Showing posts with label Recent Dialouge with Taliban. Show all posts

حدیبیہ یا ویتنام


حدیبیہ مکہ مکرمہ سے 12 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا‘ یہ گائوں ایک کنوئیں کے گرد آباد تھا‘ یہ کنواں حدیبیہ کہلاتا تھا اور یہ گائوں بھی اس کنوئیں کی مناسبت سے حدیبیہ ہو گیا‘ حدیبیہ ایک گمنام گائوں تھا اور یہ گائوں شاید آج تک دنیا کے کروڑوں دیہات کی طرح گم نام رہتا مگر 1385 سال قبل ہمارے رسول ؐ کی نعلین شریفین نے اس گائوں کی زمین کو چھو لیا اور صرف ایک لمس کے صدقے یہ گائوں دنیا کے سب سے بڑے سفارتی اصول کا قبلہ بن گیا اور آج دنیا کے کسی بھی کونے میں دو متحارب فریقین کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے تو وہ نسل‘ مذہب‘ زبان اور فرقے سے بالاتر ہو کر اس معاہدے کو ’’حدیبیہ اکارڈ‘‘ قرار دے دیتے ہیں‘1385 سال قبل ہونے والا یہ معاہدہ محض معاہدہ نہیں تھا‘ یہ دنیا میں جدید سفارت کاری کی بنیاد بھی تھا‘ یہ معاہدہ دو گروہوں یا دو انسانوں کے درمیان بھی نہیں تھا‘ یہ معاہدہ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور ان کفار کے درمیان تھا جن کا غرور مٹی میں مل چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی انا کا شملہ بلند رکھنا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی انا کو مزید ایک سال کی مہلت دے دی اور اس مہلت نے ثابت کر دیا‘ آپ اگر کامیابی کے قریب پہنچ چکے ہیں تو آپ کبھی لڑنے کی غلطی نہ کریں‘ آپ چند قدم پیچھے ہٹ جائیں‘ آپ کی یہ پسپائی آپ کو دائمی فتح کی طرف لے جائے گی لیکن آپ نے اگر اس کے برعکس فیصلہ کیاتو آپ کے تمام دشمن ایک بار پھر اکٹھے ہو جائیں گے اور ان کا یہ اجتماع آپ کی فتح کو دور لے جائے گا۔

نبی اکرمؐ پندرہ سو صحابہؓ کے ساتھ یکم ذیقعد چھ ہجری کو عمرے کے لیے روانہ ہوئے‘ قربانی کے ستر اونٹ بھی اس قافلے میں شامل تھے‘ قافلے نے مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ نامی گائوں میں احرام باندھ لیے مگر قریش نے اعلان کر دیا‘ ہم مدنی قافلے کو مکہ کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیں گے‘ قریش نے مسلمانوں کو روکنے کے لیے پہلے بدیل بن ورقا کو حدیبیہ بھجوایا‘ وہ قائل ہو کر واپس چلا گیا‘ قریش نے پھر حلیس بن علقمہ کو بھجوایا‘ وہ بھی قائل ہوا اور واپس چلا گیا‘ قریش نے پھر عروہ بن مسعود ثقفی کو بھجوایا‘ وہ بھی مسلمانوں کے ارادے سے متفق ہو گیا‘ پھر نبی اکرمؐ نے حضرت عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھجوایا لیکن قریش اپنی ضد کا جھنڈا سرنگوں کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے‘ قریش نے آخر میں سہیل بن عمرو کو مسلمانوں سے تفصیلی مذاکرات اور معاہدہ کی ذمے داری سونپ دی‘ رسول اللہ ﷺ معاہدے کے لیے تیار ہو گئے‘ معاہدے کے دوران سہیل بن عمرو کا رویہ انتہائی توہین آمیز اور معاہدے کی شرائط مسلمانوں کے وقار سے انتہائی منافی تھیں مگر اللہ کے نبیؐ کی پیشانی پر شکن تک نہ آئی‘ معاہدے کی شرائط حضرت علیؓ تحریر فرما رہے تھے‘ حضرت علیؓ نے معاہدے کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی۔

سہیل بن عمرو فوراً بولا’’ ہم تمہارے رحمن کو نہیں مانتے‘ آپ معاہدے کو با سمک اللھم سے شروع کریں گے‘‘ رسول اللہ ﷺ نے یہ شرط مان لی‘ حضرت علیؓ نے تحریر کیا ’’ یہ صلح نامہ جو محمدالر رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو سے کیا‘‘ سہیل بن عمرو تیز آواز میں بولا’’ ہم اگر محمدؐ کو رسول مانتے تو آپ لوگوں سے کبھی لڑائی نہ کرتے‘ لکھو جو محمدؐ بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے کیا‘‘ رسول ا للہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ’’آپ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ کر محمدؐ بن عبداللہ تحریر کر دیں‘‘ حضرت علی ؓ نے عرض کیا ’’ میں یہ گستاخی نہیں کر سکتا‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا‘ آپ اس جگہ انگلی رکھ دو‘ جہاں میرا نام تحریر ہے‘‘ حضرت علیؓ نے اپنی انگشت شہادت اس جگہ رکھ دی‘ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؓ کے ہاتھ سے قلم لیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے‘ اس کے بعد حضرت علیؓ نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ تحریر کر دیے‘ اس کے بعد سہیل بن عمرو نے معاہدے کی آٹھ شرائط لکھوائیں‘ میں جب بھی یہ شرائط پڑھتا ہوں‘ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ‘یہ شرائط مسلمانوں کے لیے اس قدر توہین آمیز تھیں کہ حضرت عمرؓ جیسے شخص بول پڑے ’’ یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ بے شک ہم ہیں لیکن میں کسی بھی طرح اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا‘‘۔ معاہدہ ہو گیا تو نبی اکرمؐ نے رفقاء کے ساتھ نماز ادا کی‘ قربانی کے اونٹ ذبح کیے‘ سر کے بال منڈوائے اور خانہ کعبہ کا طواف کیے بغیر احرام کھول دیے اور یوں قافلہ عمرہ کے بغیر مدینہ واپس آ گیا۔

یہ معاہدہ تین لحاظ سے حیران کن تھا‘ ایک نبی اکرمؐ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کٹوا دیا اور اپنے دست مبارک سے رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کاٹ دیے اور یہ وہ بنیادی اصول تھا جس پر مسلمانوں اور کفار میں جنگ چل رہی تھی‘ مسلمانوں نے اگر اتنی ہی لچک دکھانی تھی تو یہ لوگ یہ لچک مکہ میں رہ کر بھی دکھا سکتے تھے اور یوں ہجرت اور جنگوں کی ضرورت نہ پڑتی‘ کوئی مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کاٹنا اور رسول اللہ ﷺ کے اسم مبارک پر قلم پھیرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ‘ حضرت علیؓ نے بھی نبی اکرمؐ کے حکم کے باوجود یہ جسارت نہیں کی‘ نبی اکرم ؐپھر اس حد تک کیوں چلے گئے؟ یہ منطق آج کے دنیاوی ذہن نہیں سمجھ سکتے۔ دو‘ آپ سچے بھی ہوں‘ تگڑے بھی ہوں اور آپ یہ بھی جانتے ہوں‘ آپ کا دشمن کمزور ہو چکا ہے‘ یہ شہر سے باہر نکل کر لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا لیکن آپ اس کے باوجود ایسی شرائط پر معاہدہ کر لیں کہ آپ کے قریب ترین ساتھی بھی یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں ’’کیا آپؐ اللہ کے رسول نہیں ہیں‘ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں اور کیا یہ مشرک نہیں ہیں‘‘ نبی اکرم ؐ اپنے صحابہؓ کو اس حد تک کیوں لے گئے؟

اس نقطے کو بھی کوئی عام انسان نہیں سمجھ سکتا اور تین‘ آپ مشرکین سے معاہدے کی وجہ سے طواف کے بغیر احرام کھول دیں اور حدیبیہ میں جانور ذبحہ کرنے پر مجبور ہو جائیں‘نبی اکرمؐ نے اسلام کی اتنی بڑی روایت کیوں توڑ دی؟ یہ منطق بھی آج کا ذہن نہیں سمجھ سکتا لیکن قربان جائیں رسول اللہ ﷺ کی فراست پر کہ یہ معاہدہ صرف ایک سال بعد ایسا ٹرننگ پوانٹ ثابت ہوا جس نے مکہ کو پکے ہوئے پھل کی طرح مسلمانوں کی جھولی میں گرا دیا اور وہ مسلمان جو ایک سال پہلے تک اس معاہدے کو شک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ کعبہ کے اندر سے بت اٹھا رہے تھے اور ان بتوں کو کعبہ کی دہلیز پر مار مار کر توڑ رہے تھے اور یوں اس ایک معاہدے نے دنیا کی پوری سفارتی تاریخ بدل دی‘ اس معاہدے نے دنیا کو بتا دیا‘ آپ کو اگر بڑی فتح‘ بڑے امن اور بڑے کاز کے لیے کوئی ایسا معاہدہ بھی کرنا پڑے جس پر آپ کے اپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں اور وہ آپ کا دامن پکڑ کر یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائیں ’’ کیا ہم سچے نہیں ہیں‘ کیا یہ لوگ ہمارے بچوں کے قاتل اور فسادی نہیں ہیں اور کیا ہم ان سے لڑنے کی ہمت اور استطاعت نہیں رکھتے‘‘ تو بھی آپ یہ معاہدہ کر گزریں اور آپ کو اس معاہدے کے لیے خواہ مخالفوں کی کوئی بھی شرط ماننا پڑے‘ آپ مان جائیں کیونکہ فتح بہرحال حدیبیہ میں بیٹھے لوگوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔

آپ معاہدہ حدیبیہ کی روشنی میں طالبان کے ایشو کو دیکھئے‘ طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے‘ پاکستان کا آئین ہماری کمزوری ہے‘ ہم اس پر کمپرومائز نہیں کر سکتے مگر میرا مشورہ ہے‘ آپ ان کی یہ شرط مان جائیں کیونکہ یہ شرط بسم اللہ الرحمن الرحیم یا محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے بڑی نہیں‘ یہ لوگ ہمارے بچوں‘ معصوم شہریوں کے قاتل بھی ہیں لیکن آپ اس کے باوجود بڑے امن کے لیے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیں کیونکہ یہ قاتل ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے قاتلوں سے بڑے نہیں ہیں‘ آپؐ نے حدیبیہ کا معاہدہ کرتے ہوئے اپنی صاحبزادیوں پر تشدد کرنے والوں‘ حضرت امیر حمزہؓ کے قاتلوں اور ہجرت پر مجبور کرنے والوں کو بھی فراموش کر دیا تھا‘ آپ ان کے ساتھ میز پر بیٹھ جائیں‘ ہو سکتا ہے لوگ اس کو ریاست کی پسپائی قرار دیں لیکن آپ کی پسپائی طواف کے بغیر احرام کھولنے سے بڑی پسپائی تو نہیں ہوگی اور احرام بھی کن کن ہستیوں نے کھولا‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔

ہم لوگ کتنے ہی پارسا‘ نیک اور عظیم ہو جائیں مگر ہماری پارسائی حدیبیہ کے قافلے میں شامل کسی ایک شخص کے پائوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہو سکتی اور ہماری ریاست کو اگر طالبان کے ساتھ ان کی مرضی کا معاہدہ بھی کرنا پڑے تو کر جائیے کیونکہ ہماری ریاست نبی اکرمؐ کی ریاست سے بڑی اور معتبر نہیں ہو سکتی‘ آپ ایک بار جھک کر دیکھ لیجیے‘ یہ معاملات حل ہو جائیں گے کیونکہ ریاست اس وقت درجنوں مسائل کا شکار ہے‘ ہمیں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم نے اگر اس نازک وقت میں ان لوگوں کے ساتھ بھی جنگ چھیڑ لی تو ہمارے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا‘ ہمارے زخم بڑھ جائیں گے‘ ہمیں اپنے قدم جمانے کے لیے‘ اپنے معاشی مسائل کے خاتمے کے لیے اور قوم کو اکٹھا کرنے کے لیے تین سال کا عرصہ درکار ہے‘ ہم اگر ان کے ساتھ معاہدہ کر کے یہ تین سال حاصل کر لیتے ہیں تو ہم کامیاب ہو جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں یہ جنگ پاکستان کی گلیوں میں منتقل ہو جائے گی‘ اس کو نئے کمانڈر مل جائیں گے اور یہ کمانڈر ہمیں منزل سے دور لے جائیں گے‘ دور بہت دور۔

ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے‘ ہم نے حدیبیہ کی طرف جانا ہے یا پھر معاہدہ ویتنام کی طرف‘ ہم نے انا کا شملہ نیچے کرنا ہے یا پھر ویتنام کی طرح لاشیں اٹھانی ہیں‘ فیصلہ آپ نے کرنا ہے‘ بہرحال آپ ہی نے۔


بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس"

