جیو گروپ اور آئی ایس آئی… اصل لڑائی کیا ہے…؟........

06:27 Unknown 0 Comments


ملک بھر کے صحافیوں کو نظرانداز بلکہ ان کی توہین کرنے والا اور اپنے کارکنوں اور صحافیوں کا استیصال کرنے والا ادارہ اب حامد میر کے معاملے میں کیوں ڈٹ گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے افراد اور طاقتور گروپوں کے سامنے لیٹ جانے والے ادارے میں اچانک اس قدر جرأت کیسے آ گئی؟ یہیں سے یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کہیں یہ کوئی سازشی کھیل تو نہیں؟ اور اچانک صحافیوں کی ہمدردی میں اور فوج کے خلاف ڈٹ جانے کے پیچھے کوئی غیر ملکی ایجنڈا تو نہیں ہے؟ کیونکہ ماضی میں یہی جنگ اور جیوکا ادارہ تمام فوجی آمروں کا پشت پناہ رہا ہے، ان سے بھرپور تعاون کے ساتھ مراعات بھی لیتا رہا ہے اور اس طاقت کے بل پر وہ دوسرے حریف اداروں کو نیچا دکھاتا رہا ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں اس میڈیا گروپ کے بارے میں یہ بات عام تھی کہ اس میں بہت سے صحافی تو براہِ راست آئی ایس آئی کے بھیجے ہوئے بیٹھے ہیں، اور بہت سوں نے بعد میں اس طاقت ور خفیہ ادارے سے اپنے روابط مضبوط کرلیے ہیں۔ صحافتی حلقوں میں اس گروپ کے اخبارات اور چینلز کے بہت سے سربراہوں کے بارے میں یہ باتیں عام تھیں کہ انہیں محض اس وجہ سے یہ عہدے دیے گئے ہیں کہ ان کے خفیہ اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔

 خود یہ میڈیا گروپ فوج اور خصوصاً آئی ایس آئی بلکہ آئی ایس پی آر تک کے بارے میں اس قدر محتاط، حساس اور فکرمند تھا کہ نہ صرف ہمیشہ ان کی ستائش میں رطب اللسان رہا بلکہ ان کو ناراض کرنے کا تصور تک نہیں کرتا تھا۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جن دس صحافیوں نے فوجی حکومت کے خلاف محضرنامہ پر دستخط کیے اور اس کے نتیجے میں وہ بے روزگار ہوگئے ان میں سے کسی ایک کو بھی اس بڑے میڈیا گروپ نے اپنے اخبارات و جرائد میں جگہ نہیں دی۔ اسی گروپ سے وابستہ بعض صحافیوں کے بارے میں کسی بڑے سے بڑے ایڈیٹر اور چھوٹے سے چھوٹے ایڈیٹر کو یہ اختیار نہیں رہا کہ وہ ان کی خبروں میں کسی قسم کی قطع وبرید یا ایڈیٹنگ کرسکیں، حالانکہ انہیں تنخواہ ہی اس کام کی دی جاتی ہے۔

 اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ یہ صحافی بڑے مؤثر اور خفیہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔ ضیاء الحق دور میں جنگ لاہور کے ایک رپورٹر نے ریفرنڈم کی خبر دی۔ یہ خبر شائع ہوئی تو فوجی حکومت غصے میں آگئی، چنانچہ اس رپورٹر کو پکڑ کر اُس وقت کے وزیر اطلاعات کے سامنے پیش کردیا گیا۔ اس دباؤ کے بعد رپورٹر کو تو نوکری سے نکال دیا گیا مگر اخبار ریفرنڈم کا اعلان ہونے پر ’جنگ کا اعزاز‘ کی سرخی کے تحت یہ خبر بار بار شائع کرتا رہا۔

