Showing posts with label Allah. Show all posts
۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں.......
دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہز ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے میری ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔
ہمارے دوست سلمان آصف کے فیس بک پیج پر لگی ایک تضمین کے مطابق ،
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجےریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے
جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔
اگر زندگی دھرنا فری ہوتی تو بہت سی ایسی خبریں بھی ریڈار پر چمک سکتی تھیں جن پر دھرنا پورے وزن کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔جیسے شمالی وزیرستان کا آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں میڈیا اور ناظرین و قارئین کے ذہن سے دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں۔اب تو آئی ایس پی آر نے بھی فوجی آپریشن پر روزانہ کا مختصر سا پریس ریلیز جاری کرنا بند کردیا ہے۔جب نشر اور شایع ہی نہیں ہونا تو خامخواہ کاغذ ضایع کرنے کا فائدہ۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں نامعلوم افراد کی اجتماعی قبروں کی جانچ کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میںذمے داروں کے تعین میں ناکامی کی خبر اگر عام دنوں میں سامنے آتی تو کم ازکم دو تین روز ضرور نشریاتی اور چائے خانی چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن یہ خبر بھی ریٹنگ کی اجتماعی قبر میں دفن ہو کے رہ گئی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی دستوں کے درمیان جھڑپیں اور آپریشن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ پر ناکام حملہ ہوچکا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی خبر دھرنے سے بڑی نہیں۔
بھارت کی نریندر مودی حکومت نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی پاکستانی سفارت کاروں سے معمول کی ملاقات کو جواز بنا کر خارجہ سیکریٹریوں کا مجوزہ اجلاس یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔خود بھارت کے اندر مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کام کررہی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظات ختم کرکے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی بھی تیاری جاری ہے۔عام دنوں میں یقیناً پاکستان میں سرکاری و نجی سطح پر اس پیش رفت کی بابت کچھ نہ کچھ بحث و مباحثہ ضرور ہوتا مگر دھرنا۔۔۔۔۔
انھی دنوں میں ہونے والے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے بھی آگے بڑھا دیے گئے۔ چین کے اعلی سطح کے وفد نے بھی پہلے بستر بند باندھا پھر یہ کہتے ہوئے دوبارہ کھول دیا کہ تسی دھرنیاں تو نبڑ لوو ساڈی خیر اے۔
صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔لگتا ہے ڈی چوک کے باہر پورے پاکستان میں خیریت ہے۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں۔دھاڑی مزدوروں کے پاس اچانک سے اتنا کام آگیا ہے کہ ان کے نخرے ہی نہیں سما رہے۔سچ ہے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔
مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ حالات پکی سڑک کی جانب جارہے ہیں کہ کسی ایسی پگڈنڈی پر چڑھ چکے ہیں جو گھنے جنگل میں جا کر کہیں گم ہوجائے گی۔مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک جو بھی کچھ ہوا اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہے۔گولیاں اگر چل بھی رہی ہیں تو منہ سے۔سینے چھلنی بھی ہو رہے ہیں تو طعنوں سے۔تصادم ہو بھی رہا ہے تو فیس بک اور ٹویٹر کے ہتھیاروں سے۔سیاسی جماعتوں کی اکثریت پرائی آگ پر ہاتھ تاپنے اور کیک میں سے اپنا حصہ لینے سے زیادہ کیک بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔چیخنے والے بھی مارشل لا کے خلاف ہیں اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھنے والے بھی مارشل لا نہیں چاہتے۔خود مارشل لا والے بھی مارشل لا کی نوبت سے بچنا چاہتے ہیں۔مخالفین ایک دوسرے کو زخمی ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی کسی کو مارنا نہیں چاہتا۔دل میں البتہ یہ خواہش ہے کہ سامنے والے کو پھانسی لگ جائے لیکن رسے سے نہیں بلکہ خودکشی کے دوپٹے سے۔
اس سے بھی زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ پاکستان نہیں چاہتا۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔اگر بن گیا تو سینتالیس کے جناحی، اٹھاون کے ایوبی، اکہتر کے ذوالفقاری، ستتر کے ضیائی اور ننانوے کے مشرفی پاکستان کے بعد یہ چھٹا نیا پاکستان ہوگا۔لیکن اگر چھٹے پاکستان میں بھی گذشتہ پاکستانوں کی طرح بیڈ روم فوج ، ڈرائنگ روم پنجاب ، باورچی خانہ سندھ ، دالان خیبر پختون خواہ ، واش روم بلوچستان اور چھت گلگت بلتستان اور فاٹا کو الاٹ ہوئی تو پھر ساتویں پاکستان کا نقشہ بھی ابھی سے تیار رکھیں۔۔۔
وسعت اللہ خان
سول نافرمانی کا اعلان......Imran Khan calls for civil disobedience
جب لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو عقل و خرد پر مبنی تجزئیے پس پشت چلے جاتے ہیں، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبوں کے سیلاب میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے''۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ، مطالبات اور طرز عمل کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے مگر چار روز سے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کاروں کا انداز فکر کیا ہے؟ اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔
یہ دعویٰ اور خواہش اپنی جگہ کہ فلاں، فلاں اتنا بڑا ہجوم اسلام آباد میں لا بٹھائے تو کیا ہو؟ مگر سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کی دو شاہراہوں پر علامہ اور کپتان کے پرجوش، پرعزم ا ور ثابت قدم کارکنوں کا قبضہ ہے۔ دونوں لیڈر دس لاکھ افراد اکٹھے نہ کرسکے مگر ان کی موجودہ جمع پونجی بھی مایوسی، اضطراب اور جذبات کی رو میں بہہ کر ریڈ زون کا ’’تقدس‘‘ پامال کرنے اور موجودہ سیاسی بندوبست کا تیا پانچہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ماڈل ٹائون جیسا کوئی انسانی المیہ رونماہوا تو مداخلت سے ہر قیمت پر گریز کی علمبردار قوتوں کو اپنا فرض ادا کرنے پڑیگا جس کا احساس سراج الحق، خورشید شاہ اور الطاف حسین کو تو شاید ہے مگر جن کا سب کچھ دائو پر لگا ہے انہیں نہیں یا کم ہے ورنہ چار روز سے بے نیازی دیکھنے کو نہ ملتی۔
عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان میری ناقص رائے میں نہ کوئی غیر سنجیدہ حرکت ہے نہ دھرنے سے جان چھڑانے اور چھوٹی موٹی رعایت لے کر پسپا ہونے کی باعزت تدبیر۔ یہ کور کمیٹی میں طویل بحث مباحثے کا نتیجہ اور موجودہ سیاسی نظام سے چمٹے رہنے کے خواہش مند اپنے ساتھیوں کو احتجاج کے سمندر میں دھکا دینے کی چال ہے۔
بجا کہ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا ،صنعتکاروں ، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی موثر تائید و حمایت اسے حاصل نہیں اور عام آدمی بھی بجلی، گیس کا بل نہ دے کر گھر کا کنکشن کٹوانے کا متحمل نہیں۔1977ء میں پی این اے نے سول نافرمانی کا اعلان احتجاجی تحریک کے دوران اس وقت کیا جب کاروبار ریاست عملاً معطل تھا اور حکومت مفلوج و بےبس عوام لیڈر شپ کی بات ماننے پر تیار اور بھٹو کی ظالمانہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب صنعتکاروں ، تاجروں اور سرکاری ملازمین کی اکثریت سول نافرمانی پر آمادہ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس اعلان سے حکومت کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور بین الاقوامی برادری ایک معقول لیڈر کی طرف سے جو امریکہ و یورپ میں بھی جان پہچان رکھتا ہے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدگی سے لے گی۔ سرمایہ کار بھی حکومت کی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ اسی تناظر میں منسوخ ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات واضح ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حامی اور حکومت کے مخالف صنعتکاروں ،تاجروں اور سرمایہ کاروں کا طرز عمل بھی فیصلہ کن ہو گا‘‘ خیبر پختونخوا کی حکومت نے وفاقی محاصل اور بجلی و گیس کے بل کی وصولی سے انکار کردیا تو میزائیے کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام وزارت خزانہ کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی اور قومی معیشت کا خسارہ 500 ارب سے کئی گنازیادہ ہو گا۔ 500 ارب روپے خسارے کا تخمینہ حکومتی اکابرین پیش کر رہے ہیں۔
یہ اعلان تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش بھی ہے لوگوں کو سرکاری ٹیکس، بجلی گیس کے بل نہ دینے کا اعلان کر کے اخلاقی اور قانونی طور پر خیبر پختونخوا کی حکومت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حکومتی محاصل اور بل ادا کرنے سے انکار مگر خود قومی خزانے سے تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے رہنا وہ دو عملی ہو گی جو عمران خان کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اب فی الفور اسمبلیوں سے استعفے اور کے پی کے حکومت کے خاتمے میں تحریک انصاف کی بچت ہے شاید عمران خان نے یہی مقصد حاصل کرنے کے لئے کور کمیٹی سے ذو معنی فیصلہ کرایا اور پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کو ناک آئوٹ کر دیا۔
میاں نواز شریف، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان تینوں ان دنوں حالات کے جبر کا شکار ہیں اور ایک ایسی اعصابی جنگ میں مصروف جو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کے زخم خوردہ ہیں اور ان کے کسی دعوے، یقین دہانی پر اعتبار کرنے سے قاصر۔ جو پوزیشن یہ دونوں لے بیٹھے ہیں اس سے پیچھے ہٹنا ان کے لئے سیاسی خود کشی ہے ہر گزرتے دن اور لمحے کے ساتھ یہ مصالحت اور مفاہمت کے عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ قوت برداشت ، توازن و اعتدال اور آئین و قانون کی پابندی سے عاری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کی سڑکوں پر قابض سیاسی و مذہبی کارکن نامہربان موسم، مسلسل بے آرامی، حکومت کی سرد مہری اور دانشوروں کی طرف سے طنز و تضحیک کے سبب کسی وقت بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت سے دو چار ہو سکتے ہیں۔
کارکنوں کا زیادہ دنوں تک قیام اور عمران و طاہر القادری کے دھرنوں کا ایک دوسرے میں ادغام موجودہ سٹیٹس کو کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے مگر تاحال حکومت کمیٹیوں کی تشکیل میں مصروف ہے اور اس کے وزراء اپنے بیانات کے ذریعے لانگ مارچ کے قائدین اور شرکاء کو اشتعال دلانے میں مشغول ۔کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ سڑکوں پر گوشت پوست کے انسان بیٹھے ہیں فولادی مجسمے نہیں کہ زبان کے زخم سہتے رہیں گے اور کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کریں گے۔ اب تک حکومت نے اپنے تساہل پسندانہ رویے، ناقص طرز حکمرانی اور اپوزیشن کے مطالبات سے چشم پوشی و بے نیازی سے بگاڑ کی راہ ہموار کی مگر اب غلطی کی گنجائش نہیں اور کسی غیر آئینی و غیر جمہوری اقدام کی راہ روکنا اس کی ذمہ داری ہے اور تاخیر نقصان دہ ہوگی۔
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد برطانوی اخبار ''ڈیلی ٹیلیگراف'' نے لکھا مسٹر بھٹو کو جو ملک کے واحد سربرآوردہ سیاستدان ہیں اس کارروائی کا الزام قبول کرنا چاہئے۔ اپوزیشن والے تو سارے کے سارے کمزور لوگ تھے انہیں بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاسکتا تھا''۔ 6 جولائی 1977ء لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو تجزیوں اور تبصروں کی نہیں عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبات میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے مگر کوئی سمجھے تو!
