مجھے آئی ایس آئی سے کیوں محبت ہے؟
آج کے پاکستان میں بس دو ہی ٹیمیں ہیں جن پر قومی وقار کا دارومدار ہے۔کرکٹ اور آئی ایس آئی۔ان دنوں کرکٹ کی باگ ڈور صحافی نجم سیٹھی کے ہاتھ میں ہے ۔حسنِ اتفاق سے وہ اور آئی ایس آئی ایک دوسرے سے بوجوہ بخوبی واقف ہیں۔ چونکہ کرکٹ ٹیم ان دنوں وقفے سے ہے لہٰذا قومی محبت کا دھارا پوری شدت کے ساتھ ٹیم آئی ایس آئی کی طرف ہے۔
حامد میر ایپی سوڈ کے بعد سے پنڈی اسلام آباد میں بالخصوص اور پنجاب کے دیگر شہروں میں بالعموم فرقہ، ذات، پیشے، چینل، رنگ و نسل و نظریے اور کالعدم و غیر کالعدم کے فرق سے بالا سب ہی مکاتیبِ فکر قومی تحفظ کی ضامن ایجنسی سے اظہارِ محبت میں
’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ کی تفسیرِ متبادلہ بن چکے ہیں۔
قومیں اپنے اکابرین، نظریے اور شناخت کے لیے تو سڑکوں پر والہانہ پن دکھاتی آئی ہیں ۔لیکن کسی انٹیلی جینس ادارے کے لیے جوشِ محبت کا یوں امڈنا ؟ اللہ اللہ ۔۔
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
ظاہر ہے ایسے روح پرور ماحول کا اثر ہر شخص پر ہوتا ہے سو مجھ پر بھی ہوا۔اور اپنی آنکھوں سے تعصب کے جالے اتار کر جو دیکھا تو کچھ عجب ہی دکھائی دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ آئی ایس آئی نے اب تک پوری توجہ اپنے بنیادی کام یعنی داخلی و خارجی سلامتی کی نگرانی پر مرکوز رکھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک سبھوں نے اسے سیاست میں گھسیٹنے کے لیے کیا کیا ڈورے نہ ڈالے۔لیکن آئی ایس آئی نے ہمیشہ یہ عذرِ آئینی پیش کرکے خود کو سیاسی کت خانے سے بچائے رکھا کہ،
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
آپ دیکھیں کہ پورے ضیا دور میں آئی ایس آئی نے اپنی توجہ اس ہدف پر رکھی کہ افغان دلدل میں پاکستان کو دھنسنے سے کیسے روکا جائے۔ بعد از ضیا ہر درد مند قومی ادارے کی طرح آئی ایس آئی کی بھی تمنا رہی کہ کسی طرح اقتدار اس کے صحیح حقداروں یعنی عوام کے منتخب اداروں کو مننتقل ہوجائے۔ مگر جمہوریت دو جماعتی نظام کی صورت میں بحال ہو تاکہ مسابقت کی آب و ہوا میں جمہوریت کا پودا پھلتا پھولتا پھیلتا رہے۔
قومیں اپنے اکابرین، نظریے اور شناخت کے لیے تو سڑکوں پر والہانہ پن دکھاتی آئی ہیں ۔لیکن کسی انٹیلی جینس ادارے کے لیے جوشِ محبت کا یوں امڈنا؟ اللہ اللہ ۔۔
چنانچہ آئی ایس آئی نے بےنظیر بھٹو کی ممکنہ یک جماعتی آمرانہ سوچ کو لگام دینے کے لیے کچھ قبلہ درست سیاست دانوں کی جانب سے اسلامی جہموری اتحاد ( آئی جے آئی ) کی تشکیل کا رسمی سا خیرمقدم تو ضرور کیا مگر یہ بھی واضح کردیا کہ فیصلہ شفاف انتخابی اکھاڑے میں ہی ہوگا اور جیتنے والے سے پورا تعاون کیا جائے گا۔لہٰذا وعدے کا پاس کرتے ہوئے مرکز میں جیتنے والی بےنظیر اور فاتح پنجاب نواز شریف سے پورا پورا تعاون کیا گیا اور اتنا کیا گیا کہ قوم پکار اٹھی،
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ( علیم )
اسی طرح سنہ اکیانوے کے انتخابات میں کسی ٹچے سے مہران بینک کے کسی ایویں ای سے یونس حبیب نے جانے کس کس کا الٹا سیدھا نام لے کر آئی ایس آئی کو زبردستی چند سو ملین روپے تھما دیے کہ بینک کا کمپیوٹر سسٹم کام نہیں کررہا لہٰذا آپ یہ رقم فلاں فلاں کسٹمر تک فوراً پہنچوا دیں۔ سادہ طبیعت آئی ایس آئی نے خدمتِ خلق کے جذبے میں یہ کام انجام دے دیا۔اگر پتہ ہوتا کہ یہ اسے پھنسوانے کا ڈرامہ ہے تو کاہے کو وہ یہ سب کرتی۔چنانچہ سب ہی صاف صاف نکل گئے اور ایک ڈائری میں ہاتھ سے لکھے چند ناموں کی بنیاد پر ایجنسی کے خلاف سلطانی گواہ بن گئے۔اور نام بھی کیا تھے۔شیخ صاحب ، سردار صاحب ، قاضی صاحب ، پیر صاحب ، میاں صاحب وغیرہ وغیرہ۔ بندہ پوچھے کہ شیخ صاحب سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ شیخ رشید ہے یا شیخ بدرو ۔پیر صاحب سے کیسے پتہ چلے گا کہ یہ پیر پگارا کا ہی ذکر ہے یا پیر کوڑل شاہ کا۔اور میاں صاحب سے کیسے ۔۔۔تو یہ ہے آج کل کے زمانے میں کسی سے نیکی کرنے کا صلہ۔
خدمتِ خلق
سنہ اکیانوے کے انتخابات میں کسی ٹچے سے مہران بینک کے کسی ایویں ای سے یونس حبیب نے جانے کس کس کا الٹا سیدھا نام لے کر آئی ایس آئی کو زبردستی چند سو ملین روپے تھما دیے کہ بینک کا کمپیوٹر سسٹم کام نہیں کررہا لہٰذا آپ یہ رقم فلاں فلاں کسٹمر تک فوراً پہنچوا دیں۔ سادہ طبیعت آئی ایس آئی نے خدمتِ خلق کے جذبے میں یہ کام انجام دے دیا۔
مجھے کوئی قائل کرے کہ آئی ایس آئی سویلین حکومتوں کی اگر ایسی ہی دشمن تھی تو صرف بی بی اور ان کے حواری ہی کیوں چیختے رہے۔ میاں صاحب نے تیسری دفعہ وزیرِ اعظم بننے کے باوجود کبھی کیوں نہیں کہا کہ ان کی دو برطرفیوں کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا؟ کامن سنس کی بات ہے کہ ایک ادارہ جو براہ راست وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ کے ماتحت ہو کیسے اپنے باس کے خلاف کسی سازش میں کسی اور کا ساتھ دے سکتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ دو ہزار دو کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ق جنرل مشرف کے کہنے پر آئی ایس آئی نے بنوائی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کی غیر معمولی کامیابی کے لیے بھی انتخابی میدان ہموار کیا۔فرض کریں ایسا ہی ہوا تو کیا ہوا؟ سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف نہ صرف چیف آف آرمی سٹاف تھے بلکہ بطور چیف ایگزیکٹیو وزیرِ اعظم کے اختیارات بھی استعمال کر رہے تھے۔چنانچہ اگر آئی ایس آئی ان کے پرائم منسٹرانہ احکامات بجا لائی تو کون سا قانون توڑ دیا؟
اور ہاں! غیر ملکی آلہ کاروں کے بقول آئی ایس آئی افغانستان میں بھی مسلسل مداخلت کرتی رہتی ہے۔بھائیو کچھ تو عقل کو ہاتھ مارو۔ ایک افغان پچھلے چالیس برس سے دوسرے افغان کے ساتھ جو جو کر رہا ہے وہاں آئی ایس آئی کو اضافی ہتھیلی لگانے کی بھلا کیا ضرورت؟
اچھا جی آئی ایس آئی نے جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی ۔ہاں کی تو پھر؟؟؟؟ یہ اعتراض وہ نام نہاد لبرل سیکولر فاشسٹ کرتے ہیں جو جہادِ فی سبیل للہ کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ اور یہ کوئی کیوں نہیں دیکھتا کہ آئی ایس آئی نے اقبال کا تصورِ شاہین جیسا سمجھا ویسا کس نے سمجھا؟
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
کل کو آپ اقبال پر بھی الزام لگا دیں کہ دراصل ان کے اشعار ہی پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ بھی طنز کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتی ہے تو پھر اسے یہ کیوں نہیں پتہ چلا کہ اسامہ ایبٹ آباد میں رہتا ہے اور پھر یہ کیوں نہیں پتہ چلا کہ امریکی اسے لینے آ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ؟ اس سے پہلے کہ میں اس گھٹیا اعتراض کا دندان شکن جواب دوں زرا ایک بات تو بتائیے۔
ظہیر تیرے جانثار۔بے شمار بے شمار ۔ظالمو جواب دو ، آئی ایس آئی کو حساب دو۔۔۔۔