 جب 1990ء میں بے نظیر بھٹو نے کہا کہ انہیں انتخابی شکست آئی جے آئی نے نہیں بلکہ آئی ایس آئی نے دی ہے تو یہ میڈیا گروپ بے نظیر کے ساتھ نہیں تھا۔  یہی مصلحت پسند اور کاروباری مزاج کا میڈیا گروپ اِس بار ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو چیلنج کررہا ہے، لیکن کیوں؟ کچھ لوگوں کا خدشہ ہے کہ یہ بھی آئی ایس آئی کے کسی ایجنڈے کا حصہ نہ ہو۔ کچھ کا خیال ہے کہ اِس بار یہ میڈیا گروپ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ محض بریکنگ نیوز کے شوق میں اس سے ایک غلطی ہوگئی جسے وہ مجبوراً تاحال چلائے جارہا ہے۔ اسی لیے وہ کبھی پسپائی اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے اور کبھی جارحیت کے موڈ میں نظر آتا ہے، کبھی قانونی جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی صفائیاں پیش کرنے لگتا ہے۔ لیکن واقفانِ حال کہتے ہیں کہ اس بار غلط اندازے کے باعث وہ اپنی کاروباری بقا (صحافتی بقا نہیں) کی جنگ لڑ رہا ہے اور بیک وقت سارے حربے استعمال کررہا ہے۔ اس میڈیا گروپ کے اندر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوریت کی بقا کے لیے ڈٹے ہیں کیونکہ فوجی اور سیاسی قیادت میں اختلافات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومت نے امریکہ کے ساتھ بعض ایسے وعدے کرلیے ہیں جو فوج کو پسند نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر طالبان سے مذاکرات شروع کردیے گئے۔ سعودی عرب اور شام کے ساتھ سیاسی حکومت کے معاملات پر بھی فوج کو تحفظات ہیں۔

جبکہ پرویزمشرف کے معاملے میں سیاسی حکومت کا رویہ انصاف پر مبنی نہیں بلکہ انتقام اور تذلیل و تحقیر کا ایجنڈا ہے، اس لیے عسکری قیادت سیاسی حکومت کو نیچا دکھانا چاہتی ہے اور ہم جمہوریت کی بقا کے لیے سیاسی قیادت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شاید اس غیر اعلانیہ باہمی تعاون کی وجہ سے ہی وزیر اعظم بنفس نفیس کراچی میں حامد میر کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اطلاعات پرویز ر شید نے وزیر اعظم کو اس پر آمادہ کیا۔ سیاسی و صحافتی حلقوں بلکہ خود مسلم لیگ(ن) کے اندر کے لوگوں کا خیال ہے کہ پرویز رشید اپنی وزارت صرف جیو اور جنگ گروپ کے سر پر چلا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف جنگ اور جیو پر بے پناہ انحصار کرتے ہیں بلکہ اس گروپ کے علاوہ کسی میڈیا گروپ کو گھاس نہیں ڈالتے۔ انہی وجوہات کی بنا پر وہ دوسرے میڈیا گروپوں اور صحافیوں کے درمیان کوئی پسندیدہ شخص نہیں ہیں۔

 ان کے جنگ گروپ پر انحصارکا یہ عالم ہے کہ 11ماہ کی وزارت کے دوران انہوں نے ابھی تک اپنے زیر انتظام اداروں پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، اے پی پی اور پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا انتظامی دورہ تک نہیں کیا۔ اگر کہیں ان اداروں میں گئے بھی ہیں تو بطور مہمان۔

 جنگ اور جیو کے اندر باخبر لوگ اس لڑائی کی ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیںکہ پاکستان میں بہت بڑی تیاریوں کے ساتھ، جدید سہولیات سے آراستہ اور بہت زیادہ مالی وسائل کے ساتھ ’’بول‘‘ نامی میڈیا گروپ آ رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس گروپ کے پیچھے آئی ایس آئی ہے۔ اس انجانے خوف نے جیو گروپ کے مالکان اور ان کے کم فہم مشیروں کو پریشان کر رکھا ہے، چنانچہ اسی خوف کی وجہ سے جیسے ہی انہیں حامد میر پر حملہ میں آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کا موقع ملا، انہوں نے اسے سنہری موقع جانا اور اس کے اثرات پر غور کیے بغیر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم شروع کردی۔

 در اصل جیو گروپ کو اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے میں شدید غلطی ہوئی۔ اس کے اندازے غلط نکلے۔ اس کا خیال تھا کہ حامد میر بڑا اینکر اور آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کا عَلم بر دار ہے۔ اس پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں مجبوراً ہمارے ساتھ ہوں گی، کیونکہ ہم ماضی میں انہیں بے پناہ کوریج دیتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی وہ ہماری محتاج ہیں۔ جیو چونکہ سب سے بڑا میڈیا گروپ ہے اس لیے تمام میڈیا گروپ اور چینلز اس کی تقلید شروع کردیں گے اور آزادیٔ صحافت کے نام پر ہمارے ساتھ ہوں گے۔ جیو گروپ کے ملازمین تو ہمارے ہی ہیں اور ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہیں، یہ باہر نکلیں گے تو باقی صحافی برادری بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ سیاسی جماعتوں نے حامد میر پر حملے کی تو مذمت کی لیکن آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی زیادہ شدت سے مخالفت و مزاحمت کی جو اب تک جاری ہے۔ خود جیو کے پروگراموں میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے جیو گروپ کی کھل کر مخالفت کی۔ میڈیا گروپ جو پہلے ہی جیو اور جنگ سے تنگ تھے کہ ایک تو کاروباری رقابت تھی، دوسرے جیو جنگ گروپ اور اس کے ملازمین معمول کی مجلسوں میں دوسرے میڈیا گروپوں کی توہین کرتے ہیں اور ان سے وابستہ صحافیوں کو کم تر اور حقیر جانتے ہیں۔ چنانچہ اتنے بڑے واقعہ اور جیو کے طوفان اٹھا دینے کے باوجود نہ تو معاصر میڈیا گروپ جیو کی حمایت میں نکلے اور نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی سول سوسائٹی… بلکہ سیاسی جماعتیں تو خم ٹھونک کر آئی ایس آئی کی حمایت میں نکل آئیں۔ جماعت اہل سنت اور جماعت الدعوۃ کے بعد مسلم لیگ (ق) نے آئی ایس آئی کی حمایت میں ملک بھر میں جلوس نکالے۔ معاصر میڈیا گروپوں نے جیو کے خلاف پروگرام شروع کرا دیے، جبکہ ملازم صحافی باہم تقسیم ہوگئے اور ان کی غالب اکثریت جنگ جیو کی مخالفت کررہی تھی۔ ابتدا میں مختلف شہروں کے پریس کلبوں نے حامد میر کی حمایت میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے، لیکن تین دن بعد صرف لاہور پریس کلب میں احتجاجی کیمپ قائم رہ سکا، جو سسکتا اور دم توڑتا ہوا اب تک جاری ہے۔

اس کی وجہ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری ہیں، وہ طویل عرصہ جنگ لاہور میں رہ چکے ہیں اور ان کے بڑے بھائی رئیس انصاری جیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ لاہور پریس کلب کے حالیہ انتخابات میں ارشد انصاری کو اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگ اور جیو کے دفاتر کے اندر داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ جنگ اور جیو دفاتر میں ان کا داخلہ میر شکیل الرحمن نے روکا تھا یا جنگ اور جیو کے اعلیٰ افسران نے؟ یہ عقدہ اب کھل جانا چاہیے۔ شاید اب ارشد انصاری اپنے بڑے بھائی کی وجہ سے یہ کڑوا گھونٹ پی رہے ہیں، لیکن کیفیت یہ ہے کہ 2000 ارکان پر مشتمل لاہور پریس کلب میں لگے ہوئے اس کیمپ میں احتجاج کے وقت 30 سے 35 افراد شامل ہوتے ہیں، یا مقامی این جی اوز کے چند افراد۔
اس مایوس کن صورت حال کا یہ حل نکالا گیا کہ 30اپریل کو لاہور میں آل پاکستان پریس کلب کنونشن بلالیا گیا۔

یہ اب تک ایک کاغذی تنظیم تھی۔ یکم مئی کو ویمن جرنلسٹ کنونشن بلایا گیا۔ جبکہ 2، 3 اور 4 مئی کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ برنا گروپ کے ایک دھڑے افضل بٹ گروپ اور آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن (صبیح الدین اشرف گروپ) کی مجالس عاملہ کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔ ان تینوں پروگراموں کے لیے سینکڑوں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو ملک بھر سے بلایا گیا۔ انہیں لاہور کے قیمتی ہوٹلوں میں تین سے پانچ دن تک ٹھیرایا گیا۔ خواہش یہ تھی کہ وہ جیو گروپ کی حمایت کا اعلان کریں۔ اس دوران لاہور پریس کلب میں یہ افواہ مسلسل گردش کرتی رہی کہ ان پروگراموں کے لیے جیو گروپ نے55 لاکھ روپے دیے ہیں جبکہ پرویز رشید نے سرکاری وسائل بڑے پیمانے سے فراہم کیے ہیں۔ لیکن اس تمام کوشش سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کیے جاسکے۔ آل پاکستان پریس کلب ایسوسی ایشن کا اجلاس لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی آڈیٹوریم میں شروع ہوا تو پہلے مقرر نے ہی یہ سوال اٹھا دیا کہ منتظمین وضاحت کریں کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے ہمیں اکٹھا کیا ہے؟ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ کیا ہمیں حامد میر کی حمایت کرنی ہے، یا ہم جیو گروپ کی حمایت کرنے کے لیے بلائے گئے ہیں؟ یا ہمیں آئی ایس آئی یا فوج کی مخالفت کے لیے بلایا گیا ہے؟ اس کے بعد بیشتر مقررین نے حامد میر کی حمایت کی مگر ساتھ جنگ جیو مالکان کی حمایت سے انکار کیا۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شہریار، کراچی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عامر لطیف اور کوئٹہ پریس کلب کے صدر کے علاوہ دیگر متعدد مندوبین نے واضح طور پر کہا کہ مالکانِ اخبارات و چینلز صحافیوں کا استیصال کرتے رہے ہیں، یہ اپنے مقاصد کے لیے صحافیوں کی حمایت چاہتے ہیں، اس لیے ہم مالکان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں، البتہ جنگ یا جیو کی بندش کی مخالفت کریں گے۔ ایک مقرر نے تو یہاں تک کہا کہ جنگ اور جیو کو کوئی بند نہیں کررہا… لیکن جیو ٹی وی اور جنگ اخبار نے یہ حصے حذف کردیے اور حامد میر کی حمایت اور جنگ، جیو کی بندش کے معاملے کو نشر اور شائع کیا، جس پر شرکا یہ کہتے پائے گئے کہ جنگ، جیو کی آزادیٔ صحافت تو یہیں پر ننگی ہوگئی

ہے۔ اس دوران وہاڑی پریس کلب کے صدر نوید اقبال قریشی نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی جاوید اقبال قریشی جو جنگ لاہور کے نمائندے تھے انہیں 1983ء میں ایک مقامی مافیا گروپ نے شدید فائرنگ کرکے زخمی کردیا، وہ تقریباً ایک سال تک بستر پر رہے لیکن جنگ مالکان اور انتظامیہ نے ان کی خبر تک نہ لی۔ جب انہوں نے اس کی شکایت کی تو انہیں ڈانٹ کر خاموش کرا دیا گیا۔

 اس دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے رانا عظیم گروپ نے بھی ایوانِ لاہور میں یوم آزادی صحافت کے نام پر ایک شو کر ڈالا جہاں جیو لاہور کے بیوروچیف نے تقریر کرتے ہوئے جوشِ جذبات میں ایک میڈیا گروپ کے سربراہ کے لیے حرامزادے تک کا لفظ استعمال کر ڈالا۔ جنگ اور جیو کے لوگ اس سے پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں جبکہ مالکان جنگ گروپ اپنے حریف اخبارات و چینلز کو بند کرانے کے تمام حربے استعمال میں لاتے رہے ہیں۔

0 comments: