اب عمران خان کیا کریں گے؟.......


عمران خان کو اپنا آزادی مارچ اسلام آباد لائے ہوئے ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ شام کے وقت جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی ہوتی جارہی ہے، جبکہ تقاریر کا سخت ہوتا ہوا لہجہ بڑھتے ہوئے ہیجان کا پتہ دے رہا ہے۔ امیدیں اور وعدے اب بے چینی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اگر طاہر القادری کے حامی شارع دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے نا ہوتے، تو یہ سب ابھی اور بھی پھیکا ہوتا۔ لیکن عمران خان اب بھی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ لگتا یہ ہے کہ وہ اس لڑائی کو اب تلخ اختتام پر لے جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ رسک زیادہ ہے، اور آپشن کم رہ گئے ہیں۔ تو، اب عمران خان کیا کریں گے؟
کرکٹ کے برعکس سیاست میں کوئی بھی ہار جیت حتمی نہیں ہوتی۔ بلکہ طاقت کے اس کھیل میں ہار جیت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہوتی۔ ہر نئے دن جیت کی ایک نئی کشمکش۔ پر کرکٹ کو سیاست کے ساتھ ملا دینے کا خیال کوئی بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ عمران خان کی خود پسندی، ضد، اور حساب کتاب میں گڑبڑ ان کی غلطیاں ثابت ہوئی ہیں۔

وہ مزید چیزیں داؤ پر لگائے جارہے ہیں، جبکہ وہ انتخابی اصلاحات، اور انتخابات کی تحقیقات کی حکومتی پیشکش کو تسلیم کر کے جیت سکتے تھے۔ لیکن اپنے بے منطق کے اقدامات کی وجہ سے وہ اب اپنی اس پارٹی کے سیاسی مستقبل کو خطرے میں ڈال چکے ہیں، جس نے تعلیم یافتہ شہری مڈل کلاس کو سیاسی قوت میں بدل کر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔

یہ حقیقت ہے، کہ پاکستان تحریک انصاف کی کرپشن، موروثی سیاست، اور قانون کی خلاف ورزی کے خلاف چلائی جانے والی مہم نے عوام کی اکثریت کو متاثر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی، کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ٹی آئی پر اعتماد کیا، کیونکہ لوگوں کے نزدیک یہی جماعت باریاں لینے والی دوسری جماعتوں سے مختلف تھی۔ لیکن ایک جس چیز جس کی کمی ہمیشہ سے رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کا وژن، اس تبدیلی کا جس کا وہ بار بار وعدہ کرتے ہیں۔

ان کے تیز طرار بیانات اب صرف کھوکھلی باتوں میں بدل گئے ہیں۔ اہم سیاسی، سماجی، اور اقتصادی معاملات پر ان کے خیالات ان کے تبدیلی کے نظریے سے میل نہیں کھاتے۔ ان کا سیاسی پہلو کافی قدامت پسند ہے، اور وہ ملک کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ عسکریت پسندی اور طالبان پر ان کا مؤقف کافی پریشان کن رہا ہے۔ وہ پر کشش تو ہیں، لیکن ان میں وہ بات نہیں پائی جاتی، جو تبدیلی لانے والے لیڈروں میں ہوتی ہے۔ اور اس بات کا ثبوت ان کے حالیہ اقدامات ہیں۔
یہ یقینی ہے کہ پی ٹی آئی کے اس دھرنے نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ان کی گہری نیند سے جگا دیا ہے، اور یقین دہانی کرا دی ہے کہ عوام اب اس سسٹم سے تنگ آچکے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ایک مہینے سے جاری دھرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بے مثال باب ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کو بھی سسٹم بچانے کے لیے تمام سیاسی قوتوں سے مدد لینی پڑی ہے۔

لیکن حالیہ دھرنوں نے پی ٹی آئی کی سیاسی ناپختگی، اور موقع پرستی کو ظاہر کردیا ہے۔ پارٹی نے اپنی پوری اسٹریٹیجی صرف یا تو امید پر قائم رکھی، یا کسی تیسری قوت کی جانب سے شریف حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر۔ اور جس وقت آرمی چیف ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے منظرنامے میں داخل ہوئے، تو شاید جیت کی امید مضبوط ہوئی تھی، پر یہ امید زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی، کہ اسے لگا کہ وہ لاکھوں لوگوں کو متحرک کر کے اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پر ایسا نہیں ہوا۔ لاہور سے اسلام آباد تک کے مارچ، اور اس کے بعد کے دھرنے میں صرف کچھ ہزار لوگ ہی شامل ہوئے۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد میں ایک مہینے سے جاری دھرنے کا ملک کے باقی حصے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ عمران خان کی ملک بھر میں احتجاج کی اپیلوں کو کوئی خاص رسپانس نہیں ملا، صرف کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں کچھ پارٹی کارکنوں کے اجتماع ہوئے اور بس۔ سول نافرمانی، اور ٹیکسوں اور بلوں کی عدم ادائیگی بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ صرف پارٹی کے کچھ وفاداروں نے پشاور-اسلام آباد روڈ پر ٹول ٹیکس ادا کرنے سے انکار کیا، جبکہ کچھ اپر کلاس کے لوگوں کو ریسٹورینٹس کی انتظامیہ سے جی ایس ٹی کاٹنے پر جھگڑتے ہوئے دیکھا گیا۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں (خیبرپختونخواہ کے علاوہ) سے استعفے دینے کے فیصلے نے بھی نا صرف پارٹی کو اندرونی طور پر تقسیم کیا، بلکہ اس کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کیا۔ اس وقت پارٹی کے ساتھ کوئی بھی اتحادی موجود نہیں ہے۔ اگر پارٹی پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرتی، تو اس کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے بجائے عمران خان نے پارلیمنٹ کو چوروں کا اڈہ قرار دے ڈالا۔

لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ نے منتخب حکومت کا ساتھ دینے میں بلوغت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ اور تو اور پی ٹی آئی کے انتخابی اصلاحات کے مطالبے کی حمایت کر کے دوسری جماعتوں نے پی ٹی آئی کو بھی زندگی دینے کی کوشش کی۔ اور اگر اب تک پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے استعفے منظور نہیں ہوئے ہیں، تو یہ بھی اس لیے کہ اپوزیشن جماعتوں نے استعفے منظور کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب اس کو زیادہ عرصے تک ٹالا نہیں جا سکے گا۔ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی کرانا پی ٹی آئی کے لیے اور بھی مشکل ہوجائے گا۔

وزیر اعظم کے استعفے کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ پارٹی اس کے لیے کریڈٹ لے کر اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتی تھی، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکی۔ عمران خان موجودہ بساط لپیٹ کر جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں۔ وہ صرف انارکی کی حالت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور حکومت کے رٹ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مشکل بھی نہیں ہے۔

دار الحکومت کی ایک معطل شدہ انتظامیہ نے پہلے ہی مظاہرین کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ اور عمران خان کی جانب سے اپنے گرفتار کارکنوں کو چھڑا لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ اس بڑھتے ہوئی سیاسی ہلچل اور طاقت کے خلا میں کسی غیر آئینی مداخلت کو راستہ مل سکتا ہے، اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے، جو مکمل تباہی پر بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اس بحران کا حل جمہوریت میں موجود ہے، پھر اس میں بھلے ہی کتنی ہی خامیاں ہوں، پر اس بحران کا سسٹم سے باہر کوئی حل نہیں ہے۔

زاہد حسین

انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے.........


بارہ ستمبر کو جب ایشیائی تارکین وطن سے بھری ہو ئی کشتی بحیرہ ٴروم میں مالٹا کے قریب ڈوب گئی تو یہ بحیرہٴ روم میں ماضی میں پیش آنے والے واقعات سے ایک مختلف واقع تھا۔

اس بار اس کشتی کو مصر سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے اس وقت جان بوجھ کر تباہ کر دیا جب اس بڑی کشتی میں سوار مسافروں نے چھوٹی کشتیوں میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس واقع میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 300 تارکین ڈوب گئے۔

اس واقعے میں بچ جانے والے تین افراد نےمالٹا ٹائمز کو بتایا کہ’ یہ قتل عام تھا  اور جب سمگلروں نے مسافروں کی طرف سے چھوٹی کشتیوں میں سوار ہونے سے انکار کیا تو انھوں نے جان بوجھ کر دوسری کشتیوں کو اس بڑی کشتی میں مار مار کر اسے ڈبو دیا۔ جب تارکین وطن سے بھری ہوئی کشتی ڈوب رہی تھی اور لوگ مر رہے تھے تو انسانی سمگلر انھیں دیکھ کر ہنس رہے تھے اور اسی طرح ان کو ڈوبتا ہوا چھوڑ کر وہاں سے چلےگئے۔

فلسطین سے تعلق رکھنے والے تیئس سالہ محمد علی آمدلا نے مالٹا ٹائمزکو بتایا  ’سارے راستے ہمارے ساتھ کتوں جیسا سلوک کیاگیا، لیکن مصری سمگلر سب سے بدترین تھے۔ 
ایک اور بچ جانے والے شخص نے تارکین وطن کی عالمی تنظیم آئی آو ایم کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو انسانی سمگلر ڈوبتے ہوئے مسافروں کا تمسخر اڑا رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہماری کشتی کو ٹکر مارنے کے بعد وہ اس وقت تک وہاں موجود رہے جب تک کشتی پوری طرح ڈوب نہیں گئی۔‘

تارکین وطن کی اکثریت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے

اس سانحے میں بچ جانے والے تیرہ اشخاص نے اپنی شہادتوں میں بتایا ہے کہ بڑی کشتی میں سوار آدھے لوگ تو فوراً ڈوب گئے لیکن جو وقتی طور پر بچ گئے تو وہ دو تین دن تک کھلے سمندر میں تیرتے رہے او جب ان کے لیے امداد پہنچی تو اس وقت بہت سارے سمندر کی نذر ہو چکے تھے۔

بچ جانے لوگوں نے جو کہانیاں بیان کی ہیں وہ دل دہلانے والی ہیں۔ستائس سالہ مامون دوگموش بتاتے ہیں: ’میں نے ایک پورے شامی خاندان کو ڈوبتے دیکھا۔ پہلے باپ ڈوبا، پھر ماں ڈوبی اور پھر میں ان کے ایک سالہ بچے کا حفاظت کرنے والا رہ گیا۔ ایک سالہ بچے نے میری باہوں میں دم توڑ دیا۔‘

ماموں دوگموش نے بتایا کہ کس طرح انسانی سمگلر ڈوبنے والے کا تمسخر اڑا رہے تھے۔’جب ایک شخص زندگی بچانے کےلیے انسانی سمگلروں کی کشتی کے ساتھ لٹک گیا تو انھوں نے اس کے بازو کاٹ دیئے۔ 

بہتر زندگی کی امید میں یورپ کے طرف سفر کرنے والوں نے بتایا کہ ہر شخص نے انسانی سمگلروں کو چار ہزار ڈالر ادا کیے تھے اور وہ انھیں تاریک راستوں سے مصری علاقے دیمتا لائے جہاں سے انھیں ایک کشتی میں بٹھایاگیا۔
تارکین وطن کی تنظیم آئی آو ایم کے مطابق سنہ 2014 میں بحیرہٴ روم میں 2900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔

مالٹا نے یورپ کی طرف سفر کرنے والے تارکین وطن کی رہائش کے لیے کنٹینر ہاؤس تیار کیے ہیں

مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موس کیٹ نے بتایا کہ یورپ کی طرف بڑھنے والے تارکین وطن کی تمام ذمہ داری جنوبی یورپ کے دو ملکوں، مالٹا اور اٹلی پر آن پڑی ہے۔
مالٹا اور اٹلی کی کوششوں کے باوجود یورپ آنے کے خواہشمند تارکین وطن بحیرہٴ روم میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تارکین وطن کا مسئلہ ایک ایسا انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا۔’رات دیر سے جب مجھے سینکڑوں افراد کےسمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملتی ہے تو مجھے دھچکا لگتا ہے۔‘
مالٹا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبے بنائےگئے لیکن ان پر عمل نہیں ہو پاتا۔ لیبیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور اس کے ساحل سے یورپ کے ساحلوں کی طرف خطرناک سفر کرنے والوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم انٹیگرا فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والی ماریا پسانی کا کہنا ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جاری لڑائیوں نے لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے خطرناک راستوں کے ذریعے یورپ کی طرف سفر کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اپنے دروازے پر ہونے والی اموات سے پر بےحس ہوتا جا رہا ہے ۔

illegal immigration by sea

دشمن بچے --- شاہنواز فاروقی....

Killing of innocent children in Gaza by Israeli forces

بغاوت اور باغی --- شاہنواز فاروقی......


پاکستان :65برس میں سیلاب سے 40ارب ڈالرکانقصان........


پاکستان کی حکومتوں نے سیلاب سے بچائو کے منصوبوں کے نام پر 35 ارب کی بھاری رقم خرچ کرڈالی‘ قوم کو درجنوں سیلابوں کے باعث 40 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا لیکن حکومت نے بھارت سے داخل ہونے والے 5 دریائوں پر اپنا ٹیلی میٹری فیلڈ مانیٹرنگ سسٹم نصب کرنا گوارا نہ کیا۔ ماہرین آب کے مطابق پاکستانی حکمرانوں نے گزشتہ 65 برس میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے مطابق دریائوں پر پانی کے بہائو سے متعلق بھارت کے فراہم کردہ گمراہ کن اعداد و شمار پر انحصار کیا اور ناقابل تلافی نقصان اٹھایا۔ سیلاب سے بچائو کے منصوبوں پر 35 ارب روپے بھی خرچ کیے لیکن سیلاب کی وارننگ جاری کرنے والا اپنا نظام قائم نہیں کیا۔

 دریں اثنا ہر دو تین سال بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے سندھ واٹر ٹریٹی کونسل پاکستان کے چیئرمین سلمان خان نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں افسوس کا اظہار کیا ہے کہ انڈس واٹر کونسل سسٹم نصب کرنے میں نا کام رہی ہے۔ انہوں نے انڈس واٹر کمیشن‘ فیڈرل فیلڈ کمیشن اور آب پاشی کے صوبائی اداروں کو بھی سیلاب سے تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں دریائوں کے بہائو سے متعلق مکمل اعداد و شمار ویب سائٹ پر دستیاب ہیں لیکن ہمارے ادارے آج بھی بھارت سے گمرا کن اطلاعات کی دستیابی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماہرین پاکستانی دریائوں پر بھارتی علاقوں میں 173 چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کا رونا روتے رہتے ہیں‘ کس نے روکا ہے کہ ملکی ضروریات کے مطابق پاکستانی دریائوں پر بڑے پیمانے پر بند تعمیر نہ کریں۔ انہوں نے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھارت کی طرز پر ڈیم بنائے جاتے تو پاکستان میں سیلاب کی تباہی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا نہ لوڈشیڈنگ ہوتی اورنہ ہی ملک میں پانی کا بحران پیدا ہوتا۔

   

یورپ کے جنگی جنون کی کہانی: جنگِ عظیم اول و دوم


پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر لیگ آف نیشن یا جمیعت اقوام کی بنیاد رکھی گئی تاکہ بین الاقوامی تعاون کو ترقی دے کر جنگ کے امکانات کو ختم کرتے ہوئے امن کا راستہ صاف کیا جائے لیکن فاتح قوموں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کے باعث لیگ آف نیشن وہ مقاصد حاصل نہ کرسکی جن کیلئے اس کا وجود عمل میں آیا تھا۔آئندہ جنگ کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے لیگ آف نیشن نے تخفیف اسلحہ کے عمل پر زوردیا کیونکہ اسلحہ کی زیادتی جنگ کو یقینی بناتی ہے۔اسلئے تجویز کیا گیا کہ ہر ملک کے پاس اتنا اسلحہ ہونا چاہیے جو اسکی دفاعی ضروریات اوراندرونی امن کیلئے ضروری ہے ۔اس اصول کے تحت جنگ کے اختتام پر صلح کے جتنے معاہدے ہوئے ان میں شکست خوردہ قوموں کو محدود تعداد سے زائد فوج رکھنے کی اجازت نہ دی گئی جبکہ فاتح قوموں نے اس اصول کی پابندی کو قبول نہ کیا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد تقریباً ہر قوم نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا شروع کردیا ۔1913میں برطانیہ اسلحہ سازی پر تیس کروڑ پچھتر لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کرتا تھاجو 1930میں بڑھ کر پچاس کروڑ پینتیس لاکھ ہوگئے ۔اسطرح فرانس کا دفاعی مصرفہ جو 1913میں تیس کروڑ انچاس لاکھ تھا بڑھ کر 1930میں چالیس کروڑ پچپن لاکھ اور امریکہ کا خرچہ دو کروڑ پینتا لیس لاکھ سے بڑھ کر ستر کروڑ اٹھائیس لاکھ ڈالر سالانہ کردیاگیا۔ایک طرف فاتح قومیں اسلحہ کے ڈھیر لگا رہی تھیں تو دوسری طرف مفتوحہ قوموں کو امن کے نام پر غیر مسلح کیا جارہاتھا۔اس پر جرمنی نے خاصا احتجاج کیا اور چودہ اکتوبر 1933کو لیگ آف نیشن سے علحیدگی اختیار کرلی۔جاپان اس سے پہلے ہی چین کے صوبے منچوریا پر حملہ کرکے لیگ آف نیشن کی ممبر شپ سے استعفیٰ دے چکا تھا۔1935میں اٹلی نے اے بی سینا(حبشہ)پر حملہ کرکے لیگ آف نیشن سے بغاوت کردی۔ بڑی طاقتوں کے اندر وطن پرستی اور قوم پرستی کے جذبات نے انہیں ایک طرح کا نفسیاتی مریض بنادیا تھا۔ہٹلر پوری دنیا میں جرمن قوم کی سربلندی چاہتا تھا۔مسولینی پرانی رومتہ الکبری کی عظمت اور شان وشوکت واپس لانا چاہتا تھا اور جاپان کی خواہش تھی کہ ایشیا میں صرف زرد قوم کا جھنڈا لہرئے اور جاپان کے شہنشاہ کی عظمت کا سکہ ہر دل پر بیٹھ جائے ۔
اس کے مقابلے میں اتحادیوں کی خواہش تھی کہ دنیا میں انہیں جو چودھراہٹ حاصل ہوچکی ہے وہ باقی رہے۔جاپان کا نعرہ تھا کہ ایشیا کے لوگ یورپ اور ایشیا سے کم نہیںمگر انہوں نے کالے اور گورے کا امتیاز پیدا کرکے ایشیا کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔اسلئے جاپان کا ساتھ دیا جائے تاکہ ایشیا کو یورپ کی غلامی سے نجات دلائی جاسکے۔اٹلی اور جرمنی چونکہ یورپی تھے ان کا نعرہ مختلف تھا۔انہوں نے دوسری اقوام خصوصاً عربوں کو جنگ عظیم کے خاتمے پر اتحادیوں کی وعدہ خلافی اور عرب تقسیم یاد دلائی جبکہ ان سب کے مقابلے میں اتحادی بلاک اقوام عالم کو پہلی جنگ عظیم میں جرمنی ،اٹلی اور جاپان کے مظالم یاد دلاتا رہا ۔

 دعووں اور الزام تراشیوں کا شور جاری رہا اور پھر جاپان نے 1931میںچین کے صوبے مانچوریا پر قبضہ کرلیا۔1935میں اٹلی نے حبشہ پر ہاتھ صاف کیا۔مانچوریا پر قبضے نے جاپان کا حوصلہ بڑھایااور اس نے پورے چین پر قبضہ کی نیت سے 1937میں چین پر حملہ کردیا۔جرمنی نے آسٹریا کی حدود کو تسلیم نہ کرتے ہوئے مارچ 1938میں اسے اپنے ماتحت کرلیا۔پھر 1939میں چیکوسلواکیہ پر قابض ہوا، اس کی دیکھا دیکھی اٹلی نے البانیہ کی پوری ریاست پر قبضہ کرلیا۔یکم ستمبر 1939کوجرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا ،یہ تھے وہ حالات جنہیں جنگ کی باقاعدہ پیش بندی کہنا چاہیے۔چنانچہ تین ستمبر 1939کو برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کردیا ایک طرف اتحادی تھی پانچ بڑے امریکہ ،برطانیہ، چین ، روس ،فرانس اور انکے ہم نوا چھوٹے چھوٹے ملک۔ 1940کے موسم بہار میں جرمنی نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا دھواں دھار حملہ شروع کیا جس نے لڑائی کا رنگ ہی بدل دیابلکہ دنیا کی تاریخ فوجی سرگرمیوں کی نئی مثال قائم کی۔ اپریل کے اوائل میں دنیا نے اچانک یہ خبر سنی کہ جرمنی کی برق رفتا ر فوجوں نے محض ہوائی جہازوں کی مدد سے ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کرلیا ہے اور اگلے ہی مہینے بلجیئم اور ہالینڈ بھی جرمنی کے زیر تسلط آگئے۔اب تک جرمنی تنہا لڑ رہا تھااب اٹلی نے بھی میدان میں کودنے کا فیصلہ کیااور دس جون 1940کو فرانس کے اعلان جنگ کردیا ۔اب فرانس دو اطراف سے گھر گیا تھا۔

وہ دوہری مار برداشت نہ کرسکا اور 22جون کو ہتھیار ڈال دیئے مگر اس کے افریقی مقبوضات میں جنرل ڈیگال نے پیرس کے اعتراف شکست کو قبول نہ کیا اور لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔برطانیہ نے فرانس میں جرمنی کی بنائی ہوئی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے جنرل ڈیگال کو فرانس کا وارث قرار دے دیا۔فرانس کے ہتھیار ڈالنے کے بعد اب برطانیہ میدان میں تنہا رہ گیا تھا۔ہٹلر نے ایک ماہ تک برطانیہ کو سوچنے کا موقع دیا کہ وہ بھی شکست تسلیم کرلے لیکن برطانیہ ڈٹا رہا۔بالآخر اگست 1940میں ہوائی حملے کے ذریعے جرمنی نے برطانیہ میں قیامت برپا کر دی جبکہ دوسرے محاذوں پر جرمنی کی فتوہات کا سلسلہ جاری تھااور بلغاریہ ،یوگوسلاویہ اور یونان بھی جرمنی کے زیرتسلط آگئے۔ 22جون 1941کو جرمنی نے ایک حیرت انگیز قدم اٹھایا یعنی روس پر حملہ کردیا ۔پوری دنیا جرمنی کی اس حماقت پر حیران تھی کیونکہ دوسال پہلے ہی جرمنی اور روس کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ ہوچکا تھا۔جرمن فوج حیرت انگیز طورپر آگے بڑھتی گئی اور دسمبر 1941میں ماسکو سے صرف 25میل کے فاصلے پر تھی لیکن ماسکو پر قبضہ نہ ہوسکا۔امریکہ ابھی تک براہ راست جنگ میں شامل نہ ہوا تھامگر اس کی ہمدردیاں کھلم کھلا برطانیہ اور روس کے ساتھ تھیںمگر 07دسمبر 1941کو جاپان نے اچانک بحرالکاہل میں امریکہ مقبوضہ جزائر پرل ہاربر پرہوائی حملہ کرکے تباہی مچادی۔امریکی بحری بیڑہ وہاں سے بھاگنے پر مجبورہوگیا۔اس واقعے نے اتحادیوں کی صف میں امریکہ اور محوریوں کی صف میں جاپان کا اضافہ کردیااور اس طرح یہ جنگ ایک عالمگیر جنگ بن گئی جس میں مشرق بھی تھا اور مغرب بھی،نئی دنیا بھی تھی اور پرانی دنیا بھی۔ پرل ہاربر پر قبضہ کے بعدجاپان بھی آندھی اور طوفان کی طرح آگے بڑھا،تین ماہ سے بھی کم عرصہ میں اس کی فوجیں بحرچین عبورکرکے ملایا تک قابض ہوگئیں۔25دسمبر 1941کو ہانگ کانگ کے برطانوی حصہ پر بھی جاپانی پرچم لہرا دیا گیا ۔فروری 1942میں سنگاپور بھی جاپان کے زیر تسلط آگیا۔ فلپائن کے جزائز جن کی حفاظت امریکہ کی ذمہ داری تھی مئی کے مہینے میں مکمل طور پر جاپان کا مقبوضہ بن گئے۔غرض چند ماہ کے عرصہ میں بحرالکاہل کے تما م جزائز کو فتح کرنے کے بعد جاپانی افواج سیام ،انڈو چائنا اور برما سے گزر کرہندوستان کی مشرقی سرحدوں تک پہنچ گئیں ۔ 1942میں محوریوںکی پیش قدمی میں کمی آگئی کیونکہ اتحادیوں کی طرف سے مدافعت میں اضافہ ہونے لگا تھا۔اٹلی کی فوجیں لیبیا سے نکل کر مصر میں سیدی بارانی کے مقام تک پہنچ گئیں ۔مگر اس سے آگے نہ بڑھ سکیں۔

جولائی 1942میں جرمنی کے جنرل رومیل نے مصر پر قبضہ کیلئے بھر پور کوشش کی اور اس قدر تیزی سے آگے بڑھا کہ سکندریہ صرف ستر میل کی مسافت پر رہ گیا لیکن اتحادیوں نے زبردست مقابلہ کیا اور نومبر 1942میں العالمین کے مقام پر جنرل منٹگمری کی قیادت میں اٹلی اور جرمنی کی زبردست فوجی طاقت کو پہلی بار اتنی بڑی شکست دی کہ اس کے بعد محوری کے پائوں شمالی افریقہ سے اکھڑتے چلے گئے ۔ اس کے فوراً بعد ہی امریکہ اور برطانیہ کی افواج نے امریکی جنرل آئزن ہاور کی کمانڈ میں مراکش اور الجزائز پر حملہ کرکے وہاں پڑائو ڈال دیا،اب محوری فوجیں شمالی افریقہ میں دو اطراف سے گھر گئیںاور آخر مئی 1943میں ہتھیار ڈال دیئے البتہ جنرل رومیل بچ کر نکل گیا۔ ایران نے اگرچہ محوریوں کی حمایت نہ کی تھی مگر جب روس جنگ میں شامل ہوا تو اس کا نزلہ ایران پر گرا۔اتحادی فوجیں دارالحکومت میں داخل ہوئیں اور بوڑھے بادشاہ کو معزول کرکے اس کے نوجوان بیٹے کو تخت پر بٹھا دیا ۔اس طرح ہندوستان میں برما کی سرحدوں سے لیکر بحرروم میں افریقہ کے ساحلوں تک اتحادی فوجوں نے دفاع کے نام پر زبردست فوجی استحکام حاصل کرلیا۔ محوریوں میں اٹلی سب سے کمزور تھا اس لئے شمالی افریقہ کی فتح کے بعد اتحادی فوجوں نے جزیرہ سسلی پر قبضہ کرکے اٹلی پر یلغار کی،مسلسل شکست سے اٹلی کی فوجوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔چنانچہ مسولینی کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جولائی 1943میں اسے استعفیٰ دینا پڑا۔

 نئی حکومت نے اتحادیوں کو صلح کی پیشکش کی اور مسولینی کو ایک قابل نفرت لیڈر قرار دے کر جیل میں ڈال دیا۔اتحادیوں نے فاتحانہ شرائط پر اٹلی کی صلح کی درخواست تین ستمبر 1943کو قبول کرلی مگر جرمنی باز نہ آیا اور ایک دن چند جرمن ہوائی جہاز پیراشوٹ کی مدد سے مسولینی کو جیل سے اٹھا کر لے گئے اور شمالی اٹلی کے پہاڑوں میں آزاد فسطائی حکومت کے نام سے مسولینی نے نئی حکومت قائم کرکے اتحادیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔اٹلی چونکہ اتحادیوں سے صلح کرچکا تھا اسلئے اس نے مسولینی کا ساتھ دینے کی بجائے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیاتاکہ اتحادیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا سکیں۔جب تک جرمنی میں دم خم رہا ،شمالی اٹلی کی پہاڑیوں میں مسولینی کی آواز گونجتی رہی لیکن دو سال بعد اپریل 1945میں مسولینی اپنے مخالف ہموطنوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔جنہوں نے فوراً اُسے اور اُس کی بیوی کو قتل کردیا۔ شمالی افریقہ میں جرمن اور اطالوی افواج کی شکست کے بعد سے جنگ کا رخ بدلنا شروع ہوگیا تھا۔مراکش سے الجزائر تک امریکہ اور برطانیہ اپنی فوجیں اتار کراپنی پوزیشن مستحکم کرچکے تھے۔جرمنی ،سٹالن گراڈ کا محاصرہ نہ توڑ سکا۔مارچ 1943میں روس نے کیشیا کا علاقہ جرمنوں سے چھین لیا اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ فوجی مارے گئے یا گرفتار ہوئے ۔اسکے بعد روس نے ایک اور حملہ کیا اور اپریل 1944تک یوکرائن واپس لیکر رومانیہ میں داخل ہوگیا۔اسی سال جون سے اکتوبر تک کے معرکوں میں بلغاریہ اور فن لینڈ کو بھی جرمنوں سے خالی کرالیا گیااور اب روسی فوجیں شمال مغربی جرمنی تک پہنچ گئیں ۔دوسری طرف برطانوی افواج نے یونان پر حملہ کیا اور1944کے آخر تک جرمنی یونان سے بھی نکلنے پر مجبور ہوگیا۔یوگوسلاویہ میں مارشل ٹیٹو نے جرمنوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کررکھی تھی۔نئی صورتحال سے اس جنگ کوبھی نیا رخ مل گیا۔برطانیہ اور امریکہ نے اب جرمنی کے خلاف کوئی براہ راست محاذ نہ کھولا تھا۔مگر نشان منزل سامنے پاکر انکے حوصلے بلند ہوئے اور جون 1944 میں یہ محاذ بھی کھول دیا گیا۔

دوماہ کی زبردست قتل غارت گری کے بعد اگست 1944میں اتحادی فوجوں نے فرانس کے جنوبی ساحل پیرس کی طرف بڑھناشروع کیا۔اس خبر سے پیرس میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اورفرانس میں قائم جرمن حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی جسے دبایا نہ جاسکے اور فرانس جرمن غلبے سے آزاد ہوا۔اب اتحادی فوجوں نے برلن کی طرف پیشقدمی کی ،مشرق میں روسی فوجیں اور مغرب میں امریکی وبرطانوی فوجیں اور ان کے ساتھ جنرل ڈیگال کے مسلح دستے لیکن برلن میں سب سے پہلے داخلے کا اعزاز 24اپریل 1945کو روس کوحاصل ہوا۔2مئی 1945کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے اور پانچ روز بعد پوری جرمن فوج نے غیر مشروط اطاعت قبول کرلی۔مگر ہٹلر کسی کے ہاتھ نہ آیاکیونکہ تین دن پہلے 29اپریل کو وہ خود کشی کرچکاتھااور وصیت کے مطابق اس کی لاش کو بھی دفنا یا جاچکاتھا۔مسولینی پہلے مرچکا تھااس لئے اتحادیوں کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وہ ہٹلر اور مسولینی کو زندہ گرفتار کرکے فتح کی نشانی کے طورپر نمائش کرسکیں۔ اتنا کچھ ہوچکنے کے بعد بھی جاپان نے ہارنہ مانی۔اگرچہ ہٹلر اور مسولینی کی موت کے بعد جاپان تنہا تھامگر اس نے لڑائی جاری رکھی۔ وہ اسے مزید جاری بھی رکھتا مگر وہ اس قیامت کی تاب نہ لاسکا جو اس کیلئے امریکہ نے تیار کی تھی۔جرمنی کی شکست کے تین ماہ بعد امریکہ نے 6اگست 1945کو جاپانی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گراکر اسے کھنڈر بنا دیا۔تباہی کے اس نظارے نے اقوام عالم کو دہلا کر رکھ دیا ۔جاپان کی شکست یقینی سمجھتے ہوئے 8اگست کو روس نے جاپان کے خلاف اعلان جنگ کرکے منچوریا میں اپنی فوجیں اتاردیںجوجاپانیوں کے قبضے میں تھا اور پھر اگلے روز 9اگست 1945کو امریکہ نے دوسرا، ایٹم بم فوجی اہمیت کے حامل جاپانی شہر ناگا ساکی پر گرایا ۔جس کی شدت پہلے ایٹم بم سے بہت زیادہ تھی۔جاپان اتنی بڑی تباہی کی تاب نہ لاسکا او ر14اگست 1945کو شکست تسلیم کرتے ہوئے اتحادیوں کی اطاعت قبول کرلی۔ 2ستمبر کو ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط ہوئے اور اس طرح پورے چھ سال بعد یہ عالمگیر جنگ ختم ہوئی۔

موت اور تباہی کا یہ خوفناک کھیل دوہزار ایک سواکانوے روز تک جاری رہا ۔انسانی تاریخ کی اس سب سے زیادہ خوفناک اور تباہ کن جنگ میں انسانوں کی سب سے بڑی تعداد (سات کروڑ ) شریک ہوئی،جنگی مشینوں کی سب سے بڑی تعداد استعمال ہوئی۔انسانی جانوں کا نقصان بے اندازہ تھا۔کم ازکم ایک کروڑ ستر لاکھ انسان جنگی میدانوں میں مارے گئے ۔ایک کروڑ اسی لاکھ شہری کسی نہ کسی طرح ہلاک ہوئے ۔مقتولین کی تعداد پہلی جنگ عظیم سے تقریباً دوگنا تھی۔یہ تعداد اوربھی زیادہ ہوجاتی مگر دو زخمیوں میں سے ایک کو خو ن دے کر اور نئی دوائوں کے استعمال سے بچالیا گیا۔براہ راست فوجی مصارف کھربوں ڈالر پہنچ گئے۔املاک کا نقصان کم از کم اس سے دوگنا تھا۔پورے یورپ میں زمین اس قدر بنجرہوچکی تھی کہ گویا کسی درانتی سے صاف کردی گئی ہو۔دریائے سین (فرانس ) سے دریائے والگا(روس)تک اور دریائے اوڈر(جرمنی)سے دریائے ٹیمز(اٹلی)تک یورپ میں بربادی کا جال بچھ گیا۔بڑے بڑے شہر ملبے کے ڈھیر بن گئے ۔جو کارخانے کئی کئی مربع میل میں پھیلے ہوئے تھے مٹا دیئے گئے ۔نقل وحمل کے ذرائع درہم برہم ہوگئے۔چونکہ متحار ب فریقین نے پسپا ہوتے وقت ہر شے بے دردی سے تباہ کردینے کی کوشش کی۔اس لئے بڑے بڑے زیر کاشت رقبے اس قدر برباد ہوچکے کہ سال ہا سال ان سے پیداوار حاصل نہ کی جاسکی یا بہت کم پیداوار ہوئی۔مویشیوں کی تعداد گھٹ گئی،یورپی معاشرے کا پورا نظام برباد ہوگیا۔خوراک ،لباس اور مکانوں کی کمی کئی سالوں تک پوری نہ ہوسکی۔اکثر یورپی اور ایشیائی ممالک اقتصادی بدنظمی کے باعث شل ہوچکے تھے اور لوگوں کو افراط زر کا بھوت پریشان کررہاتھا۔وسیع آبادیاں حرکت میں تھیںجنگی قیدی واپس آرہے تھے،لاکھوں پناہ گزین حفاظت اور امن کی تلاش میں ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جارہے تھے یا انہیں نکالا جارہا تھا ۔گویا ایک ایسی عالمگیر تباہی چشم فلک نے دیکھی جس کا تصور کرکے بھی روح کانپ جاتی ہے

قوم کی تقدیر کی پرواز بھی کسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟.......



