Advice to Geo and Jang Group........غلطیوں کا ازالہ صرف معافی سے ممکن

07:00 Unknown 0 Comments


جیو اور جنگ کی مینجمنٹ اور اس سے منسلک اپنے آپ کو اعلیٰ درجے کا دانشور سمجھنے والے چند مخصوص اینکرز اور تجزیہ نگار حضرات اپنے ساتھ ہونیوالے شدید عوامی ردعمل اور برتاؤ پر گریہ، آہ و بکا اور غیر مدلل چیخ و پکار کرنے کے بجائے ’’میڈیا کی آزادی اور باخبر ذرایع‘‘ جیسے استثنا اور استحقاق لیے ہوئے لفظوں کی آر میں ماضی بعید اور ماضی قریب مین معزز اشخاص اور اداروں کو رسوا اور بے عزت کرنیوالے رویے کا ادراک کریں اور احساس کریں کہ کس طرح ان کی غفلت اور غیر ذمے دارانہ تجزیاتی انداز نے صرف الزامات اور اپنی ذاتی پسند و ناپسند کے معیار پر قائم متعصبانہ Perception کے ہتھیار سے کتنے لوگوں کے عزت و وقار کو مجروح کیا۔ کتنے لوگوں کو ان کے جرم ثابت کیے بغیر قوم کے سامنے مجرم بناکر پیش کردیا۔

اسی کا شہر، وہی مدعی وہی منصف

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

دولت، شہرت اور فرمانبردار افرادی قوت کا ہمیشہ سے ہی یہ خاصا رہا ہے کہ یہ جب کسی ادارے کو حاصل ہو جائے تو وہ اس زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ ’’وہ اب سب کچھ کرسکتا ہے‘‘ مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا چونکہ ایک انسان دولت، شہرت اور افرادی قوت کی بنیاد پر ’’بہت کچھ کرسکتا ہے مگر سب کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا رونا رونے کے بجائے اپنی غلطیوں کا صدق دل اور کھلے ذہن سے تجزیہ کیجیے پچھلے دس بارہ سالوں میں اپنائی جانیوالی روش کا جائزہ لیجیے۔سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیجیے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ادارے کا رویہ انتہائی متعصبانہ نہیں رہا؟ حزب اختلاف کا دور ہو یا حزب اقتدار کا دور ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی کردار کشی کرنے اسے رسوا کرنے اور اسے بدنام کرنے کی باقاعدہ عملی اور ابلاغی جدوجہد نہیں کی گئی؟

کیا محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم قائد اور ان کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری کو بغیر کسی ثبوت کے ایک بدعنوان ترین شخص بناکر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا بالواسطہ طور پر انھیں میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی سازش میں شامل کرنے کی کوششوں کو تقویت دینے اور اس الزام کو ہوا دے کر عوام میں انھیں غیر مقبول بنانے کی مبالغہ آرائی نہیں کی گئی؟کیا میمو گیٹ کے معاملے پرسابق صدر آصف علی زرداری کو ’’غدار‘‘ قرار دلوانے کی شعوری کوشش نہیں کی، کیا منصور اعجاز کو ہر قیمت پر پاکستان آکر گواہی اور ثبوت فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کی بھرپور کمپین نہیں چلائی گئی؟

19 جون 2012 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو بار بار یہ بات یاد نہیں دلوائی گئی کہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب شدہ وزیر اعظم نے آپ کی توہین کی ہے اور اب ہر صورت انھیں توہین عدالت کا مجرم قرار دے کر عدالت عالیہ کا وقار بلند کیا جائے کیا یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا؟ کیا اس ادارے نے کبھی اپنے اس انتہائی غیر ذمے دارانہ رویے اور برتاؤ کا تجزیہ کیا جس نے پیپلز پارٹی سے وابستہ کروڑوں افراد کے دلوں کو زخمی کردیا۔ کیا پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت جو ایک عظیم لیڈر کی شہادت کے نتیجے میں انھیں ملا تھا کیا۔کیا پچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایک بھی تجزیاتی پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس میں پیپلز پارٹی کے عوامی بھلائی سے متعلق کسی اقدام یا کسی مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کی خفیف سی کوشش کی ہو؟

ارسلان افتخار کے معاملے پر اپنا سارا وزن چیف جسٹس آف پاکستان کے پلڑے میں نہیں ڈالا؟

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ہونے کا اعزاز رکھنے کے باوجود ملکی تحفظ کے سب سے اعلیٰ ادارے کے خلاف ایسے بے بنیاد الزامات عائد کردیے جن الزامات کو عائد کرنے سے پہلے ہماری سالمیت کے دشمن بھی دس بار سوچتے ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ایسے الزام عائد کرکے دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کردی اور ہماری انتہائی مشکل ترین حالات سے نبرد آزما پاکستان کی بقا کی جنگ میں مصروف عظیم فوج کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔ عقل، دانش اور فہم مشکل حالات کو صبر حوصلے اور قربانی کے ساتھ نمٹنے کا سبق دیتی ہے۔

گواہ اور ثبوت کے بغیر الزام محض الزام رہتا ہے جو ہمیشہ الزام لگانے والے کے لیے رسوائی اور پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ معلومات سے متعلقہ ذمے دار ادارے ’’افواہ‘‘ کو کبھی بھی ’’خبر‘‘ کا درجہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ تدبر، فہم و فراست اور حقیقت کے متلاشی صاحب قلم لوگ ریٹنگ بڑھانے کے مقصد کے حصول کی خاطر اپنے قلم کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیتے وہ مبینہ سے ’’مصدقہ‘‘ کا کٹھن سفر طے کرکے ہی اپنے ملک و قوم کو حقیقت اور سچائی سے آشنا کرنے کا عظیم کام کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بقا اور ان کی فلاح اور بہبود کے لیے قائم کیے گئے آئینی اداروں کا نہ صرف تحفظ کرتے ہیں بلکہ ان کی آبیاری اور نشو و نما میں اپنی دانش اور شعور کو استعمال کرکے اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہیں۔

میری دانست میں مصلحت حالات کا تقاضا ہے کہ ماضی میں کی ہوئی مجرمانہ انداز فکر سے دست بردار ہوکر قوم سے اور ملک کے جغرافیے کی حفاظت پر معمور قوم کے ان عظیم سپوتوں سے اپنی غلطیوں پر غیر مشروط معافی مانگی جائے اور اپنی ذہنی اور ابلاغی صلاحیتوں کو پاکستانی فوج کے امیج اور حوصلوں کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان کے موقف کو سپورٹ کیا جائے اور قوم کو ان کے مسائل پر تنقید اور صرف تنقید کے بجائے ان کے مسائل کو حل کرنے کی تدابیر بتائی جائیں تاکہ قوم مایوسی کے اندھیروں سے نکل سکے۔

یاد کریں وہ وقت جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپ کے ادارے کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تو پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اور وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج پوری قوم آپ کے اس ادارے کا بائی کاٹ کرکے ایسے بند کرنے کی خواہاں ہے۔ اب حکومت وقت کے سایہ تلے کسی ریلیف کی کوشش کرنے کے بجائے قوم سے معافی مانگیں اور اپنی پرانی مغرورانہ، ’’اور ہم سے بہتر کوئی نہیں‘‘ کے خود ساختہ اور پرفریب تصور سے باہر نکلیں۔ اور عوام کو اپنا ہم نوا بنائیں چونکہ جن لوگوں کے ساتھ قوم کھڑی ہو وہ ادارے نہ کبھی بند ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی ختم ہوتے ہیں ’’امن کی آشا‘‘ جیسے پروگرام ان ملکوں کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے جو ہمیں مستقبل میں ’’پیاسا‘‘ اور ’’بھوکوں‘‘ مارنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں۔

تجویز:- اداروں میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل قوم کے لیے ہمیشہ سود مند رہتا ہے مشورہ ہے کہ ’’ایکسپریس ٹی وی چینل‘‘ پر موجود جاوید چوہدری ، معید پیرزادہ ، ایاز خان جیسے فہم و فراست کے مالک اینکر حضرات سے ’’ٹی وی ٹاک شوز‘‘ کو نشر کرنے کے سلیقے سیکھیے تاکہ مستقبل میں آپ کے ادارے کو ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میری اس رائے کو منفی نہیں مثبت انداز میں لیجیے گا۔

آئی ایچ سید  

0 comments: