Showing posts with label karachi. Show all posts

Falah-e-Insaniat Foundation load relief supplies to be distributed among flood affected people

Pakistani memebers of the Falah-e-Insaniat Foundation (FIF), a charity Organisation of the banned Islamic hardline group Jamat ud Dawa, load relief supplies to be distributed among residents affected by flooding on to a truck in Karachi on Sunday. At least eleven people including a bridegroom and two children drowned September 14 when a rescue boat carrying a wedding party capsized in flood-hit central Pakistan, officials said, with the death toll feared to rise. — AFP

Revival of Pakistan Railways : Railways records impressive revenue



For the first time in 40 years, Pakistan Railways (PR) managed to reduce its deficit and earn Rs6 billion in revenue in the outgoing fiscal year 2013-14. A sum of Rs40 billion has been allocated for PR for the fiscal year 2014-15 to bring improvement in its system, provide better and convenient travelling facilities to passengers. 

Sixty new engines would be added by December this year while tenders had been issued to acquire another 75 engines with emphasis on coal-powered ones. Fifty of them would be coal-powered engines of 4,500 Horse Power, more powerful than the existing 3,000 HP ones.

A new train would operate from Hyderabad to Mirpurkhas, while a late-night one would operate on Multan-Lahore route. Railways would repair its main line-I from Karachi to Peshawar as part of initiatives for Pak-China Economic Corridor. MoUs have been signed for Pak-China Economic Corridor and a sum of Rs380 billion allocated for improving communications infrastructure.

Published in The Express Tribune 

پاکستان میں فیس بک کے غلط استعمال کی شرح میں خطرناک اضافہ..........


سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خصوصاً فیس بک موجودہ عہد میں مفید اطلاعات کے پھیلاﺅ، تفریح اور علم کے حصول کے لیے موثر ذریعہ بن چکی ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے،تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کررہے ہیں۔

چند سال قبل جب فیس بک صارفین کی تعداد محدود تھی تو اسے تاریخی، کارآمد اور دلچسپ اطلاعات اور تصاویر کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا مگر اب صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
فیس بک صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد افراد کے مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاﺅنٹس ہیں، یہ فرضی فیس بک اکاﺅنٹس اکثر منفی سرگرمیوں جیسے بلیک میلنگ اور پروپگینڈہ وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ماہرین کے خیال میں بیشتر نوجوانوں کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے جبکہ لڑکیوں کی فرضی تصاویر کے ذریعے انہیں تیز اور بہت زیادہ توجہ ملتی ہے۔
فیس بک ہر ایک کے لیے ہائیڈ پارک بن چکا ہے جہاں کوئی بھی اپنی پسند کی زبان استعمال کرسکتا ہے، کئی بار کوئی صارف معروف شخصیات جن میں زیادہ تر سیاستدان ہوتے ہیں، کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرتا ہے، یہاں تصاویر اپ لوڈ کرنے، تحریر اور کمنٹس پوسٹ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

سیاسی ورکرز فیس بک پر بہت زیادہ متحرک نظر آتے ہیں جو اس سائٹ کو عام طور پر پروپگینڈہ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے سیاسی اور مذہبی رہنماﺅں کی بے عزتی کے لیے مضحکہ خیز فرضی تصاویر کو اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
ان رہنماﺅں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ مختلف پوز میں ایڈٹ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی شخصیت پر دھبہ لگانے کے لیے انہیں عوام کے لیے اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔

سیاسی ورکرز خاص طور پر خواتین کی تصاویر کو فوٹو شاپ میں جسمانی ساخت کو تبدیل کرکے عجیب کیپشنز کے ساتھ پوسٹ کی جاتی ہیں، فیس بک کے بیشتر صارفین اب اس پورے عمل سے کافی واقف ہوچکے ہیں اور وہ جاننے لگے ہین کہ لوگ اس سائٹ کو پروپگینڈہ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی اچھائی نہیں پھیلا رہے۔
طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاﺅنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔

متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک اکاﺅنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔

غیرمصدقہ اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاﺅن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔

ایک سرکاری کالج کی طالبہ ماہ نور علی کا کہنا ہے" مجھے نہ صرف فیس بک بلکہ اخبارات اور ٹیلیویژن پر تشدد سے متاثرہ افراد کی خونریز تصاویر دیکھنے سے نفرت ہے،میڈیا کو اس طرح کے مواد کو دکھانے پر پابندی لگادینی چاہئے، جو معاشرے کو دہشت زدہ کردیتا ہے"۔

اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور کے طالبعلم محمد اظہار علی شاہ بھی کہتے ہیں لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کی فرضی تصاویر کا استعمال عام معمول بن چکا ہے، جو کسی مہذب اور باشعور شخص کو زیب نہیں دیتا۔

اس کا اصرار ہے کہ طالبعلموں کو اس قابل قدر پلیٹ فارم کو مذموم مقاصد کی بجائے ایسی عام معلومات، تدریسی اور تاریخی مواد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔

محمد اظہار نے سوشل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کو ٹیگ کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر فیس بک صارفین نوجوان طالبعلم ہیں، جنھیں اسے لوگوں کو بہکانے کے لےے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

اس کا کہنا تھا"ہر صارف کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کو خاندان بھی استعمال کرتے ہیں اور غیرمعیاری مواد کو اپ لوڈ کرنا غیراخلاقی کام ہے، جس پر حکومت کے متعلقہ اداروں کو نظر رکھنی چاہئے۔
ایک آئی ٹی ماہر نے بتایا کہ بے کار مواد کے استعمال پر پابندی لگائی جانی چاہئے جو عام صارف کو بہکانے کا سبب بنتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل کیمرہ اور موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال نے لوگوں کی زندگیوں کو غیرضروری ویڈیوز اور تصاویر کی بدولت قابل رحم بنادیا ہے۔
اس نے کہا"کسی کو بھی عام صورتحال میں دیگر افراد کی پرائیویسی میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی شخص کی زندگی کے کسی غیرمعمولی لمحے کی تصویر کو سوشل میڈیا تک پہنچنے میں کوئی وقت نہیں لگتا"۔
اس ماہر کا مزید کہنا تھا کہ فیس بک کے بیشتر صارفین کے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دوست ہوتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ضرورت کے وقت کام نہیں آتا" وہ صرف سالگراﺅںپر پیغامات بھیجتے ہیں اور نئے مواد اپ لوڈ کرنے پر کمنٹس ہی کرتے ہیں"۔

آئی ٹی ماہر کے مطابق نوجوانوں نے اپنی زندگیاں فیس بک اور ٹوئیٹر کے لیے صرف کردی ہیں اور رات کو سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ طالبعلموں کے اندر کلاس رومز میں ویڈیو بنانے اور اسے اپ لوڈ کرنے کی عادت والدین اور اساتذہ کے لیے حیرت کا باعث بنتی ہے، ہر تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کو موبائل فونز اور ڈیجیٹیل کیمروں کے غلط استعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔

ماہر کا کہنا تھا کہ فرضی آئی ڈی بنانے والے صارفین کے مقامات کو ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹس کو بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ اس نے آئی ڈیز کی حقیقت پر نظر رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ لوگوں کے قتل کا باعث بھی سکتا ہے۔
آئی ٹی ماہر کے مطابق" یہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا کو اپنے قابل نفرت مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ لڑکیوں کو چیٹ کے ذریعے ورغلاتے ہیں، ان کے فون نمبرز لے کر اپنے ذہن میں موجود بیمار ذہنیت کے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں"۔

ایک اسپورٹس صحافی عظمت اللہ خان نے اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیس بک علم کے خزانے کی طرح ہے مگر نوجوانوں کی جانب سے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سیکھائے کہ کس طرح سوشل میڈیا کو علم کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور صحافی انیلہ شاہین نے فیس بک کو ہر ایک تک اطلاعات کی رسائی کے لیے مفید ذریعے قرار دیا، جہاں ہر اس فرد کو اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کا موقع ملتا ہے جو ٹیلیویژن اور اخبارات میں ایسا نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مفت اور موثر پلیٹ فارم ہے" پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی جانب سے توہین آمیز اور بدنام کرنے والے بیانات کو جگہ نہیں ملتی مگر فیس بک پر ہر کوئی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے آسانی سے سخت الفاظ کو پوسٹ کردیتا ہے"۔

