Showing posts with label Pakistan. Show all posts

اب عمران خان کیا کریں گے؟.......


عمران خان کو اپنا آزادی مارچ اسلام آباد لائے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ شام کے وقت جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے، جبکہ تقاریر کا سخت ہوتا ہوا لہجہ بڑھتے ہوئے ہیجان کا پتہ دے رہا ہے۔ امیدیں اور وعدے اب بے چینی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اگر طاہر القادری کے حامی شارع دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے نا ہوتے، تو یہ سب ابھی اور بھی پھیکا ہوتا۔ لیکن عمران خان اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کو اب تلخ اختتام پر لے جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ رسک زیادہ ہے، اور آپشن کم رہ گئے ہیں۔ تو، اب عمران خان کیا کریں گے؟
کرکٹ کے برعکس سیاست میں کوئی بھی ہار جیت حتمی نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کے اس کھیل میں ہار جیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ ہر نئے دن جیت کی ایک نئی کشمکش۔ پر کرکٹ کو سیاست کے ساتھ ملا دینے کا خیال کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ عمران خان کی خود پسندی، ضد، اور حساب کتاب میں گڑبڑ ان کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں۔

وہ مزید چیزیں داؤ پر لگائے جارہے ہیں، جبکہ وہ انتخابی اصلاحات، اور انتخابات کی تحقیقات کی حکومتی پیشکش کو تسلیم کر کے جیت سکتے تھے۔ لیکن اپنے بے منطق کے اقدامات کی وجہ سے وہ اب اپنی اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، جس نے تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کو سیاسی قوت میں بدل کر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

یہ حقیقت ہے، کہ پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن، موروثی سیاست، اور قانون کی خلاف ورزی کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے عوام کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی، کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا، کیونکہ لوگوں کے نزدیک یہی جماعت باریاں لینے والی دوسری جماعتوں سے مختلف تھی۔ لیکن ایک جس چیز جس کی کمی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کا وژن، اس تبدیلی کا جس کا وہ بار بار وعدہ کرتے ہیں۔

ان کے تیز طرار بیانات اب صرف کھوکھلی باتوں میں بدل گئے ہیں۔ اہم سیاسی، سماجی، اور اقتصادی معاملات پر ان کے خیالات ان کے تبدیلی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا سیاسی پہلو کافی قدامت پسند ہے، اور وہ ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور طالبان پر ان کا مؤقف کافی پریشان کن رہا ہے۔ وہ پر کشش تو ہیں، لیکن ان میں وہ بات نہیں پائی جاتی، جو تبدیلی لانے والے لیڈروں میں ہوتی ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ان کے حالیہ اقدامات ہیں۔
یہ یقینی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان کی گہری نیند سے جگا دیا ہے، اور یقین دہانی کرا دی ہے کہ عوام اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک مہینے سے جاری دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بے مثال باب ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کو بھی سسٹم بچانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مدد لینی پڑی ہے۔

لیکن حالیہ دھرنوں نے پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی، اور موقع پرستی کو ظاہر کردیا ہے۔ پارٹی نے اپنی پوری اسٹریٹیجی صرف یا تو امید پر قائم رکھی، یا کسی تیسری قوت کی جانب سے شریف حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر۔ اور جس وقت آرمی چیف ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے منظرنامے میں داخل ہوئے، تو شاید جیت کی امید مضبوط ہوئی تھی، پر یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی، کہ اسے لگا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو متحرک کر کے اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور سے اسلام آباد تک کے مارچ، اور اس کے بعد کے دھرنے میں صرف کچھ ہزار لوگ ہی شامل ہوئے۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ایک مہینے سے جاری دھرنے کا ملک کے باقی حصے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ عمران خان کی ملک بھر میں احتجاج کی اپیلوں کو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا، صرف کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں کچھ پارٹی کارکنوں کے اجتماع ہوئے اور بس۔ سول نافرمانی، اور ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پارٹی کے کچھ وفاداروں نے پشاور-اسلام آباد روڈ پر ٹول ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، جبکہ کچھ اپر کلاس کے لوگوں کو ریسٹورینٹس کی انتظامیہ سے جی ایس ٹی کاٹنے پر جھگڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں (خیبرپختونخواہ کے علاوہ) سے استعفے دینے کے فیصلے نے بھی نا صرف پارٹی کو اندرونی طور پر تقسیم کیا، بلکہ اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ساتھ کوئی بھی اتحادی موجود نہیں ہے۔ اگر پارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرتی، تو اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے عمران خان نے پارلیمنٹ کو چوروں کا اڈہ قرار دے ڈالا۔

لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے میں بلوغت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پی ٹی آئی کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کر کے دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اور اگر اب تک پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں، تو یہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے استعفے منظور کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب اس کو زیادہ عرصے تک ٹالا نہیں جا سکے گا۔ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کرانا پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

وزیر اعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ پارٹی اس کے لیے کریڈٹ لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔ عمران خان موجودہ بساط لپیٹ کر جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ صرف انارکی کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور حکومت کے رٹ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔

دار الحکومت کی ایک معطل شدہ انتظامیہ نے پہلے ہی مظاہرین کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور عمران خان کی جانب سے اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑا لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ اس بڑھتے ہوئی سیاسی ہلچل اور طاقت کے خلا میں کسی غیر آئینی مداخلت کو راستہ مل سکتا ہے، اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو مکمل تباہی پر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس بحران کا حل جمہوریت میں موجود ہے، پھر اس میں بھلے ہی کتنی ہی خامیاں ہوں، پر اس بحران کا سسٹم سے باہر کوئی حل نہیں ہے۔

زاہد حسین

بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......


پاکستان :65برس میں سیلاب سے 40ارب ڈالرکانقصان........


پاکستان کی حکومتوں نے سیلاب سے بچائو کے منصوبوں کے نام پر 35 ارب کی بھاری رقم خرچ کرڈالی‘ قوم کو درجنوں سیلابوں کے باعث 40 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا لیکن حکومت نے بھارت سے داخل ہونے والے 5 دریائوں پر اپنا ٹیلی میٹری فیلڈ مانیٹرنگ سسٹم نصب کرنا گوارا نہ کیا۔ ماہرین آب کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے گزشتہ 65 برس میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائوں پر پانی کے بہائو سے متعلق بھارت کے فراہم کردہ گمراہ کن اعداد و شمار پر انحصار کیا اور ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔ سیلاب سے بچائو کے منصوبوں پر 35 ارب روپے بھی خرچ کیے لیکن سیلاب کی وارننگ جاری کرنے والا اپنا نظام قائم نہیں کیا۔

 دریں اثنا ہر دو تین سال بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے سندھ واٹر ٹریٹی کونسل پاکستان کے چیئرمین سلمان خان نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انڈس واٹر کونسل سسٹم نصب کرنے میں نا کام رہی ہے۔ انہوں نے انڈس واٹر کمیشن‘ فیڈرل فیلڈ کمیشن اور آب پاشی کے صوبائی اداروں کو بھی سیلاب سے تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں دریائوں کے بہائو سے متعلق مکمل اعداد و شمار ویب سائٹ پر دستیاب ہیں لیکن ہمارے ادارے آج بھی بھارت سے گمرا کن اطلاعات کی دستیابی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماہرین پاکستانی دریائوں پر بھارتی علاقوں میں 173 چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کا رونا روتے رہتے ہیں‘ کس نے روکا ہے کہ ملکی ضروریات کے مطابق پاکستانی دریائوں پر بڑے پیمانے پر بند تعمیر نہ کریں۔ انہوں نے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھارت کی طرز پر ڈیم بنائے جاتے تو پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا نہ لوڈشیڈنگ ہوتی اورنہ ہی ملک میں پانی کا بحران پیدا ہوتا۔

   

قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟.......



ار، کیا پاکستان میں نہیں رہتے؟
 
 
ایک صاحب نے اپنا سمارٹ فون ایک کلب کے بیرے کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔ جہاز سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا لوگوں نے، فیس بُک پر ویڈیو ڈال دی کِسی نے۔ ذرا شکلیں دیکھو ان بڑوں کی۔

کیا کر دیا سر، کس نے، کہاں؟
یہ دیکھو پہلے رمیش کمار کو گالیاں دے کر جہاز سے نکالا۔
کِس کو سر دلیپ کمار کو؟ وُہ کراچی آیا ہوا ہے؟ ابے نہیں نواز لیگ کا ایم این اے ہے، جہاز لیٹ کروا دیا تھا اُس نے۔ 68 سال سے یہی کر رہے ہیں۔ لوگوں نے دکھا دیا، اب نہیں چلے گا۔

ہاں سر 68 سال سے تو یہی ہو رہا ہے۔
ابے اِدھر آؤ یہ دیکھو۔ یہ چلتا ہوا کون آ رہا ہے۔
سر یہ تو اپنے رحمان ملک صاحب لگتے ہیں، بالکل وہی ہے۔ اب دیکھو کیسے بھاگا، لوگوں کا غصہ دیکھ کر۔ دیکھو ریوائنڈ کرتا ہوں پھِر دیکھو۔ پتہ ہے اندر سے یہ سالے بڑے ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ویسے اپنے آپ کو بڑا وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ اندر سے ٹھس۔
  
 سر یہ رحمان ملک صاحب چل کہاں رہے ہیں اندر سُرنگ میں؟
جہاز نہیں دیکھا کبھی کراچی ایئرپورٹ پر؟ وہاں جہاز سُرنگ کے ساتھ آ کر لگتا ہے۔ پھِر مسافر سُرنگ میں سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ آیا رحمان ملک پورے دو گھنٹے لیٹ، لوگ بھِنّا گئے۔ ایسی گالیاں دیں کہ بھاگ گیا۔ 68 سال سے لوٹ کر کھا رہے ہیں اِس ملک کو۔ لوگوں نے ایک منٹ میں اوقات یاد کرا دی۔
تو سر رحمان ملک کے پاس اپنا جہاز بھی نہیں ہے؟ ابے تم جیسے لوگوں کی وجہ سے 68 سال سے یہ ملک نہیں سُدھر سکا۔ جہاز میں ہم لوگ بیٹھتے ہیں ٹکٹ خرید کر۔ یہ ٹھہرے مُفتے۔ اور پھر جہاز بھی اِن کی مرضی کے بغیر نہیں اُڑ سکتا۔
یہ تو واقعی زیادتی ہے سر۔
 
ایسی ویسی؟ لیکن لوگوں نے بھی کمال کر دیا۔ ویڈیو بنا کر فیس بُک پر ڈال دی۔ اب تک دو لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیرت ہے تم پہلے آدمی ہو جس نے اب تک نہیں دیکھی۔ اِس ملک میں رہتے بھی ہو یا نہیں؟
سر اِدھر ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو اِتنا پتہ ہے کہ کلب کو 11 بجے بند کرنا ہے۔ صبح چھ بجے کھولنا ہے۔ بیچ میں بندہ سوئے یا جہازوں کے آنے جانے کی خبر رکھے۔ ویسے یہ فیس بک کیا ہوتی ہے؟

ابے یار تم جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک 68 سال سے۔۔۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے ساتھ پاکستان کے کھاتے پیتے لوگوں کی گہری جذباتی وابستگی ہے۔ کبھی 40 سال پرانے اشتہاروں میں پی آئی اے کے میزبانوں کی ڈیزائنر وردیاں دیکھ کر ہاتھ ملتے ہیں تو کبھی اُن دنوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے ہیں جب پی آئی اے کی بزنس کلاس میں شیمپین مِلا کرتی تھی۔
کبھی اِس ایئر لائن کو ایک فوجی ایئرمارشل نور خان نے بنایا تھا اور سیاست دانوں نے اِس میں اپنے حمایتیوں کی بھرتیاں کر کے تباہ کر دیا۔ کبھی دوبئی یا جدہ جانے والے اُن مزدوروں کو کوستے ہیں جنھیں نہ سیٹ بیلٹ باندھنے کی تمیز ہے، جو نہ امیگریشن فارم بھر سکتے ہیں۔ اور تو اور ایسا لگتا ہے اُنھوں نے کبھی زندگی میں باتھ روم بھی نہیں دیکھا۔
کہاں گئے وُہ دن جب مسافر اور فضائی میزبان سب کے سب خوش مزاج اور خوشبودار ہوا کرتے تھے اور اب آ گئے یہ سیاست دان جو ایک قومی اثاثے کو گھر کی سواری بنا کر رکھتے ہیں۔
خوشحال ماضی کو یاد کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ، بے عزتی کروانا رحمان ملک کے قبیلے کے لوگوں کے پیشے کا لازمی حصہ ہے (اگر رحمان ملک کا مذاق اُڑانے سے پاکستان کا کوئی مسئلہ حل ہو سکتا تو پاکستان اب تک سوئٹزرلینڈ بن چکا ہوتا)۔


لیکن سوچنا چاہیے کہ اِس قوم کی تقدیر کی فلائٹ جو 68 سال سے رن وے پر کھڑی ہے ، اُس کی وجہ واقعی ٹیکنیکل فالٹ ہے یا وُہ بھی کِسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟

محمد حنیف

سیلاب زدگان کی مدد کیجیے......

بھارت ایک طرف تو پاکستان کو صحرا بنانے پر تلا ہوا ہے تو دوسری طرف مون سون کی بارشوں سے جب پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو اس کا رخ بغیر اطلاع کے پاکستانی علاقے کی طرف کردیتا ہے جس کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں عمارتیں گر جاتی ہیں لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں غرض یہ کہ سیلابی ریلا خس و خاشاک کی طرح ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کو اربوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہم آج تک اس ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے سے قاصر ہیں اس وقت پنجاب بدترین سیلابی کیفیت سے گزر رہا ہے تین چار سالوں سے متواتر سیلابوں سے متاثر ہو رہا ہے۔
    
مون سون بارشوں سے آنیوالا سیلاب ہو یا 2010 کا تاریخی بدترین سیلاب جس نے ملک کے بیشتر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2010 کے سیلاب سے اتنے لوگ متاثر ہوئے تھے کہ ان کی تعداد 2004 کے بحرہند کے سونامی 2005 کے بالا کوٹ کے زلزلے اور 2006 کے ہیٹی زلزلے کے مجموعی متاثرین سے بھی زیادہ تھی اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے تقریباً پورا پنجاب متاثر ہوا ہے اور اب یہ آفت سندھ کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ان قدرتی آفتوں میں انسانی کوتاہی کا عمل دخل زیادہ ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ذرایع نہیں ہیں ہم نے ڈیموں کی تعمیر کو بھی سیاست کی نذر کردیا ہے ڈیم نہ بننے سے اور دریاؤں، نہروں کی بروقت صفائی نہ کرنے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں وفاق کی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی موجود ہے اور ہر صوبے میں PDMA موجود ہے مگر جب ملک اور صوبے ان قدرتی آفات سے کم اور اپنے ہاتھوں تباہی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں تو ان اداروں کی کارکردگی صفر نظر آتی ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے متواتر بھارت کی طرف سے پانی چھوڑا جا رہا ہے مون سون کی بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں مگر ہم نے ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے کوئی سدباب نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس سیلاب نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے ہزاروں مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں سیکڑوں جانیں تلف ہوگئیں مکانات تباہ ہوگئے ہمارے وزیر اعظم اس صورتحال میں جگہ جگہ دوروں پر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد ہمدردی کرنے بڑے بڑے بیانات دینے ایک دوسرے پر رسہ کشی کرنے اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کی بجائے عملی طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے بحالی کے کام جلد از جلد مکمل ہوں۔

آزمائش کے وقت میں پاک فوج جس جانفشانی اور تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے ۔اس نے پاکستانیوں کے دل موہ لیے ہیں نہ صلے کی تمنا نہ ستائش کی پرواہ نہ بلند بانگ دعوے نہ ہی فضول باتیں صرف اور صرف کام۔ پاک فوج کے پیش نظر اس وقت صرف اور صرف متاثرہ لوگوں کی بحالی ہے جس کے لیے وہ دن رات لگے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے سپاہی جس طرح ہر موڑ پر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے مثال ہے جو پارلیمنٹ کے اندر باتیں بناتے ہیں۔ جمہوری اداروں کی پاسداری کا دعویٰ کرنیوالے اس صورتحال میں کتنا عوام سے قریب ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔

میڈیا پر ہر جگہ متاثرہ افراد اپنی شکایتیں دہرا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی رکن اکثر جگہوں پر دکھ کا درماں کرنے نہیں آیا ہاں بیان بازیوں میں سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سیلاب کے ذمے داران پہلے بھی حکومت کے منظور نظر تھے اور آج بھی ہیں کیونکہ سیلاب کی بے انتہا تباہی کا اصل ذمے دار محکمہ آب پاشی ہے۔

ان کی نااہلی بلکہ اس سے زیادہ بددیانتی ہے ملک کو اس صورتحال میں مبتلا کیا ہے اگر 2010 کے ذمے داروں کو کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سزا دے دی جاتی تو آج ہم 2014 میں ہونے والی تباہی کو کم کرسکتے تھے ناقص میٹریل کا استعمال عام سی بات ہے۔ دریاؤں کے کناروں پر بنے حفاظتی بندوں کی ہر سال تعمیر کی جاتی ہے مگر ہر سال سیلاب کا پانی اسے بہا کر لے جاتا ہے اگر اس کی جگہ ہم نئے ڈیم بنا لیتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جاسکتا تھا اور ہم بہت سے فوائد اٹھاسکتے تھے مگر وہ فوائد ملک و قوم کے لیے ہوتے مگر ذاتی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ہم لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نذر کردیتے ہیں اور دوسری طرف میدانی علاقے صحرا بنتے جا رہے ہیں۔


اس وقت ملک دہری آزمائش میں گھرا ہوا ہے ایک طرف سیلابی ریلے نے ملک کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف احتجاجی دھرنوں نے بھی سیلابی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ قدرت نے ایک موقعہ دیا ہے کہ دھرنوں اور انقلابی مارچوں سے نکل کر عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے مگر افسوس عمران اور طاہر القادری ایسے نازک حالات میں بھی دھرنوں کو ختم نہیں کر رہے بلکہ مزید اپنے موقف پر ڈٹ گئے ہیں۔

یاد رکھیں یہ ملک اور عوام میں تو سیاست چلتی رہے گی اس لیے سب سے پہلے پاکستان کا سوچیں قدرت نے جس آزمائش میں پنجاب کے عوام کو ڈالا ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام سیاسی پارٹیاں سول سوسائٹی این جی اوز سب کو ایک ہوکر بحالی کے کام کو دیکھنا پڑے گا اس لیے ہماری عرض ہے کہ اس آفت کو سیاست کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ جس طرح جمہوریت کے لیے پارلیمنٹ میں سب ایک ہوئے ہیں اسی طرح سیلاب سے متاثر ہونے والے عوام کی بحالی کے لیے بھی سب اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں۔ دھرنے ختم کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں جاکر عوام کے لیے کام کریں۔

فاطمہ نقوی

 

سویلین حکومتیں اور فوج......



۔ فوج کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے بغیر اس ملک کا نظام کو ئی سویلین حکومت بہتر انداز سے نہیں چلا سکتی۔ لہذا نواز شریف کی حکومت کو فوج کے ساتھ کسی بھی وجہ سے طاقت کے کھیل میں پڑنے کے بجائے راولپنڈی کی طرف سے نکتہ نظر کی صورت میں اظہار شدہ خیالات کو اہم پالیسی معاملات پر سنجیدگی سے لینے کا انتظام کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں اہم سلامتی اور دفاعی اداروں کے افکار کو تمام حکومتیں اپنی حتمی فیصلہ سازی کا اہم جز قرار دیتی ہیں یا سمجھتی ہیں۔ پاکستان کے معروضی اور زمینی حقائق کے پیش نظر فوج کی دفاعی اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم رائے بنتی ہے۔

اس رائے کو نظر انداز کرنا بے وقوفی بھی ہے اور بہت سے سیاسی تنازعات کی جڑ بھی۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہم چند ایک اور اقدامات بھی تجویز کر سکتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کے سامنے اس وقت سب سے اہم مسئلہ اس نظام کی غیر فعالیت ہے جس کے ذریعے آئینی اور قانونی پیرائے میں رہتے ہوئے فوجی قیادت کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ چونکہ نواز شریف کی ترجیحات میں ’ذاتی قسم‘ کی میٹنگز ’رسمی اور سرکاری‘ قسم کی ملاقاتوں پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں لہذا وہ ابھی بھی اداروں کے ذریعے نظام ریاست اور حکومت کی ذمے داریوں کو سنبھالنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ فوج کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو انھوں نے ابھی بھی آرمی چیف یا کچھ عرصہ پہلے تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے ساتھ بند کمروں میں ہونی والی ملاقاتوں تک محدود کیے رکھا ہے۔

ان ملاقاتوں میں کتنی بات ہوتی ہو گی؟ کیسے فیصلے ہوتے ہوں گے؟ کتنا بحث مباحثہ ہوتا ہو گا؟ اس کا نہ تو کوئی ریکارڈ ہے اور نہ ملے گا۔ مگر ہم محتاط اندازے کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں ایسی نشستوں میں ’سننے‘ اور ’سنانے‘ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہو۔ اور پھر کچھ عرصے سے فوجی سربراہ اور وزیر اعظم (بشمول پچھلی حکومت کے سربراہان کے) ہمیشہ ایک بحرانی صورت میں ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں وزیر اعظم ہاؤس اور راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹرز دو ایسے جزیروں کے طور پر نظر آتے ہیں جو اپنے پسند کے پانیوں میں تیرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہوں یا اس کیفیت سے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہوں۔ نتیجتاً فوج اور سویلین حکومتیں فائر بریگیڈ کے وہ انجن بن گئی ہیں جو صرف خطر ے کی گھنٹی پر ہی آگ بجھا نے کے لیے ایک سمت کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے اپنے خانوں میں کھڑے وقت گزارتے ہیں۔ اس سے نہ تو باہمی اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی طویل المدت فیصلے کرنے کے لیے سازگار ماحول بن پاتا ہے۔ اجنبیت قائم رہتی ہے۔ خوف اور خدشات زائل نہیں ہوتے۔ رائی کا پہاڑ بننے میں وقت نہیں لگتا۔ امریکا جیسے ملک میں بھی جہاں صدر انتہائی با اختیار ہے دفاعی، عسکری اور سی آئی اے کے سربراہان دن میں کم از کم ایک مرتبہ بسا اوقات ایک سے کئی زائد مرتبہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ہر روز صبح تمام اداروں کے ذرایع ابلاغ، تشہیر کے ادارے ایک ٹیلی فون کانفرنس کے ذریعے دن میں صحافیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ سوالات پر مربوط جوابات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

یہ تک طے کر لیا جاتا ہے کہ کس قسم کے سوال کو کس ادارے نے بہتر یا ردعمل کے لیے دوسروں کے حوالے کر دینا ہے۔ بحران میں یا کسی اہم واقعہ کے ہونے پر صدر اور تمام اداروں کے سربراہان یا سرکردہ نمایندے ایک خاص کمرے میں اکٹھا ہو کر مختلف پہلووں پر رائے کا اظہار کرتے اور اپنی طرف سے اپنے ادارے کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمرے میں فیصلہ صرف صدر کرتا ہے مگر بسا اوقات اس کا فیصلہ محض ان مشوروں کی ایک نئی شکل ہوتی ہے جو موثر انداز میں اس کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ وہ سی آئی اے اور پینٹاگون یا دفاع کے محکمے یا دفتر خارجہ کی طر ف سے پیش کی ہوئی تجاویز میں رتی برابر رد و بدل کیے بغیر جوں کا توں بیان کر دیتا ہے۔
مگر کبھی بھی ایسا کرنے میں امریکی صدر خود کو کٹھ پتلی نہیں سمجھتا۔ اگر اس کے گرد موجود گھاگ اور زیرک نمایندگان اس کو اس کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور بھی کر دیں تو بھی وہ اس اتفاق رائے کی کڑوی گولی کو ہضم کر کے پالیسی کو مکمل طور پر اپنا لیتا ہے۔ وہ باہر نکل کر یہ تصور نہیں دیتا کہ جیسے وہ مجبور اور لاچار ہے۔ اور اس کے مینڈیٹ پر کسی نے شب خون مار دیا ہے۔

ہمارے پاس اس قسم کا رابطہ مفقود ہے۔ حکومتیں یا اس منظم نظام کو استعمال کرنے سے یکسر گھبراتی ہیں یا پھر اس کو اپنی توہین سمجھتی ہیں۔ باہمی ناچاقی پیدا کرنے کے علاوہ فوج کے ساتھ شفافیت کے ساتھ سنگین حالات کے علاوہ باہم رابطے کے فقدان کا ایک بڑا نقصان ان طاقتوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہے جو ایسے فاصلوں کو بڑھا کر اپنا الو سیدھا کرتی ہیں۔ مگر پچھلے سالوں میں کئی مرتبہ حامد کرزئی کے الزامات نے فوج اور سویلین حکومتوں کے تعلقات کو محض اس وجہ سے بگاڑ دیا کہ نہ وزیر اعظم اور نہ ہی عسکری قیادت افغانستان کے اس لیڈر سے نپٹنے کے لیے آپس میں متفقہ رائے بنا پائی تھی۔
لہذا جب ترکی میں ایک ملاقات میں کرزئی نے اپنا نام نہاد مقدمہ کھولا تو وزیر اعظم نواز شریف جواب دینے کے بجائے عسکری نمایندگان کی طرف دیکھنے لگے جس پر ’ان کو‘ جواب دینا پڑا۔ اس طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ایک میٹنگ میں وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے آئی ایس آئی کے حوالے سے الزامات لگائے تو تیاری نہ ہونے کے باعث اس کو جواب اس وقت کے آرمی سربراہ نے انتہائی سخت الفاظ میں دیا۔ بعد میں جان کیری نے ایک نجی میٹنگ میں اپنے ان الزامات پر ندامت کا اظہار کیا اور معافی مانگی۔ امریکی وزیر خارجہ کے اظہار ندامت کو وزیر اعظم تک پہنچایا تو گیا مگر یہ انفرادی میٹنگ میں کیا گیا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر آج کوئی اس معاملے پر سرکاری ریکارڈ یا خفیہ فائلوں کو کھنگال کر مزید تفصیلات تلاش کرے تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے یہاں اداروں کے ذریعے کام ہونے یا کرنے کی روایت نہیں۔ سب سے پہلے ذاتی حیثیت میں ہوتا ہے۔ فوج کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے نواز شریف حکومت کو فی الفور قومی سلامتی اور دفاعی معاملات سے متعلق ان تمام قواعد، ضوابط، اداروں اور کمیٹیوں کو فعال کرنا ہو گا جہاں پر کھل کر بحث مباحثہ ہو پائے۔ فوج کو فیصلہ سازی کے نظام سے باہر رکھ کر، یا رابطوں کو ذاتی مراسم کی شکل میں پیش کرنے کی روایت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

اگر اس حکومت یا مستقبل کی کسی سویلین حکومت نے یہ نہ کیا تو فوج کے ساتھ ٹکراؤ کے امکانات اپنے بدترین نتائج کے ساتھ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مگر کیا سب کچھ کرنے سے فوج اور سیاسی و منتخب حکومتوں کے معاملات درست ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہاتھ ملانے کے لیے بھی دونوں طرف سے اقدامات کرنے ہوں گے

طلعت حسین

 

The Kalabagh Dam


The Kalabagh Dam   is a proposed hydroelectric dam on the Indus River at Kalabagh in the Mianwali District of Punjab Province in Pakistan. Intensely debated and deemed a necessity since its inception, if constructed the dam would have 3,600 megawatts (4,800,000 hp) of electricity generation capacity.[1]
History[edit]

In December 2004, then President of Pakistan General Pervez Musharraf, announced that he would build the dam to serve the larger interest of Pakistan. However, on 26 May 2008, the Federal Minister for Water and Power of Pakistan, Raja Pervez Ashraf, said that the "Kalabagh Dam would not be constructed" and that the project had been cancelled due to "opposition from Khyber Pakhtunkhwa, Sindhand other stakeholders, the project was no longer feasible".[2] In 2010 after the worst floods in Pakistani history, the Prime Minister of Pakistan, Yousaf Raza Gilani, stated flood damage would be minimised if the Kalabagh Dam were built.[3]
Technical facts and differing opinions[edit]

Bashir A. Malik, former chief technical advisor to the United Nations and World Bank, said, "Sindh and Pakhtunkhwah would become drought areas in the years to come if Kalabagh Dam was not built."[4] At the same time, former KPK Chief Minister Shamsul Mulk has stated that the "Kalabagh Dam would be helpful in erasing poverty from Khyber-Pakhtunkhwa, as it would irrigate 800,000 acres of cultivable land that is located 100–150 feet above the level of River Indus."[5] The Kalabagh Dam would provide 6.5 million acre feet of water to cultivate seven million acres of currently barren land in addition to the 3,600 megawatts (4,800,000 hp) of electricity it would provide.[6] In response to the push towards side-lining Kalabagh altogether in favour of the rival Basha Dam project, Engineer Anwer Khurshid stated that "Basha Dam is no substitute for Kalabagh Dam, not because of its altitude, which is high enough, but because no irrigation canals can be taken out from it because of the hilly terrain."[7]

Experts who supported the construction of the Kalabagh Dam at the 2012 "Save Water Save Pakistan" Forum included: Dr Salman Shah, former Finance Minister of Pakistan; Abdul Majeed Khan, TECH Society president; Shafqat Masood, former IRSA chairman; Qayyum Nizami, former Minister of State; Prof Abdul Qayyum Qureshi, former Vice-Chancellor of Islamia University, Bahawalpur; Dr Muhammad Sadiq, agricultural scientist; M Saeed Khan, former GM of Kalabagh Dam Project; Mansoor Ahmed, former MD of Pakistan Atomic Energy Commission Foundation, and Jameel Gishkori, among others.[8] The participants of Save Water Save Pakistan At its conclusion, the forum demanded the construction of five dams, including the Munda Dam, Kurram Tangi Dam, Akhori Dam and the Kalabagh Dam, at by 2025 at the latest to store water and generate electricity to meet demand.

Conversly, Former Water and Power Development Authority (WAPDA) Chief Engineer, Engr. Shahr-i-Yar Khan has claimed that construction of the Kalabagh Dam is not suitable for Khyber Pakhtunkhwa and will involve significant fiscal waste when compared to the many other suitable sites for proposed dams on the Indus River. Shahr-i-Yar Khan, who has trained abroad and served in various positions at the WAPDA, highlighted various issues related to construction of the dam, stating that it would have a number of adverse effects on the generation capabilities of the Barotha power complex.

Sindh viewpoint 

The province of Sindh lies nearest to the sea on the Indus River ("lower riparian") and has been the strongest opponent of the Kalabagh Dam. Its politicians have presented many objections: Sindh's share of Indus water will be curtailed as water run off from the Kalabagh Dam will go to irrigate farmlands in Punjab and Khyber Pakhtunkhwa to Sindh's detriment. Sindhis hold that their rights as the lower riparian have precedence according to international water distribution laws.

The coastal regions of Sindh require a constant flow of water from the Indus to the Arabian Sea to keep seawater from intruding inland. If the flow of water is stopped, the incoming sea water would turn many areas of Sindh's coast into an arid saline desert, and destroy its coastal mangroves. With the construction of dams such as the Tarbela Dam across the Indus, Sindhis have seen the once-mighty river become a shadow of its former glory downstream of the Kotri Barrage as far as Hyderabad. They fear that there is not enough water for another large dam across the Indus.

Sindh claims that the Indus only continues to flow downstream of the Kotri Barrage because of rain. Hence in years of low rain and with a new dam in place, Sindh fears the river would stop flowing. Damming the Indus has already caused a number of environmental problems yet to be addressed. Silt deposited at the proposed Kalabagh Dam would further curtail the water storage capacity of Manchar Lake and other lakes and wetlands including Haleji Lake.

President Musharraf, Prime Minister Shaukat Aziz and other leaders, have promised "iron-clad constitutional guarantees" to ensure that Sindh get its fair share of water. However, these assurances mean little to most Sindhis, who claim that even the earlier 1991 Indus Water-Sharing Accord, a document already guaranteed by the constitutional body the Council of Common Interests, has been violated, and that Punjab has "stolen" their water without any concrete evidence.[citation needed]

Objections to the Kalabagh Dam in Sindh are widespread. The political parties of Sindh in the central cabinet who are supported by General Musharraf, such as the Muttahida Quami Movement, have strongly denounced the dam. Opposition towards the dam is such that the Pakistan Muslim League (N) (PML N) Sindh Chapter is in agreement with opponents of the dam. PML N's leader Nawaz Sharif, who as then Prime Minister of Pakistan, had stated in 1998 that he proposed to build the dam, retracted from his stance and declared that Sindh's viewpoint ought to be respected; no project, however essential, should be carried out that weakened Pakistan's Federation.[citation needed]

Khyber Pakhtunkhwa's viewpoint 

Khyber Pakhtunkhwa (KPK) has two main objections to the dam:
KPK claims that the running of Cheshma-Jhelum link canal and overuse of water from the Tarbela Dam is a common occurrence.[citation needed]Although the entire canal system of the Ghazi-Barotha hydro electric project is in Khyber Pakhtunkhwa, the electricity generating turbines lie just 500 metres (1,600 ft) inside Punjab such that KPK is denied to resultant royalties.[citation needed]. While the reservoir will be in KPK, the dam's electricity-generating turbines will be just across the provincial border in Punjab. Therefore, Punjab would get royalties from the central government in Islamabad for generating electricity.[citation needed]. Punjab has however agreed not to claim any royalty on generation of resources from the Kalabagh Dam.

Concerns have been voiced that large areas of the Nowshera District would be submerged by the dam and that the wider area would suffer from water-logging and salinity, as has occurred with the Tarbela Dam. As the water will be stored within the Kalabagh Dam as proposed, water levels in city areas up to 200 kilometres (120 mi) away will rise.[citation needed]. However, engineers with expertise on dam construction repeatedly deny that Nowshera City could be submerged by the dam's lake. Punjab follows a paradoxical policy when it comes to canals to be run out from the Kalabagh Dam. It talks of a right bank canal which will supply water to D I Khan, but in dialogue with Sindh, rejects construction of the right bank canal as unfeasible.[citation needed]

Balochistan's viewpoint 

Balochistan is not directly affected by the dam. Most nationalist Balochis claim that the dam is an instance of the grievances of smaller provinces not being taken into account. They have not commented on the dam following its cancellation.

Analysis 

The Prime Minister of Pakistan, Syed Yousuf Raza Gilani, announced that the fate of the project would be decided by a plebiscite. The decision came after Pakistan faced an extreme power crisis and acute water shortages. The government is currently seeking alternative locations for the dam.[2]

Timeline of Events on Kalabagh Dam Controversy 

December 2004: General Pervez Musharraf, President of Pakistan, announces that he would build the dam in the larger interest of Pakistan.
29, November 2012: The Lahore High Court (LHC) orders the federal government to construct the Kalabagh Dam.[9]

Energy crisis and Kalabagh Dam


THIS refers to a report   wherein the thermal power’s yearly cost is about $7 billion in the form of oil imports. This is the result of not building the Kalabagh Dam which would have given us $7 billion yearly in the form of cheap power and agriculture boom.

But this was not to be due to the silly obstruction of some of our political parties that could not see beyond their nose. The plight of Pakistan with 12 to 16 hours of loadshedding resulting in industrial shutdown and massive unemployment is for all to see.

The political parties vying against each other to promise utopia for Pakistan are forgetting the basic fact that without addressing the energy problem they cannot usher in prosperity.

Everybody is oblivious of the importance of the Kalabagh Dam to solve all our economic problems and they are only giving sweet dreams to the gullible public without mentioning the Kalabagh dam which holds the key to progress in Pakistan.

DR M.YAQOOB BHATTI Lahore Cantt

زبان کا سرکش گھوڑا.......



الفاظ کا موزوں اور بروقت استعمال ہی انسان کی پہچان ہے ورنہ کھاتے پیتے اور جیتے تو حیوان بھی ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو کبھی امیدوں کے چراغ بن کر راستہ دکھاتے اور ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بندھاتے ہیں لیکن الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو یہی الفاظ اندیشوں اور خوف کی زنجیریں بن کر پیروں سے چمٹ جاتے ہیں۔ الفاظ کبھی نشتر بن کر دل میں اُتر جاتے ہیں اور کبھی دل میں اُتر کر گھائو مٹاتے ہیں۔ الفاظ ہی ہیں جو رُلاتے ہیں ،ہنساتے ہیں،نیک نامی کا باعث بن جاتے ہیں یا پھر رسوا کر جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو قانون کی گرفت بہت ڈھیلی ہے اور یہ تصور نہیں کہ الفاظ کی پاداش میں کسی شخص کو سزا ہو سکے مگر متمدن معاشروں میں قانون صرف اعمال پر ہی سرکوبی نہیں کرتا بلکہ الفاظ پر بھی حرکت میں آتا ہے۔ چند برس قبل ایک امریکی موسیقار کو نازیبا الفاظ کے استعمال پر 4 لاکھ 30 ہزار ڈالر ہر جانہ ادا کرنا پڑا۔ خاتون موسیقار کورٹنی لو نے ڈیزائنر لیموران سے متعلق اہانت آمیز الفاط استعمال کیئے تو اس نے ہتک عزت کا دعویٰ کردیا۔ جن معاشروں میں قانون کی عملداری ہے وہاں تولنے کے بعد بولنے کا تصور ہے کیونکہ الفاظ گلے کی پھانس بن جاتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی سوچ سے متعلق محتاط رہیں کیونکہ آپ کی سوچ الفاظ کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے۔

الفاظ کی ادائیگی سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ آپ کے الفاظ آپ کے اعمال کی صورت گری کرتے ہیں۔ اعمال احتیاط کے متقاضی ہیں کیونکہ یہ عادات میں بدل جاتے ہیں، عادات سے اغماض نہ برتیں کیونکہ یہ کردار کی عمارت کا بنیادی ستون ہوا کرتی ہیں اور کردار کی اہمیت اس لیئے مسلمہ ہے کہ اس پر آپ کے مقدر اور قسمت کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں تو کسی شخص کی زندگی میں الفاظ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر خارزار سیاست میں قدم رکھنے والوں کو پہلا سبق ہی یہی دیا جاتا ہے کہ زبان کے سرکش گھوڑے کی لگام ڈھیلی نہ ہونے دیں کیونکہ چرچل کے بقول سیاست کا عمل بھی قریباً جنگ جیسا ولولہ انگیز اور خطرناک ہے۔ جنگ میں آپ صرف ایک بار مرتے ہیں اور رزق خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں آپ کو بار بار موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح جنگ میں گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دینے والا سوار عبرتناک شکست کے قریب تر ہو جاتا ہے اسی طرح سیاست کے میدان میں وہ شہسوار منہ کے بل گرتا ہے جو زبان کے گھوڑے کی طنابیں ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے۔ سیاستدانوں کا وصف یہ ہے کہ وہ کم بولتے ہیں ،جہاں ایک لفظ سے کام چلتا ہو، وہاں جملہ ضائع نہیں کرتے اور جہاں ایک فقرے سے ضرورت پوری ہو جائے وہاں تقریر جھاڑنے کی حماقت نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں تو کم گوئی اور سوچ سمجھ کر بولنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے بیان کو تروڑ مروڑ کا شائع کیا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، ٹی وی چینلز فوراً کلپنگ نکال کر دکھا دیتے ہیں کہ آپ نے چند برس قبل کیا کہا تھا۔

انسان خود تو مرجاتا ہے لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مثلاًذوالفقار علی بھٹو جن کا شمار صف اول کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے مگر ان کے چند جملے آج بھی ان کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلائے جانے پر دھمکی دی کہ جس نے اس میں شرکت کی ،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اِدھر ہم، اُدھر تم کا جملہ لاکھ وضاحتوں کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جذبات کی روانی میں انہوں نے کہا، اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا، مگر یہ جملہ طنز و استہزاء کا استعارہ بن گیا۔ ضیاء الحق نے کسی صحافی کے سوال پر جھنجھلا کر کہہ دیا، آئین ہے کیا شے، چند صفحات کی ایک دستاویز جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ ضیاء الحق خود تو دنیا سے رخصت ہو گیا مگر اس کا یہ جملہ آج بھی سوہان روح بنا ہوا ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی، اسے چارٹر آف ڈیموکریسی کی لحد میں اتار دیا گیا مگر یہ گڑا مردہ پھر بھی باہر نکل کر واویلا کرنے سے باز نہیں آتا۔ پرویز مشرف کے دور میں بلوچوں سے بہت ناانصافیاں ہوئیں ،کئی فوجی آپریشن ہوئے لیکن اس کا ایک جملہ بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوا کہ یہ ستر کی دہائی نہیں کہ یہ پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے، ہم انہیں وہاں سے ماریں گے جہاں سے انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔

آصف زرداری کا شمار پاکستان کے کایاں ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زبان بندی کو اپنی طاقت بنایا اور لب کشائی کے معاملے میں بہت محتاط رہے۔ جب سیاسی مخالفین کی کڑوی کسیلی باتوں کا حوالہ دیا جاتا تو وہ کوئی جواب دینے کے بجائے بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔ لیکن ججوں کی بحالی سے متعلق ان کے منہ سے ایک جملہ نکل گیا کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے اور یہ جملہ ان کے ناقدین کا کام آسان کرگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور پھر ان کے بڑے بھائی وضاحتیں دیتے رہ جاتے ہیں۔ یوں تو ان کے بیشمار جملے بدنامی کا باعث بنے لیکن جو زبان انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں منتخب صدر کے حوالے سے استعمال کی ،وہ آج بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ مثلاًوہ ان پر علی بابا چالیس چور کی پھبتی کستے رہے۔ انہوں نے کہا تھا،اگر میں نے آصف زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بعض اوقات سیاستدانوں سے سہواً ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا، یہ شیدا ٹلی، اس کو تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ۔ لیکن آج وہی شیخ رشید ان کے سب بڑے مشیر ہیں۔ اس طرح کے معترضہ جملے اور ناپسندیدہ بیانات کم و بیش ہر سیاستدان سے منسوب ہیں اور سب کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے لیکن عمران خان گزشتہ ایک ماہ سے جس فراوانی سے اپنی زبان کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں ،اسے سیاسی نادانی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اوئے نواز شریف، اوئے افتخار چوہدری تو ان کا طرز تخاطب تھا ہی مگر کبھی وہ آئی جی اسلام آباد کو بندے کا پتر بننے کی نصیحت کرتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ میں تمہیں جیل میں ڈال دوں گا۔ ان کے کئی بیانات تو ایسے ہیں کہ نقل بھی نہیں کیئے جا سکتے۔ جس پارٹی کا قائد پنجابی فلموں کے غنڈوں جیسے لہجے میں بات کرتا ہو ،اس کے کارکن مخالفین کو غلیظ گالیاں نہ دیں تو اور کیا کریں۔

کاش ! وہ اس ایک مہینے میں شاہ محمود قریشی سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ کاش  کسی پڑھے لکھے شخص نے چرچل کی بات یاد دلائی ہوتی کہ نازیبا الفاظ نگل لینے سے آج تک کسی کا معدہ خراب نہیں ہوا۔ کاش ! وہ یہ سمجھ سکتے کہ زبان کسی تیز دھار آلہ کی مثل ہے،ماہر سرجن کے پاس ہو تو نشتر اور اگراناڑی کے پاس ہو تو خنجر۔ کاش وہ کبھی فرصت کے لمحات میں غور کریں کہ وہ امیر ہیں یا غریب؟ کیونکہ خود احتسابی کا طریقہ یہ ہے کہ ہراچھے لفظ پر آپ کو دس روپے ملیں اور برے لفظ پر پانچ روپے واپس لے لیئے جائیں تو جمع تفریق کے بعد کیا پوزیشن ہو گی۔ ان کے منہ کے بل گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے زبان کے سرکش گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا تھا۔

محمد بلال غوری
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 
 

Flood victims arrive in Sher Shah, Pakistan

Flood victims arrive in Sher Shah, Pakistan

Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Abaad, Pakistan

Buldings are surrounded by floodwater in Shuja Abaad, Pakistan,

باغیوں کی ضرورت ہے.....



پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے وزیر اعظم نواز شریف کو خبردار کیا، کہ انہیں شک ہے کہ جیسے ہی بحران ختم ہوگا، ان کے وزراء واپس خودپسند اور متکبر ہوجائیں گے۔

میں بھی گیلری میں بیٹھا ہوا ان کے خیالات سن رہا تھا، اور سوچ رہا تھا، کہ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں ایک فیصلہ کن اکثریت رکھنے کے باوجود اس بحران میں کیوں آ پھنسی ہے۔ مجھے جواب تب ملا، جب میں نے سیشن کے اختتام پر دیکھا، کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی اعتزاز احسن کو مبارکباد پیش کر رہے تھے، کہ انہوں نے اپنی تقریر میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

یہ لاتعلقی کا وہ مظاہرہ ہے، جو نواز شریف اپنے ممبران سے برتتے ہیں، سوائے ان چند کے، جن کے ساتھ ان کے یا تو خاندانی تعلقات ہیں، یا ان کی ذاتی ترجیحات میں شامل ہیں۔

حالیہ سیاسی بحران جلد یا بدیر حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن جو لوگ اقتدار میں موجود ہیں، ان کا رویہ دیر کے بجائے جلد ہی ایک اور بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ پاکستان میں گورننس کے اسٹائل کو سیاسی اور انتظامی طور پر تبدیل ہونا چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری جیسے پارلیمینٹیرین اور مظاہرین سیاسی سائیڈ کو درست کر سکتے ہیں، لیکن میں حیرت میں مبتلا ہوں، کہ آخر انتظامی امور کو کون درست کرے گا۔

شریف برادران کے شاہانہ رویے نے زیادہ تر بیوروکریسی کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اور اس کا اثر ہم پورے ملک میں محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ پنجاب اور مرکز کی حکومت ہی پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ ایسی اجنبیت پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کے خواہشمند غنڈوں کے سامنے چھوٹی لگ سکتی ہے، لیکن یہ ایک بہتر گورننس والے پاکستان کے کاز کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، کیوںکہ اس کی وجہ سے سسٹم میں خامیاں جنم لیتی ہیں۔

سول سروس میں انتظامی تبدیلیوں کی بات ایک اسی سالہ سابق سول سرونٹ، اور رائیونڈ میں موجود کچھ لوگوں کو نہیں کرنی چاہیے۔ مشیر ضرور ہونے چاہیں، پر ایسے، جو تمام نکات پر گہری سوچ رکھتے ہوں، اور کسی یا کچھ افراد کی طرفداری نا کرتے ہوں۔ ورنہ باقی کی بیوروکریسی اجنبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔

سیکریٹیریٹ کے گروپ افسر سے پوچھیں، گورنمنٹ سروس میں موجود استاد، ڈاکٹر، اور انجینیئر سے پوچھیں کہ آیا وہ سول سروس کے معاملات سے خوش ہے۔ رواں سال کے آغاز میں پنجاب پولیس سروس میں تقریباً بغاوت ہو چکی تھی، کیوںکہ اینٹی ٹیررازم اسکواڈ آئی جی پولیس کے بجائے صوبائی وزارت داخلہ کے ماتحت بنایا گیا تھا۔ 18 مارچ 2011 کو 76 پی سی ایس افسران کو صرف اس لیے گرفتار کر کے ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر طرفداری پر مبنی تقرریوں اور ترقیوں کے خلاف پر امن مظاہرہ کیا تھا۔

جب یہی حکومت مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کیس درج کرا سکتی ہے، تو پھر اس کے وزیر اعلیٰ کے خلاف ماڈل ٹاؤن واقعے کی ایف آئی آر درج نا کرانے پر مقدمہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ پنجاب پولیس کی جانب سے مطالبوں کے لیے مظاہرہ کرتے ڈاکٹروں پر تشدد کی تصاویر بھی ابھی تازہ ہیں۔

پنجاب میں ایک جونیئر افسر کو ایک سینئر پوزیشن پر تعینات کرنا معمول کی بات ہے، کیونکہ ایک ایسا شخص جو کسی کی "مہربانی" کی وجہ سے اپنی قابلیت سے ہٹ کر کسی پوسٹ پر موجود ہے، وہ احکامات کی تعمیل بہتر طور پر بجا لا سکتا ہے۔ کوئی حیرت کی بات نہیں، کہ پنجاب کے ڈی پی او اور ڈی سی او ہمہ وقت احکامات کے لیے چیف منسٹر ہاؤس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

صاف الفاظ میں کہیں تو یہ ایک کھلا راز ہے، کہ موجودہ حکومت ان انتہائی قابل سول سرونٹس کو بھی صرف اس لیے ناپسند کرتی ہے، کیونکہ وہ درباریوں کی طرح نیازمندی نہیں دکھاتے۔

وزیر اعظم نواز شریف کا اپنے مشیروں کے مشورے سننا ضروری نہیں کہ اچھی بات ہو، کیوںکہ ان کا مشیروں کا انتخاب بھی بہت کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں ہے۔ سول سروس کے معاملات کو سیاسی وفاداریاں رکھنے والے مشیروں کی مدد سے طے نہیں کرنا چاہیے، کیوںکہ ان کی رائے صرف سیاسی رجحانات کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور فوکس ادارہ سازی سے ہٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ڈسٹرکٹ مینیجمینٹ گروپ (ن)، یا پولیس سروس آف پاکستان (ن) بنانے کی کوششیں نا رکیں، تو پاکستان ایک بحران سے دوسرے کے درمیان جھولتا رہے گا۔ 
ایک گروپ کے طور پر سول سرونٹس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ لیکن اسی وقت ریاست سے ان کی وابستگی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ موجودہ حکومت سول سرونٹس کو حکومتی معاملات میں مالکیت کا احساس (sense of ownership) دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔

آخر میں، میں وزیر اعظم نواز شریف سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب جاوید ہاشمی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، تو آپ نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ مخصوص اصول کے لیے کھڑے ہوئے، یا اس لیے، کہ وہ اس اصول کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کے لیے فائدہ مند تھا۔

اس ملک کو جاوید ہاشمی جیسے مزید باغیوں کی ضرورت ہے، نا صرف سیاست میں، بلکہ بیوروکریسی میں بھی۔

سید سعادت

Imran Khan and Tahirul Qadri Long March and Dharna


جب خاموشی بہتر سمجھی جائے.......


یہ برطانیہ کی وہ گلیاں ہیں، جہاں مغربی دنیا کے انتظام و انصرام اور قوانین کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔

یہاں لوگ قوانین کے ساتھ کھیلتے ہیں، گلیوں میں کچرا پھینک دیتے ہیں، ٹیڑھی میڑھی پارکنگ کرتے ہیں، اپنے شیر خوار بچوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اور گاڑیوں کے سامنے اچانک آجاتے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانی ان اقلیت محلوں میں رہتے ہیں، یہاں سالن اور باتیں بالکل اسی طرح بنائی جاتی ہیں، جیسی پاکستان میں تب بنتی تھیں جب ان کے والد، دادا، یا پڑدادا ابھی برطانیہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔

یہ خوش قسمت لوگ تھے، جن کو پاؤنڈز میں کمانے کا موقع ملا، بھلے ہی اس کی قیمت ان کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔ ثقافت سے دوری، اپنے دیس میں حاصل فضیلت کا چھن جانا، اور ان لوگوں کی خدمت کرنا، جن سے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔

پاکستانیوں کو برطانیہ میں نسلی تعصب کا سامنا اکثر کرنا پڑتا ہے۔ دہائیوں پہلے برطانیہ ہجرت کرنے والے بچوں کی نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھتی ہیں۔ ان پر یہ جملہ صادق آتا ہے، کہ یہ نا پاکستان کے ہیں، نا برطانیہ کے، نا ماضی کے نا مستقبل کے۔

انتہا پسند ان بچوں کی برین واشنگ کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، وہ کلچر کے بارے میں ان کی پریشانیوں، اور حقیقی اسلام اور پاکستان کے بارے میں ان کی خواہشات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

مین اسٹریم برٹش کلچر میں ان گندمی رنگت والوں اور مسجدوں میں جانے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، اسی لیے پہلے سے سائیڈ لائن پاکستانی کمیونٹی کے یہ بچے مزید سائیڈ لائن ہو جاتے ہیں۔

یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں، سب سے خطرناک ترین اخلاقی مجرم ان مشکوک علاقوں میں رہتے ہیں۔

پچھلے ہفتے ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق روٹرہیم قصبے میں، جہاں برطانوی پاکستانیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، 1997 سے 2013 کے دوران بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے 1400 کیسز کے ملزمان رہتے ہیں۔

رپورٹ چونکا دینے والی تھی، صرف اپنے اعداد و شمار کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے بھی، کہ استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی امداد کے لیے کوئی سماجی کارکن، یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران سامنے نہیں آئے۔ رپورٹ کے ریلیز ہونے کے بعد کئی کونسل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران، جنہوں نے وقت پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نے اپنے استعفے پیش کر دیے۔

نتیجتاً، پاکستانی اور مسلمان گروپوں نے ملزمان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نسلی تعصب کا الزام لگنے کے خطرے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

یہ قابل تعریف اقدام ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی اپنی کمیونٹی کے 1400 بچوں کا ایک عشرے سے زیادہ کے عرصے میں استحصال کیا گیا، پر اس پر آواز نہیں اٹھائی گئی؟

سب سے پہلے تو اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ برطانوی پاکستانیوں کے پاس اپنے گھروں اور کمیونیٹیز میں جنسی استحصال پر بات کرنے کے لیے آزادی نہیں ہے۔

شرم و حیا کے ماری ہوئی کمیونٹی میں یہ مسئلہ بالکل دب کر رہ جاتا ہے، یا دبا دیا جاتا ہے۔

ایک شخص اگر کسی بچے کا جنسی استحصال کرتا ہے، تو پوری کمیونٹی کو چاہیے کہ اس عمل کی مذمت اور اس شخص پر ملامت کرے۔ لیکن اگر متاثرہ بچے کی مدد نا کی جائے، یا اس گھناؤنے جرم کی مذمت نا کی جائے، تو جرم ختم نہیں ہوتا، بس چھپ جاتا ہے۔

اس جرم کے اب تک جاری رہنے کی صرف یہی وجہ نہیں کہ ایک تارک وطن کلچر اس معاملے میں خاموشی کو بہتر سمجھتا ہے۔

ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ پولیس کو خطرہ ہے، کہ اگر وہ ان Marginalized طبقوں پر ہاتھ ڈالے گی، تو اسے نسل پرست یا متعصب کے لیبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے وہ اکثر اس طرح کے مجرموں کو پکڑنے سے کتراتی بھی ہے۔

یہ دوسری طرح کی خاموشی ہی اس بات کی بنیادی وجہ ہے، کہ متاثرین کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ ملزمان کتنے عرصے تک قانون کی گرفت سے آزاد رہے۔


Stop Child Abuse

Kashmiri men evacuate women and the elderly from a flooded neighborhood in Srinagar

Kashmiri men evacuate women and the elderly from a flooded neighborhood in Srinagar.





People stand on a damaged bridge on the Tawi River at Mandal village outside Jammu Kashmir

People stand on a damaged bridge on the Tawi River at Mandal village outside Jammu Kashmir

بات کرنی مجھے مشکل ،کبھی ایسی تونہ ...تھی


Falah-e-Insaniat Foundation load relief supplies to be distributed among flood affected people

Pakistani memebers of the Falah-e-Insaniat Foundation (FIF), a charity Organisation of the banned Islamic hardline group Jamat ud Dawa, load relief supplies to be distributed among residents affected by flooding on to a truck in Karachi on Sunday. At least eleven people including a bridegroom and two children drowned September 14 when a rescue boat carrying a wedding party capsized in flood-hit central Pakistan, officials said, with the death toll feared to rise. — AFP

Pakistani Floods - Soldiers load relief supplies during relief operations in Shuja Abaad

Pakistani soldiers load relief supplies on to a helicopter during relief operations in Shuja Abaad, some 40 kms from Multan. At least eleven people including a bridegroom and two children drowned September 14 when a rescue boat carrying a wedding party capsized in flood-hit central Pakistan, officials said, with the death toll feared to rise. — AFP

Pakistan Floods - Army soldiers unload boats to be used for evacuating flood victims

Army soldiers unload boats to be used for evacuating flood victims from their flooded houses following heavy rain in Jhang, Punjab province,



کیا دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا؟......


جب چین کے صدر ڑی ینگ پیانگ کے دورہ پاکستان پرغیریقینی صورت حال کے بادل مسلسل گہرے ہورہے تھے تو اُس وقت حکم ران اور اپوزیشن جماعتیں مل کر اس دورے کو ہر حال میں ممکن بنانے کی بجائے دھرنے والوں کو بھر پور طریقے سے لتاڑنے اور دوسری طرف بے مذاکرات میں مصروف تھیں۔حالاں کہ اُس وقت بڑی واضح اطلاعات آ رہی تھیں کہ چینی صدر کا 14 سے 16 ستمبر تک کا طے شدہ دورہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہروں اور سیاسی کشیدگی کے باعث منسوخ یا ملتوی ہوسکتا ہے۔ غیر جانب دارسیاسی تجزیہ نگار وں کے مطابق حکومت کے پاس اس دورے کو بچانے کے لیے تین ہفتے تھے اور اس دوران حکومت کے پاس اچھی حکم رانی ثابت کرنے کا یہ ایک نادر موقع تھا لیکن اُن دنوں کو حکومت نے دھرنوں کو جواز بنا کر ضائع کردیا گیا۔

بلکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت کو یقین تھا کہ چینی صدر ان حالات میں نہیں آئیں گے، اس لیے ان دھرنوں کوچینی صدر کے دورہ کی منسوخی سے منسلک کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی اور احسن اقبال کو اس پراپیگنڈہ کا ٹاسک دے دیا گیا۔ جب کہ اس موقع پر وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سر تاج عزیر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ نہیں ہو گا ، البتہ یہ امکان موجود ہے کہ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے میں سب سے پہلے وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی پر فوراً تنقید کرتے ہوئے قوم کو خبر دی کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
خارجہ امور کے مشیر اور منصوبہ بندی کے وزیر کے دو مختلف بیانات نے یوں قوم کو مخمصے میں ڈال دیا۔ اسی طرح جب مریم نوازشریف نے بھی اپنے ٹوئٹ میں عمران خان اور طاہرالقادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران اور قادری کا ایجنڈا پورا ہو گیا ہے تو محب وطن پاکستانیوں کو ایک دھچکا لگا۔ ان اطلاعات کے بعد جہاں حکومتی پراپیگنڈہ والی بات درست محسوس ہونے لگی تو وہیںقوم شدید مخمصے کا شکار رہی۔

ان حالات میں فوری طور پرچینی سفارت خانے کا ردعمل سامنے آیا کہ انہیں صدر کے دورے کے منسوخ کیے جانے کا علم نہیں مگر وہ اسلام آباد کی صورت حال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ اس پر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے میڈیا کو بتایا کہ صدر کے دورے کے شیڈول کو منسوخ یا تبدیل نہیں کیا جارہا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس وقت دیا گیا تھا جب چینی صدر کی سیکورٹی اور پروٹوکول پر مشتمل ایک اعلٰی سطحی ٹیم دورے کی تاریخوں کو حتمی شکل دینے کے لیے دو روز سے اسلام آباد میں موجود تھی۔ اس موقع پر چینی صدر کی آمد مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار نظر آئی۔

اسی دوران عمران خان اور طاہر القادری نے چینی صدر ڑی جنگ پیانگ کے دورے کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور دونوں نے چینی صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا قریبی اور اصل دوست ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو یہاں تک کہا کہ یہ دورہ ہماری وجہ سے نہیں بل کہ حکم رانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ملتوی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دورہ ملتوی ہونے سے کئی روز پہلے میں نے بڑی وضاحت سے یہ کہہ دیا تھا کہ جب چینی صدر آئیں گے تو ہم اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے مگر ان کے دل میں چور تھا، یہ ڈر رہے تھے کہ اگر چینی صدر نے پوچھ لیا کہ یہ لوگ پارلیمنٹ کے سامنے کیوں بیٹھے ہیں؟ تو چینی صدر کو ہم کیا بتائیں گے۔ سچ کہنا ان کی سرشت میں نہیں اور جب بھی یہ جھوٹ بولتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔

وجہ جو بھی ہو مگر ہوا وہ ہی جس کا سب کو ڈر تھا۔ چین کے صدر نے موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر پاکستان کا دورہ ملتوی کردیا جسے اب حالات بہتر ہونے کے بعد دوبارہ طے کیا جائے گا۔ سکیورٹی ٹیم نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے حکام سے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے سلسلے میں جب ملاقات کی تھی تو پاکستانی حکام کی جانب سے چینی صدر کی ٹیم کو لاہور میں ملاقات کی تجویز بھی دی گئی جسے سکیورٹی ٹیم نے یک سر مسترد کردیا۔

چین کے صدر اس اہم دورہ میں پاک چین مشترکہ تجارت سمیت دونوں ممالک کے درمیان دیگر اہم معاہدوں پر دست خط کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر سری لنکا کے صدر اور آئی ایم ایف کے وفد سمیت دیگر اعلیٰ حکام پاکستان کا دورہ ملتوی کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی صدر کے دورے کی نئی تاریخ کا تعین اب ایک ماہ بعد کیا جائے گا تاہم چینی سفارت خانے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بارے میں تصدیق کرنے سے انکارکیا ہے۔

واضح رہے کہ چین کے صدور اپنے دورہ پاکستان کے دوران ہمیشہ ایوان صدر میں قیام کرتے رہے ہیں لیکن ان دنوں اس سرکاری عمارت کے باہر دھرنے جاری ہیں۔ اس لیے جب پاکستانی حکومت نے چینی صدر کی سکیورٹی ٹیم کو متبادل کے طور پر لاہور میں ملاقاتوں کی تجویز دی تو سکیورٹی ٹیم نے پاکستانی حکام کو واضح کر دیا تھا کہ چین کے صدر موجودہ حالات میں پاکستان نہیں آ سکتے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ لاہور گنجان آباد شہر ہے وہاں ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد ہی چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کو بتایا گیا تھا۔ گو کہ دوسری جانب چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کی منسوخی کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ہمیں دورہ منسوخ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسلام آباد کی صورت حال پاکستان کا نجی معاملہ ہے، ہم قریب سے صورت حال مانیٹر کررہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ فریقین مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیںگے۔ اُدھر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم چینی صدر کے دورہ کے ملتوی ہونے کی ابھی تصدیق نہیں کرسکتے۔ پانچ ستمبر کو سرتاج عزیز نے کہا کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی، جو نہ ہو سکی تھی۔ مگر جب ترجمان پاک بحریہ نے بھی دورہ کے التوا کی تصدیق کی تو اُس وقت میڈیا اور عوام کو یقین ہواکہ دورہ واقعی ملتوی ہو چکا ہے۔

اطلاعات یہ تھیں کہ چینی صدر کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بتیس ارب ڈالر کے معاہدات ہونا تھے جن میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے پاور پلانٹ کے سمجھوتے بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان دس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی امید کی جا رہی تھی مگر میڈیا میں آنے والے بیانات میں اربوں ڈالر کی اس سرمایا کاری کو حکومتی قرضے بھی کہا جا رہا ہے۔
چینی صدرکا دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر سابق صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے افسوس کا اظہار کیا ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ فریقین اسلام آباد میں بحران کوختم نہیں کراسکے اور یوں بدقسمتی سے بحران کے باعث چینی صدر کا غیرمعمولی دورہ ملتوی ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ چینی صدرکا دورہ ملتوی ہونا عمران خان اورطاہرالقادری کا قوم سے انتقام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قوم عمران خان اورطاہرالقادری کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھرنوں نے پاکستان اورچینی حکومت کی ایک سالہ کوششوں پرپانی پھیردیا۔ تاحال چینی صدر کے ممکنہ دورے سے متعلق نہ تو نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مزید تفصیلات بتائی گئی ہیں۔اس دورے کی ناکامی کوحکومت بہ طورپراپیگنڈہ استعمال کرتی رہی جو اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہتر ی اسی میں ہے کہ اس دورے کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا جاتا تا کہ قوم کو دھرنوںسے ہونے والی فرسٹریشن کے دوران کوئی اچھی خبر سننے کو مل جاتی۔
آخر کا ر جب مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے شرکا ء کو بتایا کہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا ہے منسوخ نہیںہوا، تو بات واضح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اہم دورے کو ری شیڈول کرانے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کریں گے اور ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔

کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی دارالحکومت میں دھرنوں کی صورت حال اور چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اجلاس کے دوران دفتر خارجہ کے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں چینی صدر کے دورہ کے منسوخ ہونے کے باعث پاکستان کو پہنچنے والے سفارتی سطح پر نقصان اور باہمی تعلقات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کریں، کمیٹی اراکین نے حکومت اور دھرنے دینے والی جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین پر بھی زور دیا گیا کہ وہ اپنے معاملات جلد از جلد حل کریں۔

کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران مشیر برائے امور خارجہ نے کہا کہ ہم چینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ آئندہ کسی وقت چین کے صدر کے دورہ پاکستان کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چینی حکام نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ چینی صدر جب اور جتنا جلد ممکن ہوا وہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ 11 ستمبر کو شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہو رہی ہے اور وہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے پر بات چیت کریں گے۔کمیٹی اراکین نے اس موقع پر کہا کہ دفتر خارجہ سری لنکا اور مالدیپ کے صدور کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے کے لیے بھی کام شروع کیا جائے ۔

پاک چین سفارتی تعلقات
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں تین ایشوز ایشوز ایٹمی اثاثے‘ مسئلہ کشمیر اور پاک چین دوستی پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں مگر اس اتفاق میں تبدیلی نہ آسکی۔ اسی لیے پاکستان کا استحکام اور خوشحالی آج بھی چین سے قربت میں ہی ہے۔ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کے بعد اس وقت دنیائے سیاست میں کافی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ ایک بنیادی تبدیلی اور نئی حقیقت تو یہ ہے کہ اقتصادی و سیاسی قوت اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔

اگر انیسویں صدی برطانیہ کی تھی‘ بیسویں صدی امریکا کی تو اکیسویں صدی ایشیا کی ہو گی اور اب طاقت کا توازن یورپ اور امریکا سے نکل کر ہمارے خطے میں آ رہا ہے۔ آج سب سے مضبوط اور ابھرتی ہوئی نئی طاقت عوامی جمہوریہ چین ہے جو ہمارا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ہے۔ دوسری بات جو اہم ہے کہ چین کی بڑھتی قوت اور پرامن طور پر نہایت تیزی سے آگے بڑھنے سے کچھ لوگ خائف ہو کر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ چین کو کس طرح روکا جائے؟ اس مقصد کے لیے مغرب کے چند گروپ ہندوستان کو تیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کی بنیاد 2005 میں بش انتظامیہ نے رکھی دی تھی جب ہندوستان کے ساتھ امریکا نے نیوکلیئر معاہدہ کیا۔

اس کا اصل مقصد چین کو ہندوستان کے مقابلے میں مضبوط کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن جائے اور اس کی تائید امریکا‘ فرانس اور برطانیہ بھی کر چکے ہیں‘ تاہم چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور اس معاملے کو روکا ۔ چین نے ہمارا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ امریکا کا عراق اور افغانستان کی جنگ کا ہر ہفتے کا خرچہ چار ارب ڈالر ہے۔ یعنی ہر ہفتے عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکا چار ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا پاکستان کو جو امداد دے رہا ہے‘ وہ ان کی عراق اور افغانستان کی جنگ کے تین ہفتے کا خرچہ ہے۔

غلام محی الدین

Xi Jinping Postpones Pakistan Visit