ارشاد احمد عارفبہ شکریہ روزنامہ ''جنگ
Imran Khan calls for civil disobedience The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji
محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں
The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji
14 اگست کو کیا ہو گا ؟
نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات جانتی ہے لیکن بزرگوں کا کہنا ہے کہ بری نیت انسان میں خوف پیدا کر دیتی ہے اور خوفزدہ انسان اکثر اوقات غلط فیصلے کر ڈالتے ہیں۔ اگر حکمران خوفزدہ ہو جائیں تو ان کے غلط فیصلوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔ اکثر حکمران اپنے غلط فیصلوں کو آئین کے عین مطابق قرار دیتے ہیں لیکن نیت کی خرابی کے باعث درست آئینی فیصلے بھی منفی سیاسی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں فوج کو بلانا آئینی لحاظ سے ایک درست فیصلہ ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا ایک غلط سیاسی فیصلہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت فوج کے ذریعہ 14 اگست کو اسلام آباد میں عمران خان کے آزادی مارچ کو روکنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے وزرا کا دعویٰ ہے کہ فوج کو بلانے کا فیصلہ عمران خان کے آزادی مارچ کے اعلان سے بہت پہلے کر لیا گیا تھا اور یہ کہ فوج کو بلانے کا اصل مقصد وفاقی دارالحکومت کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو بلانے کا اصل مقصد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا ہے تو پارلیمینٹ کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ وہ جماعتیں جو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں انہیں اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ غلط کیوں نظر آ رہا ہے؟ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے فوج کو غلط نہیں کہہ رہے بلکہ فوج کو بلانے والوں کی نیت پر شک کر رہے ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعہ دفعہ 245 میں یہ شق شامل کی کہ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے دوران وفاقی حکومت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر سکتی ہے ۔ یہ آئینی ترمیم 21 اپریل کو منظور ہوئی اور چند دن کے بعد لاہور میں قومی اتحاد کے جلوسوں کو روکنے کیلئے فوج کو طلب کر لیا گیا ۔ قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف تحریک چلائی جا رہی تھی ۔25 اپریل 1977ء کو قومی اتحاد میں شامل ایک جماعت کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے ایک خط جاری کیا جس میں فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے لہٰذا ایک غیر قانونی حکومت کی حفاظت کرنا فوج پر لازم نہیں۔ پھر جب لاہور میں ایک جلوس روکنے کیلئے فوج کو فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی افسران نے فائرنگ سے انکار کر دیا۔ اس بحران کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا اور یہی وہ مارشل لا تھا جس کے منفی نتائج آج بھی بھگتے جا رہے ہیں۔
1977ء میں دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا آئینی طور پر درست فیصلہ تھا لیکن اس درست آئینی فیصلے کے سیاسی نتائج غلط تھے ۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور نواز شریف حکومت کی مخالف کچھ جماعتوں نے انکی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 245 کا نفاذ انہیں روکنے کی کوشش ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام آباد کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے بچانے کا تاثر بھی دیدیا اور اگر 14 اگست کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری سے بچ نکلنے کا راستہ بھی تلاش کر لیا ۔ تاہم یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ 245 کے اختیار کا مطالبہ خود فوجی قیادت نے کیا تھا کیونکہ یہ اطلاعات ملی تھیں کہ رمضان المبارک کے اختتام پر ملک کے اہم شہروں میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ عمران خان انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے بلکہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں ۔یہ خاکستار پرویز رشید صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہے کہ تختہ الٹنا ایک غیر سیاسی اور غیر آئینی اصطلاع ہے۔ تختہ الٹنے کا مطلب ہے مارشل لا لگانا لیکن عمران خان ایک سے زائد بار مارشل لا کی مخالفت کر چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے کچھ سیاسی اتحادی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے درپے ہیں لیکن عمران خان کو مارشل لا کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
عمران خان کی طرف سے 14 اگست کے دن اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کی ٹائمنگ اور ان کے مطالبات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن عمران خان سے مارشل لا کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ مارشل لا نواز شریف کو ایک نئی سیاسی زندگی اور عمران خان کو سیاسی موت سے ہمکنار کرے گا ۔ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دیکر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے ۔نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ یہ اصلاحات صرف اور صرف منتخب پارلیمینٹ کے ذریعہ ممکن ہیں ۔تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ 14 اگست کے دھرنے کا اختتام انتخابی اصلاحات کے ایک پیکج پر کر دیا جائے تو یہ بہت بڑی سیاسی کامیابی ہو گی ۔ پھر پارلیمینٹ کو چھ ماہ یا ایک سال کا ٹائم فریم دیا جا سکتا ہے اس عرصے میں انتخابی اصلاحات نہ ہوں تو پھر ایک زوردار تحریک چلائی جا سکتی ہے جس میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اہم جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔
اتوار کی صبح تحریک انصاف کے ایک رہنما نے ناشتے کی میز پر کہا کہ ملک میں مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟فرمانے لگے کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف مارشل لا کو سپورٹ نہیں کرے گی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پروفیشنل سولجر ہیں وہ اپنی وردی پر سیاست میں مداخلت کا داغ نہیں لگنے دیں گے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ مارشل لا کی توثیق نہیں کریگی۔
میں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کچھ مخالفین کا الزام ہے کہ عمران خان کچھ خفیہ ہاتھوں کے ذریعہ استعمال ہو رہے ہیں اور یہ خفیہ ہاتھ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر عمران خان خفیہ ہاتھوں کا کھلونا ہوتا تو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہوتا ۔ خفیہ ہاتھ جانتے ہیں کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیتا اور اگر وہ وزیر اعظم بن گیا تو ایک دفعہ پھر طالبان سے مذاکرات شروع کر دے گا لہٰذا یہ خفیہ ہاتھ عمران خان کو کبھی وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے ۔ اس دلیل میں کافی وزن تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان آنے والے دنوں میں حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر دیں لیکن اگر حکومت 14 اگست سے پہلے پہلے انتخابی اصلاحات کے پیکج پر تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرنے میں کامیاب ہو جائے اور 14 اگست کو اس پیکج کا اعلان ہو جائے تو یہ یوم آزادی کا بہت بڑا تحفہ ہو گا اور اگر حکومت نے خوفزدہ ہو کر مزید غلط فیصلے کر دیئے تو پھر اس حکومت کیلئے اصل خطرہ عمران خان نہیں بلکہ یہ حکومت اپنے لئے خود خطرہ بن جائے گی ۔
حامد میربہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ
.jpg)
حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوجی کو پکڑ لیا
حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے مزاحمت کاروں نے غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کو گرفتار کر لیا ہے۔ابوعبیدہ نام کے اس ترجمان کا اتوار کی شب حماس سے وابستہ ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بیان نشر ہوا ہے جس میں انھوں نے اطلاع دی ہے کہ ''ہم نے ایک صہیونی فوجی کو پکڑ لیا ہے اور قابض فوج نے اس کا اعتراف نہیں کیا ہے''۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت اسرائیلی فوجی شاؤل ایرون القسام بریگیڈز کے زیر حراست ہے۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کی ایک خاتون ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے سے آگاہ ہیں اور اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جونہی عزالدین القسام بریگیڈز کی جانب سے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع سامنے آئی تو مغربی کنارے کے شہروں رام اللہ اور الخلیل کے مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ شروع کردی۔حماس کے عسکری ونگ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کے تیرھویں روز صہیونی فوجی کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔اسرائیلی بمباری میں چارسو اڑتیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کی جوابی کارروائیوں میں اٹھارہ فوجیوں سمیت بیس یہودی مارے گئے ہیں۔عزالدین القسام بریگیڈز کا کہنا ہے کہ اس فوجی کو چوبیس گھنٹے قبل غزہ شہر کے مشرق میں واقع علاقے طفاح میں اسرائیلی فوجیوں پر ایک حملے کے دوران پکڑا گیا تھا۔اس علاقے میں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں اور اتوار کو اس محاذ پر تیرہ جارح فوجی ہلاک ہوچکے تھے۔حماس کے ترجمان سامی ابوزہری نے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کو القسام بریگیڈز کی ایک بڑی کامیابی اور شہداء کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔قبل ازیں اتوار کو غزہ کے علاقے شجاعیہ میں اسرائیلی فوج کی ٹینکوں سے شدید گولہ باری کے نتیجے میں ساٹھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ٹیگز
The amazing Doctors in Al-Shifa hospital in #Gaza
The amazing Doctors in Al-Shifa hospital in #Gaza on duty 24/7 saving lives. They pray, eat and sleep at the hospital.
May Allah reward them, protect them, grant them strength and raise their status. Ameen
May Allah reward them, protect them, grant them strength and raise their status. Ameen
Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah - محترمہ فاطمہ جناح….
’’وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت۔ گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظر، سفید بال، ماتھے پر جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال وجمال، چال میں کمال، مزاج میںبڑے آدمیو ں کا سا جلال، سر تا پا استقلال، رفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، صبا اور سنبل کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ۔‘‘
آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔
محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔
محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔
1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔
قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔
مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔
جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔
قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔
انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔
مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ’’مکتی نیتا‘‘ کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔
مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔
Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah
پاکستانیو ! اللہ کا شکر ادا کرو.......
ان کو دبا کر رکھو، جوتی کی نوک کے نیچے۔ ناز برداریاں بہت کر کے دیکھ لیں، یہ سنپولئے ہیں لاکھ دودھ پلائو ڈسنے سے باز نہیں آئیں گے۔ یہ اس تقریر کے چند جملے ہیں کہ 2002ء کے مسلم کش فسادات کے بعد ایک رکن نے گجرات اسٹیٹ اسمبلی میں کی تھی اور موضوع سخن ریاستی مسلمان تھے۔ اس سانحہ میں مسلمانوں کآ جانی نقصان ہندوئوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوا تھا۔ پچاس ہندوئوں کے مقابلے میں ایک ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے تھے۔ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اب ہندوستان کے وزریر اعظم ہیں۔ گو عدالتی کمیشن نے موصوف کو ان فسادات سے بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔ مگر الزام ہے کہ پیچھا نہیں چھوڑ رہا اور حالیہ انتخابی مہم میں بھی ان کے تعاقب میں رہا۔ وزیرِ اعظم مودی اس سانحہ میں ملوث تھے یا نہیں۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔
مگر ایک بات ضرور ہے کہ ان فسادات کے نتیجے میں بھارت بھر میں مسلمانوں کے لئے زندگی مزید دشوار ہوگئی۔ وہ معاشی اور سماجی اچھوت قرار پائے۔ ان کے سوشل بائیکاٹ کی مہم اس قدر بھرپور تھی کہ مالکان نے برسوں کے مسلمان کارندوں کو فارغ کردیا۔ انہیں خطرناک کمیونٹی قرار دے کر ان سے بچنے کی تحریک شدومد کے ساتھ چلائی گئی۔ ایسے میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ان بیچاروں کے پاس شناخت چھپانے اور کیموفلاج کرنے کے سوا کوئی چارا نہ تھا اور اب عالم یہ ہے کہ سردار علی جب تک سادھورام اور رضیہ بی بی، رجنی نہ بن جائے۔ انہیں ادنی ترین نوکری بھی نہیں مل سکتی۔مسلمانوں کو ملازمت دلوانے کا دھندہ منافع بخش کاروبار ہے اور ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔ جنہوں نے ان کی نئی اور پرانی شناخت کے الگ الگ رجسڑ کھول رکھے ہیں۔ ہندووانہ نام بھی خود دیتے ہیں اور اپنی گارنٹی پر ملازمت دلواتے ہیں۔ تنخواہ بھی خود وصول کرتے ہیں اور حق الخدمت کے طور پر ایک چوتھائی کاٹ لیتے ہیں۔ یوں چار ہزار کا ملازم بمشکل تین ہزار وصول کر پاتا ہے۔ گو یہ دھندہ ایک کھلا راز ہے اور پولیس کی آشیرباد سے چل رہا ہے۔ مگر منافقت کا یہ عالم کہ ہر کوئی حیرت اور لاعلمی کا اظہار کرتا ہے، بھانڈا اس وقت پھوٹا جب نئی دہلی میں بہوجن سماج پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی رہائش گاہ پر گھریلو ملازمہ مردہ پائی گئی۔ پولیس تفتیش میں پتہ چلا کہ مرحومہ کا تعلق مغربی بنگال کے ایک مسلمان گھرانے سے تھا اور اپنا نام اور حلیہ بدل کر ملازمت کر رہی تھی۔ مانگ میں سیندور سجائے۔
ساڑھی میں ملبوس کوشیلیا اصل میں مسلمان خاتون کوثر بی بی تھی، جو ہر صبح ہندووانہ پوجا پاٹ بھی کرتی تھی، مبادا بھید کھل جائے اور وہ نوکری سے جاتی رہے۔ بے روزگاری کے اس عالم میں گداگری مسلمانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ چاندنی چوک، جامع مسجد اور بستی نظام کے علاقے میں جن کے غول کے غول دیکھے جاسکتے ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار سے ملحق ہوٹلوں میں زائرین مساکین کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں ایک ہوٹل والے کو ہم نے بھی 500 روپے دیئے کہ دس روپے فی کس کے حساب سے پچاس مساکین کو کھانا کھلا دے اور ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ادھر سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھاگم بھاگ دوسرے اور تیسرے ہوٹل میں جا رہے تھے۔ عقدہ کھلا کہ یہ مخلوق کام کاج کچھ نہیں کرتی۔ بس سارا دن کھاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا ہوٹل، یہی ان کا کام ہے مگر حیرت ہے کہ سیر پھر بھی نہیں ہوتے۔
ملک بھر میں مسلمانوں کا طرز بود و باش بھی ناگفتہ بہ ہے۔ دنیا کی ہر سہولت سے محروم گندی ترین بستیوں کے ڈبہ نما گھروندوں میں جانوروں سی زندگی ان کا مقدر ہے۔ ان کے لیے تو کرائے کا مکان لینا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دہلی میں مزار غالب سے ملحق غالب اکیڈمی میں ایک مسلمان بینکر سے ملاقات ہوئی۔ جسے نواحی ضلع سے فیملی کو راجدھانی منتقل کرنے میں دشواری ہو رہی تھی، کیونکہ کرایہ کا مکان نہیں مل رہا تھا۔ ذرا ٹوہ کی تو انکشاف ہوا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کاروباری اور ملازمت پیشہ مسلمانوں کے لیے بھی کرائے کے مکان کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔ ہندو مالکان کا تعصب چھپائے نہیں چھپتا۔ لایعنی قسم کے بہانے بناتے ہیں۔ مکان بھلے سے مہینوں خالی رہے، مگر مسلمان کرایہ دار منظور نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل دبائو میں رکھنے کے لیے فرضی شکوک و شبہات اور اذکار رفتہ قسم کی سازشی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں۔
چند برس پیشتر نئی دہلی میں آبادی کے حوالے سے ہونے والے سارک سیمینار میں ایک بھارتی مندوب واویلا کر رہے تھے کہ ’’بھارت مسلم اکثریت کا ملک بننے جا رہا ہے۔ باقی معاملات میں کنجوسی کی طرح لالہ لوگ بچے پیدا کرنے میں بھی ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ یہی نہیں ہمسایہ ممالک سے بھی مسلمان دھڑا دھڑ ہندوستان آرہے ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کے لیے تو گویا فلڈ گیٹ کھلا ہے، جو دیش بھر میں گھریلو ملازمین کے طور پر بے حد پاپولر ہو رہےہیں‘‘ اور موصوف نے باقاعدہ حساب لگا کر بتایا تھا کہ اگر یہی حالات رہے تو 2060ء تک انڈپا میں مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی اور ہندوئوں کو یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ماضی کی طرح پھر سے مسلمانوں کی غلامی کے لیے تیار ہو جائو۔ لطف کی بات یہ کہ موصوف کی ان لن ترانیوں کا جواب بھی ایک ہندوستانی مندوب نے ہی دیا تھا۔ جس نے لطیف پیرائے میں کہا تھا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں۔ آپ کے اعداد و شمار دل کو نہیں لگتے۔ ہندو مہیلائیں اتنی بھی گئی گزری نہیں۔
مسلمانوں پر الزام دھرا جاتا ہے کہ نکمے، کام چور، کند ذہن، جاہل اور ناقابل اعتبار ہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کا تمام تر دوش انہی کو دیا جاتا ہے، گھڑی گھڑائی دلیل ہر فورم پر تیار ملتی ہے کہ ترقی کی راہیں تعلیم سے کھلتی ہیں اور مسلمان ٹھہرے تعلیم سے فلاپ، ایسے میں کوئی ان کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ جبکہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم میں پسماندہ رکھا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی علمی و ادبی زبان اردو کو نظام اور نصاب سے تقریبا خارج کر دیا گیا ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ جس زمانے میں انگریز نے لاہور میں ایچی سن کالج بنایا تھا تو اسی پایہ کے دو اور کالج راجکوٹ اور اجمیر شریف میں بھی قائم کیے تھے۔
چند برس پیشتر راقم کو خواجہ غریب نواز کے حضور حاضری کا موقع ملا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اکثر مقامی زائرین اجمیر میں چیفس کالج کی موجودگی سے آگاہ بھی نہ تھے۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ بھارتی مسلمانوں کو اندرون ملک سکونت تبدیل کرنے کے لیے سرکار سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ راقم نے جب اس پر اظہار حیرت کیا تو ایک خاصے پڑھے لکھے ہندو نے ازراہ تفنن کہا تھا کہ یہ سبق ہم نے آپ سے ہی سیکھا ہے۔ آپ نے جو سارے مہاجر کراچی میں جمع کر دیئے۔ ہم مسلمانوں کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لے سکتے۔ ہمیں کوئی نیا پاکستان نہیں بنانا۔ بین المذاہب شادیوں کا رواج بھارت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کا زیادہ دبائو بھی مسلمانوں پر ہے۔ مسلمان لڑکیاں نسبتاً زیادہ تعداد میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بیاہی جا رہی ہیں۔
جدید تعلیم اور روشن خیالی کے نام پر مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی اقدار عین ان کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہی ہیں اور وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ پڑھے لکھے ہندو اس کا جواز تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ مسلمان حملہ آور اپنے کنبے قبیلے کون سے ساتھ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بھی تو مقامی ہندو مہیلائوں سے نکاح کر کے ہی گھر بسائے تھے۔ آب صدیوں بعد اگر ہمیں حساب برابر کرنے کا موقع ملا ہے تو پریشانی کس بات کی؟
Waziristan operation - سات لاکھ خودکش by Saleem Safi
یوں تو وہ بھی ہماری طرح پاکستانی ہیں لیکن قصور ان کا صرف یہ تھا کہ وہ رائے ونڈ کے بجائے شمالی وزیرستان میں پیدا ہوئے اور پھر اسلحہ اٹھانے کے بجائے کتاب سے اپنی اور خاندان کی زندگی بدلنے کی کوشش کی۔ رسول داوڑ نے بڑی مشقت سے ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد مختلف اخباروں میں کام کیا اور اب پشاور میں ایک قومی چینل کے ساتھ فعال رپورٹر کے طور پر وابستہ ہیں۔ وہ اور انکے بچے پشاور میں مقیم ہیں لیکن اس تنخواہ میں وہ پورے خاندان کو یہاں منتقل نہیں کر سکتے۔ اپنی مٹی اور علاقے سے لگائو کی وجہ سے یوں بھی انکے والدین اور بھائی وزیرستان چھوڑنے پر آمادہ نہیں تاہم جب بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کا غلغلہ بلند ہوتا ، وہ اپنے خاندان کو پشاور منتقل کردیتا ہے۔ پہلے سرجیکل اسٹرائکس ہوئے تو دوسرے قبائلیوں کی طرح ان کو بھی شک ہوا کہ اب آپریشن شروع ہو رہا ہے چنانچہ راتوں رات انہوں نے اپنے خاندان کو وہاں سے نکال کر پشاور منتقل کیا لیکن بعد ازاں پتہ چلا کہ حکومت مذاکرات کرنے جا رہی ہے چنانچہ پشاور میں کرائے پر لیا گیا گھر واپس کرکے انکے اہل خانہ واپس وزیرستان چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل دوبارہ سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد ایک بار پھر آپریشن کا امکان پیدا ہوا تو دوبارہ انہوں نے اس عمل کو دہرایا۔
گزشتہ ہفتے اچانک حکومت کی طرف سے آپریشن کا اعلان کیا گیا اور اسی روز وزیرستان کے بعض علاقوں میں بمباری بھی کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے ذرائع نے انہیں بتایا کہ اس بمباری میں ایک 150 مبینہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ بمباری جہاں ہوئی، وہ ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ چنانچہ اسٹوری فائل کرنے کے بعد وہ اپنی والدہ، بھابھیوں اور دیگر اہل خانہ کو لینے کیلئے راتوں رات وزیرستان روانہ ہو گئے اور ان کی بیوی اور چھوٹے بچے پشاور میں انتظار کرتے رہ گئے ۔ انکے اہل خانہ مویشیوں اور گھر کی دیگر اشیاء کو چھوڑ کر علاقے سے نکلنے کیلئے رخت سفر باندھ گئے لیکن علاقے میں کوئی سواری میسر نہیں تھی۔ دوسری طرف اسی رات انکے بھائی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی اور انکی بھابھی کو اسی حالت میں اسی رات گھر سے نکلنا پڑا۔
رسول داوڑ انہیں لینے کیلئے بنوں پہنچ گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ آگے نہیں جا سکتے کیونکہ آگے کرفیو نافذ ہے۔ انہوں نے گورنر سیکرٹریٹ، پولیٹکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز میں اپنے جاننے والوں سے بہت رابطے کئے کہ کوئی حل نکلے لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ چنانچہ تین دن تک انکے اہل خانہ سامان باندھے، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا نو زائیدہ بچے کو تڑپتا دیکھ کر خود بھی تڑپتے اور گرمی سے تباہ حال ہوتے رہے جبکہ رسول داوڑ بنوں میں بیٹھے کرفیو کے اٹھنے کا انتظار کرتے رہے۔ آپریشن کے اعلان اور آغاز کے تین دن بعد کرفیو اٹھا دیا گیا تو ان کے اہل خانہ بنوں کی طرف روانہ ہوئے لیکن اب مسئلہ ٹرانسپورٹ کا تھا۔ دوسری طرف ایک ہی دن میں لاکھوں لوگوں نے نکل کر بنوں پہنچنا تھا۔ ادھر سے ٹریفک پولیس نہ ہونے کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ بلاک ہوگئی تھی۔
بہر حال انکے اہل خانہ جان لیوا گرمی میں چودہ گھنٹے میں میران شاہ سے بنوں پہنچے۔ بنوں پہنچتے ہی وہ پہلی فرصت میں اپنے نوزائیدہ بھتیجے کو اسپتال لے گئے لیکن وہاں پہلے سے مریض سیکڑوں کی تعداد میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے جبکہ ڈاکٹر نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ بیمار بھتیجے کو لے کر پشاور جانے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ انہیں اطلاع ملی کہ ان کا بھانجا بنوں میں پانی کی بوتل کی طرف لپکتے ہوئے سڑک پار کر رہا تھا کہ انہیں گاڑی نے ٹکر ماری۔ رسول داوڑ رشتہ داروں اور دوستوں کی مدد سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا نو زائیدہ بھتیجے اور زخمی بھانجے اور دیگر اہل خانہ سمیت پشاور منتقل ہو گئے۔ اب پشاور کے اسپتال میں ان کا بھانجا کومہ میں ہے جبکہ بھتیجا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا۔ وہ حیران ہیں کہ مہاجر بننے والے اہل خانہ کیلئے پشاور میں کرائے کے گھر کا بندوبست کریں یا کہ اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا معصوموں کی تیمارداری کریں۔ آج ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے دوست مل کر چندہ جمع کر رہے ہیں تاکہ وزیرستان کے آئی ڈی پیز کیلئے قبرستان کی زمین خرید لیں ۔ انکا کہنا تھا کہ اب ہم لوگوں کو جینے کی امید نہیں لیکن روزانہ جو آئی ڈی پیز مر رہے ہیں، انکو دفن کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس لئے ہماری ترجیح اب قبرستان کیلئے زمین کی خریداری ہے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ اس وزیرستانی کے ساتھ ہو رہا ہے جو نامور صحافی ہے جنکے سیاستدانوں کیساتھ بھی تعلقات ہیں، فوجیوں کیساتھ بھی اور حکومتی اہلکاروں کیساتھ بھی۔ اب اندازہ لگا لیجئے کہ شمالی وزیرستان سے مہاجر بننے والے عام قبائلی کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا؟
یہ ایک دو نہیں بلکہ سات لاکھ لوگوں کا حال ہو رہا ہے۔ وہ حکومت جو اسلام آباد میں تعیش کیلئے میٹرو بس کے ایک کلومیٹر پر سوا ارب روپے خرچ کررہی ہے، اس نے آپریشن کے بعد ان سات لاکھ لوگوں کیلئے محض پچاس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ اب کیا ان لوگوں کو دانستہ پاکستان سے متنفر نہیں کیا جارہا ہے؟ میں رسول داوڑ اور ان جیسے دیگر لاکھوں قبائلیوں کے اس سوال کا کیا جواب دوں کہ ہمارا قصور کیا یہ ہے کہ ہم لاہور کے بجائے وزیرستان میں پیدا ہوئے ہیں؟ وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تم میڈیا والوں کے پاس تو طاہر القادری کی کوریج کیلئے بہت وقت ہے لیکن ہم سات لاکھ انسانوں کی کوریج کرنے سے تم لوگ قاصر ہو۔ وزیرستان آپریشن میں اب تک درجنوں فوجی اور سیکڑوں قبائلی زندگی قربان ہوچکے ہیں۔ وہ ہم میڈیا والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ انسان اور پاکستانی نہیں ہیں۔ میڈیا کے وہ بہن بھائی جنہوں نے پوری قوم کو چند ڈرامہ بازوں کے ڈراموں کا یرغمال بنارکھا ہے، سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ رسول داوڑ کی جگہ ہوتے تو کیا پھر بھی انکے کیمروں کا رخ بنوں اور وزیرستان کے بجائے علامہ صاحب کے ہنگامے کی طرف ہوتا۔
منتخب وزیراعظم کے احترام کو میں اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر رسول داوڑ جیسی صورت حال سے آج ان کے بچے یا بھتیجے گزرتے یا پھر ان کی بھابھی کی کیفیت سے ہماری بہن مریم نواز گزرتی تو کیا پھر بھی ہمارے وزیراعظم کا یہی رویہ ہوتا؟ اگر ان بے گھر ہونیوالوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے حسن محی الدین اور انکے بچے بھی شامل ہوتے تو کیا علامہ صاحب پھر بھی اس ہنگامہ آرائی سے باز نہ آتے؟ اگر عمران خان صاحب کے بیٹے بھی لندن کے بجائے میران شاہ میں مقیم ہوتے تو کیا وہ پھر بھی بنوں کیمپ کے دورے کے موقع پر طاہر القادری کے ڈرامے اور اپنے چار حلقوں کا ذکر ضروری سمجھتے؟ اللہ کے بندو! اس ملک اور اس قوم پر رحم کرو۔ ہماری خاطر نہیں اپنی اولاد کی خاطر۔ یہ سات لاکھ آئی ڈی پیز نہیں ہیں۔ آپ لوگوں کا رویہ یہ رہا تو یہ سات لاکھ خودکش بمبار بن جائیں گے۔ آج آپ لوگ سیاست اور اقتدار کے نشے میں مبتلا ہو لیکن یاد رکھو! آپ پر بھی کبھی یوسف رضا گیلانی والا وقت آ سکتا ہے اور خاکم بدہن آپ میں سے بھی کسی کا بیٹا حیدر گیلانی یا شہباز تاثیر بن سکتا ہے۔
ہماری خاطر نہیں اپنے بچوں کی خاطر ان سات لاکھ وزیرستانیوں کی طرف توجہ دو تاکہ وہ خودکش بمبار، طالب یا پھر اغوا کار بن کر مستقبل میں آپ کے بچوں کے ساتھ وہ کچھ نہ کریں جو انہوں نے ایک سابق گورنر اور سابق وزیر اعظم کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے اور ہاں میرے میڈیا کے ساتھیو ! جب افغانستان میں یہ ظلم ہو رہے تھے تو ہم پشاور میں بیٹھ کر بڑے مزے سے تم لوگوں کی طرح طاہر القادری جیسوں کے ہنگاموں اور تیزیوں کو انجوائے کرتے تھے، تب ہمارے اوپر بھی دولت اور شہرت کمانے یا طاقتور لوگوں سے تعلقات بنانے کا خبط سوار تھا۔ آج جب ہم اس صورت حال سے دو چار ہوئے تو ہمیں پتہ چل گیا کہ جنگ کیا ہوتی ہے اور جنگ کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں۔ آپ کسی کے مہرے بن کر کرتے رہو جو کچھ کرنا ہے لیکن یاد رکھو یہ آگ پشاور اور وزیرستان تک محدود نہیں رہے گی۔ تم لوگ انہی ڈرامہ بازیوں میں مصروف رہے تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کے اسلام آباد اور لاہور کی ان جنتوں تک بھی وہ آگ پہنچ جائے گی پھر ہماری طرح افسوس کرتے رہو گے لیکن وقت گزر گیا ہوگا۔
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Waziristan operation - سات لاکھ خودکش by Saleem Safi
مسلم ایجادات جو ہمیشہ قابل فخر رہیں........
آج کے اس جدید دور میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی اور اسی طرح دوسرے جدید ترقی یافتہ ممالک کو دنیا میں ایک اعٰلی مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ہزاروں ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جو کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اپنی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ مغرب کی تمام تر ایجادات مسلمانوں کی ایجادات کی مرہون منت ہیں ان میں سے چند ایک کا زکر کچھ یوں ہے۔ ******
ٹوتھ برش (مسواک) 6 ہجری میں ہر دلعزیز ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے مسواک کا استعمال کیا۔ انہوں نے مسواک کو استعمال کرنے پر بہت زور دیا اور اس کے فوائد بھی بتائے۔ اسی طرح آج کے اس جدید دور میں مسواک کی طرز پر ٹوتھ برش استعمال ہو رہا ہے۔ جراحی مشہور و معروف مسلمان سائنس دان ابوالازہروی نے 1500 صفحات پر مشتمل جراحی کے متعلق پوری جامع کتاب شائع کی جس میں جراحی کے متعلق ساری معلومات فراہم کی گئیں۔الازہروی کی اس کے علاوہ ایجادات میں بلی کی آنتوںپہلا آپریشن بھی شاملہے۔ کوفی (کافی) اس جدید دور میں جہاں یورپین ثقافت میں کافی کو بہت اہمیت حاصل ہے ،وہاں پر کافی کے نت نئے نام رکھے گئے ہیں۔ حقیقت میں کافی سب سے پہلے یمن میں نویں صدی میں پہلی بار تیار کی گئی، اس کے بعد تیرہویں صدی میں یہ ترکی آئی اور پھر سولہویں صدی میں یورپ میں آئی۔
اڑنے والا طیارہ عباس ابن فرناس پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے سب سے پہلا طیارہ تیار کیا اور اس کی کامیاب پرواز کی۔ بعد میں ان کے ڈیزائین کی کاپی کی گئی جو کہ اٹلی کے آرٹسٹ نے کی۔ یونیورسٹی کا قیام 958میں دمشق میں پہلے ڈگری پروگرام کا آغازہوا اور اس یونیورسٹی کو اسلام کی تعلیمات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ الجبرہ الجبرہ فارسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے اور نویں صدی میں مسلمان سائنس دان نے کتاب لکھی جس کا نام ‘‘کتاب الجبر ’’ رکھا۔ اور اس کے علاوہ ہندسوں کے متعلق ، تعداد کی پاور دو وغیرہ مسلمان سائنس دانوں کی ایجادات ہیں۔ علم بصریات بہت ساری اہم بصریات کے متعلق ریسرچ مسلم دنیا سے ہوئی۔ ابو علی الحسن اور الحیشم نے ثابت کیا کہ انسان روشنی کے عکس کے زریعے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری معلومات فراہم کیں جو کہ انسانی آنکھ سے متعلق تھیں۔ ہسپتال کا قیام ہسپتال جو آج ہم دیکھتے ہیں کہجن میں مختلف وارڈز ، نرسنگ سٹاف کی ٹریننگ وغیرہ یہ سب سے پہلے مصر میں میں شروع ہوا۔
صمد اسلمMuslim Scientists and Discovereis
American Muslims, Islam and Pakistan?
گزشتہ روز لاہور میں دارالعلوم جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی سیمینار کے سالانہ اجتماع میں مجھے پاکستان کی ممتاز میڈیا شخصیات، سیاسی قائدین اور مذہبی اسکالرز اور مقررین کے خیالات کو سننے کا موقع ملا۔ ایک ہی اسٹیج سے مختلف مکاتب فکر کے مقررین کے خیالات سے آگہی کا موقع ملا۔ افکار و خیالات کے اشتراک، اختلاف بلکہ بعض امور پر تضاد کے لحاظ سے اعتدال سے لیکر راسخ العقیدہ مذہبی اور بعض جوش و جذبے والے عقابی جذبات و خیالات بھی سننے کو ملے۔ صرف چار منٹ کی تخصیص کے ساتھ مجھے ’’امریکہ میں اسلام‘‘ کے بارے میں کچھ کہنے کا حکم ملا۔ پاکستان میں لفظ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں ’’حساسیت‘‘ بلکہ جذبات کے ماحول میں امریکہ کے جمہوری، مذہبی رواداری ،برداشت اور ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجس معاشرے کے مثبت تجربات بیان کرنا قدرے مشکل نظر آرہا تھا مگر اس اجتماع کے شرکاء کی واضح اکثریت نے میری مختصر گزارشات کو تحمل سے سنا ۔وقت کی کمی کے باعث اس موضوع کے ساتھ انصاف کرنے، اپنے مشاہدات و تجربات اور رائے کو مکمل انداز میں بیان کرنے کیلئے مزید گزارشات اس کالم کی شکل میں پیش کر رہا ہوں، تبصرہ، تنقید، تجزیہ و تجاویز سے قارئین آگاہ فرمائیں۔
اسلام کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں کوئی نظریہ اور رائے قائم کرنے سے قبل عصر حاضر کے زمینی حقائق، امریکہ کے معاشرت اور آبادی کی ساخت و ضروریات ،مسلم دنیا کے حکمرانوں کے رویّے اور اقتدار کو طول دینے کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ اس طرح ہیں امریکہ کی کل آبادی 315 ملین کے لگ بھگ ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی کا حتمی تعین ممکن نہیں کیونکہ امریکی مردم شماری میں مذہب کا کوئی خانہ موجود نہیں ہے۔
بعض عیسائی مذہبی تنظیموں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف دو ملین مسلمان آباد ہیں جبکہ مسلم تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں 8 تا 10 ملین مسلمان رہتے ہیں بعض حلقے مسلمانوں کی آبادی 6 تا 8 ملین بتاتے ہیں۔ اگر امریکہ کی مسلم آبادی کو 8 ملین بھی تسلیم کر لیں تو 315 ملین آبادی میں صرف 8 ملین آبادی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے پھر بھی 8 ملین کی مسلم آبادی میں ایسے عقائد کے لوگ بھی شامل ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اکثریت کے حامل مسلمان انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس آبادی میں دریائے نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے پہاڑی علاقوں، انڈونیشیا اور آسٹریلیا سے لیکر افریقہ ،لاطینی امریکہ تک کے ممالک سے مختلف زبان و ثقافت، بودو باش ،روایات اور شہریت کے ساتھ امریکہ آ کر آباد ہونے والے مسلمان شامل ہیں لہٰذا امریکی معاشرے کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچ رویّے اور ردعمل کے بارے میں ان تمام عوامل اور امریکی آبادی میں مسلم آبادی کے تناسب کو پیش نظر رکھنا لازمی ضرورت ہے۔
امریکہ کی مساجد اور امام بارگاہیں اس حقیقت کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہیں کہ مساجد میں نماز جمعہ اور دیگر نمازوں کی ادائیگی کے وقت سنی مساجد میں نماز ادا کرنے والے حنفی کے ساتھ شافعی، مالکی اور حنبلی اور ان کے ساتھ ہی شیعہ مسلک کا نمازی کھڑا ہو کر ایک ہی صف میں نماز ادا کرتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد اکثر نمازی اپنے سیدھے ہاتھ بیٹھے نمازی کے ساتھ ہاتھ ملا کر سلامتی کی دعا دیکر مسکراہٹ کے ساتھ اٹھتے ہیں ، ہر نمازی ایک ہی مسجد میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا، ہاتھ پھیلا کر سر پر ہاتھ رکھ کر مختلف افریقی اور ایشیائی انداز میں دعا مانگتے نظر آتے ہیں۔ کیا پاکستان کی مساجد میں یہ مناظر اور یہ ہم آہنگی نظر آتی ہیں؟ کیا ہم اخوت اسلامی اور ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کے یہ نمونے اپنی عبادت گاہوں میں پیش کر پا رہے ہیں؟
امریکہ صرف نیویارک، شکاگو ،لاس اینجلس، میامی اور ہیوسٹن جیسے بڑے شہروں کا نام نہیں بلکہ الباما سے لیکر ویومنگ تک 50چھوٹی بڑی ریاستوں اور دیگر علاقوں کا نام ہے جس کی بیشتر آبادی چھوٹے شہروں، زرعی علاقوں میں آباد، عیسائیت کی پیروکار ہے متعدد ریاستوں میں آبادی پر مذہبی عقائد اور مذہبی رہنمائوں کا اثر خوب خوب ہے۔ آئینی طور پر سیکولر امریکہ کے بعض علاقوں کی سیاست میں وہاں کے چرچ رہنمائوں کا اثر ایک اٹل حقیقت ہے۔ امریکہ کی صدارتی انتخابی مہم سے لیکر سینٹ ایوان نمائندگان، ریاستی اسمبلیوں اور مقامی انتظامیہ کے انتخابات میں مقامی سطح سے لیکر قومی سطح تک کے انتخابات میں قیادت کا انتخاب ان علاقوں سے بھی ہوتا ہے۔ امریکہ میں موجود مسلمان قیادت نے نہ تو امریکہ کے ان اندرونی علاقوں میں مسلمانوں اور اسلام کی سافٹ اور مثبت امیج پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی اسلام اور عیسائیت کے دو الہامی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی بین العقائد ہم آہنگی اور مشترک اقدار کے ساتھ بقائے باہمی کے لئے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا۔ اکثریتی آبادی سے اپنے حقوق کے تحفظ و احترام کیلئے ڈائیلاگ اقلیت کی ضرورت ہوتا ہے۔ کیا آج مسلم ممالک کے حکمرانوں اور امریکہ میں مسلم قیادت کے رہنمائوں نے امریکہ جیسی عالمی سپر پاور سے ایسے کسی ڈائیلاگ کا آغاز کیا؟ پاکستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اس میں کتنے علماء اور اسکالر ایسے ہیں جو امریکہ میں مسلمان اقلیت کے مذہب اسلام اور اکثریتی مذہب عیسائیت کے درمیان مشترکہ اصولوں اور بقائے باہمی اور تعلقات میں بہتری کے لئے ڈائیلاگ اور کام سرانجام دے سکتے ہیں؟
امریکہ کی 315 ملین آبادی میں اکثریت کو اسلام کی تعلیمات اور اصولوں سے کوئی آگہی نہیں البتہ طالبان، دہشت گردی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحہ کے حوالے سے ایک ہولناک امیج سے آگاہی ہے۔ امریکہ کی عیسائی اکثریت کو صلیبی جنگوں کے تناظر سے نکال کر دور حاضر کے تناظر میں غیر مسلموں کے سامنے اسلام کا وہ سافٹ اور اعلیٰ اخلاقی امیج پیش کرنے کی ضرورت ہے جو خلیفہ عمرؓ اور ان کے غلام کے درمیان مہربانی اور مساوات کا ثبوت دے۔ غیر مسلموں کی حفاظت نہ کرنے میں ان سے حاصل کردہ جزیہ بھی ٹیکس بھی واپس کرنے کا ریکارڈ پیش کرے۔ عورتوں کیلئے احترام اور عملی مساوات ،صلہ رحمی، غیر مسلموں سے لین دین اور معاشرتی رابطوں اور تعلقات کا احترام بیان کرے امریکہ کی مسلمان قیادت، مسلم ممالک کے اسکالروں اور حکمرانوں نے اس میدان میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق کسی عمل کا آغاز کیا ہے؟ یہ امریکہ کے مسلم دانشوروں اور کمزور ترقی یافتہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ وہ عالمی سپر پاور کی ملٹری مشین کے غضب اور غیر مسلموں کے شر سے بچنے کیلئے ڈائیلاگ اور تعلق کے ذریعہ سے کام کریں۔
موجودہ مسلم دنیا کے حکمران اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے تو ہر مطالبہ اور حکم مان کر غیر مسلم طاقتوں اور سرپرستوں کے آگے جھک جاتے ہیں مگر اپنے عوام کے حقیقی مفاد ،عقائد جذبات اور موقف کی ترجمانی کرنے کے بجائے انہیں پس پشت ڈال کر سودے بازی کر کے زندگی گزار رہے ہیں وہ امریکی عوام سے ڈائیلاگ کے بجائے امریکی حکومت اور اس کے اداروں سے رابطوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں جبکہ امریکی حکومت کی قیادت کی سوچ فکر اور اقدام کی جڑ بنیاد جمہوری اور عوامی انتخابات اور رائے عامہ میں پوشیدہ ہے۔ جب ہم نے موجودہ عہد کے حالات اور تقاضوں کے مطابق اپنے لئے کچھ نہیں کیا تو پھر یاد رکھئے کہ ہر دور اور علاقے کی برتر طاقت والی قوم نے کمزور اقوام سے اپنے مطالبے پورے کرانے کے لئے کام کیا ہے۔
سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد ردعمل میں امریکہ میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے عوامی اور سرکاری سطح پر مشکلات اور امتیازی سلوک کا ضرور تلخ تجربہ ہوا۔ بعض مشتبہ مسلمانوں کی گرفتاریاں، مساجد کی نگرانی اور دیگر واقعات پیش آئے کیونکہ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں مسلمان ناموں اور وضع قطع والے افراد تھے۔ اسلام سے ناواقف امریکی اکثریت نے اسے اپنی تہذیب پر مسلم حملہ تصور کیا ۔ وقتی طور پر امریکہ میں داخلی سطح پر مسلمانوں کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمان آبادیوں اور شہریوں کو امریکی غیر مسلم پولیس نے ہی تحفظ فراہم کیا۔
آج بھی امریکہ بھر میں مسلمان ان کی عبادت گاہوں، رہائش گاہوں اور کاروبار کی حفاظت ،تسلسل غیر مسلم امریکی معاشرے اور اس کے حکومتی اداروں نے ہی فراہم کر رکھی ہے۔ مجھے امریکہ میں40سال کے قیام کے دوران اپنے مسلمان نام، پاکستانی رنگت اور دیگر غیر امریکی عوامل کے باوجود مقامی حکومت سے لیکر امریکی حکومت، سینٹ ایوان نمائندگان ، وہائٹ ہائوس ،پینٹاگون اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی کوریج، امریکہ کی انتخابی سیاست ،پارٹیوں کے کنونشن اور گورے کالے اور دیگر نسل کے امریکی رہنمائوں کی بطور صحافی انٹرویوز اور کوریج کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ یا مشکل پیش نہیں آئی۔ نسلی اور مذہبی امتیاز کے کچھ واقعات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر جمہوری غیر مسلم امریکہ میں ہم امریکی مسلمان معاشی طور پر بہت سوں سے بہتر اور قانون کے تابع تحفظ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں کہ جب پاکستان، مسلم ممالک اور ان کے معاشرے انتشار ،تصادم اور عدم رواداری کا شکار ہو کر تشدد کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے امریکہ پر الزامات اور نفرت کے جذبات کا اظہار کرنا درست نہیں۔ غیر مسلم امریکہ میں آباد مسلمان بہتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مسلم ممالک ان کے حکمران ، مذہبی و معاشرتی رہنما خود اسلام اور مسلمانوں کے سافٹ امیج ابھارنے اور اسلام کے نام پر تشدد و دہشت گردی کا تاثر زائل کرنے کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر غیر مسلم ممالک اور معاشروں سے کیسا گلہ؟
عظیم ایم میاں
بشکریہ روزنامہ "جنگ
American Muslims, Islam and Pakistan?
Pakistan is beautiful — and it's mine
کرہ ارض پر موجود آزاد ممالک اور ریاستوں کا شمار کیا جائے تو چھوٹے بڑے ممالک کو ملا کر یہ تعداد 200 کے لگ بھگ بنتی ہے۔ ان میں سے ایک ملک جو آبادی کے اعتبار سے چھٹے اور رقبے کے لحاظ سے 34ویں نمبر پر ہے، اسے دنیا بھر کے دانشور عجوبہ قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ملک بیک وقت خوش قسمت بھی ہے اور بدقسمت بھی۔ خوش قسمت اس لئے کہ قدرت نے اسے بیشمار وسائل اور نعمتوں سے نوازا ہے۔یہ ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے لیکن اس کا نہری نظام اس کے مقابلے میں دس گنا بڑا ہے۔
بہترین موسم، گرم پانیوں، معتدل آب و ہوا اور زرخیز زمین کے باعث یہ خطہ کاشتکاری کے لئے انتہائی موزوں سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس ملک کی 40 فیصد زرعی اراضی اب بھی کاشتکاری کے لئے بروئے کار نہیں لائی گئی اور جدید سہولتوں کے فقدان کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی بہت کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ ملک دنیا بھر میں دیسی گھی کی پیداوار کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ بھینس کے دودھ اور چنے کے مراکز کا جائزہ لینے لگیں تو یہ ملک دوسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔ بھنڈی سمیت بہت سی سبزیوں کی پیداوار کے اعتبار سے عالمی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق یہ ملک تیسرے نمبرہے۔ اگر خوبانی ،کپاس اور گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست بنانے لگیں تو اس ملک کا شمار چوتھے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر کے ضمن میں اسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ملک کھجور اور انواع و اقسام کی دالیں پیدا کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ہے۔ چاول اور گوبھی کی پیداوار کے حوالے سے یہ آٹھواں بڑا ملک ہے۔ ساگ، میتھی، پالک اور گندم کی فصل کا حساب لگایا جائے، تو یہ ان تمام ممالک پر سبقت لے جانے میں نویں نمبر پر ہے۔ اس طرح کینو اور مالٹے کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں ہر سال 24 ملین میٹرک ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جو براعظم افریقہ کے تمام ممالک کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔ گندم کے بعد دوسری بڑی غذائی جنس چاول ہے۔ دنیا بھر کے ممالک ہر سال 670 ملین میٹرک ٹن چاول اگاتے ہیں جس میں اس ملک کا حصہ تقریباً 7ملین میٹرک ٹن ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے معاملے میں یہ ملک نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ہر سال 470000 ٹن فروٹ اور420000 ٹن سبزیاں بر آمد بھی کرتا ہے۔ یوں زرعی اجناس کی مجموعی پیداوار کے میدان میں اس ملک کا 25 واں نمبر ہے۔
یہ ملک صرف زرعی اعتبار سے ہی خوش قسمت نہیں بلکہ صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بھی 55ویں نمبر پر ہے۔ اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات یورپ تک فروخت ہوتی ہیں۔ معدنیات کے اعتبار سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک قسمت کا دھنی ہے۔ یہ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے، گیس کے ذخائر کے حوالے سے چھٹے جبکہ تانبے کے ذخائر کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ اس ملک میں سونے کا صرف ایک بڑا ذخیرہ جو دریافت تو ہو چکا مگر ابھی تک پہاڑوں کے نیچے ہی دفن ہے،اس کی مالیت کا تخمینہ 300ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہاں کوئلے کا صرف ایک ذخیرہ جو 9600 مربع کلومیٹر تک محیط ہے، یہاں 184بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کی مالیت کا تخمینہ 25000ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں کوئلے سے 10 کروڑ بیرل ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے، 500 سال تک بلاتعطل سالانہ 50 ہزار میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے یا پھر لاکھوں ٹن کھاد تیارکی جا سکتی ہے۔ خوش قسمتی کی داستان یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس ملک میں74 ملین ٹن ایلومونئم دستیاب ہے، 500 ملین ٹن تانبا موجود ہے، 46 ملین ٹن جست دریافت ہو چکا، 350 ملین ٹن جپسیم ڈھونڈا جا چکا ہے، فاسفیٹ کے ذخائر کی مقدار 22ملین ٹن ہے جبکہ لوہے کے ذخائر کی مقدار 600 ملین ٹن بتائی جاتی ہے۔
اگر آپ کمزور دل کے مالک نہیں تو میں آپ کو بتا ہی دوں کہ یہ خوش قسمت ملک کوئی اور نہیں، آپ کا پیارا پاکستان ہے، جہاں غربت کا ننگا ناچ ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ ملک آٹھویں عالمی طاقت ہے،اس کے پاس دنیا کی چوتھی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی اور چھٹی طاقتور ترین فوج ہے مگر اس کے باوجود دہشت گرد کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں اور دہشت گردی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ان سب وسائل کے باوجود پاکستان میں گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹے یومیہ ہو جائے تو مجھے اس بات سے کیا غرض کہ کہاں کتنے ٹن کوئلے کے ذخائر موجو د ہیں؟ میر پور خاص ڈویژن کی ایک چھوٹی سی تحصیل کُنری سے جھڈو تک کا علاقہ جسے ریڈ چلی کاریڈور کہتے ہیں، یہاں سالانہ 2لاکھ ٹن سرخ مرچ پیدا ہوتی ہے اور اسے ایشیاء کی سب سے بڑی آڑھت کا درجہ حاصل ہے تو سندھی اس فخر کا کیا کریں ؟ بچوں کو کھانے کے بجائے یہ ایوارڈ تو نہیں کھلایا جا سکتا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود تھر میں قحط سے بھوکوں مرتے انسانوں کو اس بات میں کیا دلچسپی کہ ریت کے نیچے دفن زمین میں بلیک گولڈ کی کتنی مقدار موجود ہے۔ دودھ کے لئے بلکتے اور ایڑیاں رگڑتے بچوں کو یہ لالی پاپ کیسے دیا جائے کہ ان کا ملک دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اولین دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ جوہڑ سے جانوروں کے ساتھ پانی پیتے اور تعفن زدہ گوٹھوں کے کچے مکانوں میں سسک سسک کر جیتے سندھیوں کو اس سے کیا لینا دینا کہ موہنجودڑو میں تہذیب و ثقافت کے کیسے دفینے موجود ہیں۔ لاڑکانہ اور شہداد پور میں بنیادی سہولتوں سے محروم بدقسمت افراد کے اس بات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ ان کی دھرتی کس قدر خوش قسمت ہے۔ بلوچستان کے وہ دورافتادہ دیہات جہاں اس ترقی یافتہ دورمیں بھی کسی گھر میں سنگ و خشت کا عمل دخل نہیں، مٹی اور گارے سے ایستادہ گھروں میں مقیم ان پاکستانیوں کو میں کیسے سمجھائوں کہ یہاں کتنے ملین ٹن جپسم دریافت ہوئی ہے۔ جہاں زندگی کا کوئی مول نہیں،وہاں یہ بات کس قدر بے معنی لگتی ہے کہ تمہارے ہاں ریکوڈک کے علاقے میں سونے کے ذخائر کی مالیت بہت زیادہ ہے۔
میں جنوبی پنجاب میں پھٹے پُرانے کپڑوں میں کپاس چُنتی خواتین کو کیسے بتائوں کہ ریشم کے تار بُنتی ملوں کا کپڑا ان کی پہنچ سے کیوں دور ہے۔ جہاں بکرے کا گوشت کھانے کے لئے عیدالاضحی کا انتظار کیا جاتا ہو، وہاں یہ بات کس قدر کھوکھلی محسوس ہوتی ہے کہ پاکستان سالانہ کتنے ٹن گوشت برآمد کرتا ہے اور اس سے کس قدر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وہ غیور پاکستانی جو دس سے پندرہ روپے کی روٹی خریدتے ہیں ،انہیں اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار براعظم جنوبی امریکہ کے برابر ہے۔ یہ سوال ہم سب کے لئے سوہان روح ہے کہ ہماراملک بیک وقت خوش قسمت اور بدقسمت کیوں ہے؟کبھی اناج کا قحط، کبھی چینی کی قلت، کبھی پانی کی کمی سے سوکھتی فصلیں تو کبھی سیلاب میں ڈوبتے کھیت، کبھی پیٹرول اور گیس کی عدم دستیابی تو کبھی بجلی کی قلت۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو یہاں کسی شئے کی کوئی کمی نہیں،صرف قیادت کا شارٹ فال ہے۔ جس دن ہم اس شارٹ فال کو دور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور رہزنوں کے روپ میں موجود رہبروں سے نجات مل گئی،سب الجھنیں سلجھ جائیں گی،سب دکھ ٹل جائیں گے اور ہم سب کے دن بدل جائیں گے۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ "جنگ
Pakistan is beautiful — and it's mine "
سعودی عرب کی با برکت امداد
شیخ سعدی کے کئی شعروں کی طرح یہ شعر بھی ہمارا ایک محاورہ بن گیا کہ
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کسی دوست کی اس کی پریشان حالی اور درماندگی میں مدد کرے۔ سعودی عرب ہمارا پرانا اور صحیح دوست ہے لیکن وہ ایک ایسی دنیا میں آباد ہے اور تیل کی وجہ سے اتنا امیر ہے کہ عالمی تعلقات سے الگ تھلک نہیں رہ سکتا خصوصاً امریکا کی بیرونی پالیسیاں اسے پریشان کرتی رہتی ہیں لیکن یہ ملک پاکستان کو نہیں بھولتا اپنی مجبوریوں کے باوجود اسے یاد رکھتا ہے، یہ ملک علاوہ جغرافیائی اہمیت کے مسلمانوں کے لیے اپنے مقدس مقامات کی وجہ سے ایک ایسا ملک ہے کہ اس کے دفاع کے لیے جان قربان کر دینا کسی مسلمان کا سب سے بڑا اعزاز اور خوش نصیبی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب سے کوئی طاقت یا ملک کتنا بھی ناراض رہے وہ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ناراض اور فراموش نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان سعودی عرب کا دفاعی حصار ہیں اور کوئی ہمارے فوجیوں سے پوچھے تو ایک ایک سپاہی اس کی تصدیق کرے گا۔
اسلام جس قدر برصغیر میں ہے اتنا کسی دوسرے خطے میں نہیں ہے۔ پھر پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے۔ پیغمبروں کی سرزمینوں پر آباد عرب تسلیم کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو جس قدر برصغیر کے مسلمانوں نے سمجھا اتنا کسی دوسرے ملک میں نہیں سمجھا گیا۔ پاکستان کا وجود ہی اس کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ مسلمانوں نے یہ ملک اپنے وجود کے تحفظ کے لیے بنایا تا کہ اس میں ان کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے اور محفوظ رہے۔ سعودی عرب کو پاکستان اور اس خطے میں آباد مسلمانوں کے ان جذبات کا احساس ہے۔ آج پاکستان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک مضبوط ترین ملک ہے۔ عمر میں دنیا کے ہر مسلمان ملک سے چھوٹا مگر اسلامی شعور اور احساس میں سب سے بڑا ہے۔ ہمیں بے عمل اور گمراہ حکمرانوں نے بہت مارا ہے اور ہمارے اندر پوشیدہ اسلامی جوہر پر مسلسل ضربیں لگائی ہیں لیکن یہ جوہر ہمارے وجود کا حصہ ہے اسے نکال دیں تو پاکستان ایک غبارہ رہ جاتا ہے۔
بات مسلمانوں کے روحانی اور دنیاوی مرکز سعودی عرب اور پاکستان کے تعلق سے شروع ہوئی تھی جو جذبات میں ذرا دور نکل گئی۔ ہمارے پرلے درجے کے کرپٹ حکمرانوں نے جو کوئی نصف صدی سے ہمارے اوپر اپنی تمام تر بُری خواہشات کے مسلط ہیں ہمارے اس ملک کو اس کے لاتعداد وسائل کے باوجود ایک غریب ملک بنا دیا ہے۔ شہید حکیم سعید کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ رحمن میں جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے مسلمانوں کے اور پاکستانیوں کے پاس اس سے زیادہ ہیں، وہ گنتی بھی کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ کون کون سی نعمتیں زیادہ ہیں۔ تازہ مثال ہے تھر کے کوئلے کی جسے ہم اب نکال رہے ہیں اور جس سے ہم بجلی بنائیں گے۔ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے اس ملک میں کیا رکاوٹ تھی کہ بجلی کے لیے ہم نے اس سے پہلے یہ خزانہ نہیں کھولا یہ رکاوٹ ہمارے حکمران تھے جو جیسا بھی ہے اسے ایسا ہی چلنے دیں اور جو مال ہے وہ خود کھاتے رہیں۔ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع یہ اربوں ڈالر کیا ہمارے حکمرانوں کو ورثے میں ملے تھے۔ انھوں نے ملک کو برملا کھایا اور ملی بھگت کے ساتھ اسے ہضم کیا۔ یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ہر پاکستانی ملک سے باہر جانے کو تیار ہے بلکہ بے چین ہے۔
ہماری اس غربت کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر مالیاتی ادارے کے سامنے ہمارے ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ کسی دربار کے فقیر کی طرح ہم اپنا کشکول لیے پھرتے ہیں اور جب کوئی ہمیں قرض دے دیتا ہے تو ہم بے شرم اس کا جشن مناتے ہیں۔ ہمارا جو وزیر قرض لینے میں کامیاب ہوتا ہے وہ ہمارا کامیاب وزیر ہوتا ہے۔ جیسے ان دنوں کوئی ڈار صاحب ہیں۔ سعودی عرب سے ہماری یہ حالت دیکھی نہ گئی اور اس نے ہمیں اچھی طرح ٹٹول کر فی الحال کچھ رقم دے ڈالی جو اسے کسی نہ کسی صورت میں واپس مل جائے گی۔ اس برادرانہ قرض سے ہمارا کام چل گیا اور ہمارا ڈوبتا ہوا روپیہ سر باہر نکال کر تیرنے لگا البتہ ہمارے باغ و بہار شیخ رشید صاحب کو ڈبو گیا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے دو چار ارب ڈالر کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔ اتنی رقم تو ہمارا کوئی پاکستانی سیٹھ بھی دے سکتا ہے اور کوئی اچھی حکومت قومی وسائل کو صحیح استعمال کر کے سال دو سال میں ان قرضوں سے نجات بھی پا سکتی ہے۔
آج اگر ہم غربت میں غوطے کھا رہے ہیں تو کل ہم بحال ہو کر ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے اور یہ کچھ بعید نہیں ہے۔ ایک عالمی مالیاتی ادارے نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان کبھی ختم نہیں ہو سکتا، یہ ناکام ریاست نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس کھانے کو اناج بہت ہے اور پاکستانی بھوکے نہیں مر سکتے۔ جو قوم اپنے گھر میں پیٹ بھر سکتی ہے وہ ناکام کیسے کہلا سکتی ہے لیکن اپنے لیڈروں کے بارے میں کیا کہیں اب تو یہ خود ہی اپنے پردے چاک کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ساتھی نے ان کی راتوں کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا ہے اور وہ بھی برملا۔ کیا پاکستان جیسے قرض دار ملک کے نمائندے اور حکمران ایسے ہونے چاہئیں جس دن ان کے دن اور راتیں ایک جیسی ہوں گی اس دن ہمارے دن روشن اور راتیں پر سکون ہو جائیں گی۔ سعودی عرب نے ہماری بر وقت مدد کی ہے شاید ہم نے بھی کسی شکل میں کچھ خدمت کی ہو لیکن ہم سر زمین حجاز کی خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے ان کی رحمت اور مغفرت کے طلب گار ہیں۔ ہمارا ہر سپاہی اور ہر پاکستانی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور سعودی عرب اس مدد کا شکریہ ادا کرتا ہے۔
ہمارا روپیہ بڑی حد تک بحال ہو گیا ہے۔ گویا اپنی زندگی پر ہمارا اعتماد بحال ہوا ہے۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں، میں تو اپنی تنخواہ کا حساب بھی نہیں رکھ سکتا لیکن اتنا دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کاروباری لوگ قدرے اطمینان میں آ گئے ہیں۔ سعودی امداد اپنی مالیت سے زیادہ ہمارے لیے برکت میں بڑی ہے۔
عبدالقادر حسن
Primary Education in Pakistan
بلاشبہ ملک کی ترقی و تنزل میں نوجوان طبقہ مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور اس وقت امن کے متلاشی طبقے نوجوان نسل سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ’’ملک میں امن کے لیے نوجوان ہی کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔ جناب! امن نام ہے سکون کا، چین کا، اطمینان کا، آرام کا، آشتی اور پناہ کا۔ اب آپ ہی بتائیں ’’ایام گردش‘‘ میں مغرب سے جنوب اور شمال سے مشرق تک نوجوانوں کو یہ نعمتیں کہاں نصیب ہیں؟ اس لیے میری طرح آپ کو بھی اس عنوان سے یقیناً اختلاف ہو گا۔
امن کے متلاشی یہ بھول جاتے ہیں کہ ’’امن، غربت، بے روزگاری اور تعلیم‘‘ باہم مشترک ہیں۔ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ غربت کی وجہ سے ناخواندگی ہے اور ناخواندگی کی وجہ سے غربت ہے۔ جب تعلیم غریبوں کے دسترس میں ہو گی تو غریب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی اور جب غریب معاشرے میں تعلیم ہو گی تو ایک مستحکم معاشرہ جنم لے گا اور جب مثبت معاشرہ پروان چڑھے گا تو وہاں پر ہر سو خوشحالی ہو گی اور امن و آشتی کا بول بالا ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’تعلیم‘‘ کون عام کرے گا؟
بدقسمتی سے تعلیم عام کرنے کے دعویداروں کی کمی نہیں ہے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ طبقوں میں بٹی ہوئی مہنگی تعلیم کے باعث صرف ان گھرانوں کے بچے، نوجوان منزل تک پہنچ پاتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوتے ہیں جب کہ 90 فیصد گھرانوں کے نوجوان منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ سرکاری درس گاہوں کی حالت یہ ہے کہ کہیں اسکول آباد ہیں تو کہیں ویران ہیں۔ کہیں اساتذہ زیادہ ہیں تو بچے کم ہیں، کہیں طالب علم زیادہ ہیں تو استاد کم ہیں، کہیں تعلیم دی جا رہی ہے تو کہیں گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کی جا رہی ہیں۔
نوجوانوں کو حیلے بہانوں اور طفل تسلیوں کے گرداب میں جکڑ لیا گیا ہے۔ جو چیز یعنی ’’تعلیم‘‘ انھیں آگے لے جا سکتی ہے اسے اس سے دور کر دیا گیا ہے ایسے میں امن کا خواب عبث ہے۔ جہاں تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئی ہوں، جہاں نوجوانوں کے لیے روزگار کے راستے بند کر دیے گئے ہوں، جہاں غربت اژدھا کا روپ دھار چکی ہو۔ وہاں غربت کے بیچ سے کیسے خوشحالی آ سکتی ہے؟ اگر امن کے خواہاں ہو تو تعلیم کو غریبوں کے لیے عام کرو، ویران درس گاہوں کو آباد کرو۔
اب ذرا ملک میں تعلیم کی صورت حال ملاحظہ کریں! اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سطح پر بچوں کے مقابلے میں اساتذہ کی شرح خطے میں سب سے کم ہے، اسکول نہ جانے والے بچوں میں دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے، پرائمری سطح پر لڑکیوں کی انرولمنٹ شرح 54 فیصد جب کہ سیکنڈری سطح پر صرف 12 فیصد ہے۔ پاکستان میں 7 سے 15 سال تک کی 62 فیصد غریب لڑکیوں نے آج تک کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی، خواتین کی شرح خواندگی 47 فیصد اور مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے۔ خواتین کی صرف 49 فیصد آبادی نے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں صرف 38 فیصد خواتین اسکولز میں پڑھی ہیں۔ اسرائیل جس سے ہم نفرت کرتے ہیں اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سالانہ عالمی ایجوکیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی 46 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، 25 سال سے 64 سال کی عمر کے لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا یہ نتیجہ 2008ء میں نافذ ہونے والی تعلیمی اصلاحات کا سبب ہے جن میں اساتذہ کی تنخواہیں تعلیمی ڈھانچہ اور روزگار کی شرائط میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ اسرائیل میں 2003ء میں گریجویشن کرنے والے طلبا کی شرح 89 فیصد تھی جو 2010ء میں بڑھ کر 92 فیصد ہو گئی۔
یہ رپورٹ 34 ممبر ملکوں کے سروے سے تیار کر کے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کینیڈا اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لحاظ سے دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسکول جانے کی عمر کے تمام بچوں خصوصاً بچیوں میں سے 23 فیصد اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری اسکولوں کے 6 اور نجی اسکولوں کے 25 فیصد طالب علم ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت کے 68 اور نجی اسکولوں کے 43 فیصد طالب علم گنتی کی پہچان نہیں کرسکتے، تیسری جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 31 فیصد طالب علم انگریزی الفاظ پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جب کہ 5 ویں جماعت کے سرکاری اسکولوں کے 57 اور نجی اسکولوں کے 36 فیصد طالب علم اردو کے جملے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ذریعہ تعلیم کے حوالے سے 46 فیصد کی پہلی ترجیح اردو، 37 کی گھروں میں بولی جانے والی اور 17 فیصد کی انگریزی زبان ہے۔ دیہات میں غریب ترین طبقے کے 54، غریبوں کے 67 امیروں کے 73 اور امیر ترین طبقے کے 81 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں۔
ماضی میں صوبہ سندھ کا تعلیمی معیار دیگر صوبوں سے بہتر تھا مگر اس وقت سندھ دیگر صوبوں سے پیچھے ہے۔ سندھ میں 60 لاکھ بچے ابھی بھی اسکولوں سے دور ہیں۔ سندھ کے 40 ہزار میں سے 38 ہزار اسکول فعال ہیں یعنی 11 ہزار اسکول غیر فعال ہیں۔ جمعرات 20 فروری 2014 کو سندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ’’سیاسی چارٹر‘‘ کی منظوری دی جس میں عہد کیا گیا ہے کہ سندھ میں اسکولوں کی 100 فیصد داخلے یقینی بنا کر تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔ یہ قرارداد سینئر وزیر برائے تعلیم و خواندگی نثار احمد کھوڑو نے پیش کی تھی۔ یہ چارٹر کراچی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اور اس عہد کی سندھ اسمبلی سے بھی منظوری لے لی گئی ہے یہ عہد 2 نکات پر مشتمل ہے یعنی سندھ میں 100 فیصد داخلے ہوں اور معیار تعلیم بہتر ہو۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ 132 ارب روپے ہے ان میں سے 110 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں باقی 22 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہے۔ حکومت سندھ کے کل 15 لاکھ ملازمین ہیں جن میں سے ڈھائی لاکھ ملازمین صرف محکمہ تعلیم میں ہیں۔
ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور مبینہ کرپشن افسوس ناک ہے، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا بجٹ ملتا ہے لیکن وہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کے بچوں کو بروقت کتابیں مہیا نہیں کرسکتا ۔ ہر دفعہ جب نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے تو پورے سندھ میں درسی کتب نہ ملنے پر چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے ٹھیکے دینے پر اب تک سندھ میں کئی کئی اسکینڈلز منظر عام پر آچکے ہیں لیکن اب تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ صرف سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی نہیں بلکہ پورے محکمہ تعلیم میں بدانتظامی اور کرپشن کے سوا کوئی اچھی بات سننے کو نہیں ملتی۔ صرف موجودہ حکومت میں ہی یہ صورت حال نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں میں بھی محکمہ تعلیم کے حالات کو ٹھیک کرنے کے بجائے مزید بگاڑا گیا ہے اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ واحد نہیں ہے جو تباہ حالی کا شکار ہو۔ صوبے میں گڈ گورننس بھی ایک بہت بڑا مسئلہ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی لیکن گورننس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان پانچ سالوں کے دوران بھی ہزاروں غیر فعال اسکولوں کو فعال نہیں کیا جا سکا۔ گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکی۔ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ معیار تعلیم کے مسلسل انحطاط کو نہیں روکا جا سکا۔ عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے سندھ میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے امداد اور قرضے کی مد میں جو رقم فراہم کی تھی، وہ ضایع کر دی گئی اور جتنے بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے۔ اس پورے عرصے میں سرکاری تعلیمی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال نہ کیا جا سکا۔
مذکورہ بالا صورت حال کے پیش نظر آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں یا کہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں؟ الغرض یہ کہ دہشت گردی جیسے مسائل کے حل میں تعلیم اسی وقت اپنا موثر کردار ادا کر سکتی ہے جب آپ پڑھے لکھے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کا بھی بندوبست کریں۔ نوجوانوں کو قومی مفاد میں استعمال کرنے کی حکمت عملی طے کرنا ہو گی۔ اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر تعلیم دہشت گردی، اخلاقی انحطاط اور غربت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
Primary Education in Pakistan
Subscribe to:
Posts (Atom)
Popular Posts
-
Pakistan Air Force Female Fighter Pilot, Ayesha Farooq
-
Geo News Live Geo TV Live Online
-
Child Protection in Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer
-
حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوجی کو پکڑ لیا
-
آپریشن ضربِ عضب نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن ہے نہ ہی آخری......
-
Join Army As Captain/Major Through Short Service Regular Commission
-
Ayesha Farooq, Female Pakistani Fighter Pilot, A New Beginning in PAF
-
K-8 Karakorum Fighter Jet Trainer with Rocket & Gun Pods
-
Lieutenant General Zaheer-ul Islam is 18th Director-General 'ISI' 1959
-
ARY News Live ARY News Online
Labels
- 10 Years
- 10 Years of Face Book
- 1947–1958
- 1971–1977
- 1977–1999
- 2002 Gujarat violence
- 2010 FIFA World Cup
- 2014 Fifa World Cup
- 2014 World Cup Brazil
- 28 May “Youm-e-Takbeer”
- 35 Punctures
- 3G/4G
- 3G/4G auction in #Pakistan
- Aafia Siddiqui
- Aaj Tv
- Aamir Khakwani
- Aangan Terha
- Abdul Qadeer Khan
- Abdul Wali Khan
- Abdullah Tariq Sohail
- Abdusalam
- Abortion
- Abseiling
- Abu Bakr
- Abu Bakr al-Baghdadi
- Abu Hamza Rabia
- Abu Laith al-Libi
- Abu Sulayman Al-Jazairi
- Accidents
- Adward Snowden
- Afghanistan
- Afghanistan war
- Afghanistan Wars Cost
- Africa
- Aftab Iqbal
- Agence France Presse
- Ahmad Kamal
- Ahmed Shehzad
- Air Force
- Air Show
- Air-to-Air Refueling
- AirForce and Navy
- Airport security
- Airstrike
- Akbar
- Akram Khan Durrani
- Al Arabiya
- Al Qaeda
- Al Sharpton
- Al-
- Al-Ikhlas
- Al-Khidmat Foundation
- Al-Qaeda
- Al-Shifa
- Al-Shifa Hospital
- AlKhidmat Foundation Pakistan
- Allah
- alqaeda
- ALS
- ALS Association
- Altaf Hussain
- Altaf Hussain arrested in London
- Altaf Hussain Qureshi
- Amazon Mechanical Turk
- Ambulance
- Ambulance Drivers of Karachi
- American Medical Association
- American Muslims
- American Osteopathic Association
- Amir Mir
- Amman
- Amna Masood Janjua
- Amnesty International
- Amyotrophic lateral sclerosis
- Anantnag
- Anarkali
- Ancient World
- Andhra Pradesh
- Andrew McCollum
- Ankahi
- Annals of Internal Medicine
- ANP
- Ansar Abbasi
- Anti-Ship Missiles
- Anti-statism
- Anti-Submarine Helicopters
- Anti-Submarine Warfare
- Antonio
- Antonio Inoki
- Apache
- Apostle
- Arab people
- Arabian Sea
- Arabic language
- Arena Amazônia
- Arena de São Paulo
- Arena Fonte Nova
- Arena Pantanal
- Armored Vehicles
- Army operation
- Art
- Arts
- Arts and Entertainment
- Arvind Kejriwal
- ARY
- ARY Digital
- ARY News
- ARY News Live
- ARY News Online
- Asad Umar
- Asia
- Asia Cup
- Assam
- Associate Members
- Associated Press
- Atmospheric Sciences
- Atomic nucleus
- Attack Helicopters
- Attack on Hamid Mir
- Auction
- Author
- Autogrill
- Aviation
- AWACS
- Awami National
- Awami National Party
- Ayaz Amir
- Ayesha Gazi
- Azad Kashmir
- Azadi March
- Babar Suleman
- Baitul-Maqdis
- Bajaur Agency
- Balakot
- Ballistic Missile
- Baloch people
- Balochistan
- Balochistan Pakistan
- Balochistan Crises
- Balochistan Liberation Army
- Balochistan Pakistan
- Baluchistan
- Bangladesh
- Bangladesh Liberation War
- Bangladesh Nationalist Party
- Banking in Switzerland
- Bannu
- Baptists
- Bara
- Barack Obama
- Barak Obama
- Barbados
- Bari Imam
- Baroness Sayeeda Warsi
- Bashar al Assad
- BBC
- Beautiful Mosques
- Beautiful Places
- Beauty of Pakistan
- Beheading of US journalist
- Behroze Sabzwari
- Beijing
- Belgium
- Benazir Bhutto
- Benjamin Netanyahu
- Bharatiya Janata
- Bharatiya Janata Party
- Bhutto
- Big Ben
- Big Disasters
- Big Three
- Bihar
- Bilal Ghuri
- Bilawal Bhutto Zardari
- Bill & Melinda Gates Foundation
- Bill Gates
- BJP
- Blasphemy
- Blog
- Board of Control for Cricket in India
- Bob Sapp
- Bodyart
- Bodypainting
- Bogor
- Books
- Boston
- Brahmaputra River
- Brazil
- Brazil national football team
- Breast cancer
- Britain
- Brown
- Build Pakistan
- Bund
- Burkina Faso
- Burma
- Business
- Business and Economy
- Cabinet of the United Kingdom
- Camps
- Canada
- Canadian cultural protectionism
- Capital punishment
- Caribbean
- casualties
- Ceasefire
- Central Jail Gujranwala
- Central Prison Karachi
- Chairman of the Conservative Party
- Chanel
- Charge Sheet Against Geo News
- Chaudhry Pervaiz Elahi
- Chaudhry Shujaat Hussain
- Chenab River
- Chennai Super Kings
- Chhipa Ambulance
- Chief Justice Nasir–ul–Mulk
- Chief Minister of Punjab Pakistan
- Child
- Child Abuse
- Child Abuse in Pakistan
- Child Marriage
- Child Marriage in Pakistan
- Child Protection in Pakistan
- Children
- China
- Chinese
- Chinese New Year
- Cholistan Desert
- Chris Hughes
- Christmas
- Circumvesuviana
- Clock
- Clock face
- Cold War
- Colombia
- Conservative
- constitution and pakistan
- Constitution of Pakistan
- Construction
- Coronavirus
- Corruption in Pakistan
- Countries with the largest Muslim populations
- Credit Suisse
- Cricket
- Crime
- Crown Jewels of the United Kingdom
- Cruise Missile
- Current deployments
- Cyclone Nanauk
- Daily Jang
- Damascus
- Darya-ye Noor
- Data Darbar Lahore
- David Cameron
- Dawa
- DawnNews
- Dead city
- Debaltseve
- Defence Ministry
- Democracy
- Democracy in India
- Depression
- Dera Ismail Khan
- Dhoop Kinare
- Displaced person
- Domestic violence
- Donetsk
- Donetsk Oblast
- Dr. Aafia Siddiqui release
- Dr. Akramul Haq
- Dr. Hasanat
- Dr. Mujahid Mansoori
- Dr. Safdar Mehmood
- Dr. Shahid Hassan
- Dr. Shahid Siddiqui
- Drought
- Drug
- Drug interaction
- drug war
- Dubai
- Dubi Air Show
- Dunya News
- Dustin Moskovitz
- Earth Sciences
- East India Company
- Eastern Ukraine
- Ebola
- Ebola outbreak
- Ebola virus disease
- Economic growth
- Economics
- Edinburgh
- Eduardo Saverin
- Education
- Education system in Pakistan
- Egypt
- Election
- Election Commission of India
- Elections in India
- Electronic media
- Ellen Johnson Sirleaf
- Emergency service
- End enforced disappearances in Pakistan
- Energy Crises in Pakistan
- England
- Engro Corporation
- ER (TV series)
- Ethel Kennedy
- Ethiopia
- Eurasian Union
- Europe
- European
- European Union
- Express News
- Express Tribune
- Ezzedine Al-Qassam Brigades
- F-16
- Face Book
- Face Book History
- Facepainting
- Facts and Statistics
- Faisalabad
- Falah-e-Insaniat Foundation
- Famous Cricket Players And Their Kids
- Farmer
- Fashion
- Fast Attack Missile Craft
- Fatah
- Fatima Surayya Bajia
- Fellowship
- Female Pilots
- Ferguson
- Ferguson Missouri
- FIF
- FIFA
- FIFA World Cup
- Fighter Aircrafts
- Fighter Jet Trainer
- Finance minister
- Financial Services
- Flash flood
- Flood
- Flood in Pakistan
- Floods
- Follow Follow
- Food Standards Agency
- Football
- Foreign and Commonwealth Office
- Fortaleza
- France
- Friday
- Frigates
- Fuji Television
- Full Members
- Fundamental Rights Agency
- Future of Electronic Media in Pakistan
- G-3S Rifle
- G.M.F
- Gauhati
- Gaza
- Gaza Children
- Gaza City
- Gaza Strip
- Gaza under attack
- Gaza War
- General election
- genetically modified food
- Geo
- Geo apologizes
- Geo News
- Geo News Live Geo TV Live Online
- Geo TV
- geonews
- geotv
- German language
- Ghulam Noor Rabbani Khar
- GM Syed
- Gmail
- Golden Temple
- Google Authorship
- Google Blog Search
- Google Password
- Google+
- Government
- Government College University
- Government of Pakistan
- Granja Comary
- Great Comet
- Great Football Players
- Greece
- Guinea
- Gujarat
- Gulabo
- Gullu Butt
- Guru Nanak Stadium
- Guwahati
- Habib Jalib
- Hadith
- Hadrat
- Hafiz Muhammad Saeed
- Haitham al-Yemeni
- Hajj
- Hajj by Sea
- Hamas
- Hamid Karzai
- Hamid Mir
- hamidmir
- Happy Pakistan Independence Day 2014
- Hardcover
- Haris Suleman
- Hasb-e-Haal
- Haseena Moin
- Health
- Health Canada
- Heavy Rain
- Helicopters
- Henry Bartle Frere
- Herculaneum
- Heroes Of Pakistan Police? Pakistan
- Higher Education in Pakistan
- Hijab
- Hina Rabbani Khar
- Hindu
- Hindu nationalism
- Hiroshima
- History
- Hiv And Aids
- Holidays in Pakistan
- Home
- Honor killing
- Honour killing in Pakistan
- Horseshoe Falls
- Houses of Parliament
- How do you treat the worst democracy?
- How Does Google Work?
- How to Avoid Food Poisoning
- HTML5
- Huangpu
- Huangpu River
- Humaima Malick
- Human behavior
- Human Rights Commission
- Hyderabad
- Iam Malala
- Ibtisam Elahi Zaheer
- ICC
- Ideas-2012
- IDF
- Idrees Bakhtiar
- Ikramul Haq
- Illegal drug trade
- Illegal immigration by sea
- Imam Haram
- Important Darbars in Pakistan
- Imran Farooq
- Imran Khan
- Imran Khan calls for civil disobedience
- Independence Day
- India
- India Election
- India national cricket team
- India–Pakistan relations
- Indian
- Indian Air Force
- Indian Elections
- Indian general election
- Indian National Congress
- Indian Ocean
- Indian Premier League
- Indiana
- Indo-Pakistani War of 1947
- Indonesia
- Indus River
- Inqilab March
- Insaf
- Inter Service Public Relations
- Inter-Services Intelligence
- Inter-Services Public Relations
- Interior ministry
- Internally displaced person
- International Civil Aviation Organization
- International Cricket Council
- International Security Assistance Force
- Internet
- Internet monitoring
- Internet access
- IPL 2014 in Pictures
- Iran
- Iran Pro League
- Iran's nuclear program
- Iraq
- Iraq War
- Irfan Siddiqui
- Ironside
- Irshad Ahmed Arif
- Ishaq Dar
- Ishtiaq Ahmed
- Ishtiaq Baig
- ISI
- ISIL
- Islam
- Islamabad
- Islamabad Dharna
- Islami Shariah
- Islamic banking
- Islamic State
- Islamic State of Iraq and ash Sham
- Islamic terrorism
- Israel
- Israel Defense Forces
- Israeli
- Istanbul
- Italy
- Jahangir
- Jakarta
- Jama'at-ud-Da'wah
- Jamaat-e-Islami
- Jamat Islami
- James Foley
- Jamia Binoria
- Jamiat Ulema-e-Islam
- Jammu
- Jammu and Kashmir
- Jammu Kashmir
- Jammu-Kashmir
- Jamrud
- Jamsed Dasti Allegations
- Jamshed Dasti
- Jang
- Jang Group
- Jang Group of Newspapers
- Jang Group Open Letter To The Government And PEMRA
- Japan
- Japan's new immigration law
- Javed Chaudhry
- Javed Hashmi
- Jazz
- Jeddah
- Jerusalem
- JF-17 Thunder
- Jhang
- Jhelum District
- Jhelum River
- Jim Breyer
- Jin Mao Tower
- Jinnah International Airport
- Job Opportunities in Pakistani Armed Forces
- John Adams
- Joint Military Exercise
- Joko Widodo
- Jordan
- Journalist
- Judicial Watch
- July 8
- June
- June 2014
- Kabaddi
- Kabul
- Kalabagh
- Kalabagh Dam
- Kanwar Dilshad
- karachi
- Karachi Airport Attack
- Karachi Division
- Karachi operation
- Karachi Stock Exchange
- Karl Lagerfeld
- Karnataka
- Kashf ul Mahjoob
- Kashmir
- Kashmir Day
- Kashmir Solidarity Day
- Kashmiri
- Kashmiri Pandit
- KESC
- Khabarnaak
- Khair Bakhsh Marri
- Khaled Al Maeena
- Khalid Almaeena
- Khan Younis
- Khan Yunis
- Khattak
- Khuda Ki Basti
- Khuzaa
- KHYBER PAKHTUNKHWA
- Khyber Pakhtunkhwa Assembly
- Khyber Pukhtoonkhwa
- Khyber-Pakhtunkhwa
- King Abdullah
- Koh-i-Noor
- Koh-i-Noor Hira
- Konark
- Kounsarnag
- Kuala Lumpur
- Kulgam district
- Lahore
- Lahore High Court
- Lahore Metro Train Project
- Lake Malawi
- Landslide
- Larkana
- Law
- LCA Tejas
- League of Nations
- Levant
- Liberia
- Lieutenant General Raheel Sharif
- Lifeboat (rescue)
- Lionel Messi
- List of diplomatic missions in Pakistan
- Literature
- Load-shedding
- Login
- Loksabha
- London
- Long March
- Love Pakistan
- Luhansk
- Luis Suárez
- Lupanar
- Lyari
- Mads Gilbert
- Maha
- Mahira Khan
- Mahmoud Abbas
- Major Shaheed
- Major problems in Pakistan
- Major Raja Aziz Bhati Shaheed
- Makes and Models
- Malala Yousafzai
- Malala Yousef Zai
- Malaysia
- Malaysia Airlines
- Malaysia Airlines flight
- Malaysia Airlines MH17
- Malaysia Airlines MH370
- Malik Riaz Hussain
- Mall of the World
- Mama Qadeer
- Mama Qadeer Baloch
- Manmohan Singh
- Manzoor Ijaz
- Manzoor Wattoo
- Mao Zedong
- Map
- Marina Khan
- Maritime Patrol Aircraft
- Marri
- May Allah
- Mazar-e-Quaid
- Mecca
- Médecins Sans Frontières
- Media
- Media of Pakistan
- Media studies
- Member state of the European Union
- Mers Virus
- Met Office
- Meteorology
- MH370 Flight Incident
- Michael Brown
- Microscope
- Microsoft
- Middle East
- Migration of Waziristan Children
- Minhaj-ul-Quran
- Ministry of Defence
- Mir Shakil
- Mir Shakil-ur-Rahman
- Mirpur Khas
- Mirza Aslam Baig
- Missile
- Missing People from Blochistan
- Mission
- Missouri State Highway Patrol
- Mithi
- Modi
- Mohammad Asghar
- Mohammed Ali Jinnah
- Mohammed bin Rashid Al Maktoum
- Mohammed Yousaf
- Mohenjo-daro
- Mohmand
- Mohtarma Fatima Jinnah
- Money laundering
- Mood (psychology)
- Mosul
- Mount Vesuvius
- MQM
- MQM Resignations
- Mubashir Luqman
- Mufti Muneeb ur Rehman
- Mughal
- Mughal Empire
- Muhammad
- Muhammad Ali Jinnah
- Muhammad Tahir-ul-Qadri
