Showing posts with label Nawaz Sharif. Show all posts

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna


Pakistani Floods - Soldiers load relief supplies during relief operations in Shuja Abaad

Pakistani soldiers load relief supplies on to a helicopter during relief operations in Shuja Abaad, some 40 kms from Multan. At least eleven people including a bridegroom and two children drowned September 14 when a rescue boat carrying a wedding party capsized in flood-hit central Pakistan, officials said, with the death toll feared to rise. — AFP

مسلح افواج اور پاکستان کی سیاست......


جمہوریت اور عوامی احتجاج میں بلاوجہ ملک کی مسلح افواج کو فریق بنایا جارہا ہے جبکہ وہ اندرون ملک جاری دہشت گردی سے نپٹ رہی ہے، ساتھ ہی کنٹرول لائن‘ سیالکوٹ کی رواں سرحد پار بھارتی افواج کی شدید گولہ باری کا بھی سدباب کررہی ہے۔ ایسے موقع پراس سے بھرپور تعاون کے بجائے اسے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی جانب سے الزام تراشی‘ اتہام اور بہتان کا ہدف بنایا جارہا ہے جبکہ سرحد پار بھارت کی جنتا اپنی افواج کی حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتی۔ لوک گیتوں، کہانیوں اور فلموں میں دشمن یعنی پاکستان پر بھارتی سینا کی برتری کے فرضی کارناموں کے چرچے کیے جاتے ہیں۔

 بھارت تو جمہوری ملک ہے اور وہاں کثیر الجماعتی نظام رائج ہے، ان میں سے کوئی پارٹی ایسی نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ فوج اُس کے ساتھ یا اُس کے خلاف ہے۔ لیکن پاکستان ہی واحد ریاست ہے جس کے اکثر سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے عسکری قیادت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور برسراقتدار آنے کے بعد اس کی کردارکشی کرنے لگتے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی رہائی کے لیے Peter Galbraith اور Kon Cliburn نے جنرل ضیاء الحق پر کتنا دبائو ڈالاتھا اوران کی وطن واپسی میں امریکہ کا کتنا کردار تھا، لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کے مخالف نوازشریف نے جو پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ان سے محاذ آرائی شروع کردی، حتیٰ کہ ان کے نامزد کردہ پنجاب کے چیف سیکرٹری احمد صادق کو اپنے عہدے کی ذمہ داریاں نہیں سنبھالنے دیں اور پنجاب پولیس کو وفاق کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے تصادم کی شہ دی۔ یہی نہیں بلکہ موصوف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پنجاب کے بینک‘ اس کی ریلوے اور ہر شعبے کو وفاق سے آزاد کردیں گے۔ کیا یہ سب ویسی ہی علیحدگی پسندی کی باتیں نہیں تھیں جیسی مجیب الرحمن کیا کرتے تھے اور جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا؟ سنتے ہیں کہ اب پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے جس کا ثبوت 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کا میثاق جمہوریت ہے جسے اول الذکر کے شوہر نامدار نے محض ’’سیاسی بیان‘‘ کہہ کر مسترد کردیا۔

 آمریت کے خلاف بطلِ حریت کی داعی پیپلزپارٹی دوسری بار بھی فوجی آمر پرویزمشرف سے این آر او جیسے شرمناک معاہدے کے ذریعے برسراقتدار آئی۔ یہ کیسی جمہوریت تھی جو امریکی استعمار اور اس کے پٹھو فوجی آمر پرویز مشرف کی بخشش کے نتیجے میں بحال ہوئی! جدوجہد تو وہ ہے جو ایران کے عوام نے شہنشاہ سے کی تھی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ کہہ کر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوریت کی قلعی کھول دی کہ ان دونوں پارٹیوں میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پرویزمشرف کے عہدہ صدارت سے دستبردار ہونے کے بعد اسے باعزت طور پر رخصت کیا جائے گا جس طرح بے نظیر بھٹو امریکہ کی چھتر چھائوں میں دوبار پاکستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئیں، اسی طرح نوازشریف سعودی عرب کی سرپرستی میں مدت سے پہلے جلاوطنی ترک کرکے وطن واپس آئے۔

کیا یہ کسی جمہوری قیادت کو زیب دیتا ہے کہ وہ غیر ممالک کی سرپرستی میں ریاست کی باگ ڈور سنبھالے؟کیا یہ کسی عوامی نمائندے کو زیب دیتا ہے کہ حکومت کا کوئی اہلکار مبینہ طور پر دوسرے ملک کو یہ پیغام بھیجے کہ اگر اسے ’’فوجی بغاوت‘‘ کا سامنا ہو تو مذکورہ بیرونی طاقت مداخلت کرکے اسے ناکام بنادے؟ وہ کیسی قیادت ہے جسے اپنی مسلح افواج پر اعتماد نہیں ہے، بلکہ اس کے بجائے غیر ملکی فوج پر انحصار کرے؟

آج کل پارلیمان کے تقدس اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا بڑا ذکر سننے میں آتا ہے۔ پارلیمان اُس وقت قابلِ احترام ہوتی ہے جب اسے عوام اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہوں، اور انتخابی امیدوار نہ تو نادہندہ ہوں‘ نہ کسی جرم میں ماخوذ، اور نہ ہی بے ضابطگیوں میں ملوث ہوں۔ لیکن اگر انتظامیہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر ووٹوں کی چوری ہو اور جعلی ووٹوں سے منتخب ہونے والے امیدوار پارلیمان پر قابض ہوجائیں تو یہ ادارہ اپنی نمائندہ حیثیت اور وقار کھو دیتا ہے۔ اور عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ نادرا یا کسی غیر جانب دار ادارے سے ووٹوں کی تصدیق (Auditing) کروائیں، اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کے مطالبے پر عملدرآمد کرے۔ یہاں تو یہ عالم تھا کہ تحریک انصاف کے رہنما نے چار نشستوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی چھان بین کا مطالبہ کیا تو موصوف نے اسے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا، جبکہ ان کے مصاحبین اور حوارین نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس پر تکرار بڑھتی گئی اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق تحریک انصاف نے وہی کچھ کیا جو 1977ء میں مسلم لیگ سمیت سات جماعتوں نے پی این اے کے نام سے ملک گیر سطح پر کیا۔

یوں بھی یہ پارلیمان اپنے کردار سے عوام کی نمائندہ نہیں معلوم ہوتی۔ اس نے متفقہ قرارداد میں فیصلہ کیا تھا کہ اگر امریکہ قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بند نہیں کرتا تو حکومت کو امریکہ کی جانب اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ لیکن ڈرون حملے برابر ہوتے رہے اور پارلیمان کا امریکہ کی جانب پاکستان کی پالیسی پر نظرثانی کے لیے دبائو ڈالنا تو کجا، وہ خاموش بیٹھی رہی۔ البتہ تحریک انصاف نے قزاقانہ حملے رکوانے کے لیے لمبی مارچ کی اور طورخم کے راستے افغانستان پر قابض امریکی فوج کی رسد کی ترسیل کی مزاحمت کی، لیکن پارلیمان کی کسی پارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی۔

ایسی پارلیمان کا کیسے احترام کیا جائے جو تحفظِ پاکستان (Protection of Pakistan) جیسا کالا قانون منظور کرکے دستور میں موجود شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کررہی ہو؟

جہاں تک بعض ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو وہ مسلح افواج پر اس لیے معترض ہیںکہ وہ پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت نہیں استعمال کرتی‘ اور یہی حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنمائوں کو شکایت ہے کہ فوج نے مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی مخالفت کیوں کی! یہ وہی عناصر تو ہیں جنہوں نے 1971ء میں فوجی قیادت پر دبائو ڈال کر ڈھاکا میں مظاہرین پر گولیاں چلوائیں جس کے بعد سارے بنگال میں آگ لگ گئی۔ اب چونکہ فوج ان کے جھانسے میں نہیں آئی تو انہوں نے اسے بلیک میل کرنا شروع کردیا ہے، لیکن عسکری قیادت ان کے فریب میں نہیں آئے گی اور بقول غالب 

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

عسکری قیادت اگر غیر جانب دار رہے تب بھی مورد الزام ہے کہ غیر جانب دار کیوں ہے؟ آخر فوج کسی غیر مقبول حکومت کو عوام پر کیوں مسلط کرے؟ وہ سیاسی اقتدار کی رسّا کشی میں کیوں فریق بنے؟ اور جب کسی ملک کا وزیراعظم سیاسی تنازعات میں فوج یا عدلیہ کو مداخلت کی دعوت دیتا ہے تو اس کا یہ رویہ غیر جمہوری ہے، جبکہ فوج غیر جانب دار رہ کر ہی ملک کو خانہ جنگی سے بچا سکتی ہے۔ اس سارے تنازعے میں فوج کا کردار بڑا غیر جانب دارانہ، آئینی، منصفانہ اور غیر سیاسی رہا ہے۔ اس پر اتنے رکیک حملے کیے جارہے ہیں لیکن وہ اپنے نظم و ضبط کے باعث میڈیا میں اپنی صفائی نہیں پیش کرسکتی۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے سیاست میں گھسیٹا جائے؟

قارئین ایک بات اور ملاحظہ فرمائیں۔ امریکی دفترخارجہ نے ہدایت کی ہے کہ نوازشریف کی حکومت کو برقرار رہنا چاہیے جبکہ ہندوستان کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی فوج اور مذہبی جماعتیں نواز حکومت کی اس لیے مخالفت کررہی ہیں کہ وہ بھارت سے تعلقات میں بہتری کی خواہاں ہے۔ آخر ان دونوں طاقتوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کیا ضرورت ہے؟
امریکی دفتر خارجہ نے تو یکم ستمبر کوتیسری بار پاکستان کی سیاسی جماعتوں کوانتباہ کیا ہے کہ وہ تشدد اور آئین شکنی سے گریز کریں۔ (ڈان 2 ستمبر 2014ئ)

پہلے تو امریکہ خود اپنے ملک میں پولیس کو ہدایت دے کہ وہ سیاہ فام افراد کو تاک تاک کر قتل کرنے سے باز آجائیں، ساتھ ہی اپنی عدلیہ اور ارکانِ جیوری کو تاکید کرے کہ وہ سیاہ فام امریکی شہریوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ترک کردیں اور انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ امریکی انتظامیہ کو آتشیں اسلحہ کی خرید و فروخت پر سخت پابندی عائد کرنی چاہیے کیونکہ ہر کس و ناکس اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہر سال تیس ہزار امریکی شہری لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آخر یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں آئے دن اسکول کے بچے‘ اساتذہ اور بچوں کے والدین بندوق بردار نوجوانوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں! آخر امریکہ میں اس دائمی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوجی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی جبکہ پولیس قتل و غارت گری کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے؟

آخر میں مَیں اُن سیاستدانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادر ی کو افواجِ پاکستان کا آلۂ کار کہتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لیے یونس حبیب کے بقول ایجنسی سے وافر رقوم لی تھیں۔ وہ کس منہ سے ان افراد پر الزامات لگاتے ہیں جنہوں نے سرکاری ذرائع کے خفیہ فنڈ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا؟
یہ بعض سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا تکیہ کلام بن گیا ہے کہ ملک کی 
    تاریخ میں فوج نے 33 سال حکومت کی ہے، لہٰذا اسے اقتدار کا چسکا لگ گیا ہے اور وہ زیادہ دیر کسی جمہوری حکومت کو ٹکنے نہیں دیتی۔ یہ آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے، کیونکہ جب جب فوج نے غیر فوجی (جمہوری نہیں) حکومتوں کو معزول کرکے اقتدار سنبھالا ہے تو اُس وقت سیاستدانوں نے اس سے تعاون کیا ہے۔ اور اگر ہر مارشل لا کے نفاذ پر سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے ردعمل کا جائزہ لیا جائے تو ان کی مبارک سلامت سے اخبارات کے کالم کے کالم سیاہ نظر آئیں گے، اور جب عسکری قیادت نے ملک کی کابینہ یا اسمبلی بنائی تو اس کے اراکین خاکی وردی والے نہیں بلکہ سویلین تھے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کوئی جنرل یا کرنل تھے، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قدرتی وسائل اور بعد ازاں وزیر خارجہ بن گئے؟ کیا مشہور قانون دان منظور قادر کوئی فوجی افسر تھے؟ کیا ملک امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان اور منعم خان گورنر مشرقی پاکستان فوجی عہدیدار تھے؟ اسی طرح جنرل یحییٰ خان کے دور میں 1970ء کا مثالی انتخاب کیا مارشل لا حکام نے نہیں کرایا؟ جس سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخاب آج تک نہیں ہوسکا۔ جبکہ پی پی کی جمہوری حکومت میں 1977ء میں کرایا گیا انتخاب شرمناک حد تک ووٹوں کی چوری پر مبنی تھا۔ کیا یحییٰ خان کی حکومت میں نورالامین نائب صدر نہ تھے؟ اورکیا ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں پاکستان کے وفد کے سربراہ نہ تھے؟ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے یا کوئی فوجی جس نے سلامتی کونسل میں بنگلہ دیش کا بحران فرو کرانے کے لیے پولینڈ کا مصالحتی مسودۂ قرارداد اجلاس میں چاک کردیا تھا اور روس کے مندوب جیکب   کو زارِ ملک کہا تھا؟

کیا جنرل ضیاء الحق کو تحریک استقلال کے سربراہ نے خط نہیں لکھا تھا کہ وہ پی پی کی حکومت کا تختہ الٹ دیں؟ تحریک استقلال تو بھٹو مخالف متحدہ محاذ PNA کی اہم رکن تھی۔ کیا ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما وزارتوں پر فائز نہیں تھے؟ اسی طرح نوازشریف کی مسلم لیگ کے ارکان ٹوٹ کر جنرل مشرف کے ساتھ نہیں جا ملے تھے؟ اورکیا قاف لیگ کے اہم رہنما نے ببانگِ دہل یہ نہیں کہا تھا کہ وہ باوردی جنرل مشرف کو دس بار صدر منتخب کرائیں گے؟ کیا جنرل مشرف کو ملک کی بعض سیاسی پارٹیوں کی بھرپور حمایت نہیں حاصل تھی؟ اُس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام یوسف اور ان کی کابینہ کے وزرا فوجی تھے یا سیاسی رہنما؟

اگر فوجی اور سویلین حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کی کارکردگی سویلین حکومتوں سے کہیں بہتر تھی۔ ملک میں امن و امان کا دور دورہ تھا اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی تھی… لیکن اب…؟

پروفیسر شمیم اختر

Pakistan Army role in Pakistan Politics

احساس زیاں جاتا رہا......


جشن آزادی کے بعد سے پیارے پاکستان میں جو ہوا برا ہوا۔ کسی بھی محب وطن صاحب فہم و شعور کے لیے دل چھیدنے اور دماغ ماؤف کر دینے کے لیے وہ دھماچوکڑی ہی کافی ہے جو ملک میں مچی۔ تین جماعتوں کی لڑائی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ ملک کو ہونے والا کھربوں کا نقصان تو رہا ایک طرف، ساری دنیا میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا تو کچھ مداوا ہی نہیں۔ پریشانی کا یہ عالم کہ ’’ قیامت صغریٰ‘‘ کے ان دنوں میں قوم کا ہر باضمیر شخص ملک و قوم کی عافیت کے لیے نہ صرف ہاتھ اٹھائے دعا گو دیکھا، بلکہ انتہائی غمگین بھی، کیوں کہ اتنی طویل پرتشدد اعصابی جنگ اور وہ بھی دار الحکومت میں شاید پہلے کبھی نہ برپا ہوئی ہو۔ ہر فریق نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر فریق مخالف کی سات پردوں میں بھی چھپی خطاؤں کو آشکار کیا اور اپنی ظاہر و باہر خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کیا، حالانکہ غلطیاں تو ہر دو نے کیں۔