انیلہ شاہین نے کہا کہ کئی بار تعلیم یافتہ افراد بھی فیس بک کو انتہائی غیرمعیاری وماد کو شیئر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے تجویز دی کہ قابل اعتراض مواد کو اپ لوڈ کرنے پر کچھ پابندیاں عائد ہونی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں معاشرتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ایک اور آئی ماہر سگتین علی کا کہنا تھا" میں سوشل میڈیا کا استعمال اکثر گیمز کھیلنے کے لیے کرتا ہوں"۔

اس نے بتایا کہ جو لوگ اس سائٹ کے استعمال کو روزانہ کی بنیاد پراس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے انہیں اس پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہو اور وہ پیسے دیئے جارہے ہوں۔
ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر عمران شاہد نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ سائبر کرائمز یونٹ اس طرح کے پلیٹ فارمز کے استعمال پر نظر رکھنے کے لیے کام کررہا ہے اور عوامی شکایات پر اقدام بھی کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا"ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے بیشتر افراد کو زیادہ معلومات حاصل نہیں، جو کہ انٹرنیٹ اور فیس بک پر موثر طریقے سے غیرمطلوب اور تضحیک آمیز مواد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے، یہ یونٹ کسی بھی آئی ڈی کے حامل فرد کو تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔
عمران شاہد نے بتایا کہ شعور نہ ہونے کے باعث لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس درج کراتے ہیں مگر یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں، کیونکہ صرف ایف آئی اے کے پاس ہی غیرضروری مواد پر نظراور بلاک کرنے کی سہولت موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی سمیت متعلقہ اداروں یہاں تک کہ یاہو اور گوگل تک سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

Results of Current Political Crisis in Pakistan by Ishtiaq Baig

 

Results of Current Political Crisis in Pakistan by Ishtiaq Baig

In Solidarity with Gaza : Gaza Million March Karachi, Pakistan





Gaza Million March Karachi, Pakistan

The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں


The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

Happy Pakistan Independence Day 2014

شجیع کو داد شجاعت دیں.......


معلم اور سیاستدان، کیا ان دو شخصیتوں میں کوئی مماثلت ہے؟ کیا آپ پسند کریںگے کہ پاکستانی سیاستدان آپ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھائیں، اسکول یا کالج کی سطح پر ان کے استاد کے فرائض انجام دیں؟ اور کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ جب آپ کے بچے ان سیاستدانوں کے زیرسایہ تعلیم وتربیت پائیں گے تو وہ دیانت وامانت کے پیکر ہوں گے اور جب پاس آوٹ ہوں گے تو ان کے ہاتھوں میں جعلی نہیں بلکہ اصلی ڈگری ہو گی؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ یقینا پہلے پاکستانی سیاسی شخصیات کا جائزہ لینا پسند کریں گے۔
آپ ان کے اخلاق، گفتار، کردار، معاملات اور تعلیمی قابلیت پر نظر ڈالیں گے، آپ جلسے جلوسوں میں استعمال ہونے والی زبان سنیں گے، اسمبلی اجلاس کی روداد پڑھیں گے اور ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں ان کا انداز گفتگو دیکھیں گے۔ اس جائزے کی روشنی میں سیاستدانوں کا جو عمومی چہرہ آپ کے سامنے آئے گا وہ کچھ ان صفات سے عبارت ہو گا: وعدہ خلاف، جعلی ڈگری ہولڈرز، مخالفین کے لیے ناشائستہ اور بسا اوقات گھٹیا و بازاری زبان کا استعمال، اختیارات کا غلط استعمال، بدلتی وفاداریاں اور کرپشن کے اسکینڈلز۔ اگر صرف کراچی کا جائزہ لیں توآپ کو چند ایک کے سوا ہر سیاسی جماعت میں ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی فوج نظر آجائے گی۔

