Showing posts with label Pakistan and Saudi Arabia Relations. Show all posts

سعودی عرب سے ہماری سرد مہری پر کف افسوس


میں رجائیت پسند ہوں ، مجھے سب اچھا نظر آتا ہے، سعودی ولی عہد شہزادہ سلیمان بن عبد العزیز پاکستان آئے، میرا دل بلیوں اچھلنے لگاا ور میرے قلم سے محبت کے زمزمے بہہ نکلے ، مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ پاکستان نے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی کے لئے معزز مہمان کی درخواست کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ کاش! یہ منحوس خبر غلط ہو مگر میں نے پاکستان کے اعلی حکومتی عہدیداروں کے بیانات پڑھے ہیں کہ ہم شام کے مسئلے پر سعودی عرب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے طیارہ شکن ہتھیار مانگے ہیں، انہی ذرائع کے مطابق یہ اسلحہ شامی مجاہدین نے بشار الا سد کی فضائیہ کے خلاف اپنے دفاع میں استعمال کرنا تھا مگر پاکستان کو خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگ سکتا ہے جو با لآخر پاک فضائیہ کے خلاف استعمال ہو گا، اس لئے یہ سودا نہیں ہوا۔

میری اقتدار کے ایوانوں تک کوئی رسائی نہیں، حقیقت حال تک پہنچنا میرے لئے قطعی نا ممکن ہے ، میرا تبصرہ صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہو گا ، مگر یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں کہ سعودی ولی عہد کو دو روز قبل26 فروری کو بھارت جانا پڑا جہاں ایئر پورٹ پر انکا استقبال بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے کیا۔ بھارت اور سعودی عرب کی باہمی تجارت پچھلے چار سال میں دوگنا ہو چکی ، اب اس کا حجم 44 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہ تجارت 5 ارب ڈالر سے بھی نہیں بڑھ سکی۔ اس کی وجہ زرداری کا دور حکومت ہے جب پاک سعودی تعلقات نقطہ انجماد کو چھو رہے تھے۔ مگر اب ایک سال سے شریف برادران کادور دورہ ہے، وہ چین ، جرمنی،ترکی، امریکہ اور برطانیہ کے دورے پر دورے کر رہے ہیں مگر جو ملک ان کی غریب الوطنی کے دور میں کام آیا، وہ ان کی ترجیحات میں سر فہرست نظر نہیں آتا۔ شریف برادران کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت جلد اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ ادارہ نوائے وقت کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے مگر سعودی عرب نے تو ان کو شاہی محلات پیش کئے، اسٹیل مل لگانے کی اجازت دی۔ سپر اسٹور کھولنے اور چلانے کے لائسنس دیئے اور علاج کے لئے لندن جانے کی بھی اجازت دی حالانکہ یہ جلاوطنی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔

پاکستان کے معاملات عوام کے ہاتھ میں ہیں، شریف برادران اس اختیار کو ہائی جیک نہیں کر سکتے، زرداری نے اس اختیار کو ہائی جیک کیا اور پاکستان کو اس کے عزیز ترین دوست سعودی عرب سے دور کر دیا۔ پاکستانی عوام کو حرمین شریفین سے عقیدت ہے، وہ اس پر جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں، پہلی خلیجی جنگ میں پاکستان نے اپنی فوج سعودی دفاع کے لئے بھیجی، سعودی فوج کی ٹریننگ کے لئے بھی ایک پروگرام جاری ہے، سعودی محبتوں کی بھی کوئی انتہا نہیں، بھارت نے جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دینے کا حق ادا کر دیا۔ سعودی عرب نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی مخالفت کی۔ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمائت کی، شاہ فیصل نے بادشاہی مسجد میں آنسووں کی زبان میں کشمیر کی آزادی کے لئے دعا مانگی، پاکستان نے لائل پور کو فیصل آباد کانام دے کر شاہ فیصل سے اپنی گہری عقیدت کا ثبوت فراہم کیا، اسلام آباد کے افق پر شاہ فیصل مسجد کے بلندو بالا مینار دونوں ملکوں کے تعلقات کی معراج کا روشن منظر نامہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں دونوں ملک یکساں سوچ کے ساتھ چلتے ہیں۔

تو پھر شام اور ایران کے مسئلے پر پاکستان نے سعودی عرب سے دوری کیوں اختیار کر لی ہے،اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب امریکہ نے سعودی عرب سے فاصلے بڑھا لئے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خطے کے دوسرے ممالک کی دوستی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سعودی عرب نے احتجاج کے طور پر سلامتی کونسل کی سیٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کیا پاکستان کے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم امریکی خوشنودی میں اپنے عزیز تریں دوست اور حرمین شریفین کی خادم حکومت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کاش! میری سوچ اور میرا تجزیہ غلط نکلے اور حقیقت میں پاک سعودی دوری کا شائبہ تک نہ ہو لیکن یہ سب کچھ ہمارے کردار اور ہماری پالیسیوں سے ہویدا ہونا چاہئے۔آخر سعودی ولی عہد کو نئی دہلی کیوں جانا پڑا ، یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب نواز شریف تو نہیں دیں گے لیکن مجھے اپنے بھائیوں جیسے دوست سرتاج عزیز سے یہ توقع ضرور ہے کہ وہ عوام کے ذہنوںمیں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔

شام کا مسئلہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی حکومت کو بیرونی مداخلت سے ختم نہیں کرنا چاہئے مگر آج کی دنیا نے عرب بہار کا خیر مقدم کیا،ہم نے بھی کیا، تیونس میں ، سوڈان میں ، لیبیا میں ،مصر میں، تبدیلیوں کا کھلے بازووں سے استقبال کیا۔ہم نے اپنے فوجی آمر جنرل مشرف کو بھی چلتا کیا۔ شام میں بشار الا سد کو حکومت ورثے میں ملی، اس کے باپ حافظ الاسد نے اقتدار پر شب خون مارا، یہ ایک فوجی انقلاب تھا، مصر میں ناصر نے اقتدار چھینا اور عوام کا جینا دو بھر کر دیا، شام میں حافظ الاسد نے عوام کو اپنی طویل آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا، پھر اس کے بیٹے نے اس آمریت کو دوام بخشا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا اور اگر سعودی عرب ان مظلوم عوام کا ساتھ دے رہا ہے تو کونسا گناہ کر رہا ہے۔

ایک طرف سے امریکہ نے ایٹمی ایران سے دوستی کی خاطر سعودی عرب سے دوری اختیار کر لی، دوسری طرف روسی صدر پوتن نے دھمکی دی کہ روسی افواج سعودی عرب کو جارحیت کا نشانہ بنائیں گی۔ یہ پچھلے سال اگست کی بات ہے اور چھ ماہ بعد سعودی ولی عہد ہم سے مدد چاہنے کے لئے آئے اور اگرہم نے ان کو خالی ہاتھ لوٹا دیا ہے تو تف ہے ہمارے ان ایٹمی ڈھیروں پر جو پہاڑوں کی غاروں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں۔ یہ ایٹم بم حرمین شریفین کی حفاظت اور حرمت پر قربان نہیں ہو سکتے تو میری طرف سے ان میں کیڑے پڑ جائیں۔

ہم نے ایٹمی دھماکوں کے بعد مفت سعودی تیل کے مزے اڑائے، افغان مجاہدین کی دیکھ بھال کا مسئلہ ہو، زلزلے کی تباہی یا سیلاب کی قیامت ، ہر وقت سعودی عرب پیش پیش۔ سعودی عرب میں ہمارے پاکستانی بھائیوں کی ترسیلات، اوور سیز پاکستانیوں کی کل ترسیلات کا تیس فیصد ہیں، یہی زر مبادلہ ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔

اسے کہتے ہیں جس تھالی میں کھانا ، اسی میں چھید کرنا۔

شریف برادران براہ کرم اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں۔ یہ ان کی ذات ہی کے محسن نہیں ، پورے پاکستانیوں کے محسن ہیں، انڈو نیشیا سے بوسنیا تک پورے عالم ا سلام کے محسن ہیں، میں کبھی بتاﺅں گا کہ بوسنیا کے لئے بظاہر سعودی حج پروازوں میں کیا کچھ جاتا رہا۔ سی ون تھرٹی کی ان پروازوں نے بوسنیا کی آزادی کی بنیاد رکھی۔ آج سعودیہ کی ضرورت ہے۔ ان کی ضرورت کے وقت ان کا ہاتھ مت جھٹکیں۔


بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت"

Enhanced by Zemanta

پاکستان، سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نئے موڑ پر


پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں، تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیوں میں آنے والے تغیرات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ضرور ہوتے رہے ہیں ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ تاریخ پاکستان کے چھ عشروں میں پاک سعودی تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے کئی دور بھی آئے ہیں ۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان مرحوم اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے درمیان دوستانہ تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اسلام آباد کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔

قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی ۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے آگھیرا سعودی عرب مصیبت زدہ پاکستانیوں کا پہلا سہارا ثابت ہوا۔ سنہ 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 09 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے مختلف ادوار میں کم سے کم35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ آج تک سعودی عرب کے کئی ادارے پاکستان کی سر زمین سے افغان مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں ۔

یاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔ سعودی اخبار’’المدینہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا بالخصوص مغرب اور امریکا نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈالا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایسے میں سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایٹمی تجربات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پر سعودی عرب کے مغربی بہی خواہوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی‘‘۔

اکتوبر2005ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ڈونر ممالک میں بھی پہلے نمبر رہا ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی حکومت کے براہ راست تعاون سے ہمہ وقت آج بھی کئی ادارے سرگرم ہیں جو سالانہ سیلاب سے متاثرین کی امداد پر ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم صرف کرتے ہیں ۔ یوں سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ مشکل کا ساتھی رہا۔

سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی حکومت کی داخلی معاشی پالیسیاں بالخصوص کرپشن نے سعودیوں کو ناراض کیے رکھا۔ گذشتہ برس مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے مابین خوشگوا ر تعلقات کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ پیش رفت2013ء کے اختتام کے ساتھ ہوئی ۔ بعض مغربی اخبارا ت یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان افواہوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ اس ضمن میں تازہ پیش رفت 2013ء کے اختتام پر صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے۔ اخباری ذرائع بتا تے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستان نے 2014ء کے اوائل میں ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں دونوں ملک ایک دوسرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بھرپور مدد فراہم کریں گے۔ آغاز کا ر کے طور پرسعودی عرب نے پاکستان اور چین کے تعاون سے تیار کردہJF17 تھنڈر طیاروں، آگسٹا آبدوزوں اور دیسی ساختہ الخالد ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔گو کہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت پائپ لائن میں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی اس ضمن میں عملی معاہدہ طے پا نے والا ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے دفاعی منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دوران صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کیں اور دفاعی اوراقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا قریب ترین دوست اور حلیف ہے اور یہ تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ جامع سٹریجک تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کے اس تین روزہ دورے کے دوران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور یوریا کھاد کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔

غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے چار فروری کو دورہ سعودی عرب، جنوری میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان بن عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان سے اسلحہ کی خریداری سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ریاض کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی مشقیں شروع کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ یہ مشقیں بھی جلد شروع ہونے والی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سعودی نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ اپنے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے محکمہ دفاع سے متعلق اہم اداروں کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔ سعودی وفد نے مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان ائیر فورس، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ PAC کا بھی دور ہ کیا ۔ کامرہ کمپلیکس دورے کے دوران سعودی نائب وزیردفاع نے پاک، چین مشترکہ مساعی سے تیار ہونے والے’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کا بھی معائنہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ کے دوران صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے خلیجی ملک بھی پاکستان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات کر چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کی آمد سے قبل عراق ، یمن اور اردن کے وفود بھی کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے نہ صرف تیار شدہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاض کی اصل خواہش اپنی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے پاکستانی ماہرین کی خدمات کا حصول ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی بات چیت میں پاکستانی ماہرین کی خدمات پربھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

پاکستان کے بعض اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے دو ڈویژن فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں چھاپی ہیں، تاہم سعودی ذرائع ابلاغ ان خبروں کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ کچھ غیر ملکی بالخصوص پاکستان سے فی سبیل اللہ کی دشمنی رکھنے والے بھارتی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے پر ہونے والی ڈیل کے بعد سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگی طیاروں ، ٹینکوں ، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لیے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان مشکل حالات میں پہلے بھی اپنی افواج کو سعودی عرب بھجوا چکا ہے۔1990میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ریاض کی جانب سے اسلام آباد سے ہنگامی ضرورت کے لئے فوج کا تقاضا

گوکہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب اسلحہ کی بڑی بڑی ڈیلیں کرنے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ضمن میں عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں سعودی عرب اندرونی اور بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر کر رہا ہے۔

سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت

عرب خطے میں سعودی عرب بہترین ، پیشہ وارانہ طاقتور مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ مسلح افواج میں سعودی عریبین آرمی، سعودی رائل ایئر فورس، رائل سعودی نیوی ، رضاکار فورس اور سعودی عریبین نیشنل گارڈ(SANG) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں جن کی مجموعی افرادی قوت چارلاکھ پر مشتمل ہے۔ مسلح افواج 400 اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، پیشگی وارننگ پر فوری کارروائی کی صلاحیت کے حامل F 15 اسٹرائیک ایگل، جدید ترین یورو فائیٹر ٹائیفون، پا نیوا ٹو رنیڈو، جدید ترینF15 SA، جدید ترین راڈار سسٹمAESA ،جوائنٹ ہیلمٹ ماؤنٹڈ کیوننگ سسٹم جیسے دفاعی آلات سے لیس ہے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 500 الفارس آرمرڈ کیرئیر وہیکل۔ رائل سعودی اسٹریٹیجک میزائل فورس(RSSMF) کے پاس طاقت ور ترین میزائلوں میں چینی ساختہ ’’ڈونگ فنگSS4‘‘ میزائل ہے۔ گوکہ اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی رینج درمیانی ہے لیکن کارکردگی کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔

پاکستان کیلئے سعودی عرب کی دفاعی اہمیت

ہر چند کہ پاکستان دفاعی طور پر ایک ناقابل تسخیر اور کسی حد تک خود کفیل ملک بن چکا ہے تاہم سعودی عرب جیسے دیرینہ دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالات حاضرہ میں پاکستان اندرونی اور علاقائی طور پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے ہیں۔ ظاہر ہے مذاکرات کی یہ کوشش محض اتمام حجت کے لیے ہے۔ اگر فریق ثانی(طالبان) کی جانب سے عسکریت پسندی کا سلسلہ بند نہ ہوا یا انہوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلاء جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔ افغان طالبان سعودی عرب پر کسی دوسرے مسلمان ملک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں ۔ اس لیے افغانستان کو ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے بچانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں ۔ افغان عوام بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستانی اور سعودی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکیوں کی واپسی کے بعد کے افغانستان کے معاملات پر خاص طور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی موجودہ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ریاض کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام نمائندہ دھڑوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا صرف یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو بھی نظرانداز کیا گیا تو کشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شرو ع ہو سکتا ہے

کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

Pakistan and Saudi Arabia Relations


Enhanced by Zemanta

Saudi Crown Prince on Historic Visit to Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer


Saudi Crown Prince on Historic Visit to Pakistan by Ibtisam Elahi Zaheer

Pakistan and Saudi Arabia Relations


وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے، دونوں ممالک نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وزیر سیاحت و نوادرات شہزادہ سلطان بن سلمان سے ملاقات کے دوران کیا جنھوں نے گورنمنٹ ہاؤس مری میں ان سے ملاقات کی ۔ شہزادہ سلطان نے صدر مملکت ممنون حسین سے بھی ملاقات کی۔ صدر ممنون حسین نے اس موقع پر سعودی سرمایہ کاروں کوپاکستان میں انفرااسٹرکچر، توانائی، سیاحت و ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ صدر نے پاکستان کے سیاحتی شعبہ جات و عجائب گھروں اور سعودی کمیشن برائے سیاحت کے درمیان وسیع تر تعاون پر بھی زور دیا اور آزمائش کی ہر گھڑی میں پاکستان کی فراخدلانہ معاونت پر شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

پاک سعودی تعلقات کا تاریخی تناظر کسی تعارف کا محتاج نہیں، خلیجی اور شرق اوسط کی سیاسی ،تزویراتی اور عسکری امور کے تناظر میں سعودی عرب کا کردار نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ جریدہ ’’اکنامسٹ‘‘اور بی بی سی نے سعودی عرب کے سیاسی، عسکری ، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں ترقی و ترویج پر تجزیاتی رپورٹیں شایع کی ہیں جن میں اس کا مشرق وسطیٰ کے صحرائی خطے میں تیل کی دولت سے مالامال عرب و مسلم دنیا میں ایک طاقتور کردار کے طور پر جائزہ لیا گیا ہے ۔ پاکستان کو سعودی عرب سے ایک خاص دینی، سماجی، تاریخی اور روحانی نسبت ہے، اور برس ہا برس سے حرمین شریفین کو اہل پاکستان نے ہمیشہ اپنے دل میں احترام و عقیدت سے جگہ دی ہے، دونوں ملک اپنے لازوال رشتوں اور سیاسی تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں، عالمی امور میں جہاں سعودی حکومت نے پاکستانی موقف کی ہمیشہ تائید وحمایت کی وہاں اقتصادی ، تعلیمی اور سماجی شعبے میں بھی پاک سعودی تعلقات ہر دور میں مستحکم رہے چنانچہ سماجی، دینی و روحانی نسبت سے عالمی امور اور دو طرفہ سے اسیروابط آئندہ بھی اسی جذبہ اور دوطرفہ مفاہمت اور اشتراک و تعاون سے جاری رہیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے بے پناہ مواقع کی موجود گی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب سیاحت کے شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، انھوں نے سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان کو پاکستان بھر کے تفریحی مقامات کے تفصیلی دورے کی دعوت بھی دی ۔ سیاحت وہ اہم شعبہ ہے جس میں سعودی سرمایہ کاری کے بیش بہا امکانات موجود ہیں۔ وزیراعظم اور سعودی شہزادہ برف سے ڈھکے کشمیر پوائنٹ کے خوبصورت نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوئے ۔

اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پاکستان کے کئی صحرا اور چٹیل میدان پاک سعودی مشترکہ منصوبوں کے ذریعے سرسبز و شاداب علاقوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں ۔ قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف نے سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز کی والدہ سلطانہ ترکی السدیری کے نام سے منسوب سلطانہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’ تعلیم وتحقیق اور سماجی ترقی‘‘ کے مرکز کے نئے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے تعلیم کے حصول کو کلیدی کردار حاصل ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی سے اقتصادی خرابیاں دور ہو سکتی ہیں اور ساتھ ہی قوم کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میں مسلم ممالک بہت پیچھے ہیں ، سعودی عرب کی قیادت میں تمام اسلامی ممالک اپنے جدید علمی اور ٹیکنالوجیکل ضروریات کی تکمیل کے لیے وسیع تر اشتراک عمل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے تعلیم کے لیے سلطانہ فاؤنڈیشن کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ شہزادہ سلطان بن سلمان کی یہاں موجودگی پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان پائیدار اور دائمی دوستانہ تعلقات کی واضح علامت ہے ، پاکستان اور سعودی عرب عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ تعلیم وہ شعبہ ہے جس میں پاکستان اور سعودی ماہرین تعلیم کے فروغ ، فکری پسماندگی ، جہالت کے خاتمہ اور جدید ترین علمی تحقیق کے نئے در کھول سکتے ہیں، شہزادہ ترکی الفیصل پہلے ہی ایک متحدہ اسلامی فورس کے قیام کی ڈاکٹرائن پیش کرچکے ہیں اس پر مسلم ممالک کے تحفظات ہو سکتے ہیں تاہم تعلیمی شعبے میں ایسی کوئی فورس بن جائے تو آئندہ کئی نسلیں مغرب کے تعلیمی تقابل کے قابل ہوسکتی ہیں ۔ پاک سعودی تزویراتی و عسکری تعاون بھی روبہ عمل لایا جارہا ہے ،پاکستان کو خطے میں بدامنی اور امن امان کی ابتری کا مسئلہ درپیش ہے جب کہ سعودی حکومت علاقائی سلامتی کے اقدامات پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہے، عالم اسلام کو آنے والے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پر امن بقائے باہمی اور علاقائی سلامتی کے معاہدوں سمیت ملت اسلامیہ کی اجتماعی نگہبانی کا بھی کوئی میکنزم وضع کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں متعلقہ بین الاسلامی اداروں کا احیا ضروری ہے جب کہ اس کام کی ابتدا سعودی قیادت کے مفید مشاورت سے کی جانی چاہیے ۔

دریں اثناشہزادہ سلطان بن سلمان نے کہا کہ سلطانہ فاؤنڈیشن کا قیام ان کی والدہ کا آئیڈیا تھا ، فاؤنڈیشن کے آئندہ منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم اپنے پروگراموں کو اسکولز سے کالجز اور میڈیکل کالجز کے ساتھ ساتھ ضرورت مند طلبہ کے لیے وظائف تک وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں یہ ترقی کے مزید منازل طے کرے گا، ہم پاکستان کا مستقبل تابناک اور روشن دیکھتے ہیں ، تعلیم اور طب کے شعبے میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔ تعاون و امداد کی اس یقین دہانی کے ثمرات کے حصول کے لیے ہمہ جہت منصوبہ بندی کی جائے ۔ وزیراعظم نواز شریف کو سعودی محبتوں ،اور خیر سگالی کا جو تحفہ ملا ہے اس سے اہل وطن کی تعلیمی ، سماجی اور معاشی زندگی میں انقلاب آنا چاہیے۔ شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز السعودکا دورہ بلاشبہ دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنانے اورپاکستان سے سعودی عوام اور حکمرانوں کی دلی قربت و وابستگی کو مستحکم کرنے میں اہم پیش رفت کا باعث بنے گا۔

Pakistan and Saudi Arabia Relations

Enhanced by Zemanta