شریعت پہلے یا اچھی حکومت

22:08 Unknown 0 Comments


ہم مسلمان ہیں اور مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک یہ اللہ‘ اس کے رسولؐ اور قرآن مجید پر ایمان نہ لے آئے اور جب اللہ‘ اس کا رسولؐ اور قرآن مجید تینوں اکٹھے ہوتے ہیں تو شریعت بنتی ہے‘ ہم اگر شریعت سے قرآن مجید کو خارج کر دیں تو یہ شریعت نہیں رہے گی‘ ہم اس میں نبی اکرم ؐ کو سائیڈ پر کر دیں تو بھی شریعت نہیں ہو گی اور ہم اگر اس میں سے اللہ تعالیٰ کو نکال دیں تو بھی شریعت شریعت نہیں رہے گی لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا ریاست کے لیے صرف شریعت کافی ہے یا پھر ریاست کو اچھی حکومت‘ اچھا انتظام بھی چاہیے اور اگر ریاست کو اچھی حکومت چاہیے تو کیا اچھی حکومت پہلے آئے گی یا پھر شریعت۔ ہمارا قومی مستقبل اس سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنایا‘ جنہوں نے ملک میں شراب اور جوئے پر پابندی لگائی‘ جنہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا‘ جنہوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی‘ جنہوں نے سرکاری اداروں میں نماز کے لیے وقفے رکھوائے اور جنہوں نے مذہبی تہواروں کے لیے چھٹیوں کا نیا نظام وضع کروایا۔ ہم جنرل ضیاء الحق کو اسلامی اقدار کا کریڈٹ دیتے ہیں جب کہ جنرل ضیاء الحق کا اسلام صرف ویسٹ کوٹ اور شیروانی تک محدود تھا‘ اصل کارنامہ ذوالفقار علی بھٹو نے سرانجام دیا تھا‘ بھٹو صاحب نے ملک کو ایک ایسا متفقہ آئین دیا جس پر ملک کے تمام جید علماء نے دستخط بھی کیے اور اسے تسلیم بھی کیا مگر پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا‘ ملک تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا‘ وہ ملک جسے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ایشیا کا لیڈر کہا جاتا تھا‘ اس کے ادارے اس قدر ڈیفالٹ میں چلے گئے کہ ملک کو فوج ’’ٹیک اوور‘‘ کرنے پر مجبور ہو گئی‘ کیوں؟ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے آئین‘ نفاذ شریعت کے عزائم اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اچھی حکومت کی سپورٹ دینے میں ناکام ہو گئے تھے‘ بھٹو صاحب نے ملک کو متفقہ اور اچھا آئین تو دے دیا لیکن یہ ملک کو متفقہ اور اچھی حکومت نہ دے سکے لہٰذا ملک تمام تر نیک خواہشات کے باوجود اسلامی جمہوریہ نہ بن سکا۔ یہ ناکامی فاتح افغانستان جنرل ضیاء الحق خلدمکانی کے حصے میں بھی آئی‘ یہ بھی اپنی تمام تر دینی خواہشات اور نفاذ شریعت کے عزائم کے باوجود پاکستان کو اسلامی ریاست نہ بنا سکے۔

یہ شہادت سے قبل افغانستان میں نصف درجن امیرا المومنین بنا گئے اور ان امراء المومنین نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی مگر جنرل صاحب پاکستان کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی یا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جیسے حکمران کا بندوبست نہ کر سکے‘ یوں بھٹو بھی ناکام رہا اور جنرل ضیاء الحق بھی اور ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی اور حتیٰ کہ چوہدری شجاعت حسین بھی۔ چوہدری صاحب کی مٹی ختم ہو گئی لیکن پاکستان میں نفاذ شریعت کا پودا سر نہ اٹھا سکا‘ ہم جمہوریہ بن سکے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ!اس کی وجہ وہی تھی‘ ہماری دینی خواہشات کو اچھی اور مضبوط حکومت نہ ملی سکی۔ میں دنیا کے نامور مورخین‘ جید علماء کرام اور پاکستان کے سکہ بند مفتیان سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ’’کیا نبی اکرمؐ نے مدینہ منورہ میں ریاست پہلے قائم کی تھی یا شریعت پہلے نافذ کی تھی؟‘

‘ آپ کا جواب اگر شریعت ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے‘ قرآن مجید کی آخری آیت 10 ہجری کو نازل ہوئی اور مدینہ منورہ کی ریاست پہلی ہجری میں قائم ہوئی لہٰذا پہلی ہجری سے 10 ہجری تک مدینہ منورہ کا نظام کیا تھا؟ کیا پھر یہ حقیقت نہیں مدینہ منورہ میں اس وقت اچھی حکومت تھی اور اچھی حکومت مدینہ منورہ میں شریعت سے قبل آئی تھی‘ اللہ کے رسولؐ نے سود کے خاتمے کا اعلان میدان عرفات میں حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا ‘ میں دنیا کے اس عظیم سماجی چارٹر میں سے وہ فقرے آپ کے حضور پیش کرتا ہوں‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اور آج سے ہر قسم کا سود ختم کیا جاتا ہے لیکن تم اپنی اصل رقم واپس لے سکتے ہو مگر تم بے انصافی نہیں کرو گے اور نہ تم سے بے انصافی ہو گی‘ اللہ کا فیصلہ ہے سود جائز نہیں اور جو سود سب سے پہلے ختم کیا جاتا ہے‘ وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے‘ یہ سب کا سب کالعدم ہے‘‘ آپ لوگ عالم دین ہیں‘ آپ قرآنی آیات کے نزول کے دن نکال کر دیکھ لیجیے‘ حضرت عباسؓ نے کب اسلام قبول کیا تھا اور ان کے سود کو کب کالعدم قرار دیا گیا تھا؟ شریعت پھر اتنا عرصہ سود کے معاملے میں کیوں خاموش رہی؟ ہم مسلمان ہیں اور کوئی مسلمان سود کی حمایت نہیں کر سکتا کیونکہ اسے ہمارے اللہ اور ہمارے اس رسولؐ نے ناجائز قرار دیا جن کی آن پر ہماری ہزاروں جانیں قربان لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے‘ ریاست میں اچھی اور مضبوط حکومت پہلے آتی ہے اور شریعت بعد میں۔

ہم اب اچھی حکومت کی طرف آتے ہیں‘ ہندوستان کا ایک بادشاہ تھا غیاث الدین بلبن‘ یہ ترک النسل تھا اور سلطان التتمش کا غلام تھا‘ یہ 1266ء میں ہندوستان کا بادشاہ بنا اور 21 سال حکمران رہا‘ یہ سخت مزاج‘ ڈسپلن کا پابند اور امن و امان کا داعی تھا‘ بلبن کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ یہ خود ہنستا تھا اور نہ ہی اس کے سامنے کسی کو ہنسنے کی جرأت ہوتی تھی‘ بلبن جوانی میں ہر قسم کے عیب میں مبتلا تھا‘ یہ شراب بھی پیتا تھا‘ یہ رقص و سرود کی محفلیں بھی برپا کرتا تھا اور یہ دولت لٹانے کی عادت بد میں بھی مبتلا تھا لیکن جوں ہی اقتدار سنبھالا ‘ اس نے تمام بری عادتوں سے توبہ کرلی‘ یہ ہمیشہ باوضو رہتا تھا‘ تہجد‘ چاشت اور اشراق تک کی نماز قضا نہیں کرتا تھا‘ علماء کا احترام کرتا تھا‘ راضی برضا رہتا تھا‘ روز قبرستان جاتا تھا‘ قبریں دیکھتا تھا اور ہر حال میں ساتھیوں کے جنازوں میں شریک ہوتا تھا‘ اس کے غلاموں نے اسے کبھی ننگے سر اور ننگے پاؤں نہیں دیکھا تھا لیکن ان تمام مذہبی عادات کے باوجود وہ لاء اینڈ آرڈر پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا‘ باغی چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم وہ اسے پوری طاقت سے کچل دیتا تھا.

وہ ایک شخص کی بغاوت یا سرکشی پر پورا شہر اور سارا لشکر قتل کرا دیتا تھا‘ وہ ہر حال میں قانون پر عمل درآمد کراتا تھا اور وہ اس کے لیے کسی بھی شخص کو کسی بھی قسم کا استثنیٰ نہیں دیتا تھا‘ مجرموں کے معاملے میں وہ اس قدر سنگ دل واقع ہوا تھا کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے فوج کو جنگ میں جھونک دیتا تھا‘ اس کا دور ہندوستان کے سنہری ترین ادوار میں شمار ہوتا تھا‘ وہ 1287ء میں انتقال کر گیا لیکن آپ اس کی رٹ ملاحظہ کیجیے‘ غیاث الدین بلبن کے مرنے کے ساٹھ سال بعد تک ہندوستان کی سڑکیں محفوظ رہیں‘ لوگوں کا خیال تھا غیاث الدین بلبن ہمیں قبر میں دیکھ رہا ہے اور ہم نے جوں ہی کسی کو لوٹنے کی کوشش کی‘ وہ قبر سے اٹھے گا‘ ہماری گردن اتارے گا اور دوبارہ قبر میں جا کر سو جائے گا‘ یہ ہوتی ہے ریاست اور یہ ہوتی ہے اچھی حکمرانی۔ آپ آج کے دور میں ڈنمارک کی مثال لیجیے‘ یہ چھوٹا سا ملک ہے‘ ہم اس کو اخلاقی لحاظ سے قطعاً آئیڈیل ملک نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس ملک میں جنسی بے راہ روی بھی ہے‘ سودی کاروبار بھی‘ فحاشی بھی‘ عریانی بھی‘ شراب خانے بھی اور رقص گاہیں بھی مگر آپ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ملاحظہ کیجیے‘ ڈنمارک میں 75 برس میں قتل کی صرف 15 وارداتیں ہوئیں جب کہ ڈاکہ زنی‘ چوری اور زنا کاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ڈنمارک میں پولیس اور عدالتی عملہ فارغ بیٹھا رہتا ہے۔

حکومت جیلیں ختم کر کے انھیں ہاسٹل اور ہوٹلز میں تبدیل کر رہی ہے‘ ہم اس کے مقابلے میں اپنے ملک کو دیکھیں تو صرف کراچی شہر میں روزانہ 15لوگ ناحق مارے جاتے ہیں‘ ہمارے پاس پانچ لاکھ پولیس اہلکار ہیں مگر ہم ان کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں‘ ہمارے ججوں کے پاس روزانہ دو دو‘ تین تین سو مقدموں کی فائلیں آتی ہیں‘ ہماری جیلوں میں قتل کے پانچ ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں‘ 87 ہزار مجرم جیلوں میں بند ہیں اور ہمیں اگلے دس برسوں میں جیلوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ کرنا پڑے گا‘ ہمارے ملک میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے‘ عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا جاتا ہے‘ مسجدوں کے دروازے سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں‘ مسجدوں کے پنکھے چوری ہوتے ہیں اور قبروں کی سلیں تک اٹھا لی جاتی ہیں‘ بینک بھی لوٹے جاتے ہیں‘ لوگ بھی اغوا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز کے دوران شہید بھی کر دیا جاتا ہے چنانچہ ملک کون سا اچھا ہوا‘ وہ جس میں 75 برسوں سے صرف 15 قتل ہوئے یا پھر وہ جس کے ایک ایک شہر میں روزانہ 15 قتل ہو رہے ہیں‘ آپ کبھی ٹھنڈے دل سے سوچئے گا؟ سعودی عرب ہمارے لیے محترم ترین ملک ہے لیکن لوگ احرام میں ہیروئن چھپا کر جدہ اترتے ہیں‘ لوگوں کو وہاں سنگ سار بھی کیا جاتا ہے‘ ان کی گردنیں بھی اتاری جاتی ہیں اور ان کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جرائم نہیں رک رہے‘ آپ دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی دیکھ لیجیے‘آپ کو وہاں کی صورتحال بھی آئیڈیل نظر نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم سب مسلمان نبی اکرمؐ کی ترتیب کے مطابق نہیں چل رہے‘ ہم حکومتی نظام اور حکمرانوں کو بہتر بنانے سے قبل شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اچھی حکومت قائم کرنے کے بجائے ریاست کو شریعت سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں اور یوں ہم الجھ جاتے ہیں۔

میرا علماء کرام سے ایک اور سوال بھی ہے ’’شریعت پر عمل کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے‘ حکومت پر یا علماء کرام پر؟ کیا ہمیں شریعت کے نفاذ کے لیے مضبوط اور اچھی حکومت کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر جس ریاست میں گاؤں کے لوگ گیس پائپ لائین کی مرمت نہ کرنے دیں یا شر پسند عناصر پائپ لائین اڑا جائیں اور ریاست انھیں گرفتار نہ کر سکے کیا وہ ریاست ملک میں شریعت نافذ کر سکے گی اور جس میں حکومت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاء اشرف سے اپنا فیصلہ نہ منوا سکے‘ جس میں حکومت عوام سے بجلی کے بل وصول نہ کر سکے‘ کنڈے نہ اتروا سکے اور جس میں حکومت ٹرین کے وقت ریلوے کے پھاٹک بند نہ کروا سکے‘ کیا آپ سمجھتے ہیں وہ حکومت ملک میں اسلامی قوانین نافذ کر دے گی‘‘ اچھی اور مضبوط حکومت کے بغیر شریعت آ سکے گی اور نہ ہی اسلامی قوانین ‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں بہرحال تسلیم کرنا ہوگا۔

جاوید چوہدری   

0 comments: