Showing posts with label Pakistan Police. Show all posts

Heroes Of Pakistan Police?



Heroes Of Pakistan Police?

پولیس کا بڑھتا ہوا جانی نقصان


کراچی پولیس ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پولیس بھی ایک عرصے سے پر تشدد وارداتوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور عام پولیس اہلکار ہی نہیں بلکہ ان تینوں صوبوں میں متعدد اعلیٰ پولیس افسران بھی مختلف حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔ پولیس کے جو اعلیٰ افسران بدامنی میں نشانہ بنائے گئے ہیں ان میں اچھی شہرت کے حامل کے پی کے پولیس کے ڈی آئی جی صفت غیور اور لاہور سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ کے ڈی آئی جی پولیس فیاض احمد سنبل شامل تھے جن کی شہادت کو پولیس کا بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی میں پہلی بار ایس ایس پی سطح کے ایک افسر چوہدری اسلم کو گزشتہ ماہ نشانہ بنایا گیا تھا جو پولیس میں ایک دلیر اور بہادر افسر شمار ہوتے تھے مگر ان کی شہادت کے بعد سیاسی، عوامی اور پولیس کے حلقوں میں ان کا بڑا چرچا رہا اور اب ان کے چہلم کی رسم بھی ختم ہوگئی مگر کراچی پولیس کے بڑے بڑے دعوے کرنیوالے پولیس کے اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کی شہادت کے اصل حقائق منظر عام پر لاسکے ہیں نہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات بھر جاگ کر اہم ملزموں کی گرفتاری کا صبح سویرے پریس کانفرنس میں اعلان کرنے والے چوہدری اسلم کو دوپہر کیوں اچانک طلب کیا گیا تھا؟


چوہدری اسلم کی شہادت کو کراچی پولیس کا بہت بڑا نقصان قرار دیا جاتا ہے جس کے بعد اعلیٰ افسران چوہدری اسلم کے قصیدے ضرور پڑھتے رہے مگر اب تک حقائق منظر عام پر لانے کی کوشش شاید اس لیے نہیں کی گئی کہ اس حملے کی ذمے داری قبول کرلی گئی تھی اور کراچی پولیس کو اس زحمت سے بچا لیا تھا جس کی حقیقی تفتیش ہونی چاہیے تھی حملہ آوروں نے چوہدری اسلم کو نشانہ بنانے کی کچھ وجوہات بھی بیان کی تھیں جن کی وجہ سے کراچی پولیس نے خود کو مزید تفتیش سے بری الذمہ سمجھ کر چوہدری اسلم کو اب بھلانا شروع کردیا ہے اور ایک تھانے میں چوہدری اسلم کے نام سے ایک سبیل قائم کیے جانے سے شاید پولیس کا فرض پورا ہوگیا ہے جس کے بعد سے پولیس کا جانی نقصان مسلسل بڑھ رہا ہے اور بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر جانے والے15 پولیس اہلکاروں کی جانیں ضایع کرائے جانے کے بعد محکمے کو یہ ضرور خیال آگیا ہے کہ پولیس کے پاس اپنی حفاظت کا معقول سامان خصوصاً حفاظتی جیکٹس، جدید اسلحہ اور تیز رفتار گاڑیاں موجود نہیں ہیں۔

کراچی میں پولیس کی نچلی سطح کے اہلکاروں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوچکا ہے۔ ٹریفک پولیس کی چوکیوں کو حفاظت کے لیے قریبی تھانوں میں منتقل کرنے، تھانوں کے گیٹ بند کرکے محصور ہوجانے سے موبائلوں، موٹر سائیکلوں پر پٹرولنگ کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی بہت بڑی تعداد اب بھی غیر محفوظ ہے۔ یہ اہلکار شاہراہوں پر چیکنگ بھی کرتے ہیں اور اپنی سرکاری گاڑیوں کے پٹرول، گاڑیوں کی مرمت، کھٹارا گاڑیوں کے ٹائروں کی تبدیلی کے علاوہ تھانہ محرروں کی طرف سے بیٹ وصولی کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔ انھیں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کرنیوالوں کو بھی ڈھونڈنا ہوتا ہے نئے گھروں کی چھت بھرائی کی مٹھائی وصولی، کباڑ خانوں پر حاضری کے لیے چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں بھی جانا ہوتا ہے اور اپنے افسروں سے ملنے والی بیگار بھی بھگتانا پڑتی ہے اور وہ یہ سب کچھ کان ہتھیلی پر لے کر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کے ساتھ اے ایس آئی سطح کا افسر ضرور نظر آتا ہے جب کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنے اپنے حفاظتی اسکواڈ میں سفر کرتے ہیں اور جن کو سرکاری گھر میسر نہیں وہ مختلف علاقوں میں رہتے ضرور ہیں مگر ان کی گھروں میں حفاظت کرنیوالے پولیس اہلکار ان کے گھروں کے باہر خیموں میں غیر محفوظ ڈیوٹی پر مجبور ہیں۔