غرض کراچی سے خیبرتک آپ ہرجماعت اور اس سے تعلق رکھنے والے ایک، ایک رکن قومی اسمبلی کے ماضی میں جھانکتے چلے جائیں اور تجزیہ کرتے جائیں۔اس جائزہ کے بعد آپ کس فیصلے پر پہنچیں گے؟ یقینا، آپ ہاتھ جوڑ کر کہیں گے کہ برائے مہربانی، ہمارے بچوں کے مستقبل کے واسطے سیاست اور تعلیم، سیاستدان اور استاد کو الگ رکھیں۔ اساتذہ تو والد ین کی مانند ہوتے ہیں، طلباء تو بسا اوقات ساری زندگی اپنے اساتذہ کے سحر سے نکل نہیں پاتے۔ رہے سیاستدان، یہ پہلے خود امانت اور دیانت کے پیکر بن جائیں، پہلے خود اپنی ڈگریوں کی تصدیق کرا لیں پھر قوم کے بچوں کو تعلیم دیں۔

گو ہم بھی آمریت کو ٹھوس وجوہات، ماضی کے تلخ تجربات اور ایوب، ضیاء و مشرف کے طویل اور تاریک ادوار کے سبب ملک کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں اور سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے پریقین رکھتے ہیں مگر سیاستدانوں کو بہرحال اپنے بچوں کے معلم کا درجہ دینے کو تیار نہیں تھے، کم از کم چند روز پہلے تک ہمارا یہی تاثر تھا مگر گزشتہ ماہ بالا کوٹ میں پیش آنیوالے واقعے نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر نصر اللہ شجیع کی زیر نگرانی کراچی کے طلباء کا ایک گروپ مطالعاتی دورے کے دوران بالاکوٹ میں سید احمد شہید کی قبر پر حاضری کے بعد دریائے کنہار پہنچا، کچھ وقت گزارنے کے بعد نصراللہ شجیع نے، جو دراصل ان بچوں کے اسکول ٹیچر تھے، واپسی کی کال دی، اسی دوران چٹان پر بیٹھے ایک بچے سفیان کا پائوں پھسل گیا اور وہ ڈوبنے لگا، نصراللہ شجیع نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر بچے کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی مگر پانی کا بہائو اس قدر تیز تھا کہ وہ طلباء کے محبوب استاد اور 2002 سے 2007 کے درمیان ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے رکن سندھ اسمبلی کو بھی بہا لے گیا۔

ہم یہ خبر پڑھ کر اب تک حیران ہیں کہ کیا قوم کو مشکل وقت میں تنہا چھوڑکر برطانیہ اور دبئی کے دورے کرنیوالے سیاستدان قوم کے مستقبل پر اپنا آج اس طرح قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا کوئی سیاستدان حقیقتاً اس قدر مثالی استاد بھی ہو سکتا ہے؟ اور سیاستدان تو چھوڑیے کیا کسی استاد کی بھی اپنے طلباء سے اس قدر گہری وابستگی ہو سکتی ہے؟ نصراللہ شجیع کی اس قربانی نے نہ صرف ہمیں بلکہ یہ خبر سننے والے ہر فردکو حیرت میں ڈال دیا، ہر شخص کے دل سے ایک لمحے کے لیے یہ دعا بے اختیار نکلی کہ اے اللہ! تو نصر اللہ شجیع کو سلامتی کے ساتھ واپس لے آ۔

ایک استاد کی اس عظیم قربانی پر طلباء کا دھاڑے مار مار کر رونا تو فطری امر تھا مگرجب ہم نے 70 کی دہائی سے جماعت اسلامی کی حریف جماعت پیپلز پارٹی کے کراچی سے سینیٹر سعید غنی کو سینیٹ اجلاس میں دعا کی درخواست کراتے، اے این پی کے رہنما شاہی سید اور مسلم لیگی وفد کو جماعت اسلامی کے دفتر میں اظہار تعزیت کرتے، اور غائبانہ نماز جنازہ میں تقریباً تما م ہی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اداس دیکھا تو احساس ہوا کہ شہید حریف جماعتوں کے ارکان کے لیے بھی کس قدر محترم تھے۔
سوال یہ ہے کہ نصراللہ شجیع نے یہ قربانی کیوں دی؟ کراچی جیسے شہر میں جہاں جماعت اسلامی تین بار میئر کا انتخاب جیت چکی ہے، وہ خود بھی 2002 میں ایم کیوایم کے امیدوار کو شکست دے کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے، اپنے حلقے کے عوام میں مقبول تھے، کم عمر بھی تھے، کراچی جماعت کے نائب امیرتھے، ایسے میں ان کا سیاسی مستقبل خاصا تابناک نظرآتا تھا مگر پھر کس چیز نے نصر اللہ شجیع کو اپنی جان دائوپر لگانے پر مجبور کردیا؟
ہم نے نصر اللہ شجیع کے ماضی پر نظر ڈالی تو وہ ہمیں دور طالب علمی سے ہی خطرات میں کودتے اور دوسرے کی خاطر لڑتے نظر آئے۔ جب شہر کراچی کے گلی محلے عصبیت کی آگ میں جلائے جا رہے تھے تو شجیع اور ان کے ساتھی جان ہتھیلی پہ رکھ کر مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں کا درس دے رہے تھے، جب جامعہ کراچی میں انتظامیہ فیسوں میں من مانا اضافہ کر رہی تھی تو طالب علم رہنما شجیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انتظامیہ کے سامنے دیوار بن کر کھڑے تھے، جب سندھی قوم پرست کا طلباء ونگ تعلیمی اداروں میں توڑ دو توڑدو پاکستان توڑدو کے نعرے لگا رہا تھا اور بعض گروپ پاکستان کے جھنڈے جلا رہے تھے تو شجیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ، زندگی کی قیمت کیا لاالہٰ الااللہ ، جینا کیا مرنا کیا لاالہ الااللہ کے نعرے بلند کر رہے تھے گویا پاکستان کے تحفظ کو اپنے عقیدے کا حصہ قرار دے رہے تھے۔

عملی سیاست میں قدم رکھا تو ووٹرز فون کرکے بتاتے کہ فلاں گروپ نے بھتے کی پرچی بھیجی ہے، آپ بے دھڑک جواب دیتے کہ اب اگر بھتہ خوروں کا فون آئے تو انھیں میرا نمبر دے دینا اور کہنا کہ ان سے بات کرلو۔! کسی بے گناہ کی گرفتاری کے خبر ملتی تو بلاتاخیر تھانے پہنچ جاتے۔ ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ نصر اللہ شجیع کی ساری جدوجہد اور قربانیاں کسی دنیاوی عہدے یا شہرت کے حصول کے گرد نہیں بلکہ اس حلف کے گرد گھوم رہی تھی جو تو انھوں نے دورجوانی میں اٹھایا تھا: بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میراجینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔

نصر اللہ شجیع جن تعلیمات سے متاثر تھے آپ نے انھیں صرف اپنے قول کا نہیں بنایا بلکہ عمل کا حصہ بنایا۔ اور جب انسان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور زندگی میں دو رنگی کے بجائے یک رنگی ہو، امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوں ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ کہو: اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اُسی کی بندگی کرنیوالے لوگ ہیں (البقرۃ:آیت۸۳۱)

نصراللہ شجیع کی ساری زندگی بھی دراصل اللہ کی بندگی اور اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی خواہش کے ساتھ گزری، انھیں جب اور جہاں موقع ملا تو اس خواہش کا اظہار قول سے نہیں بلکہ عمل سے کر دکھایا۔ انھوں نے عارضی زندگی پر حیات ابدی کو ترجیح دی اور جانتے بوجھتے خونی دریا کی موجوں سے جا ٹکرائے۔ خواہش نیک تھی، جذبہ صادق تھا، عمل خالص تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے قربانی بھی قبول فرمائی۔

Naswar more injurious to health than smoking


The famous maxim, ‘a head without ecstasy is a donkey’s head’, is nowhere truer than in Khyber-Pakhtunkhwa (K-P) where the use of naswar (a tobacco derivative that is chewed to get high) is so common that those not habitual to it are considered to be boors. According to official statistics more than 70 per cent of the people in K-P are in the habit of chewing naswar. According to the Pakistan Tobacco Board, there is a huge market for naswar in the province estimated at around Rs6 billion annually.

Famous for quality naswar , Dera Ismail Khan and Bannu, also export the product to Punjab and Sindh. There is a huge demand for naswar in Karachi, which has a large population of migrants from K-P. Habib Gul, who has been selling naswar in Peshawar’s Dabgari Garden, said 20 years in the business had earned his product a brand name among naswar users.

“We use fine ingredients and the best quality tobacco, although it is quite expensive but still we want to produce quality products to have an edge over our competitors,” Gul said. Naswar is popular among all age groups from 12 years olds to septuagenarians. Women are also among naswar addicts but it is more popular among the younger lot who emulate their elders. “I tried it only for fun initially but later I got addicted to it. I tried to get rid of the habit but I couldn’t,” Israr Shah, a Mardan teenager confessed.

Naswar is made from fresh tobacco leaves, calcium oxide and wood ash. Senior medical practitioner and a chest specialist, Prof (Dr) Mukhtar Zaman Afridi said, “the use of naswar directly causes lung, stomach and mouth cancer besides causing bronchitis, kidney, heart and other diseases”.

Medical experts are of the view that the diseases caused by naswar are more fatal than those caused by smoking. The health department has been engaged in a fierce campaign against smoking through the print and electronic media but has failed to run a similar campaign against the use of naswar.

Uzbek Militants and Pakistan by Hamid Mir


 Uzbek Militants and Pakistan by Hamid Mir

Nasrullah Shaji, The unsung Brave Hero



نصراللہ شجیع کو عوامی ریلیوں اور جلسوں کے انتظامات اور کمپیئرنگ کے فن میں خاص کمال اور تجربہ حاصل تھا۔ وہ اپنی منفرد اور پُرجوش کمپیئرنگ سے جلسوں اور جلوسوں کے ہزاروں شرکاء کو منظم اور گرمائے رکھنے کا فن جانتے تھے۔ شجیع نے جماعت اسلامی کے بیشتر تاریخی جلسوں کی کامیاب اور شاندار کمپیئرنگ سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری بڑی اور تاریخی کمپیئرنگ نومنتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کی پہلی بار کراچی آمد کے موقع پر ایئرپورٹ پر اور ادارۂ نور حق کے استقبالیہ اجتماعات میں کی تھی، جس میں ان کا جوش جنون کی صورت میں نمایاں تھا۔ یہاں نصر اللہ خان شجیع کے فن کمپیئرنگ کا مطالعہ مطلوب نہیں ہے (اگرچہ یہ ان کی شخصیت کے مطالعہ کا ایک اہم موضوع ہے) بلکہ دورانِ کمپیئرنگ ان کے وہ نعرے ہیں جن کی معنویت اور شعور سے وہ سرشار تھے۔ جب وہ نعرہ زن ہوتے تھے تو اُن میں ان نعروں کی معنویت اور شعور کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ جلسوں میں بہت سے نعرے لگاتے تھے جو جماعت 
کی فکر اور پیغام کی ترجمانی کرتے تھے، لیکن ان کا یہ نعرہ

اس زندگی کی قیمت کیا؟ لا الہٰ الا اللہ
تیری میری آرزو … شہادت، شہادت

محض نعرہ نہیں تھا بلکہ شجیع کا فلسفۂ زندگی تھا۔ وہ اللہ کی رضا کی سعادت کے لیے جیے اور شہادت کی موت مرے۔ گویا انہوں نے اپنے نعروں کے مصداق اپنی زندگی کا مشن مکمل کرلیا۔
نصراللہ خان شجیع 2 جون کو سید احمد شہید ؒ کی سرزمین بالاکوٹ میںدریائے کنہار میں اپنے ایک شاگرد حافظ سفیان عاصم کی زندگی بچاتے ہوئے ڈوب کر شہید ہوگئے تھے۔ 2 جون سے 17جون تک اُن کے اہلِ خانہ اور تحریکی احباب نے ایک ایک لمحہ شدید کرب اور کشمکش میں گزارا، کیونکہ شجیع اور سفیان کی نعشیں دریا سے بازیاب نہ ہوسکی تھیں۔ بالآخر اُن کے اہلِ خانہ کی اجازت سے 17 جون کو ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، تاہم نعشوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔

نصراللہ خان شجیع بھائی کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ان کی بے مثال شخصیت، سیرت اور خدمات کے شایانِ شان ’’دھوم دھام‘‘ سے ادا کی گئی۔ مقررہ وقت سے قبل ہی ان کے چاہنے والے ادارۂ نورِ حق نیو ایم اے جناح روڈ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں بزرگ، نوجوان، بچے، سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان، علماء کرام اور اساتذہ کرام سمیت تقریباً تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل تھے، جو شجیع کی دلنواز شخصیت کا اعتراف تھا۔ نصراللہ خان شجیع کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اجتماع کراچی کے پُرآشوب حالات میں وحدت و یک جہتی اور اتحاد و برکت کا پیغام بن گیا۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے۔ اکابرینِ جماعت اسد اللہ بھٹو، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، محمد حسین محنتی، انجینئرحافظ نعیم الرحمن اور قیم عبدالوہاب سمیت نائب امراء و نائب قیمین اور امرائے اضلاع نے شرکت کی۔

غائبانہ نماز جنازہ سے قبل شہر کی تقریباً تمام نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے وقت کی تنگی کے باعث ایک سے ڈیڑھ منٹ کے مختصر مگر جامع خطاب میں نصراللہ خان شجیع کی شخصیت کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔‘ سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع اقامتِ دین کے جانباز سپاہی اور مولانا مودودیؒ کی فکر و تحریک کے مرجع خلائق تھے، انہوں نے شہر کراچی کو ظالموں اور بھتہ خوروں کے چنگل سے آزاد کرانے اور شہریوں کے حقوق کی جدوجہد کی۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ شجیع عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے لیکن کام بہت بڑا کرگئے۔ اسد اللہ بھٹو نے شجیع کو بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف جرأت کی علامت قرار دیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع دھرتی کا سپوت، اتحاد کی علامت اور ظلم و برائی کے خلاف جرأت و شجاعت اور حق کی آواز تھی۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ نصراللہ خان شجیع کی شہادت پر پورا ملک سوگوار ہے، دین و ملت کے لیے ان کی خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما وقار مہدی نے کہا کہ شجیع کی محبت اور رویہ ہم سب کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ نجمی عالم نے کہا کہ شجیع کی شہادت پر پی پی کا ہر کارکن مغموم ہے، اس شہر میں جہاں سچ کہنا مشکل ہے، وہ ببانگِ دہل حق اور سچ کا پرچار کرتا تھا۔ مزدور رہنما حبیب جنیدی نے شجیع کی شہادت کو پوری قوم و ملک کا نقصان قرار دیا۔

غائبانہ نمازِ جنازہ کے اجتماع سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ طارق نذیر، تحریک انصاف کے آفتاب جہانگیر، جے یو آئی (ف) کے اسلم غوری، جے یو آئی (س) کے قاری عبدالمنان انور، مسلم لیگ کے نواز مروت، جے یو پی کے مفتی غوث صابری اور شجیع کے بھائی وقار خان نے بھی خطاب کیا۔
غائبانہ نمازِ جنازہ کی امامت لیاقت بلوچ نے کی۔ جبکہ آخر میں بابائے کراچی اور سابق ناظم کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے دعا کی۔
نصراللہ خان شجیع جس سج دھج کے ساتھ شہادت کی مراد پانے میں کامیاب ہوئے وہ ہماری بھی آرزو ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شجیع کے جسدِ خاکی کو بھی بازیاب کرائے، ان کی والدہ، اہلیہ، بچوں، بھائی، بہنوں، اعزہ و اقرباء اور احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے حق میں مغفرت کی دعائوں کو قبول فرمائے۔

آخر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شجیع کی شہادت بھی شہرِ قائد کے اتحاد کی علامت ہے۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ میں شہر کی نمائندہ دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ شجیع سیاست میں بھی اتحاد، رواداری اور یک جہتی کی علامت تھے۔
محمدشکیل صدیقی

Can Waziristan operation bring peace in Pakistan?


 Can Waziristan operation bring peace in Pakistan?

Iraq, Afghanistan and Pakistan by Hamid Mir



 
 Iraq, Afghanistan and Pakistan by Hamid Mir

Tribute to Nasrullah Shaji









Tribute to Nasrullah Shaji