- Mujahid Mansoori
- Mujahideen
- Multan
- Multi Barrel Rocket Launcher
- Mumbai
- Murder
- Music
- Muslim
- Muslim Achievements
- Muslim Countries of the World
- Muslim Leaders
- Muslim scientists
- Muttahida Qaumi Movement
- Nablus
- Nagarparkar
- Najam Sethi
- Nalanda
- Nalanda district
- Nanauk
- Naples
- Narendra Modi
- Nasim Zehra
- Nasrullah Shaji
- Naswar
- National
- National Awami Party
- National Disaster Response Force
- National Football League
- National Security Agency
- NATO
- Navy
- Nawab
- Nawabzada Nasrullah Khan
- Nawaz Sharif
- Nawz Sharif
- Nazism
- Nek Muhammad Wazir
- Nepal
- Netanyahu
- New Delhi
- New World Order
- New Year
- New york
- Neymar
- Niagara Falls
- Niagara Falls Ontario
- Nigeria
- Nisar Ali Khan
- Nishan e Haider
- Noor
- Noor Muhammad
- North Africa
- North Korea
- North Waziristan
- Northern Ireland
- NSA
- Nuclear Weapons
- Nurpur Shahan
- Obesity
- Old Pakistani TV dramas
- Oman
- One Day International
- Online Petition for Aafia's Release
- Ontario
- Operation Blue Star
- Orange Order
- Organization and Command Structure
- Organizations
- Oriental Pearl Tower
- Orya Maqbool Jan
- Pacific Ocean
- Pak Army Arms
- Pak Army Arms Traning
- Pak Navy
- Pak Navy S.S.G
- Pakistan
- Pakistan and IMF
- Pakistan and India Relations
- Pakistan and Saudi Arabia Relations
- Pakistan and War on Terror
- Pakistan Armed Forces
- Pakistan Army
- Pakistan Awami Tehreek
- Pakistan blocked unregistered mobile SIMs
- Pakistan Constitution
- Pakistan Democracy
- Pakistan Disabled Peoples
- Pakistan Economy
- Pakistan Education System
- Pakistan Electronic Media Regulatory Authority
- Pakistan Flood Destruction
- Pakistan government
- Pakistan History and Introduction
- Pakistan Income Tax System
- Pakistan Industry
- Pakistan Judiciary
- Pakistan Media
- Pakistan Muslim League
- Pakistan Muslim League (N)
- Pakistan Muslim League (Q)
- Pakistan Navy
- Pakistan New World Records
- Pakistan Ordinance
- Pakistan Parliament
- Pakistan Peace Talks with Taliban
- Pakistan People
- Pakistan Peoples Party
- Pakistan Police
- Pakistan Political Crisis
- Pakistan Politics
- Pakistan Post
- Pakistan Postage
- Pakistan Poverty
- Pakistan Rangers
- Pakistan Rupee
- Pakistan Rupee against US Dollar
- Pakistan Tehreek
- Pakistan Tehreek-e-Insaf
- Pakistan Unrest
- Pakistan Working Women
- PAKISTAN: International Women's Day
- Pakistan's military operations
- Pakistani
- Pakistani Air Force
- Pakistani Dramas Classics
- Pakistani people
- Pakistani television
- Pakistani UAV Industry
- Pakistanis in the United Arab Emirates
- Pakistanis set new world records Business
- PakistanRailways
- Pakitan Vip Culture
- Palace of Westminster
- Palestine
- Palestine’s unity government
- Palestinian people
- Palestinian refugee
- Palestinian rocket attacks on Israel
- Palestinian territories
- Paper
- Paris
- Paris Air Show
- Parliament of Pakistan
- Passenger Plane
- PAT
- Pat Quinn
- PCB
- peace
- Peace Talks
- Peace Talks with Taliban
- Pemra
- PEMRA suspends licenses of Geo TV
- Pentagon
- People
- Personal computer
- Pervez Hoodbhoy
- Pervez Musharraf
- Peshawar
- Pew Research Center
- Philip Hammond
- Physical exercise
- PIA
- Pir Panjal Range
- Plane Crash
- PML-N
- Poetry
- Polar vortex
- Police
- Police officer
- Poliomyelitis
- Politics
- Politics of Pakistan
- Polling place
- Pompeii
- Portable Document Format
- Postage stamp
- Postage stamps and postal history of Pakistan
- Poverty
- Poverty in Pakistan
- Poverty threshold
- Power of Social Media
- Prabowo Subianto
- Prescription drug
- President of the United States
- President of Turkey
- Primary Education in Pakistan
- Prime Minister of India
- Prime Minister of Pakistan
- Prince Salim
- Prince Salman
- Princess Diana
- Professor Dr Ajmal khan
- Programs
- Protection of Pakistan Ordinance
- Protest
- Protests against Geo TV
- Provinces
- Provincial Assembly of the Punjab
- PTA
- PTI
- Punjab
- Punjab Pakistan
- Punjab Festival
- Punjab Pakistan
- Punjab Police
- Punjab Province
- Punjab region
- Pyongyang
- Qadiriyya
- Qadri
- Qatar
- Queen Victoria
- Quetta
- Quied-e-Azam
- Quran
- Qurtaba Mosque Spain
- Rafah
- Rahman
- Rain in Punjab
- Rajouri district
- Ramallah
- Rana Sanaullah Khan
- Rape
- Rashid Minhas Major Aziz Bhati
- Rawalpindi
- Reality of Jamat-e-Islami
- Reality-Based
- Recent Dialouge with Taliban
- Recep Tayyip Erdogan
- Recep Tayyip Erdoğan
- Recreation
- Red Zone
- Rehman
- Rehman Malik
- Relative Ranks of Pak Army
- Religion and Spirituality
- Research papers
- Reuters
- Rio de Janeiro
- River Chenab
- Rizwan Wasti
- Robert Fisk
- Robert Gates
- Rohingya
- Rome
- Rowland Hill
- Royal Philatelic Collection
- Russia
- Rustam Shah Mohmand
- Safe Pakistan
- Sahih al-Bukhari
- Sakhawat Naz
- Salafi
- Salah
- Saleem Safi
- Salim
- Salim Nasir
- Sami ul Haq
- San Jose State University
- SAu
- Saudi Arabia
- Save Children
- Say No To Drugs
- Sayeeda Warsi
- Saylani Welfare Trust
- Scinde Dawk
- Scotland
- Scotland Yard
- Scottish independence
- Scottish independence referendum 2014
- Search for Malaysia Airlines MH370
- Searching
- Select (magazine)
- Self Growth
- Shah Abdul Latif Kazmi
- Shahbaz Sharif
- Shahid Afridi
- Shahid Hassan
- Shahid Khaqan Abbasi
- Shahnaz Sheikh
- Shaista Lodhi
- Shaista Wahidi
- Shakeel
- Shakil
- Shanghai
- Shariah
- Shariah in Pakistan
- Sharif
- Shehnaz Sheikh
- Sheik Mohammed bin Rashid Al Maktoum
- Sheikh Sudais
- Shenawaz Farooqi
- Sher Shah
- Sher Shah Multan
- Sher Shah Suri
- Shifa
- Shinzō Abe
- Shooting of Trayvon Martin
- Sierra Leone
- Sindh
- Sindh Festival
- Sindh government
- Singapore
- Sirajul Haq
- Sisi
- Sitting
- SlideShare
- Smartphone
- Snoker
- Soccer
- Social media
- Social Media in Pakistan
- Social networking service
- Social Sciences
- South Africa
- South America
- South Asia
- South Asian Association for Regional Cooperation
- South Waziristan
- Sport
- Sports
- Sri Lanka
- Srinagar
- SSG
- St. Louis
- States presidential election 2012
- Steven Sotloff
- Stop Child Abuse
- Strategic Dialogue
- Strikes in Karachi
- Submarine
- Substance abuse
- Sudan
- Sufism
- Suharto
- Suicide in Pakistan
- Sunday Aug. 17 2014
- Sunni Islam
- Support group
- Supreme Court of Pakistan
- Surface to Air Missiles
- Swiss Banks
- Switzerland
- Syed Saleem Shahzad
- Syria
- Syria Chemical Attack
- Syria Crises
- Syria Elections
- Syria War
- Tafsir
- Tahir
- Tahirul Qadri
- Talat Hussain
- Taliban
- Taliban insurgency
- Tamil Nadu
- Tank
- Tanvir Ashraf Kaira
- Targeted killing
- Tawi River
- Tax Collection In Pakistan
- Tears of Waziristan
- Technology
- Tehrik-i-Taliban Pakistan
- Tel Aviv
- Telenor
- Television
- Television channel
- Terrorism
- Test cricket
- Thar
- Thar Desert
- Thar Drought
- Tharparkar
- Tharparkar District
- The Children of Gaza
- The Ice Bucket Challenge
- Think Before Speak
- Third World
- Thomas Jefferson
- Thul
- Tissue paper
- Tobacco
- Tokyo
- Top Stories
- Transport Aircraft
- Transportation
- Transportation and Logistics
- Tribute to Nasrullah Shaji
- TTP
- Turkey
- Turkey Elections
- Turkey President in Pictures
- UAE
- UAV
- Ukraine
- Ulama
- Ummah
- Ummat
- Unemployment Rate
- UNICEF
- Union
- United
- United Arab Emirates
- United Kingdom
- United Nations
- United Nations and Philistine
- United Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near East
- United State
- United States
- United States of America
- Universal Declaration of Human Rights
- University of Punjab
- UNO
- Upper Dir District
- Urdu
- Urdu Books
- Urdu Columns
- Urdu Ghazal
- Urdu poetry
- Urdu vs English
- US Army
- US Dollar
- US Drone Attacks in Pakistan
- USA
- USA is Spying on Millions of People
- Uttar Pradesh
- Vadnagar
- Valentine Day
- Valentine's Day
- Veena Malik
- Vice Chancellor Islamia University
- Video
- Violence against women
- Wali Babar murder case
- Wali Khan Babar
- Walking: Why it’s so important
- Wapda
- War crime
- War on Poverty
- War on Terror
- War on Terrorism
- Warfare and Conflict
- Washington
- Water Crisis in Pakistan
- Waziristan
- Waziristan IDPs
- Waziristan Operation
- Weather Phenomena
- Web search engine
- Wedding
- Welfare
- West
- West Africa
- West Bank
- West Florissant Avenue
- Western Culture
- Western Media and the Gaza War
- Why did Facebook buy WhatsApp? United States
- Women
- Word expensive cities
- Wordpress
- WordPress.com
- Work
- World Cup
- World economy
- World Health Organization
- World least expensive cities
- World Literature
- World War
- World War I
- World War II
- World's most expensive stamp
- World's worst air accidents
- Wusat Ullah Khan
- Xi Jinping
- Yarmouk
- Yarmouk Camp
- Yasir Pirzada
- Year of the Horse
- Yousaf Raza Gillani
- YouTube
- Yvonne Ridley
- Zaheer ul-Islam
- Zaid Hamid
- ZDK-03 AEW Aircraft
- Zindagi Gulzar Hai
- کشف المحجوب
About Me
Powered by Blogger.
Blog Archive
-
▼
2014
(520)
-
▼
September
(76)
- Pak army song
- Pak army modified guns
- اب عمران خان کیا کریں گے؟.......
- انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے.........
- دشمن بچے --- شاہنواز فاروقی....
- بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......
- پاکستان :65برس میں سیلاب سے 40ارب ڈالرکانقصان........
- یورپ کے جنگی جنون کی کہانی: جنگِ عظیم اول و دوم
- قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہ...
- سیلاب زدگان کی مدد کیجیے......
- سویلین حکومتیں اور فوج......
- The Kalabagh Dam
- Energy crisis and Kalabagh Dam
- زبان کا سرکش گھوڑا.......
- Flood victims arrive in Sher Shah, Pakistan
- Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Aba...
- باغیوں کی ضرورت ہے.....
- جب خاموشی بہتر سمجھی جائے.......
- Thousands of Orange Order supporters marched in a ...
- Kashmiri men evacuate women and the elderly from a...
- People stand on a damaged bridge on the Tawi River...
- بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ ...تھی
- کتابیں‘ جنہوں نے زندگی پر اثر ڈالا.......
- Falah-e-Insaniat Foundation load relief supplies t...
- Pakistani Floods - Soldiers load relief supplies d...
- Pakistan Floods - Army soldiers unload boats to be...
- کیا دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا؟...
- Flood victims sit beside their belongings as they ...
- مسلح افواج اور پاکستان کی سیاست......
- کہانی دھرنوں کی: سکرپٹ، کیریکٹرز اور ڈائریکٹرز.......
- مجھے اس شہر میں رہنے سے خوف آتا ہے.....
- An aerial photograph shows homes surrounded by flo...
- ARY News Live ARY News Online
- Geo News Live Geo TV Live Online
- صارفین پاس ورڈ تبدیل کر لیں، گوگل کی ہدایت.......
- دو راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں......
- سیلاب جو ساری متاع بہا لے گیا.......
- حکومتی .....بدانتظامیوں کی داستان..
- یہ ایسے تو نہیں ہوگا.....
- Pakistan Floods - WATER EVERYWHERE
- پاکستان میں ہر سال 5 ہزار سے زائد افراد خودکشی کرن...
- دھرنے کی افادیت......
- بارشوں اور سیلاب سے اب تک 50 ارب روپے تک کا نقصان....
- لگتا ہے لائن ڈراپ ہوگئی......
- احساس زیاں جاتا رہا......
- Navy Reples Attack on PNS Zulfiquar (251) F-22P Zu...
- Facebook addiction can leave you lonely, depressed
- "شوباز شریف "...
- اسلامک ا سٹیٹ آف عراق اینڈ شام.....(Islamic State ...
- تباہی کی داستانیں رقم کرتے سیلابی ریلوں کا سفر جار...
- پاک فوج کے اصل دشمن.....
- دنیا کا مطلوب ترین انسان ....World Most Wanted Man
- Revival of Pakistan Railways : Railways records im...
- People stand on the rooftop of their flooded house...
- Tahir ul-Qadri addressing supporters in front of P...
- اصل جنگ......
- People stand near their submerged houses on the fl...
- جنگل بیابان میں گزرے برس.......
- سوشل میڈیا کی طاقت.......Power of Social Media
- شدید بارشوں نے لاہور میں تباہی مچادی
- تھر کے قحط زدہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے......
- Open Letter to PTI Chairman Imran Khan
- Muslim groups denounce beheading of US journalist ...
- MQM Resignations By Ansar Abbasi
- سدا بہار باغی......
- Economic Cost of of Imran Khan Azadi March and Inq...
- باغی کی خطرناک بغاوت.......
- کیسا انقلاب؟......
- Real Leader and Hero Recep Tayyip Erdogan
- Heroes Of Pakistan Police?
- Asad Umar
- Do you believe the Pakistan political crisis is sc...
- Javed Hashmi
- یہ محمد علی جناح کا پاکستان ہے؟
- حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....
- ساٹھ برس پرانی تازہ کہانی.....
-
▼
September
(76)