پولیس میں 60 سال سے زائد عمر کے ایسے افسر اور اہلکار بھی موجود ہیں جو اب کچھ کر دکھانے کی صلاحیت تو نہیں رکھتے مگر مال بنانے کا ان کا شوق پورا نہیں ہو رہا اور انھوں نے اپنے صاحبزادوں کو بھی پولیس میں بھرتی کروا رکھا ہے مگر وہ محکمے کی جان نہیں چھوڑ رہے اور حکومت سندھ کا یہ فیصلہ بھی عجیب ہے کہ نئے خون اور نوجوانوں کو پولیس میں ملازمتیں دینے کی بجائے فوج کے ریٹائرڈ سپاہیوں کو محکمہ پولیس میں بھرتی کرلیا ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے کراچی کی بدامنی پر قابو پانے کے خواہاں ہیں حالانکہ فوج اور پولیس کے کام مختلف ہیں اگر ایسا کرنا ہی تھا تو پولیس کے ریٹائرڈ مگر اچھی شہرت اور ماضی میں بہترین کارکردگی دکھانے والوں کی خدمات سیاست اور خوشامد کے بغیر حاصل کی جاسکتی تھیں۔کراچی پولیس میں شکستہ دلی اور بددلی کی ایک وجہ ترقیوں میں ناانصافیاں بھی ہیں اور اسی لیے ترقی کے حقداروں نے عدالت عالیہ سے رجوع بھی کر رکھا ہے مگر جلد انھیں انصاف ملتا نظر نہیں آرہا کیونکہ غیر قانونی ترقی پانے والوں کے ہاتھ بڑے لمبے اور سیاسی سفارشیں مضبوط ہیں جب ہی تو وہ خوشامدی ترقیاں لے کر جونیئر ہونے کے باوجود اپنے سینئرز پر حکم چلا رہے ہیں اور سیاسی حکمران خوش ہیں ۔

تقریباً 11 ماہ تک سندھ کا آئی جی رہنے والے شاہد ندیم بلوچ عزت سے اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوگئے ہیں اور ان کے ریکارڈ میں صرف یہی ہے کہ انھوں نے دوسروں کی طرح اپنی ملازمت میں توسیع کی کوشش نہیں کی البتہ اپنے دور میں موٹر سائیکلوں پر ایک جیسی نمبر پلیٹیں ضرور لگوادیں اور وہ بھی سندھ کے حکمرانوں کے پسندیدہ افسروں کو آپریشن کے دوران من مانیوں سے نہ روک سکے۔

کراچی پولیس اپنے بے پناہ جانی نقصان کے بعد پریشان ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے اسی لیے اعلیٰ افسران تک عام لوگوں کی رسائی ناممکن ہوچکی ہے اور کچھ حساس تھانوں کی حفاظت کے لیے خندقیں کھدوا کر یا اطراف میں بڑے بھاری سیمنٹ بلاک رکھوا کر پولیس اپنی حفاظت تو یقینی بنا رہی ہے اور عام لوگ حیران ہیں کہ ان کی حفاظت کیا اب پولیس کی بجائے ریٹائرڈ فوجی کریں گے۔پولیس کی بڑی تعداد وی آئی پیز اور اپنے افسروں کی حفاظت پر مامور ہے اور پولیس کے ساتھ عام لوگوں، افسروں، وکلا، ڈاکٹروں اور سیاسی رہنماؤں کی کلنگ بھی جاری ہے مگر پولیس مخدوش صورتحال پر قابو پانے میں ناکام اور عوام کی حفاظت کی بجائے اپنی حفاظت پر مجبور ہے تو آخر عوام کہاں جائیں کیا کریں؟ مگر اس سب کے باوجود پولیس کو ہر ممکن جدید سہولتوں سے لیس ہونا چاہیے کہ شہر اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری بہر حال پولیس فورس پر ہی عائد ہوتی ہے۔

محمد سعید آرائیں

 

فرض پر جان قربان



پولیس اہلکار سید علی شاہ کے لیے آج کل زندگی گزارنا کسی آذیت سے کم نہیں۔ وہ چار سال پہلے پشاور میں ایک خودکش حملے کا نشانہ بنے جس کی وجہ سے وہ اپنے دونوں پاؤں سے محروم ہوئے۔

سید علی شاہ کے لیے اب مصنوعی اعضاء ہی سہارا ہیں تاہم ایسی صورتحال میں وہ محنت مزدوری نہیں کرسکتے، وہ چھ بچوں کے باپ بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب سے وہ معزور ہوئے ہیں محکمہ پولیس نے انہیں اس طرح نظر انداز کردیا ہے کہ جیسے وہ کبھی اس کا حصہ نہیں رہے۔

"میں نے اپنی جوانی پولیس کےلیے قربان کی اور یہاں تک فرائض کے بجا آوری کے دوران میرے دونوں پاؤں بھی کٹ گئے لیکن بدقسمتی سے محکمے کے تمام افسران اور قریبی دوستوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے جن کے ساتھ کئی برسوں تک ایک تھالی میں کھایا پیا۔"

انہوں نے کہا ’میں نے اپنی جوانی پولیس کےلیے قربان کی اور یہاں تک فرائض کے بجا آوری کے دوران میرے دونوں پاؤں بھی کٹ گئے لیکن بدقسمتی سے محکمے کے تمام افسران اور قریبی دوستوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے جن کے ساتھ کئی برسوں تک ایک تھالی میں کھایا پیا۔‘

سید علی شاہ کے مطابق ’معاشی پریشانیوں نے گھر میں بسیرا کیا ہوا ہے، میرا خاندان بھی بڑا ہے صرف تنخواہ پر گزارا نہیں ہوتا ایسے دن بھی آتے ہیں کہ بجلی کے بل اور مکان کا کرایہ تک ادا نہیں کرسکتے۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے خلاف جاری مبینہ جنگ میں ڈیوٹی کے دوران اب تک 800 سے زائد پولیس اہلکار جان دے چکے ہیں جن میں سپاہی سے لے کر ڈی آئی جی رینک تک کے افسران شامل ہیں۔ تاہم مرنے والے اکثریتی اہلکار چھوٹے رینک کے بتائے جاتے ہیں جو عام طورپر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اکثر اہلکاروں کے اہل خانہ حکومتی وعدے پورے نہ ہونے پر انتہائی مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔

چار سال پہلے پشاور پریس کلب پر ہونے والے ایسے ہی ایک خودکش حملے میں پولیس کانسٹیبل ریاض الدین بھی ہلاک ہوئے تھے۔

ان کے صاحبزادے عزیر ریاض کا کہنا ہے کہ ’سابق دور حکومت میں شامل وزراء اور دیگر اہلکار کسی نہ کسی حد تک ان سے رابطے میں رہتے تھے اور ان کے مسائل بھی حل کراتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کے وزراء تو مرنے والے اہلکاروں کے جنازوں میں بھی نہیں جاتے وہ شہداء کے ورثاء کی کیا امداد کریں گے۔‘

"سابق دور حکومت میں شامل وزراء اور دیگر اہلکار کسی نہ کسی حد تک ان سے رابطے میں رہتے تھے اور ان کے مسائل بھی حل کراتے تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کے وزراء تو مرنے والے اہلکاروں کے جنازوں میں بھی نہیں جاتے وہ شہداء کے ورثاء کی کیا امداد کریں گے۔"

انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ان کے خاندان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو چار سال گزرگئے لیکن اس کے باوجود وہ ایفا نہیں کیے گئے جس سے ان کا خاندان سخت مایوس ہوچکا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات محمکۂ پولیس لوگ ہی مرنے والے ساتھیوں کے ورثاء کو ملنے والی مراعات کے راہ میں روکاٹیں ڈالتے ہیں۔

پشاور کے سنئیر صحافی علی حضرت باچا نے بتایا کہ ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کو تیس لاکھ روپے، پلاٹ اور کفن دفن کےلیے بھی تین لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ اپنے ہی لوگ بیواؤں سے رشوت طلب کرتے ہیں۔

اکثر لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کسی ریاست کی بے حسی اس سے زیادہ اور کیا ہوگی جب وہ اپنے ہی لوگوں کی قربانیوں کی قدر نہ کرے اور ایسی صورتحال میں کوئی اور ریاست کی خاطر جان جیسی قیمتی قربانی کیوں کر دے گا۔