ار، کیا پاکستان میں نہیں رہتے؟
 
 
ایک صاحب نے اپنا سمارٹ فون ایک کلب کے بیرے کے سامنے لہراتے ہوئے پوچھا۔ جہاز سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا لوگوں نے، فیس بُک پر ویڈیو ڈال دی کِسی نے۔ ذرا شکلیں دیکھو ان بڑوں کی۔

کیا کر دیا سر، کس نے، کہاں؟
یہ دیکھو پہلے رمیش کمار کو گالیاں دے کر جہاز سے نکالا۔
کِس کو سر دلیپ کمار کو؟ وُہ کراچی آیا ہوا ہے؟ ابے نہیں نواز لیگ کا ایم این اے ہے، جہاز لیٹ کروا دیا تھا اُس نے۔ 68 سال سے یہی کر رہے ہیں۔ لوگوں نے دکھا دیا، اب نہیں چلے گا۔

ہاں سر 68 سال سے تو یہی ہو رہا ہے۔
ابے اِدھر آؤ یہ دیکھو۔ یہ چلتا ہوا کون آ رہا ہے۔
سر یہ تو اپنے رحمان ملک صاحب لگتے ہیں، بالکل وہی ہے۔ اب دیکھو کیسے بھاگا، لوگوں کا غصہ دیکھ کر۔ دیکھو ریوائنڈ کرتا ہوں پھِر دیکھو۔ پتہ ہے اندر سے یہ سالے بڑے ڈرپوک ہوتے ہیں۔ ویسے اپنے آپ کو بڑا وی آئی پی سمجھتے ہیں۔ اندر سے ٹھس۔
  
 سر یہ رحمان ملک صاحب چل کہاں رہے ہیں اندر سُرنگ میں؟
جہاز نہیں دیکھا کبھی کراچی ایئرپورٹ پر؟ وہاں جہاز سُرنگ کے ساتھ آ کر لگتا ہے۔ پھِر مسافر سُرنگ میں سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ آیا رحمان ملک پورے دو گھنٹے لیٹ، لوگ بھِنّا گئے۔ ایسی گالیاں دیں کہ بھاگ گیا۔ 68 سال سے لوٹ کر کھا رہے ہیں اِس ملک کو۔ لوگوں نے ایک منٹ میں اوقات یاد کرا دی۔
تو سر رحمان ملک کے پاس اپنا جہاز بھی نہیں ہے؟ ابے تم جیسے لوگوں کی وجہ سے 68 سال سے یہ ملک نہیں سُدھر سکا۔ جہاز میں ہم لوگ بیٹھتے ہیں ٹکٹ خرید کر۔ یہ ٹھہرے مُفتے۔ اور پھر جہاز بھی اِن کی مرضی کے بغیر نہیں اُڑ سکتا۔
یہ تو واقعی زیادتی ہے سر۔
 
ایسی ویسی؟ لیکن لوگوں نے بھی کمال کر دیا۔ ویڈیو بنا کر فیس بُک پر ڈال دی۔ اب تک دو لاکھ سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیرت ہے تم پہلے آدمی ہو جس نے اب تک نہیں دیکھی۔ اِس ملک میں رہتے بھی ہو یا نہیں؟
سر اِدھر ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں تو اِتنا پتہ ہے کہ کلب کو 11 بجے بند کرنا ہے۔ صبح چھ بجے کھولنا ہے۔ بیچ میں بندہ سوئے یا جہازوں کے آنے جانے کی خبر رکھے۔ ویسے یہ فیس بک کیا ہوتی ہے؟

ابے یار تم جیسے لوگوں کی وجہ سے یہ ملک 68 سال سے۔۔۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے ساتھ پاکستان کے کھاتے پیتے لوگوں کی گہری جذباتی وابستگی ہے۔ کبھی 40 سال پرانے اشتہاروں میں پی آئی اے کے میزبانوں کی ڈیزائنر وردیاں دیکھ کر ہاتھ ملتے ہیں تو کبھی اُن دنوں کا ذکر کر کے آبدیدہ ہوتے ہیں جب پی آئی اے کی بزنس کلاس میں شیمپین مِلا کرتی تھی۔
کبھی اِس ایئر لائن کو ایک فوجی ایئرمارشل نور خان نے بنایا تھا اور سیاست دانوں نے اِس میں اپنے حمایتیوں کی بھرتیاں کر کے تباہ کر دیا۔ کبھی دوبئی یا جدہ جانے والے اُن مزدوروں کو کوستے ہیں جنھیں نہ سیٹ بیلٹ باندھنے کی تمیز ہے، جو نہ امیگریشن فارم بھر سکتے ہیں۔ اور تو اور ایسا لگتا ہے اُنھوں نے کبھی زندگی میں باتھ روم بھی نہیں دیکھا۔
کہاں گئے وُہ دن جب مسافر اور فضائی میزبان سب کے سب خوش مزاج اور خوشبودار ہوا کرتے تھے اور اب آ گئے یہ سیاست دان جو ایک قومی اثاثے کو گھر کی سواری بنا کر رکھتے ہیں۔
خوشحال ماضی کو یاد کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ، بے عزتی کروانا رحمان ملک کے قبیلے کے لوگوں کے پیشے کا لازمی حصہ ہے (اگر رحمان ملک کا مذاق اُڑانے سے پاکستان کا کوئی مسئلہ حل ہو سکتا تو پاکستان اب تک سوئٹزرلینڈ بن چکا ہوتا)۔


لیکن سوچنا چاہیے کہ اِس قوم کی تقدیر کی فلائٹ جو 68 سال سے رن وے پر کھڑی ہے ، اُس کی وجہ واقعی ٹیکنیکل فالٹ ہے یا وُہ بھی کِسی وی آئی پی کی منتظر ہے؟

محمد حنیف