محفوظ تر‘‘ دنیا میں بے چینی کیوں؟........

00:46 Unknown 0 Comments


افغانستان سے غیر ملکی بالخصوص امریکی فوجیوں کے انخلا کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے صدر اوباما کی بے چینی میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے۔ شاید 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کے متعلق پر جوش فیصلہ کے وقت بھی صدر جارج ڈبلیو بش کو اتنی پریشانی نہیں ہوئی ہو گی، جتنی ابھی افغانستان سے نکلنے میں صدر اوباما کو درپیش ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اس کی واجب وجہ ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ انخلا کے بعد افغانستان کا کیا ہو گا؟ کرزئی یا ان کے جانشینوں کا کیا حشر ہو گا؟ کیونکہ عراق ان کے سامنے ہے۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور طالبان کے جنگجوؤں کو ٹھکانے
 لگانے کے بعد حالانکہ امریکہ یہ بلند بانگ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اب دنیا پہلے سے محفوظ ہو گئی ہے لیکن اسے اب خود اپنی باتوں پر یقین نہیں آ رہا ہے۔ یقین آئے بھی تو کیسے؟ حقائق منھ چڑھا رہے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد اسی طرح کے حماقت آمیز بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ مغربی رہنمائوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ اب عراق سے تمام برائیوں اور مسائل کا خاتمہ ہو گیا ہے اور امن و امان کا دور شروع ہونے والا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ در حقیقت مسئلہ کی جڑ میں پانی اور کھاد ڈال رہے ہیں اور اسی جڑ سے ایک دن ایک نئے مسئلہ کی کونپل پھوٹے گی اور دھیرے دھیرے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے گی اور یہ پرانے مسئلہ سے زیادہ خطرناک ہو گا۔

ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے۔ صرف ایک دہائی پہلے کی ہی بات ہے جب بغداد کے ہر چوک پر صدام حسین کے مجسموں کے مسخ وزنی ٹکرے پھیلے پڑے تھے۔ بموں پر ’’فار صدام حسین ود لو‘‘ لکھ کے طیاروں سے گرایا گیا تاکہ ’’فاشسٹ، عراق کے ملبے پر ایک جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق تعمیر ہو سکے جس میں شیعہ، سنی اور کرد شانہ بشانہ خوف کے جنگل سے نکل کر حال کی جلی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چمکتے مستقبل میں چھلانگ لگا سکیں، لیکن اب عراق کی صورتحال کیا ہےَ کیا یہی ہے جمہوری، روشن خیال، پر امن اور مہذب عراق کے خواب کی تعبیر؟

داعش کی شکل میں اب ایک نیا مسئلہ سامنے ہے، پہلے سے زیادہ خطرناک۔ صرف عراق کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے۔ پہلے تو صرف عراق پر حکمرانی اور اقتدار کی جنگ تھی لیکن اب اس میں مسلکی تنازع کا تڑکہ لگ گیا ہے ۔ خود ان کھلاڑیوں کو بھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جن کے ہاتھوں میں مسند عراق پر بیٹھی کٹھ پتلیوں کی ڈور ہے۔ عراقی حکومت اور خود صدر نوری المالکی بار بار امریکہ سے درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں بچا لو، لیکن امریکہ پس و پیش میں مبتلا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ کبھی عراق میں فوجی مداخلت سے انکار کرتا ہے تو کبھی دیگر حیلے بہانوں سے محدود فوجی اور دیگر حکام عراق بھیجنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ادھر ایران بھی عجیب مخمصے میں ہے۔ در پردہ نوری المالکی کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کھل کر سامنے نہ آنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔

کوئی نہیں جانتا تھا کہ برائی کو برائی سے ختم کیا جائے تو برائے شکل بدل کر بھٹکی ہوئی روح بن جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عراق صرف ایک ملک نہیں بلکہ تیزاب سے بھرا وہ جار ہے جو دھینگا مشتی میں ٹوٹ گیا تو آس پاس کی سب چیزوں کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس حقیقت سے لوگ آگاہ نہیں تھے مگر ایک کہاوت مشہور ہے کہ ’’ہر برا کام بہترین نیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘

بہت سارے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بغداد میں پہلا بم گرنے سے پہلے عرب لیگ کے سکریٹری جنرل امر موسیٰ نے اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ کیا کرنے والے ہو؟ تم جہنم کا دروازہ کیوں کھونا چاہ رہے ہو، لیکن اس دنیا کے جارج بشوں، ٹونی بلیئروں، ایریل شیرونوں اور ان کے حواریوں کا ایمان کامل تھا کہ پہلے عراق، وہاں کے عوام اور پھر صدام کے ساتھ جو ہوا، اس کے بعد خلیج، مشرق وسطیٰ اور باقی دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔

ہاں، دنیا زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ اس کی گوائی اپریل 2003ء کے بعد سے مارے جانے والے 2 لاکھ عراقیوں، ایک لاکھ 60 ہزار شامیوں، ایک لاکھ سے زائد افغانیوں اور 60 ہزار پاکستانیوں کی لاشیں دے رہی ہیں۔ پانچ کروڑ پناہ گزین، ’’محفوظ تر‘‘ دنیا میں سر چھپانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اتنے پناہ گزین تو دوسری عالمی جنگ نے بھی پیدا نہیں کیے۔ طویل پناہ گزینی کی حالت میں رہنے والوں میں 25 لاکھ افغان باشندے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مہاجر افغان ہی ہیں اور کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان میں اس کے سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں جن کی تعداد تقریباً 16 لاکھ ہے۔

دنیا بھر میں ہزاروں مہاجرین نے اپنی زندگیوں کے بہترین اوقات خیمہ بستیوں میں گزارے اور وہ بے گھر ہونے کا باعث بننے والے بحرانوں کو تقریباً بھلا چکے ہیں۔ میانمار کے ساتھ ملحق تھائی لینڈ کی سرحد پر میانمار کے کیرن اقلیت کے ایک لاکھ 20 ہزار افراد 20 برس سے زائد عرصہ سے مہاجر بستیوں میں مقیم ہیں۔ صرف شام ہی میں 65 لاکھ بے گھر افراد موجود ہیں۔ ان کے لیے خوراک، پانی، قیام اور طبی سہولت تک رسائی محدود ہے۔
شام کے بحران کے دوران اردن، لبنان اور ترکی نے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔ 
اس وقت لبنان میں 10 لاکھ سے زائد مہاجرین ہیں یعنی اس کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی شامی باشندے ہیں۔ ان کے لیے رہائش گاہوں، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مہاجرین کی دیکھ بھال کا زیادہ تر بوجھ ان ممالک پر ہے جو خود کمزور ہیں۔ ترقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں جبکہ دولت مند ممالک محض 14 فیصد کا خیال رکھ رہے ہیں۔ 10 برس قبل دولت مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذیر ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے۔

بہر حال یہ ’’محفوظ تر‘‘ دنیا مفت میں تھوڑے ہی ہاتھ آئی۔ ’’معمار اعظم‘‘ امریکہ کے 6 ٹریلین ڈالر اور ساڑھے 4 ہزار فوجی تابوت تو صرف عراق کو مشرق وسطیٰ کا مینارہ جمہوریت بنانے کے منصوبے پر لگ گئے۔ اس خرچ میں اس جدید عراقی فوج کی تعمیر بھی شامل ہے جس نے پچھلے ایک ماہ میں ثابت کر دیا کہ دشمن سامنے نہ ہو تو اس سے زیادہ جری سپاہ پورے خطے میں نہیں اور اب دنیا اور محفوظ ہوجائے گی جب امریکہ 650 بلین ڈالر کے خرچ سے تعمیر ہونے والے نئے اور جمہوری کرزئی گزیدہ افغانستان کو اگلے برس شکاری اور خرگوش کے ساتھ بیک وقت دوڑنے میں طاق افغان قیادت کے حوالے کر جائے گا۔ اس افغانستان کی بنیادوں میں اب تک ایک لاکھ سے زائد ’بے قیمتی‘ مقامی عوام کے ساتھ ساتھ 3500 امریکی فوجیوں اور سویلین کنٹریکٹروں کا قیمتی خون بھی شامل ہو چکا ہے۔ نجیب اللہ نے سوویت یونین کی رخصتی کے بعد بھی 3 یا ساڑھے 3 برس قبائلی طوفان کے تھپیڑے سہہ گیا تھا۔ موجودہ کابلی ڈھانچہ کا تو اللہ ہی جانے کیا ہو گا

0 comments: