Showing posts with label Nasrullah Shaji. Show all posts

The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں


The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

شجیع کو داد شجاعت دیں.......


معلم اور سیاستدان، کیا ان دو شخصیتوں میں کوئی مماثلت ہے؟ کیا آپ پسند کریںگے کہ پاکستانی سیاستدان آپ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھائیں، اسکول یا کالج کی سطح پر ان کے استاد کے فرائض انجام دیں؟ اور کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ جب آپ کے بچے ان سیاستدانوں کے زیرسایہ تعلیم وتربیت پائیں گے تو وہ دیانت وامانت کے پیکر ہوں گے اور جب پاس آوٹ ہوں گے تو ان کے ہاتھوں میں جعلی نہیں بلکہ اصلی ڈگری ہو گی؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ یقینا پہلے پاکستانی سیاسی شخصیات کا جائزہ لینا پسند کریں گے۔
آپ ان کے اخلاق، گفتار، کردار، معاملات اور تعلیمی قابلیت پر نظر ڈالیں گے، آپ جلسے جلوسوں میں استعمال ہونے والی زبان سنیں گے، اسمبلی اجلاس کی روداد پڑھیں گے اور ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں ان کا انداز گفتگو دیکھیں گے۔ اس جائزے کی روشنی میں سیاستدانوں کا جو عمومی چہرہ آپ کے سامنے آئے گا وہ کچھ ان صفات سے عبارت ہو گا: وعدہ خلاف، جعلی ڈگری ہولڈرز، مخالفین کے لیے ناشائستہ اور بسا اوقات گھٹیا و بازاری زبان کا استعمال، اختیارات کا غلط استعمال، بدلتی وفاداریاں اور کرپشن کے اسکینڈلز۔ اگر صرف کراچی کا جائزہ لیں توآپ کو چند ایک کے سوا ہر سیاسی جماعت میں ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی فوج نظر آجائے گی۔

غرض کراچی سے خیبرتک آپ ہرجماعت اور اس سے تعلق رکھنے والے ایک، ایک رکن قومی اسمبلی کے ماضی میں جھانکتے چلے جائیں اور تجزیہ کرتے جائیں۔اس جائزہ کے بعد آپ کس فیصلے پر پہنچیں گے؟ یقینا، آپ ہاتھ جوڑ کر کہیں گے کہ برائے مہربانی، ہمارے بچوں کے مستقبل کے واسطے سیاست اور تعلیم، سیاستدان اور استاد کو الگ رکھیں۔ اساتذہ تو والد ین کی مانند ہوتے ہیں، طلباء تو بسا اوقات ساری زندگی اپنے اساتذہ کے سحر سے نکل نہیں پاتے۔ رہے سیاستدان، یہ پہلے خود امانت اور دیانت کے پیکر بن جائیں، پہلے خود اپنی ڈگریوں کی تصدیق کرا لیں پھر قوم کے بچوں کو تعلیم دیں۔

گو ہم بھی آمریت کو ٹھوس وجوہات، ماضی کے تلخ تجربات اور ایوب، ضیاء و مشرف کے طویل اور تاریک ادوار کے سبب ملک کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں اور سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے پریقین رکھتے ہیں مگر سیاستدانوں کو بہرحال اپنے بچوں کے معلم کا درجہ دینے کو تیار نہیں تھے، کم از کم چند روز پہلے تک ہمارا یہی تاثر تھا مگر گزشتہ ماہ بالا کوٹ میں پیش آنیوالے واقعے نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصر اللہ شجیع کی زیر نگرانی کراچی کے طلباء کا ایک گروپ مطالعاتی دورے کے دوران بالاکوٹ میں سید احمد شہید کی قبر پر حاضری کے بعد دریائے کنہار پہنچا، کچھ وقت گزارنے کے بعد نصراللہ شجیع نے، جو دراصل ان بچوں کے اسکول ٹیچر تھے، واپسی کی کال دی، اسی دوران چٹان پر بیٹھے ایک بچے سفیان کا پائوں پھسل گیا اور وہ ڈوبنے لگا، نصراللہ شجیع نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر بچے کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی مگر پانی کا بہائو اس قدر تیز تھا کہ وہ طلباء کے محبوب استاد اور 2002 سے 2007 کے درمیان ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے رکن سندھ اسمبلی کو بھی بہا لے گیا۔

ہم یہ خبر پڑھ کر اب تک حیران ہیں کہ کیا قوم کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑکر برطانیہ اور دبئی کے دورے کرنیوالے سیاستدان قوم کے مستقبل پر اپنا آج اس طرح قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا کوئی سیاستدان حقیقتاً اس قدر مثالی استاد بھی ہو سکتا ہے؟ اور سیاستدان تو چھوڑیے کیا کسی استاد کی بھی اپنے طلباء سے اس قدر گہری وابستگی ہو سکتی ہے؟ نصراللہ شجیع کی اس قربانی نے نہ صرف ہمیں بلکہ یہ خبر سننے والے ہر فردکو حیرت میں ڈال دیا، ہر شخص کے دل سے ایک لمحے کے لیے یہ دعا بے اختیار نکلی کہ اے اللہ! تو نصر اللہ شجیع کو سلامتی کے ساتھ واپس لے آ۔

ایک استاد کی اس عظیم قربانی پر طلباء کا دھاڑے مار مار کر رونا تو فطری امر تھا مگرجب ہم نے 70 کی دہائی سے جماعت اسلامی کی حریف جماعت پیپلز پارٹی کے کراچی سے سینیٹر سعید غنی کو سینیٹ اجلاس میں دعا کی درخواست کراتے، اے این پی کے رہنما شاہی سید اور مسلم لیگی وفد کو جماعت اسلامی کے دفتر میں اظہار تعزیت کرتے، اور غائبانہ نماز جنازہ میں تقریباً تما م ہی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اداس دیکھا تو احساس ہوا کہ شہید حریف جماعتوں کے ارکان کے لیے بھی کس قدر محترم تھے۔
سوال یہ ہے کہ نصراللہ شجیع نے یہ قربانی کیوں دی؟ کراچی جیسے شہر میں جہاں جماعت اسلامی تین بار میئر کا انتخاب جیت چکی ہے، وہ خود بھی 2002 میں ایم کیوایم کے امیدوار کو شکست دے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، اپنے حلقے کے عوام میں مقبول تھے، کم عمر بھی تھے، کراچی جماعت کے نائب امیرتھے، ایسے میں ان کا سیاسی مستقبل خاصا تابناک نظرآتا تھا مگر پھر کس چیز نے نصر اللہ شجیع کو اپنی جان دائوپر لگانے پر مجبور کردیا؟
ہم نے نصر اللہ شجیع کے ماضی پر نظر ڈالی تو وہ ہمیں دور طالب علمی سے ہی خطرات میں کودتے اور دوسرے کی خاطر لڑتے نظر آئے۔ جب شہر کراچی کے گلی محلے عصبیت کی آگ میں جلائے جا رہے تھے تو شجیع اور ان کے ساتھی جان ہتھیلی پہ رکھ کر مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں کا درس دے رہے تھے، جب جامعہ کراچی میں انتظامیہ فیسوں میں من مانا اضافہ کر رہی تھی تو طالب علم رہنما شجیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انتظامیہ کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے، جب سندھی قوم پرست کا طلباء ونگ تعلیمی اداروں میں توڑ دو توڑدو پاکستان توڑدو کے نعرے لگا رہا تھا اور بعض گروپ پاکستان کے جھنڈے جلا رہے تھے تو شجیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ، زندگی کی قیمت کیا لاالہٰ الااللہ ، جینا کیا مرنا کیا لاالہ الااللہ کے نعرے بلند کر رہے تھے گویا پاکستان کے تحفظ کو اپنے عقیدے کا حصہ قرار دے رہے تھے۔

عملی سیاست میں قدم رکھا تو ووٹرز فون کرکے بتاتے کہ فلاں گروپ نے بھتے کی پرچی بھیجی ہے، آپ بے دھڑک جواب دیتے کہ اب اگر بھتہ خوروں کا فون آئے تو انھیں میرا نمبر دے دینا اور کہنا کہ ان سے بات کرلو۔! کسی بے گناہ کی گرفتاری کے خبر ملتی تو بلاتاخیر تھانے پہنچ جاتے۔ ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ نصر اللہ شجیع کی ساری جدوجہد اور قربانیاں کسی دنیاوی عہدے یا شہرت کے حصول کے گرد نہیں بلکہ اس حلف کے گرد گھوم رہی تھی جو تو انھوں نے دورجوانی میں اٹھایا تھا: بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میراجینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

نصر اللہ شجیع جن تعلیمات سے متاثر تھے آپ نے انھیں صرف اپنے قول کا نہیں بنایا بلکہ عمل کا حصہ بنایا۔ اور جب انسان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور زندگی میں دو رنگی کے بجائے یک رنگی ہو، امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوں ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ کہو: اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اُسی کی بندگی کرنیوالے لوگ ہیں (البقرۃ:آیت۸۳۱)

نصراللہ شجیع کی ساری زندگی بھی دراصل اللہ کی بندگی اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی خواہش کے ساتھ گزری، انھیں جب اور جہاں موقع ملا تو اس خواہش کا اظہار قول سے نہیں بلکہ عمل سے کر دکھایا۔ انھوں نے عارضی زندگی پر حیات ابدی کو ترجیح دی اور جانتے بوجھتے خونی دریا کی موجوں سے جا ٹکرائے۔ خواہش نیک تھی، جذبہ صادق تھا، عمل خالص تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی بھی قبول فرمائی۔

Nasrullah Shaji, The unsung Brave Hero



نصراللہ شجیع کو عوامی ریلیوں اور جلسوں کے انتظامات اور کمپیئرنگ کے فن میں خاص کمال اور تجربہ حاصل تھا۔ وہ اپنی منفرد اور پُرجوش کمپیئرنگ سے جلسوں اور جلوسوں کے ہزاروں شرکاء کو منظم اور گرمائے رکھنے کا فن جانتے تھے۔ شجیع نے جماعت اسلامی کے بیشتر تاریخی جلسوں کی کامیاب اور شاندار کمپیئرنگ سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری بڑی اور تاریخی کمپیئرنگ نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کی پہلی بار کراچی آمد کے موقع پر ایئرپورٹ پر اور ادارۂ نور حق کے استقبالیہ اجتماعات میں کی تھی، جس میں ان کا جوش جنون کی صورت میں نمایاں تھا۔ یہاں نصر اللہ خان شجیع کے فن کمپیئرنگ کا مطالعہ مطلوب نہیں ہے (اگرچہ یہ ان کی شخصیت کے مطالعہ کا ایک اہم موضوع ہے) بلکہ دورانِ کمپیئرنگ ان کے وہ نعرے ہیں جن کی معنویت اور شعور سے وہ سرشار تھے۔ جب وہ نعرہ زن ہوتے تھے تو اُن میں ان نعروں کی معنویت اور شعور کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ جلسوں میں بہت سے نعرے لگاتے تھے جو جماعت 
کی فکر اور پیغام کی ترجمانی کرتے تھے، لیکن ان کا یہ نعرہ

اس زندگی کی قیمت کیا؟ لا الہٰ الا اللہ
تیری میری آرزو … شہادت، شہادت

محض نعرہ نہیں تھا بلکہ شجیع کا فلسفۂ زندگی تھا۔ وہ اللہ کی رضا کی سعادت کے لیے جیے اور شہادت کی موت مرے۔ گویا انہوں نے اپنے نعروں کے مصداق اپنی زندگی کا مشن مکمل کرلیا۔
نصراللہ خان شجیع 2 جون کو سید احمد شہید ؒ کی سرزمین بالاکوٹ میںدریائے کنہار میں اپنے ایک شاگرد حافظ سفیان عاصم کی زندگی بچاتے ہوئے ڈوب کر شہید ہوگئے تھے۔ 2 جون سے 17جون تک اُن کے اہلِ خانہ اور تحریکی احباب نے ایک ایک لمحہ شدید کرب اور کشمکش میں گزارا، کیونکہ شجیع اور سفیان کی نعشیں دریا سے بازیاب نہ ہوسکی تھیں۔ بالآخر اُن کے اہلِ خانہ کی اجازت سے 17 جون کو ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، تاہم نعشوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔

نصراللہ خان شجیع بھائی کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ان کی بے مثال شخصیت، سیرت اور خدمات کے شایانِ شان ’’دھوم دھام‘‘ سے ادا کی گئی۔ مقررہ وقت سے قبل ہی ان کے چاہنے والے ادارۂ نورِ حق نیو ایم اے جناح روڈ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں بزرگ، نوجوان، بچے، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان، علماء کرام اور اساتذہ کرام سمیت تقریباً تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل تھے، جو شجیع کی دلنواز شخصیت کا اعتراف تھا۔ نصراللہ خان شجیع کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اجتماع کراچی کے پُرآشوب حالات میں وحدت و یک جہتی اور اتحاد و برکت کا پیغام بن گیا۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے۔ اکابرینِ جماعت اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، محمد حسین محنتی، انجینئرحافظ نعیم الرحمن اور قیم عبدالوہاب سمیت نائب امراء و نائب قیمین اور امرائے اضلاع نے شرکت کی۔

غائبانہ نماز جنازہ سے قبل شہر کی تقریباً تمام نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے وقت کی تنگی کے باعث ایک سے ڈیڑھ منٹ کے مختصر مگر جامع خطاب میں نصراللہ خان شجیع کی شخصیت کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔‘ سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع اقامتِ دین کے جانباز سپاہی اور مولانا مودودیؒ کی فکر و تحریک کے مرجع خلائق تھے، انہوں نے شہر کراچی کو ظالموں اور بھتہ خوروں کے چنگل سے آزاد کرانے اور شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ شجیع عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن کام بہت بڑا کرگئے۔ اسد اللہ بھٹو نے شجیع کو بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف جرأت کی علامت قرار دیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع دھرتی کا سپوت، اتحاد کی علامت اور ظلم و برائی کے خلاف جرأت و شجاعت اور حق کی آواز تھی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع کی شہادت پر پورا ملک سوگوار ہے، دین و ملت کے لیے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما وقار مہدی نے کہا کہ شجیع کی محبت اور رویہ ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ نجمی عالم نے کہا کہ شجیع کی شہادت پر پی پی کا ہر کارکن مغموم ہے، اس شہر میں جہاں سچ کہنا مشکل ہے، وہ ببانگِ دہل حق اور سچ کا پرچار کرتا تھا۔ مزدور رہنما حبیب جنیدی نے شجیع کی شہادت کو پوری قوم و ملک کا نقصان قرار دیا۔

غائبانہ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر، تحریک انصاف کے آفتاب جہانگیر، جے یو آئی (ف) کے اسلم غوری، جے یو آئی (س) کے قاری عبدالمنان انور، مسلم لیگ کے نواز مروت، جے یو پی کے مفتی غوث صابری اور شجیع کے بھائی وقار خان نے بھی خطاب کیا۔
غائبانہ نمازِ جنازہ کی امامت لیاقت بلوچ نے کی۔ جبکہ آخر میں بابائے کراچی اور سابق ناظم کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے دعا کی۔
نصراللہ خان شجیع جس سج دھج کے ساتھ شہادت کی مراد پانے میں کامیاب ہوئے وہ ہماری بھی آرزو ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شجیع کے جسدِ خاکی کو بھی بازیاب کرائے، ان کی والدہ، اہلیہ، بچوں، بھائی، بہنوں، اعزہ و اقرباء اور احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے حق میں مغفرت کی دعائوں کو قبول فرمائے۔

آخر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شجیع کی شہادت بھی شہرِ قائد کے اتحاد کی علامت ہے۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شہر کی نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ شجیع سیاست میں بھی اتحاد، رواداری اور یک جہتی کی علامت تھے۔
محمدشکیل صدیقی

Tribute to Nasrullah Shaji









Tribute to Nasrullah Shaji

Remember Nasrullah Shaji









Remember Nasrullah Shaji

Nasrullah Shaji

 

جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصراللہ خان شجیع 1970میں کراچی کے علاقے حیدرآباد کالونی میں پیدا ہوئے۔ دور طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور طلبہ سیاست میں اہم کردار کیا۔اور1996 سے 1998تک اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم مقرر ہوئے۔جامعہ کراچی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی اور تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی سے منسلک ہوکر عملی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا۔نصر اللہ خان شجیع جماعت اسلامی ضلع شرقی کے امیر اور تاحال جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیرتھے۔

سال 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اےکے پلیٹ فارم سے حصہ لیا کراچی کے حلقے پی ایس 116 سے 30سال کی عمر میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔اور سندھ اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے اسمبلی میں عوام کی آواز بنے۔نصر اللہ شجیع دور طالبعلمی سے ہی جوشیلے مقرر اور لوگوں میں ہر دلعزیز تھے۔طلبہ حقوق کی جدوجہد ہو یا عوامی مسائل پر آواز اٹھانے نصراللہ شجیع نے ہمیشہ اہم کردار اداکیا۔

نصراللہ شجیع شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور عثمان پبلک اسکول سسٹم کیمپس 13کے پرنسپل ہیں۔نصراللہ شجیع کے دو بیٹے اور ایک بیٹی، اہلیہ اور والدہ

Nasrullah Shaji

 

 

Enhanced by Zemanta