتمل جراحی کے متعلق پوری جامع کتاب شائع کی جس میں جراحی کے متعلق ساری معلومات فراہم کی گئیں۔الازہروی کی اس کے علاوہ ایجادات میں بلی کی آنتوںپہلا آپریشن بھی شاملہے۔ کوفی (کافی) اس جدید دور میں جہاں یورپین ثقافت میں کافی کو بہت اہمیت حاصل ہے ،وہاں پر کافی کے نت نئے نام رکھے گئے ہیں۔ حقیقت میں کافی سب سے پہلے یمن میں نویں صدی میں پہلی بار تیار کی گئی، اس کے بعد تیرہویں صدی میں یہ ترکی آئی اور پھر سولہویں صدی میں یورپ میں آئی۔

 اڑنے والا طیارہ عباس ابن فرناس پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے سب سے پہلا طیارہ تیار کیا اور اس کی کامیاب پرواز کی۔ بعد میں ان کے ڈیزائین کی کاپی کی گئی جو کہ اٹلی کے آرٹسٹ نے کی۔ یونیورسٹی کا قیام 958میں دمشق میں پہلے ڈگری پروگرام کا آغازہوا اور اس یونیورسٹی کو اسلام کی تعلیمات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ الجبرہ الجبرہ فارسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے اور نویں صدی میں مسلمان سائنس دان نے کتاب لکھی جس کا نام ‘‘کتاب الجبر ’’ رکھا۔ اور اس کے علاوہ ہندسوں کے متعلق ، تعداد کی پاور دو وغیرہ مسلمان سائنس دانوں کی ایجادات ہیں۔ علم بصریات بہت ساری اہم بصریات کے متعلق ریسرچ مسلم دنیا سے ہوئی۔ ابو علی الحسن اور الحیشم نے ثابت کیا کہ انسان روشنی کے عکس کے زریعے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری معلومات فراہم کیں جو کہ انسانی آنکھ سے متعلق تھیں۔ ہسپتال کا قیام ہسپتال جو آج ہم دیکھتے ہیں کہجن میں مختلف وارڈز ، نرسنگ سٹاف کی ٹریننگ وغیرہ یہ سب سے پہلے 
مصر میں میں شروع ہوا۔

صمد اسلم
Muslim Scientists and  Discovereis

باصلاحیت اذہان کیسے جمع کئے جائیں؟.......محمد بن راشد المکتوم


یہ 1968ء کی بات ہے جب میں برطانیہ کے مونس کیڈٹ اسکول میں زیر تعلیم تھا تو ایک دن مجھے اسپتال جانے کی ضرورت پڑ گئی۔ وہاں پر میری ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوئی جس کو روانی سے عربی بولتے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ برطانیہ میں نیا نیا آیا ہے تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ وہ یہاں عارضی قیام کرے گا یا مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ہے تو اس نے ایک عربی کہاوت بیان کی کہ ’’میرا گھر وہی ہے جہاں مجھے کھانے کو ملے‘‘۔
اس ڈاکٹر کے یہ الفاظ کئی سالوں تک میرے ذہن پر سوار رہے، کیوں کہ ان سے یہ پتہ چلتا تھا کہ ’’اپنے گھر‘‘ کے افسانوی تصور اور زندگی کے تلخ حقائق میں کتنا تفاوت ہے۔ یہی حقیقت باصلاحیت افراد کو اپنا گھر یعنی ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ ڈاکٹر ذہین افراد کے انخلاء جس کو انگریزی میں ’’برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں، کی ایک خاص مثال تھا۔ برین ڈرین کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو کئی عشروں سے مسائل درپیش ہیں۔ یہ ممالک اپنے محدود وسائل کو اس امید پر اپنے ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنسدانوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ ان ممالک کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے تاہم انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایسے افراد اپنی صلاحیتوں سمیت مغربی ممالک میں جا کر آباد ہوتے ہیں۔
یقیناً یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی اچھی زندگی کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک میں جا بسے۔ ہمیں معلوم ہے کہ صلاحیت ایک مقناطیس کی طرح موقع کی طرف لپکتی ہے تاہم جو ممالک پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے لئے یہ ایک نہ ختم ہونے والا مکروہ سلسلہ بن جاتا ہے۔ ان ممالک کو ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے لئے باصلاحیت افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن دوسری طرف باصلاحیت افراد ترقی کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے خوشحال مغربی زندگی کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم ’’او ای سی ڈی‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد بیرون ملک کام کے لئے ہجرت کرنے کے رجحان کی شرح میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہر نو میں سے ایک شخص مغرب میں کام کر رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افراد واپس نہیں آئیں گے۔ ہنرمند افراد کے بیرون ملک قیام کے امکانات چھ گنا زیادہ ہیں تاہم اب ایک زبردست تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چند ممالک میں ذہین افراد کی منتقلی کا عمل الٹ گیا ہے اور اس کی وجوہات دلچسپ ہیں۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ ذہین افراد کی منتقلی کا سلسلہ بالآخر رک سکتا ہے جس سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں مواقع اور امید کا توازن بدل سکتا ہے۔

دنیا میں پیشہ ورانہ رابطوں اور ملازمتوں کی فراہمی کے سب سے بڑے آن لائن نیٹ ورک ’’لنکڈ ان‘‘ نے اپنے ممبران کے ذریعے باصلاحیت افراد کی بین الاقوامی نقل و حرکت کو جانچا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق میرا ملک متحدہ عرب امارات ذہین افراد کی پسندیدہ آماجگاہوں میں سر فہرست ہے۔ اس کے مطابق سال 2013ء میں ملک کی افرادی قوت میں باصلاحیت افراد کی شرح میں ایک اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔
باصلاحیت افراد کے پسندیدہ ممالک میں سعودی عرب، نائجیریا، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں باصلاحیت افراد کی آمد ایک تہائی سے بھی کم رہی۔ درحقیقت ایسے افراد کو دوسرے ممالک بھیجنے والوں میں سر فہرست اسپین، برطانیہ، فرانس، افریقہ، اٹلی اور آئرلینڈ ہیں۔ امیر ممالک جو ماضی قریب تک ہمارے روشن دماغوں کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے اب اپنے لوگوں کو ہماری طرف بھیج رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ صرف یہ ایک تحقیق کے نتائج ہیں اور کئی غریب ممالک ابھی تک باصلاحیت افراد کے انخلاء کے قدیمی مسئلے سے دوچار ہیں۔ ’’او ای سی ڈی‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی بیرون ملک منتقلی کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ برین ڈرین میں جتنا کردار معاشی مواقع کی دستیابی کا ہے اتنا ہی تحفظ کی خواہش کا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مسائل میں تنازعات اور عدم استحکام بھی شامل ہے۔ اگر قوم کے انتہائی باصلاحیت بیٹے اور بیٹیاں اپنے ملک میں کارکردگی دکھائیں تو وہ مسئلے کا حل بن سکتے ہیں اور ترقی کے ذریعے امن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس امر کی وجہ سے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کے ہم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے باصلاحیت افراد کے انخلاء کا عمل الٹنے میں کامیابی کا جائزہ لیں۔ مواقع کی دستیابی سب سے اہم چیز ہے۔با صلاحیت افراد خود بخود ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جو معاشی ترقی کا ماحول قائم کریں، کاروبار کو آسان بنائیں اور سرمایہ کاری کو فروغ دیں اور کامیابی کے رجحان کی نشوونما کریں۔
باصلاحیت افراد کامیابی اور چیلنج کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اس سطح کے مواقع مغرب میں محدود ہوتے جا رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں صورت حال مختلف ہے۔ کم از کم ان ممالک میں جہاں اچھی اور مضبوط گورننس کی لگن موجود ہے اور جو خوب سے خوب تر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ معیار زندگی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ گذشتہ نسل کے لوگ مغرب سے باہر کام کرنے کو ایک دقت سمجھتے تھے۔ آج متحدہ عرب امارات کا معیار زندگی دنیا میں بہترین گردانا جاتا ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ باصلاحیت افراد کی منتقلی کے عمل کو الٹا جانا اور اپنے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانا ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔

آخر کار خوشی اور خوشحالی کا فروغ کسی بھی حکومت کا بنیادی کام ہے۔ ہماری کہانی خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے لئے ایک امید کی کرن ہے کیوں کہ اس خطے میں تنازعات اور مایوسیوں نے بڑے پیمانے پر بیرون ملک منتقلی کو فروغ دیا ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا کہ اچھی گورننس کے علاوہ عرب دنیا میں اختلافات اور مسائل کا حل بنیادی سطح پر ترقی اور معاشی مواقع کی فراہمی میں مضمر ہے۔ اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ان عوامل کو روکا جا سکے جنہوں نے ماضی میں ہمارے باصلاحیت افراد کو ہم سے جدا کر دیا تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی جلد ممکن ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چھوٹے ممالک برین ڈرین سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے ملک اور تنازعات سے بھرپور خطے میں بھی ایک ’’امید کے جزیرے‘‘ کا قیام ممکن ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ برین ڈرین کے الٹنے کا مطلب صرف صلاحیت کے انخلاء کو روکنا ہی نہیں بلکہ ایک مکروہ سلسلے کو ایک خوش آئند سلسلے میں تبدیل کرنا بھی ہے۔
دنیا بھر سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اپنے ہاں لانے سے ہم ایک متحرک اور متفرق معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جس سے جدت اور ترقی حاصل ہو گی اور یہ عمل مزید باصلاحیت افراد کو اپنی طرف کھینچے گا۔ اس کے لئے ہمیں لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا۔ انسان کے خیالات، خواب، تخلیقی صلاحیتیں مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ اس طرح ذہانت کی واپسی بجائے خود ایک بڑی کامیابی نہیں بلکہ یہ ترقی کی ایک علامت ہے کیوں کہ جہاں آج عظیم لوگ موجود ہوں گے وہاں کل عظیم کمالات برپا ہوں گے۔
(مصنف متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران ہیں)  
۔۔۔۔۔ بشکریہ روزنامہ 'جنگ'


Fashion


Takbeer Day and Pakistan and India Relations by Ibtisam Elahi Zaheer


Takbeer Day and Pakistan and India Relations by Ibtisam Elahi Zaheer
Enhanced by Zemanta

کم عمری کی شادی.......Child Marriage


Child Marriage by Ibtisam Elahi Zaheer
Enhanced by Zemanta

Child Protection in Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer

Child Protection in Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer
Enhanced by Zemanta

Qurtaba Mosque Spain

 
 
 
 
 
 
 
 
 

 
 
 
 

Pakistan is beautiful — and it's mine


کرہ ارض پر موجود آزاد ممالک اور ریاستوں کا شمار کیا جائے تو چھوٹے بڑے ممالک کو ملا کر یہ تعداد 200 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ملک جو آبادی کے اعتبار سے چھٹے اور رقبے کے لحاظ سے 34ویں نمبر پر ہے، اسے دنیا بھر کے دانشور عجوبہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ملک بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لئے کہ قدرت نے اسے بیشمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔یہ ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام اس کے مقابلے میں دس گنا بڑا ہے۔

بہترین موسم، گرم پانیوں، معتدل آب و ہوا اور زرخیز زمین کے باعث یہ خطہ کاشتکاری کے لئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس ملک کی 40 فیصد زرعی اراضی اب بھی کاشتکاری کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئی اور جدید سہولتوں کے فقدان کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ ملک دنیا بھر میں دیسی گھی کی پیداوار کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ بھینس کے دودھ اور چنے کے مراکز کا جائزہ لینے لگیں تو یہ ملک دوسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بھنڈی سمیت بہت سی سبزیوں کی پیداوار کے اعتبار سے عالمی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق یہ ملک تیسرے نمبرہے۔ اگر خوبانی ،کپاس اور گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست بنانے لگیں تو اس ملک کا شمار چوتھے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر کے ضمن میں اسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک کھجور اور انواع و اقسام کی دالیں پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ چاول اور گوبھی کی پیداوار کے حوالے سے یہ آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ساگ، میتھی، پالک اور گندم کی فصل کا حساب لگایا جائے، تو یہ ان تمام ممالک پر سبقت لے جانے میں نویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں ہر سال 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔ گندم کے بعد دوسری بڑی غذائی جنس چاول ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہر سال 670 ملین میٹرک ٹن چاول اگاتے ہیں جس میں اس ملک کا حصہ تقریباً 7ملین میٹرک ٹن ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے معاملے میں یہ ملک نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ہر سال 470000 ٹن فروٹ اور420000 ٹن سبزیاں بر آمد بھی کرتا ہے۔ یوں زرعی اجناس کی مجموعی پیداوار کے میدان میں اس ملک کا 25 واں نمبر ہے۔

یہ ملک صرف زرعی اعتبار سے ہی خوش قسمت نہیں بلکہ صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بھی 55ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات یورپ تک فروخت ہوتی ہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک قسمت کا دھنی ہے۔ یہ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے، گیس کے ذخائر کے حوالے سے چھٹے جبکہ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک میں سونے کا صرف ایک بڑا ذخیرہ جو دریافت تو ہو چکا مگر ابھی تک پہاڑوں کے نیچے ہی دفن ہے،اس کی مالیت کا تخمینہ 300ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہاں کوئلے کا صرف ایک ذخیرہ جو 9600 مربع کلومیٹر تک محیط ہے، یہاں 184بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کا تخمینہ 25000ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں کوئلے سے 10 کروڑ بیرل ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے، 500 سال تک بلاتعطل سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے یا پھر لاکھوں ٹن کھاد تیارکی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس ملک میں74 ملین ٹن ایلومونئم دستیاب ہے، 500 ملین ٹن تانبا موجود ہے، 46 ملین ٹن جست دریافت ہو چکا، 350 ملین ٹن جپسیم ڈھونڈا جا چکا ہے، فاسفیٹ کے ذخائر کی مقدار 22ملین ٹن ہے جبکہ لوہے کے ذخائر کی مقدار 600 ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔

اگر آپ کمزور دل کے مالک نہیں تو میں آپ کو بتا ہی دوں کہ یہ خوش قسمت ملک کوئی اور نہیں، آپ کا پیارا پاکستان ہے، جہاں غربت کا ننگا ناچ ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک آٹھویں عالمی طاقت ہے،اس کے پاس دنیا کی چوتھی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی اور چھٹی طاقتور ترین فوج ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور دہشت گردی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ان سب وسائل کے باوجود پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے یومیہ ہو جائے تو مجھے اس بات سے کیا غرض کہ کہاں کتنے ٹن کوئلے کے ذخائر موجو د ہیں؟ میر پور خاص ڈویژن کی ایک چھوٹی سی تحصیل کُنری سے جھڈو تک کا علاقہ جسے ریڈ چلی کاریڈور کہتے ہیں، یہاں سالانہ 2لاکھ ٹن سرخ مرچ پیدا ہوتی ہے اور اسے ایشیاء کی سب سے بڑی آڑھت کا درجہ حاصل ہے تو سندھی اس فخر کا کیا کریں ؟ بچوں کو کھانے کے بجائے یہ ایوارڈ تو نہیں کھلایا جا سکتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود تھر میں قحط سے بھوکوں مرتے انسانوں کو اس بات میں کیا دلچسپی کہ ریت کے نیچے دفن زمین میں بلیک گولڈ کی کتنی مقدار موجود ہے۔ دودھ کے لئے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے بچوں کو یہ لالی پاپ کیسے دیا جائے کہ ان کا ملک دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جوہڑ سے جانوروں کے ساتھ پانی پیتے اور تعفن زدہ گوٹھوں کے کچے مکانوں میں سسک سسک کر جیتے سندھیوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ موہنجودڑو میں تہذیب و ثقافت کے کیسے دفینے موجود ہیں۔ لاڑکانہ اور شہداد پور میں بنیادی سہولتوں سے محروم بدقسمت افراد کے اس بات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ ان کی دھرتی کس قدر خوش قسمت ہے۔ بلوچستان کے وہ دورافتادہ دیہات جہاں اس ترقی یافتہ دورمیں بھی کسی گھر میں سنگ و خشت کا عمل دخل نہیں، مٹی اور گارے سے ایستادہ گھروں میں مقیم ان پاکستانیوں کو میں کیسے سمجھائوں کہ یہاں کتنے ملین ٹن جپسم دریافت ہوئی ہے۔ جہاں زندگی کا کوئی مول نہیں،وہاں یہ بات کس قدر بے معنی لگتی ہے کہ تمہارے ہاں ریکوڈک کے علاقے میں سونے کے ذخائر کی مالیت بہت زیادہ ہے۔

میں جنوبی پنجاب میں پھٹے پُرانے کپڑوں میں کپاس چُنتی خواتین کو کیسے بتائوں کہ ریشم کے تار بُنتی ملوں کا کپڑا ان کی پہنچ سے کیوں دور ہے۔ جہاں بکرے کا گوشت کھانے کے لئے عیدالاضحی کا انتظار کیا جاتا ہو، وہاں یہ بات کس قدر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان سالانہ کتنے ٹن گوشت برآمد کرتا ہے اور اس سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وہ غیور پاکستانی جو دس سے پندرہ روپے کی روٹی خریدتے ہیں ،انہیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار براعظم جنوبی امریکہ کے برابر ہے۔ یہ سوال ہم سب کے لئے سوہان روح ہے کہ ہماراملک بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت کیوں ہے؟کبھی اناج کا قحط، کبھی چینی کی قلت، کبھی پانی کی کمی سے سوکھتی فصلیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبتے کھیت، کبھی پیٹرول اور گیس کی عدم دستیابی تو کبھی بجلی کی قلت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو یہاں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں،صرف قیادت کا شارٹ فال ہے۔ جس دن ہم اس شارٹ فال کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رہزنوں کے روپ میں موجود رہبروں سے نجات مل گئی،سب الجھنیں سلجھ جائیں گی،سب دکھ ٹل جائیں گے اور ہم سب کے دن بدل جائیں گے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ

Pakistan is beautiful — and it's mine "

Enhanced by Zemanta

یوکرین میں روس اور مغرب کی رسہ کشی


یوکرین میں سابق صدر وکٹریانوکووچ کی جانب سے 21 نومبر کو یوکرین کے ساتھ وابستگی کے معاہدے کی یورپی یونین کی پیشکش ردکیے جانے کے بعد مغربی یوکرین میں حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کی لہر نے شدت اختیار کرلی اور دارالحکومت خیف میں مشتعل ہجوم نے سرکاری عمارتوں اور دفاتر پر قبضہ کرلیا جس سے حکومت کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ صدر یانوکووچ نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دبائو پر ایسا اقدام کیا جس کے خلاف مغربی یوکرین کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہرچند کہ صدر پیوٹن نے یوکرین کی خستہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اس سے 15 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، تاہم مغربی یوکرین کے عوام مطمئن نہ ہوئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ روس کے مقابلے میں یورپی یونین کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی پیشکش کو انہوں نے اس تنظیم میں شمولیت کا پیش خیمہ تصور کرلیا جو قرین قیاس بھی ہے۔ جو بات ذرائع ابلاغ نیچھپائی وہ یہ تھی کہ مشرقی یوکرین کے عوام جو روسی نژاد ہیں وہ روس سے قربت محسوس کرتے ہیں، چنانچہ وہاں کی رائے عامہ نے احتجاج میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ الٹا وہ مغربی یوکرین کے عوام کے احتجاج کو ریاست سے غداری پر محمول کرتے تھے، لیکن چونکہ چھیالیس لاکھ آبادی والی اس ریاست میں یوکرین نژاد باشندوں کی تعداد کل آبادی کا 73 فیصد ہے، جبکہ مشرقی یوکرین کی روسی نژاد آبادی صرف 22 فیصد ہے، اس لیے وہ اقلیت میں ہیں، لیکن چونکہ یوکرین روس کی قائم کردہ تنظیم Eurasian Union کا رکن ہے لہٰذا اگر وہ اس تنظیم کو چھوڑ کر یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے اندرون ملک روسی آبادی کی مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف روس بھی مزاحمت کرے گا جیسا کہ صدر پیوٹن کے یوکرین سے روس کی فراہم کردہ گیس کی واجب الادا تین ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یوکرین ہی پر کیا منحصر ہے جرمنی سمیت یورپی یونین کے بیشتر ممالک کا روس کی فراہم کردہ گیس پر دارومدار ہے۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں تیل اور گیس سے یکسر محروم ہیں اس لیے اگر روس یوکرین کو ترسیل کرنے والی پائپ لائن کو منقطع کردے تو یوکرین کی معیشت میں بحران اٹھ کھڑا ہوگا۔ ویسے اقتصادی عوامل کے علاوہ تزویراتی حقائق بھی یوکرین کی روس سے علیحدگی کے خلاف ہیں، کیونکہ بحیرۂ اسود میں روس کا بحری بیڑا ہے جبکہ Sevaste pol روس کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ 1991ء میں روس سے علیحدگی کے بعد یوکرین نے روس کا بحری اڈہ خالی کرانے پر جب اصرارکیا تو دونوں ملکوں میں بڑی کشیدگی پیدا ہوگئی، بالآخر فریقین نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے 1997ء میں سمجھوتہ کرلیا اور دونوں نے معاہدۂ دوستی پر دستخط کردیے۔

اب اگر یوکرین Eurasian Union ترک کرکے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو کیا روس بحیرہ اسود میں اپنے بحری بیڑے کو برقرار رکھ سکے گا؟ کیونکہ یورپی یونین میں شمولیت کے بعد مغرب کا استعماری ٹولہ یوکرین کو گھسیٹ کر ناٹو میں لے جائے گا، اس طرح ناٹو کا جال روس کی سرحد تک پھیل جائے گا۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گورباچوف کے جانشین نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور معاہدۂ وارسا کو تحلیل کردیا، کیونکہ جب اشتراکی اور سرمایہ دار ریاستوں میں نظریاتی تصادم ختم ہوگیا تو دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ گورباچوف اور بورس یلسن کی سوچ تھی، جبکہ ناٹو کے عسکریت پسند اسے تزویراتی تناظر میں دیکھ رہے تھے، ان کا خیال تھا کہ روس سے کمیونزم ختم ہوگیا تو کیا ہوا، روس تو باقی ہے جو کمیونزم سے قبل زار کے زمانے میں بھی مغربی استعمار کا حریف تھا اور آج بھی ہے، لہٰذا ناٹو کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہیے بلکہ اس کا دائرۂ کار یورپ سے پھیلا کر سارے کرۂ ارض پر محیط کردیا جانا چاہیے۔ یہ محرکات عالمی نظام کی پشت پر کارفرما تھے۔

یوکرین میں آزادی کے بعد جو کچھ ہوا وہ انہی داخلی اور خارجی عوامل کے تصادم کی علامت تھا۔ یوکرین میں دو واضح قوتیں ابھریں۔ ایک یوکرین کو روس سے وابستہ رکھنا چاہتی ہے جبکہ دوسری اسے روس سے ماورا یورپی یونین کے حلقہ اثر میں لے جانا چاہتی ہیں، ٹھیک اسی طرح جس طرح مشرقی یورپ کی سابق اشتراکی ریاستیں پولینڈ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ جارجیا‘ چیک اور سلوواک جمہوریائیں یورپی یونین اور ناٹو کی رکن ہیں۔

یہ تضاد 2004ء میں وکٹریانوکووچ کے صدارتی انتخاب کے وقت رونما ہوا۔ اُس وقت مغرب کی حمایت یافتہ پارٹیوں نے yulia Timoshenko کی قیادت میں انتخاب میں بے ایمانی کے خلاف احتجاج کیا اور بالآخر انہیں کامیابی ہوئی، لیکن 2004ء کے احتجاج میں امریکی ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں کی فروغ جمہوریت سے متعلق کمیٹیوں نے مغرب نواز پارٹیوں کی مالی امداد کی جو کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کے مترادف ہے، اور اس بار بھی صدر وکٹریانوکووچ کے خلاف چار ماہ سے جاری احتجاج میں بھی امریکہ اور یورپی یونین نے مداخلت کی۔ اس کے ثبوت میں روس نے امریکی سفیر برائے یوکرین اور امریکی محکمہ خارجہ کی معاون سیکریٹری وکٹوریہ نولینڈ کی ٹیلی فون پر خفیہ گفتگو کا ریکارڈ نشر کردیا جس میں محترمہ امریکی سفیر کو ہدایت دے رہی تھیں کہ وہ فلاں فلاں مقامی سیاستدانوں کو ہرممکن امداد فراہم کریں۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ یوکرین میں حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کی جو لہر دوڑی تھی وہ امریکی مداخلت کے نتیجے میں موجزن ہوئی۔ دراصل وکٹر یانوکووچ راشی‘ خائن‘ بددیانت حکمراں ثابت ہوا، جیسا کہ اس کے عالیشان مرمریں محل اور اس کی تزئین سے ظاہر ہوتا ہے جو ہرگز ایک لاکھ ڈالر تنخواہ دار عہدیدار کی بساط سے باہر ہے۔ اس طرح ان کی حریف یولیا ٹموشنکو جو Father Land Party کی سربراہ اور سابق وزیراعظم رہ چکی ہیں، محکمہ گیس میں خوردبرد اور بعد ازاں 2011ء میں اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں سات سال کی سزا پاچکی ہیں لیکن خوش قسمتی سے عوامی احتجاج کے دبائو پر پارلیمان کو انہیں باعزت بری کرنا پڑا اور اب ان کے حلیف Oleksandr Turchenov نہ صرف پارلیمان کے اسپیکر منتخب ہوگئے ہیں بلکہ عبوری حکومت کے صدر بھی بنادیے گئے۔

یہ تبدیلیاں اتنی جلد واقع ہوئیں کہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا یہ ملک کی اکثریت کے دبائو پر ظہور پذیر ہوئیں یا صرف مغربی یوکرین کے عوام کی مرضی کے مطابق رونما ہوئیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب پولیس نے مظاہرین پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں 18 فروری سے لے کر 20 فروری تک خیف میں سو افراد ہلاک ہوگئے تو شہر کی آبادی مشتعل ہوگئی اور 21 فروری کو یورپی یونین کے وزراء کے دبائو پر وکٹریانوکووچ اور حزب اختلاف کے درمیان کئے ہوئے معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا، جس میں صدر نے اپنی کابینہ کو برخواست کرکے نئی کابینہ تشکیل دی اور احتجاج کے دوران گرفتار شدہ افراد کی رہائی اور دسمبر میں عام انتخابات کا حکم دے دیا تھا۔ (ڈان 22 فروری 2014ئ)

چنانچہ اب صدر مفرور اور روپوش ہوگیا ہے، اس کی جگہ پارلیمان کے اسپیکر نے عبوری مدت تک کے لیے صدارت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے اور مئی میں عام انتخابات کا اعلان بھی کردیا ہے۔

ادھر سابق صدر وکٹریانوکووچ نے ان تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کردیا اور عبوری حکومت کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوائیوں نے سرکاری محکموں پر قبضہ کرلیا اور نام نہاد حکومت بھی بنالی جو ناجائز ہے۔ مغربی ذرائع اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے مغرب کی سیاسی فتح اور روس کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ لیکن محض دعویٰ ثبوت نہیں ہوا کرتا۔ جیسا میں سطورِ بالا میں تحریر کرچکا ہوں کہ یوکرین کا مسئلہ اتنا سہل نہیں ہے کہ اسے انتخاب سلجھا سکے۔ دراصل قوم خود بٹی ہوئی ہے اور اس کا قبلہ ماسکو ہے یا برسلز یعنی واشنگٹن ڈی سی۔ اس ضمن میں تاریخ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوکرین کئی بار آزاد ہوا اور جلد ہی سوویت یونین کے زیرقبضہ آگیا۔ یہ 1922ء کی بات ہے۔ 1939ء میں اس نے دوبارہ آزادی حاصل کی اور نازی جرمنی اور سوویت روس دونوں سے جنگ کی، اور 30 جون 1941ء میں آزاد ہوگیا، لیکن 1944ء میں پھر سوویت یونین کے چنگل میں آگیا اور دسمبر1991ء میں اس کے تحلیل ہونے کے بعد پھر آزاد ہوگیا اور یورپی یونین اور وفاق روس دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اختیار کرکے اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے، لیکن جغرافیائی سیاسی عوامل ایسے ہیں کہ وہ کسی صورت روس سے مخاصمت کرکے اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ لہٰذا مغرب کو چاہیے کہ وہ اپنی ملک گیری کی ہوس پر قابو رکھے اور یوکرین کو ایسی آزمائشوں میں نہ ڈالے جس کے باعث روس اس پر دوبارہ قبضہ کرلے، اور یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے جب یوکرین ناٹو میں رکنیت اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا یورپی استعمار کو اس ننھی سی جان پر رحم کرنا چاہیے۔


پروفیسر شمیم اختر

Enhanced by Zemanta

سعودی عرب سے ہماری سرد مہری پر کف افسوس


میں رجائیت پسند ہوں ، مجھے سب اچھا نظر آتا ہے، سعودی ولی عہد شہزادہ سلیمان بن عبد العزیز پاکستان آئے، میرا دل بلیوں اچھلنے لگاا ور میرے قلم سے محبت کے زمزمے بہہ نکلے ، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ پاکستان نے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی کے لئے معزز مہمان کی درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ کاش! یہ منحوس خبر غلط ہو مگر میں نے پاکستان کے اعلی حکومتی عہدیداروں کے بیانات پڑھے ہیں کہ ہم شام کے مسئلے پر سعودی عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے طیارہ شکن ہتھیار مانگے ہیں، انہی ذرائع کے مطابق یہ اسلحہ شامی مجاہدین نے بشار الا سد کی فضائیہ کے خلاف اپنے دفاع میں استعمال کرنا تھا مگر پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ سکتا ہے جو با لآخر پاک فضائیہ کے خلاف استعمال ہو گا، اس لئے یہ سودا نہیں ہوا۔

میری اقتدار کے ایوانوں تک کوئی رسائی نہیں، حقیقت حال تک پہنچنا میرے لئے قطعی نا ممکن ہے ، میرا تبصرہ صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہو گا ، مگر یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں کہ سعودی ولی عہد کو دو روز قبل26 فروری کو بھارت جانا پڑا جہاں ایئر پورٹ پر انکا استقبال بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے کیا۔ بھارت اور سعودی عرب کی باہمی تجارت پچھلے چار سال میں دوگنا ہو چکی ، اب اس کا حجم 44 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ تجارت 5 ارب ڈالر سے بھی نہیں بڑھ سکی۔ اس کی وجہ زرداری کا دور حکومت ہے جب پاک سعودی تعلقات نقطہ انجماد کو چھو رہے تھے۔ مگر اب ایک سال سے شریف برادران کادور دورہ ہے، وہ چین ، جرمنی،ترکی، امریکہ اور برطانیہ کے دورے پر دورے کر رہے ہیں مگر جو ملک ان کی غریب الوطنی کے دور میں کام آیا، وہ ان کی ترجیحات میں سر فہرست نظر نہیں آتا۔ شریف برادران کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت جلد اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ ادارہ نوائے وقت کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے مگر سعودی عرب نے تو ان کو شاہی محلات پیش کئے، اسٹیل مل لگانے کی اجازت دی۔ سپر اسٹور کھولنے اور چلانے کے لائسنس دیئے اور علاج کے لئے لندن جانے کی بھی اجازت دی حالانکہ یہ جلاوطنی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔

پاکستان کے معاملات عوام کے ہاتھ میں ہیں، شریف برادران اس اختیار کو ہائی جیک نہیں کر سکتے، زرداری نے اس اختیار کو ہائی جیک کیا اور پاکستان کو اس کے عزیز ترین دوست سعودی عرب سے دور کر دیا۔ پاکستانی عوام کو حرمین شریفین سے عقیدت ہے، وہ اس پر جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں، پہلی خلیجی جنگ میں پاکستان نے اپنی فوج سعودی دفاع کے لئے بھیجی، سعودی فوج کی ٹریننگ کے لئے بھی ایک پروگرام جاری ہے، سعودی محبتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں، بھارت نے جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دینے کا حق ادا کر دیا۔ سعودی عرب نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی مخالفت کی۔ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمائت کی، شاہ فیصل نے بادشاہی مسجد میں آنسووں کی زبان میں کشمیر کی آزادی کے لئے دعا مانگی، پاکستان نے لائل پور کو فیصل آباد کانام دے کر شاہ فیصل سے اپنی گہری عقیدت کا ثبوت فراہم کیا، اسلام آباد کے افق پر شاہ فیصل مسجد کے بلندو بالا مینار دونوں ملکوں کے تعلقات کی معراج کا روشن منظر نامہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں دونوں ملک یکساں سوچ کے ساتھ چلتے ہیں۔

تو پھر شام اور ایران کے مسئلے پر پاکستان نے سعودی عرب سے دوری کیوں اختیار کر لی ہے،اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب امریکہ نے سعودی عرب سے فاصلے بڑھا لئے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خطے کے دوسرے ممالک کی دوستی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سعودی عرب نے احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی سیٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کیا پاکستان کے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم امریکی خوشنودی میں اپنے عزیز تریں دوست اور حرمین شریفین کی خادم حکومت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کاش! میری سوچ اور میرا تجزیہ غلط نکلے اور حقیقت میں پاک سعودی دوری کا شائبہ تک نہ ہو لیکن یہ سب کچھ ہمارے کردار اور ہماری پالیسیوں سے ہویدا ہونا چاہئے۔آخر سعودی ولی عہد کو نئی دہلی کیوں جانا پڑا ، یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب نواز شریف تو نہیں دیں گے لیکن مجھے اپنے بھائیوں جیسے دوست سرتاج عزیز سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ عوام کے ذہنوںمیں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔

شام کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی حکومت کو بیرونی مداخلت سے ختم نہیں کرنا چاہئے مگر آج کی دنیا نے عرب بہار کا خیر مقدم کیا،ہم نے بھی کیا، تیونس میں ، سوڈان میں ، لیبیا میں ،مصر میں، تبدیلیوں کا کھلے بازووں سے استقبال کیا۔ہم نے اپنے فوجی آمر جنرل مشرف کو بھی چلتا کیا۔ شام میں بشار الا سد کو حکومت ورثے میں ملی، اس کے باپ حافظ الاسد نے اقتدار پر شب خون مارا، یہ ایک فوجی انقلاب تھا، مصر میں ناصر نے اقتدار چھینا اور عوام کا جینا دو بھر کر دیا، شام میں حافظ الاسد نے عوام کو اپنی طویل آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا، پھر اس کے بیٹے نے اس آمریت کو دوام بخشا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا اور اگر سعودی عرب ان مظلوم عوام کا ساتھ دے رہا ہے تو کونسا گناہ کر رہا ہے۔

ایک طرف سے امریکہ نے ایٹمی ایران سے دوستی کی خاطر سعودی عرب سے دوری اختیار کر لی، دوسری طرف روسی صدر پوتن نے دھمکی دی کہ روسی افواج سعودی عرب کو جارحیت کا نشانہ بنائیں گی۔ یہ پچھلے سال اگست کی بات ہے اور چھ ماہ بعد سعودی ولی عہد ہم سے مدد چاہنے کے لئے آئے اور اگرہم نے ان کو خالی ہاتھ لوٹا دیا ہے تو تف ہے ہمارے ان ایٹمی ڈھیروں پر جو پہاڑوں کی غاروں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ یہ ایٹم بم حرمین شریفین کی حفاظت اور حرمت پر قربان نہیں ہو سکتے تو میری طرف سے ان میں کیڑے پڑ جائیں۔

ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد مفت سعودی تیل کے مزے اڑائے، افغان مجاہدین کی دیکھ بھال کا مسئلہ ہو، زلزلے کی تباہی یا سیلاب کی قیامت ، ہر وقت سعودی عرب پیش پیش۔ سعودی عرب میں ہمارے پاکستانی بھائیوں کی ترسیلات، اوور سیز پاکستانیوں کی کل ترسیلات کا تیس فیصد ہیں، یہی زر مبادلہ ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔

اسے کہتے ہیں جس تھالی میں کھانا ، اسی میں چھید کرنا۔

شریف برادران براہ کرم اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ یہ ان کی ذات ہی کے محسن نہیں ، پورے پاکستانیوں کے محسن ہیں، انڈو نیشیا سے بوسنیا تک پورے عالم ا سلام کے محسن ہیں، میں کبھی بتاﺅں گا کہ بوسنیا کے لئے بظاہر سعودی حج پروازوں میں کیا کچھ جاتا رہا۔ سی ون تھرٹی کی ان پروازوں نے بوسنیا کی آزادی کی بنیاد رکھی۔ آج سعودیہ کی ضرورت ہے۔ ان کی ضرورت کے وقت ان کا ہاتھ مت جھٹکیں۔


بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت"

Enhanced by Zemanta

جیل کے ساتھی…


قیدیوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ہوتا ہے جو انھیں کڑے وقت میں اکیلا اور حوادث زمانہ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ عموماً ایسے ساتھی جیل میں ملاقات کرنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ اگر ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہے تو انھیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں دوران ملاقات یا اس کے بعد جس ساتھی کے ملاقات کے لیے وہ آیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اٹھا کر نہ لے جائیں۔

عموماً ایسے قیدی اپنے دوست احباب اور ساتھیوں سے بڑی بڑی توقعات بھی اس لیے وابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا اثر و رسوخ انھیں مصائب کی دنیا سے جلد نکال سکتا ہے۔ میں نے ایسے لاتعداد قیدی دیکھے ہیں جنھیں اپنے ساتھیوں کی بے وفائی اور بے رخی کا بڑا قلق تھا۔ ایک قیدی نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی عزت و ناموس سب کچھ اپنے ساتھیوں کے لیے قربان کردی، لیکن اس کے ایسے ساتھی بھی تھے جنھوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور اسے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا اور اب اس کا ساتھ دینا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی شرمندگی پر معافی کے بجائے ایسے طریقے اختیار کرلیے کہ اسے جتنا ممکن ہو جیل میں ہی رکھا جاسکے۔ ایک قیدی نے اپنی داستان میں اپنے کچھ ایسے ساتھیوں کا ذکر کیا جنھوں نے اس سے ملاقات ہی چھوڑ دی۔کورٹ میں آنے سے اس لیے گریز کیا کہ کہیں اپنی مفلوک الحالی میں ان سے امداد نہ مانگ لوں۔ اس قیدی کا یہ کہنا تھا کہ دولت تو آنے جانے والی چیزیں ہیں۔ لیکن اپنے ساتھیوں کا رویہ بڑا دل شکن ہے جس نے تمام اعتماد کی دیوار کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔

ایک سیاست زدہ قیدی سے احوال دریافت کیا تو اس نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کہ جو جماعت اس کے چھوٹے مسئلے میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی وہ کسی قوم کی تقدیر بدلنے اور انقلاب کے نعرے لگانے سے باز رہے۔ اسے بھی اپنے رشتوں داروں سے زیادہ اپنے احباب کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا اس قیدی کے جذبات میں زمانے سے شکوئوں سے زیادہ اپنی سیاسی جماعت کی بے رخی کا بڑا دکھ تھا کہ اس نے دل فریب نعروں میں آکر کتنی قربانیاں دیں۔ اپنا سوشل بائیکاٹ کروایا۔ دشمنیاں مول لیں۔ لیکن اس کی جماعت کے بااثر ساتھی، اس کے بجائے منشیات فروشوں کا ساتھ اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ وہ غریب ہے۔ ان کے لیے جرائم کا راستہ اختیار نہیں کرسکتا اور انھیں ناجائز کاموں سے حصہ نہیں دے سکتا۔

یہاں میری حیرانگی دیدنی تھی کہ اگر وہ یہ عمل نہیں کرسکتا تو پھر وہ جیل میں کیوں ہے تو اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ یہ بھی ساتھیوں کا تحفہ ہے۔ ان کی نظر کرم اور بڑے بڑے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔

ایک قیدی نے اپنے بال بچوں کے بے سہارا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے دل میں ہل چل پیدا کردی کہ اس کے گھر والے بے سہارا ہوچکے ہیں۔ مالک مکان نے اس کے گھر والوں کو گھر سے اس لیے نکال دیا کہ وہ کرایہ نہیں ادا کرسکے تھے، کیونکہ ان کے گھر کا واحد کفیل مہینوں سے قید ہے۔مالک مکان نے اس کے گھر والوں کا کوئی عذر اس لیے سننے سے انکار کردیا، کیونکہ وہ ایک سال سے بغیر کرایہ ادا کیے رہ رہے تھے۔ اس قیدی نے بتایا کہ اس کے رشتے دار، بھائی وغیرہ بہت غریب ہیں۔ اس کے حالات بھی کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے فلیٹ، مکان، زمین اور اپنی گاڑی تھی بچے اچھے اسکول میں پڑھتے تھے۔ اچھا کھانا اور اچھا رہن سہن اس کا مقدر تھا۔ لیکن کچھ ساتھیوں کی صحبت نے اسے آہستہ آہستہ ان نعمتوں سے محروم کردیا اور وہ قلاش ہوگیا اور اسکول سے بچے نکال دیے گئے۔

اس قیدی کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے دوست، ساتھی اس کی مدد کریں گے اس کا ساتھ دیں گے۔ اس قیدی نے بتایا کہ ان کا ایک سماجی حیثیت سے وابستہ ایک فورم تھا جس میں صنعت کار، وڈیرے، سرکاری اعلیٰ افسران، سیاسی نمایندے، ایم پی اے، ایم این اے تک اس کے ساتھی تھے۔ لیکن انھوں نے اس تکلیف میں پلٹ کر اس کی خبر تک نہیں لی۔ اس قیدی کا گلہ اپنے ساتھیوں سے اس لیے زیادہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے اپنا سب کچھ ان کی خاطر تباہ کیا ہے اس لیے اگر وہ سب مل کر اس کا ساتھ دیتے تو آج وہ جیل میں نہ ہوتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا۔ اس کے گھر والے در بدر نہ ہوتے۔ فاقے نہ کاٹتے اور انھیں مصائب کا سامنا نہ ہوتا۔

جیل میں ایسے قیدیوں کے احوال بھی سنے جنھوں نے بتایا کہ وہ ایک اچھی زندگی کا خواب سجائے، غلط راستوں پر چلے، لیکن ساتھیوں کی غلط محفل کا انجام بھی غلط ہوا۔ انھوں نے ساتھیوں سے بدلہ لینے کی قسم کھائی۔ کچھ ایسے سیاسی قیدی بھی میری نشست میں گویا ہوئے کہ انھوں نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا لیکن انھیں بے سہارا بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔کسی نے ان کی وجہ سے دبئی میں کاروبار سجا لیے تو کسی نے ملائیشیا میں اپنے خاندان کو سیٹ کرلیا۔ اور یہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مفروضوں اور نظریوں کے تحت مقید یہ قیدی اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آئے کہ انھیں معمولی سی قانونی معاونت بھی فراہم کرنے کی تکلیف نہیں دی جاتی۔ یہاں ان قیدیوں کے ساتھیوں، احباب، رشتے داروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ جیل میں قید اپنے ساتھی، دوست، رشتے داروں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں ان کے لیے کچھ نہ کریں، لیکن انھیں دلاسا تو دے سکتے ہیں۔

جیل میں پڑے یہ قیدی اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سے بڑی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ لیکن بڑی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ جب قیدی اپنی داستان میں روتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ اسے یہ تکلیف دہ دن اپنے ساتھی کی بدولت ممکن ہو رہے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ہزاروں قیدی، لاکھوں داستانیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا مختصراً تذکرہ بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن مخصوص قیدیوں کی مشترکہ داستانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ ان کے ساتھیوں کی بے رخی سے متعلق تھا۔ ایک قیدی نے بطور خاص کہا کہ ’’یہ ضرور لکھنا کہ میں نے کہا تھا ناں کہ ’’بھول مت جانا‘‘دیکھ لو کہ ساتھی آپ سب بھول گئے، گول گپے بھی نہیں کھلائے‘‘۔

غیر مبہم سی فرمائش پر لکھ تو دیا لیکن دل مسوس ہوکر رہ گیا کہ جیسے یہ داستانیں یہ شکوے، شکایتیں کرنے والے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے دوست احباب، رشتے دار سے زیادہ اپنے ساتھی پر بھروسہ کرتے نظر آئے۔ کاش کوئی ساتھی ان کا بھروسہ قائم رکھ دے۔

قادر خان   

Enhanced by Zemanta