Enhanced by Zemanta

مذاکرات ہی واحد حل ہے

ہمارے معاشرے میں دو طرح کے انتہا پسند ہیں ،ایک وہ جو بد سے زیادہ بدنام ہیں اور عموماً مذہبی انتہاپسند کے نام سے جانے جاتے ہیں جبکہ انتہا پسندوں کی دوسری قسم کا تعلق لبرل فاشزم سے ہے۔ لبرل بہت حساس ہوتے ہیں ،اگر کہیں کوئی کتا بھی تکلیف میں ہو تو ان سے برداشت نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ اپنے مخالفین کو کتے کی موت مرتا دیکھ کر بھی ان کی انسانیت نہیں جاگتی۔ ان کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ فوج بلوچستان میں آپریشن کرے تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں لیکن وزیرستان میں جیٹ طیاروں سے بمباری ہو تو پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ طالبان کو ’’اپنے لوگ‘‘ کہ کر مذاکرات کی بات کی جائے تو یہ لبرل فاشسٹ رِٹ آف دی گورنمٹ کی رَٹ لگائے رکھتے ہیں لیکن کراچی میں بھتہ مافیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے تو انسانی حقوق کا درس شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح لال مسجد اور سوات آپریشن کی راہ ہموار کی گئی تھی ،ویسے ہی اب وزیرستان فتح کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ان کے دلائل کی عمارت سطحی نوعیت کے پانچ دلائل پر کھڑی ہے جو کچھ یوں ہیں:

1۔امن مذاکرات ان سے ہو سکتے ہیں جو امن کے خواہاں ہوں،جو گن پوائنٹ پر ایجنڈا نافذ کرنا چاہیں ان سے کیسی بات چیت؟کاش ایسے مشیر امریکہ کو بھی میسر آتے تاکہ وہ طالبان سے مذاکرات کی غلطی نہ کرتا۔ کولمبیا کی حکومت کو ایسے دوراندیش دانشور دستیاب ہوتے تو وہ ان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہرگز نہ بیٹھتی جو بندوق کی نوک پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کر رہے تھے۔ جب بنگالیوں نے اپنے مطالبات کے حق میں بندوق اُٹھائی تب بھی یہی کہا گیا کہ ہم ان مٹھی بھر شرپسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گے لیکن جب فوج ڈھاکہ میں داخل ہوئی تو آپریشن پر اُکسانے والے ہی انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچانے لگے اور آج تک فوج کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں۔

2۔ طالبان جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں، پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے، ہمارے عدالتی نظام پر یقین نہیں رکھتے تو ایسے باغیوں کو طاقت سے کیوں نہ کچلا جائے؟آئرلینڈ کے مسلح باغی برطانیہ کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتے تھے مگر انگریزوں نے مذاکراتی عمل شروع کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ پہلے ہمارے آئین کو تسلیم کرو پھر بات چیت ہو گی۔ کشمیری مجاہدین جو بھارتی فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں ،بھارتی حکومت ان کے ساتھ پس پردہ کئی بار مذاکرات کر چکی ہے مگر ان کے آئین نے کبھی برا نہیں منایا۔ جب دہشت گرد کسی عمارت پر قبضہ کر لیتے ہیں ،کسی ہوائی جہاز کو یرغمال بنا لیتے ہیں تو ان سے بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہرگز یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تم ہماری ریاست اور آئین کو تسلیم کرتے ہو یا نہیں ۔ایک سکندر نے اسلام آباد کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ بات چیت شروع کرنے سے پہلے یہ تو پوچھو اسے جمہوریت پر یقین ہے یا نہیں۔

3۔ طالبان کی بات پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔جب طالبان کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ اس طرح کی ای میل یا ٹیلی فون کال تو کوئی بھی کر سکتا ہے تو انہیں یہ بات سخت ناگوار محسوس ہوتی ہے اور سوال کرنے والوں کو طالبان کا حمایتی قرار دے دیا جاتا ہے مگر جب یہی طالبان کسی چرچ یا پولیو ٹیم پر حملے کی تردید کرتے ہیں تو کل تک ان کے اعترافی بیان کو قرآن و حدیث کا درجہ دینے والے یہ نام نہاد لبرل فوراً پینترا بدل لیتے ہیں۔ تب یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ مجرم اپنا گناہ قبول نہ کرے تو کیا اس کی بات سچ تسلیم کر لی جائے؟ بھلا ایسے لوگوں پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے۔چند روز قبل میرے ساتھ گفتگو کے دوران طالبان کے سابق مرکزی ترجمان سجاد مہمند المعروف احسان اللہ احسان نے پولیو ٹیموں پر حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور میں نے ان کا موقف فیس بک پر بیان کیا تو کئی افراد نے یہی اعتراض اٹھایا۔ میرا سوال یہ ہے کہ تردیدی بیانات مشکوک اور ناقابل بھروسہ ہیں تو اعترافی بیانات کوکیوں من و عن تسلیم کر لیا جاتا ہے؟