اگر آپ مجھ سے کہیں کہ یار وسعت زرا چار پان تو لے آ ،چھالیہ کم اور چونا بہت تیز نہ ہو اور ہاں ایک پیکٹ بینسن سگریٹ کا بھی پکڑ لینا، لوکل نہیں فارن کیا سمجھے؟ ابے سن ، واپسی پر محمود مستری کے ہاں بھی جھانکتے ہوئے آنا ، دیکھ لینا اس نے انجن کھولا یا نہیں اور اگر وہ کوئی رنگ پسٹن منگوانا چاہے تو لکھوا کر پرچی جیب میں رکھ لینا اور یہ لے دو ہزار روپے وہ جو قاسم مٹھائی والا ہے نا! اسے خاموشی سے جا کر دے آئیو۔کہنا خادم بھائی نے بھجوائے ہیں ۔۔اور سن ، جاتے ہوئے عاصم کلینک میں بھی پوچھ لینا کہ ڈاکٹر صاحب شام کو کب بیٹھتے ہیں؟ اب بھاگ کے جا اور ایسے آ جیسے گیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
یہ بتائیے کہ ان میں سے مجھے کتنے کام پورے یاد رہیں گے، کتنے آدھے اور کتنے بالکل بھی نہیں۔اب آپ میری جگہ آئی ایس آئی کو رکھیں۔ایک اکیلی ایجنسی اور اس پر ہزار فرمائشیں۔۔۔آئندہ اگر کسی نے نام بھی لیا ایبٹ آباد کا تو ننانوے مار کے ایک گنوں گا۔اور جب تک ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ نہ آئے میں ایک لفظ سننے کا روادار نہیں۔ اور اگر اس رپورٹ میں کسی ایجنسی کا نام آ گیا تو جو چور کی سزا وہ میری ۔۔۔امید ہے اب آپ اس موضوع پر مزید بک بک نہیں فرمائیں گے۔
ہی ہی ہی ہی۔۔چلو آپ کہتے ہیں تو جبری گمشدگیوں کے ڈرامے پر بھی بات کرلیتے ہیں؟ مگر یہ بھی خوب ہے کہ اٹھائے پولیس اور نام آئی ایس آئی کا۔اٹھائے ایف سی اور ٹوپی آئی ایس آئی پر۔ بندہ بیرونِ ملک فرار ہو جائے اور تلاش پر لگا دیں آئی ایس آئی کو۔اغوا کرے را، موساد اور سی آئی اے اور گردن آئی ایس آئی کی پتلی۔۔۔۔
دفع کریں اس بحث کو ایک قصہ سنئے۔پچھلی رات ایک بھوت میرے گھر پے آیا۔ہم دونوں نے ساتھ ڈنر کیا، آئس کریم کھائی اور کنگنا رناوت کی فلم کوئین ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھی اور پھر وہ بھوت ہاتھ ملائے بغیر غائب ہوگیا؟ کریں گے آپ میری اس بات پر یقین ؟؟
قومی مفاد
بلاشبہہ آئی ایس آئی نے اب تک جو کیا قومی مفاد میں کیا اور سینہ ٹھونک کر کیا۔اور کسی بھی حساس قومی ادارے کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
لیکن اگر میں کہوں کہ رات آئی ایس آئی والے میرے گھر پے آئے اور خطرناک دھمکیاں دیں؟ آپ میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو آنکھیں بند کرکے اس کہانی پر فوراً یقین نہ کرلے۔ اے لال بھجکڑو! اگر واقعی ایسا ہوتا تو فاٹا کے حیات اللہ سے اسلام آباد کے سلیم شہزاد تک کسی صحافی کے قتل میں تو آئی ایس آئی کا نام ثابت ہوتا۔ظاہر ہے اب آپ لوگ کھسیانے پن میں اس قسم کے چچھورے اشعار کا سہارا لیں گے کہ
دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔
بلاشبہہ آئی ایس آئی نے اب تک جو کیا قومی مفاد میں کیا اور سینہ ٹھونک کر کیا۔اور کسی بھی حساس قومی ادارے کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔کیا فیض صاحب نے گواہی نہیں دی تھی کہ،
ہر داغ ہے اس دل میں بہ جز داغِ ندامت ۔
آئی ایس آئی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان ہے۔یہ مسلسل جاگتی ہے تاکہ اٹھارہ کروڑ شہری چین سے سو سکیں اور اٹھ سکیں۔لہٰذا اپنے نمک کی لاج رکھو اور حب الوطنی کے ثبوت میں ایسے دھاڑو کہ دشمنوں کے دل پارہ پارہ ہوجائیں۔۔۔ظہیر تیرے جانثار۔بے شمار بے شمار ۔ظالمو جواب دو ، آئی ایس آئی کو حساب دو۔۔۔۔
سب آنکھوں کا ہے یہ تارہ ، سیاست گروں کا راج دلارا ، ملک و قوم کا حتمی سہارا ، ہم نے تجھ پے یہ دل وارا ، آب پارہ آب پارہ ۔۔۔
وسعت اللہ خان
0 comments: