Showing posts with label Punjab region. Show all posts

سدا بہار باغی......


سنہ 1972 کے اوائل میں نوجوانوں کا ایک گروپ گورنر ہاﺅس لاہور میں گھس گیا، یہ سمن آباد کے علاقے سے مبینہ طور پر حکومتی عہدیدار کی جانب سے دو لڑکیوں کو اغوا کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔

اس ہجوم کا سامنا ذوالفقار علی بھٹو سے ہوا جو اس وقت صدر مملکت تھے  جبکہ ان کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر موجود ایک برطانوی وزیر تھے۔
مظاہرین کے قائدین میں سے ایک جاوید ہاشمی نامی نوجوان بھی شامل تھا جس نے پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن اسلامی جمعیت طلباءکی حمایت کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد جیتا تھا۔

دو برس بعد جاوید ہاشمی نے ایسا ہی اقدام بنگلہ دیش کو بطور علیحدہ ریاست تسلیم کیے جانے پر ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے اس وقت کیا، جب لاہور اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی میزبانی کررہا تھا۔
وہ نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حکومت مخالف بینرز اٹھائے تمام تر سیکیورٹی انتظامات کو توڑ کر سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے موٹرکیڈ کے سامنے جاکھڑے ہوئے۔

ان دونوں واقعات کا ذکر جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات' ہاں میں باغی ہوں  میں کیا ہے، اب انہوں نے اپنی جماعت کے سربراہ کی بات ماننے سے انکار کیا ہے۔
کیا گورنر ہاﺅس لاہور پارلیمنٹ کی طرح ریاست کی علامت نہیں اور کیا غیر ملکی معزز مہمان کے سیکیورٹی انتظامات کو توڑنا وزیراعظم ہاﺅس کے گرد پہنچنے سے کم اہم ہے؟ مگر جاوید ہاشمی جب کسی مقصد پر یقین رکھتا ہے تو وہ اس طرح کے فرق کو نظرانداز کردیتا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ اسے کسی بھی طریقے سے بھٹو حکومت کو چیلنج کرنا ہے تو اس سے جو ہوسکا اس نے کیا، اس کا ماننا تھا کہ پاکستان کو بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے تھا تو جو اسے مناسب لگا اس نے کیا۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح اس نے اسلامی کانفرنس سے چند ماہ قبل اپنے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کی ریلی کو اسی مقصد کی وجہ سے کتنی کامیاب سے سبوتاژ کیا تھا۔
تو یہ بات واضح ہے کہ اب وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا جو عمران خان حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاوید ہاشمی کے نظریات ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں کی سیاسی زندگی کے دوران وہ اختیار کرچکا ہے۔
یہ نظریات تین بنیادوں پر قائم ہیں، فوجی آمریت پر انتخابی جمہوریت کی بالادستی، اختلاف رائے اور اپنے سیاسی اقدامات کے نتائج کی پروا نہ کرنا۔

بغاوت کا مقدمہ

کچھ استثنیٰ سے قطع نظر یہ وہ سیاسی اصول ہیں جو جاوید ہاشمی نے اختیار کررکھے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال اس کی جانب سے 2003 میں فوجی طاقت پر سویلین بالادستی کا بہادرانہ دفاع اس کی گرفتاری کا باعث بنا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ فوج میں تقسیم ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگلے ساڑھے تین سال تک وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا اور مقدمے کی سماعت بھی جیل کے اندر ہوئی۔

مشرف حکومت نے یہ مقدمہ ایک خط کی بنیاد پر چلایا جو جاوید ہاشمی نے سب کے سامنے پیش کیا تھا جو چند جونئیر عہدیداران نے لکھا تھا اور اس میں فوجی حکومت کے کچھ سنیئر اراکین پر کرپشن الزامات عائد کیے گئے تھے۔
جاوید ہاشمی کبھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا اور نہ ہی اسے کبھی یہ خط عوام کے سامنے پیش کرنے کے فیصلے پر پچھتاوا ہوا۔
اسی طرح اس کی جانب سے شریف برداران کے جلاوطنی اختیار کرنے اور متعدد اہم رہنماﺅں کے مشرف کیمپ میں شامل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے صدر بننے کے لیے تیار ہونا ثابت کرتا ہے کہ وہ مشکل ترین اوقات میں بھی جمہوریت کے لیے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

جاوید ہاشمی نے سدا بہار باغی کی مضبوط حیثیت تعمیر کی، وہ اپنی سوچ کے مطابق بولتا ہے چاہے کیسے نتائج یا حالات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس نے ہر اس وقت مخالفت کا اظہار کیا جب اسے لگا کہ اتھارٹی کی جانب سے ٹھیک کام نہیں کیا جارہا، اور اس کے لیے یہ پروا کبھی نہیں کہ اتھارٹی میں شامل افراد اس کی اپنی جماعت کے سربراہان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف اور حکمران جماعت نواز لیگ کے متعدد سنیئر اراکین اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ کس طرح جاوید ہاشمی پارٹی اجلاسوں میں پارٹی قیادت سے اپنے تعلقات پر اثرات کی پروا کیے بغیر اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جاوید ہاشمی نے کبھی غلطیاں نہیں کیں، 1978 میں 29 سال کی عمر میں وہ جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ کے نوجوان ترین وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔
تاہم بعد میں وہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا اظہار کرتا رہا، اپنی کتاب میں اس نے وضاحت کی ہے کہ وہ کبھی اس وزارت کو لینے کے بعد مطمئن نہیں رہا اور وہ جلدازجلد اس سے مستعفی ہونا چاہتا تھا۔
اسی طرح 1993 میں جب اسے لاہور سے محفوظ نشستوں کی پیشکش کی جارہی تھی تو اس نے ملتان سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب لڑنے پر اصرار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ محمود قریشی نواز شریف کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگیا۔

اس کی سب سے بڑی غلطی یوسف نامی ایک ایڈووکیٹ سے پیسے لینا تھا۔
یوسف نے بعد ازاں دعویٰ کیا کہ یہ رقم یونس حبیب کی تھی جو کہ مہران بینک کا صدر تھا، جسے انٹیلی جنس عہدیدران نے 1990 میں پیپلزپارٹی مخالف سیاستدانوں کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ لگانے کا ٹاسک دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے اپنی سوانح حیات میں اس عزم کو دوہرایا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی اپنی سیاست سے کوئی مالی فائدہ حاصل نہٰں کرے گا، اس نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وہ رقم کاروبار کے لیے بطور قرضہ لی تھی جسے اس نے واپس لوٹا بھی دیا تھا۔
تاہم ان الزامات نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

جب اس نے دسمبر 2011 میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو اس کے پرانے سیاسی ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ن لیگ کی جانب سے ایک قریبی رشتے دار کو بطور انتخابی امیدوار نامزد نہ کرنے پر جاوید ہاشمی برہم تھا۔

کچھ کا کہنا تھا کہ جاوید ہاشمی اس لیے ناخوش تھا کیونکہ وہ 2008 کے انتخابات کے بعد قائد حزب اختلاف بننا چاہتا تھا مگر یہ عہدہ چوہدری نثار علی خان کو دے دیا گیا۔
اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کا حقدار تھا کیونکہ مشرف دور میں، جب بہت کم سیاستدان کسی بھی سطح پر ن لیگ کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے، اس نے پارٹی کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔
جاوید ہاشمی لگتا ہے کہ اپنی سیاسی راست گوئی کو نہیں کھویا، اور اس نے اپنے یقین کے مطابق بولنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا، جبکہ جمہوریت اور اداروں سے محبت بھی جاری رکھی۔

اسے اپنے اقدامات کے نتیجے میں سیاسی نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑا اور کوئی نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی سے اخراج کے بعد اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔
یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائے گا، جس کا وہ ابھی بھی شدید ناقد ہے، جہاں تک پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کے آپشن کی بات ہے تو یہ بالکل ناممکن لگتا ہے کیونکہ وہ اپنے پورے کیرئیر میں اس جماعت کا شدید مخالف رہا ہے۔

اپنی کتاب کے پہلے صفحے میں جاوید ہاشمی نے خلفیہ دوم حضرت عمرؓ کا قول درج کیا ہے" تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنالیا حالانکہ ان کی ماﺅں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟، وہ اب بھی ہمیشہ کی طرح آزاد ہے۔
کوئی چیز یا ایسا نظریہ جس پر اسے یقین نہیں اسے کسی پارٹی کا قیدی نہیں بناسکتا، عمران خان کو جاوید ہاشمی کو اپنی پارٹی میں لینے سے پہلے اس کو جان لینا چاہئے تھا۔

باغی کی خطرناک بغاوت.......


اسلام آباد کی سڑکوں پر توڑ پھوڑ کی احتجاجی سیاست کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے برطرف صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک اور بغاوت کردی ہے۔اب کے انھوں نے بہت سے انکشافات کیے ہیں اور موجودہ بحران کے پیچھے کارفرما کئی پس پردہ چہروں کے نقاب الٹ دیے ہیں جس سے ان بعض چہروں کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہونے کا خدشہ ہے۔
بزرگ سیاست دان نے اسلام آباد میں سوموار کو نیوز کانفرنس میں اپنی جماعت کے چئیرمین عمران خان کی سیاست سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ وہ انقلاب مارچ کسی کے اشارے اور یقین دہانی پر کررہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ عمران خان نے منتخب ارکان اسمبلی سے زبردستی استعفے لیے اور لکھوائے ہیں۔ارکان ان استعفوں پر خوش نہیں تھے۔

انھوں نے عمران خان پر الزام عاید کیا کہ وہ مطلق العنان بنے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے فیصلوں کو یکسر مسترد کردیتے ہیں اور جماعت میں اپنی من مرضی کے فیصلے کررہے ہیں۔وہ وعدے کرتے ہیں اور توڑ دیتے ہیں۔
انھوں نے ماضی کے حوالے سے بتایا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ایک اجلاس میں عمران خان نے کہا تھا کہ ''موجودہ چیف جسٹس ( اب سابق) جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بعد آنے والے چیف جج ناصر الملک وزیراعظم میاں نواز شریف کی برطرفی سے متعلق دائر کردہ درخواست پر ہمارے حق میں فیصلہ دیں گے''۔

عمران خان نے کور کمیٹی کو بتایا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کریں گے اور اپنے انتخاب کے مطابق ایک جج لیں گے اور وہ سب کچھ کچھ او کے کردے گا اور موجودہ حکومت ختم ہوجائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ جب عمران خان اپنا یہ تمام پروگرام وضع کرچکے تو میں نے ان سے کہا کہ خان صاحب آپ کیا کرنے جارہے ہیں۔آپ کو ہماری اور بہت سے لوگوں کی حمایت حاصل ہے لیکن وہ مان کے نہیں دے رہے تھے اور انھوں نے کہا کہ ''میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ستمبر میں نئے عام انتخابات ہوں گے''۔
جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی قیادت کو بتایا تھا کہ احتجاجی تحریک کے بعد ایک خاص سکرپٹ (مسودہ) ہوگا جس کا اختتام ایک نئے چیف جسٹس کے تقرر کے ساتھ ہوگا اور مظاہرین کے نصب العین سے اس نئے چیف جسٹس کو ہمدردی ہے۔

انھوں نے اس نیوز کانفرنس میں ایک ہی سانس میں کئی انکشافات کردیے ہیں اور بتایا کہ عمران خان نے انھیں کہا تھا کہ ''انھوں نے (آرمی نے) ہمیں کہا ہے کہ طاہر القادری کے ساتھ اتحاد کریں۔انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے مارچ کو ریڈ زون سے آگے وزیراعظم ہاؤس کی جانب لے جانے کی مخالفت کی تھی اور کمیٹی کے ارکان نے عمران خان سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شیخ رشیداحمد کی باتوں پر کان نہ دھریں۔

انھوں نے عمران خان کی جانب سے شیخ رشید احمد کی حمایت سے متعلق کہا کہ ''وہ ہمیں یہ کہتے رہتے تھے کہ ہمیں مئی 2013ء میں منعقدہ انتخابات میں شیخ رشید کی کامیابی کو یقینی بنانا ہوگا حالانکہ 2008ء میں منعقدہ عام انتخابات میں ،میں نے شیخ رشید کو راول پنڈی کی نشست سے شکست دی تھی''۔

مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ ''یہ تھرڈ کلاس لوگ ہیں اور ان کی نااہلیوں کی وجہ سے آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔اس نے قوم کی امنگوں کی پروا نہیں کی ہے۔اگر ماڈل ٹاؤن لاہور کے واقعہ پر وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی جاتی تو کونسی قیامت آجاتی کیونکہ پولیس کی فائرنگ سے چودہ افراد کی شہادت اور قریباً اسی لوگوں کو گولیاں لگ جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے''۔

انھوں نے گذشتہ روز اور آج بھی ماضی میں تحریک انصاف کی قیادت سے اختلاف کے بارے میں کہا ہے کہ ''جب پارٹی میں میری بات نہیں سنی جاتی تھی تو ملتان چلا جاتا تھا یا بیمار ہوتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ میں بیمار ہوتا تھا اور نہ مجھے بیوی بچوں کی یاد آتی تھی، میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ملتان چلا جاتا تھا''۔

جاوید ہاشمی کو اس بغاوت سے قبل ہی جماعت کے چئیرمین عمران خان نے صدارت کے عہدے سے فارغ کردیا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی جماعت کے صدر ہیں اور عمران خان نے انھیں غیر آئینی طور پر ہٹایا ہے۔انھیں اپنی جماعت کے آئین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی کی ترجمان ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی جماعت کے یک طرفہ طور پر برطرف کیے گئے صدر کے ان انکشاف انگیز الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن ان کے رد میں انھوں نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

 

کیسا انقلاب؟......



گزشتہ کچھ ہی عرصے میں پاکستانی قوم نے ’’انقلاب‘‘ کا لفظ اتنی بار سنا کہ اب تو سوتے میں خواب میں بھی انقلاب ہی آتا ہے اور سناٹے و خامشی میں بھی کانوں میں انقلاب انقلاب کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ ہر روز کئی کئی بار انقلاب آنے کی خوشخبری قوم کو یوں سنائی جاتی ہے، جیسے گرمیوں میں چار پانچ گھنٹوں کے بعد لائٹ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہو۔

ہزاروں بار انقلاب کا لفظ سن کر لگتا ہے کہ انقلاب کے خوف سے ہر سماجی برائی اپنی موت آپ مر جائے گی اور دھرتی پر نفرت کی بجائے محبت اور ظلم و بربریت کی بجائے امن و سکون اور انصاف کا راج ہوگا۔ غربت کا خاتمہ ہوجائیگا اور ملک کا ہر شہری دولت میں کھیلے گا۔ یوں تو انسانی زندگی ازل سے مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور دنیا میں ان گنت انقلابات رونما بھی ہو چکے ہیں لیکن یہ ’’انقلاب میاں‘‘ ہیں کیا، یہ بات شاید ’’انقلابی قوم‘‘ کو معلوم نہ ہو لہٰذا اس حوالے سے اگر کچھ بات ہو جائے تو بہتر ہے۔ انقلاب کا لفظ انگریزی کے لفظ “Revolution” اور عربی کے لفظ ’’ثورہ‘‘ کے ہم معنی ہے۔ لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے، تہہ و بالا ہونے اور پلٹنے کو انقلاب کہا جاتاہے۔

محققین کے مطابق شروع میں ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہا جاتا تھا لیکن بعد میں رفتہ رفتہ مروجہ اصطلاح کے لیے استعمال ہونے لگا۔ موجودہ دور میں حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر انقلاب کسی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتا ہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:1۔ انسان فطری طور پر تبدیلی کا دلدادہ ہے، چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی مروجہ نظام سے اکتا کر اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے، 2۔ کوئی بھی مروّجہ نظام جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو انسان اس کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونانی مفکر بابائے سیاست ارسطو کی کتاب ’’سیا ست‘‘ دنیا بھر میں سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک آدرش کا درجہ رکھتی ہے۔384 قبل مسیح میں پیدا ہونے والا ارسطو یونان کا وہ ممتاز فلسفی، مفکر اور ماہر منطق تھا، جس نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی اور سکندر اعظم جیسے شاگرد سے دنیا کو متعارف کروایا۔ 18 سال کی عمر میں اس وقت علم و حکمت کے مرکز ایتھنز چلا آیا۔ یہاں 37 سال کی عمر تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا۔ 53 سال کی عمر میں ارسطو نے اپنے مدینہ الحکمت کی بنیاد ڈالی، جہاں اس نے نظری و کلاسیکی طریقہ علم کی بجائے عملی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ ارسطو پہلا عالم تھا جس نے سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔

لہٰذا سیاست کے پہلے عالم ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: 1۔ ریاست کے مروّجہ آئین میں تبدیلی،2 ۔اقتدار کی منتقلی۔ اسی طرح ارسطو نے انقلاب کی دو بنیادی قسمیں بھی بیان کی ہیں: 1۔ مکمل انقلاب،جس میں معاشرے کے عمومی سماجی ڈھانچے، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی کا وقوع ہو، 2۔ نامکمل انقلاب، جس میں مذکورہ تین نکات میں سے صرف کسی ایک نکتے میں تبدیلی آئے۔

ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین اسباب ہوتے ہیں:1۔ مادی سبب: لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھتا ہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے،2۔ سبب فاعلہ: کچھ لوگ اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں،3۔ سبب غائی: حکومتی ادروں کی من مانی، لوگوں کی بے حرمتی،لوگوں کے احساس عدم تحفظ کی وجہ سے رد عمل۔
ثابت ہوا کہ انقلاب کا لفظ حقوق یا بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی بنیادی تبدیلی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ماضی بتاتا ہے کہ تبدیلی و انقلاب دو طرح کے ہوتے ہیں۔پہلی قسم وہ جو کم عرصے میں واقع ہو، لیکن اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ظاہر ہوئے، جب کہ دوسری قسم وہ جس کے وقوع میں کافی عرصہ لگے، لیکن عوام کو صرف اس کے ثمرات و فوائد حاصل ہوئے۔ پہلی قسم کے انقلاب کی مثالیں یہ ہیں۔ فرانسیسی انقلاب جس میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے۔

روس کا انقلاب جس میں پورے شاہی خاندان کو ان کے ملازموں سمیت تہہ خانے میں لے جا کر فائرنگ کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ’’زار‘‘ بادشاہوں کی قبروں کو کھود کر ہڈیاں تک جلا دی گئی تھیں۔ ایرانی انقلاب جس میں خانہ جنگی پر قابو پانے میں تین برس صرف ہوئے اور یہ تین برس ہزاروں انسانوں کا لہو چاٹ گئے تھے۔

مشرق وسطیٰ میں یکے بعد دیگرے آنے والے انقلابات، جن کا آغاز تیونس سے ایک نوجوان کی خودکشی سے ہوا اور اس کے بعد مختصر مدت میں تیونس، لیبیا، مصر میں حکمرانوں کی بجائے قتل و قتال اور خونریزی کی حکومت قائم ہوگئی۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف انقلابی تحریک شروع ہوئی، جو اب تک دو لاکھ افراد کا خون پی چکی۔ مذکورہ انقلابات کی بدولت ابھی تک یہ ممالک خانہ جنگی کی بھٹی میں دہک رہے ہیں۔ان ممالک کی معیشت تباہ اور سکون غارت ہوچکا ہے۔ آج بھی عوام اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ مختصر مدت میں آنے والی یہ تبدیلی کہنے کو تو انقلاب اور عوام کی فتح تھی، لیکن حقیقت میں بربادی اور عوام کی شکست ثابت ہوئی۔

انقلاب کی دوسری قسم وہ ہے، جس میں عوام کو صرف فوائد حاصل ہوئے اور اس کے اثرات دیر تک عوام کے لیے خوش کن ثابت ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ملایشیا ہے۔ 1980 میںملایشیا میں غربت، افلاس اور بیروز گاری کا راج تھا۔ صرف ٹن، ربڑ اور پام آئل جیسا خام مال باہر بھیج کر ملک کی معیشت کو چلایا جاتا تھا۔ سیاست، معیشت، تعلیم اور ملک کے تمام شعبے دن بدن دم توڑ رہے تھے۔ دوردور تک ملایشیا کے حالات سنبھلتے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے، لیکن قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی، مسلسل محنت کی، اپنے ملک کو اہم صنعتی اور ترقی یافتہ قوم میں بدلنے کا ایجنڈا پیش کیا، ریاست، آئین اور قانون کی پاسداری اپنے اوپر لازم کی۔ نظم و ضبط ہر ایک پر لازم قرار دیا گیا۔ اس ملک کا حال دیکھتے دیکھتے بدلنے لگا۔

ملایشین قوم نے مسلسل 22سال محنت کی۔ 2003 میں جو ملک صرف خام مال پر اپنا گزارا کرتا تھا ، وہی ملایشیا ٹیکنالوجی اور سروس انڈسٹری کے باعث ایک سو بلین ڈالر کی برآمدات کرنے لگا۔ 2300 ڈالر فی کس آمدنی کمانے والا ملایشیا 9ہزار ڈالر کمانے لگا۔ غربت کا نام و نشان مٹ گیا۔ تعلیم سے محروم 92فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے۔

ملایشیا کی سیاست مستحکم اور معیشت مضبوط ہوگئی۔ اسی انقلاب کی ایک مثال ترکی بھی ہے، جو 2001تک اقتصادی بحران میں اس بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ کھلے بازار میں ترکی کرنسی لیرا کی فروخت بڑھ گئی۔

جس کے باعث حکومت کو لیرا کی قیمت میں 40 فیصد تک کمی کرنا پڑی، ساتھ ہی شرح سود اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور روزگار کے مواقع کم ہونے لگے، ملک غیر ملکی قرضوں پر چلنے لگا، لیکن ترک قوم نے انقلاب لانے کی ٹھانی اور 2002کے بعد شروع ہونے والے انقلابی سفر کی بدولت ترکی آج دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ انقلاب کی ان دو قسم کی مثالوں کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کی طرز پر سول نافرمانی اور مار کٹائی والا انقلاب چاہیے یا ملایشیا اور ترکی کی مثل پر امن اور فائدہ مند انقلاب چاہیے۔

عابد محمود عزام

حکومت کے پاس کیا بچا ہے؟.....


پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے کور کمانڈرز کانفرنس نے اتوار کی شام ایک ہنگامی اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’طاقت کا استعمال مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر عدم تشدد کے ساتھ بحران کو سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہیے۔‘
مبصرین اس بیان کا مطلب یہ لے رہے ہیں کہ پاکستانی فوج نے ملک میں جاری سیاسی بحران میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنا وزن بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے اس بیان کے بعد بھی فریقین ابھی تک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کی جانب سے یہ بیان جاری ہونے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے استعفٰے پر کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
عرفان صدیقی وزیراعظم کے ان چند معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے وزیراعظم مسلسل رابطے اور مشورے میں رہتے ہیں۔ عرفان صدیقی اتوار کے روز وزیر اعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اس اجلاس میں بھی شامل تھے جس میں اس بحران پر غور کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ حکومت نے ابھی تک کسی بھی فورم یا موقع پر وزیراعظم کے مستعفیٰ ہونے کے امکان پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس موضوع پر کسی بھی جماعت سے مذاکرات کا ارادہ ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے نائب سربراہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو اتوار کی شام بتایا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات فی الحال خارج از امکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے کے علاوہ کوئی اور تجویز ان کی جماعت کو احتجاج سے نہیں روک سکے گی۔
اگر حکومت احتجاجی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر نہ لا سکے اور اس کے پاس مظاہرین کو وزیراعظم ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا آپشن بھی موجود نہ ہو تو اس کے پاس کیا امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟

یا تو مظاہرین کے ہاتھوں حکومت کی رٹ کا بالکل خاتمہ، یعنی ملک میں حکمرانی کا سنگین بحران اور دوسرا نواز شریف کے استعفے یا رخصت پر چلے جانے پر بات چیت۔
حکومت اب ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سے اپنے لیے کامیابی کا کوئی راستہ نکالنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔

آصف فاروقی

 

ساٹھ برس پرانی تازہ کہانی.....


یہ کہانی اس سال کی ہے جب ڈاکٹر طاہر القادری پیدا ہوچکے تھے اور عمران خان کی پیدائش میں ابھی ایک سال باقی تھا۔
ایران میں جواں سال رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت نئی نئی تھی۔ شاہ نے 1951 میں عوامی دباؤ کے تحت عام انتخابات کروائے جن کے نتیجے میں قوم پرست رہنما محمد مصدق وزیرِ اعظم بن گئے۔
 
محمد مصدق نے سب سے پہلے تو دو تہائی پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر وزیرِ دفاع اور بری فوج کے سربراہ کی نامزدگی کے اختیارات شاہ سے واپس لے لیے۔ پھر شاہی خاندان کے سالانہ ذاتی بجٹ میں کمی کر دی، پھرشاہی زمینیں بنامِ سرکار واپس ہوگئیں۔

زرعی اصلاحات کے ذریعے بڑی بڑی جاگیرداریوں کو کم کر کے کسانوں میں ضبط شدہ زمینیں بانٹنے کا سلسلہ شروع ہوا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایرانی تیل پر اینگلو ایرانین کمپنی کا 40 سالہ اختیار ختم کر کے تیل کی صنعت قومیا لی۔
چنانچہ ایسے خطرناک محمد مصدق کو چلتا کرنے کے لیے شاہ، برطانوی انٹیلی جینس ایم آئی سکس اور امریکی سی آئی اے کی تکون وجود میں آئی اور مصدق حکومت کے خاتمے کا مشترکہ ٹھیکہ امریکی سی آئی اے نے اٹھا لیا۔ سی آئی اے نے اس پروجیکٹ کے لیے دس لاکھ ڈالر مختص کیے اور یہ بجٹ تہران میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف کرمٹ روز ویلٹ کے حوالے کر دیا گیا۔

ایرانی ذرائع ابلاغ میں اچانک مصدق کی پالیسیوں پر تنقید میں تیزی آگئی۔ ملک کے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے شروع ہوگئے۔ از قسمِ راندۂ درگاہ سیاست دانوں کا ایک اتحاد راتوں رات کھڑا ہو گیا جس نے ایک عوامی ریفرینڈم کروایا۔

ریفرینڈم میں حسبِ توقع 99 فیصد لوگوں نے مصدق حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان نتائج کو کچھ مقامی اخبارات نے یہ کہہ کر خوب اچھالا کہ مصدق حکومت کا اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ جب وزیرِ اعظم مصدق نے اس اچانک سے ابھرنے والی بے چینی کو مسترد کر دیا تو پھر کام میں اور تیزی لائی گئی۔
تہران کے ایک مقامی دادا شعبان جعفری کو شہری باشندے منظم کرنے اور رشیدی برادران کو تہران سے باہر کے ڈنڈہ بردار قبائلی دارالحکومت پہنچانے اور ان کے قیام و طعام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ دارالحکومت میں ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی جلوس روز نکلنے لگے۔ بازاروں میں مصدق کے حامیوں کی دوکانیں نذرِ آتش ہونے لگیں۔ تصادم شروع ہوگئے۔ 15 روز کے ہنگاموں میں لگ بھگ تین سو لوگ ہلاک ہوئے اور مصدق مخالفین نے سرکاری عمارات کو گھیر لیا۔

ایران میں شورش

رشیدی برادران کو تہران سے باہر کے ڈنڈہ بردار قبائلی دارالحکومت پہنچانے اور ان کے قیام و طعام کے لیے وسائل فراہم کیے گئے۔ دارالحکومت میں ہزاروں افراد پر مشتمل احتجاجی جلوس روز نکلنے لگے۔ بازاروں میں مصدق کے حامیوں کی دوکانیں نذرِ آتش ہونے لگیں۔ تصادم شروع ہوگئے۔

چنانچہ رضا شاہ پہلوی کو مصدق حکومت کی رٹ ختم ہونے پر ریاست بچانے کے لیے مجبوراً مداخلت کرنا پڑی اور 16 اگست 1953 کو جنرل فضل اللہ زاہدی کو عبوری وزیرِ اعظم نامزد کرکے معزول محمد مصدق کو نظر بند کر دیا گیا۔اگلے روز تہران ایسا نارمل تھا گویا یہاں 24 گھنٹے پہلے کسی کی نکسیر تک نہ پھوٹی ہو۔

اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس وقت محمد مصدق کی کہانی بیان کرنے کا مقصد آخر کیا ہے اور اس کا آج کے پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ کیا میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ سیاسی ہنگام سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی سازش ہے؟
بخدا قطعاً نہیں۔ دنیائے سازش میں پرانا نیا کچھ نہیں ہوتا۔ فارمولا اگر مجرب و موثر ہو تو 60 برس بعد بھی کام دے جاوے ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کے منصوبے ایم آئی سکس اور سی آئی اے وغیرہ کی میراث تھوڑی ہیں۔ ایسے منصوبے تو ثوابِ جاریہ کی طرح کہیں کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی وقت تھوڑی 
بہت ترمیم کے ساتھ حسبِ ضرورت استعمال کر سکتا ہے۔

اب جو ہو سو ہو مگر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا بطورِ خاص شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مورخ کا کام خاصا آسان کر دیا ہے۔

یہ محتسب، یہ عدالت تو اک بہانہ ہے
جو طے شدہ ہے وہی فیصلہ سنانا ہے

وسعت اللہ خان

’جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو روکا جائے‘.....End enforced disappearances in Pakistan..


انٹرنیشنل کمشین آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹریشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ ملک بھر میں ریاستی اداروں کے ذریعے اغوا ہونے والے افراد کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے کے اقدامات کرے۔

ان اداروں کی جانب سے یہ اپیل ایسے وقت کی گئی ہے جب دنیا میں جبری طور 
پر لاپتہ ہونے والوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے 
افراد سے انصاف کرنے کے بارے میں دی جانے والی واضح ہدایات اور اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی سنہ 2012 میں دی جانے والی سفارشات کے باوجود پاکستان کی حکومت نے بین لاقوامی قانون اور آئینِ پاکستان کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بہت کم کام کیا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق ان تین بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، ان جرائم کو مرتکب کرنے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی تلافی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ان تین اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔
 
حکومتِ پاکستان نے تحفظِ پاکستان بِل سنہ 2014 پاس کیا جو جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کی نامعلوم مقامات پر حراست کو درست اور اس میں ملوث سرکاری ایجنٹوں کو استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔"

بین الاقوامی تنظیمیں

ان تین اداروں کے مطابق یہ اقدامات انصاف کو یقینی بنانے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پر شدید شکوک و شبہات ڈالتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں جبری گمشدگیوں کا باقاعدہ سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان میں سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو جبری طور پر اغوا کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اکثر افراد کو مار دیا جاتا ہے اور ان کے جسموں پر تشدد اور گولیوں کے نشانات پائے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے شروع میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد زاہد بلوچ کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے میبنہ طور پر اغوا کیا تھا جو جبری گمشدگیوں کے ان واقعات پر مبینہ طور پر ملوث ہے۔
گمشدہ افراد کے رشتہ داروں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ان افراد کی رہائی کے لیے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے احتجاج اور اپیلوں کے باوجود، حکام ان کے اغوا کی شفاف تحقیقات کرنے اور ان جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹرے میں لانے کے لیے میں ناکام رہے ہیں۔

End enforced disappearances in Pakistan

پاکستان میں میکسیکو طرز کا سیاسی ٹاکرا......


پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ان دنوں میکسیکو کے اس روائتی سیاسی ٹکراو کا ماحول ہے جس میں کوئی فریق بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما عمران خان، جن کے نامزد کردہ سیاسی رہنما شریف حکومت کی مذکراتی ٹیم کے ساتھ ایک سے زائد بار بات چیت کر چکے ہیں لیکن عملا مذاکراتی عمل معلق ہے۔ ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد ہو سکا نہ کوئی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ دے سکا ہے.

تحریک انصاف کے عمران خان کے علاوہ شعلہ بیان مقرر ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ وہ بھی پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے براجمان ہیں۔ دونوں نے وزیراعظم نواز شریف پر الزامات کا ایک طرح سے طومار باندھ دیا ہے۔ طرح طرح کے الزامات لگانے والے یہ احتجاجی رہنما مئی 2013 کے عام انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کرکے بر سر اقتدار آنے والے وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ آزاد عالمی انتخابی مبصرین نے مئی 2013 کے عام انتخابات کے حوالے سے ایک طرح سے کلین چٹ دے دی تھی کہ پاکستان کے یہ انتخابات ہر طرح سے شفاف اور غیر جانبدارانہ ماحول میں ہوئے ہوئے تھے۔
لیکن دونوں احتجاجی رہنما بضد ہیں کہ وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفا دلوا کر ہی اسلام آباد سے واپس جائیں گے۔ دونوں نواز شریف پر نہ صرف انتخابی دھاندلیوں کے بلکہ اقربا پروری اور کرپشن کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں۔

بھاری ووٹوں سے جیت کر آنے والے وزیر اعظم کا استعفا لیے بغیر واپس نہ جانے کا کھلا اعلان کرنے والے عمران خان دوسرے احتجاجی طاہر القادری سے زیادہ سخت موقف رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کا لہجہ بیک وقت نیم خوشامدانہ اور دھمکی آمیز ہوتا ہے ان کا کہنا ہے اگر مظاہرین پر پولیس نے حملہ کیا گیا تو سخت ردعمل ہو گا۔ عمران خان نے اسلام آباد کے نئے پولیس چیف کو بھی اس حوالے سے بطور خاص خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاون نہیں ہونا چاہیے۔

جب یہ ڈرامہ جاری ہے نواز شریف کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے لیے موجود آپشنز اور اپنے ممکنہ جواب کی تیاری کریں۔ وہ بہرحال ایک منتخب وزیر اعظم ہیں۔ یہ ایک آسان معاملہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں ریلیوں سے نمٹا جائے، ایم کیو ایم کے کراچی میں ٹارگٹ کلرز کے ساتھ نرمی اختیار کی جائے، بلوچستان میں بدامنی کے چیلنج سے نمٹا جائے۔ اس صورت حال میں میاں نواز شریف عملا تنہا کھڑے ہیں۔ لیکن پاکستان کے تحفظ کے لیے انہیں اس طرح کے خوف پر حاوی ہونا ہو گا اور فیصلہ نہ کر سکنے والی کیفیت سے نکلتے ہوئے انہیں دانش مندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔

میاں نواز شریف کو جن حالات کا سامنا ہے 1952 میں اسی سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا مغربی دنیا کے مارشل ول کین کو گیری کوپر سے تھا۔ امریکی فلم ہائی نون کے اس ہیرو نے بھی تنہا حزب اختلاف کا مقابلہ کیا تھا کہ اس کے شہر کے لوگ بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے اس صورت حال کا قوم کے مستقبل پر مثبت اثر ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب عمران اور قادری دونوں ''تیسرے فریق'' کے بھی منتظر ہیں جبکہ پاکستان کی فوج اس منظر نامے کو بڑے اضطراب کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ بہت سارے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ فوج بیچ میں آنے یا مداخلت کرنے سے بچ رہی ہے کیونکہ فوج پہلے ہی ملکی سحدوں کی حفاظت کرے کے لیے دشت گردوں کے خلاف جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ اس ناطے بہت کچھ خطرات کی زد میں ہے۔ ملکی معیشت افراتفری اور بے یقینی کی وجہ سے نیچے کی طرف ہے۔ اس لیے پاکستان کا بہترین مفاد اس بات میں ہے کہ بامعنی مذاکرات کیے جائیں۔

عمران خان کی جماعت جو کہ عوامی شکایات اور مسائل کی بات کرتی ہے اسے چاہیے کہ وہ عوام کی حقیقی مشکلات اور مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے بتدریج اصلاحات کی طرف بڑھنا ہو گا۔ حکومت کو عوام کو شفافیت کا یقین دلانا ہوئے کرپٹ عناصر کا سرکاری اداروں سے قلع قمع کرنا ہو گا۔ طاہرالقادری کو واپس کینیڈا آنا ہو گا۔ میرے خیال میں طاہرالقادری کی شہرت ہے کہ وہ شہرت کی ہوس کا شکار ہیں۔ ان کی ''بغاوت'' شہرت کی خواہش کے ساتھ عبارت سمجھی جاتی ہے۔ جس کا مقصد صرف افراتفری پھیلانا ہو سکتا ہے۔

لیکن پاکستان ان حالات میں کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ دونوں محب وطن رہنماوں کو کچھ زیادہ بہتر پیش کش کریں تاکہ وہ ملک و قوم کی زیادہ خدمت کر سکیں۔ ہمیں امید اور دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس صورتحال سے اوپر کو اٹھیں گے اور بچ نکلیں 
گے، نیز اپنے ملکی مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔

خالد المعینا

Imran Khan and Tahirul Qadri 

۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں.......


دھرنے پر رفتہ رفتہ یکسانیت نے دھرنا دے دیا ہے۔ہز ماسٹر وائس کے گھومنے والے ریکارڈجیسی تقاریر سن سن کے میری ٹی وی اسکرین تو جمائیاں لے رہی ہے۔ یہ حال ہوگیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ بس کہتا ہوں دھرنا اور ٹی وی مجھے گھورتے ہوئے آن ہوجاتا ہے۔مجھے سب سے زیادہ فکر ان سیکڑوں دھرنا بچوں کی ہے جن کے اسکول کھل گئے ہیں مگر وہ پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھے ع سے عمران ، ط سے طاہر ، ن سے نواز ، گ سے گو اور د سے دھرنا پڑھ رہے ہیں۔سب منتظر ہیں کب نو من تیل جمع ہوگا کب رادھا ناچے گی۔

ہمارے دوست سلمان آصف کے فیس بک پیج پر لگی ایک تضمین کے مطابق ،

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
ریڈ زون میں دھرنا ہے اور ناچ کے جانا ہے

جو دھرنے سے باہر ہیں انھوں نے بیانات کے چھولوں، ٹاک شوز کے چپس، موقع پرستی کے کھلونوں ، بڑھکوں کے دہی بڑے ، مصالحانہ لہجوں کے جھمکوں ، دھمکیوں کے بن کباب اورگالم گلوچ کی کڑاہی کے اسٹال لگا لیے ہیں۔شاہراہوں پر جو کنٹینرز اب تک پکڑے نہیں جاسکے وہ پولیس سے ایسے چھپ رہے ہیں جیسے بلیک اینڈ وائٹ دور کی پنجابی فلموں کی مٹیار ولن سے بھاگتی ہے۔

اگر زندگی دھرنا فری ہوتی تو بہت سی ایسی خبریں بھی ریڈار پر چمک سکتی تھیں جن پر دھرنا پورے وزن کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔جیسے شمالی وزیرستان کا آپریشن اور اس سے متاثر ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی نہ ختم ہونے والی مصیبتیں میڈیا اور ناظرین و قارئین کے ذہن سے دم دبا کر بھاگ نکلی ہیں۔اب تو آئی ایس پی آر نے بھی فوجی آپریشن پر روزانہ کا مختصر سا پریس ریلیز جاری کرنا بند کردیا ہے۔جب نشر اور شایع ہی نہیں ہونا تو خامخواہ کاغذ ضایع کرنے کا فائدہ۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں نامعلوم افراد کی اجتماعی قبروں کی جانچ کرنے والے کمیشن کی رپورٹ میںذمے داروں کے تعین میں ناکامی کی خبر اگر عام دنوں میں سامنے آتی تو کم ازکم دو تین روز ضرور نشریاتی اور چائے خانی چہ میگوئیاں ہوتیں لیکن یہ خبر بھی ریٹنگ کی اجتماعی قبر میں دفن ہو کے رہ گئی۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی دستوں کے درمیان جھڑپیں اور آپریشن پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرچکے ہیں۔کوئٹہ ایئرپورٹ پر ناکام حملہ ہوچکا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی خبر دھرنے سے بڑی نہیں۔

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کی پاکستانی سفارت کاروں سے معمول کی ملاقات کو جواز بنا کر خارجہ سیکریٹریوں کا مجوزہ اجلاس یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا۔خود بھارت کے اندر مودی حکومت کے اس اقدام پر حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جب کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔

کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اکثریت حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ حکمتِ عملی پر کام کررہی ہے۔بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے تحت کشمیر کو حاصل خصوصی تحفظات ختم کرکے کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ایک ریاست بنانے کی بھی تیاری جاری ہے۔عام دنوں میں یقیناً پاکستان میں سرکاری و نجی سطح پر اس پیش رفت کی بابت کچھ نہ کچھ بحث و مباحثہ ضرور ہوتا مگر دھرنا۔۔۔۔۔

انھی دنوں میں ہونے والے مالدیپ اور سری لنکا کے صدور کے طے شدہ دورے بھی آگے بڑھا دیے گئے۔ چین کے اعلی سطح کے وفد نے بھی پہلے بستر بند باندھا پھر یہ کہتے ہوئے دوبارہ کھول دیا کہ تسی دھرنیاں تو نبڑ لوو ساڈی خیر اے۔

صرف ایک جماعتِ اسلامی ہے جو دھرنوں کے رعب میں آئے بغیرغزہ کے فلسطینوں کے حق میں کسی نہ کسی شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالتی رہتی ہے۔لیکن کراچی میں ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی غزہ ریلی کو بھی دھرنا چبا گیا۔کیونکہ کراچی کے بیشتر کیمرے بھی ان دنوں ڈی چوک میں ہی فلمیا رہے ہیں۔
لگتا ہے ڈی چوک کے باہر پورے پاکستان میں خیریت ہے۔کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ دو سطری خبر ہوگئی ہے۔جرائم کا گراف بری طرح منہ کے بل گرا ہے۔پولیو کی ٹیمیں ہنستے گاتے ویکسین بانٹ رہی ہیں۔طالبان چھٹی لے کر کسی پرفضا مقام پر آرام کررہے ہیں۔اسپتالوں کے خالی بستر مریضوں کی راہ تک رہے ہیں۔ اسکولوں میں مسلسل چھ گھنٹے کلاسیں ہورہی ہیں۔ سڑک کے حادثات ماضی بن چکے ہیں۔تمام سرکاری ملازمین نو سے پانچ تک اپنی اپنی میزوں پر فائلوں میں گم ہیں۔دھاڑی مزدوروں کے پاس اچانک سے اتنا کام آگیا ہے کہ ان کے نخرے ہی نہیں سما رہے۔سچ ہے تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔

مجھے یہ اندازہ تو نہیں کہ حالات پکی سڑک کی جانب جارہے ہیں کہ کسی ایسی پگڈنڈی پر چڑھ چکے ہیں جو گھنے جنگل میں جا کر کہیں گم ہوجائے گی۔مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک جو بھی کچھ ہوا اس میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہے۔گولیاں اگر چل بھی رہی ہیں تو منہ سے۔سینے چھلنی بھی ہو رہے ہیں تو طعنوں سے۔تصادم ہو بھی رہا ہے تو فیس بک اور ٹویٹر کے ہتھیاروں سے۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پرائی آگ پر ہاتھ تاپنے اور کیک میں سے اپنا حصہ لینے سے زیادہ کیک بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔چیخنے والے بھی مارشل لا کے خلاف ہیں اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھنے والے بھی مارشل لا نہیں چاہتے۔خود مارشل لا والے بھی مارشل لا کی نوبت سے بچنا چاہتے ہیں۔مخالفین ایک دوسرے کو زخمی ضرور کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی کسی کو مارنا نہیں چاہتا۔دل میں البتہ یہ خواہش ہے کہ سامنے والے کو پھانسی لگ جائے لیکن رسے سے نہیں بلکہ خودکشی کے دوپٹے سے۔

اس سے بھی زیادہ مثبت پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی موجودہ پاکستان نہیں چاہتا۔سب نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہیں۔اگر بن گیا تو سینتالیس کے جناحی، اٹھاون کے ایوبی، اکہتر کے ذوالفقاری، ستتر کے ضیائی اور ننانوے کے مشرفی پاکستان کے بعد یہ چھٹا نیا پاکستان ہوگا۔لیکن اگر چھٹے پاکستان میں بھی گذشتہ پاکستانوں کی طرح بیڈ روم فوج ، ڈرائنگ روم پنجاب ، باورچی خانہ سندھ ، دالان خیبر پختون خواہ ، واش روم بلوچستان اور چھت گلگت بلتستان اور فاٹا کو الاٹ ہوئی تو پھر ساتویں پاکستان کا نقشہ بھی ابھی سے تیار رکھیں۔۔۔

وسعت اللہ خان

 

سول نافرمانی کا اعلان......Imran Khan calls for civil disobedience


 جب لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو عقل و خرد پر مبنی تجزئیے پس پشت چلے جاتے ہیں، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبوں کے سیلاب میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے''۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ، مطالبات اور طرز عمل کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے مگر چار روز سے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کاروں کا انداز فکر کیا ہے؟ اک گو نہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔

یہ دعویٰ اور خواہش اپنی جگہ کہ فلاں، فلاں اتنا بڑا ہجوم اسلام آباد میں لا بٹھائے تو کیا ہو؟ مگر سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کی دو شاہراہوں پر علامہ اور کپتان کے پرجوش، پرعزم ا ور ثابت قدم کارکنوں کا قبضہ ہے۔ دونوں لیڈر دس لاکھ افراد اکٹھے نہ کرسکے مگر ان کی موجودہ جمع پونجی بھی مایوسی، اضطراب اور جذبات کی رو میں بہہ کر ریڈ زون کا ’’تقدس‘‘ پامال کرنے اور موجودہ سیاسی بندوبست کا تیا پانچہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ماڈل ٹائون جیسا کوئی انسانی المیہ رونماہوا تو مداخلت سے ہر قیمت پر گریز کی علمبردار قوتوں کو اپنا فرض ادا کرنے پڑیگا جس کا احساس سراج الحق، خورشید شاہ اور الطاف حسین کو تو شاید ہے مگر جن کا سب کچھ دائو پر لگا ہے انہیں نہیں یا کم ہے ورنہ چار روز سے بے نیازی دیکھنے کو نہ ملتی۔

عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان میری ناقص رائے میں نہ کوئی غیر سنجیدہ حرکت ہے نہ دھرنے سے جان چھڑانے اور چھوٹی موٹی رعایت لے کر پسپا ہونے کی باعزت تدبیر۔ یہ کور کمیٹی میں طویل بحث مباحثے کا نتیجہ اور موجودہ سیاسی نظام سے چمٹے رہنے کے خواہش مند اپنے ساتھیوں کو احتجاج کے سمندر میں دھکا دینے کی چال ہے۔

بجا کہ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا ،صنعتکاروں ، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی موثر تائید و حمایت اسے حاصل نہیں اور عام آدمی بھی بجلی، گیس کا بل نہ دے کر گھر کا کنکشن کٹوانے کا متحمل نہیں۔1977ء میں پی این اے نے سول نافرمانی کا اعلان احتجاجی تحریک کے دوران اس وقت کیا جب کاروبار ریاست عملاً معطل تھا اور حکومت مفلوج و بےبس عوام لیڈر شپ کی بات ماننے پر تیار اور بھٹو کی ظالمانہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب صنعتکاروں ، تاجروں اور سرکاری ملازمین کی اکثریت سول نافرمانی پر آمادہ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس اعلان سے حکومت کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور بین الاقوامی برادری ایک معقول لیڈر کی طرف سے جو امریکہ و یورپ میں بھی جان پہچان رکھتا ہے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدگی سے لے گی۔ سرمایہ کار بھی حکومت کی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ اسی تناظر میں منسوخ ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات واضح ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حامی اور حکومت کے مخالف صنعتکاروں ،تاجروں اور سرمایہ کاروں کا طرز عمل بھی فیصلہ کن ہو گا‘‘ خیبر پختونخوا کی حکومت نے وفاقی محاصل اور بجلی و گیس کے بل کی وصولی سے انکار کردیا تو میزائیے کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام وزارت خزانہ کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی اور قومی معیشت کا خسارہ 500 ارب سے کئی گنازیادہ ہو گا۔ 500 ارب روپے خسارے کا تخمینہ حکومتی اکابرین پیش کر رہے ہیں۔

یہ اعلان تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش بھی ہے لوگوں کو سرکاری ٹیکس، بجلی گیس کے بل نہ دینے کا اعلان کر کے اخلاقی اور قانونی طور پر خیبر پختونخوا کی حکومت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حکومتی محاصل اور بل ادا کرنے سے انکار مگر خود قومی خزانے سے تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے رہنا وہ دو عملی ہو گی جو عمران خان کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اب فی الفور اسمبلیوں سے استعفے اور کے پی کے حکومت کے خاتمے میں تحریک انصاف کی بچت ہے شاید عمران خان نے یہی مقصد حاصل کرنے کے لئے کور کمیٹی سے ذو معنی فیصلہ کرایا اور پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کو ناک آئوٹ کر دیا۔

میاں نواز شریف، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان تینوں ان دنوں حالات کے جبر کا شکار ہیں اور ایک ایسی اعصابی جنگ میں مصروف جو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کے زخم خوردہ ہیں اور ان کے کسی دعوے، یقین دہانی پر اعتبار کرنے سے قاصر۔ جو پوزیشن یہ دونوں لے بیٹھے ہیں اس سے پیچھے ہٹنا ان کے لئے سیاسی خود کشی ہے ہر گزرتے دن اور لمحے کے ساتھ یہ مصالحت اور مفاہمت کے عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ قوت برداشت ، توازن و اعتدال اور آئین و قانون کی پابندی سے عاری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کی سڑکوں پر قابض سیاسی و مذہبی کارکن نامہربان موسم، مسلسل بے آرامی، حکومت کی سرد مہری اور دانشوروں کی طرف سے طنز و تضحیک کے سبب کسی وقت بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

کارکنوں کا زیادہ دنوں تک قیام اور عمران و طاہر القادری کے دھرنوں کا ایک دوسرے میں ادغام موجودہ سٹیٹس کو کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتا ہے مگر تاحال حکومت کمیٹیوں کی تشکیل میں مصروف ہے اور اس کے وزراء اپنے بیانات کے ذریعے لانگ مارچ کے قائدین اور شرکاء کو اشتعال دلانے میں مشغول ۔کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ سڑکوں پر گوشت پوست کے انسان بیٹھے ہیں فولادی مجسمے نہیں کہ زبان کے زخم سہتے رہیں گے اور کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کریں گے۔ اب تک حکومت نے اپنے تساہل پسندانہ رویے، ناقص طرز حکمرانی اور اپوزیشن کے مطالبات سے چشم پوشی و بے نیازی سے بگاڑ کی راہ ہموار کی مگر اب غلطی کی گنجائش نہیں اور کسی غیر آئینی و غیر جمہوری اقدام کی راہ روکنا اس کی ذمہ داری ہے اور تاخیر نقصان دہ ہوگی۔

 مارشل لاء کے نفاذ کے بعد برطانوی اخبار ''ڈیلی ٹیلیگراف'' نے لکھا  مسٹر بھٹو کو جو ملک کے واحد سربرآوردہ سیاستدان ہیں اس کارروائی کا الزام قبول کرنا چاہئے۔ اپوزیشن والے تو سارے کے سارے کمزور لوگ تھے انہیں بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاسکتا تھا''۔ 6 جولائی 1977ء لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو تجزیوں اور تبصروں کی نہیں عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبات میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے مگر کوئی سمجھے تو!

ارشاد احمد عارف
بہ شکریہ روزنامہ ''جنگ 

Imran Khan calls for civil disobedience

مسلم لیگ نواز کدھر ہے.......


پچھلے ہفتے کے بعد سے حیران کن واقعات جن میں چند ایک بالخصوص حیرت انگیز ہیں۔ احتجاجی دھرنوں اور ان کے ساتھ منسلک مقاصد کے حصول کے لیے اپنایا جانے والا لائحہ عمل ان میں سے ایک ہے۔ تشدد کے پیٹ سے جمہوریت کا دھیما بچہ کیسے جنم لے گا۔ تاریخ اور دنیا بھر میں موجود تحقیق اور دانش مندی اس پر جو رائے رکھتی ہے تحریک انصاف اور حضرت قادری خود کو اس پر بھاری سمجھتے ہیں۔

تحریک انصاف دس لاکھ کے بجائے چند ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کیوں پہنچی۔ ڈاکٹر قادری کو کینیڈا سے کس چیز نے دوسری مرتبہ پاکستان کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ ان دونوں واقعات کا آپس میں تعلق نہ بھی ہو تب بھی جس تیزی سے انھوں نے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا وہ بھی حیرانی کا باعث ہے۔
عمران خان ایک ہزار سے زیادہ نشستوں پر مبنی انتخابات میں سے دو شریفوں کو گریبان سے پکڑ کر کس قاعدے کے تحت نکالیں گے کہ وزیر اعظم کی کرسی بھی خالی ہو جائے اور نظام مکمل درہم برہم اور تباہ بھی نہ ہو۔ یہ حیرت کا پہلو بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ عین ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں کچھ اور اوسان خطا کر نے والے واقعات رونما ہو چکے ہوں۔ عمران خان ریڈ زون کو پار کرنے کی دھمکی پر عمل درآمد بھی کر سکتے ہیں۔ مگر حالات جس طرف جا رہے ہیں اس میں سے فساد کے بغیر کوئی خاص نتیجہ برآمد ہونے کی امید کم ہے مگر سب سے بڑی حیرانی مسلم لیگ نواز کی سیاسی نااہلی ہے۔
یہ بات میں کئی کالمز میں بیان کر چکا ہوں کہ جو حکومتیں بہترین کارکردگی پر بجا طور پر فخر کرتی ہیں وہ سیاسی چیلنجز کو احسن طریقے سے نمٹا لیتی ہیں۔ نواز لیگ نے 2013 کے انتخابات کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی کی کھدائی کے بجائے عوامی فلاح کے حقیقی منصوبے بنائے ہوتے تو آج ان کے قدم گڑھے کے کنارے پر نہ تھرتھراتے۔ لیکن سیاسی طور پر ناقص کارکردگی سے بڑھکر حماقت مسلم لیگ کو بطور سیاسی جماعت غیر فعال کرنا ہے۔

یہ جانتے بوجھتے ہوئے یا اس انداز کا نتیجہ ہے جو نواز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنایا۔ شاید یہ دونوں عناصر نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہو مگر حاصل ایک ہی ہے۔ نواز لیگ اس مشکل وقت میں بطور سیاسی جماعت آپ کو کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ ایک غیر معمولی پہلو ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو جب بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اپنی جماعتوں کو بطور فصیل استعمال کیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات اور بدعنوانی کے الزامات پر پیپلز پارٹی جماعتی قوت کو بروئے کار لا کر ان کے لیے تحفظ کا باعث بنی۔

وہ ایک طاقت ور صدر تھے مگر جب حالات خراب ہوئے تو جماعت آگے اور وہ پیچھے تھے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین پر حالیہ مشکل وقت میں ان کے لیے سب سے موثر سیاسی ہتھیار ثابت ہوئی۔ پاکستان میں احتجاج ہو یا اپنے قائد کے نقطہ نظر بیان کر نے کا معاملہ ہر جماعت کے ممبران وہ چپو فراہم کرتے ہیں جن کے ذریعے کشتی مشکل پانیوں میں سے نکالی جا سکتی ہے۔ وہ عسکری آمر جو طاقت کے تمام ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں سیاسی منجدھار میں پھنسنے کے بعد جماعتوں کو ڈھال بناتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک جماعت بنانی پڑی۔

جنرل مشرف کے لیے ق لیگ کارآمد ثابت ہوئی۔ ضیاء الحق کے لیے جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتیں کارآمد سیاسی اثاثہ بنی۔ پاکستان تحریک انصاف کا لائحہ عمل اس دیرینہ حقیقت کی ایک اور بڑی مثال ہے۔ اپنی تمام تر مقناطیسی شخصیت اور قد کاٹھ کے باوجود عمران خان کو اپنی سیاسی قوت بڑھانے کے لیے تحریک انصاف کو بنانے اور بعد میں نشو و نما دے کر ایک ایسے قلعہ میں تبدیل کرنا پڑا جس میں وہ اب بیٹھ کر اپنے مخالفین پر حملے بھی کر سکتے ہیں اور وزیر اعظم بننے کی دیرینہ خواہش کو پورے کرنے کے لیے منصوبہ بندی بھی کر سکتے ہیں۔ افراد یا گروہ چاہے کتنے ہی طاقت ور ہوں سیاسی پلیٹ فارم ان کی بنیادی اور سب سے اہم ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف نے اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ مرکزی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلائے کئی سال ہو گئے ہیں۔ وہ پچاس ممبران جو اصولی طور پر اس جماعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں پاکستان کے ہر حصے میں ہر کسی سے مل کر شکایتیں کرنے اور خاموشی سے منہ بسورے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی شکایت ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو جماعت سے اتنا دور کر دیا ہے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی وہ ان سے اتنے دور لگتے ہیں کہ وہ پاکستان سے دور ہوں۔

وہ مشاورت جو کسی زمانے میں جماعت کے اندر مختلف معاملات پر سامنے لانے کا بندوبست کرتی تھی اب کور کمیٹی کے ہاتھ میں ہے۔ کور کمیٹی کے اراکین اسحاق ڈار، پرویز رشید، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور کبھی کبھار چوہدری نثار وہ لوگ ہیں جو وزیر اعظم سے ویسے ہی ہر وقت ملتے رہتے ہیں۔ مگر وہ مشورے جو قریبی پیاروں سے ہٹ کر بطور سیاسی لیڈر نواز شریف صاحب کو سننے چاہئیں اب صرف نجی محفلوں میں گپ شپ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف سیاسی میدان میں ہونے کے باوجود نہتے کھڑے ہیں۔ عمران خان کی طرف سے ہر دوسرے لمحے ان کو گھروں سے نکال کر ملک سے بھگا نے کی بات ہوئی ہے اور اس کا جواب صرف ٹی وی ٹاک شوز پر سننے میں آتا ہے۔ سیاسی کارکن اور درمیانی قیا دت گوجرانوالہ میں مخالفین پر پتھر مار کر اپنا غصہ نکالنے پر مجبور ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے لیڈر سے دور پرے پہاڑ پر کھڑے ہو کر اس کی درگت بنتا ہوا دیکھ رہی ہے۔

یہ ناممکن ہے کہ میاں نواز شریف کو پارٹی سے حاصل کردہ تحفظ کی اہمیت کا احسا س نہ ہو مگر اپنی جماعت کو اس کے باوجود سرد خانے میں ڈال کر بے جان کر دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یا تو میاں نواز شریف، عمران خان کی طرف سے پھینکے جانے والے پتوں کی کاٹ اور اثرات کو بھانپ نہیں رہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ ظاہرا ان کے اچھے تعلقات کے بعد ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ یا پھر عمران خان کی دھمکیوں کو محض بڑھکیں سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ یا پھر وہ اس مرتبہ اپنے اقتدار کو سیاسی کیریئر کی آخری قسط سمجھ کر طاقت میں رہنے یا نہ رہنے کی فکر سے آزاد ہو چکے ہیں۔

وجہ جو بھی ہو مسلم لیگ نواز غیر متحرک، غیر فعال اور سیاسی طور پر منجمد ہو چکی ہے۔ قیادت کور کمیٹی کو اپنا بہترین اور واحد اثاثہ سمجھ کر فیصلہ سازی اور مشاورت 8۔10 ہاتھوں تک محدود کر بیٹھی ہے۔ عمران خان کی طرف سے بنائے ہوئے گھیرے کا حلقہ اگر تنگ ہوتا جا رہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگ کی بطور سیاسی جماعت موجودہ کیفیت ہے۔ ان حالات میں اگر نواز شریف اور شہباز شریف کو بڑا دھچکا لگا تو بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ان کی مدد کو نہیں آ پائے گی کہنے کو عمران خان کی مہم جوئی نواز شریف کی حکومت کے خلاف ہے مگر اس تمام معاملے میں مسلم لیگ نواز نامی جماعت کی غیر موجودگی نے اسکو دو افراد پر مرکوز کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف سے اپنے لیے اپنی جماعت کو ’’کھڈے لائن‘‘ لگا کر کھڑا کیا ہے۔

Talat Hussain

The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

محترم نصر اللہ شجیع بھائی کو ان کی عظیم قربانی کے لیے داد شجاعت دیتے ہوئے حکومت پاکستان نے تمغہ شجاعت دینے کا فیصلہ کیا ہے نصر اللہ شجیع بھائی وہ عظیم استاد تھے جنہوں نے اپنے اس نفسا نفسی کے دور میں اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ ہمارے وطن کے حقیقی ہیرو ہیں


The Real Heroes Of Pakistan - Nasrullah Shaji

14 اگست کو کیا ہو گا ؟


نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کی پاک ذات جانتی ہے لیکن بزرگوں کا کہنا ہے کہ بری نیت انسان میں خوف پیدا کر دیتی ہے اور خوفزدہ انسان اکثر اوقات غلط فیصلے کر ڈالتے ہیں۔ اگر حکمران خوفزدہ ہو جائیں تو ان کے غلط فیصلوں کی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑ جاتی ہے۔ اکثر حکمران اپنے غلط فیصلوں کو آئین کے عین مطابق قرار دیتے ہیں لیکن نیت کی خرابی کے باعث درست آئینی فیصلے بھی منفی سیاسی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نواز شریف حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں فوج کو بلانا آئینی لحاظ سے ایک درست فیصلہ ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا ایک غلط سیاسی فیصلہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت فوج کے ذریعہ 14 اگست کو اسلام آباد میں عمران خان کے آزادی مارچ کو روکنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے وزرا کا دعویٰ ہے کہ فوج کو بلانے کا فیصلہ عمران خان کے آزادی مارچ کے اعلان سے بہت پہلے کر لیا گیا تھا اور یہ کہ فوج کو بلانے کا اصل مقصد وفاقی دارالحکومت کو 
دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو بلانے کا اصل مقصد دہشت گردی کے خطرات
 سے نمٹنا ہے تو پارلیمینٹ کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ وہ جماعتیں جو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہی ہیں انہیں اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ غلط کیوں نظر آ رہا ہے؟ اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے فوج کو غلط نہیں کہہ رہے بلکہ فوج کو بلانے والوں کی نیت پر شک کر رہے ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران ساتویں آئینی ترمیم کے ذریعہ دفعہ 245 میں یہ شق شامل کی کہ بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے دوران وفاقی حکومت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کو طلب کر سکتی ہے ۔ یہ آئینی ترمیم 21 اپریل کو منظور ہوئی اور چند دن کے بعد لاہور میں قومی اتحاد کے جلوسوں کو روکنے کیلئے فوج کو طلب کر لیا گیا ۔ قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کیخلاف تحریک چلائی جا رہی تھی ۔25 اپریل 1977ء کو قومی اتحاد میں شامل ایک جماعت کے سربراہ ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے ایک خط جاری کیا جس میں فوجی افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو حکومت نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے لہٰذا ایک غیر قانونی حکومت کی حفاظت کرنا فوج پر لازم نہیں۔ پھر جب لاہور میں ایک جلوس روکنے کیلئے فوج کو فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی افسران نے فائرنگ سے انکار کر دیا۔ اس بحران کا نتیجہ مارشل لا کی صورت میں نکلا اور یہی وہ مارشل لا تھا جس کے منفی نتائج آج بھی بھگتے جا رہے ہیں۔

1977ء میں دفعہ 245 کے تحت فوج کو بلانا آئینی طور پر درست فیصلہ تھا لیکن اس درست آئینی فیصلے کے سیاسی نتائج غلط تھے ۔ 2014ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے 14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور نواز شریف حکومت کی مخالف کچھ جماعتوں نے انکی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 245 کا نفاذ انہیں روکنے کی کوشش ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام آباد کو دہشت گردی کے ممکنہ خطرے سے بچانے کا تاثر بھی دیدیا اور اگر 14 اگست کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری سے بچ نکلنے کا راستہ بھی تلاش کر لیا ۔ تاہم یہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ 245 کے اختیار کا مطالبہ خود فوجی قیادت نے کیا تھا کیونکہ یہ اطلاعات ملی تھیں کہ رمضان المبارک کے اختتام پر ملک کے اہم شہروں میں دہشت گردی کے واقعات شروع ہو سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ عمران خان انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے بلکہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں ۔یہ خاکستار پرویز رشید صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہے کہ تختہ الٹنا ایک غیر سیاسی اور غیر آئینی اصطلاع ہے۔ تختہ الٹنے کا مطلب ہے مارشل لا لگانا لیکن عمران خان ایک سے زائد بار مارشل لا کی مخالفت کر چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے کچھ سیاسی اتحادی فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے درپے ہیں لیکن عمران خان کو مارشل لا کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

عمران خان کی طرف سے 14 اگست کے دن اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کی ٹائمنگ اور ان کے مطالبات سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن عمران خان سے مارشل لا کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ مارشل لا نواز شریف کو ایک نئی سیاسی زندگی اور عمران خان کو سیاسی موت سے ہمکنار کرے گا ۔ عمران خان سے کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی دیکر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جائے ۔نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں ۔ یہ اصلاحات صرف اور صرف منتخب پارلیمینٹ کے ذریعہ ممکن ہیں ۔تحریک انصاف کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ 14 اگست کے دھرنے کا اختتام انتخابی اصلاحات کے ایک پیکج پر کر دیا جائے تو یہ بہت بڑی سیاسی کامیابی ہو گی ۔ پھر پارلیمینٹ کو چھ ماہ یا ایک سال کا ٹائم فریم دیا جا سکتا ہے اس عرصے میں انتخابی اصلاحات نہ ہوں تو پھر ایک زوردار تحریک چلائی جا سکتی ہے جس میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر اہم جماعتیں بھی شامل ہو جائیں گی۔

اتوار کی صبح تحریک انصاف کے ایک رہنما نے ناشتے کی میز پر کہا کہ ملک میں مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟فرمانے لگے کہ پہلی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف مارشل لا کو سپورٹ نہیں کرے گی ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پروفیشنل سولجر ہیں وہ اپنی وردی پر سیاست میں مداخلت کا داغ نہیں لگنے دیں گے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ مارشل لا کی توثیق نہیں کریگی۔

میں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کچھ مخالفین کا الزام ہے کہ عمران خان کچھ خفیہ ہاتھوں کے ذریعہ استعمال ہو رہے ہیں اور یہ خفیہ ہاتھ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ اگر عمران خان خفیہ ہاتھوں کا کھلونا ہوتا تو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی حمایت کر رہا ہوتا ۔ خفیہ ہاتھ جانتے ہیں کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیتا اور اگر وہ وزیر اعظم بن گیا تو ایک دفعہ پھر طالبان سے مذاکرات شروع کر دے گا لہٰذا یہ خفیہ ہاتھ عمران خان کو کبھی وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے ۔ اس دلیل میں کافی وزن تھا ۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان آنے والے دنوں میں حکومت کے استعفے کا مطالبہ کر دیں لیکن اگر حکومت 14 اگست سے پہلے پہلے انتخابی اصلاحات کے پیکج پر تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرنے میں کامیاب ہو جائے اور 14 اگست کو اس پیکج کا اعلان ہو جائے تو یہ یوم آزادی کا بہت بڑا تحفہ ہو گا اور اگر حکومت نے خوفزدہ ہو کر مزید غلط فیصلے کر دیئے تو پھر اس حکومت کیلئے اصل خطرہ عمران خان نہیں بلکہ یہ حکومت اپنے لئے خود خطرہ بن جائے گی ۔

حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ 

حماس کے عسکری ونگ نے اسرائیلی فوجی کو پکڑ لیا



حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے مزاحمت کاروں نے غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کو گرفتار کر لیا ہے۔
ابوعبیدہ نام کے اس ترجمان کا اتوار کی شب حماس سے وابستہ ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بیان نشر ہوا ہے جس میں انھوں نے اطلاع دی ہے کہ ''ہم نے ایک صہیونی فوجی کو پکڑ لیا ہے اور قابض فوج نے اس کا اعتراف نہیں کیا ہے''۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت اسرائیلی فوجی شاؤل ایرون القسام بریگیڈز کے زیر حراست ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی ایک خاتون ترجمان نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے سے آگاہ ہیں اور اس کی تحقیقات کررہے ہیں۔فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جونہی عزالدین القسام بریگیڈز کی جانب سے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع سامنے آئی تو مغربی کنارے کے شہروں رام اللہ اور الخلیل کے مکینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے خوشی میں ہوائی فائرنگ شروع کردی۔
حماس کے عسکری ونگ نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جارحیت کے تیرھویں روز صہیونی فوجی کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔اسرائیلی بمباری میں چارسو اڑتیس فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کی جوابی کارروائیوں میں اٹھارہ فوجیوں سمیت بیس یہودی مارے گئے ہیں۔
عزالدین القسام بریگیڈز کا کہنا ہے کہ اس فوجی کو چوبیس گھنٹے قبل غزہ شہر کے مشرق میں واقع علاقے طفاح میں اسرائیلی فوجیوں پر ایک حملے کے دوران پکڑا گیا تھا۔اس علاقے میں اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان شدید لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں اور اتوار کو اس محاذ پر تیرہ جارح فوجی ہلاک ہوچکے تھے۔
حماس کے ترجمان سامی ابوزہری نے صہیونی فوجی کو پکڑنے کی اطلاع کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کو القسام بریگیڈز کی ایک بڑی کامیابی اور شہداء کے خون کا بدلہ قرار دیا ہے۔قبل ازیں اتوار کو غزہ کے علاقے شجاعیہ میں اسرائیلی فوج کی ٹینکوں سے شدید گولہ باری کے نتیجے میں ساٹھ سے زیادہ فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔
ٹیگز

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah - محترمہ فاطمہ جناح….


’’وہ اپنے عظیم بھائی کی ہوبہو تصویر تھیں بلندوبالا قد، بہتر برس کی عمر میں بھی کشیدہ قامت۔ گلابی چہرہ، ستواں ناک، آنکھوں میں بلا کی چمک، ہر چیز کی ٹٹولتی ہوئی نظر، سفید بال، ماتھے پر جھریوں کی چنٹ، آواز میں جلال وجمال، چال میں کمال، مزاج میںبڑے آدمیو ں کا سا جلال، سر تا پا استقلال، رفتار میں سطوت، کردار میں عظمت، قائداعظم کی شخصیت کا آئینہ، صبا اور سنبل کی طرح نرم، رعد کی طرح گرم، بانی پاکستان کی نشانی، ایک حصار جس کے قرب سے حشمت کا احساس ہوتا ہے جس کی دوری سے عقیدت نشوونما پاتی ہے، بھائی شہنشاہ بہن بے پناہ۔‘‘

آغا شورش کاشمیری نے ان خوبصورت الفاظ میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ تمام صفات محترمہ فاطمہ جناح میں بدرجہ اتم موجود تھیں وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیںایک ایسی بہن جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا جو قوم کی ماں کا لقب (مادر ملت) حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔
31 جولائی 1893ء کو مٹھی بائی کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام فاطمہ رکھا گیا جب یہ بچی دوسال کی عمر کو پہنچی تو ماں کی شفقت ومحبت سے محروم ہو گئی بڑی بہن نے ان کی پرورش کی ذمے داری اٹھائی، جب ذرا ہوش سنبھالا تو انگلستان میں زیرتعلیم بھائی کا ذکر سن کر ان سے ملنے کی خواہش بڑھتی گئی۔ محمد علی جناح جب واپس آئے تو فاطمہ جناح چار سال کی تھیں وہ قائداعظم سے سترہ سال چھوٹی تھیں۔

محمد علی چھوٹی بہن فاطمہ کی معصوم باتوں کو سن کر وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اس دوران جب والد کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا تھا محمد علی جناح نے بمبئی جاکر وکالت کا کام شروع کیا اور کچھ دن بعد انھوں نے پورے خاندان کو بمبئی بلا لیا جب پورا خاندان بمبئی شفٹ ہو گیا تو بھائی نے آٹھ سالہ فاطمہ کی تعلیم کا بندوبست بھی گھر پر کر دیا بہن بھائی کی محبت مثالی تھی۔ فاطمہ کو بچپن سے گڑیو ں کے بجائے مطالعے کا شوق بھائی سے ملا۔

محمد علی جناح نے بہن کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی اور تمام خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بہن کا داخلہ 1902ء میں باندرہ کانونٹ اسکول میں کرا دیا جہاں شروع میں جاتے ہوئے وہ خوف محسوس کرتی تھیں تو بھائی ساتھ گھنٹوں اسکول کی کلاسوں میں جایا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوا اور بخوبی اسکول کے تمام مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتی گئی۔ 1906ء میں ان کو قائد نے سینٹ پیٹرک اسکول میں داخل کرایا جہاںمیٹرک کا امتحان کامیابی سے پاس کیا اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے 1913ء میں سنیئر کیمرج کا امتحان پاس کیا اب وہ صاف بامحاورہ انگریزی میں ماہر ہو گئی تھیں اسی دوران قائداعظم نے رتن بائی سے شادی کر لی تو بہن بھائی میں تھوڑی سی عارضی دوری پیدا ہوگئی اس خلاء کو پر کرنے کے لیے انھوں نے بھائی کے مشورے سے احمد ڈینٹل کالج کلکتہ میں داخلہ لے لیا۔

1922ء میں ڈینٹیسٹ کی ڈگری حاصل کی اور 1923ء میں باقاعدہ کلینک کھول کر پریکٹس کا آغاز کیا لیکن جب 20 فروری 1929ء کو رتن بائی کا انتقال ہو گیا ان کی موت نے قائداعظم پر گہرا اثر ڈالا تو بھلا ایک محبت کرنے والی بہن کیسے گورا کرتی کہ بھائی کو اس حال میں اکیلے چھوڑا جائے انھوں نے تمام کام چھوڑ کر بھائی کے گھر کی ذمے داریاں سنبھال لیں اور قائداعظم تمام فکروں سے آزاد ہو کر تحریک آزادی وطن میں حصہ لینے لگے۔

قائداعظم خود بھی بہن کی صلاحیتوں کے متعارف تھے اس لیے ان کی توجہ اور شفقت نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھی بھائی کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک ہونے پر مجبور کر دیا وہ بھائی سے تمام سیاسی نکات پر بحث مباحثہ کرتیں۔ انھیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتی قائداعظم ان کی صلاحیتوں کے متعارف تھے وہ بہن کے مشوروں پر عمل بھی کرتے ان کی تائید اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔ 1934ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح لندن میں تھے تو فاطمہ جناح بھی ان کے ہمراہ تھیں وہ کئی سال وہاں قیام پذیر رہیں لیکن وہاں کی رنگین فضائیں انھیں متاثر نہ کر سکیں۔

مادر ملت ہمیشہ سوچتیں کہ آخر ان ممالک نے کیسے ترقی کی یہاں کہیں کوئی بھکاری نظر نہیں آتا، غربت وافلاس نام کی کوئی چیز موجود نہیں آخر ہمارے ملک کے عوام ان سہولتوں سے کیوں محروم ہیں اس سوچ کے ساتھ بس ایک جواب تھا کہ آزادی یہی ایسی نعمت ہے جسے حاصل کرنے کے بعد ایک ملک اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ عوام کو تمام سہولتیں دے سکتا ہے اسی لیے انھوں نے آزادی کی تحریکوں میں دن رات محنت کو اپنا شعار بنا لیا۔

جب 1947ء میں پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا تو مسائل کا ایک انبار بھی ساتھ تھا۔ خاص طور پر مہاجرین کی آمد اور ان کی بحالی کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیارکیے ہوئے تھا۔ لوگوں نے جھوٹے کلیم داخل کر کے حقداروں سے ان کا حق غضب کرنے کی روایت روز اول سے شروع کر دی تھی۔ مادر ملت دن رات ان مسائل کو دور کرنے کے لیے ہمہ تن مشغول رہیں اس دوران بھائی کی صحت خراب ہونے پر انھوں نے بھائی کی تیمارداری پر خصوصی توجہ دینی شروع کردی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا جس ملک کو بنانے میں قائد نے اتنی محنت کی وہ اس میںایک سال بھی گزار سکتے۔

قائداعظم بیماری کے دوران انتقال فرما گئے۔ مادرملت نے بھائی کی موت کا صدمہ کس طرح سہا ہوگا وہ ہی جانتی ہوں گی بھائی کے سکھائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مادر ملت جو خود جمہوریت کی قائل تھیں اور جن کی تربیت قائداعظم نے کی تھی وہ بھلا کیسے گورا کر لیتیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد انگریز نواز نوکر شاہی اقتدار پر قبضہ کر کے جمہوریت کے خلاف سازش کرے۔

انھوں نے جنرل ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا اور جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی قوم کو آمریت سے چھٹکارا دلانے کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ تو کونسل مسلم لیگ نے انھیں اپنا صدراتی امیدوار نامزد کر دیا۔ مادر ملت کے میدان میں آنے پر سیاستداں چوکنا ہوگئے۔ انھوں نے وسیع تر اتحاد قائم کرنے کی کوششیں تیزکر دیں انتخابی جلسوں میں ملک کے دوردراز کے دوروں میں قوم کی ماں کے استقبال کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہوتے۔

مغربی پاکستا ن اور خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام مادر ملت سے گہری عقیدت رکھتے تھے وہ مادر ملت کو ’’مکتی نیتا‘‘ کے نام سے پکارنے لگے ادھر ایوب خان نے مادر ملت کو شکست دینے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جس کی بناء پر جب انتخابات ہوئے تو مادر ملت ہار گئیں عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی خاص کر مشرقی پاکستان کے عوام سخت غم وغصے سے دوچار تھے۔ مادر ملت کی صورت میں انھیں ایک نجات دہندہ ملا تھا سول اور بیورو کریسی نے وہ بھی چھین لیا۔

مادر ملت زندگی کے اس آخری دور میں اپنوں کے لگائے گئے جھوٹ وفریب اور مکاری کے زخم کبھی نہ بھول سکیں۔ زندگی کے آخری ایام میں آخر وقت سیاست سے خود کو دور رکھا لیکن بناء کسی ذاتی غرض کے عوام الناس کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ قوم کی اس ماں نے 8 جولائی 1967ء کے دن داعی اجل کو لبیک کہا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام اپنی اس ماں کو بطورمحسن وملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔

Pioneers of Freedom - Mohtarma Fatima Jinnah

کلاسیکی ڈراما نگاری کا درخشاں نام - فاطمہ ثریا بجیا


پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کا جب بھی ذکر نکلتا ہے، تو ایک بات جس کی طرف فوراً دھیان جاتا ہے،وہ ڈرامے کی تہذیبی تربیت کا پہلو ہے، جو موجودہ دور میںتقریباً عنقا ہوگیا۔ان ڈراموں کے ذریعے معاشرے کو اپنی اقدارکے بارے میں بتایا جاتا تھا،اب تو ڈرامے کے نام پر گھرکی اختلافی سیاست سکھائی جارہی ہے۔ پی ٹی وی کی سنہری تاریخ میں جن لوگوں نے تہذیبی تربیت کی،ان میں سب سے اہم شعبہ ڈرامانگاری تھا۔پی ٹی وی کے اہم ڈرامانگاروں کا ہم جائزہ لیں ،توان میں ایک اہم نام ’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘کاہے۔

بجیا نے تھیٹر، ریڈیو اورٹیلی ویژن کے لیے بے شمار ڈرامے لکھے۔ پی ٹی وی کے قیام کے بعد کراچی ،لاہور اوراسلام آباد مراکز کے لیے بہترین ڈراماسیریل تصنیف کیے۔کئی یادگار ڈراما سیریز لکھیں۔خصوصی مواقعے پر مختصر نوعیت کے ڈرامے بھی تخلیق کیے۔ریڈیو کے لیے بھی کرداروں کو کہانیوں میں پرویا۔تاریخی اور نامور ناولوں سے ماخوذ کرکے کئی شاندار کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دی۔جاپان کے کلاسیکی ادب سے کہانیوں کواخذ کر تھیٹر کے ڈراموں میں ڈھالا۔بجیا نے ایک متحرک اور تخلیقی زندگی بسر کی،جس کی کوئی تمنا ہی کرسکتا ہے۔

بجیا ان دنوں علیل ہیں۔گزشتہ مہینے وہ گھر کے غسل خانے میں گریں،جس کی وجہ سے ان کو چوٹیں آئیں اورپھردوران علالت ہی ان پر فالج کا اٹیک بھی ہوگیا،جس سے جسم کاایک حصہ متاثر ہوا ہے۔اسپتال میں کچھ دن رہنے کے بعد انھیں چھٹی دے دی گئی۔اب بات چیت کرنے لگی ہیں،مگر مکمل صحت یاب ہونے میں انھیں وقت لگے گا،ان کے لیے دعائوں کی ضرورت ہے۔بزرگوں کا سایہ سر پرسلامت رہے،تو رحمت بھی اپنا دروازہ بند نہیں کرتی۔بجیا اس وقت 84برس کی ہیں،مگر اس حادثے سے پہلے تک انھوں نے متحرک زندگی گزاری۔ان دنوں وہ اپنے بہن بھائیوں کے پاس ہیں،جہاں ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے ۔بجیا کے خاندان میں انور مقصود، زہرہ نگاہ،زبیدہ آپا جیسے تخلیق کار بہن بھائی شامل ہیں، جنھیں اپنے ہنر میں کمال حاصل ہے۔

بجیا ان سینئر ڈراما نگاروں میں سے ایک ہیں،جن کی تحریروں میں ان کا باطن بھی جھلکتا ہے۔جس طرح انھوںنے زمانے کی نبض کو محسوس کیا،اسی طرح انھوں نے تحریروں کے ذریعے معاشرے کی تربیت کی۔وہ اپنی ذات میں سراپا سادگی ہیں۔ان سے جب بھی کوئی ملاقات کرتا ہے تو وہ اس کانام منصب پوچھے بنا سر پرہاتھ پھیرتی ہیں اور طویل عمرکی دعا دیتی ہیں۔ہمارے ہاں ایسے بزرگ اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔

بجیا کاگھر ان کی تہذیبی زندگی کی مجسم تصویر ہے۔مہمان خانے میں دیواروں پرآویزاں تصویریں ان کے آبائواجداد کا احوال دکھاتی ہیں۔برصغیر کے نامور خاندان کی چشم و چراغ فاطمہ ثریا بجیا کو اپنے تہذیبی پس منظر پر فخر ہے۔مطالعے کے کمرے میں الماریوں میں سجی کتابیں ان کی فکری سطح کا پتہ دیتی ہیں۔چائے اورکھانا کھلائے بغیر کسی کواپنے گھر سے نہیں جانے دیتیں،یہ باتیں کرتے ہوئے ایسامحسوس ہو رہا ہے کہ ہم کسی اور زمانے کی بات کر رہے ہیں،مگر یہ کسی اورکی نہیں عہدِ بجیا کی بات ہو رہی ہے۔

بجیا نے 60کی دہائی سے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔بچوں اورخواتین کے لیے بھی لکھا،کئی ایک پروگرام پروڈیوس بھی کیے۔ان خدمات پر بجیا کو حکومت پاکستان نے ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘سے نوازا جب کہ جاپان کی طرف سے انھیں شاہی اعزاز’’دی آرڈر آف دی سیکرڈ ٹریژر‘‘دیا گیا۔اس کے علاوہ لاتعداد اعزازات ملے،مگر سب سے بڑھ کر وہ مقام ہے ،جو بجیا کے مداحوں کے دل میں ہے۔
میری پہلی ملاقات بجیا سے تب ہوئی،جب میں جامعہ کراچی میں طالب علم تھا اور ہم چند دوستوں نے مل کر ایک تھیٹر فیسٹیول میں حصہ لیا،جہاں مختلف جامعات کے ڈرامے پیش کیے گئے، وہاں میرے ہدایت کردہ ڈرامے کو دوسری پوزیشن اور بہترین اداکارکا اعزاز ملا تھا۔یہ اعزاز مجھے اورمیرے دوستوں کو بجیا کے ہاتھوں ملا۔اس کے بعد بجیا سے کافی عرصے تک ملاقات نہ ہوسکی۔اس دوران مجھے قونصل خانہ جاپان کی طرف سے ایک جاپانی کھیل کو اسٹیج پر دکھانے کی پیش کش کی گئی۔

زمانہ، طالب علمی میں جیب میں پیسے نہیں ہوتے اوراس طرح کی سرگرمیوں کے لیے پیسوں اورتعاون کی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا یہ پیشکش میرے لیے رحمت ثابت ہوئی۔مجھے انھوںنے بجیا کا دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں لکھا ہوا ایک ڈرامے’’خالی گود‘‘ کا مسودہ دیا اور بجیا سے ملاقات بھی کروائی ۔یوں جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے لیے میں نے اس ڈرامے کوبجیا کی اجازت سے ایڈیٹ کیا اور اس کی ہدایات بھی دیں۔آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی میں یہ کھیل پیش کیاگیا اور اسے بہت مقبولیت ملی۔

اس کے بعد میری تدوین کی ہوئی ایک کتاب میں پاکستان اورجاپان دونوں ممالک کے مصنفین کی تحریریں شامل تھیں،بالخصوص وہ جاپانی دانشورجنھیں اردو زبان لکھنے اور بولنے پر عبور حاصل تھا، پھر جاپان میں اردو زبان کی ایک صدی سے زیادہ کی روایت ہے،یہ سب کچھ حیران کن تھا۔بجیا نے اس سلسلے میں رہنمائی کی اور ان کا لکھا ہوا ڈراما میرے لیے جاپانی ادب میں دلچسپی کاباعث بن گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان ،راولپنڈی میں اس وقت کے سفیرجناب’’ہیروشی اوئے‘‘ نے تقریب میں شرکت کی ،جب کہ کراچی میں قائم قونصل خانہ جاپان کے قونصل جنرل جناب’’ آکیرا اُووچی ‘‘نے بھی تقریب کا انعقاد کیا۔

یہ سب کچھ بجیا کے ایک ڈرامے کا ثمر تھا ۔بجیا سے محبت اورجاپان سے تعارف نے مجھے اُکسایا کہ میں بجیا کے دیگر ڈراموں پرکام کروں، وہ ڈرامے وقت کی گرد تلے دبے ہوئے تھے۔بجیا نے جاپان کے کلاسیکی ادب سے ان کہانیوں کو ماخوذ کرکے لکھااوریہ تمام ڈرامے جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کے محمد عظمت اتاکا کی نگرانی میںاسٹیج بھی کیے گئے تھے۔ان ڈراموں میں اپنے وقت کے بڑے اداکاروں نے کام بھی کیا۔

بجیا کی بیماری سے چند دن پہلے میں جب ان کے گھر گیا، حسب روایت انھوںنے چائے بھی پلائی اورکہنے لگیں ’’میں نے بہت کامیاب زندگی گزاری،مگر بس اب کچھ پتا نہیں کب بلاواآجائے،اسی لیے میں نے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دی ہیں۔‘‘بجیا کاخلوص دیکھیں،انھوںنے اپنی کتابیں غالب لائبریری کو دے دیں تاکہ نئی نسل اورعوام ان کتابوں سے مستفید ہوسکیں۔

میں نے جاپانی سفارت کاروں اوربجیا کی اجازت سے ان کے اصلی مسودے حاصل کیے، پھر بجیا کی اجازت سے ان کی تدوین کی۔جاپانی ادیب،جن کی کہانیوں سے یہ ڈرامے ماخوذ کرکے لکھے گئے تھے،ان کے مکمل تعارف پر بھی کام کیا۔اب بجیا کے ان ڈراموں پر مشتمل کتاب تیار ہے اورطباعت کے مراحل میں ہے۔اس پر جاپان اورپاکستان کی ممتاز شخصیات نے اپنے تاثرات بھی رقم کیے ہیں،جس سے قارئین یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کی ادبی وسماجی اہمیت کیاہے۔بہت جلد یہ کتاب شایع ہوجائے گی۔پاکستان میں جاپانی ڈراموں کی پہلی کتاب ہوگی اوربجیا کے یہ ڈرامے جو نظروں سے اوجھل تھے،ان تک قارئین کی دوبارہ رسائی ہوجائے گی۔تھیٹر ،ریڈیواور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہنرمند بھی ان ڈراموں سے استفادہ کرسکیں گے اورقارئین کو عالمی ادب کے مزاج سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔

فاطمہ ثریا بجیا پاکستان کا فخر ہیں۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایسے لوگ ملے جنہوں نے ہمارے ملک کو دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ امید ہے عیدالفطر کے بعد اس کتاب کی تقریب اجرا کے موقع پر بجیا ہمارے ساتھ ہوں گی۔ہم سب مل کر اپنے فخر کو ان پر نچھاور کریں گے۔جاپان کو بھی بجیا پر فخر ہے اور پاکستان کا فخر بجیا ہیں۔دوممالک اوردوتہذیبیں ایک ہی شخصیت کی مداح ہیں،تاریخ اس نام’’فاطمہ ثریابجیا‘‘کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی ۔

Fatima Surayya Bajia

How to Avoid Food Poisoning


فوڈ پوائزننگ ایک مہلک مرض ہے،جو غیر معیاری خوراک اور دیگر بیماریوں سے لاحق ہوسکتی ہے۔اس سے بچائو کے چند طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔ ٭پینے کا پانی ہمیشہ ابال کر استعمال کریں۔ ٭فریز کیا ہوا گوشت دو دن سے زیادہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ٭ہمیشہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھوئیں۔کیونکہ یہ مرض گندگی اور جراثیم سے ہی پھیلتا ہے۔ ٭باسی کھانا مت کھائیں،ہمیشہ تازہ کھانا کھائیں۔ ٭بازار سے خریدی گئی سبزیاں اور پھل کیمیکل زدہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو اچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔ ٭بازار سے خریدی ہوئی برف کا استعمال ہرگز نہ کریں۔

A couple of weeks ago, the Food Standards Agency in the United Kingdom warned the public not to wash raw chicken before cooking it, saying that water splashed throughout the kitchen during the process could spread potentially harmful bacteria all over the kitchen, reported The Guardian. The news came as a surprise to many people who thought that rinsing their meat actually removed some of the bacteria that causes food-borne illnesses and was a safe practice. 

Food safety might seem like common sense, but as the recent switch on chicken-handling practices shows, the rules can change and aren’t universally followed. Many people follow advice on food handling that is outdated or just plain incorrect. Meanwhile, four million Canadians get food poisoning each year, according to Health Canada. Most of those people get better quickly and don’t have any lasting issues, but some can contract serious illnesses, or even die.

When you throw in hot weather and group gatherings, safe food handling becomes even more critical because high summer temperatures can create a perfect breeding ground for harmful bacteria. But if you keep safe practices in mind, you can enjoy outdoor gatherings and keep your food healthy for everyone there.