4۔ طالبان کا قلع قمع کرتے وقت اگر عام افراد بھی مرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ میں گندم کے ساتھ گھن بھی پس جاتاہے۔بہت خوب،آپ طالبان کو نیست و نابود کرنے کے لئے بے گناہ قبائلیوں پر بم گرائیں تو ٹھیک ،اگر وہ بم دھماکوں میں عام افراد کو نشانہ بنائیں تو بہت سفاک اور ظالم۔ یہ ہاتھیوں کی وہ لڑائی ہے جس میں گھاس کی طرح دونوں طرف عوام ہی کچلے جائیں گے۔ فوجی آپریشن کے دوران تھوڑے بہت طالبان کے ساتھ بے گناہ قبائلی مریں گے تو خودکش حملہ آور شہروں میں آ کر دھماکے کریں گے اور بے قصور لوگ مارے جائیں گے۔یوں اس آپریشن کا بھی وہی حشر ہو گا جو اس سے پہلے کی جانے والی کارروائیوں کا ہوا۔

5۔ فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والوں کی آخری منطق یہ ہے کہ مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور اب ماسوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچا کہ باغیوں کو کچل دیا جائے۔ مذاکرات کے نام پر حکومت نے جو سرکس سجائی تھی اس کی حقیقت تو مولانا سمیع الحق نے آشکار کر دی۔ یہ اسی طرح کا بھونڈا مذاق تھا جو اکبر بگٹی اور غازی عبدالرشید کے ساتھ کیا گیا۔ باقی رہا ان باغیوں کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کا سوال تو ماضی قریب میں مسلح جدوجہد کو فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کرنے کی ایک ہی مثال ہے اور وہ ہے سری لنکا کی جہاں تامل باغیوں کو بندوق کے ذریعے جھکنے پر مجبور کر دیاگیا مگر26سالہ لڑائی کے بعد سری لنکا کے شہریوں کو یہ فتح نصیب ہوئی۔ اس دوران وزیر دفاع سمیت کئی حکومتی شخصیات قتل ہوئیں ،کئی جرنیل مارے گئے، 25000فوجی جوان اور افسرجان سے گئے، بچے کھچے باغیوں نے اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالے جب تک ان کے سپہ سالار سمیت 27000ہزار جنگجو مارے نہیں گئے، معیشت تباہ ہو گئی اور کم از کم 200 ارب ڈالر کا خسارہ ہوا تب کہیں جا کر یہ لڑائی ختم ہوئی۔اگر ہماری قوم، ہماری سیاسی قیادت اور فوج اس قدر طویل جنگ لڑنے کی استقامت رکھتی ہے اور ہر قسم کی قربانیاں دینے کو تیار ہے تو جی بسم اللہ،آگے بڑھیں اور اس بغاوت کا سر کچل دیں لیکن بُرا نہ مانیں تو ماضی میں کی گئی فوجی کارروائیوں کی بیلنس شیٹ چیک کر لیں۔اگر ہم چار فوجی آپریشنوں کے ذریعے بلوچستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور حکومتی رٹ بحال ہو چکی ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ وزیرستان میں بھی اس آپریشن کے نتیجے میں امن قائم ہو جائے گا۔

ہمارے کمانڈو جرنیل پرویز مشرف جو کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں،سب سے پہلے انہوں نے قبائلی علاقوں میں فوج داخل کی اور آپریشن کیا مگر بھاری جانی و مالی نقصان کے نتیجے میں یہ آپریشن ادھورا چھوڑ کر طالبان سے امن معاہدہ کرنا پڑا اور کور کمانڈر پشاور نے اسی نیک محمد کو ہار پہنائے جس نے فوجی جوانوں کو ذبح کیا تھا۔ان کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو پہلے وزیرستان اور پھر سوات میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا ۔وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے قوم کو خوشخبری دی کی ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن قوم نے محسوس کیا کہ دہشت گرد کمر ٹوٹنے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔پہلے تو ان کی کارروائیاں پشاور تک محدود تھیں مگر کمر ٹوٹنے کے بعد وہ رینگتے رینگتے اسلام آباد آ گئے اور ایک دن جی ایچ کیو پر قبضہ کر لیا۔یہ قبضہ چھڑانے کے لئے ہماری حکومت کو جیل میں قید کالعدم جماعت کے رہنما کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر جی ایچ کیو لے جانا پڑا تاکہ وہ یرغمالیوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کر سکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بار پھر ان کی کمر توڑنے کی کوشش میں ہمارا رہا سہا بھرم ٹوٹ جائے۔


بشکریہ روزنامہ "جنگ"

Enhanced by Zemanta