معاملہ حکومت کی نااہلی و کوتاہی سے شروع ہو کر مظاہرین کی غلطی و خامی پر جا ٹکا۔ یوں تو صاحب اقتدار طبقے نے حکومت کو بطرز جمہوریت نہیں، بلکہ بطرز بادشاہت ہانکا۔ صاحب اقتدار کا غیر لچک دار رویہ، اقربا پروری، عوامی مسائل سے عدم توجہی، غیرمنتخب افراد کو کلیدی عہدوں پر فائز کرنے کی روش اور امور مملکت کو کاروباری طرز پر چلانے کی سوچ نے یقینا کئی مسائل کو جنم دیا، لیکن معاملے کو سیاسی آگ نے دھاندلی کے نقطے پر پکڑا۔ اگر پہلے ہی 4 حلقوں کا معاملہ صاف کر لیا جاتا تو شاید ملک ’’جنگی کیفیت‘‘ میں مبتلا نہ ہوتا اور رہی سہی کسر ماڈل ٹاؤن واقعے نے پوری کر دی، بھلا بے وقت 14 افراد کی جان لے کر رکاوٹیں ہٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی اور اگر اسی وقت ایف آئی آر درج کر کے شفاف تحقیقات کردی جاتیں تو آج یہ نوبت نہ آتی، لیکن حکومت ’’میں نہ مانوں‘‘ کی تعبیر بنی رہی ۔

پھر جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کی ٹھانی تو حکومت بھی روکنے کو ڈٹ گئی اور مارچوں نے حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ پنجاب بھر کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں کھودنے تک حکومت نے اپنی پریشانی کا بین ثبوت قوم کے سپرد کیا اور پی ٹی آئی کو ناتجربہ کار کا طعنہ دینے والی مسلم لیگ ن کے تین دہائیوں پر پھیلے حکومتی تجربے کا نچوڑ دیکھ کر قوم کے پاس دنگ ہوئے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ حالانکہ اپنے حقوق کے حصول اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر احتجاج کرنا ہر فرد کا جمہوری حق ہے، جسے روکنا کسی طور بھی درست نہیں، لیکن جمہوری حکومت کے رویہ سے نوبت یہاں تک پہنچی۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے جو طریقہ اختیارکیا اسے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں گردانا جاسکتا۔ خیر سے کسی کو تو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ پاکستانی عوام کو برانگیختہ کر کے ’’نامعلوم و مجہول‘‘ انقلاب کا راگ آلاپے۔ جب کہ ایک جمہوری سیاسی لیڈر عمران خان کے مطالبات نہ صرف حق پر مبنی، بلکہ ایک عرصے سے پوری قوم کی آواز بھی۔ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل، گزشتہ انتخابات کا احتساب، بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے آیندہ شفاف الیکشن کی ضمانت اور وزیر اعظم کے استعفے کے سوا باقی بھی اسی طرح جاندار۔ اتنے بھاری بھرکم مطالبات کے باوجود جمہوری لیڈر خان صاحب قادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنی سیاست داؤ پر لگا بیٹھے۔

قادری صاحب کے پاس تو کھونے کے لیے کچھ نہیں، لیکن خان صاحب کے پاس تو کھونے اور بچانے کے لیے بہت کچھ تھا، وہ مہاتیر محمد اور طیب اردگان بن سکتے تھے، لیکن انھوں نے بننا پسند نہ کیا اور حیرت انگیز احتجاج اختیار کیا، جو انھیں کسی طور بھی زیب نہیں دیتا۔ پہلے ریڈ زون میں زبردستی داخل ہوئے، پھر وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھ دوڑے، پولیس نے اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے روکنا چاہا تو ’’انقلابیوں‘‘ نے ڈنڈوں، پتھروں اور لوہے کے راڈوں سے پولیس کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس کے بعد قومی نشریاتی ادارے پر دھاوا بول کر پاکستان کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کیا، جو پورے ملک کا سرجھکانے کو کافی ہے۔
اگرچہ بعد میں دونوں رہنماؤں نے ملوث ہونے کی تردید کی، جس کو تسلیم کرنا مشکل، لیکن اشتعال تو ان کی تقریروں سے ہی پھیلا۔ اس سے پہلے خان صاحب نے سول نافرمانی کا اعلان کیا، اگرچہ محب وطن قوم کے تعاون سے بری طرح ناکامی ہوئی، لیکن یہ اعلان کرنا ہی (ن) لیگ نہیں ،بلکہ اقتصادی و معاشی بحران کے شکار ملک کو مزید کمزور کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ سول نافرمانی اپنے ہی ملک نہیں، بلکہ دشمنوں اور غیروں کے خلاف کی جاتی ہے، ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف آزادی حاصل کرنے کے لیے کی گئی تھی۔

اس اعلان کا بہر حال خان صاحب کی سیاست کو نقصان ہوا۔ ’’باغی‘‘ کے انکشافات اور دھرنوں میں دعوؤں کے مطابق افراد لانے میں ناکامی کی وجہ سے ان کی سیاست پر پڑنے والے منفی اثرات بھی واضح ہیں اور ایک ایسے وقت میں جب کے پی کے کے دس لاکھ سے زاید آئی ڈی پیز بے یارو مددگار ملک میں رل رہے ہوں اور کے پی کے حکومت میں پی ٹی آئی کی پوری قیادت اپنی ذمے داریاں چھوڑ کر اسلام آباد میں مورچہ زن ہو تو کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سیاسی کشتی میں سوراخ کا ہونا بھی فطری امر ہے۔

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ زور زبردستی حکومتوں کو ختم کرنے کی کوشش سے صرف حکومت ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ملک و قوم بھی چین و سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک، لیبیا میں معمر قذافی، تیونس میں زین العابدین اور شام میں بشار الاسد کی حکومتوں کو زبردستی ختم کرنے کا انجام بدامنی اور بے سکونی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ ان کے بعد کیا ہم بھی ملک میں وہی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، جن کو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں؟ لیکن جب سیاستدانوں کو ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوں تو یہی کہا جاسکتا ہے ؎

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

اگر بحیثیت قوم ہم اپنے رویوں میں سنجیدگی لانے میں ناکام رہے تو خدانخواستہ ملک دشمن قوتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہیں اور پھر’’اب پچھتائے کیا ھوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ والا معاملہ نہ ہو۔ تین کی سیاسی جنگ میں بہرحال ہار صرف اس قوم کا مقدر اور ہمیشہ سے ہوتا بھی یہی آیا۔ اگر ’’بادشاہ سلامت‘‘میاں صاحب کی ’’بادشاہت‘‘ سلامت رہے تو قوم کی بدقسمتی اوراگر ’’انقلابیوں‘‘ کی ’’آمرانہ‘‘ سوچ فاتح ہو تو قوم کی اس سے بھی زیادہ بدقسمتی۔ اس قوم کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ لاٹھیاں کھانے، دھرنے دینے، مارچ کرنے اور جان کی بازی لگانے کے لیے ہر جگہ پیش پیش یہ عوام، لیکن بعد میں ان کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں تو قوم کو جاگ جانا چاہیے اور سیاستدان تو نہیں، قوم ہی سنجیدگی کا دامن تھامے۔

عابد محمود عزام
  

"شوباز شریف "...


Shahbaz Sharif

پاک فوج کے اصل دشمن.....


جو چیلنج اس وقت افواج پاکستان کو درپیش ہے، وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور فوج کو درپیش ہو۔ مشرقی سرحد پر سائز میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی فوج کا سامنا۔ مغربی بارڈر پر ایک اور طرح کی بھیانک جنگ کا سامنا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کے ساتھ دوستی بھی اور دشمنی بھی (Love and hate relations) کا چیلنج ۔ دنیا کے کسی ملک کی فوج اس وقت اپنے ملک کے اندر مختلف محاذوں پر سرگرم عمل نہیں ہوگی، جس طرح کہ پاکستانی افواج ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور نوعیت کی مصیبت، فاٹا اور سوات میں ایک اور طرح کی مصروفیت، کراچی میں ایک اور طرح کا الجھاو اور اب اسلام آباد جیسے شہروں میں آرٹیکل 245 کے تحت ایک اور طرح کی آزمائش ۔ فوج سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں کے چیلنجوں کا تو کوئی شمارہی نہیں ۔ فرقہ واریت کا چیلنج، لسانیت کا چیلنج، دہشت گردی کا چیلنج، غیرملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کا چیلنج ۔ سی آئی اے یہاں مصروف عمل، را یہاں سرگرم عمل ، ایرانی انٹیلی جنس یہاں فعال، عرب ممالک کی انٹیلی جنس یہاں مستعد جبکہ افغان انٹیلی جنس کی اپنی حرکتیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے لے کر برطانوی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے کارندوں اور سرمائے کا رخ یہاں موڑ دیا ہے۔

ان چیلنجوں کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے کہ قوم کا ہرفرد اپنی افواج اور اس کے اداروں کی پشت پر کھڑا ہو اور قوم کی طرف سے وہ مطلوبہ حمایت اور محبت اس فوج اوراس کے اداروں کے حصے میں تب پوری طرح آتی ہے جب وہ اپنے کام یعنی ملکی دفاع تک محدود رہیں۔ جو لوگ ان کو سیاست یا صحافت میں ملوث کرتے ہیں، وہ دوست کی شکل میں کیوں نہ ہوں دراصل اس فوج کے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ لوگ یا تو اس فوج کے دشمن ہیں جو اسے ملکی سیاست میں ایمپائر بنانا چاہتے ہیں اوردعوتیں دے دے کر اسے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنے کا کہتے ہیں ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری فوج اور اس کے ادارے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں مکمل خاموش ہیں ۔فوج کے یہ دشمن یا نادان دوست تین حلقوں میں موجود ہیں۔ سیاسی میدان میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، پاکستان عوامی تحریک اور چند بیروزگار سیاستدان اس فہرست میں شامل ہیں ۔ میڈیا میں بعض اخباری مالکان، بعض اینکرز اوربعض کالم نگار یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جبکہ تیسرا طبقہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا ہے۔ عمران خان دنیا کے سامنے قسمیں اٹھاتے تھے کہ وہ اگست میں میاں نوازشریف کو رخصت کریں گے لیکن ہر کسی کو علم تھا کہ ان کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ۔ یہ بھی ہر کسی کو علم تھا کہ عوامی طاقت سے وہ حکومت گرا نہیں سکتے کیونکہ بعض اوقات وہ تین ہزار لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر نواز شریف کی رخصتی کی خوشخبریاں سناتے رہے ۔ وہ ہر وقت ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کی دہائیاں دیتے رہے ۔

اب کسی ایسے ویسے فرد نے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے گواہی دی کہ کور کمیٹی کی میٹنگز میں عمران خان یہ بتاتے رہے کہ وہ فوج کے کہنے پر میدان میں اترے ہیں اور آخر میں فوج مداخلت کرکے سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ اب اگر فوج یا اس کے کسی ادارے میں موجود کسی فرد نے تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا تو وہ فوج کے خلاف غداری کا مرتکب ہوا ہے اور اگر عمران خان ، شاہ محمود قریشی یا پھر جہانگیر ترین جھوٹ بولتے رہے تو پھر وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ یہی معاملہ گجرات کے چوہدھریوں اور شیخ رشید احمد کا بھی ہے ۔چوہدری صاحبان ہی قادری کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ’’ان‘‘ سے بات ہو گئی ہے اور وہ جو فائیو اسٹار کینٹینر میں بیٹھ کر ہزاروں بچوں اور خواتین کو مرواررہے ہیں تو اس امید پر مروارہے ہیں کہ فوج آ کر نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ان لوگوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے، اسے متنازع بنانے اور بدنام کرنے کی حد کر دی ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے ثالث یا گارنٹر بننے پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی لیکن ملاقات سے واپسی پر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے پوری قوم کے سامنے یہ غلط بیانی کی کہ آرمی چیف نے ثالث اور گارنٹر بننے کا کہا ہے ۔

اب وزیر اعظم کی غلط بیانی سے متعلق تو آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز آ گیا لیکن ان دونوں کی اس غلط بیانی کی تردید آئی ایس پی آر کی طرف سے آج تک نہیں ہوئی ۔ اسی طرح فورسز کے بعض ریٹائرڈ افسران ٹی وی چینلز پر آ کر ایک طرف فوج کی وکالت کرتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو فوج کا مزاج شناس باور کراتے ہیں بلکہ خلوتوں میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ فوج کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ائرفورس کے ایک سابق افسر (ائرمارشل شہزاد چوہدری نہیں) کوئی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ان کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔

گزشتہ روز وہ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک سے رخصت ہو رہے تھے ۔ اس پروگرام میں طاہرالقادری کے ترجمان بھی آئے تھے ۔ جیو کے دفتر سے رخصت ہوتے وقت اندھیرے کی وجہ سے ان کا خیال نہیں رہا لیکن ہمارے اسٹاف کے دو بندے ان کی گفتگو سن رہے تھے ۔ وہ کیپیٹل ٹاک میں ان کے ساتھ آئے ہوئے عوامی تحریک کے ترجمان کو نصیحت کررہے تھے کہ وہ پولیس سے نمٹ کر چڑھ دوڑیں اور یقین دلا رہے تھے کہ فوج انہیں کچھ نہیں کہے گی ۔ اسی طرح یہ طبقہ اب اہل صحافت میں بھی سامنے آ گیا ہے جو فخر سے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ سب کچھ عسکری اداروں کے اشارے پر کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ دن رات نہ صرف فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں بلکہ فوج کو دیگر اداروں کے ساتھ صف آرا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے آرمی چیف کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے کی جھوٹی خبر دی، یہی تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے بارے میں پیشنگوئی کی کہ اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف قراردادیں پیش کی جائیں گی لیکن یہ سب جھوٹ نکلا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنی ساکھ کے بارے میں انتہائی حساس فوج اور اس کے ادارے ان لوگوں کے بارے میں خاموش ہیں ۔

حامد میر صاحب کے معاملے میں جیو کی طرف سے زیادتی ہوئی تھی جس پر جیو اور جنگ کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی، جرمانہ بھی ادا کیا گیا، اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ‘ اس کے کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں اور آج تک وہ ان خطرات سے دوچار ہیں لیکن دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو دن رات بدنام کرنے والے اور سویلین اداروں کو ان سے لڑانے کی سازش کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں حکومت ‘ فوج اور اس کے ادارے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بسا اوقات وہ چہیتے بھی نظرآتے ہیں ۔ اسی طرح تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کو کوئی غدار کہہ رہا ہے اور نہ ان کی زبان بندی کی کوئی سبیل نکالی جارہی ہے۔افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف نہ صرف شریف ہیں بلکہ ایک پروفیشل سپاہی اور جرنیل بھی ہیں ۔ پوری قوم جانتی ہے کہ نوازشریف حکومت نے اپنی نااہلی اور عسکری اداروں کے ساتھ سیاست بازی کے ذریعے فوجی مداخلت کے کئی مواقع پیدا کئے لیکن جنرل راحیل شریف نے فوج کو اس کے آئینی دائرے تک محدود رکھا۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے لئے عمران خان صاحب کی بھرپور کوششوں اور قادری صاحب کی التجائوں کے باوجود انہوں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اس کی وجہ سے قوم کی نظروں میں ان کی اور فوج کی قد بہت بلند ہوئی ہے لیکن بعض چیزیں اب بھی غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں ۔

ایک سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہاہے کہ آئی ایس پی آر کے ہر پریس ریلیز میں حکومت کو تو نصیحت موجود ہوتی تھی لیکن فوج کو بدنام اور قوم کو ذہنی عذاب میں مبتلا کرنے والے عمران خان اور قادری صاحب کو کسی پریس ریلیز میں کوئی نصیحت نہیں کی گئی ۔ دوسرا سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہا ہے کہ ایک غلطی کی بنیاد پر جیو اور جنگ کو دیوار سے لگانے والے ادارے فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست میں دھکیل کر انہیں بدنام کرنے والے چینلز ‘ اینکرز اور نام نہاد عسکری ماہرین کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے ؟۔ جاوید ہاشمی کے الزامات معمولی الزامات نہیں ہیں ۔ وہ جس جماعت پر فوج کے ساتھ حکومت کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگارہے ہیں، خود اس جماعت کے مرکزی صدر ہیں ۔ فوجی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں ۔

اگر ہاشمی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے ۔ اگر عمران خان، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین وغیرہ نے اپنی کورکمیٹی سے جھوٹ بولا ہے تو ان کے خلاف فوج کو بدنام کرنے کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے اور اگر کسی عسکری ادارے کے کسی فرد یا افراد نے تحریک انصاف کے قائدین کو جھوٹی امیدیں دلائی تھیں تو ان سے بازپرس ہونا چاہئے ۔ اس جنگی فضا میں وہ قوم یکسو ہوکر اپنے قومی اداروں کے ساتھ کیسے کھڑی ہو گی کہ ان اداروں کی نظروں میں ’’جیو‘‘ کے لئے الگ اور کسی اور چینل کے لئے الگ قانون ہو اور جس میں بعض سیاستدانوں کو تو کسی ایک فقرے پر غدار قرار دیا جا رہا ہو لیکن کچھ سیاستدانوں کو فوج سے متعلق سب کچھ کہنے کی اجازت ہو۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


 

Tahir ul-Qadri addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad

Tahir ul-Qadri, Sufi cleric and opposition leader of political party Pakistan Awami Tehreek (PAT), raises a cricket bat while addressing supporters in front of Parliament House during the Revolution March in Islamabad. Weeks of mounting anti-government protests in Pakistan had been enough to convince five of the powerful army's 11 Corps Commanders that it was time for them to step in and force embattled Prime Minister Nawaz Sharif to resign.

سدا بہار باغی......


سنہ 1972 کے اوائل میں نوجوانوں کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس لاہور میں گھس گیا، یہ سمن آباد کے علاقے سے مبینہ طور پر حکومتی عہدیدار کی جانب سے دو لڑکیوں کو اغوا کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔

اس ہجوم کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا جو اس وقت صدر مملکت تھے  جبکہ ان کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ایک برطانوی وزیر تھے۔
مظاہرین کے قائدین میں سے ایک جاوید ہاشمی نامی نوجوان بھی شامل تھا جس نے پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن اسلامی جمعیت طلباءکی حمایت کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد جیتا تھا۔

دو برس بعد جاوید ہاشمی نے ایسا ہی اقدام بنگلہ دیش کو بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے پر ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے اس وقت کیا، جب لاہور اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا تھا۔
وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حکومت مخالف بینرز اٹھائے تمام تر سیکیورٹی انتظامات کو توڑ کر سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے موٹرکیڈ کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

ان دونوں واقعات کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات' ہاں میں باغی ہوں  میں کیا ہے، اب انہوں نے اپنی جماعت کے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔
کیا گورنر ہاﺅس لاہور پارلیمنٹ کی طرح ریاست کی علامت نہیں اور کیا غیر ملکی معزز مہمان کے سیکیورٹی انتظامات کو توڑنا وزیراعظم ہاﺅس کے گرد پہنچنے سے کم اہم ہے؟ مگر جاوید ہاشمی جب کسی مقصد پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس طرح کے فرق کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ اسے کسی بھی طریقے سے بھٹو حکومت کو چیلنج کرنا ہے تو اس سے جو ہوسکا اس نے کیا، اس کا ماننا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا تو جو اسے مناسب لگا اس نے کیا۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے اسلامی کانفرنس سے چند ماہ قبل اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ریلی کو اسی مقصد کی وجہ سے کتنی کامیاب سے سبوتاژ کیا تھا۔
تو یہ بات واضح ہے کہ اب وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا جو عمران خان حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاوید ہاشمی کے نظریات ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں کی سیاسی زندگی کے دوران وہ اختیار کرچکا ہے۔
یہ نظریات تین بنیادوں پر قائم ہیں، فوجی آمریت پر انتخابی جمہوریت کی بالادستی، اختلاف رائے اور اپنے سیاسی اقدامات کے نتائج کی پروا نہ کرنا۔

بغاوت کا مقدمہ

کچھ استثنیٰ سے قطع نظر یہ وہ سیاسی اصول ہیں جو جاوید ہاشمی نے اختیار کررکھے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال اس کی جانب سے 2003 میں فوجی طاقت پر سویلین بالادستی کا بہادرانہ دفاع اس کی گرفتاری کا باعث بنا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ فوج میں تقسیم ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگلے ساڑھے تین سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی۔

مشرف حکومت نے یہ مقدمہ ایک خط کی بنیاد پر چلایا جو جاوید ہاشمی نے سب کے سامنے پیش کیا تھا جو چند جونئیر عہدیداران نے لکھا تھا اور اس میں فوجی حکومت کے کچھ سنیئر اراکین پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جاوید ہاشمی کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اسے کبھی یہ خط عوام کے سامنے پیش کرنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوا۔
اسی طرح اس کی جانب سے شریف برداران کے جلاوطنی اختیار کرنے اور متعدد اہم رہنماﺅں کے مشرف کیمپ میں شامل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر بننے کے لیے تیار ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ مشکل ترین اوقات میں بھی جمہوریت کے لیے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے سدا بہار باغی کی مضبوط حیثیت تعمیر کی، وہ اپنی سوچ کے مطابق بولتا ہے چاہے کیسے نتائج یا حالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس نے ہر اس وقت مخالفت کا اظہار کیا جب اسے لگا کہ اتھارٹی کی جانب سے ٹھیک کام نہیں کیا جارہا، اور اس کے لیے یہ پروا کبھی نہیں کہ اتھارٹی میں شامل افراد اس کی اپنی جماعت کے سربراہان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف اور حکمران جماعت نواز لیگ کے متعدد سنیئر اراکین اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح جاوید ہاشمی پارٹی اجلاسوں میں پارٹی قیادت سے اپنے تعلقات پر اثرات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جاوید ہاشمی نے کبھی غلطیاں نہیں کیں، 1978 میں 29 سال کی عمر میں وہ جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ کے نوجوان ترین وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔
تاہم بعد میں وہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا، اپنی کتاب میں اس نے وضاحت کی ہے کہ وہ کبھی اس وزارت کو لینے کے بعد مطمئن نہیں رہا اور وہ جلدازجلد اس سے مستعفی ہونا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1993 میں جب اسے لاہور سے محفوظ نشستوں کی پیشکش کی جارہی تھی تو اس نے ملتان سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے پر اصرار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ محمود قریشی نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یوسف نامی ایک ایڈووکیٹ سے پیسے لینا تھا۔
یوسف نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ یہ رقم یونس حبیب کی تھی جو کہ مہران بینک کا صدر تھا، جسے انٹیلی جنس عہدیدران نے 1990 میں پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ لگانے کا ٹاسک دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات میں اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی اپنی سیاست سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہٰں کرے گا، اس نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہ رقم کاروبار کے لیے بطور قرضہ لی تھی جسے اس نے واپس لوٹا بھی دیا تھا۔
تاہم ان الزامات نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جب اس نے دسمبر 2011 میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پرانے سیاسی ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی جانب سے ایک قریبی رشتے دار کو بطور انتخابی امیدوار نامزد نہ کرنے پر جاوید ہاشمی برہم تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی اس لیے ناخوش تھا کیونکہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف بننا چاہتا تھا مگر یہ عہدہ چوہدری نثار علی خان کو دے دیا گیا۔
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کا حقدار تھا کیونکہ مشرف دور میں، جب بہت کم سیاستدان کسی بھی سطح پر ن لیگ کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے، اس نے پارٹی کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔
جاوید ہاشمی لگتا ہے کہ اپنی سیاسی راست گوئی کو نہیں کھویا، اور اس نے اپنے یقین کے مطابق بولنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا، جبکہ جمہوریت اور اداروں سے محبت بھی جاری رکھی۔

اسے اپنے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی سے اخراج کے بعد اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے گا، جس کا وہ ابھی بھی شدید ناقد ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے آپشن کی بات ہے تو یہ بالکل ناممکن لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے پورے کیرئیر میں اس جماعت کا شدید مخالف رہا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں جاوید ہاشمی نے خلفیہ دوم حضرت عمرؓ کا قول درج کیا ہے" تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟، وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح آزاد ہے۔
کوئی چیز یا ایسا نظریہ جس پر اسے یقین نہیں اسے کسی پارٹی کا قیدی نہیں بناسکتا، عمران خان کو جاوید ہاشمی کو اپنی پارٹی میں لینے سے پہلے اس کو جان لینا چاہئے تھا۔

کیسا انقلاب؟......



گزشتہ کچھ ہی عرصے میں پاکستانی قوم نے ’’انقلاب‘‘ کا لفظ اتنی بار سنا کہ اب تو سوتے میں خواب میں بھی انقلاب ہی آتا ہے اور سناٹے و خامشی میں بھی کانوں میں انقلاب انقلاب کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ہر روز کئی کئی بار انقلاب آنے کی خوشخبری قوم کو یوں سنائی جاتی ہے، جیسے گرمیوں میں چار پانچ گھنٹوں کے بعد لائٹ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہو۔

ہزاروں بار انقلاب کا لفظ سن کر لگتا ہے کہ انقلاب کے خوف سے ہر سماجی برائی اپنی موت آپ مر جائے گی اور دھرتی پر نفرت کی بجائے محبت اور ظلم و بربریت کی بجائے امن و سکون اور انصاف کا راج ہوگا۔ غربت کا خاتمہ ہوجائیگا اور ملک کا ہر شہری دولت میں کھیلے گا۔ یوں تو انسانی زندگی ازل سے مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور دنیا میں ان گنت انقلابات رونما بھی ہو چکے ہیں لیکن یہ ’’انقلاب میاں‘‘ ہیں کیا، یہ بات شاید ’’انقلابی قوم‘‘ کو معلوم نہ ہو لہٰذا اس حوالے سے اگر کچھ بات ہو جائے تو بہتر ہے۔ انقلاب کا لفظ انگریزی کے لفظ “Revolution” اور عربی کے لفظ ’’ثورہ‘‘ کے ہم معنی ہے۔ لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے، تہہ و بالا ہونے اور پلٹنے کو انقلاب کہا جاتاہے۔

محققین کے مطابق شروع میں ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہا جاتا تھا لیکن بعد میں رفتہ رفتہ مروجہ اصطلاح کے لیے استعمال ہونے لگا۔ موجودہ دور میں حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر انقلاب کسی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتا ہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:1۔ انسان فطری طور پر تبدیلی کا دلدادہ ہے، چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی مروجہ نظام سے اکتا کر اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے، 2۔ کوئی بھی مروّجہ نظام جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو انسان اس کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونانی مفکر بابائے سیاست ارسطو کی کتاب ’’سیا ست‘‘ دنیا بھر میں سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک آدرش کا درجہ رکھتی ہے۔384 قبل مسیح میں پیدا ہونے والا ارسطو یونان کا وہ ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق تھا، جس نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی اور سکندر اعظم جیسے شاگرد سے دنیا کو متعارف کروایا۔ 18 سال کی عمر میں اس وقت علم و حکمت کے مرکز ایتھنز چلا آیا۔ یہاں 37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی بنیاد ڈالی، جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کی بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ ارسطو پہلا عالم تھا جس نے سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔

لہٰذا سیاست کے پہلے عالم ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: 1۔ ریاست کے مروّجہ آئین میں تبدیلی،2 ۔اقتدار کی منتقلی۔ اسی طرح ارسطو نے انقلاب کی دو بنیادی قسمیں بھی بیان کی ہیں: 1۔ مکمل انقلاب،جس میں معاشرے کے عمومی سماجی ڈھانچے، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی کا وقوع ہو، 2۔ نامکمل انقلاب، جس میں مذکورہ تین نکات میں سے صرف کسی ایک نکتے میں تبدیلی آئے۔

ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں:1۔ مادی سبب: لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھتا ہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے،2۔ سبب فاعلہ: کچھ لوگ اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں،3۔ سبب غائی: حکومتی ادروں کی من مانی، لوگوں کی بے حرمتی،لوگوں کے احساس عدم تحفظ کی وجہ سے رد عمل۔
ثابت ہوا کہ انقلاب کا لفظ حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی بتاتا ہے کہ تبدیلی و انقلاب دو طرح کے ہوتے ہیں۔پہلی قسم وہ جو کم عرصے میں واقع ہو، لیکن اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ظاہر ہوئے، جب کہ دوسری قسم وہ جس کے وقوع میں کافی عرصہ لگے، لیکن عوام کو صرف اس کے ثمرات و فوائد حاصل ہوئے۔ پہلی قسم کے انقلاب کی مثالیں یہ ہیں۔ فرانسیسی انقلاب جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے۔

روس کا انقلاب جس میں پورے شاہی خاندان کو ان کے ملازموں سمیت تہہ خانے میں لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ’’زار‘‘ بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔ ایرانی انقلاب جس میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہوئے اور یہ تین برس ہزاروں انسانوں کا لہو چاٹ گئے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے آنے والے انقلابات، جن کا آغاز تیونس سے ایک نوجوان کی خودکشی سے ہوا اور اس کے بعد مختصر مدت میں تیونس، لیبیا، مصر میں حکمرانوں کی بجائے قتل و قتال اور خونریزی کی حکومت قائم ہوگئی۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہوئی، جو اب تک دو لاکھ افراد کا خون پی چکی۔ مذکورہ انقلابات کی بدولت ابھی تک یہ ممالک خانہ جنگی کی بھٹی میں دہک رہے ہیں۔ان ممالک کی معیشت تباہ اور سکون غارت ہوچکا ہے۔ آج بھی عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ مختصر مدت میں آنے والی یہ تبدیلی کہنے کو تو انقلاب اور عوام کی فتح تھی، لیکن حقیقت میں بربادی اور عوام کی شکست ثابت ہوئی۔

انقلاب کی دوسری قسم وہ ہے، جس میں عوام کو صرف فوائد حاصل ہوئے اور اس کے اثرات دیر تک عوام کے لیے خوش کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملایشیا ہے۔ 1980 میںملایشیا میں غربت، افلاس اور بیروز گاری کا راج تھا۔ صرف ٹن، ربڑ اور پام آئل جیسا خام مال باہر بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا تھا۔ سیاست، معیشت، تعلیم اور ملک کے تمام شعبے دن بدن دم توڑ رہے تھے۔ دوردور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے، لیکن قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی، مسلسل محنت کی، اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی یافتہ قوم میں بدلنے کا ایجنڈا پیش کیا، ریاست، آئین اور قانون کی پاسداری اپنے اوپر لازم کی۔ نظم و ضبط ہر ایک پر لازم قرار دیا گیا۔ اس ملک کا حال دیکھتے دیکھتے بدلنے لگا۔

ملایشین قوم نے مسلسل 22سال محنت کی۔ 2003 میں جو ملک صرف خام مال پر اپنا گزارا کرتا تھا ، وہی ملایشیا ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر کی برآمدات کرنے لگا۔ 2300 ڈالر فی کس آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر کمانے لگا۔ غربت کا نام و نشان مٹ گیا۔ تعلیم سے محروم 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔

ملایشیا کی سیاست مستحکم اور معیشت مضبوط ہوگئی۔ اسی انقلاب کی ایک مثال ترکی بھی ہے، جو 2001تک اقتصادی بحران میں اس بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ کھلے بازار میں ترکی کرنسی لیرا کی فروخت بڑھ گئی۔

جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں 40 فیصد تک کمی کرنا پڑی، ساتھ ہی شرح سود اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع کم ہونے لگے، ملک غیر ملکی قرضوں پر چلنے لگا، لیکن ترک قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی اور 2002کے بعد شروع ہونے والے انقلابی سفر کی بدولت ترکی آج دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ انقلاب کی ان دو قسم کی مثالوں کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کی طرز پر سول نافرمانی اور مار کٹائی والا انقلاب چاہیے یا ملایشیا اور ترکی کی مثل پر امن اور فائدہ مند انقلاب چاہیے۔

عابد محمود عزام

Asad Umar



Asad Umar (born 1961) is a Pakistani lawmaker and former business administrator . He served as CEO and President of Engro Corporation for 8 years during a 27-year career with the company.[1] He resigned from his post at Engro and Joined Imran Khan led political party Pakistan Tehreek-e-Insaf on April 2012.[2]

Tenure at Engro 

Umar’s 27-year career at Engro began in 1985, when the company was still a subsidiary of ExxonMobil, the global oil giant.[1] He joined the company as a business analyst, and was working for it abroad in Canada when the famous management buyout of Engro took place in 1991. Umar came back to Pakistan and in 1997 was appointed the first CEO of Engro Polymer & Chemicals, the group’s petrochemical arm. Later on, he was elected as the President and CEO of Engro Corporation in January 2004 and transformed the business from a mere chemical company to a giant conglomerate. It was his idea to diversify into dairy and food business and today 'Engro Foods' stand as the highest profit producing subsidiary of Engro Corporation. It was in his tenure when Engro became the first Pakistani company to buy a business entity abroad when the company earlier in 2012 bought Canadian based food company 'Al Safa Halal'.

Umar has been quoted about his first salary as saying, “I still remember the exact figure of my first salary: Rs 3,200 per month. He confirmed this in Waqt News Program and He was working in HSBC Bank at that time. My boss at the time said ‘Well, frankly they are paying you too much.” At the time he left the company, he was the CEO in the company who received Rs 7.0 million monthly as salary, in addition to which he was also paid from company stocks and owns about 2 million shares of the corporation.[3]

Political career  

Asad Umar resigned as CEO of Engro Corporation on 19 April 2012 and joined Pakistan Tehreek-e-Insaf. At PTI, he will be part of committee to work on a draft paper to suggest economic reforms to take Pakistan out of current financial crisis. Asad Umar was appointed Central Senior Vice President of PTI on 21 April 2012.[4] He is the candidate of Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) fromConstituency NA-48 Islamabad in the upcoming July by-elections after the seat was vacated by PTI central president Javed Hashmi. Hashmi had won by scoring over 70,000 votes compared to 50,000 gained by the runner up. Asad Umar won the re-elections held on 22 August 2013 from NA-48 at the seat vacated by Hashmi. He secured 48,072 votes.

Do you believe the Pakistan political crisis is scripted?


The plan to oust the PML-N led government and topple Prime Minister Nawaz Sharif from power is reaching critical mass. The last 48 hours saw the Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) and Pakistan Awami Tehreek (PAT) anti-government protests morph Islamabad's Red Zone from a concert ground to a bloody battlefield, with at least three people killed and hundreds injured. The deadly confrontation shows little signs of letting up, as both Imran Khan and Tahirul Qadri have encouraged their supporters to battle on, while negotiations with the government appear to be going nowhere - despite the Pakistan Army playing the role of 'mediator'.

'It won't be called a martial law'

Javed Hashmi said he was ashamed and said he was sure Imran was too. "Now I'm going to say something and maybe Imran will refute that as well but it would be good if he didn't.""Imran had told the core committee it won't be called a martial law...we will file a petition in the Supreme Court and get a judge of our choosing...and he will say okay...we didn't talk about Bangladesh...that CJ will validate the actions that will be taken eventually...today I have heard that CJ has called all judges...Justice Jilani will retire and the current CJ will become chief justice...and they will get rid [of the government]".

Javed Hashmi


Muhammad Javed Hashmi  b. January 1, 1948), is a senior conservative figure, political scientist and geostrategist who presides over the Pakistan Movement for Justice (PTI) which is led by sportsman-turned politician Imran Khan. He was elected to the post of Central President on March 2013 by the electoral college of the party.

Originally a leading and senior member of Pakistan Muslim League, Hashmi served twice in federal cabinet first as the Federal Ministry of Health and as the Federal Ministry of Youth Affairs in both first and second government of former Prime minister Nawaz Sharif. After being dismissed in 1999 in a coup d'état staged by General Pervez Musharraf against Nawaz Sharif, Hashmi was appointed central president of the Pakistan Muslim League and led the League in the controversial 2002 general elections, which saw the landslide defeat of the League. In 2003, Hashmi was arrested and faced a trial on charges of treason in the Central Jail Rawalpindi after making controversial statements against Pakistan Armed Forces, and was released on 4 August 2007.[1]

In the 2008 elections, Hashmi won a record three seats out of the four contested; he only lost out to Shah Mehmood Qureshi in his home city of Multan. Hashmi won National Assembly seats from Multan, Lahore and Rawalpindi beating PML-Q leader Shaikh Rasheed Ahmad in the latter one.[2] On 20 July 2010 Hashmi suffered from Brain hemorrhage and was admitted to hospital. After recovering, he served as the Chairman of the Standing Parliamentary Committee on Foreign Affairs and but resigned after falling out with Nawaz Sharif on various political issues. He would later ascended to join the Pakistan Movement for Justice led by Imran Khan as the party president. In 2013 elections Hashmi won from both two constituency's he contested from in Islamabad and in Multan from the platform of PTI.[3]

Early career

An agriculturist by profession, Hashmi attended Punjab University where he was part of the student wing of Jamaat-e-Islami and was once accused of murder of a fellow student but was ruled not guilty by court. He took his B.Sc. in Political Science in 1969, followed byM.Sc. in 1971, and M.Phil. in 1973, in the same academic discipline from the same institution. The then Prime Minister Z.A Bhutto offered him to be High Commissioner of Pakistan in United Kingdom(UK)and in return give up agitation against the ruling PPP but he did not budge from his stance.[4] He turned to politics in 1985 and joined hands with Nawaz Sharif — who later became Prime minister.[4] From 1985 till 1988, he was elected to the National Assembly for the terms of 1985 till 1988.[4] From 1990 till 1993, Hashmi was the Minister of State for Youth Affairs, and elected as Parliamentarian for the terms of 1993–1997.[4] From 1997–1999, he served as Federal Minister for Health in Nawaz Sharif's cabinet during his second term. He was alleged for being involved in Mehran Bank Scandal along with other political heavyweights like Nawaz Sharif, Shahbaz Sharif and few more main stream politicians of that time. Allegations on Makhdoom Javed Hashmi were laid by Yousaf Advocate who had an old business conflict with Hashmi family, he alleged Hashmi's involvement in the scandal but Younas Habib who was the main character and distributed all the funds never alleged Makhdoom Javed Hashmi. Makhdoom Javed Hashmi very strongly rejected the allegations and demanded a judicial probe of the scandal involving all the top political leadership of that time. During Musharraf era,PML(Q) was in dire need of MNAs to form a coalition government, so their delegation led by Ch. shujaat went on to see him and offered him to be part of PML(Q)but Hashmi Refused to support Pervez Musharraf. For this act he had to suffer the wrath of the then president Gen. Musharraf and he remained behind the bars for 5 years. During prison days he wrote two books about his political struggle which are named as "HAAN MEIN BAGHI HUN"(yes,I am a rebel)& "TAKHTAEY E DAAR K SAAEY TALAY". .He served in united nations for some times as well.[4] These days he is serving as President Pakistan Tehreek e Insaf. Hashmi is one of the politicians in Pakistan who have never lost in an elections.

Arrest

ON 29 October 2003, he was arrested from Parliament Building on charges of inciting mutiny made by General Pervez Musharraf.[5] Earlier, in a press conference on 20 October 2003, he had read a letter that he received in mail, signed anonymously by some active military officers at Pakistan Army's Combatant Headquarter, known as The Generals Headquarter (GHQ), calling for an investigation into the corruption in the armed forces and criticizing the President and Chief of Army Staff General Pervez Musharraf, and his relationship with the American President George W. Bush.[5] His trial was held in the central Adiala Jail instead of a district and sessions court at the Lahore High Court, which raised doubts among human rights groups about its fairness.[5] On 12 April 2004, he was sentenced to 23 years in prison for inciting mutiny in the army, forgery, and defamation.[5]

The verdict has widely been considered as a willful miscarriage of justice by the General Pervez Musharraf's Government. All opposition parties in Pakistan, including Pakistan Peoples Party of the former Prime Minister Benazir Bhutto and six party-alliance Muttahida Majlis-e-Amal (MMA), regarded the verdict to be politically motivated by the ruling junta with malicious intent, declaring him to be a political prisoner.[5] In imprisonment he also wrote two books titled as "Haan, Main Baaghi Hoon!" (Yes, I am a 'Rebel!') and "takhta daar ke saaye tale" (Under the shadow of Hanging board). His book, "Yes, I am a 'Rebel'!", Hashmi clearly stated that he was jailed because he demanded a commission to be formed to investigate the Kargil issue, the restoration of democracy and opposed the Army’s role in politics, and Pakistan's geostrategy policy in central Asia and Europe.[5]

On 3 August 2007, a three-member bench of the Supreme Court of Pakistan under Chief Justice Iftikhar Chaudhry granted him bail after serving approximately three and a half years in prison.[5] Javed Hashmi was released from the Central Jail Kotlakhpat in Lahore on 4 August 2007.[5]

He was again placed under arrest at the declaration of a state of emergency on 3 November 2007[6]
2008 elections

It is believed that Hashmi was personally asked by party chairman Nawaz Sharif to contest from Rawalpindi for the National Assembly seat, where Sheikh Rasheed Ahmed of the PML[Q] was undefeated since 1988. Makhdoom Javed Hashmi as a result won three National Assembly seats, one from Rawalpindi, one from Punjab Capital Lahore and one from his hometown Multan. Hashmi beat PML-Q's political stalwart Sheikh Rasheed Ahmed in Rawalpindi. They finished second behind the PPP and made a coalition with its one time fierce rivals.

After 2008 elections

Despite winning 3 seats, Hashmi refused to take oath from President Musharraf and thus did not get a place in the federal cabinet. Hashmi was one of the few people who decided not to take oath as it was against his principle. Hashmi is the senior vice president of the party and is always seen in important meeting between the PML(N) and PPP. Hashmi is considered a political heavyweight and is well respected throughout Pakistan. He is seen many times representing the views of his party the PML-N on various talk shows. It was widely reported that in the by-elections, Hashmi supported an independent candidate who was running against Makhdoom Mureed Hussain Qureshi, brother of Hashmi's old rival Makhdoom Shah Mehmood Qureshi. After Mureed Qureshi lost, many people including Mureed Hussain widely condemned the behaviour of Hashmi and said that they will report the incident to the chief of the Peoples Party, Asif Zardari. Hashmi is a strong supporter of the judges who have been sacked and it is said that Hashmi is one of the few people in the PML-N who are trying to convince the senior leadership of the PML-N to stop supporting the PPP as they believe the PPP is not serious and sincere when they say that they will restore the judges.

Kerry-Lugar Bill

Javed Hashmi released a very strong reaction on Inter Services Public Relations press release on Kerry-Luger bill.[citation needed] Terming Kerry-Lugar bill an interference on part of US in Pakistani security agencies' affairs, he said that if there is anything that needs to be corrected, Pakistan will do it herself. Besides he also commented on Pakistan Army's response to the bill saying "Pak Army should stay within its limits,... We will protect our Army if it ensures playing the role assigned to it."[7]
Resignation from Parliament (2011)

On 7 May 2011 Hashmi submitted his resignation from Parliament, claiming that is a dummy and not passing real legislation, his resignation has yet to be accepted by Chaudhary Nisar Ali Khan the leader of Pakistan Parliamentary affairs.[8]
Hospitalization

In July 20, 2010, Hashmi was hospitalized at Nishtar Hospital after he suffered Brain Hemorrhage, and his body also suffered stroke due to internal bleeding.[9] He was later admitted at the Lahore General Hospital Dr. Tariq Salahuddin, principal of the Lahore General Hospital.[10] Dr. Tariq Salahuddin briefed the media and Hashmi’s CT Angiography reports came out normal.[10]

Pakistan Tehreek-e-Insaf

Javed Hashmi joined Pakistan Tehreek-e-Insaf on December 24, 2011 saying that he has made no deal with Imran Khan and has become a member because Imran Khan has an agenda of a change, but analysts say that various reasons caused this act, like Nawaz Sharif refused to make Hashmi the leader of opposition, refused to let Hashmi run for President as Nawaz did not want the PML(Q)'s vote for Hashmi and the PML(N) did not give Hashmi's son-in-law, Zahid Hashmi a ticket for the elections.[11] While addressing a mega political rally at the tomb of Quaid-e-Azam in Karachi on December 25, 2011 He said, "The youth of today have to move forward,Karachi is mini Pakistan. It represents all shades of the peoples of Pakistan." Quoting Quaid-e-Azam he said, "Minorities are our blood." Hashmi straight forwardly addressed to PTI Chairman Imran Khan, "Yes, I'm a rebel (Baghi); you invited a rebel to join PTI, Now if you have not delivered as per your manifesto I will be first person to rebel against your Party” He has a very famous chant to his name in the Pakistan Tehreek-e-Insaf, "baghi hun main", I'm a rebel Hashmi and his daughter Memoona Hashmi resigned from National assembly of Pakistan on December 29, 2011.[12]

Javed Hashmi dared Pakistan Muslim League (Nawaz) leader Nawaz Sharif to field his man against Shaikh Rashid in the next elections despite knowing that he too defeated Sheikh Rasheed on the PML(N)'s ticket and Sheikh Rasheed had been defeated by two other PMLN candidates as well.[13]

When failure is victory


TO understand them, there’s just two dates you need to know: 1971 and 1977. In 1971, the Pakistan Army contrived to lose half of Pakistan. In 1977, the Pakistan Army was back running Pakistan. Six years was all it took. And if 1971-1977 happened, what’s 2008-2014? Nawaz didn’t stand a chance. But Nawaz has also helped write his political obituary. Twice now he’s been called a liar. First, it was the Musharraf promise: the boys let it be known that Nawaz had reneged on his government’s promise to indict and then allow Musharraf to leave the country.

Maybe the Musharraf promise had been made or maybe it hadn’t. What was alarming was that the boys were quietly letting it be known that they thought they had a deal and the PM double-crossed them. In essence, the boys were accusing the PM of being a dishonourable man. That’s a perception — correct or incorrect, right or wrong — that you don’t want the boys to have. It explains what came this week. Briefly, Nawaz himself tried to shift perceptions, to collar Imran and Qadri and stick them in next to the boys.

Immediately, the boys hit back. This time there were no leaks, no background chatter, no carefully sown doubts. Sorry, Prime Minister, you’re a liar — it was direct, it was blunt and it’s devastating. You have to wonder if a third time will be necessary. Why would Nawaz do it? Even if he’s right — he hasn’t lied — and they’re wrong, why would he so casually let such poison flow so freely in so vital a relationship?

Take your pick. He doesn’t care. He doesn’t know better. Or he thinks it will work. None of them really make sense. It also doesn’t matter. The mandate was already dead. Now, Nawaz will survive on sufferance — their sufferance. You don’t make them out to be liars and stay in control of your destiny. The other thing you don’t do is call them out on their lies.

Nawaz knows plenty of their lies. As does anyone who’s dealt with the boys and dealt with people who’ve had to suffer the boys. Stories, apocryphal and true, suffice. Just this term, Nawaz has caught them twice. Once, he was told the Taliban were lying, that there were no non-combatant captives. Then the Achakzai line to Karzai was opened to get the real story from the other side. Nawaz knew he was being dissembled with.

How strong are they? Nawaz knows. He once told the story of the other Pakistan, the one they contrived to lose in 1971. Nawaz went there, some years ago, and met all the big guns, the fearsome political rivals and the boys in charge there. Each one of them complained about interference and those three letters: I.S.I.
Isn’t it extraordinary? Bitter rivals they are over there, opposing camps, fiercely divided — and yet all speak about our boys and all say the same thing.

Playing all sides against each other in faraway Bangladesh? You’d think everyone has forgotten about Bangladesh, or would like to forget. But that’s our boys: they never forget. It doesn’t take much to figure out what they can do with home advantage. So many sides, so many angles, so many games, so many Qadris and Imrans — always one bottom line: they stay strong; everyone else stays weak.

But Nawaz keeps quiet. As did Zardari. As do all the civilians. Because to call them out is to invoke a wrath that can bring all your skeletons tumbling out. And you don’t want your skeletons to come tumbling out.
Where to now? The transition has ruptured. If that wasn’t dismal enough, there’s no one on the horizon who can help put it back on track. So now we have to go big, to look at epochs and what makes them. There’s two that matter so far.

The boys and their system were forged in the first decade of this country’s existence. Ayesha Jalal in The State of Martial Rule has explained it more convincingly and eloquently than anyone else: in the shadow of the Cold War and in combination with regional and domestic factors, the structure of the Pakistani state was forged. That’s the edifice, that’s the system, that’s the boys and what makes the boys the boys. But the boys are in denial. There is a second epoch. Fast forward to the late 1970s. Three events in quick succession, the meaning and combined effects of which the country has yet to figure out: Zia and his Islamisation; the Shia-Sunni schism reignited by revolution just when petro-dollars were coming into their own; and the Soviets wading into Afghanistan.

The civilians haven’t been allowed to grow, but events — blessed, cursed, events — have grown. Everything the boys are contending with, the big changes they have been forced into stem from those events. See, one hundred and seventy five thousand troops in Fata fighting Islamist militants. So change is here, we’re already living it and the boys are struggling to cope. Which means, eventually, either they’ll have to make choices or events will make the choice for them. When the rupture does come though — when things break apart — it may not be the civilians who will get to collect the pieces and put Pakistan back together; it could be something far uglier.

But that’s the risk. Because Zardari failed, Nawaz is failing and Imran is a failure. But, most of all, because the boys think failure is victory. That’s what got them from 1971 to 1977. And that’s what’s got them from 2008 to 2014.

By Cyril Almeida